باب 111
آخری زمانے کی نشانی
متی 24:3-51 مرقس 13:3-37 لُوقا 21:7-38
مسیح کی موجودگی اور آخری زمانے کی نشانی
پیشگوئی کی تکمیل—پہلی صدی عیسوی اور ہمارے زمانے میں
یسوع کے پیروکاروں کو چوکس رہنا ہوگا
منگل 11 نیسان تھا اور دن ختم ہونے والا تھا۔ پچھلے چند دنوں میں یسوع مسیح بہت مصروف رہے تھے۔ وہ دن کے دوران ہیکل میں تعلیم دیتے تھے اور رات بیتعنیاہ میں گزارتے تھے۔ بہت سے لوگ ”صبح سویرے اُن کی باتیں سننے کے لیے ہیکل میں اُن کے پاس“ آتے تھے۔ (لُوقا 21:37، 38) لیکن کچھ ہی دنوں میں زمین پر یسوع کا وقت ختم ہونے والا تھا۔ اب وہ پطرس، اندریاس، یعقوب اور یوحنا رسول کے ساتھ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھے تھے۔
یہ چاروں رسول اکیلے میں یسوع کے پاس آئے تھے۔ اُن کے ذہن میں کچھ سوال تھے جو وہ یسوع سے پوچھنا چاہتے تھے۔ وہ فکرمند تھے کیونکہ یسوع مسیح نے تھوڑی ہی دیر پہلے اُن کو بتایا تھا کہ ہیکل کا ایک پتھر بھی دوسرے پتھر پر نہیں رہے گا۔ اِس کے علاوہ اُنہیں یاد تھا کہ کچھ عرصہ پہلے یسوع نے اُن سے کہا تھا کہ ”تیار رہیں کیونکہ اِنسان کا بیٹا ایسے وقت پر آئے گا جب آپ کو توقع بھی نہیں ہوگی۔“ (لُوقا 12:40) یسوع نے ایک ایسے دن کا بھی ذکر کِیا تھا جب ”اِنسان کا بیٹا ظاہر ہوگا۔“ (لُوقا 17:30) کیا اِن باتوں کا ہیکل کی تباہی سے تعلق تھا؟ رسولوں کے دل تجسّس سے بھرے تھے۔ اِس لیے اُنہوں نے یسوع سے پوچھا: ”ہمیں بتائیں کہ یہ باتیں کب ہوں گی اور آپ کی موجودگی اور دُنیا کے آخری زمانے کی نشانی کیا ہوگی؟“—متی 24:3۔
وہ شاید یہ جاننا چاہتے تھے کہ اُس ہیکل کو کب تباہ کِیا جائے گا جو اُنہیں وہاں سے دِکھائی دے رہی تھی۔ وہ اِنسان کے بیٹے کی موجودگی کے بارے میں بھی پوچھ رہے تھے۔ شاید اُنہیں یاد تھا کہ یسوع نے ”ایک نواب“ کے بارے میں مثال دی تھی جو ”بادشاہت حاصل کرنے کے لیے ایک دُوردراز ملک میں گیا۔“ (لُوقا 19:11، 12) اور وہ یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ ”دُنیا کے آخری زمانے“ میں کیا کچھ ہوگا۔
یسوع مسیح نے رسولوں کے سوالوں کا بڑی تفصیل سے جواب دیا۔ اُنہوں نے ایک نشانی دی جس سے شاگرد اندازہ لگا سکتے تھے کہ یروشلیم اور ہیکل کی تباہی نزدیک ہے۔ اِس نشانی سے مستقبل میں اُن کے پیروکاروں کو بھی پتہ چل سکتا تھا کہ یسوع مسیح بادشاہ کے طور پر موجود ہیں اور دُنیا کا خاتمہ نزدیک ہے۔
یسوع کی پیشگوئی رسولوں کی زندگی ہی میں پوری ہونے لگی۔ مسیحی اِس پیشگوئی کی وجہ سے چوکس تھے اِس لیے یسوع کی موت کے 37 سال بعد یعنی 70ء میں جب یروشلیم اور ہیکل کو تباہ کِیا گیا تو وہ اپنی جان بچا سکے۔ لیکن یسوع مسیح نے کچھ ایسی باتوں کی پیشگوئی کی تھی جو 70ء تک پوری نہیں ہوئی تھیں۔ اِن کا تعلق آخری زمانے اور اُن کی موجودگی سے تھا۔ اِس حوالے سے یسوع مسیح نے رسولوں کو مزید معلومات دیں تاکہ اُن کے پیروکار پہچان سکیں کہ یہ زمانہ شروع ہو گیا ہے۔
یسوع مسیح نے کہا کہ اُس وقت ”جگہ جگہ لڑائیاں“ ہوں گی، ”قومیں ایک دوسرے پر چڑھائی کریں گی اور سلطنتیں ایک دوسرے کے خلاف اُٹھیں گی۔“ (متی 24:6، 7) اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ”بڑے بڑے زلزلے آئیں گے، جگہ جگہ قحط پڑیں گے اور وبائیں پھیلیں گی۔“ (لُوقا 21:11) پھر اُنہوں نے اپنے شاگردوں کو آگاہ کِیا کہ ”لوگ آپ کو گِرفتار کریں گے [اور] آپ کو اذیت پہنچائیں گے۔“ (لُوقا 21:12) جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے۔ اور چونکہ بُرائی بہت بڑھ جائے گی اِس لیے زیادہتر لوگوں کی محبت ٹھنڈی پڑ جائے گی۔ اِس کے علاوہ ”بادشاہت کی خوشخبری کی مُنادی ساری دُنیا میں کی جائے گی تاکہ سب قوموں کو گواہی ملے۔ پھر خاتمہ آئے گا۔“—متی 24:14۔
حالانکہ یسوع مسیح کی پیشگوئی کی کچھ باتیں یروشلیم کی تباہی سے پہلے اور اِس کے دوران پوری ہوئیں لیکن اِن کو مستقبل میں زیادہ بڑے پیمانے پر پورا ہونا تھا۔ کیا آپ آج اِس پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں؟
اپنی موجودگی کی نشانی دیتے وقت یسوع نے کہا کہ ایک ”گھناؤنی چیز جو تباہی مچاتی ہے،“ دِکھائی دے گی۔ (متی 24:15) یہ گھناؤنی چیز 66ء میں اُس وقت دِکھائی دی جب رومی فوجوں نے ’یروشلیم کو گھیر لیا‘ اور ہیکل کی دیواروں کو گِرانے کی کوشش کی۔ (لُوقا 21:20) یہ فوجیں اپنے جھنڈے لے کر شہر میں آئیں۔ چونکہ اِن جھنڈوں کا تعلق بُتپرستی سے تھا اِس لیے ایک ”گھناؤنی چیز“ ایسی جگہ کھڑی تھی جسے یہودی ”مُقدس جگہ“ خیال کرتے تھے۔
یسوع نے آگے بتایا: ”تب ایسی بڑی مصیبت آئے گی جو دُنیا کے شروع سے لے کر اب تک نہیں آئی اور نہ ہی دوبارہ کبھی آئے گی۔“ رومی فوجوں نے 70ء میں یروشلیم کو تباہ کِیا۔ یہودیوں کے ”مُقدس شہر“ اور ہیکل کی یہ تباہی ایک بہت بڑی مصیبت تھی جس میں ہزاروں یہودی مارے گئے۔ (متی 4:5؛ 24:21) یہودی قوم اور اُن کے شہر یروشلیم پر پہلے کبھی اِتنی بڑی مصیبت نہیں آئی تھی۔ ہیکل اُن کی عبادت کا مرکز تھی۔ لہٰذا اِس کے تباہ ہونے سے عبادت کا وہ نظام ختم ہو گیا جو صدیوں سے وہاں چل رہا تھا۔ یہ واقعی بہت ہولناک مصیبت تھی۔ لیکن ذرا سوچیں کہ جب یہ پیشگوئی بڑے پیمانے پر پوری ہوگی تو کتنا ہولناک وقت ہوگا!
آخری زمانے کے دوران پُراُمید رہنے کی وجوہات
یسوع مسیح نے رسولوں کو اپنی موجودگی اور دُنیا کے آخری زمانے کی نشانی کے بارے میں اَور کیا بتایا؟ اُنہوں نے رسولوں کو خبردار کِیا کہ وہ ’جھوٹے مسیحوں اور جھوٹے نبیوں‘ کے پیچھے نہ چل پڑیں جو ”چُنے ہوئے لوگوں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے۔“ (متی 24:24) لیکن چُنے ہوئے لوگ گمراہ نہیں ہوئے۔ وہ جانتے تھے کہ جب یسوع مسیح آسمان پر بادشاہ کے طور پر حکمرانی کرنے لگیں گے تو اِنسان اُنہیں نہیں دیکھ سکیں گے جبکہ وہ جھوٹے مسیحوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے تھے۔
یسوع نے دُنیا کے آخری زمانے میں آنے والی مصیبت کے بارے میں کہا: ”سورج تاریک ہو جائے گا، چاند کی روشنی ختم ہو جائے گی، ستارے آسمان سے گِر جائیں گے اور آسمان کا نظام ہلا دیا جائے گا۔“ (متی 24:29) رسول شاید یسوع کی اِس بات کا مطلب تو نہ سمجھے ہوں مگر وہ یہ ضرور سمجھ گئے ہوں گے کہ مستقبل میں دل دہلانے والے واقعات ہوں گے۔
اِن ہیبتناک واقعات کو دیکھ کر لوگوں کا ردِعمل کیا ہوگا؟ یسوع مسیح نے کہا: ”لوگ اُن باتوں کے بارے میں سوچ سوچ کر جو زمین پر آنے والی ہیں، اندیشے اور ڈر کے مارے چکرا جائیں گے کیونکہ آسمان کا نظام ہلا دیا جائے گا۔“ (لُوقا 21:26) بِلاشُبہ یہ اِنسانی تاریخ کا سب سے تاریک دَور ہوگا!
مگر یسوع مسیح نے رسولوں کو بتایا کہ جب ”اِنسان کا بیٹا آسمان کے بادلوں پر اِختیار اور بڑی شان کے ساتھ“ آئے گا تو اُن کے پیروکار اُن لوگوں میں شامل نہیں ہوں گے جو غم کے مارے چھاتی پیٹیں گے۔ (متی 24:30) وہ رسولوں کو بتا چُکے تھے کہ ”خدا چُنے ہوئے لوگوں“ کی مدد کرے گا۔ (متی 24:22) اِس لیے جب یہ ہیبتناک واقعات پیش آئیں گے تو یسوع کے وفادار خادم اُن کی اِس ہدایت پر عمل کریں گے: ”جیسے ہی یہ ساری باتیں ہونے لگیں تو سیدھے کھڑے ہو جائیں اور اپنے سر اُٹھائیں کیونکہ آپ کی نجات کا وقت نزدیک ہے۔“—لُوقا 21:28۔
لیکن یسوع کے جو پیروکار دُنیا کے آخری زمانے میں رہ رہے ہوں گے، اُنہیں کیسے پتہ چلے گا کہ دُنیا کا خاتمہ نزدیک ہے؟ اِس کو واضح کرنے کے لیے یسوع مسیح نے اِنجیر کے درخت کی مثال دی۔ اُنہوں نے کہا: ”جونہی اُس کی ڈالیاں نرم ہو جاتی ہیں اور اُن پر پتے نکل آتے ہیں، آپ کو پتہ چل جاتا ہے کہ گرمی نزدیک ہے۔ اِسی طرح جب آپ یہ ساری باتیں دیکھیں گے تو جان لیں کہ وہ نزدیک ہے یعنی دروازے پر کھڑا ہے۔ مَیں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ یہ پُشت ہرگز ختم نہیں ہوگی جب تک کہ یہ سب باتیں پوری نہ ہوں۔“—متی 24:32-34۔
لہٰذا جب یسوع مسیح کے پیروکار اُن کی موجودگی کی نشانی کو دیکھیں گے تو اُنہیں جان لینا چاہیے کہ خاتمہ نزدیک ہے۔
یسوع مسیح نے آخری زمانے میں رہنے والے اپنے پیروکاروں کو آگاہ کرنے کے لیے کہا: ”اُس دن یا گھنٹے کے بارے میں کسی کو نہیں پتہ، نہ آسمان کے فرشتوں کو، نہ بیٹے کو بلکہ صرف باپ کو۔ اِنسان کے بیٹے کی موجودگی نوح کے زمانے کی طرح ہوگی کیونکہ طوفان کے آنے سے پہلے بھی لوگ کھانے پینے اور شادیاں کرنے کروانے میں لگے تھے جب تک کہ نوح کشتی میں نہ گئے۔ اور لوگ اُس وقت تک لاپرواہ رہے جب تک طوفان نہیں آیا اور جب طوفان آیا تو وہ سب ڈوب کر مر گئے۔ اِنسان کے بیٹے کی موجودگی کے دوران بھی اِسی طرح ہوگا۔“ (متی 24:36-39) یسوع مسیح کی اِس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح نوح کے زمانے میں طوفان پوری زمین پر آیا اُسی طرح بڑی مصیبت بھی پوری زمین پر آئے گی۔
یہ سُن کر رسولوں کو یقیناً احساس ہوا ہوگا کہ چوکس رہنا کتنا ضروری ہے۔ یسوع مسیح نے آگے کہا: ”خبردار رہیں کہ آپ کے دل حد سے زیادہ کھانا کھانے اور بےتحاشا شراب پینے اور زندگی کی فکروں کی وجہ سے دب نہ جائیں اور وہ دن ایک پھندے کی طرح اچانک آپ کے سر پر آ پہنچے کیونکہ وہ اُن سب پر آئے گا جو زمین کی سطح پر رہتے ہیں۔ لہٰذا چوکس رہیں اور سارا وقت اِلتجا کرتے رہیں تاکہ آپ اُن سب باتوں سے بچ سکیں جو ضرور ہوں گی اور اِنسان کے بیٹے کے سامنے کھڑے ہو سکیں۔“—لُوقا 21:34-36۔
یسوع کی اِس بات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کی پیشگوئی صرف پہلی صدی عیسوی کے بارے میں نہیں تھی اور یہ صرف یہودی قوم اور یروشلیم پر لاگو نہیں ہوتی تھی۔ وہ تو ایسی باتوں کی پیشگوئی کر رہے تھے جو ’اُن سب پر آئیں گی جو زمین کی سطح پر رہتے ہیں۔‘
یسوع نے اپنے پیروکاروں کو چوکس، جاگتے اور تیار رہنے کی تاکید کی اور پھر اِس سلسلے میں یہ مثال دی: ”یاد رکھیں کہ اگر گھر کے مالک کو پتہ ہوتا کہ چور کس پہر آئے گا تو وہ جاگتا رہتا اور چور کو گھر میں گھسنے نہ دیتا۔ اِس لیے آپ بھی تیار رہیں کیونکہ اِنسان کا بیٹا ایسے وقت پر آئے گا جب آپ کو توقع بھی نہیں ہوگی۔“—متی 24:43، 44۔
پھر یسوع نے ایک ایسی مثال دی جس سے اُن کے پیروکار اُمید باندھ سکتے تھے۔ اِس مثال سے ظاہر ہوا کہ دُنیا کے آخری زمانے میں جب یسوع کی پیشگوئی پوری ہوگی تو ایک ایسا ”غلام“ موجود ہوگا جو چوکس اور محنتی ہوگا۔ یسوع نے کہا: ”وہ وفادار اور سمجھدار غلام اصل میں کون ہے جسے اُس کے مالک نے اپنے گھر کے غلاموں پر مقرر کِیا ہے تاکہ اُن کو صحیح وقت پر کھانا دے؟ وہ غلام کتنا خوش ہوگا جب اُس کا مالک آ کر دیکھے گا کہ وہ اپنی ذمےداری پوری کر رہا ہے! مَیں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ مالک اُس کو اپنی ساری چیزوں پر اِختیار دے گا۔“ لیکن اگر کبھی وہ غلام بُرا بن جائے اور دوسرے غلاموں کے ساتھ بُرا سلوک کرنے لگے تو اُس کا مالک ”اُس کو بڑی سخت سزا دے گا۔“—متی 24:45-51؛ اِس کے علاوہ لُوقا 12:45، 46 پر غور کریں۔
کیا یسوع مسیح یہ کہہ رہے تھے کہ اُن کے پیروکاروں کا ایک گروہ واقعی ایسا بُرا رویہ اپنائے گا؟ نہیں۔ اُنہوں نے اپنے پیروکاروں کو آگاہ کرنے کے لیے مثال میں ایک بُرے غلام کا ذکر کِیا تاکہ وہ چوکس رہیں اور اپنی ذمےداریاں نبھانے کے لیے تیار رہیں۔ یہ بات اُس مثال سے ظاہر ہو گئی جو اُنہوں نے آگے جا کر دی۔