وقت اور میعادیں یہوواہ کے اختیار میں ہیں
”اُن وقتوں اور میعادوں کا جاننا جنہیں باپ نے اپنے ہی اختیار میں رکھا ہے تمہارا کام نہیں۔“—اعمال ۱:۷۔
۱. یسوع نے اپنے رسولوں کے وقت سے متعلق سوالات کا جواب کیسے دیا؟
جو لوگ مسیحی دُنیا میں اور پوری زمین پر کئے جانے والے ”نفرتی کاموں کے سبب سے . . . آہیں مارتے اور روتے ہیں“ ان کیلئے اِس خواہش سے بڑھکر کونسی فطرتی بات ہو سکتی ہے کہ کب اس بدکار نظام کا خاتمہ ہوگا تاکہ خدا کی راست نئی زمین اسکی جگہ لے لے؟ (حزقیایل ۹:۴؛ ۲-پطرس ۳:۱۳) یسوع کے رسولوں نے اُسکی موت سے ذرا پہلے اور اُسکی قیامت کے بعد اُس سے وقت کے حوالے سے سوال پوچھے۔ (متی ۲۴:۳؛ اعمال ۱:۶) تاہم، یسوع نے جواب میں اُنہیں تاریخوں کا حساب لگانے کا کوئی طریقہ فراہم نہیں کِیا تھا۔ ایک دفعہ تو اُس نے اُنہیں ایک مرکب نشان دیا اور دوسری دفعہ اُس نے کہا کہ ’اُن وقتوں اور میعادوں کا جاننا جنہیں باپ نے اپنے ہی اختیار میں رکھا ہے تمہارا کام نہیں۔‘—اعمال ۱:۷۔
۲. یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ یسوع خاتمے کے دَور میں وقوعپذیر ہونے والے واقعات کی بابت اپنے باپ کے مقررہ وقت سے ہمیشہ واقف نہیں تھا؟
۲ یہوواہ کا اکلوتا بیٹا ہونے کے باوجود یسوع کو ہمیشہ واقعات کیلئے اپنے باپ کے مقررہ وقت سے واقفیت نہیں تھی۔ آخری ایّام کی بابت اپنی پیشینگوئی میں، یسوع نے فروتنی سے تسلیم کِیا: ”اس دن اور اُس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا۔ نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر صرف باپ۔“ (متی ۲۴:۳۶) یسوع اس سلسلے میں صبر کے ساتھ انتظار کرنے پر راضی تھا کہ اُسکا باپ اس بدکار نظامالعمل کے خلاف تباہکُن کارروائی کرنے کے صحیح وقت کا انکشاف اُس پر کرے۔a
۳. خدا کے مقصد سے متعلق سوالات کی بابت یسوع کے جوابات سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۳ یسوع نے جس طریقے سے خدا کے مقصد کی تکمیل کے سلسلے میں واقع ہونے والی حالتوں کے وقت سے متعلق سوالات کا جواب دیا اُس سے دو باتیں اخذ کی جا سکتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہوواہ کا ایک نظامالاوقات ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ صرف وہی اسکا تعیّن کرتا ہے اور اُسکے خادم اُسکے وقتوں یا میعادوں کی بابت بالکل درست پیشگی معلومات کی توقع نہیں کر سکتے۔
یہوواہ کے وقت اور میعادیں
۴. اعمال ۱:۷ میں جن یونانی الفاظ کا ترجمہ ”وقتوں“ اور ”میعادوں“ کِیا گیا ہے اُنکے معنی کیا ہیں؟
۴ ”وقتوں“ اور ”میعادوں“ سے کیا مُراد ہے؟ اعمال ۱:۷ میں درج یسوع کا بیان وقت کے دو پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”وقتوں“ کِیا گیا ہے اُسکا مطلب ”وقت بلحاظ مُدت“ ہے، ایک وقتی مدت (طویل یا قلیل)۔ جس لفظ کا ترجمہ ”میعادوں“ کِیا گیا ہے وہ ایک مُعیّن یا مقررہ وقت ہوتا ہے، بعض نمایاں خصوصیات کے حوالے سے ایک مخصوص عرصے یا دَور کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ان دو اصلی الفاظ کی بابت ڈبلیو. ای. وائن بیان کرتا ہے: ”اعمال ۱:۷ میں، وقتوں (خرونوس)، اوقات کی مدت، اور میعادوں (کائروس)، بعض واقعات کے باعث نمایاں زمانوں، دونوں کو ’باپ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے۔‘“
۵. یہوواہ نے بدعنوان دُنیا کو تباہ کرنے کے اپنے مقصد کی بابت نوح کو کب آگاہ کِیا اور نوح نے کونسا دہرا کام انجام دیا؟
۵ طوفان سے قبل، خدا نے انسانوں اور مادی جسم اختیار کرنے والے باغی فرشتوں کے سبب پیدا ہونے والی بدعنوان دُنیا کیلئے ۱۲۰ سال کا محدود وقت مقرر کِیا۔ (پیدایش ۶:۱-۳) اُس وقت خداپرست نوح ۴۸۰ برس کا تھا۔ (پیدایش ۷:۶) وہ بےاولاد تھا اور مزید ۲۰ برس تک ایسا ہی رہا۔ (پیدایش ۵:۳۲) کافی دیر بعد، نوح کے بیٹوں کے جوان ہو کر شادی کر لینے کے بھی بعد خدا نے زمین سے بدکرداری کا نامونشان مٹا دینے کے اپنے مقصد سے نوح کو آگاہ کِیا۔ (پیدایش ۶:۹-۱۳، ۱۸) نوح کو کشتی بنانے اور اپنے معاصرین کو منادی کرنے کی دوہری تفویض سونپنے کے باوجود یہوواہ نے اُس پر اپنا مُتعیّنہ وقت ظاہر نہیں کِیا تھا۔—پیدایش ۶:۱۴؛ ۲-پطرس ۲:۵۔
۶. (ا) نوح نے یہ کیسے ظاہر کِیا کہ اُس نے وقتی عناصر کو یہوواہ کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا ہے؟ (ب) ہم نوح کے نمونے کی پیروی کیسے کر سکتے ہیں؟
۶ کئی دہوں—شاید نصف صدی—تک ”نوح نے یوں ہی کِیا۔ جیسا خدا نے اُسے حکم دیا تھا۔“ کسی طےشُدہ تاریخ کے علم کے بغیر نوح نے ”ایمان ہی کے سبب“ سے ایسا کِیا۔ (پیدایش ۶:۲۲؛ عبرانیوں ۱۱:۷) یہوواہ نے طوفان شروع ہونے سے ایک ہفتہ پہلے تک واقعات کے عین وقت کی بابت اُسے کوئی خبر نہ دی۔ (پیدایش ۷:۱-۵) یہوواہ پر نوح کے مکمل بھروسے اور ایمان نے اُسے وقتی عناصر کو یہوواہ کے ہاتھ میں چھوڑ دینے کے قابل بنایا۔ لہٰذا نوح اُس وقت کسقدر شکرگزار ہوا ہوگا جب اُس نے طوفان کے دوران یہوواہ کے تحفظ کا تجربہ کِیا اور بعدازاں کشتی سے باہر پاک زمین پر قدم رکھا! مخلصی کی ایسی ہی اُمید کو مدِنظر رکھتے ہوئے، کیا ہمیں خدا پر ایسے ہی ایمان کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے؟
۷، ۸. (ا) قومیں اور عالمی طاقتیں کیسے وجود میں آئیں؟ (ب) یہوواہ نے کس لحاظ سے ’میعادیں اور انسان کی سکونت کی حدیں مقرر کیں‘؟
۷ طوفان کے بعد، نوح کی بیشتر اولاد نے یہوواہ کی سچی پرستش چھوڑ دی۔ ایک ہی جگہ پر رہنے کے مقصد کیساتھ اُنہوں نے ایک شہر اور جھوٹی پرستش کیلئے ایک بُرج تعمیر کرنا شروع کِیا۔ یہوواہ نے فیصلہ کِیا کہ اس میں مداخلت کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ اُس نے اُنکی زبان میں اختلاف ڈالکر اُنہیں ”[بابل] سے تمام رویِزمین میں پراگندہ کِیا۔“ (پیدایش ۱۱:۴، ۸، ۹) بعدازاں، لسانی گروہوں نے قوموں کی شکل اختیار کر لی جن میں سے بعض دیگر قوموں کو اپنے اندر ضم کر کے علاقائی طاقتیں حتیٰکہ عالمی طاقتیں بن گئیں۔—پیدایش ۱۰:۳۲۔
۸ اپنے مقصد کی تکمیل کے سلسلے میں، گاہےبگاہے خدا نے قومی سرحدوں اور وقت کے لحاظ سے اس بات کا تعیّن کِیا کہ کس وقت کونسی قوم مقامی یا عالمی طاقت کے طور پر برسرِاقتدار آئیگی۔ (پیدایش ۱۵:۱۳، ۱۴، ۱۸-۲۱؛ خروج ۲۳:۳۱؛ استثنا ۲:۱۷-۲۲؛ دانیایل ۸:۵-۷، ۲۰، ۲۱) پولس رسول نے یہوواہ کے وقتوں اور میعادوں کے اس پہلو کا حوالہ دیتے ہوئے اتھینے کے یونانی دانشوروں سے یہ کہا: ”جس خدا نے دُنیا اور اُسکی سب چیزوں کو پیدا کِیا . . . اُس نے ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم تمام رویِزمین پر رہنے کے لئے پیدا کی اور اُنکی میعادیں اور سکونت کی حدیں مقرر کیں۔“—اعمال ۱۷:۲۴، ۲۶۔
۹. یہوواہ نے بادشاہوں کے سلسلے میں کیسے ’وقتوں اور میعادوں کو تبدیل‘ کِیا ہے؟
۹ اسکا یہ مطلب نہیں کہ تمام سیاسی فتوحات اور قوموں میں تبدیلی کا ذمہدار یہوواہ ہے۔ تاہم، اپنے مقصد کو پورا کرنے کیلئے وہ حسبِمنشا مداخلت کر سکتا ہے۔ لہٰذا، بابلی عالمی طاقت کے زوال اور اسکی جگہ مادی فارس کے عروج کے چشمدید گواہ دانیایل نبی نے یہوواہ کی بابت کہا: ”وہی وقتوں اور زمانوں کو تبدیل کرتا ہے۔ وہی بادشاہوں کو معزول اور قائم کرتا ہے وہی حکیموں کو حکمت اور دانشمندوں کو دانش عنایت کرتا ہے۔“—دانیایل ۲:۲۱؛ یسعیاہ ۴۴:۲۴–۴۵:۷۔
”میعاد پوری ہونے کو تھی“
۱۰، ۱۱. (ا) یہوواہ نے ابرہام کی اولاد کو غلامی سے چھڑانے کے وقت کا تعیّن کتنی دیر پہلے کر دیا تھا؟ (ب) کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیلی اپنی رہائی کے صحیح وقت سے واقف نہیں تھے؟
۱۰ چار صدیاں پہلے ہی یہوواہ نے مصری عالمی طاقت کے بادشاہ کا گھمنڈ توڑنے اور ابرہام کی اولاد کو غلامی سے چھڑانے کے صحیح سال کا تعیّن کر دیا تھا۔ ابرہام پر اپنے مقصد کا انکشاف کرتے ہوئے خدا نے وعدہ کِیا: ”یقین جان کہ تیری نسل کے لوگ ایسے ملک میں جو اُن کا نہیں پردیسی ہوں گے اور وہاں کے لوگوں کی غلامی کریں گے اور وہ چار سو برس تک اُن کو دکھ دیں گے۔ لیکن مَیں اُس قوم کی عدالت کرونگا جسکی وہ غلامی کریں گے اور بعد میں وہ بڑی دولت لیکر وہاں سے نکل آئیں گے۔“ (پیدایش ۱۵:۱۳، ۱۴) صدرِعدالت کے سامنے اسرائیلی تاریخ کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے ستفنس نے اس ۴۰۰ سالہ دور کا حوالہ دیتے ہوئے بیان کِیا: ”جب اُس وعدہ کی میعاد پوری ہونے کو تھی جو خدا نے اؔبرہام سے فرمایا تھا تو مصرؔ میں وہ اُمت بڑھ گئی اور ان کا شمار زیادہ ہوتا گیا۔ اُس وقت تک کہ دوسرا بادشاہ مصرؔ پر حکمران ہوا جو یوؔسف کو نہ جانتا تھا۔“—اعمال ۷:۶، ۱۷، ۱۸۔
۱۱ اس نئے فرعون نے اسرائیلیوں کو غلام بنا لیا۔ اُس وقت تک موسیٰ نے پیدایش کی کتاب تو تحریر نہیں کی تھی مگر ممکن ہے کہ ابرہام سے یہوواہ کے وعدے زبانی یا تحریری شکل میں پُشتدرپُشت ورثے میں منتقل کئے گئے ہوں۔ تاہم، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اسرائیلی اُن معلومات سے ظلم سے چھٹکارے کی درست تاریخ کا حساب نہیں لگا سکتے تھے۔ خدا جانتا تھا کہ وہ اُنہیں کب آزاد کرانے والا ہے مگر ظاہری طور پر مصیبتزدہ اسرائیلیوں کو اس سے آگاہ نہیں کِیا گیا تھا۔ ہم پڑھتے ہیں: ”ایک مدت کے بعد یوں ہؤا کہ مصرؔ کا بادشاہ مرگیا اور بنیاسرائیل اپنی غلامی کے سبب سے آہ بھرنے لگے اور روئے اور اُنکا رونا جو انکی غلامی کے باعث تھا خدا تک پہنچا۔ اور خدا نے اُنکا کراہنا سنا اور خدا نے اپنے عہد کو جو اؔبرہام اور اؔضحاق اور یعقوؔب کے ساتھ کیا تھا یاد کیا۔ اور خدا نے بنیاسرائیل پر نظر کی اور اُنکے حال کو معلوم کِیا۔“—خروج ۲:۲۳-۲۵۔
۱۲. ستفنس نے کیسے ظاہر کِیا کہ موسیٰ نے یہوواہ کے وقت سے پہلے کارروائی کی تھی؟
۱۲ ستفنس کے خلاصے سے اسرائیل کی رہائی کے مقررہ وقت سے لاعلمی بھی نظر آتی ہے۔ موسیٰ کا ذکر کرتے ہوئے اُس نے کہا: ”جب وہ قریباً چالیس برس کا ہوا تو اُس کے جی میں آیا کہ مَیں اپنے بھائیوں بنیاسرائیل کا حال دیکھوں۔ چنانچہ اُن میں سے ایک کو ظلم اُٹھاتے دیکھ کر اُس کی حمایت کی اور مصری کو مار کر مظلوم کا بدلہ لیا۔ اُس نے تو خیال کِیا کہ میرے بھائی سمجھ لینگے کہ خدا میرے ہاتھوں اُنہیں چھٹکارا دیگا مگر وہ نہ سمجھے۔“ (اعمال ۷:۲۳-۲۵) یہاں موسیٰ نے خدا کے وقت سے ۴۰ سال قبل کارروائی کرنے کی کوشش کی۔ ستفنس نے بیان کِیا کہ موسیٰ کو ۴۰ برس اَور انتظار کرنا پڑا اس سے پہلے کہ خدا ’اُس کے ہاتھوں اسرائیل کو نجات بخشتا۔‘—اعمال ۷:۳۰-۳۶۔
۱۳. ہماری حالت مصر سے رہائی سے قبل اسرائیلیوں جیسی کیسے ہے؟
۱۳ اگرچہ ”اُس وعدہ کی میعاد پوری ہونے کو تھی“ اور خدا نے اس کے ٹھیک سال کا تعیّن کر رکھا تھا موسیٰ اور تمام اسرائیل کو ایمان رکھنا تھا۔ اُنہیں بدیہی طور پر پیشازوقت کوئی بھی حساب لگائے بغیر یہوواہ کے مُعیّن وقت کا انتظار کرنا تھا۔ ہمیں بھی یقین ہے کہ موجودہ بدکار نظاماُلعمل سے ہماری مخلصی قریب ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم ”اخیر زمانہ“ میں رہ رہے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵) پس کیا ہمیں ایمان ظاہر کرنے اور اُس کے روزِعظیم کیلئے یہوواہ کے مقررہ وقت کا انتظار کرنے پر آمادہ نہیں ہونا چاہئے؟ (۲-پطرس ۳:۱۱-۱۳) لہٰذا، ہم بھی موسیٰ اور اسرائیلیوں کی طرح یہوواہ کی حمدوستائش کے لئے رہائی کا شاندار گیت گا سکیں گے۔—خروج ۱۵:۱-۱۹۔
’جب وقت آ پہنچا‘
۱۴، ۱۵. ہم کیسے جانتے ہیں کہ خدا اپنے بیٹے کیلئے زمین پر آنے کا وقت مُعیّن کر چکا تھا اور نبی اور فرشتے بھی اس بات کے منتظر تھے؟
۱۴ یہوواہ اپنے اکلوتے بیٹے کے لئے مسیحا بن کر زمین پر آنے کا وقت مُعیّن کر چکا تھا۔ پولس نے لکھا: ”جب وقت پورا ہو گیا تو خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عورت سے پیدا ہؤا اور شریعت کے ماتحت پیدا ہؤا۔“ (گلتیوں ۴:۴) یہ نسل کو—’شیلوہ جس کی قومیں مطیع ہوں گی‘—بھیجنے کے خدائی وعدہ کی تکمیل میں تھا۔—پیدایش ۳:۱۵؛ ۴۹:۱۰۔
۱۵ خدا کے نبی—فرشتے بھی—اُس ”وقت“ کے منتظر رہے کہ جب مسیحا زمین پر ظاہر ہوگا تو گنہگار نوعِانسان کے لئے نجات کو ممکن بنائے گا۔ ”اِسی نجات کی بابت“ پطرس نے کہا کہ ”اُن نبیوں نے بڑی تلاش اور تحقیق کی جنہوں نے اُس فضل کے بارے میں جو تم پر ہونے کو تھا نبوت کی۔ اُنہوں نے اِس بات کی تحقیق کی کہ مسیح کا روح جو اُن میں تھا اور پیشتر سے مسیح کے دکھوں کی اور اُن کے بعد کے جلال کی گواہی دیتا تھا وہ کون سے اور کیسے وقت کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ . . . فرشتے بھی اِن باتوں پر غور سے نظر کرنے کے مشتاق ہیں۔“—۱-پطرس ۱:۱-۵، ۱۰-۱۲۔
۱۶، ۱۷. (ا) یہوواہ نے کس پیشینگوئی کے ذریعے پہلی صدی کے یہودیوں کی مسیحا کے منتظر رہنے میں مدد کی تھی؟ (ب) دانیایل کی پیشینگوئی نے مسیحا کی بابت یہودیوں کے انتظار پر کیا اثر ڈالا؟
۱۶ اپنے نبی دانیایل—ایک غیرمتزلزل ایمان کے مالک شخص—کی معرفت یہوواہ نے ”ستر ہفتوں“ کی بابت پیشینگوئی کی۔ اس پیشینگوئی نے پہلی صدی کے یہودیوں کو یہ سمجھنے کے قابل بنایا کہ موعودہ مسیحا کا ظہور قریب ہے۔ پیشینگوئی کا ایک حصہ بیان کرتا ہے: ”یرؔوشلیم کی بحالی اور تعمیر کا حکم صادر ہونے سے ممسوح فرمانروا تک سات ہفتے اور باسٹھ ہفتے ہونگے۔“ (دانیایل ۹:۲۴، ۲۵) یہودی، کیتھولک اور پروٹسٹنٹ علماء اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں متذکرہ ”ہفتوں“ سے مُراد سالوں کے ہفتے ہیں۔ دانیایل ۹:۲۵ کے ۶۹ ”ہفتوں“ (۴۸۳ سال) کا آغاز ۴۵۵ ق.س.ع. میں ہوا جب شاہِفارس ارتخششتا نے نحمیاہ کو ”یرؔوشلیم کی بحالی اور تعمیر“ کی اجازت دی۔ (نحمیاہ ۲:۱-۸) انکا اختتام ۴۸۳ سال بعد ۲۹ س.ع. میں ہوا جب یسوع کا بپتسمہ ہوا اور وہ روحالقدس سے مسح ہو کر مسیحا یا مسیح بنا۔—متی ۳:۱۳-۱۷۔
۱۷ اس بات کی بابت کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آیا پہلی صدی کے یہودی صحیح طور پر جانتے تھے کہ ۴۸۳ سال کا آغاز کب ہوا تھا۔ تاہم، جب یوحنا بپتسمہ دینے والے نے اپنی خدمتگزاری کا آغاز کِیا تو ”لوگ منتظر تھے اور سب اپنے اپنے دل میں یوؔحنا کی بابت سوچتے تھے کہ آیا وہ مسیح ہے یا نہیں۔“ (لوقا ۳:۱۵) بعض بائبل علماء اس انتظار کو دانیایل کی پیشینگوئی سے منسلک کرتے ہیں۔ اس آیت پر رائےزنی کرتے ہوئے، مےتھیو ہنری نے لکھا: ”اس آیت میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ کس طرح یوحنا کی خدمتگزاری اور بپتسمے نے لوگوں کو مسیحا اور اُس کے عین دروازے پر ہونے کی بابت سوچنے کا موقع فراہم کِیا۔ . . . دانیایل کے ستر ہفتے اب ختم ہونے کو تھے۔“ فرنچ مینوئل ببلیک از وِگورو، بیکوس اور براسک بیان کرتا ہے: ”لوگ جانتے تھے کہ دانیایل کے مُعیّن سالوں کے ستر ہفتے ختم ہونے کو تھے؛ کوئی بھی یوحنا بپتسمہ دینے والے کے اس اعلان کو سن کر حیران نہیں تھا کہ خدا کی بادشاہی قریب آ گئی ہے۔“ یہودی عالم ابا ہالیل سلور نے لکھا کہ اُس زمانے کے ”مشہور علمِتاریخ“ کے مطابق ”مسیحا تقریباً پہلی صدی س.ع. کے دوسرے چوتھائی حصے میں متوقع تھا۔“
واقعات—وقتی حسابات نہیں
۱۸. اگرچہ دانیایل کی پیشینگوئی نے مسیحا کے متوقع ظہور کے وقت کی شناخت کرنے میں یہودیوں کی مدد کی توبھی یسوع کی مسیحائیت کا زیادہ مدلل ثبوت کیا تھا؟
۱۸ اگرچہ علمِتاریخ نے بدیہی طور پر یہودی لوگوں کی مسیحا کے ظہور کے صحیح وقت کی بابت عمومی نظریہ رکھنے میں مدد کی توبھی بعد کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے اُن میں سے بیشتر کو یسوع کی مسیحائیت کا یقین دلانے میں کوئی مدد نہیں کی تھی۔ اپنی موت سے تقریباً ایک سال قبل یسوع نے اپنے شاگردوں سے پوچھا: ”لوگ مجھے کیا کہتے ہیں؟“ اُنہوں نے جواب دیا: ”یوحناؔ بپتسمہ دینے والا اور بعض ایلیاؔہ کہتے ہیں اور بعض یہ کہ قدیم نبیوں میں سے کوئی جی اُٹھا ہے۔“ (لوقا ۹:۱۸، ۱۹) ہمارے پاس اس بات کا کوئی ریکارڈ نہیں کہ یسوع نے خود کو مسیحا ثابت کرنے کیلئے کبھی علامتی ہفتوں کی پیشینگوئی کو استعمال کِیا ہو۔ تاہم ایک موقع پر اُس نے یہ کہا تھا: ”میرے پاس جو گواہی ہے وہ یوؔحنا کی گواہی سے بڑی ہے کیونکہ جو کام باپ نے مجھے پورے کرنے کو دئے یعنی یہی کام جو مَیں کرتا ہوں وہ میرے گواہ ہیں کہ باپ نے مجھے بھیجا ہے۔“ (یوحنا ۵:۳۶) کسی منکشف علمِتاریخ کی بجائے، یسوع کی منادی، اُسکے معجزات اور اُسکی موت سے متعلقہ واقعات (معجزانہ تاریکی، مقدِس کے پردے کا پھٹ جانا اور زلزلہ) نے تصدیق کی کہ وہ خدا کی طرف سے بھیجا ہوا مسیحا تھا۔—متی ۲۷:۴۵، ۵۱، ۵۴؛ یوحنا ۷:۳۱؛ اعمال ۲:۲۲۔
۱۹. (ا) مسیحی کیسے جانتے تھے کہ یروشلیم کی تباہی نزدیک ہے؟ (ب) یروشلیم سے بھاگ جانے والے ابتدائی مسیحیوں کو مزید ایمان کی ضرورت کیوں تھی؟
۱۹ اسی طرح، یسوع کی موت کے بعد، ابتدائی مسیحیوں کو آنے والے یہودی نظامالعمل کے خاتمے کا حساب لگانے کا کوئی طریقہ نہیں بتایا گیا تھا۔ سچ ہے کہ ستر ہفتوں کی بابت دانیایل کی پیشینگوئی نے اُس نظام کی تباہی کا ذکر کِیا تھا۔ (دانیایل ۹:۲۶ب، ۲۷ب) تاہم ایسا ”ستر ہفتوں“ (۴۵۵ ق.س.ع.–۳۶ س.ع.) کے اختتام کے بعد واقع ہونا تھا۔ باالفاظِدیگر، ۳۶ س.ع. میں پہلے غیریہودی کے یسوع کے پیروکار بننے کے بعد مسیحی دانیایل ۹ باب کے علمِتاریخ پر مبنی حسابکتاب کے دائرے سے باہر نکل گئے تھے۔ اُن کیلئے علمِتاریخ نے نہیں بلکہ واقعات نے اس بات کی نشاندہی کرنی تھی کہ یہودی نظام جلد ختم ہو جائیگا۔ جب رومی فوجیں ۶۶ س.ع. میں یروشلیم پر حملہ کرنے کے بعد واپس چلی گئیں تو یسوع مسیح کی طرف سے بیانکردہ واقعات عروج کو پہنچنے لگے۔ اس سے یروشلیم اور یہودیہ کے وفادار، چوکس مسیحیوں کو ’پہاڑوں پر بھاگ جانے‘ کا موقع مل گیا۔ (لوقا ۲۱:۲۰-۲۲) علمِتاریخ کی راہنمائی دستیاب نہ ہونے کے باعث وہ ابتدائی مسیحی یہ نہیں جانتے تھے کہ یروشلیم کب تباہ ہوگا۔ اپنے گھروں، کھیتوں اور کارخانوں کو چھوڑ کر چار سال تک یروشلیم سے باہر رہنے کیلئے اُنہیں کتنے عظیم ایمان کی ضرورت ہوگی جبتک کہ رومی فوجوں نے ۷۰ س.ع. میں واپس آکر یہودی نظام کا قلعقمع نہ کر دیا!—لوقا ۱۹:۴۱-۴۴۔
۲۰. (ا) ہم نوح، موسیٰ اور پہلی صدی کے یہودیہ کے مسیحیوں کی مثالوں سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟ (ب) ہم اگلے مضمون میں کیا بحث کرینگے؟
۲۰ نوح، موسیٰ اور پہلی صدی کے یہودیہ کے مسیحیوں کی طرح ہم بھی آجکل اعتماد کیساتھ وقتوں اور میعادوں کو یہوواہ کے ہاتھ میں چھوڑ سکتے ہیں۔ خاتمے کے دَور میں رہنے اور اپنی مخلصی کے قریب ہونے کی بابت ہمارے اعتماد کا انحصار محض علمِتاریخ پر مبنی حسابکتاب پر نہیں بلکہ بائبل پیشینگوئیوں کی تکمیل میں حقیقی واقعات پر ہے۔ علاوہازیں مسیح کی موجودگی کے دوران رہنے کے باوجود ہم ایمان پر قائم اور خبردار رہنے کی ضرورت سے آزاد نہیں ہیں۔ ہمیں صحائف میں بیانکردہ ہیجانخیز واقعات کی کمال آرزو میں زندگی بسر کرتے رہنا چاہئے۔ یہ ہمارے اگلے مضمون کا موضوع ہوگا۔
[فٹنوٹ]
a دیکھیں دی واچٹاور، اگست ۱، ۱۹۹۶، صفحات ۳۰-۳۱۔
اعادے کی خاطر
◻یہوواہ کے وقتوں اور میعادوں کے سلسلے میں یسوع نے اپنے رسولوں کو کیا بتایا تھا؟
◻نوح کو کتنی دیر پہلے پتہ چلا کہ طوفان شروع ہونے والا ہے؟
◻کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ موسیٰ اور اسرائیلی مصر سے اپنی رہائی کا وقت صحیح طور پر نہیں جانتے تھے؟
◻یہوواہ کے وقتوں اور میعادوں کے حوالے سے ہم بائبل مثالوں سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟
[صفحہ 9 پر تصویر]
نوح کے ایمان نے اُسے وقتی عناصر کو یہوواہ کے ہاتھوں میں چھوڑ دینے کے قابل بنایا