خدا اور قیصر
”پس جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو۔“—لوقا ۲۰:۲۵۔
۱. (ا) یہوؔواہ کا بلند مرتبہ کیا ہے؟ (ب) ہم یہوؔواہ کو کیا دینے کے پابند ہیں جو ہم قیصر کو کبھی نہیں دے سکتے؟
جب یسوؔع مسیح نے یہ حکم دیا تو بِلاشُبہ اُس کے ذہن میں یہ بات تھی کہ خدا اپنے خادموں سے جو تقاضے کرتا ہے وہ ہر اُس چیز سے مقدم ہیں جس کا قیصر، یا حکومت اُن سے تقاضا کر سکتی ہے۔ یسوؔع کسی بھی شخص کے مقابلے میں یہوؔواہ سے زبور نویس کی دُعا کی صداقت کو بہتر طور پر جانتا تھا: ”تیری سلطنت ابدی سلطنت ہے اور تیری حکومت [حاکمیت]a پُشتدرپُشت۔“ (زبور ۱۴۵:۱۳) جب ابلیس نے یسوؔع کو آبادشُدہ زمین کی تمام بادشاہتوں پر اختیار کی پیشکش کی تو یسوؔع نے جواب دیا: ”لکھا ہے کہ تُو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اُسی کی عبادت کر۔“ (لوقا ۴:۵-۸) ”قیصر“ کی پرستش کبھی نہیں کی جا سکتی، خواہ قیصر رومی شہنشاہ ہو، کوئی دوسرا حکمران یا خود حکومت ہو۔
۲. (ا) اس دُنیا کے سلسلے میں شیطان کا مرتبہ کیا ہے؟ (ب) کس کی اجازت سے شیطان یہ مرتبہ رکھتا ہے؟
۲ یسوؔع نے دُنیا کی سلطنتوں کے شیطان کی ملکیت ہونے سے انکار نہ کِیا۔ بعدازاں، اُس نے شیطان کو ”دُنیا کا سردار“ کہا تھا۔ (یوحنا ۱۲:۳۱؛ ۱۶:۱۱) پہلی صدی س.ع. کے اختتام کے قریب، یوؔحنا رسول نے لکھا: ”ہم جانتے ہیں کہ ہم خدا سے ہیں اور ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔“ (۱-یوحنا ۵:۱۹) اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہوؔواہ زمین پر اپنی حاکمیت سے دستبردار ہو گیا ہے۔ یاد رکھیں کہ یسوؔع کو سیاسی بادشاہتوں پر حکمرانی کرنے کی پیشکش کرتے وقت، شیطان نے کہا: ”یہ سارا اختیار . . . تجھے دے دونگا کیونکہ یہ میرے سُپرد ہے۔“ (لوقا ۴:۶) شیطان دُنیا کی سلطنتوں پر صرف خدا کی اجازت سے ہی اختیار چلاتا ہے۔
۳. (ا) یہوؔواہ کے حضور اقوام کی حکومتیں کیا حیثیت رکھتی ہیں؟ (ب) ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس دُنیا کی حکومتوں کی تابعداری کا مطلب خود کو اس جہان کے خدا، شیطان کے تابع کرنا نہیں ہے؟
۳ اسی طرح، حکومت اپنا اختیار صرف اس لئے چلاتی ہے کیونکہ خدا حاکمِاعلیٰ کے طور پر اُسے ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ (یوحنا ۱۹:۱۱) پس، ”موجودہ حکومتوں“ کی بابت کہا جا سکتا ہے کہ وہ ”خدا کی طرف سے ہیں۔“ یہوؔواہ کے اعلیٰوبالا اختیار کے مقابلے میں وہ محدود اختیار رکھتی ہیں۔ تاہم، وہ ”خدا کے خادم،“ ”خدا کے سرکاری ملازم“ ہیں، اس مفہوم میں کہ وہ ضروری خدمات انجام دیتے، نظموضبط کو برقرار رکھتے اور بدکاروں کو سزا دیتے ہیں۔ (رومیوں ۱۳:۱، ۴، ۶) لہٰذا مسیحیوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگرچہ شیطان اس دُنیا، یا نظام کا نادیدہ حاکم ہے، توبھی جب وہ حکومت کے لئے اپنی نسبتی تابعداری کو تسلیم کرتے ہیں تو وہ خود کو اُس کے تابع نہیں کر رہے ہوتے۔ وہ خدا کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ اس سال، ۱۹۹۶، میں سیاسی حکومت ابھی تک ”خدا کے انتظام“ کا حصہ ہے، ایک عارضی انتظام جسے خدا موجود رہنے کی اجازت دیتا ہے، اور یہوؔواہ کے زمینی خادموں کو اسے ایسا ہی خیال کرنا چاہئے۔—رومیوں ۱۳:۲۔
زمانۂقدیم کے یہوؔواہ کے خادم اور حکومت
۴. یہوؔواہ نے یوؔسف کو مصرؔ کی حکومت میں ممتاز بننے کی اجازت کیوں دی؟
۴ مسیحیت سے پیشتر کے زمانوں میں، یہوؔواہ نے اپنے بعض خادموں کو ریاستی حکومتوں میں نمایاں مرتبوں پر فائز ہونے کی اجازت دی۔ مثال کے طور پر، ۱۸ویں صدی ق.س.ع. میں، یوؔسف مصرؔ کا وزیرِاعلیٰ بنا، حاکمِوقت فرعوؔن سے صرف دوسرے درجے پر۔ (پیدایش ۴۱:۳۹-۴۳) بعد کے واقعات نے یہ ظاہر کر دیا کہ یہوؔواہ نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے اسے بڑی مہارت سے استعمال کِیا تاکہ یوؔسف ’اؔبرہام کی نسل‘ اُس کی اولاد، کو محفوظ کرنے میں ایک آلۂکار کے طور پر کام کر سکے۔ بیشک، اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ یوؔسف کو مصرؔ میں غلامی میں بیچ دیا گیا تھا، اور وہ ایسے دَور میں رہتا تھا جب خدا کے خادموں کے پاس نہ تو موسوی شریعت تھی نہ ہی ”مسیح کی شریعت“ تھی۔—پیدایش ۱۵:۵-۷؛ ۵۰:۱۹-۲۱؛ گلتیوں ۶:۲۔
۵. اسیر یہودیوں کو کیوں حکم دیا گیا تھا کہ بابلؔ کی ”خیر مناؤ“؟
۵ صدیوں بعد وفادار نبی یرؔمیاہ کو یہوؔواہ کی طرف سے اسیر یہودیوں کو یہ بتانے کے لئے الہام بخشا گیا کہ بابلؔ میں اسیری کے دوران حکمرانوں کے تابع رہیں اور اُس شہر کی سلامتی کے لئے دُعا بھی کریں۔ اُن کے نام اپنے خط میں، اُس نے لکھا: ”ربالافواج اسرائیل کا خدا اُن سب اسیروں سے . . . فرماتا ہے۔ اُس شہر کی خیر مناؤ جس میں مَیں نے تم کو اسیر کروا کر بھیجا ہے اور اُس کے لئے خداوند سے دُعا کرو کیونکہ اُس کی سلامتی میں تمہاری سلامتی ہوگی۔“ (یرمیاہ ۲۹:۴، ۷) ہر وقت، یہوؔواہ کے خادموں کے پاس، یہوؔواہ کی پرستش کرنے کے لئے آزادی حاصل کرنے کی غرض سے، اپنے لئے اور اُس قوم کے لئے جہاں وہ رہتے ہیں ”صلح کا طالب“ ہونے کی وجہ موجود ہے۔—۱-پطرس ۳:۱۱۔
۶. اعلیٰ حکومتی عہدے عطا کئے جانے کے باوجود، کن طریقوں سے دانیؔایل اور اُس کے تین ساتھیوں نے یہوؔواہ کی شریعت کے سلسلے میں مصالحت کرنے سے انکار کر دیا؟
۶ بابلی اسیری کے دوران، دانیؔایل اور دیگر تین وفادار یہودیوں نے جو بابلؔ کی غلامی میں قید تھے خود کو حکومت کی طرف سے تربیت کے لئے پیش کر دیا اور بابلؔ میں اعلیٰ عہدیدار بن گئے۔ (دانیایل ۱:۳-۷؛ ۲:۴۸، ۴۹) تاہم، اپنی تربیت کے دوران بھی، اُنہوں نے غذائی معاملات پر ٹھوس مؤقف اختیار کِیا جو اُن کے لئے اُس شریعت کو توڑنے کا باعث بن سکتے تھے جو اُن کے خدا، یہوؔواہ، نے موسیٰؔ کے ذریعے اُنہیں فراہم کی تھی۔ اِس وجہ سے اُنہیں برکت ملی۔ (دانیایل ۱:۸-۱۷) جب نبوکدؔنضر بادشاہ نے شاہی مورت کو نصب کِیا تو ظاہر ہے کہ دانیؔایل کے تین عبرانی ساتھیوں کو اپنے ساتھی حکومتی ناظموں کے ساتھ تقریب میں حاضر ہونے پر مجبور کِیا گیا۔ تاہم، اُنہوں نے حکومت کے بُت کی ”عبادت اور بندگی“ کرنے سے انکار کر دیا۔ ایک بار پھر، یہوؔواہ نے اُن کی راستی کا اجر دیا۔ (دانیایل ۳:۱-۶، ۱۳-۲۸) اسی طرح آجکل، یہوؔواہ کے گواہ بھی اُس قوم کے جھنڈے کی عزت کرتے ہیں جس میں وہ رہتے ہیں، لیکن وہ اس کی پرستش ہرگز نہیں کرینگے۔—خروج ۲۰:۴، ۵؛ ۱-یوحنا ۵:۲۱۔
۷. (ا) بابلؔ کے حکومتی نظام میں بلند مرتبہ رکھنے کے باوجود، دانیؔایل نے کونسا عمدہ مؤقف اختیار کِیا؟ (ب) مسیحی زمانے میں کونسی تبدیلیاں رونما ہوئیں؟
۷ بابلؔ کے آخری شاہی خاندان کے سقوط کے بعد، ماؔدی فاؔرسیوں کے نئے نظامِحکومت کے تحت جس نے بابلؔ میں اس کی جگہ لے لی دانیؔایل کو اعلیٰ حکومتی مرتبے سے نوازا گیا۔ (دانیایل ۵:۳۰، ۳۱؛ ۶:۱-۳) لیکن اُس نے اپنے بلند مرتبے کو اپنی راستی کے سلسلے میں مصالحت کرنے کا باعث بننے کی اجازت نہ دی۔ جب ایک ریاستی قانون نے یہ تقاضا کِیا کہ وہ یہوؔواہ کی بجائے داؔرا بادشاہ کی پرستش کرے تو اُس نے انکار کر دیا۔ اس وجہ سے اُسے شیروں کے آگے پھینک دیا گیا، لیکن یہوؔواہ نے اُسے بچا لیا۔ (دانیایل ۶:۴-۲۴) بِلاشُبہ، یہ مسیحیت سے پہلے کے زمانوں میں واقع ہوا۔ جب مسیحی کلیسیا قائم ہو گئی تو خدا کے خادم ”مسیح کی شریعت کے تابع“ ہو گئے۔ جس طریقے سے یہوؔواہ اب اپنے لوگوں سے پیش آ رہا تھا اُس کی بنیاد پر، یہودی نظام کے تحت روا رکھی جانے والی بہت سی باتوں کو فرق انداز سے دیکھا جانا تھا۔—۱-کرنتھیوں ۹:۲۱؛ متی ۵:۳۱، ۳۲؛ ۱۹:۳-۹۔
حکومت کی بابت یسوؔع کا رویہ
۸. کونسا واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ یسوؔع سیاست میں شمولیت سے گریز کرنے پر اٹل تھا؟
۸ جب یسوؔع مسیح زمین پر تھا تو اُس نے اپنے پیروکاروں کے لئے اعلیٰ معیار قائم کئے، اور اُس نے سیاسی یا فوجی معاملات میں ہر طرح کی شمولیت سے انکار کر دیا۔ یسوؔع کے معجزانہ طور پر کئی ہزار لوگوں کو چند روٹیوں اور دو چھوٹی مچھلیوں سے کھانا کھلانے کے بعد، یہودی لوگ اُسے پکڑنا اور اُسے ایک سیاسی بادشاہ بنانا چاہتے تھے۔ لیکن یسوؔع فوراً پہاڑوں کی طرف چلے جانے سے اُن سے بچ نکلا۔ (یوحنا ۶:۵-۱۵) اس واقعہ کے سلسلے میں، دی نیو انٹرنیشنل کمنٹری آن دی نیو ٹسٹامنٹ بیان کرتی ہے: ”اُس زمانے کے یہودیوں میں سخت قومپرستانہ خواہشات تھیں، اور بِلاشُبہ بہتیرے جنہوں نے معجزہ دیکھا یہ محسوس کِیا کہ الہٰی طور پر نامزدکردہ پیشوا یہی تھا جو رومیوں کے خلاف اُن کی پیشوائی کرنے کے لئے موزوں تھا۔ لہٰذا اُنہوں نے اُسے بادشاہ بنانے کا عزم کر لیا۔“ یہ مزید بیان کرتی ہے کہ یسوؔع نے سیاسی پیشوائی کے لئے اس پیشکش کو ”قطعی طور پر رد“ کر دیا۔ مسیح نے رومی سلطنت کے خلاف کسی بھی یہودی باغیانہ تحریک کی حمایت نہ کی۔ یقینی طور پر، اُس نے پیشینگوئی کی کہ اُس کی موت کے بعد واقع ہونے والی بغاوت کا نتیجہ کیا ہوگا—یرؔوشلیم کے باشندوں کے لئے بےشمار تکلیف اور اُس شہر کی بربادی۔—لوقا ۲۱:۲۰-۲۴۔
۹. (ا) دُنیا کے ساتھ اپنی بادشاہت کے تعلق کو یسوؔع نے کیسے بیان کِیا؟ (ب) دُنیا کی حکومتوں کے ساتھ اُن کے تعلقات کے سلسلے میں یسوؔع نے اپنے پیروکاروں کو کیا راہنمائی فراہم کی؟
۹ اپنی موت سے تھوڑا پہلے، یسوؔع نے یہوؔدیہ میں رومی شہنشاہ کے خاص نمائندے کو بتایا: ”میری بادشاہی اس دُنیا کی نہیں۔ اگر میری بادشاہی دُنیا کی ہوتی تو میرے خادم لڑتے تاکہ مَیں یہودیوں کے حوالہ نہ کِیا جاتا۔ مگر اب میری بادشاہی یہاں کی نہیں۔“ (یوحنا ۱۸:۳۶) جبتک اُس کی بادشاہت سیاسی حکومتوں کے راج کو ختم نہیں کر لیتی، مسیح کے شاگرد اُس کے نمونے کی پیروی کرتے ہیں۔ وہ ان قائمکردہ حکومتوں کی فرمانبرداری تو کرتے ہیں مگر اُن کے سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرتے۔ (دانیایل ۲:۴۴؛ متی ۴:۸-۱۰) یسوؔع نے یہ بیان کرتے ہوئے اپنے شاگردوں کے لئے رہبر خطوط فراہم کئے: ”جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو۔“ (متی ۲۲:۲۱) اس سے پہلے، اپنے پہاڑی وعظ میں، یسوؔع کہہ چکا تھا: ”جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے اُس کے ساتھ دو کوس چلا جا۔“ (متی ۵:۴۱) اس وعظ کے سیاقوسباق میں، یسوؔع جائز مطالبات کے لئے رضامندی سے اطاعت کے اصول کو سمجھا رہا تھا، خواہ اس کا تعلق انسانی رشتوں یا خدا کے آئین کی مطابقت میں حکومتی تقاضوں سے ہو۔—لوقا ۶:۲۷-۳۱؛ یوحنا ۱۷:۱۴، ۱۵۔
مسیحی اور قیصر
۱۰. ایک مؤرخ کے مطابق، قیصر کے معاملے میں ابتدائی مسیحی کونسا بااصول مؤقف رکھتے تھے؟
۱۰ یہ مختصر رہبر خطوط مسیحیوں اور حکومت کے مابین تعلق کو منظم کرنے کے لئے تھے۔ اپنی کتاب دی رائز آف کریسچئنٹی میں، مؤرخ ای. ڈبلیو. باؔرنز نے لکھا: ”جب کبھی، آئندہ صدیوں میں، کسی مسیحی کو حکومت کی جانب اپنے فرض کے سلسلے میں شک ہوتا تو وہ مسیح کی بااختیار تعلیم کی طرف رجوع کرتا تھا۔ وہ ٹیکس ادا کرتا تھا: عائدکردہ واجبات بہت بھاری ہو سکتے تھے—وہ مغربی سلطنت کے زوال سے پہلے ناقابلِبرداشت ہو گئے—لیکن مسیحی اُنہیں برداشت کرتا تھا۔ اسی طرح وہ حکومت کی طرف سے دیگر تمام ذمہداریوں کو قبول کرتا تھا، بشرطیکہ اُس سے اُن چیزوں کو قیصر کے حضور پیش کرنے کا تقاضا نہ کِیا جائے جو خدا کی ملکیت تھیں۔“
۱۱. پولسؔ نے مسیحیوں کو دُنیاوی حکمرانوں سے کسطرح پیش آنے کی نصیحت کی؟
۱۱ یہ اس بات کی مطابقت میں تھا کہ مسیح کی موت سے کوئی ۲۰ سال سے تھوڑا زیادہ عرصہ بعد، پولسؔ رسول نے رؔوم میں مسیحیوں کو بتایا: ”ہر شخص اعلےٰ حکومتوں کا تابعدار رہے۔“ (رومیوں ۱۳:۱) تقریباً دس سال بعد، اُس کے دوسری مرتبہ قید ہونے اور رؔوم میں اُس کے سزا پانے سے تھوڑا پہلے، پولسؔ نے ططسؔ کو لکھا: ”اُنکو [کرؔیتے کے مسیحیوں کو] یاد دِلا کہ حاکموں اور اختیار والوں کے تابع رہیں اور اُن کا حکم مانیں اور ہر نیک کام کے لئے مستعد رہیں۔ کسی کی بدگوئی نہ کریں۔ تکراری نہ ہوں بلکہ نرممزاج ہوں اور سب آدمیوں کے ساتھ کمال حلیمی سے پیش آئیں۔“—ططس ۳:۱، ۲۔
”اعلےٰ حکومتوں“ کی بابت بتدریج سمجھ
۱۲. (ا) اربابِاختیار کے سلسلے میں مسیحیوں کی موزوں حیثیت کے بارے میں چارلسؔ ٹیز رسل کا کیا نظریہ تھا؟ (ب) مسلح افواج میں ملازمت کرنے کی بابت، ممسوح مسیحیوں نے پہلی عالمی جنگ کے دوران کونسے مختلف خیالات کا اظہار کِیا؟
۱۲ ۱۸۸۶ کے اوائل میں، چارلسؔ ٹیز رسل نے کتاب دی پلان آف دی ایجز میں لکھا: ”نہ تو یسوؔع نہ ہی رسول کسی بھی طریقے سے زمینی حکمرانوں کے ساتھ اُلجھے۔ . . . اُنہوں نے کلیسیا کو قانون کی تابعداری کرنے، اور اربابِاختیار کی اُن کے مرتبے کی وجہ سے عزت کرنے، . . . اُن کے مقررکردہ ٹیکس ادا کرنے، اور ماسوائے جہاں وہ خدا کے قوانین سے ٹکراتے تھے (اعمال ۴:۱۹؛ ۵:۲۹) کسی بھی قائمکردہ قانون کی مزاحمت نہ کرنے کی تعلیم دی۔ (رومیوں ۱۳:۱-۷؛ متی ۲۲:۲۱) یسوؔع اور رسول اور ابتدائی کلیسیا تمام کے تمام قانون کی پابندی کرتے تھے، اگرچہ وہ منفصل اور اس دُنیا کی حکومتوں میں کسی قسم کا حصہ نہیں لیتے تھے۔“ اس کتاب نے موزوں طور پر پولسؔ رسول کے متذکرہ ”اعلیٰ اختیار والوں،“ یا ”اعلےٰ حکومتوں“ کی شناخت بطور انسانی حکومتی اربابِاختیار کے کروائی۔ (رومیوں ۱۳:۱، کنگ جیمز ورشن) ۱۹۰۴ میں کتاب دی نیو کریئشن نے بیان کِیا کہ سچے مسیحیوں کو ”دورِحاضر کے سب سے زیادہ قانون کی پابندی کرنے والوں میں شامل ہونا چاہئے—نہ تخریبکاروں میں، نہ فسادیوں میں، نہ نقادوں میں۔“ بعض نے اسے یوں سمجھا کہ اس کا مطلب پہلی عالمی جنگ کے دوران مسلح افواج میں ملازمت قبول کرنے کی حد تک اختیار والوں کی مکمل اطاعت کرنا ہے۔ تاہم، دیگر نے اسے یسوؔع کے اس بیان کے برعکس خیال کِیا: ”جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے۔“ (متی ۲۶:۵۲) ظاہر ہے کہ اعلیٰ حکومتوں کے لئے مسیحی تابعداری کی بابت واضح سمجھ درکار تھی۔
۱۳. ۱۹۲۹ میں اعلیٰ اختیار والوں کی شناخت کی بابت سمجھ میں کونسی تبدیلی پیش کی گئی، اور یہ کیسے فائدہمند ثابت ہوئی؟
۱۳ ۱۹۲۹ میں، ایک وقت پر جب مختلف حکومتوں کے قوانین ایسی چیزوں کو منع کرنا جنکا خدا حکم دیتا ہے یا ایسی چیزوں کا تقاضا کرنا شروع کر رہے تھے جنکو خدا منع کرتا ہے تو یہ محسوس کِیا گیا کہ اعلیٰ اختیار کے مالک یہوؔواہ خدا اور یسوؔع مسیح کو ہونا چاہئے۔b دوسری عالمی جنگ سے پہلے کے نازک دَور، اور پھر سرد جنگ، اس کے عسکری توازن، اور اس کی فوجی تیاری کرنے کے دوران یہوؔواہ کے گواہ یہی سمجھ رکھتے تھے۔ ماضی پر نگاہ ڈالتے ہوئے، یہ ضرور کہا جانا چاہئے کہ چیزوں کی بابت اس نظریے نے، یہوؔواہ اور اُس کے مسیح کے اقتدارِاعلیٰ کو سربلند کرتے ہوئے، اس مشکل دَور میں غیرمصالحانہ طور پر غیرجانبدارانہ مؤقف اختیار کرنے کے لئے خدا کے لوگوں کی مدد کی۔
نسبتی تابعداری
۱۴. ۱۹۶۲ میں رومیوں ۱۳:۱، ۲ اور متعلقہ صحائف پر کیسے اضافی روشنی ڈالی گئی؟
۱۴ ۱۹۶۱ میں نیو ورلڈ ٹرانسلیشن آف دی ہولی سکرپچرز کو مکمل کر لیا گیا۔ اس کی تیاری کے لئے صحائف کی اصلی زبان کے گہرے مطالعے کی ضرورت تھی۔ نہ صرف رومیوں ۱۳ باب میں استعمال ہونے والے الفاظ کے بلکہ ططس ۳:۱، ۲ اور ۱-پطرس ۲:۱۳، ۱۷ جیسے اقتباسات میں استعمال ہونے والے الفاظ کے درست ترجمے نے واضح کر دیا کہ اصطلاح ”اعلےٰ حکومتوں“ یہوؔواہ اور اُس کے بیٹے یسوؔع کے اعلیٰ اختیار کا نہیں بلکہ انسانی حکومتی اختیار کا حوالہ دیتی ہے۔ ۱۹۶۲ کے آخر میں، دی واچٹاور میں ایسے مضامین شائع کئے گئے جنہوں نے رومیوں ۱۳ باب کی درست وضاحت پیش کی اور اُس نظریے کی زیادہ واضح سمجھ بھی فراہم کی جو سی. ٹی. رسلؔ کے وقت میں مروّج تھا۔ ان مضامین نے نشاندہی کی کہ حکومتوں کے لئے مسیحی تابعداری کُلی نہیں ہو سکتی۔ اسے نسبتی ہونا چاہئے، بشرطیکہ خدا کے خادموں کو خدا کے قوانین سے متصادم نہ کرائے۔ دی واچٹاور میں مزید مضامین نے اس اہم نکتے پر زور دیا ہے۔c
۱۵، ۱۶. (ا) رومیوں ۱۳ باب کی نئی سمجھ کونسے بہتر متوازن نظریے کا باعث بنی ہے؟ (ب) کونسے سوالات کا جواب دیا جانا باقی ہے؟
۱۵ رومیوں ۱۳ باب کی درست سمجھ کی اس کُنجی نے یہوؔواہ کے لوگوں کو اہم صحیفائی اصولوں پر ایک غیرمصالحانہ مؤقف کے ساتھ سیاسی حکومتوں کے لئے واجب احترام کو متوازن کرنے کے قابل بنایا ہے۔ (زبور ۹۷:۱۱؛ یرمیاہ ۳:۱۵) اس چیز نے اُن کو خدا کے ساتھ اپنے رشتے اور حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کی بابت ایک موزوں نظریہ اپنانے کا موقع فراہم کِیا ہے۔ اس نے یقین دلایا ہے کہ جب وہ قیصر کی چیزیں قیصر کو ادا کرتے ہیں تو وہ خدا کی چیزیں خدا کو ادا کرنے کے سلسلے میں غفلت سے کام نہ لیں۔
۱۶ لیکن قیصر کی چیزیں کیا ہیں؟ حکومت ایک مسیحی سے کونسے جائز تقاضے کر سکتی ہے؟ ان سوالات پر اِسکے بعد کے مضمون میں باتچیت کی جائے گی۔ (۹ ۰۵/۰۱ w۹۶)
[فٹنوٹ]
a دیکھیں زبور ۱۰۳:۲۲، فٹنوٹ۔
b دی واچٹاور، جون ۱ اور ۱۵، ۱۹۲۹۔
c دیکھیں دی واچٹاور، نومبر ۱ اور ۱۵، دسمبر ۱، ۱۹۶۲؛ نومبر ۱، ۱۹۹۰؛ فروری ۱، ۱۹۹۳؛ جولائی ۱، ۱۹۹۴۔
دلچسپی کی بات ہے کہ رومیوں ۱۳ باب پر اپنی تفسیر میں، پروفیسر ایف. ایف. برؔوس لکھتے ہیں: ”اصلی اقتباس سے صاف ظاہر ہے، جیسےکہ رسولی نوشتوں کے عام اقتباس سے ظاہر ہے، کہ حکومت صرف اُن مقاصد کی حدود میں درست طور پر فرمانبرداری کی مستحق ہو سکتی ہے جن کے لئے اسے الہٰی طور پر قائم کِیا گیا ہے—بالخصوص، نہ صرف حکومت کی مزاحمت کی جانی چاہئے، بلکہ ضرور مزاحمت کی جانی چاہئے جب یہ اُس تابعداری کا تقاضا کرے جو صرف خدا کے لئے واجب ہے۔“
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
▫ اعلیٰ حکومتوں کی تابعداری کا مطلب شیطان کی تابعداری کیوں نہیں ہے؟
▫ یسوؔع کا اپنے زمانے کی سیاسیات کے بارے میں کیا رویہ تھا؟
▫ قیصر کے ساتھ اُن کے تعلقات کے سلسلے میں یسوؔع نے اپنے پیروکاروں کو کیا مشورت دی؟
▫ پولسؔ نے قوموں کے حکمرانوں سے پیش آنے کے لئے مسیحیوں کو کیا نصیحت کی؟
▫ سالوں کے دوران اعلیٰ حکومتوں کی شناخت کی بابت سمجھ کیسے بڑھتی گئی ہے؟
[تصویر]
جب شیطان نے اُسے سیاسی اقتدار کی پیشکش کی تو یسوؔع نے اُسے مسترد کر دیا
[تصویر]
رسل نے لکھا کہ سچے مسیحیوں کو ”دورِحاضر کے سب سے زیادہ قانون کی پابندی کرنے والوں میں شامل ہونا چاہئے“