آزمائشوں اور مایوسی سے نمٹنے کے لئے طاقت
”جب روحُالقدس تُم پر نازل ہوگا تو تُم قوت پاؤ گے۔“—اعما ۱:۸۔
۱، ۲. یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کی کیسے مدد کرنے کا وعدہ کِیا اور اُنہیں اِس مدد کی ضرورت کیوں تھی؟
آسمان پر جانے سے پہلے یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے ایک وعدہ کِیا تھا۔ اُس نے کہا کہ ”جب روحُالقدس تُم پر نازل ہوگا تو تُم قوت پاؤ گے اور یرؔوشلیم اور تمام یہوؔدیہ اور ساؔمریہ میں بلکہ زمین کی اِنتہا تک میرے گواہ ہوگے۔“ (اعما ۱:۸) یسوع مسیح جانتا تھا کہ جو کام وہ اپنے شاگردوں کو سونپ رہا ہے، اُسے وہ اپنی طاقت سے پورا نہیں کر سکتے۔ تمام قوموں کے لوگوں کو مُنادی کرنے اور اپنے زورآور دُشمنوں کی مخالفت کا سامنا کرنے کے لئے اُنہیں خدا کی پاک رُوح کی ضرورت ہوگی۔
۲ یسوع مسیح نے اپنے وعدے کے مطابق ۳۳ عیسوی پنتِکُست کے موقع پر اپنے شاگردوں پر روحُالقدس نازل کی جس کی طاقت سے اُنہوں نے تمام یروشلیم میں مُنادی کی۔ کسی بھی طرح کی اذیت یا مخالفت شاگردوں کو مُنادی کرنے سے نہ روک سکی۔ (اعما ۴:۲۰) یسوع مسیح نے اشارہ دیا تھا کہ اُس کے شاگردوں کو اِس ”دُنیا کے آخر تک“ یہوواہ کی پاک رُوح کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ مُنادی کے کام کو پورا کر سکیں۔—متی ۲۸:۲۰۔
۳. یہوواہ کی پاک رُوح سے ملنے والی طاقت ہمیں کیا کرنے کے قابل بناتی ہے؟
۳ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں پر واضح کر دیا تھا کہ وہ روحُالقدس سے قوت حاصل کریں گے۔ اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔ جس طرح بجلی کے ذریعے بیٹری کو چارج کِیا جاتا ہے تاکہ اُسے کسی کام کے لئے استعمال کِیا جا سکے اِسی طرح پاک رُوح کے ذریعے ہم قوت یا طاقت حاصل کرتے ہیں تاکہ خدا کی خدمت کر سکیں۔ نیز خدا کی پاک رُوح سے حاصل ہونے والی طاقت سے ہم طرحطرح کی مشکلات اور آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔—میکاہ ۳:۸؛ کلسیوں ۱:۲۹ کو پڑھیں۔
۴. اِس مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے اور کیوں؟
۴ یہوواہ کی پاک رُوح ہم پر کیا اثر ڈالتی ہے؟ ہم پاک رُوح سے حاصل ہونے والی طاقت سے مختلف صورتحال کا سامنا کیسے کر سکتے ہیں؟ جب ہم خدا کی خدمت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم پر شیطان اور اُس کی دُنیا کی طرف سے بہت سی مشکلات آتی ہیں۔ اِس کے علاوہ ہمیں اپنی کمزوریوں کی وجہ سے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں اِن مشکلات پر قابو پانا چاہئے تاکہ ہم اپنی راستی پر قائم رہ سکیں، باقاعدگی سے مُنادی کر سکیں اور یہوواہ کی قربت میں رہیں۔ آئیں اِس بات پر غور کریں کہ پاک رُوح کیسے آزمائشوں کا مقابلہ کرنے اور مایوسی اور تھکاوٹ سے نمٹنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟
آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے طاقت
۵. دُعا سے ہمیں کیسے طاقت ملتی ہے؟
۵ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ اُنہیں اپنی دُعا میں یہ بات بھی شامل کرنی چاہئے کہ ”ہمیں آزمایش میں نہ لا بلکہ بُرائی سے بچا۔“ (متی ۶:۱۳) یہوواہ خدا اپنے خادموں کی یہ درخواست ضرور سنتا ہے۔ ایک اَور موقع پر یسوع مسیح نے کہا تھا کہ ”آسمانی باپ اپنے مانگنے والوں کو روحُالقدس . . . دے گا۔“ (لو ۱۱:۱۳) یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ یہوواہ خدا اپنے خادموں کو پاک رُوح دینے کا وعدہ کرتا ہے جس کی مدد سے ہم اُس کی مرضی پر چلنے کے قابل ہوتے ہیں۔ تاہم اِس کا یہ مطلب نہیں کہ یہوواہ خدا ہمیں آزمائش سے بچائے گا۔ (۱-کر ۱۰:۱۳) جب ہم آزمائش میں پڑتے ہیں تو اُس وقت ہمیں اَور بھی دل سے دُعا کرنی چاہئے۔—متی ۲۶:۴۲۔
۶. یسوع مسیح نے شیطان کی طرف سے آنے والی آزمائش کا مقابلہ کیسے کِیا؟
۶ جب شیطان نے یسوع مسیح کو آزمایا تو یسوع مسیح نے خدا کے کلام سے شیطان کو جواب دیا۔ یسوع مسیح پاک کلام سے اچھی طرح واقف تھا۔ اِسی لئے شیطان کی ہر بات کا جواب دیتے ہوئے اُس نے ایسی اصطلاحیں استعمال کیں جیسے کہ ”لکھا ہے . . . یہ بھی لکھا ہے . . . اَے شیطان دُور ہو کیونکہ لکھا ہے کہ تُو [یہوواہ] اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اُسی کی عبادت کر۔“ یسوع مسیح کو یہوواہ خدا اور اُس کے کلام سے بڑی محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شیطان کی ہر آزمائش کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار تھا۔ (متی ۴:۱-۱۰) جب یسوع مسیح نے شیطان کا ڈٹ کر مقابلہ کِیا تو شیطان وہاں سے چلا گیا۔
۷. پاک کلام آزمائش کا مقابلہ کرنے میں ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟
۷ اگر شیطان کی ہر آزمائش کا جواب دینے کے لئے یسوع مسیح نے خدا کے کلام پر بھروسا کِیا تو پھر ہمیں تو اِس سے بھی زیادہ کرنا چاہئے۔ شیطان اور اُس کے چیلوں کا مقابلہ کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم خدا کے معیاروں کو جانیں اور اِن کے مطابق چلنے کا عزم کریں۔ پاک کلام کا مطالعہ کرنے سے بہت سے لوگ یہ سمجھ گئے کہ خدا کے معیار اُن کے فائدے کے لئے ہیں۔ اِس لئے اُن میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اِن معیاروں پر چلیں۔ واقعی ’خدا کے کلام‘ میں ”دل کے خیالوں اور اِرادوں“ پر اثر کرنے کی طاقت ہے۔ (عبر ۴:۱۲) جتنا زیادہ ہم یہوواہ کے کلام کو پڑھتے اور اِس پر سوچبچار کرتے ہیں اُتنا ہی ہم ’یہوواہ کی سچائی کو پہچاننے‘ کے قابل ہوتے ہیں۔ (دان ۹:۱۳) ہمیں خاص طور پر ایسے صحیفوں پر سوچبچار کرنا چاہئے جو اپنی خامیوں پر قابو پانے میں ہماری مدد کریں گے۔
۸. ہم کن طریقوں سے پاک رُوح حاصل کر سکتے ہیں؟
۸ یسوع مسیح نہ صرف پاک صحائف سے واقف تھا بلکہ وہ ’رُوحُالقدس سے بھی بھرا ہوا‘ تھا۔ اِسی لئے وہ ہر آزمائش کا مقابلہ کر سکتا تھا۔ (لو ۴:۱) اگر ہم بھی یسوع مسیح کی طرح آزمائشوں کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں باقاعدگی سے بائبل کا مطالعہ کرنا، دُعا کرنا اور بہنبھائیوں کے ساتھ رفاقت رکھنی چاہئے۔ ایسا کرنے سے ہمیں پاک رُوح ملتی رہے گی جس سے ہم یہوواہ کی قربت میں رہیں گے۔ (یعقو ۴:۷، ۸) یہوواہ کی عبادت میں مشغول رہنے سے بہت سے لوگ آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔
۹، ۱۰. (الف) آپ کو کن آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ (ب) آزمائشوں کا سامنا کرتے وقت سوچبچار کرنے اور دُعا کرنے سے ہماری مدد کیسے ہوتی ہے؟
۹ آپ کو کن آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ کیا آپ کے دل میں کسی ایسے شخص کے ساتھ جس سے آپ کی شادی نہیں ہوئی دللگی کرنے کی خواہش ہے؟ اگر آپ شادیشُدہ نہیں ہیں تو کیا کبھی کسی ایسے شخص نے آپ کو اپنے ساتھ ڈیٹ پر جانے کی پیشکش کی جو یہوواہ کا گواہ نہیں ہے؟ کیا آپ کے دل میں اُس کے ساتھ جانے کی خواہش پیدا ہوئی؟ ٹیوی دیکھتے یا انٹرنیٹ استعمال کرتے وقت کیا کبھی آپ کے دل میں کوئی گندی تصویر دیکھنے کی خواہش اُبھری ہے؟ اگر آپ کو کبھی اِن میں سے کسی صورتحال کا سامنا ہوا تھا تو اُس وقت آپ نے کیا کِیا تھا؟ ایسی صورتحال میں ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہم ایسے غلط قدم اُٹھاتے ہیں تو آگے چل کر ہم کسی سنگین گُناہ میں پڑ سکتے ہیں۔ (یعقو ۱:۱۴، ۱۵) ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ایسی سنگین غلطی کی وجہ سے یہوواہ خدا، کلیسیا اور خاندان کو کتنی تکلیف ہوگی۔ اِس کے برعکس اگر ہم وفاداری سے خدا کے اصولوں پر عمل کرتے ہیں تو اِس سے ہمارا ضمیر صاف رہے گا۔ (زبور ۱۱۹:۳۷؛ امثال ۲۲:۳ کو پڑھیں۔) پس جب بھی آپ کو ایسی آزمائشوں کا سامنا ہو تو یہوواہ خدا سے دُعا کریں کہ اِن کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ آپ کو طاقت بخشے۔
۱۰ شیطان کی طرف سے آنے والی آزمائشوں کے سلسلے میں ہمیں ایک اَور بات بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ شیطان نے یسوع مسیح کو اُس وقت آزمایا جب یسوع مسیح نے ۴۰ دن سے کچھ نہیں کھایا پیا تھا۔ بِلاشُبہ شیطان نے سوچا کہ یسوع مسیح کو آزمانے کے لئے یہی صحیح وقت ہے۔ (لو ۴:۱۳) شیطان ہمیں بھی آزمانے کے لئے مناسب وقت کی تلاش میں رہتا ہے۔ وہ ہم پر اکثر اُسی وقت وار کرتا ہے جب ہم روحانی طور پر کمزور ہوتے ہیں۔ اِس لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم یہوواہ خدا کی قربت میں رہیں۔ لہٰذا جب بھی ہمیں مایوسی یا تھکاوٹ محسوس ہو تو ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ یہوواہ خدا سے دُعا میں اُس کی مدد اور پاک رُوح مانگنی چاہئے۔—۲-کر ۱۲:۸-۱۰۔
مایوسی اور تھکاوٹ پر قابو پانے کے لئے طاقت
۱۱، ۱۲. (الف) آجکل بہت سے لوگ مایوسی کا شکار کیوں ہیں؟ (ب) ہم مایوسی پر قابو پانے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟
۱۱ خطاکار انسان ہونے کی وجہ سے ہم کبھیکبھار مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نیز ہم ایک ایسے وقت میں رہ رہے ہیں جب مشکلات اور پریشانیاں پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ (۲-تیم ۳:۱-۵) جوںجوں ہرمجِدّون نزدیک آر ہی ہے، لوگوں کی معاشی مشکلات اور دیگر پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لہٰذا اِس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ بعض لوگوں کو اپنے خاندان کی ضروریات پوری کرنا بہت مشکل لگتا ہے۔ وہ خود کو بوجھ تلے دبا ہوا، تھکا ہوا اور پریشانی میں مبتلا محسوس کرتے ہیں۔ اگر آپ بھی ایسا ہی محسوس کرتے ہیں تو آپ مایوسی اور تھکاوٹ پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟
۱۲ یاد کریں کہ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا تھا کہ وہ اُنہیں مددگار یعنی خدا کی پاک رُوح دے گا۔ (یوحنا ۱۴:۱۶، ۱۷ کو پڑھیں۔) یہوواہ خدا اپنی پاک رُوح سے ”بہت زیادہ کام کر سکتا ہے۔“ (افس ۳:۲۰) وہ اپنی پاک رُوح کے ذریعے ہمیں آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت اور ہمت دیتا ہے۔ پولس رسول نے کہا تھا کہ پاک رُوح کی طرف سے ہمیں اُس وقت بھی ”حد سے زیادہ قدرت“ حاصل ہوتی ہے جب ہم ”ہر طرف سے مصیبت . . . اُٹھاتے“ ہیں۔ (۲-کر ۴:۷، ۸) یہوواہ خدا ہم سے یہ وعدہ تو نہیں کرتا کہ وہ ہماری پریشانیوں کو ختم کر دے گا مگر وہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ اپنی پاک رُوح کے ذریعے وہ ہمیں مشکلات سے نمٹنے کی طاقت دے گا۔—فل ۴:۱۳۔
۱۳. (الف) ایک جوان بہن مشکل صورتحال پر قابو پانے میں کیسے کامیاب رہی؟ (ب) کیا آپ بھی کوئی ایسی مثال پیش کر سکتے ہیں؟
۱۳ آئیں ایک ۱۹ سالہ لڑکی سٹیفنی کی مثال پر غور کریں۔ وہ پائنیر کے طور پر خدمت کر رہی ہے۔ جب وہ ۱۲ سال کی تھی تو ڈاکٹروں نے بتایا کہ اُس کے دماغ میں رسولی ہے۔ اب تک سٹیفنی کے دو آپریشن ہو چکے ہیں اور شعاعوں سے علاج بھی کِیا گیا ہے۔ اِس کے باوجود سٹیفنی پر دو مرتبہ فالج کا حملہ ہوا جس کے نتیجے میں اُس کے جسم کا بایاں حصہ صحیح طرح کام نہیں کرتا تھا اور اُس کی نظر بھی کمزور ہو گئی تھی۔ خراب صحت کی وجہ سے سٹیفنی زیادہ دیر تک کام نہیں کر سکتی اِس لئے وہ سمجھداری سے فیصلہ کرتی ہے کہ وہ کن کاموں میں اپنی طاقت استعمال کرے گی۔ وہ مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونے اور مُنادی کرنے کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ وہ محسوس کرتی ہے کہ یہوواہ خدا اُسے مشکلات سے نمٹنے کی طاقت دیتا ہے۔ نیز جب وہ بےحوصلہ ہوتی ہے تو اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے تجربات پڑھنے سے اُسے ہمت ملتی ہے۔ بعض بہنبھائی اُس کی حوصلہافزائی کرنے کے لئے اُس کو خط لکھتے ہیں یا پھر اجلاس سے پہلے یا بعد میں اُس سے بڑے پیار سے باتچیت کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو سٹیفنی سے بائبل کی تعلیم سیکھ رہے ہیں، وہ بھی اُس کی محنت کی بہت قدر کرتے ہیں۔ اِس لئے وہ خوشی سے سٹیفنی کے گھر اُس سے بائبل کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں۔ سٹیفنی اِن سب باتوں کے لئے دل سے یہوواہ کی شکرگزار ہے۔ اُس کا پسندیدہ صحیفہ زبور ۴۱:۳ ہے۔ اُسے یقین ہے کہ یہ صحیفہ اُس کے معاملے میں بالکل سچ ثابت ہوا ہے۔
۱۴. جب ہم خود کو بوجھ تلے دبا ہوا محسوس کرتے ہیں تو ہمیں کیا نہیں سوچنا چاہئے اور کیوں؟
۱۴ جب ہم خود کو بوجھ تلے دبا ہوا محسوس کرتے ہیں تو ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ خدا کی خدمت میں کم حصہ لینے سے ہمارا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔ دراصل ذاتی بائبل مطالعہ کرنے، مُنادی میں حصہ لینے اور مسیحی اجلاس پر حاضر ہونے سے ہمیں خدا کی پاک رُوح ملتی ہے جس سے ہم طاقت حاصل کرتے ہیں۔ لہٰذا ایسے کاموں میں حصہ لینے سے ہم تازہدم ہو جاتے ہیں۔ (متی ۱۱:۲۸، ۲۹ کو پڑھیں۔) اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اجلاس پر پہنچتے وقت کچھ بہنبھائی بہت تھکاوٹ محسوس کر رہے ہوتے ہیں مگر اجلاس کے بعد وہ تازہدم ہو جاتے ہیں۔
۱۵. (الف) صحائف سے واضح کریں کہ یسوع مسیح کا شاگرد ہونا آسان بات نہیں ہے۔ (ب) یہوواہ خدا ہم سے کیا وعدہ کرتا ہے اور اِس سے کونسا سوال پیدا ہوتا ہے؟
۱۵ سچ ہے کہ مسیح کا شاگرد ہونا آسان بات نہیں ہے۔ ایک شاگرد کے طور پر ہمیں اپنی ذمہداریاں پوری کرنے کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے۔ (متی ۱۶:۲۴-۲۶؛ لو ۱۳:۲۴) مگر خوشی کی بات ہے کہ یہوواہ خدا اپنی پاک رُوح کے ذریعے تھکے ہوئے کو طاقت بخش سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں یسعیاہ نبی نے لکھا: ”[یہوواہ] کا انتظار کرنے والے ازسرِنو زور حاصل کریں گے۔ وہ عقابوں کی مانند بالوپر سے اُڑیں گے وہ دوڑیں گے اور نہ تھکیں گے۔ وہ چلیں گے اور ماندہ نہ ہوں گے۔“ (یسع ۴۰:۲۹-۳۱) لہٰذا اگر یہوواہ خدا کی خدمت تھکاوٹ کا باعث نہیں ہے تو پھر بعض لوگ کیوں خدا کی خدمت کو ایک بوجھ خیال کرتے ہیں؟
۱۶. بعض لوگ تھکاوٹ کا شکار کیوں ہو جاتے ہیں اور ایسی صورت میں وہ کیا کر سکتے ہیں؟
۱۶ خدا کے کلام میں ہمیں نصیحت کی گئی ہے کہ ہم زیادہ اہم باتوں پر غور کریں۔ (فل ۱:۱۰) ایک مسیحی کی زندگی کو دوڑ سے تشبیہ دیتے ہوئے پولس رسول نے کہا کہ ”آؤ ہم بھی ہر ایک بوجھ . . . کو . . . دُور کرکے اُس دوڑ میں صبر سے دوڑیں جو ہمیں درپیش ہے۔“ (عبر ۱۲:۱) اِس آیت میں پولس رسول یہ واضح کر رہا ہے کہ ہمیں غیرضروری کاموں اور بوجھ سے بچنا چاہئے جو ہمارے لئے تھکاوٹ کا باعث بن سکتے ہیں۔ اگر آپ اکثر خود کو تھکا ہوا اور بوجھ تلے دبا ہوا محسوس کرتے ہیں تو اپنے معمول کا جائزہ لیں کہ آپ اپنا وقت اور توانائی کن کاموں میں صرف کرتے ہیں؟ مثال کے طور پر آپ اپنی ملازمت، سیروتفریح اور کھیلوں میں کتنی توانائی اور وقت صرف کرتے ہیں؟ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ غیرضروری کاموں میں حد سے زیادہ مگن ہوتے جا رہے ہیں تو آپ کو اِن میں کم وقت استعمال کرنا چاہئے۔
۱۷. بعض کس وجہ سے بےحوصلہ ہو سکتے ہیں مگر یہوواہ خدا ہمیں کس بات کا یقین دلاتا ہے؟
۱۷ شاید ہمیں یہ توقع تھی کہ اِس دُنیا کا خاتمہ اب تک آ جانا چاہئے۔ مگر خاتمہ نہ آنے کی وجہ سے شاید ہم بےحوصلہ ہو گئے۔ (امثا ۱۳:۱۲) اگر ہم ایسا محسوس کرتے ہیں تو ہم حبقوق ۲:۳ میں درج اِن الفاظ سے حوصلہافزائی حاصل کر سکتے ہیں: ”یہ رویا ایک مقررہ وقت کے لئے ہے۔ یہ جلد وقوع میں آئے گی اور خطا نہ کرے گی۔ اگرچہ اِس میں دیر ہو تو بھی اِس کا منتظر رہ کیونکہ یہ یقیناً وقوع میں آئے گی۔ تاخیر نہ کرے گی۔“ یہوواہ خدا ہمیں اِس بات کا یقین دلاتا ہے کہ خاتمہ اپنے مقررہ وقت پر ضرور آئے گا۔
۱۸. (الف) پاک کلام کے کن وعدوں سے ہم ہمت حاصل کرتے ہیں؟ (ب) اگلے مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
۱۸ یقیناً یہوواہ خدا کے وفادار خادم اُس وقت کے منتظر ہیں جب وہ کبھی بھی مایوسی اور تھکاوٹ کا شکار نہیں ہوں گے اور سب لوگ ’جوانوں‘ کی طرح تندرستوتوانا ہوں گے۔ (ایو ۳۳:۲۵) آج بھی جب ہم خدا کی خدمت میں حصہ لیتے ہیں تو پاک رُوح کے ذریعے ہم اپنی ”باطنی انسانیت میں . . . زورآور“ ہو سکتے ہیں۔ (۲-کر ۴:۱۶؛ افس ۳:۱۶) لہٰذا یہ عزم کریں کہ ہم کبھی بھی مایوسی یا تھکاوٹ کی وجہ سے ابدی برکات سے محروم نہیں ہوں گے۔ یاد رکھیں کہ کوئی بھی مشکل خواہ وہ آزمائش، تھکاوٹ یا مایوسی کی صورت میں کیوں نہ ہو، یہ سب عارضی ہے۔ اگر یہ ہمیں ابھی ختم ہوتی ہوئی نظر نہیں آتیں تو بھی یہ خدا کی نئی دُنیا میں مکمل طور پر ختم ہو جائیں گی۔ اگلے مضمون میں ہم اِن باتوں پر غور کریں گے کہ پاک رُوح کیسے مسیحیوں کو اذیت، ہمعمروں کی طرف سے دباؤ اور دیگر مشکلات کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔
آپ کا جواب کیا ہوگا؟
• خدا کے کلام کو پڑھنے سے ہمیں کیسے طاقت ملتی ہے؟
• بُرے کاموں کے نتائج کے بارے میں سوچبچار کرنے اور دُعا کرنے سے ہماری مدد کیسے ہوتی ہے؟
• بعض لوگ تھکاوٹ کا شکار کیوں ہو جاتے ہیں اور ایسی صورت میں وہ کیا کر سکتے ہیں؟
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونے سے ہم تازہدم ہو جاتے ہیں۔