مطالعے کا مضمون نمبر 27
خود کو اذیت کا سامنا کرنے کے لیے ابھی تیار کریں
”اُن سب کو اذیت دی جائے گی جو مسیح یسوع کے پیروکاروں کے طور پر خدا کی بندگی کرنا چاہتے ہیں۔“—2-تیم 3:12۔
گیت نمبر 51: یہوواہ خدا سے لپٹے رہو
مضمون پر ایک نظرa
1. یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم خود کو اذیت کا سامنا کرنے کے لیے تیار کریں؟
اپنی موت سے کچھ گھنٹے پہلے ہمارے مالک یسوع نے کہا کہ اُن سب لوگوں کو نفرت کا سامنا کرنا پڑے گا جو اُن کے پیروکار بنیں گے۔ (یوح 17:14) اُس وقت سے لے کر آج تک وفادار مسیحیوں کو اُن لوگوں کے ہاتھوں اذیت کا سامنا رہا ہے جو یہوواہ کی عبادت نہیں کرتے۔ (2-تیم 3:12) ہم جانتے ہیں کہ جوںجوں اِس دُنیا کا خاتمہ نزدیک آ رہا ہے، ہمارے دُشمن ہماری مخالفت اَور زیادہ تیز کر دیں گے۔—متی 24:9۔
2، 3. (الف) ہمیں خوف کے حوالے سے کیا یاد رکھنا چاہیے؟ (ب) اِس مضمون میں ہم کن باتوں پر غور کریں گے؟
2 ہم ابھی خود کو اذیت کا سامنا کرنے کے لیے کیسے تیار کر سکتے ہیں؟ ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمارے ساتھ کیا کیا ہو سکتا ہے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم خوف اور پریشانی کے شکنجے میں گِرفتار ہو جائیں گے اور پھر کوئی مخالفت کھڑی ہونے سے پہلے ہی بس اِس کے بارے میں سوچ سوچ کر ہتھیار ڈال دیں گے۔ (امثا 12:25؛ 17:22) خوف ایک ایسا طاقتور ہتھکنڈا ہے جسے ہمارا ”دُشمن، اِبلیس“ ہمیں ہرانے کے لیے اِستعمال کرتا ہے۔ (1-پطر 5:8، 9) تو پھر ہم اب کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم اذیت کا سامنا کرتے وقت ثابتقدم رہ پائیں؟
3 اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کو کیسے مضبوط کر سکتے ہیں اور ایسا کرنا ابھی ضروری کیوں ہے۔ ہم یہ بھی سیکھیں گے کہ ہم اپنی دلیری کو کیسے بڑھا سکتے ہیں۔ آخر میں ہم اِس بات پر غور کریں گے کہ ہم اپنے مخالفوں کی نفرت کا سامنا کیسے کر سکتے ہیں۔
یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کو کیسے مضبوط کریں؟
4. عبرانیوں 13:5، 6 کے مطابق ہمیں کس بات کا یقین ہونا چاہیے اور کیوں؟
4 اِس بات پر پکا یقین رکھیں کہ یہوواہ آپ سے پیار کرتا ہے اور وہ آپ کو کبھی ترک نہیں کرے گا۔ (عبرانیوں 13:5، 6 کو پڑھیں۔) بہت سال پہلے ”مینارِنگہبانی“ کے ایک شمارے میں لکھا گیا: ”جو شخص خدا کو اچھی طرح جانتا ہے، وہ اذیت کا سامنا کرتے وقت اُس پر پورا بھروسا رکھے گا۔“ یہ بات واقعی سچ ہے۔ اگر ہم ثابتقدمی سے اذیت کا سامنا کرنا چاہتے ہیں تو یہ لازمی ہے کہ ہم پورے دل سے یہوواہ سے محبت کریں، اُس پر مکمل بھروسا رکھیں اور اِس بات پر ذرا بھی شک نہ کریں کہ اُسے ہم سے پیار ہے۔—متی 22:36-38؛ یعقو 5:11۔
5. آپ خود کو یہوواہ کی محبت کا یقین کیسے دِلا سکتے ہیں؟
5 ہر روز اِس مقصد سے بائبل پڑھیں کہ آپ کو اِس کے ذریعے یہوواہ کے قریب جانا ہے۔ (یعقو 4:8) جب آپ بائبل پڑھتے ہیں تو یہوواہ کی خوبیوں پر غور کریں۔ اُس محبت کو محسوس کرنے کی کوشش کریں جو اُس کی باتوں اور کاموں سے چھلکتی ہے۔ (خر 34:6) کچھ لوگوں کو یہ سمجھنا مشکل لگتا ہے کہ خدا اُن سے پیار کرتا ہے کیونکہ اُن کے لیے کبھی محبت ظاہر نہیں کی گئی ہوتی۔ اگر آپ کے ساتھ بھی ایسا ہے تو ہر روز ایسے طریقوں کے بارے میں سوچیں جن کے ذریعے یہوواہ آپ کے لیے رحم اور مہربانی ظاہر کرتا ہے۔ (زبور 78:38، 39؛ روم 8:32) جب آپ اپنی زندگی پر غور کریں گے اور خدا کے کلام میں لکھی باتوں پر گہرائی سے سوچیں گے تو آپ کے ذہن میں ایسے بےشمار کام آئیں گے جو یہوواہ نے آپ کے لیے کیے ہیں۔ آپ کے دل میں ایسے کاموں کے لیے جتنی زیادہ قدر ہوگی، یہوواہ کے ساتھ آپ کی دوستی اُتنی زیادہ مضبوط ہوگی۔—زبور 116:1، 2۔
6. زبور 94:17-19 کی روشنی میں بتائیں کہ دل سے دُعا کرنے کا کیا فائدہ ہوتا ہے۔
6 باقاعدگی سے دُعا کریں۔ ذرا ایک بچے کا تصور کریں جو اپنے باپ کی بانہوں میں ہے۔ چونکہ وہ خود کو محفوظ محسوس کرتا ہے اِس لیے وہ اپنے باپ کو نہ صرف دن کے دوران ہونے والی اچھی باتوں کے بارے میں بلکہ بُری باتوں کے بارے میں بھی بتاتا ہے۔ اگر آپ ہر روز دل کھول کر یہوواہ سے دُعا کرتے ہیں تو آپ بھی اُس کے ساتھ ایسا ہی رشتہ بنا سکتے ہیں۔ (زبور 94:17-19 کو پڑھیں۔) دُعا میں اپنے شفیق باپ ”[یہوواہ] کے حضور اپنا دل پانی کی مانند اُنڈیل“ دیں اور اُسے اپنے خوف اور پریشانیوں کے بارے میں بتائیں۔ (نوحہ 2:19) جب آپ ایسا کریں گے تو ”خدا آپ کو وہ اِطمینان دے گا جو سمجھ سے باہر ہے۔“ (فل 4:6، 7) جتنی زیادہ آپ اِس طرح سے دُعا کریں گے اُتنی زیادہ یہوواہ کے ساتھ آپ کی قُربت بڑھے گی۔—روم 8:38، 39۔
7. آپ کو اِس بات پر پورا یقین کیوں ہونا چاہیے کہ خدا کی بادشاہت کے حوالے سے کیے گئے وعدے پورے ہوں گے؟
7 اپنے اِس یقین کو پُختہ کریں کہ خدا کی بادشاہت کے حوالے سے جو وعدے کیے گئے ہیں، وہ ضرور پورے ہوں گے۔ (گن 23:19) اگر اِن وعدوں پر آپ کا ایمان کمزور ہوگا تو شیطان اور اُس کے زیرِاثر کام کرنے والے اِنسانوں کے لیے آپ کو خوفزدہ کرنا آسان ہوگا۔ (امثا 24:10؛ عبر 2:15) آپ ابھی خدا کی بادشاہت پر اپنے ایمان کو کیسے مضبوط کر سکتے ہیں؟ اپنے ذاتی مطالعے میں اِس بات پر غور کریں کہ خدا نے اپنی بادشاہت کے حوالے سے کون سے وعدے کیے ہیں اور آپ اِن وعدوں کے پورا ہونے پر یقین کیوں رکھ سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے آپ کو بہت فائدہ ہوگا۔ اِس سلسلے میں ذرا بھائی سٹینلے جونز کی مثال پر غور کریں جنہیں اپنے ایمان کی وجہ سے سات سال قید میں رکھا گیا۔ اُنہوں نے کہا: ”میرا ایمان اِس لیے مضبوط رہا کیونکہ مَیں خدا کی بادشاہت کے حوالے سے کیے گئے وعدوں سے واقف تھا اور مجھے اِس بات پر ذرا بھی شک نہیں تھا کہ یہ وعدے پورے ہوں گے۔ یہی وجہ تھی کہ کوئی بھی چیز مجھے یہوواہ سے دُور نہیں کر سکتی تھی۔“ اگر آپ بھی خدا کے وعدوں پر مضبوط ایمان رکھیں گے تو آپ خدا کے قریب رہیں گے اور خوف کے شکنجے میں نہیں آئیں گے۔—امثا 3:25، 26۔
8. اِجلاسوں میں جانے کے ہمارے معمول سے کیا اندازہ لگایا جا سکتا ہے؟
8 باقاعدگی سے اِجلاسوں میں حاضر ہوں۔ اِجلاسوں کے ذریعے ہم یہوواہ کے قریب جاتے ہیں۔ اِجلاسوں میں جانے کے ہمارے معمول سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم مستقبل میں کامیابی سے اذیت کا سامنا کر پائیں گے یا نہیں۔ (عبر 10:24، 25) ایسا کیوں کہا جا سکتا ہے؟ ذرا سوچیں کہ اگر ہم آج چھوٹی موٹی رُکاوٹوں کی وجہ سے اِجلاسوں سے غیرحاضر رہیں گے تو پھر ہم اُس وقت کیا کریں گے جب ہمیں اپنے ہمایمانوں کے ساتھ جمع ہونے کے لیے خطرہ مول لینا پڑے گا۔ اگر ہم باقاعدگی سے اِجلاسوں میں جانے کے لیے پُرعزم ہیں تو ہم اُس وقت بھی ایسا کریں گے جب ہمارے مخالفین ہمیں جمع ہونے سے روکنے کی کوشش کریں گے۔ لہٰذا ابھی سے اِجلاسوں میں جانے کا شوق پیدا کریں۔ اگر ہمارے دل میں یہ شوق ہوگا تو کسی بھی طرح کی مخالفت، یہاں تک کہ ہمارے کام پر پابندی بھی ہمیں خدا کا کہنا ماننے سے نہیں روک پائے گی۔—اعما 5:29۔
9. یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ آیتیں یاد کرنا اذیت کے لیے تیار رہنے کا ایک اچھا طریقہ ہے؟
9 اپنی پسندیدہ آیتوں کو زبانی یاد کر لیں۔ (متی 13:52) شاید آپ کو لگے کہ آپ کی یادداشت اِتنی اچھی نہیں ہے لیکن یہوواہ اپنی پاک روح کی طاقت سے آپ کے ذہن میں وہ آیتیں لا سکتا ہے جو آپ نے یاد کرنے کی کوشش کی ہے۔ (یوح 14:26) ذرا ایک بھائی کے بیان پر غور کریں جسے مشرقی جرمنی کی ایک جیل میں قیدِتنہائی کاٹنی پڑی۔ اُس نے کہا: ”شکر ہے کہ اُس وقت تک مَیں سینکڑوں آیتیں زبانی یاد کر چُکا تھا۔ اِس وجہ سے مَیں تنہائی میں گزرے اُن دنوں کے دوران بائبل کے فرق فرق موضوعات پر سوچ بچار کر کے اپنے ذہن کو مصروف رکھ پاتا تھا۔“ بائبل کی آیتیں یاد کرنے سے ہمارا وہ بھائی یہوواہ کے قریب رہ پایا اور ثابتقدمی دِکھا پایا۔
10. ہمیں گیتوں کو زبانی یاد کیوں کرنا چاہیے؟
10 یہوواہ کی حمد کے گیتوں کو زبانی یاد کریں اور اِنہیں گائیں۔ جب پولُس اور سیلاس فِلپّی میں قید تھے تو اُنہوں نے وہ گیت گائے جو اُنہوں نے یاد کیے ہوئے تھے۔ (اعما 16:25) جب سابقہ سوویت یونین میں ہمارے بہن بھائیوں کو سائبیریا کے دُوردراز علاقے میں بھیج دیا گیا تو اُنہوں نے بھی اپنے ایمان کو مضبوط رکھنے کے لیے یہی کِیا۔ بہن ماریا فیدون نے اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہا: ”ہمیں ہمارے گیتوں کی کتاب سے جتنے بھی گیت یاد تھے، ہم وہ سارے گیت گاتے تھے۔“ اُنہوں نے بتایا کہ اُن سب کو اِن گیتوں کے ذریعے حوصلہ ملا اور خدا کی قُربت کا احساس حاصل ہوا۔ جب آپ اپنی پسند کے گیت گاتے ہیں تو کیا آپ کو بھی ہمت نہیں ملتی؟ تو پھر اِن گیتوں کو زبانی یاد کرنے میں دیر نہ کریں۔—بکس ”دلیری مجھ کو دے“ کو دیکھیں۔”
اپنی دلیری کو کیسے بڑھائیں؟
11، 12. (الف) 1-سموئیل 17:37، 45-47 کے مطابق داؤد کو دلیری کیوں حاصل تھی؟ (ب) ہم داؤد کی مثال سے کون سا اہم سبق سیکھتے ہیں؟
11 اذیت کا سامنا کرنے کے لیے آپ کو دلیری کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ میں دلیری کی کمی ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ یاد رکھیں کہ حقیقی دلیری کا آپ کے قد کاٹھ، طاقت اور صلاحیتوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ذرا اُس وقت کے بارے میں سوچیں جب داؤد کا سامنا جولیت سے ہوا۔ اُس لمبے تڑنگے پہلوان کے مقابلے میں داؤد بہت چھوٹے اور کمزور تھے اور اُن کے پاس تلوار تک نہیں تھی۔ البتہ اُن کے اندر کوٹ کوٹ کر دلیری بھری تھی۔ وہ بڑی بہادری سے اُس مغرور پہلوان کا مقابلہ کرنے کے لیے بھاگے۔
12 داؤد میں اِتنی دلیری کہاں سے آئی؟ اُنہیں پورا یقین تھا کہ یہوواہ اُن کے ساتھ ہے۔ (1-سموئیل 17:37، 45-47 کو پڑھیں۔) اُنہوں نے یہ نہیں سوچا کہ وہ جولیت کے مقابلے میں کتنے چھوٹے ہیں بلکہ یہ سوچا کہ جولیت یہوواہ کے سامنے کتنا چھوٹا ہے۔ اِس واقعے سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ اگر ہمیں یہ اِعتماد ہوگا کہ یہوواہ ہمارے ساتھ ہے اور ہمارے مخالفین لامحدود قدرت کے مالک کے سامنے محض چیونٹیاں ہیں تو ہمیں دلیری ملے گی۔ (2-توا 20:15؛ زبور 16:8) البتہ ہم کسی اذیت کے آنے سے پہلے ابھی اپنی دلیری کو کیسے بڑھا سکتے ہیں؟
13. ہم اپنی دلیری کو کیسے بڑھا سکتے ہیں؟ وضاحت کریں۔
13 ہم خدا کی بادشاہت کی خوشخبری کی مُنادی کرنے سے اپنی دلیری کو بڑھا سکتے ہیں۔ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟ کیونکہ مُنادی کا کام کرنے سے ہم یہوواہ پر بھروسا کرنا اور اِنسان کے خوف پر قابو پانا سیکھتے ہیں۔ (امثا 29:25) جس طرح ورزش کرنے سے ہمارے پٹھوں کی طاقت بڑھتی ہے، اُسی طرح گھر گھر، عوامی جگہوں پر، کاروباری علاقوں میں اور روزمرہ کاموں کے دوران مُنادی کرنے سے ہماری دلیری بڑھتی ہے۔ اگر ہم ابھی اپنے اندر مُنادی کرنے کی دلیری پیدا کریں گے تو ہم اِس کام کو کرنا کبھی نہیں چھوڑیں گے، اُس وقت بھی نہیں جب اِس پر پابندی لگی ہوگی۔—1-تھس 2:1، 2۔
14، 15. بہن نینسی اور بہن ویلنٹینا سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
14 آئیں، دو بہنوں کی مثال پر غور کریں جنہوں نے زبردست طریقے سے دلیری ظاہر کی۔ بہن نینسی یوئن کا قد صرف ڈیڑھ میٹر (5 فٹ) تھا مگر وہ بڑی بےخوف اِنسان تھیں۔ اُنہوں نے اُس وقت بھی مُنادی کرنی جاری رکھی جب اُن کے ملک میں اِس کام پر پابندی لگا دی گئی۔ اِس وجہ سے اُنہیں 20 سال تک چین کی ایک جیل میں قید رکھا گیا۔ جن سرکاری افسروں نے اُن سے پوچھگچھ کی، اُنہوں نے اُن کے بارے میں کہا کہ وہ اُس ملک کی ”سب سے اڑیل اِنسان تھیں۔“
15 بہن ویلنٹینا گرنوسکیا کو سابقہ سوویت یونین میں تین بار قید کِیا گیا۔ اُنہوں نے کُل 21 سال جیل میں گزارے۔ لیکن اُن کے ساتھ ایسا کیوں کِیا گیا؟ وہ مُنادی کا کام کرنے کے لیے اِتنی پُرعزم تھیں کہ سرکاری افسروں نے اُنہیں ”ایک خطرناک مُجرم“ کا لقب دیا ہوا تھا۔ یہ دونوں بہنیں اِتنی دلیری کیسے دِکھا پائیں؟ اُنہیں پورا یقین تھا کہ یہوواہ اُن کے ساتھ ہے۔
16. ہمیں حقیقی دلیری کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟
16 جیسے کہ ہم نے بات کی ہے، اگر ہم اپنی دلیری کو بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی طاقت اور صلاحیتوں پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے۔ اِس کی بجائے ہمیں یہ یقین رکھنا چاہیے کہ یہوواہ ہمارے ساتھ ہے اور وہ ہماری طرف سے لڑتا ہے۔ (اِست 1:29، 30؛ زک 4:6) اِس یقین کی بدولت ہی ہمیں حقیقی دلیری مل سکتی ہے۔
لوگوں کی نفرت کا سامنا کیسے کریں؟
17، 18. یسوع مسیح نے یوحنا 15:18-21 میں اپنے پیروکاروں کو کس حوالے سے آگاہ کِیا؟
17 ہم سب کو اُس وقت بہت اچھا لگتا ہے جب دوسرے لوگ ہماری عزت کرتے ہیں۔ لیکن اگر دوسرے ہمیں پسند نہیں کرتے تو ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہماری کوئی وقعت نہیں ہے۔ یسوع مسیح نے کہا: ”جب لوگ اِنسان کے بیٹے کی وجہ سے آپ سے نفرت کرتے ہیں، آپ سے تعلق توڑتے ہیں، آپ کو طعنے دیتے ہیں اور آپ کا نام بدنام کرتے ہیں تو آپ خوش رہتے ہیں۔“ (لُو 6:22) یسوع کی اِس بات کا کیا مطلب تھا؟
18 یسوع یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ اُن کے پیروکاروں کو دوسروں کی نفرت کا سامنا کر کے اچھا لگے گا۔ اِس کی بجائے وہ اُنہیں آگاہ کر رہے تھے کہ لوگ اُن کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کریں گے۔ ہم اِس دُنیا کا حصہ نہیں ہیں۔ ہم یسوع کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اور اُس پیغام کی مُنادی کرتے ہیں جس کی مُنادی اُنہوں نے کی۔ اِس وجہ سے دُنیا ہم سے نفرت کرتی ہے۔ (یوحنا 15:18-21 کو پڑھیں۔) لیکن ہم یہوواہ کو خوش کرنا چاہتے ہیں، دُنیا کو نہیں۔ لہٰذا اگر لوگ ہم سے اِس لیے نفرت کرتے ہیں کیونکہ ہم یہوواہ سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
19. ہم رسولوں کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
19 یہ ٹھان لیں کہ آپ اِنسانوں کی کسی بھی بات یا کام کی وجہ سے یہوواہ کے گواہ ہونے پر شرمندگی محسوس نہیں کریں گے۔ (میک 4:5) اِنسان کے خوف پر قابو پانے کے سلسلے میں ہم اُس وقت کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جب یسوع کی موت کے بعد رسول یروشلیم میں تھے۔ وہ جانتے تھے کہ یہودی مذہبی رہنما اُن سے کتنی نفرت کرتے ہیں۔ (اعما 5:17، 18، 27، 28) لیکن پھر بھی رسول ہر روز ہیکل میں جاتے تھے اور وہاں مُنادی کرنے سے یہ ظاہر کرتے تھے کہ وہ یسوع کے شاگرد ہیں۔ (اعما 5:42) وہ خوف کی لپیٹ میں نہیں آئے۔ اگر ہم بھی اپنی ملازمت کی جگہ پر، سکول میں اور آس پڑوس میں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم یہوواہ کے گواہ ہیں تو ہم بھی اپنے دل سے اِنسان کے خوف کو مٹا سکتے ہیں۔—اعما 4:29؛ روم 1:16۔
20. یسوع کے رسول لوگوں کی نفرت کا سامنا کرنے کے باوجود خوش کیوں تھے؟
20 رسول خوش کیوں تھے؟ وہ جانتے تھے کہ اُن سے نفرت کیوں کی جا رہی ہے اور وہ اِس بات کو ایک اعزاز خیال کرتے تھے کہ اُنہیں یہوواہ کی مرضی پر چلنے کی وجہ سے بدسلوکی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ (لُو 6:23؛ اعما 5:41) اُس وقت کے کئی سال بعد پطرس رسول نے لکھا: ”اگر آپ کو نیک ہونے کی وجہ سے تکلیف دی بھی جائے تو آپ خوش ہوں گے۔“ (1-پطر 2:19-21؛ 3:14) جب ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ ہمیں صحیح کام کرنے کی وجہ سے نفرت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو ہم کبھی اِنسان کے خوف کا شکار ہو کر یہوواہ کی خدمت کرنی نہیں چھوڑیں گے۔
کیا آپ تیار ہیں؟
21، 22. (الف) آپ کیا کریں گے تاکہ آپ خود کو اذیت کا سامنا کرنے کے لیے تیار کر سکیں؟ (ب) ہم اگلے مضمون میں کیا سیکھیں گے؟
21 ہم نہیں جانتے کہ ہم پر کب کب اذیت کے تیر برسائے جائیں گے یا کب ہمارے کام پر پابندی لگا دی جائے گی۔ لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ ہم ابھی سے خود کو اذیت کے لیے تیار کیسے کر سکتے ہیں۔ ہم یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط کر سکتے ہیں، اَور دلیر بن سکتے ہیں اور اِنسانوں کی نفرت کا سامنا کرنا سیکھ سکتے ہیں۔ اگر ہم ابھی خود کو اِس طرح سے تیار کریں گے تو ہم مستقبل میں ثابتقدم رہ پائیں گے۔
22 لیکن اگر ہمارے کام پر پابندی لگا دی جائے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اگلے مضمون میں ہم کچھ ایسی باتوں پر غور کریں گے جو ایسی صورتحال میں ہمیں یہوواہ کی خدمت جاری رکھنے کے قابل بنا سکتی ہیں۔
گیت نمبر 54: اپنے ایمان کو مضبوط رکھو
a بےشک ہم میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اُس سے نفرت کی جائے۔ لیکن ہم سب کو کبھی نہ کبھی اذیت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اِس مضمون کی مدد سے ہم دلیری سے اذیت کا سامنا کرنے کے قابل بن پائیں گے۔
b تصویر کی وضاحت: ایک ماں باپ خاندانی عبادت میں اپنے بچوں کو بائبل کی آیتیں یاد کروانے کے لیے ایسے کارڈ اِستعمال کر رہے ہیں جن پر ایک طرف بائبل کی آیت لکھی ہے اور دوسری طرف اُس کا حوالہ۔
c تصویر کی وضاحت: ایک خاندان اپنی گاڑی میں اِجلاس پر جاتے ہوئے گیت گانے کی مشق کر رہا ہے۔