باب 35
یسوع مسیح کا مشہور وعظ
متی 5:1–7:29 لُوقا 6:17-49
پہاڑی وعظ
پوری رات دُعا کرنے اور پھر 12 رسولوں کو چُننے کے بعد یسوع مسیح ضرور تھک گئے ہوں گے۔ اب دن چڑھ گیا تھا لیکن یسوع نے آرام کرنے کا نام نہیں لیا کیونکہ وہ لوگوں کی مدد کرنا چاہتے تھے۔ اُس وقت وہ گلیل کے ایک پہاڑ پر تھے جو کفرنحوم کے نزدیک تھا۔
بہت سے لوگ یسوع مسیح سے ملنے کے لیے وہاں آ رہے تھے۔ کچھ یروشلیم اور یہودیہ کے دوسرے شہروں سے آئے تھے جبکہ کچھ لوگ صور اور صیدا کے ساحلی علاقوں سے آئے تھے۔ وہ یسوع کی ”باتیں سننے اور بیماریوں سے شفا پانے کے لیے آئے تھے۔“ اور واقعی ”جو بھی [یسوع مسیح] کو چُھوتا، وہ ٹھیک ہو جاتا۔“ اِس کے علاوہ یسوع مسیح نے اُن لوگوں کو بھی ٹھیک کِیا ”جن کو [شیطان کے] بُرے فرشتوں نے پریشان کر رکھا تھا۔“—لُوقا 6:17-19۔
یسوع مسیح پہاڑ پر ایک ہموار جگہ پر رُک گئے اور لوگ اُن کے اِردگِرد جمع ہو گئے۔ یقیناً اُن کے شاگرد، خاص طور پر 12 رسول اُن کے سب سے نزدیک بیٹھے ہوں گے۔ وہ سب اِس اُستاد کی باتیں سننے کے لیے بےتاب تھے جو اِتنے بڑے معجزے کر سکتا تھا۔ پھر یسوع مسیح نے ایک ایسا وعظ کِیا جس سے وہاں موجود تمام لوگوں کو بہت فائدہ ہوا۔ اُس وقت سے لے کر آج تک بہت سے لوگوں نے بھی اِس وعظ سے فائدہ حاصل کِیا ہے۔ یہ وعظ ہمارے لیے بھی فائدہمند ہے کیونکہ اِس میں خدا کی گہری باتوں کو آسان اور واضح انداز میں پیش کِیا گیا۔ یسوع مسیح نے ایسی چیزوں کی مثالیں دیں جن سے لوگ واقف تھے۔ یوں ایسے لوگ اُن کی باتوں کو آسانی سے سمجھ سکے جو خدا کی راہ پر چلنا چاہتے تھے۔ آئیں، دیکھیں کہ اِس وعظ میں کون سی فائدہمند باتیں بتائی گئی ہیں۔
حقیقی خوشی کیسے مل سکتی ہے؟
یسوع مسیح جانتے تھے کہ ہر شخص خوش رہنا چاہتا ہے۔ اِس لیے اُنہوں نے اپنے وعظ کا آغاز حقیقی خوشی حاصل کرنے کے موضوع سے کِیا۔ لوگ بڑی توجہ سے اُن کی باتیں سننے لگے۔ لیکن یسوع مسیح کی کچھ باتیں شاید اُنہیں عجیب لگی ہوں۔
یسوع نے کہا: ”وہ لوگ خوش رہتے ہیں جن کو احساس ہے کہ اُنہیں خدا کی رہنمائی کی ضرورت ہے کیونکہ آسمان کی بادشاہت اُن کی ہے۔ وہ لوگ خوش رہتے ہیں جو ماتم کرتے ہیں کیونکہ اُن کو تسلی ملے گی۔ . . . وہ لوگ خوش رہتے ہیں جو نیکی کے لیے ترستے ہیں کیونکہ اُن کی خواہش پوری ہوگی۔ . . . وہ لوگ خوش رہتے ہیں جن کو نیکی کرنے کی وجہ سے اذیت دی جاتی ہے کیونکہ آسمان کی بادشاہت اُن کی ہے۔ جب آپ کو میرے شاگرد ہونے کی وجہ سے طعنے دیے جاتے ہیں، اذیت پہنچائی جاتی ہے اور آپ کے خلاف جھوٹی باتیں پھیلائی جاتی ہیں تو آپ خوش رہتے ہیں۔ . . . خوش ہوں اور خوشی سے جھومیں۔“—متی 5:3-12۔
یسوع مسیح کس طرح کی خوشی کی بات کر رہے تھے؟ کیا وہ اُس وقتی خوشی کی بات کر رہے تھے جو موج مستی اور ہنسی مذاق کرنے سے ملتی ہے؟ نہیں۔ حقیقی خوشی ایک گہرا احساس ہے۔ اِس کا تعلق ہر حال میں مطمئن رہنے اور یہ جاننے سے ہے کہ ہماری زندگی بامقصد ہے۔
یسوع مسیح نے کہا کہ وہ لوگ حقیقی معنوں میں خوش ہیں جن کو احساس ہے کہ اُنہیں خدا کی رہنمائی کی ضرورت ہے، جو اپنی گُناہگار حالت پر ماتم کرتے ہیں اور جو خدا کو جاننا اور اُس کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ اُس وقت بھی خوش رہتے ہیں جب اُنہیں خدا کی مرضی بجا لانے کی وجہ سے اذیت پہنچائی جاتی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ خدا اُن سے خوش ہے اور اُنہیں ہمیشہ کی زندگی اِنعام میں دے گا۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ امیر ہونے اور عیش کرنے سے ہی حقیقی خوشی ملتی ہے۔ مگر یسوع مسیح کے مطابق ایسا نہیں ہے۔ اُنہوں نے ایک ایسی بات کہی جس سے اُن کے سننے والے سوچنے پر مجبور ہو گئے ہوں گے۔ اُنہوں نے کہا: ”آپ جو امیر ہیں، آپ پر افسوس کیونکہ جو آراموسکون آپ کو مل چُکا ہے، اُس کے علاوہ اَور نہیں ملے گا۔ آپ جو اب سیر ہیں، آپ پر افسوس کیونکہ آپ بھوکے ہو جائیں گے۔ آپ جو اب ہنس رہے ہیں، آپ پر افسوس کیونکہ آپ روئیں گے اور ماتم کریں گے۔ آپ پر افسوس جب سب لوگ آپ کی تعریفیں کرتے ہیں کیونکہ اُن کے باپدادا نے جھوٹے نبیوں کے ساتھ ایسا ہی کِیا تھا۔“—لُوقا 6:24-26۔
لیکن اُن لوگوں پر افسوس کیوں جو امیر ہیں، ہنس رہے ہیں اور جن کی تعریفیں کی جاتی ہیں؟ کیونکہ ایسی صورتحال میں لوگ اکثر خدا کی خدمت کو نظرانداز کرتے ہیں اور یوں حقیقی خوشی حاصل کرنے کا موقع گنوا دیتے ہیں۔ تو پھر کیا یسوع مسیح یہ کہہ رہے تھے کہ صرف غریب یا بھوکے لوگوں کو حقیقی خوشی مل سکتی ہے؟ نہیں۔ مگر اکثر ایسے لوگ یسوع مسیح کی باتوں کو قبول کرتے ہیں جو ضرورتمند ہوتے ہیں۔
پھر یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا: ”آپ دُنیا کے نمک ہیں۔“ (متی 5:13) ظاہری بات ہے کہ شاگرد اصلی معنوں میں نمک نہیں تھے۔ نمک کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ چیزوں کو خراب ہونے سے محفوظ رکھتا ہے۔ اِس لیے پاک کلام میں اِسے اکثر یہ ظاہر کرنے کے لیے اِستعمال کِیا گیا ہے کہ ایک چیز عیب اور بگاڑ سے پاک ہے۔ مثال کے طور پر ہیکل میں قربانگاہ کے نزدیک نمک کا ایک ڈھیر ہوتا تھا اور ہر قربانی کے ساتھ نمک بھی چھڑکا جاتا تھا۔ (احبار 2:13؛ حِزقیایل 43:23، 24) یسوع مسیح کے شاگرد اِس لحاظ سے ”دُنیا کے نمک ہیں“ کہ وہ لوگوں کو ایک ایسا پیغام دے رہے ہیں جس سے اُن کی زندگی محفوظ رہ سکتی ہے۔ جو لوگ اُن کے پیغام کو قبول کرتے ہیں، وہ خدا سے دُور ہونے اور غلط کاموں میں پڑنے سے محفوظ رہتے ہیں۔
یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے یہ بھی کہا کہ ”آپ دُنیا کی روشنی ہیں۔“ لوگ چراغ جلا کر اُسے ٹوکری کے نیچے نہیں رکھتے بلکہ چراغدان پر رکھتے ہیں تاکہ ہر طرف روشنی ہو۔ اِس لیے یسوع مسیح نے یہ ہدایت دی: ”آپ بھی اپنی روشنی سب لوگوں پر چمکائیں تاکہ وہ آپ کے اچھے کاموں کو دیکھ کر آپ کے آسمانی باپ کی بڑائی کریں۔“—متی 5:14-16۔
چالچلن کے سلسلے میں اُونچے معیار
یہودیوں کے مذہبی رہنما یسوع مسیح کو مار ڈالنا چاہتے تھے کیونکہ اُن کے خیال میں وہ شریعت کو توڑ رہے تھے۔ یسوع مسیح نے اُن کے اِلزام کو غلط ثابت کرنے کے لیے کہا: ”یہ نہ سوچیں کہ مَیں شریعت یا نبیوں کی تعلیم کو مٹانے آیا ہوں۔ مَیں اِن کو مٹانے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔“—متی 5:17۔
یسوع مسیح خدا کی شریعت کی بڑی قدر کرتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ اُن کے پیروکار بھی اِس کی قدر کریں۔ اُنہوں نے کہا: ”جو شخص شریعت کے سب سے چھوٹے حکم کو توڑتا ہے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنا سکھاتا ہے، وہ آسمان کی بادشاہت کے لائق نہیں ہوگا“ یعنی ایسا شخص خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہوگا۔ یسوع مسیح نے آگے کہا: ”لیکن جو اِن حکموں پر عمل کرتا ہے اور دوسروں کو بھی ایسا کرنا سکھاتا ہے، وہ آسمان کی بادشاہت کے لائق ہوگا۔“—متی 5:19۔
یسوع مسیح نے تو اُس سوچ کو بھی بُرا کہا جو بُرے کاموں کا باعث بنتی ہے۔ اُنہوں نے شریعت کے اِس حکم کا ذکر کِیا کہ ”قتل نہ کرو“ اور پھر کہا: ”جس شخص کے دل میں اپنے بھائی کے خلاف غصہ بھڑکتا رہتا ہے، اُس کو مقامی عدالت میں پیش کِیا جائے گا۔“ (متی 5:21، 22) جب ایک شخص دل ہی دل میں کسی سے غصہ رہتا ہے تو اِس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں، یہاں تک کہ وہ قتل کرنے پر بھی اُتر سکتا ہے۔ اِس لیے یسوع مسیح نے بتایا کہ ہمیں صلح کرنے کی خاطر کس حد تک جانے کو تیار ہونا چاہیے۔ اُنہوں نے کہا: ”اگر آپ قربانگاہ پر نذرانہ پیش کرنے جا رہے ہوں اور آپ کو یاد آئے کہ آپ کا بھائی آپ سے ناراض ہے تو اپنا نذرانہ وہیں قربانگاہ کے آگے چھوڑ دیں۔ پہلے جا کر اپنے بھائی سے صلح کریں اور پھر واپس آ کر نذرانہ پیش کریں۔“—متی 5:23، 24۔
شریعت میں زِنا کرنے سے بھی منع کِیا گیا تھا۔ یسوع مسیح نے اِ س کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ”آپ جانتے ہیں کہ کہا گیا تھا: ”زِنا نہ کرو۔“ لیکن مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ اگر ایک شخص ایک عورت کو ایسی نظر سے دیکھتا رہے کہ اُس کے دل میں اُس عورت کے لیے جنسی خواہش بھڑک اُٹھے تو وہ اپنے دل میں اُس کے ساتھ زِنا کر چُکا ہے۔“ (متی 5:27، 28) یسوع مسیح محض اُن گندے خیالوں کا ذکر نہیں کر رہے تھے جو کبھی کبھی دل میں اُٹھتے ہیں۔ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ اگر ایک شخص کسی کو غلط نظر سے ’دیکھتا رہتا ہے‘ تو اُس کی جنسی خواہش اِتنی شدید ہو سکتی ہے کہ موقع ملنے پر وہ زِناکاری کر بیٹھتا ہے۔ ایک شخص ایسا غلط کام کرنے سے کیسے بچ سکتا ہے؟ یسوع مسیح کے مطابق اُسے جیتوڑ کوشش کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اُنہوں نے کہا: ”اگر آپ کی دائیں آنکھ آپ کو گمراہ کر رہی ہے تو اِسے نکال کر پھینک دیں۔ . . . اگر آپ کا دایاں ہاتھ آپ کو گمراہ کر رہا ہے تو اِسے کاٹ کر پھینک دیں۔“—متی 5:29، 30۔
کچھ لوگ اپنی جان بچانے کے لیے اپنے کسی گلے سڑے عضو کو کٹوا دیتے ہیں۔ یسوع مسیح نے کہا کہ ہمیں بھی ہر اُس چیز کو پھینک دینا چاہیے جس سے ہمارے دل میں گندی خواہشیں پیدا ہو سکتی ہیں تاکہ ہم گندے کاموں سے بچ سکیں، چاہے یہ چیز ہماری آنکھ یا ہاتھ جتنی قیمتی کیوں نہ ہو۔ اُنہوں نے کہا: ”بہتر ہے کہ آپ کا ایک عضو نہ رہے بجائے اِس کے کہ آپ کا سارا جسم ہنوم کی وادی میں ڈالا جائے“ یعنی ہمیشہ کے لیے ہلاک ہو جائے۔ ہنوم کی وادی یروشلیم کے جنوب مغرب میں واقع ایک وادی تھی جہاں کچرا جلایا جاتا تھا اور اِس لیے یسوع نے اِسے ابدی ہلاکت کی طرف اِشارہ کرنے کے لیے اِستعمال کِیا۔
یسوع مسیح نے یہ بھی بتایا کہ ہمیں اُن لوگوں کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہیے جنہوں نے ہمارا دل دُکھایا ہے یا ہمیں ٹھیس پہنچائی ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”بُرے شخص کا مقابلہ نہ کریں بلکہ اگر کوئی آپ کے دائیں گال پر تھپڑ مارے تو بایاں بھی اُس کی طرف کر دیں۔“ (متی 5:39) اِس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر کوئی ہم پر حملہ کرے تو ہمیں اپنا یا اپنے گھر والوں کا دِفاع نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن تھپڑ ایک شخص کو زخمی کرنے یا مار ڈالنے کے لیے نہیں مارا جاتا بلکہ تھپڑ تو کسی کی بےعزتی کرنے کے لیے مارا جاتا ہے۔ لہٰذا یسوع مسیح مشورہ دے رہے تھے کہ اگر ایک شخص لڑائی کرنے کی غرض سے ہمیں تھپڑ مارے یا طعنے دے تو ہمیں اُس سے اُلجھنا نہیں چاہیے۔
یسوع کا یہ مشورہ خدا کے اِس حکم سے میل کھاتا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسی سے محبت کرنی چاہیے۔ اِس لیے اُنہوں نے آگے کہا: ”اپنے دُشمنوں سے محبت کریں اور جو آپ کو اذیت دیتے ہیں، اُن کے لیے دُعا کرتے رہیں۔“ اُنہوں نے اِس کی وجہ یوں بتائی: ”تاکہ آپ ثابت کریں کہ آپ اپنے آسمانی باپ کے بیٹے ہیں کیونکہ وہ اچھے اور بُرے لوگوں پر سورج چمکاتا ہے اور نیکوں اور بدوں دونوں پر بارش برساتا ہے۔“—متی 5:44، 45۔
یسوع مسیح نے اپنی بات کا خلاصہ اِن الفاظ میں کِیا: ”کامل بنیں جیسے آپ کا آسمانی باپ کامل ہے۔“ (متی 5:48) ظاہری بات ہے کہ اِنسان ہر لحاظ سے کامل نہیں ہو سکتے۔ تو پھر ہم خدا کی طرح کامل کیسے بن سکتے ہیں؟ ہم اُس کی مثال پر عمل کر سکتے ہیں۔ اِس میں یہ شامل ہے کہ ہم اپنے دُشمنوں سے بھی محبت کریں۔ یوں ہم یسوع مسیح کی اِس ہدایت پر بھی عمل کر رہے ہوں گے کہ ”رحمدل ہوں جیسے آپ کا آسمانی باپ رحمدل ہے۔“—لُوقا 6:36۔
دُعا اور خدا پر بھروسا کرنے کی اہمیت
یسوع مسیح نے اپنے وعظ میں لوگوں کو یہ بھی ہدایت دی: ”خبردار رہیں، دِکھاوے کے لیے نیکی نہ کریں۔ . . . خیرات دیتے وقت نرسنگا نہ بجائیں جیسے ریاکار . . . کرتے ہیں۔“ (متی 6:1، 2) یوں اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ وہ ایسے لوگوں کے خلاف تھے جو مذہبی ہونے کا دِکھاوا کرتے تھے۔ لہٰذا جب ہم خیرات دیتے ہیں تو ہمیں یہ بات دوسروں پر ظاہر نہیں کرنی چاہیے۔
پھر یسوع مسیح نے کہا: ”جب آپ دُعا کریں تو ریاکاروں کی طرح دُعا نہ کریں کیونکہ وہ عبادتگاہوں اور چوکوں میں کھڑے ہو کر دُعا کرتے ہیں تاکہ لوگ اُن کو دیکھیں۔“ اِس کی بجائے اُنہوں نے کہا: ”مگر جب آپ دُعا کریں تو اپنے کمرے میں جائیں اور دروازہ بند کریں اور اپنے آسمانی باپ سے دُعا کریں جسے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ پھر آپ کا باپ جو سب کچھ دیکھتا ہے، آپ کو اجر دے گا۔“ (متی 6:5، 6) یسوع مسیح یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ ہمیں دوسروں کے سامنے دُعا نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اُنہوں نے خود بھی کبھی کبھار دوسروں کے سامنے دُعا کی۔ البتہ اُنہوں نے ایسی دُعاؤں کو غلط کہا جو دوسروں کو متاثر کرنے یا اُن سے داد حاصل کرنے کے لیے کی جاتی ہیں۔
یسوع مسیح نے لوگوں کو ہدایت دی کہ ”دُعا کرتے وقت بار بار ایک ہی بات کو نہ دُہرائیں جیسے غیریہودی کرتے ہیں۔“ (متی 6:7) وہ یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ بار بار ایک ہی موضوع کے بارے میں دُعا کرنا غلط ہے۔ دراصل وہ رٹی رٹائی دُعاؤں کو غلط کہہ رہے تھے جن میں ’بار بار ایک ہی بات کو دُہرایا‘ جاتا ہے۔ پھر اُنہوں نے دُعا کا ایک نمونہ دیا جس میں سات درخواستیں تھیں۔ پہلی تین درخواستوں کا تعلق خدا کی حکمرانی اور مقاصد سے تھا یعنی اُس کے نام، اُس کی بادشاہت اور اُس کی مرضی سے۔ ایسی باتوں کے بارے میں دُعا کرنے کے بعد ہی ہمیں ذاتی درخواستیں کرنی چاہئیں، مثلاً اپنی روزمرہ کی ضروریات اور گُناہوں کی معافی کی درخواست۔ ہم یہ بھی درخواست کر سکتے ہیں کہ خدا ہمیں آزمائش کے وقت ثابتقدم رہنے کی طاقت دے اور ہمیں شیطان کے واروں سے بچائے۔
ہمیں اپنے مالواسباب کو کتنی اہمیت دینی چاہیے؟ یسوع مسیح نے ہدایت دی کہ ”اپنے لیے زمین پر خزانے مت جمع کریں جہاں کیڑا اور زنگ لگ جاتا ہے اور چور چوری کرتے ہیں۔“ یہ کتنی اچھی ہدایت ہے! ہم زمین پر جو خزانہ جمع کرتے ہیں، یہ آنی جانی شے ہے۔ اِس کے ذریعے ہم خدا کی قربت حاصل نہیں کر سکتے۔ اِس لیے یسوع مسیح نے آگے کہا: ”آسمان پر خزانے جمع کریں۔“ خدا کی خدمت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینے سے ہم اِس ہدایت پر عمل کرتے ہیں۔ خدا کی دوستی ایک ایسی چیز ہے جو ہم سے چھینی نہیں جا سکتی اور اِس کے نتیجے میں ہمیں ایسا اِنعام ملے گا جسے کوئی چُرا نہیں سکتا یعنی ہمیشہ کی زندگی۔ یسوع مسیح نے بالکل صحیح کہا کہ ”جہاں آپ کا خزانہ ہے وہیں آپ کا دل بھی ہوگا۔“—متی 6:19-21۔
اپنی اِس بات پر زور دینے کے لیے یسوع نے یہ مثال دی: ”جسم کا چراغ آنکھ ہے۔ اگر آپ کی آنکھ منزل پر ٹکی ہے تو آپ کا پورا جسم روشن ہوگا۔ لیکن اگر آپ کی آنکھ بُری چیزوں پر ٹکی ہے تو آپ کا پورا جسم تاریک ہوگا۔“ (متی 6:22، 23) ہماری آنکھ ہمارے جسم کے لیے تبھی چراغ کی طرح ہوگی جب ہمارا دھیان صحیح منزل پر لگا ہوگا یعنی خدا کی خدمت پر۔ لیکن اگر ہمارا دھیان مالواسباب جمع کرنے پر لگا رہے گا تو ہمارا ”پورا جسم تاریک ہوگا“ یعنی ہم بُرے کام کرنے کے خطرے میں ہوں گے۔
پھر یسوع مسیح نے ایک بہت ہی موزوں مثال دی: ”کوئی شخص دو مالکوں کا غلام نہیں ہو سکتا۔ یا تو وہ ایک سے محبت رکھے گا اور دوسرے سے نفرت یا پھر وہ ایک سے لپٹا رہے گا اور دوسرے کو حقیر جانے گا۔ آپ خدا اور دولت دونوں کے غلام نہیں بن سکتے۔“—متی 6:24۔
جو لوگ یسوع مسیح کا وعظ سُن رہے تھے، اُن میں سے شاید کچھ اپنی روزمرہ ضروریات کی وجہ سے پریشان تھے۔ اِس لیے یسوع مسیح نے اُن سے کہا کہ اُنہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے بشرطیکہ وہ خدا کی خدمت کو اپنی زندگی میں سب سے اہم مقام دیں۔ اُنہوں نے کہا: ”ذرا آسمان کے پرندوں کو غور سے دیکھیں۔ وہ نہ تو بیج بوتے ہیں، نہ فصل کاٹتے ہیں اور نہ ہی اِسے گودام میں جمع کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی آپ کا آسمانی باپ اُن کو کھانا دیتا ہے۔“—متی 6:26۔
پھر یسوع مسیح نے اُن پھولوں کی طرف اِشارہ کِیا جو اُن کے اِردگِرد پہاڑ پر اُگے ہوئے تھے اور کہا: ”سلیمان بادشاہ بھی اِتنا شاندار لباس نہیں پہنتے تھے جتنا یہ پھول پہنتے ہیں۔“ اِس سے یسوع نے کیا سبق سکھایا؟ یہ کہ ”اگر خدا کھیت کے پھولوں کو اِتنا شاندار لباس پہناتا ہے جو آج ہیں اور کل تندور میں جھونکے جائیں گے تو کیا وہ آپ کو کپڑے مہیا نہیں کرے گا؟“ (متی 6:29، 30) پھر اُنہوں نے یہ نصیحت کی: ”کبھی فکر نہ کریں اور یہ نہ کہیں کہ ”ہم کیا کھائیں گے؟“ یا ”ہم کیا پئیں گے؟“ یا ”ہم کیا پہنیں گے؟“ . . . آپ کا آسمانی باپ جانتا ہے کہ آپ کو اِن چیزوں کی ضرورت ہے۔ اِس لیے خدا کی بادشاہت اور اُس کے نیک معیاروں کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیتے رہیں پھر باقی ساری چیزیں بھی آپ کو دی جائیں گی۔“—متی 6:31-33۔
زندگی کی طرف لے جانے والی راہ
رسول اور یسوع مسیح کے دوسرے شاگرد خدا کو خوش کرنا چاہتے تھے لیکن اُس زمانے میں یہ اِتنا آسان نہیں تھا۔ بہت سے فریسی دوسروں کی نکتہچینی کرتے تھے اور بات بات پر اُنہیں قصوروار ٹھہراتے تھے۔ اِس لیے یسوع مسیح نے وہاں موجود لوگوں سے کہا: ”دوسروں میں نقص نکالنا چھوڑ دیں تاکہ آپ میں نقص نہ نکالے جائیں کیونکہ جس بِنا پر آپ دوسروں میں نقص نکالتے ہیں اُسی بِنا پر آپ میں نقص نکالے جائیں گے۔“—متی 7:1، 2۔
فریسیوں کی مثال پر عمل کرنا دانشمندی کی بات نہیں تھی کیونکہ یسوع مسیح نے کہا: ”کیا ایک اندھا، دوسرے اندھے کی رہنمائی کر سکتا ہے؟ کیا وہ دونوں گڑھے میں نہیں گِر جائیں گے؟“ یسوع مسیح یہ نہیں چاہتے تھے کہ اُن کے شاگرد فریسیوں کی طرح دوسروں کی نکتہچینی کریں کیونکہ یہ ایک سنگین غلطی ہوتی۔ اُنہوں نے وہاں موجود لوگوں سے کہا: ”آپ اپنے بھائی سے یہ کیسے کہہ سکتے ہیں: ”لاؤ، مَیں تمہاری آنکھ سے تنکا نکال دوں“ جبکہ آپ اُس شہتیر کو نہیں دیکھتے ہیں جو آپ کی اپنی آنکھ میں ہے؟ ریاکار! پہلے اپنی آنکھ سے شہتیر نکال لو پھر تمہیں صاف نظر آئے گا کہ تُم اپنے بھائی کی آنکھ سے تنکا کیسے نکالو گے۔“—لُوقا 6:39-42۔
لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ہمیں دوسروں کی غلط سوچ کو ہمیشہ نظرانداز کرنا چاہیے کیونکہ یسوع مسیح نے یہ بھی کہا: ”پاک چیزیں کُتوں کے آگے نہ ڈالیں اور اپنے موتی سؤروں کے آگے نہ پھینکیں۔“ (متی 7:6) خدا کے کلام کی سچائیاں قیمتی موتیوں کی طرح ہیں۔ جس طرح جانور موتیوں کی قدر نہیں کرتے اِسی طرح کچھ لوگ پاک کلام کی سچائیوں کی قدر نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں پر وقت ضائع کرنے کی بجائے یسوع مسیح چاہتے تھے کہ اُن کے شاگرد اُن لوگوں کو بادشاہت کا پیغام سنائیں جو اِس کی قدر بھی کرتے ہیں۔
پھر یسوع مسیح نے دوبارہ سے دُعا کے موضوع پر بات کی۔ اُنہوں نے کہا: ”مانگتے رہیں تو آپ کو دیا جائے گا۔“ اُن کی اگلی بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا ہماری دُعائیں سننے کو تیار ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”اگر آپ کا بیٹا آپ سے روٹی مانگے تو کیا آپ اُسے پتھر دیں گے؟ . . . جب آپ جو گُناہگار ہیں، اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دیتے ہیں تو کیا آپ کا باپ جو آسمان پر ہے، اُن لوگوں کو اچھی چیزیں نہیں دے گا جو اُس سے مانگتے ہیں؟“—متی 7:7-11۔
اِس کے بعد یسوع مسیح نے یہ اہم اصول دیا: ”جیسا سلوک آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کے ساتھ کریں، آپ بھی اُن کے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں۔“ بِلاشُبہ ہم سب کو اِس اصول پر عمل کرنا چاہیے۔ لیکن ایسا کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا جیسا کہ یسوع مسیح کی اِس بات سے ظاہر ہوتا ہے: ”چھوٹے دروازے سے داخل ہوں کیونکہ وہ دروازہ بڑا ہے اور وہ راستہ کُھلا ہے جو تباہی کی طرف لے جاتا ہے اور اِس پر بہت لوگ چلتے ہیں جبکہ وہ دروازہ چھوٹا ہے اور وہ راستہ تنگ ہے جو زندگی کی طرف لے جاتا ہے اور اِس پر کم لوگ چلتے ہیں۔“—متی 7:12-14۔
یسوع مسیح نے شاگردوں کو اِس بات سے آگاہ کِیا کہ کچھ لوگ اُنہیں زندگی کی طرف لے جانے والے راستے سے گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اُنہوں نے کہا: ”جھوٹے نبیوں سے خبردار رہیں جو بھیڑوں کے رُوپ میں آپ کے پاس آتے ہیں لیکن اصل میں بھوکے بھیڑیے ہیں۔“ (متی 7:15) یسوع نے کہا کہ ایک درخت کے پھل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آیا وہ اچھا ہے یا بُرا۔ یہی بات اِنسانوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ اِس لیے ہم جھوٹے نبیوں کو اُن کی باتوں اور کاموں سے پہچان سکتے ہیں۔ یسوع مسیح کے مطابق صرف مُنہ سے یہ کہنا کافی نہیں کہ ”مَیں یسوع کا شاگرد ہوں“ بلکہ یہ بات ہمارے کاموں سے بھی ظاہر ہونی چاہیے۔ کچھ لوگ یسوع کو اپنا مالک تو کہتے ہیں لیکن وہ خدا کی مرضی پر نہیں چلتے۔ اُن سے یسوع مسیح کہیں گے: ”بُرے کام کرنے والو، مَیں تمہیں نہیں جانتا۔ مجھ سے دُور ہو جاؤ!“—متی 7:23۔
یسوع مسیح نے اپنے وعظ کا اِختتام اِس مثال سے کِیا: ”جو شخص میری اِن باتوں کو سنتا ہے اور اِن پر عمل کرتا ہے، وہ اُس سمجھدار آدمی کی طرح ہے جس نے چٹان پر اپنا گھر بنایا۔ پھر بارش برسی اور سیلاب آیا اور تیز ہوا چلی اور بڑے زور سے گھر سے ٹکرائی لیکن وہ گھر گِرا نہیں کیونکہ اُس کی بنیاد چٹان پر ڈالی گئی تھی۔“ (متی 7:24، 25) اِس شخص کا گھر کیوں ٹکا رہا؟ کیونکہ اُس نے ”گھر بناتے وقت گہرائی تک کھدائی کی اور آخر زمین کی پتھریلی تہہ تک پہنچ گیا اور اِس پر بنیاد ڈالی۔“ (لُوقا 6:48) اِس آدمی نے خوب محنت کی۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح کی باتوں کو سننا ہی کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں اِن پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش بھی کرنی چاہیے۔
لیکن اُس شخص کا کیا انجام ہوگا جو یسوع مسیح کی ”باتوں کو سنتا ہے لیکن اِن پر عمل نہیں کرتا“؟ ”وہ اُس بےوقوف آدمی کی طرح ہے جس نے ریت پر اپنا گھر بنایا۔“ (متی 7:26) اُس شخص کا گھر بارشوں، تیز ہواؤں اور سیلاب کی زد میں آ کر گِر جائے گا۔
جب یسوع مسیح نے اپنا وعظ ختم کِیا تو لوگ اُن کے تعلیم دینے کے انداز پر حیران رہ گئے کیونکہ وہ شریعت کے عالموں کی طرح نہیں بلکہ اِختیار کے ساتھ تعلیم دے رہے تھے۔ یقیناً اُن میں سے بہت سے لوگ یسوع کے شاگرد بن گئے۔