یہوواہ کا کلام زندہ ہے
لوقا کی کتاب سے اہم نکات
متی نے اپنی انجیل خاص طور پر یہودیوں کے لئے لکھی جبکہ مرقس نے غیریہودیوں کو ذہن میں رکھ کر اپنی انجیل درج کی۔ لیکن لوقا نے اپنی انجیل سب قوموں کے لوگوں کے لئے لکھی۔ اِس انجیل کو ۵۶-۵۸ عیسوی کے لگبھگ لکھا گیا۔ لوقا نے اِس میں یسوع مسیح کی زندگی کے بارے میں بہت سی تفصیلات بتائی ہیں۔
لوقا طبیب یعنی ڈاکٹر تھا۔ اُس کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑا ہمدرد تھا اور تفصیلات پر توجہ دیتا تھا۔ اُس نے ۳ قبلِمسیح سے لیکر ۳۳ عیسوی تک یعنی ۳۵ سال کے دوران پیش آنے والے واقعات ”کا سلسلہ شروع سے ٹھیک ٹھیک دریافت کرکے“ درج کِیا۔ (لو ۱:۳) لوقا کی انجیل میں جو معلومات شامل کی گئی ہیں، اِن میں سے تقریباً ۶۰ فیصد دوسری اناجیل میں نہیں پائی جاتی ہیں۔
یسوع مسیح کی خدمت کا آغاز
(لو ۱:۱–۹:۶۲)
سب سے پہلے لوقا نے یوحنا بپتسمہ دینے والے اور یسوع، دونوں کی پیدائش کے بارے میں بتایا۔ پھر اُس نے یہ بتایا کہ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے ”تبریسؔ قیصر کی حکومت کے پندرھویں برس“ یعنی ۲۹ عیسوی میں لوگوں کو بپتسمہ دینا شروع کِیا۔ (لو ۳:۱، ۲) اُسی سال کے موسمِخزاں میں یسوع نے یوحنا کے پاس آ کر بپتسمہ لیا۔ (لو ۳:۲۱، ۲۲) سن ۳۰ میں یسوع ’گلیلؔ کو لوٹا اور عبادتخانوں میں تعلیم دیتا رہا۔‘—لو ۴:۱۴، ۱۵۔
اُس وقت یسوع مسیح نے گلیل کا دورہ کرنا شروع کِیا۔ اُس نے لوگوں سے کہا: ”مجھے اَور شہروں میں بھی خدا کی بادشاہی کی خوشخبری سنانا ضرور ہے۔“ (لو ۴:۴۳) اُس نے شمعون نامی ماہیگیر سمیت کئی آدمیوں کو اپنے ساتھ آنے کی دعوت دی اور اُن سے کہا: ”اب سے تُو آدمیوں کا شکار کِیا کرے گا۔“ (لو ۵:۱-۱۱؛ متی ۴:۱۸، ۱۹) جب یسوع نے دوسری بار گلیل کا دورہ کِیا تو اُس کے ۱۲ رسولوں نے اُس کا ساتھ دیا۔ (لو ۸:۱) پھر اپنے تیسرے دورے پر اُس نے اِن ۱۲ رسولوں کو ”خدا کی بادشاہی کی مُنادی کرنے“ کے لئے اپنے آگے آگے بھیجا۔—لو ۹:۱، ۲۔
صحیفائی سوالات کے جواب:
۱:۳۵—کیا انسان کے طور پر یسوع کا وجود مریم کے ایک بیضہ سے شروع ہوا؟ یہ لازمی تھا کہ انسان کے طور پر یسوع کا وجود مریم کے ایک بیضہ سے شروع ہو، ورنہ خدا کا یہ وعدہ پورا نہ ہوتا کہ وہ ابرہام، یہوداہ اور داؤد کی نسل سے پیدا ہوگا۔ (پید ۲۲:۱۵، ۱۸؛ ۴۹:۱۰؛ ۲-سمو ۷:۸، ۱۶) یسوع کی بےعیب زندگی خدا کی پاک روح کے ذریعے مریم کے بیضہ میں منتقل کی گئی جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو گئی۔ (متی ۱:۱۸) ایسا لگتا ہے کہ مریم کے بیضہ میں جو بھی عیب تھا وہ خدا کی پاک روح کے اِس عمل سے مِٹ گیا تھا۔ اس طرح یسوع اپنی ماں کے رحم میں ایک بےعیب انسان کے طور پر پل سکتا تھا۔
۱:۶۲—کیا زکریاہ گونگا ہونے کے ساتھ ساتھ بہرا بھی پڑ گیا تھا؟ جینہیں۔ وہ بول تو نہیں سکتا تھا لیکن وہ سُن سکتا تھا۔ یہ سچ ہے کہ لوگوں نے ’اشاروں‘ سے اُس سے پوچھا کہ وہ اپنے بچے کا نام کیا رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ سُن چکا تھا کہ اُس کی بیوی نے بچے کے نام کے بارے میں کیا کہا تھا۔ اس لئے لوگوں نے ایک ایسا اشارہ کِیا گویا وہ زکریاہ سے پوچھ رہے ہوں کہ ”کیا تُو اپنی بیوی کی بات سے متفق ہے؟“ بعد میں صرف اُس کی بولنے کی صلاحیت بحال کی گئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس کی سننے کی صلاحیت متاثر نہیں ہوئی تھی۔—لو ۱:۱۳، ۱۸-۲۰، ۶۰-۶۴۔
۲:۱، ۲—”پہلی اِسمنویسی“ کے ذکر سے ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ یسوع کس سال میں پیدا ہوا؟ قیصر اَوگوستُس کی حکمرانی میں دو بار لوگوں کی ”اِسمنویسی“ یعنی مردمشماری کی گئی۔ پہلی اِسمنویسی سن ۲ قبلِمسیح میں ہوئی اور اِس سے دانیایل ۱۱:۲۰ کی پیشینگوئی پوری ہوئی۔ دوسری اِسمنویسی سن ۶ یا ۷ عیسوی میں ہوئی۔ (اعما ۵:۳۷) اِن دونوں اِسمنویسیوں کے دوران کورِنیس، سوریہ کے حاکم کے عہدے پر فائز تھا۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وہ وقفے کے ساتھ دو بار اِس عہدے پر فائز تھا۔ چونکہ لوقا نے پہلی اِسمنویسی کا ذکر کِیا اس لئے ہم جانتے ہیں کہ یسوع سن ۲ قبلِمسیح میں پیدا ہوا تھا۔
۲:۳۵—یہ پیشینگوئی کیسے پوری ہوئی کہ مریم کی جان ”تلوار سے چھد جائے گی“؟ مریم نے دیکھا کہ زیادہتر لوگوں نے یسوع کو مسیحا کے طور پر قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے علاوہ اُس نے یہ بھی دیکھا کہ یسوع کو بڑے ظالمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا۔ اِن باتوں سے مریم کو بڑا دُکھ ہوا گویا اُس کی جان تلوار سے چھد گئی۔—یوح ۱۹:۲۵۔
۹:۲۷، ۲۸—یسوع نے اپنے چند شاگردوں سے وعدہ کِیا تھا کہ جب تک وہ خدا کی بادشاہی کو نہ دیکھ لیں گے وہ ”موت کا مزہ ہرگز نہ چکھیں گے۔“ لوقا کے مطابق یسوع کی صورت ”کوئی آٹھ روز بعد“ بدل گئی جبکہ متی اور مرقس نے بتایا کہ یہ ”چھ دن کے بعد“ واقع ہوا۔ ان کے بیانات میں فرق کیوں ہے؟ (متی ۱۷:۱؛ مر ۹:۲) لوقا نے اپنے حساب میں دو اَور دنوں کو شامل کِیا، یعنی اُس دن کو جب یسوع نے یہ وعدہ کِیا تھا اور اُس دن کو جب یہ وعدہ پورا ہوا۔
۹:۴۹، ۵۰—جب ایک ایسے شخص نے جو یسوع کی پیروی نہیں کر رہا تھا اُس کے نام سے بدروحیں نکالیں تو یسوع نے اُسے منع کیوں نہیں کِیا؟ اُس وقت مسیحی کلیسیا قائم نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے یسوع پر ایمان لانے اور اُس کے نام سے بدروحیں نکالنے کے لئے یہ لازمی نہیں تھا کہ ایک شخص یسوع کے ہمراہ چلے۔—مر ۹:۳۸-۴۰۔
ہمارے لئے سبق:
۱:۳۲، ۳۳؛ ۲:۱۹، ۵۱۔ مریم نے اُن تمام واقعات اور باتوں کو اپنے دل میں رکھا جن کے ذریعے پیشینگوئیاں پوری ہوئیں۔ کیا ہم بھی ”دُنیا کے آخر ہونے“ کے بارے میں یسوع مسیح کی پیشینگوئیوں کو یاد رکھتے ہیں اور اِن کا مقابلہ ہمارے زمانے میں ہونے والے واقعات سے کرتے ہیں؟—متی ۲۴:۳۔
۲:۳۷۔ حنّاہ کی مثال سے ہم سیکھتے ہیں کہ ہمیں یہوواہ خدا کی عبادت کرنے میں ثابتقدم ہونے کی ضرورت ہے۔ آئیں ہم ”دُعا کرنے میں مشغول“ رہیں اور ”ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہونے سے باز نہ آئیں۔“—روم ۱۲:۱۲؛ عبر ۱۰:۲۴، ۲۵۔
۲:۴۱-۵۰۔ یوسف نے اپنی زندگی میں روحانی باتوں کو پہلا درجہ دیا۔ اس کے علاوہ اُس نے اپنے خاندان کی روحانی اور جسمانی ضروریات کو بھی پورا کِیا۔ اُس نے خاندان کے سربراہوں کے لئے بہت اچھی مثال قائم کی۔
۴:۴۔ ہمیں ہر روز خدا کے کلام پر غور کرنا چاہئے۔
۶:۴۰۔ ہمیں اُن لوگوں کے لئے اچھی مثال قائم کرنی چاہئے جنہیں ہم خدا کے کلام کے بارے میں تعلیم دیتے ہیں۔ جو باتیں ہم ان کو سکھاتے ہیں ہمیں اِن پر خود بھی عمل کرنا چاہئے۔
۸:۱۵۔ ’کلام کو دل میں سنبھالنے‘ اور ’صبر سے پھل لانے‘ کے لئے ہمیں خدا کے کلام کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اِس کی قدر بھی کرنی چاہئے۔ جب ہم بائبل یا اِس پر مبنی مطبوعات کو پڑھتے ہیں تو ہمیں دُعا کرنے کے ساتھ ساتھ مواد پر سوچبچار بھی کرنا چاہئے۔
یسوع مسیح کی خدمت کے آخری دن
(لو ۱۰:۱–۲۴:۵۳)
یسوع نے ستر آدمی مقرر کئے اور اُنہیں یہوداہ کے مختلف شہروں اور علاقوں کو بھیجا۔ (لو ۱۰:۱) وہ خود بھی ”شہر شہر اور گاؤں گاؤں تعلیم دیتا ہوا“ سفر کر رہا تھا۔—لو ۱۳:۲۲۔
سن ۳۳ کی عیدِپنتِکُست سے پانچ دن پہلے یسوع مسیح گدھی کے ایک بچے پر سوار یروشلیم میں داخل ہوا۔ اب وہ وقت نزدیک آ گیا تھا جب یسوع کے یہ الفاظ پورے ہونے والے تھے: ”ضرور ہے کہ ابنِآدم بہت دُکھ اُٹھائے اور بزرگ اور سردارکاہن اور فقیہ اُسے ردّ کریں اور وہ قتل کِیا جائے اور تیسرے دن جی اُٹھے۔“—لو ۹:۲۲، ۴۴۔
صحیفائی سوالات کے جواب:
۱۰:۱۸—یسوع کے اِن الفاظ کا مطلب کیا ہے کہ ”مَیں شیطان کو بجلی کی طرح آسمان سے گِرا ہوا دیکھ رہا تھا“؟ یسوع اپنے ۷۰ شاگردوں کو یہ نہیں بتا رہا تھا کہ شیطان کو اُس وقت آسمان سے گِرا دیا گیا تھا۔ یہ ۱۹۱۴ ہی میں واقع ہوا جب یسوع مسیح نے آسمان پر اپنی حکمرانی شروع کی تھی۔ (مکا ۱۲:۱-۱۰) ہم یقین سے تو نہیں کہہ سکتے کہ یسوع کیوں مستقبل میں ہونے والے ایک واقعے کو اس طرح سے بیان کر رہا تھا جیسا کہ وہ واقع ہو چکا ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ اِس بات پر زور دینا چاہتا تھا کہ یہ ضرور واقع ہوگا۔
۱۴:۲۶—مسیحیوں کو کس لحاظ میں اپنے رشتہداروں سے ’دشمنی کرنی‘ چاہئے؟ بائبل میں جب ”دُشمنی کرنے“ یا ”نفرت کرنے“ کی بات آتی ہے تو اکثر اس کا مطلب ہے، ایک شخص کو دوسرے کی نسبت کم چاہنا۔ (پید ۲۹:۳۰، ۳۱) مسیحیوں کو اِس لحاظ میں اپنے رشتہداروں سے ’دُشمنی کرنی‘ چاہئے کہ وہ اِنہیں اتنا عزیز نہ رکھیں جتنا کہ وہ یسوع کو عزیز رکھتے ہیں۔—متی ۱۰:۳۷۔
۱۷:۳۴-۳۷—”گدھ“ کس کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور وہ ”مُردار“ کیا ہے جس کے پاس وہ جمع ہوں گے؟ وہ لوگ جن کو ”لے لیا جائے گا“ یعنی جو نجات پائیں گے اِن کی تشبیہ گدھوں سے کی جاتی ہے۔ ”مُردار“ کا اشارہ خدا کی بادشاہت کے حکمران یسوع مسیح کی طرف ہے اور اُس روحانی خوراک کی طرف بھی جو یہوواہ خدا اپنے خادموں کو مہیا کرتا ہے۔—متی ۲۴:۲۸۔
۲۲:۴۴—یسوع سخت پریشانی میں کیوں مبتلا ہو گیا؟ اِس کی کئی وجوہات تھیں۔ چونکہ یسوع کو مُجرم کے طور پر سزا دی گئی تھی اس لئے وہ پریشان تھا کہ اِس وجہ سے یہوواہ خدا کی بدنامی ہوگی۔ اس کے علاوہ وہ جانتا تھا کہ صرف اُس کے وفادار رہنے پر ہی اُسے ہمیشہ کی زندگی حاصل ہوگی اور انسان ایک خوشگوار مستقبل کی اُمید رکھ سکیں گے۔
۲۳:۴۴—کیا تین گھنٹے تک اندھیرا چھا جانے کا سبب سورج گرہن تھا؟ جینہیں۔ سورج گرہن صرف نئے چاند کے وقت ہوتا ہے۔ لیکن عیدِفسح کے وقت چاند پورا ہوتا ہے۔ یسوع مسیح کی موت کے بعد اندھیرا چھا جانے کا سبب ایک معجزہ تھا۔
ہمارے لئے سبق:
۱۱:۱-۴۔ دُعا کے سلسلے میں یسوع کی یہ ہدایات اُن ہدایات سے فرق ہیں جو اُس نے ۱۸ مہینے پہلے پہاڑی وعظ میں دی تھیں۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دُعا کرتے وقت ہمیں محض زبانی یاد کی ہوئی باتوں کو نہیں دہرانا چاہئے۔—متی ۶:۹-۱۳۔
۱۱:۵، ۱۳۔ اگرچہ یہوواہ خدا ہماری دُعاؤں کو سننے کے لئے ہر وقت تیار ہے پھر بھی ہمیں بار بار ایک بات کی درخواست کرنی چاہئے۔—۱-یوح ۵:۱۴۔
۱۱:۲۷، ۲۸۔ وفاداری سے خدا کی مرضی پوری کرنے سے ہمیں جو خوشی حاصل ہوتی ہے وہ اُس خوشی سے بھی زیادہ ہے جو ہمیں اچھے خاندانی تعلقات یا دُنیا میں کامیاب ہونے سے حاصل ہوتی ہے۔
۱۱:۴۱۔ جب ہم دوسروں کی مدد کرنے کے لئے خیرات دیتے ہیں تو ہمیں محبت بھرے دل سے ایسا کرنا چاہئے۔
۱۲:۴۷، ۴۸۔ جو جانبوجھ کر اپنی ذمہداریوں کو پورا نہیں کرتا وہ اُن لوگوں کی نسبت زیادہ قصوروار ہے جو اپنی ذمہداریوں سے پوری طرح باخبر نہیں ہیں۔
۱۴:۲۸، ۲۹۔ ہمیں پیسوں کو سوچسمجھ کر اپنی آمدنی کے مطابق خرچ کرنا چاہئے۔
۲۲:۳۶-۳۸۔ یسوع یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ شاگردوں کو اپنی حفاظت کے لئے مسلح ہونا چاہئے۔ بلکہ وہ اپنے گرفتار ہونے کے موقع پر اُن کو یہ سبق سکھانا چاہتا تھا کہ ”جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے۔“—متی ۲۶:۵۲۔
[صفحہ ۳۱ پر تصویر]
یوسف نے خاندان کے سربراہوں کے لئے اچھی مثال قائم کی
[صفحہ ۳۲ پر تصویر]
تمام اناجیل میں سے لوقا کی انجیل میں یسوع مسیح کی زندگی کے بارے میں سب سے زیادہ تفصیلات بتائی گئی ہیں