آپ خدا کی نظروں میں گراںبہا ہیں!
”مَیں نے تجھ سے ابدی محبت رکھی اسی لئے مَیں نے اپنی شفقت تجھ پر بڑھائی۔“—یرمیاہ ۳۱:۳۔
۱. اپنے زمانے کے عام لوگوں کیساتھ یسوؔع مسیح کا رویہ فریسیوں سے کیسے مختلف تھا؟
وہ اسے اسکی آنکھوں میں دیکھ سکتے تھے۔ یہ آدمی، یسوؔع، اُنکے مذہبی پیشواؤں کیطرح ہرگز نہیں تھا؛ وہ پرواہ کرتا تھا۔ اسے ان لوگوں پر ترس آیا کیونکہ وہ ”اُن بھیڑوں کی مانند جنکا چرواہا نہ ہو خستہحال اور پراگندہ تھے۔“ (متی ۹:۳۶) ایک شفیق، رحمدل خدا کی نمائندگی کرتے ہوئے، انکے مذہبی پیشواؤں کیلئے ضروری تھا کہ شفیق چرواہے ہوں۔ اسکی بجائے وہ عام لوگوں کو نیچ—اور لعنتی سمجھ کر حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے!a (یوحنا ۷:۴۷-۴۹؛ مقابلہ کریں حزقیایل ۳۴:۴۔) واضح طور پر، ایسا گمراہکُن، غیرصحیفائی نظریہ اپنے لوگوں کی بابت یہوؔواہ کے نظریے سے بالکل مختلف تھا۔ اس نے اپنی قوم اسرائیل کو بتایا تھا: ”مَیں نے تجھ سے ابدی محبت رکھی“ ہے۔—یرمیاہ ۳۱:۳۔
۲. ایوؔب کے تین دوستوں نے کیسے اسے اس بات کیلئے قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ خدا کی نظروں میں ناچیز تھا؟
۲ تاہم، فریسی، قطعی طور پر، پہلے لوگ نہیں تھے جنہوں نے یہوؔواہ کی عزیز بھیڑوں کو اس بات کا یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ ناچیز ہیں۔ ایوؔب کے معاملہ پر غور کریں۔ یہوؔواہ کی نظر میں وہ راستباز اور بےقصور تھا لیکن تینوں ”تسلی دینے والوں“ نے درپردہ الزام لگایا کہ ایوؔب ایک بدکردار، شریر مُرتد تھا جو اپنے وجود کا کوئی بھی ثبوت چھوڑے بغیر مر جائیگا۔ انہوں نے دعویٰ کِیا کہ خدا ایوؔب کی طرف سے دکھائی گئی کسی بھی طرح کی راستبازی کی قدر نہیں کریگا، اسلئے کہ خدا نے تو خود اپنے فرشتوں پر بھی بھروسہ نہ کِیا اور آسمان کو بھی ناپاک خیال کِیا تھا!—ایوب ۱:۸؛ ۴:۱۸؛ ۱۵:۱۵، ۱۶؛ ۱۸:۱۷-۱۹؛ ۲۲:۳۔
۳. آجکل شیطان لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے کیلئے کونسے ذرائع استعمال کرتا ہے کہ وہ ناچیز اور محبت کے لائق نہیں ہیں؟
۳ آج بھی، شیطان لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے کیلئے اس ’مکارانہ چال‘ کو استعمال کر رہا ہے کہ ان سے محبت نہیں کی جاتی اور یہ کہ وہ ناچیز ہیں۔ (افسیوں ۶:۱۱) سچ ہے کہ وہ اکثر اُنکے بیجا غرور اور تکبّر کو اپیل کرتے ہوئے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۱۱:۳) لیکن وہ غیرمحفوظ لوگوں کی عزتِنفس کو مجروح کرکے بھی خوش ہوتا ہے۔ بالخصوص اس خراب ”اخیر زمانے“ میں ایسا ہی ہے۔ آجکل بہتیرے ایسے خاندانوں میں پرورش پاتے ہیں جو ”طبعی محبت سے خالی“ ہیں؛ بہتیروں کو روزانہ ایسے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو تندمزاج، خودغرض اور خودسر ہوتے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵) سالوں کی بدسلوکی، نسلی امتیاز، نفرت یا ظلموستم نے شاید ایسے لوگوں کو یقین دلا دیا ہو کہ وہ ناچیز اور محبت کے لائق نہیں ہیں۔ ایک آدمی نے لکھا: ”مَیں کسی کیلئے یا کسی کیطرف سے محبت محسوس نہیں کرتا۔ مَیں یہ یقین کرنا بڑا مشکل پاتا ہوں کہ خدا میری کوئی پرواہ کرتا ہے۔“
۴، ۵. (ا) اپنے آپکو ناچیز خیال کرنے کا نظریہ صحائف کے برعکس کیوں ہے؟ (ب) ہمارے یہ یقین رکھنے کا ایک خطرناک انجام کیا ہے کہ ہماری تمام کوششیں بیکار ہیں؟
۴ خود کو ناچیز سمجھنے کا نظریہ خدا کے کلام کی سچائی، فدیے کی تعلیم کی بنیاد کو دھچکا لگاتا ہے۔ (یوحنا ۳:۱۶) اگر ہمارے لئے ہمیشہ زندہ رہنے کا موقع فراہم کرنے کیلئے خدا اتنی بھاری قیمت—اپنے بیٹے کی گراںبہا زندگی—دے دیگا تو یقیناً وہ ہم سے محبت کرتا ہے؛ یقیناً ہم اسکی نظروں میں کوئی قیمتی چیز ہیں!
۵ مزیدبرآں، یہ محسوس کرنا حوصلہشکنی کی بات ہوگی کہ ہم خدا کیلئے ناپسندیدہ ہیں یہ کہ ہماری تمام کوششیں بالکل بیکار ہیں! (مقابلہ کریں امثال ۲۴:۱۰۔) اس منفی سوچ کیساتھ، جہاں تک ممکن ہو خدا کیلئے اپنی خدمت کو وسیع کرنے میں ہمیں مدد دینے کیلئے ترتیب دی گئی نیکنیتی پر مبنی حوصلہافزائی بھی شاید بعض کو ملامت کیطرح معلوم ہو۔ یہ ہمارے اپنے اس اندرونی یقینِکامل کی صدائےبازگشت ہی معلوم ہو سکتی ہے کہ جو کچھ ہم کرتے ہیں وہ کافی نہیں۔
۶. اپنے بارے میں انتہائی منفی خیالات کا ایک بہترین تریاق کیا ہے؟
۶ اگر آپ اپنے اندر ایسے منفی احساسات محسوس کرتے ہیں تو مایوس نہ ہوں۔ وقتاًفوقتاً ہم میں سے بہتیرے اپنے آپ پر بےجا تنقید کرتے ہیں۔ اور یاد رکھیں، خدا کا کلام ”اصلاح“ اور ”قلعوں کو ڈھا دینے“ کے لئے ہے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۶؛ ۲-کرنتھیوں ۱۰:۴) یوؔحنا رسول نے لکھا: ”اس سے ہم جانینگے کہ حق کے اور جس بات میں ہمارا دل ہمیں الزام دیگا اُسکے بارے میں ہم اسکے حضور اپنی دلجمعی کرینگے۔ کیونکہ خدا ہمارے دل سے بڑا ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔“ (۱-یوحنا ۳:۱۹، ۲۰) تو پھر، آیئے ہم تین ایسے طریقوں پر غور کریں جن سے بائبل ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم یہوؔواہ کیلئے گراںبہا ہیں۔
یہوؔواہ آپکی قدر کرتا ہے
۷. یسوؔع نے تمام مسیحیوں کو خدا کی نظروں میں انکی قدروقیمت کی بابت کیسے سکھایا؟
۷ اوّل، بائبل ہمیں براہِراست سکھاتی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک خدا کی نظروں میں قدروقیمت رکھتا ہے۔ یسوؔع نے کہا: ”کیا دو پیسے کی پانچ چڑیاں نہیں بِکتیں؟ تو بھی خدا کے حضور اُن میں سے ایک بھی فراموش نہیں ہوتی۔ بلکہ تمہارے سر کے بال بھی گنے ہوئے ہیں۔ ڈرو مت۔ تمہاری قدر تو بہت سی چڑیوں سے زیادہ ہے۔“ (لوقا ۱۲:۶، ۷) اُن دنوں میں، خوراک کے طور پر بکنے والے پرندوں میں سے چڑیاں سب سے سستی ہوتی تھیں، تاہم ان میں سے ایک بھی اپنے خالق کیلئے غیراہم نہ تھی۔ لہٰذا ایک غیرمعمولی موازنے کی بنیاد قائم ہو جاتی ہے: جب انسانوں کی بات آتی ہے—جنکی قدروقیمت کہیں زیادہ ہے—تو خدا سب کچھ جانتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ ہمارے سر کے بال ایک ایک کرکے گن لئے گئے ہیں!
۸. یہ سوچنا حقیقتپسندانہ کیوں ہے کہ خدا ہمارے سر کے بالوں کو گن سکتا ہے؟
۸ بال گن لئے گئے ہیں؟ اگر آپ کا خیال ہے کہ یسوؔع کی تمثیل کا یہ پہلو غیرحقیقتپسندانہ ہے تو غور کریں: خدا اپنے وفادار خادموں کو اتنی اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ انہیں ہر لحاظ سے، بشمول انکے پیچیدہ توارثی ضابطے اور اُنکی سالہاسال کی یادوں اور تجربات کے ساتھ انہیں ازسرِنو خلق کرنے—پھر سے زندہ کرنے—کے قابل ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمارے سر کے بالوں کو (جن میں اوسط سر تقریباً ۱۰۰،۰۰۰ بال اُگاتا ہے) شمار کرنا تو ایک معمولی کارنامہ ہے!—لوقا ۲۰:۳۷، ۳۸۔
یہوؔواہ کی نظر میں ہماری کیا قدروقیمت ہے؟
۹. (ا) چند خوبیاں کونسی ہیں جنکی یہوؔواہ قدر کرتا ہے؟ (ب) آپکے خیال میں ایسی خوبیاں اسکے نزدیک گراںبہا کیوں ہیں؟
۹ دوئم، بائبل ہمیں سکھاتی ہے کہ یہوؔواہ ہمارے اندر کس چیز کی قدر کرتا ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ وہ ہماری مثبت خوبیوں اور ہماری کوششوں سے شادمانی حاصل کرتا ہے۔ بادشاہ داؔؤد نے اپنے بیٹے سلیماؔن کو بتایا: ”خداوند سب دلوں کو جانچتا ہے اور جو کچھ خیال میں آتا ہے اُسے پہچانتا ہے۔“ (۱-تواریخ ۲۸:۹) جبکہ خدا اس تشدد اور نفرت سے بھری دنیا میں، کروڑوں دلوں کو جانچتا ہے تو وہ اس دل کو پا کر کسقدر خوش ہوتا ہوگا جو امن، سچائی اور راستبازی سے محبت رکھتا ہے! (مقابلہ کریں یوحنا ۱:۴۷؛ ۱-پطرس ۳:۴۔) اس وقت کیا ہوتا ہے جب خدا ایک ایسا دل پاتا ہے جو اسکے لئے محبت سے معمور ہے، جو اسکی بابت سیکھنے اور دوسروں کو اس علم میں شریک کرنے کی جستجو میں ہے؟ ملاکی ۳:۱۶ میں، یہوؔواہ ہمیں بتاتا ہے کہ وہ انکی سنتا ہے جو دوسروں سے اسکی بابت گفتگو کرتے ہیں اور یہ بھی کہ اُسکے پاس اُن سب لوگوں کیلئے ”یادگار کا دفتر“ ہے جو ”خداوند سے ڈرتے اور اسکے نام کو یاد کرتے ہیں۔“ ایسی خوبیاں اُسکے نزدیک گراںبہا ہیں!
۱۰، ۱۱. (ا)کیسے بعض لوگ اس ثبوت کی بابت بےیقینی کا میلان رکھ سکتے ہیں کہ یہوؔواہ انکی اچھی خوبیوں کی قدر کرتا ہے؟ (ب) اؔبیاہ کی مثال کیسے یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہوؔواہ ہر لحاظ سے اچھی خوبی کی قدر کرتا ہے؟
۱۰ تاہم، ایک خود کو ملامت کرنے والا دل، خدا کی نظروں میں ہماری اس قدروقیمت کے ثبوت کی مخالفت کر سکتا ہے۔ یہ بضد ہو کر سرگوشی کر سکتا ہے کہ ’بہتیرے دوسرے ایسے ہیں جو میری نسبت ان خوبیوں کیلئے زیادہ مثالی ہیں۔ یہوؔواہ کتنا مایوس ہوگا جب وہ میرا موازنہ انکے ساتھ کریگا!‘ یہوؔواہ موازنہ نہیں کرتا اور نہ ہی اُسکے معیار سخت ہیں۔ (گلتیوں ۶:۴) وہ انتہائی بصیرت اور ادراک کیساتھ دلوں کو جانچتا ہے اور وہ ہر لحاظ سے اچھی خوبیوں کی قدر کرتا ہے۔
۱۱ مثال کے طور پر، جب یہوؔواہ نے یہ فرمان جاری کِیا کہ یرؔبعام بادشاہ کا سارا برگشتہ خاندان قتل کِیا جائے، یعنی ”گوبر“ کی طرح پاکصاف کر دیا جائے تو اس نے حکم دیا کہ بادشاہ کے بیٹوں میں سے صرف ایک، اؔبیاہ، کو عزت کیساتھ دفن کِیا جائے۔ کیوں؟ ”اسی میں کچھ پایا گیا جو خداوند اسرائیل کے خدا کے نزدیک بھلا ہے۔“ (۱-سلاطین ۱۴:۱۰، ۱۳) کیا اسکا یہ مطلب تھا کہ اؔبیاہ یہوؔواہ کا وفادار پرستار تھا؟ ضروری نہیں کیونکہ وہ بھی اپنے باقی شریر گھرانے کیطرح مر گیا۔ (استثنا ۲۴:۱۶) پھر بھی یہوؔواہ نے اؔبیاہ کے دل میں جو ”کچھ بھلا“ دیکھا اُسکی قدر کی اور اُسی کی مطابقت میں کارروائی کی۔ میتھیو ہنریز کومنٹری آن دی ہول بائبل لکھتی ہے: ”جہاں کہیں بھی کسی حد تک کچھ بھلی چیز ہے وہ تلاش کر لی جائیگی: خدا جو اسے تلاش کرتا ہے، اسے پہچانتا ہے، خواہ وہ بہت ادنیٰ درجے کی ہی کیوں نہ ہو، اور اس سے خوش ہوتا ہے۔“ اور یہ بھی نہ بھولیں کہ اگر خدا کو آپکے اندر اچھی خوبی کی بہت کم مقدار بھی مل جاتی ہے تو وہ اسے بڑھا سکتا ہے جب تک کہ آپ وفاداری سے اسکی خدمت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
۱۲، ۱۳. (ا) زبور ۱۳۹:۳ کیسے ظاہر کرتی ہے کہ یہوؔواہ ہماری کوششوں کی قدر کرتا ہے؟ (ب) کس مفہوم میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہوؔواہ ہماری کارگزاریوں کو جانچتا ہے؟
۱۲ یہوؔواہ اسی طرح ہماری کوششوں کی بھی قدر کرتا ہے۔ زبور ۱۳۹:۱-۳، میں ہم پڑھتے ہیں: ”اے خداوند تُو نے مجھے جانچ لیا اور پہچان لیا۔ تُو میرا اُٹھنا بیٹھنا جانتا ہے۔ تُو میرے خیال کو دُور سے سمجھ لیتا ہے۔ تُو میرے راستہ کی اور میری خوابگاہ کی چھانبین کرتا ہے اور میری سب روشوں سے واقف ہے۔“ پس یہوؔواہ ہماری تمام کارگزاریوں سے باخبر ہے۔ لیکن وہ محض باخبر ہونے سے زیادہ کچھ ہے۔ عبرانی میں اصطلاح ”میری سب روشوں سے واقف ہے“ شاید ”تُو میری سب راہوں کو بیشبہا خیال کرتا“ یا ”میری تمام راہوں کو عزیز رکھتا ہے“ کا مطلب بھی رکھتی ہے۔ (مقابلہ کریں متی ۶:۱۹، ۲۰۔) تاہم، کیسے، یہوؔواہ ہماری راہوں کو عزیز رکھ سکتا ہے جبکہ ہم اتنے ناکامل اور گنہگار ہیں؟
۱۳ دلچسپی کی بات ہے کہ چند علما کے مطابق، جب داؔؤد نے لکھا کہ یہوؔواہ نے اسکے راستہ اور خوابگاہ کی ”چھانبین“ کی ہے تو عبرانی میں اسکا لفظی مطلب تھا ”چھلنی سے چھاننا“ یا ”چھاج سے پھٹکنا۔“ ایک کتاب نے اظہارِخیال کِیا: ”اسکا مطلب ہے . . . تمام بھوسے کو جُدا کر دینا اور سارے اناج کو رکھ لینا—جو قابلِقدر ہے اس تمام کو بچا لینا۔ پس یہاں اسکا مطلب ہے کہ خدا نے علامتی طور پر، اُسے جانچا (چھان لیا)۔ . . . اس نے تمام بھوسے کو یا وہ سب جو بیکار تھا اُڑا دیا اور جو کچھ حقیقی اور اہم تھا رکھ لیا۔“ بےرحمی کیساتھ ماضی کی غلطیوں کیلئے ہمیں سرزنش کرتے ہوئے اور ہماری کامیابیوں کو بےوقعت جان کر مسترد کرتے ہوئے شاید ایک خود کو ملامت کرنے والا دل ہمارے کاموں کی اُلٹ طریقے سے جانچ کرے۔ لیکن اگر ہم خلوصدلی سے توبہ کرتے اور اپنی غلطیوں کو دوبارہ نہ کرنے کی سخت کوشش کرتے ہیں تو یہوؔواہ ہمارے گناہوں کو معاف کرتا ہے۔ (زبور ۱۰۳:۱۰-۱۴؛ اعمال ۳:۱۹) وہ ہمارے اچھے کاموں کو جانچتا اور انہیں یاد رکھتا ہے۔ درحقیقت، جبتک ہم اسکے وفادار رہتے ہیں وہ انہیں ہمیشہ یاد رکھتا ہے۔ وہ انہیں بھول جانے کو ناراستی خیال کریگا اور وہ کبھی بھی ناراست نہیں!—عبرانیوں ۶:۱۰۔
۱۴. کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ یہوؔواہ مسیحی خدمتگزاری میں ہماری کارگزاری کی قدر کرتا ہے؟
۱۴ بعض نیک کام کونسے ہیں جنکی خدا قدر کرتا ہے؟ درحقیقت ہر وہ کام جو ہم اسکے بیٹے، یسوؔع مسیح کی نقل میں کرتے ہیں۔ (۱-پطرس ۲:۲۱) تو پھر، یقینی طور پر ایک بہت اہم کام، خدا کی بادشاہی کی خوشخبری پھیلانا ہے۔ رومیوں ۱۰:۱۵ میں، ہم پڑھتے ہیں: ”کیا ہی خوشنما ہیں انکے قدم جو اچھی چیزوں کی خوشخبری دیتے ہیں!“ جبکہ ہو سکتا ہے کہ ہم عموماً اپنے ناچیز پاؤں کو ”خوشنما“ خیال نہ کریں، جو لفظ پولسؔ نے یہاں استعمال کِیا وہ وہی تھا جو یونانی ہفتادی ترجمے میں ربقہؔ، راخلؔ اور یوؔسف کو بیان کرنے کیلئے استعمال کِیا گیا تھا—وہ تینوں جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور تھے۔ (پیدایش ۲۶:۷؛ ۲۹:۱۷؛ ۳۹:۶) پس ہمارا اپنے خدا، یہوؔواہ، کی خدمت میں مشغول رہنا اسکی نظروں میں نہایت خوبصورت اور گراںبہا ہے۔—متی ۲۴:۱۴؛ ۲۸:۱۹، ۲۰۔
۱۵، ۱۶. یہوؔواہ ہماری برداشت کی کیوں قدر کرتا ہے اور زبور ۵۶:۸ میں داؔؤد کے الفاظ اس حقیقت کو کیسے واضح کرتے ہیں؟
۱۵ ایک اور خوبی جسکی یہوؔواہ قدر کرتا ہے وہ ہماری برداشت ہے۔ (متی ۲۴:۱۳) یاد رکھیں کہ شیطان چاہتا ہے کہ آپ یہوؔواہ کو چھوڑ دیں۔ ہر وہ دن جب آپ یہوؔواہ کے وفادار رہتے ہیں ایک اَور ایسا دن ہوتا ہے جس میں آپ نے شیطان کے طعنوں کا جواب مہیا کرنے میں مدد کی ہے۔ (امثال ۲۷:۱۱) بعضاوقات برداشت آسان معاملہ نہیں ہوتی۔ صحت کے مسائل، مالی مشکلات، جذباتی پریشانیاں اور دیگر مشکلات ہر گزرنے والے دن کو ایک آزمائش بنا سکتی ہیں۔ ایسی آزمائشوں کے مقابلے میں برداشت خاص طور پر یہوؔواہ کیلئے گراںبہا ہے۔ اسی لئے داؔؤد بادشاہ نے بڑے اعتماد کیساتھ یہ سوال کرتے ہوئے کہ ”کیا وہ تیری کتاب میں مندرج نہیں ہیں؟“ یہوؔواہ سے درخواست کی کہ اسکے آنسوؤں کو ایک علامتی ”مشکیزہ“ میں رکھ لے۔ (زبور ۵۶:۸) جیہاں، یہوؔواہ ان تمام آنسوؤں اور تکالیف کو بیشقیمت خیال کرتا اور یاد رکھتا ہے جو ہم اسکے لئے اپنی راستی برقرار رکھنے کی خاطر برداشت کرتے ہیں۔ وہ بھی یہوؔواہ کی نظروں میں گراںبہا ہیں۔
۱۶ ہماری عمدہ خوبیوں اور ہماری کاوشوں کے پیشِنظر یہ کتنا واضح ہے کہ یہوؔواہ ہم میں سے ہر ایک میں قدروقیمت والی بہت سی باتیں دیکھتا ہے! اس سے قطعنظر کہ شیطان کی دنیا نے ہمارے ساتھ کسطرح کا برتاؤ کِیا ہے، یہوؔواہ ہمیں گراںبہا اور ”سب قوموں کی مرغوب چیزوں“ کے ایک حصہ کے طور پر خیال کرتا ہے۔—حجی ۲:۷۔
یہوؔواہ نے اپنی محبت کا مظاہرہ کرنے کیلئے جو کچھ کِیا ہے
۱۷. مسیح کے فدیے کی قربانی کو کیوں ہمیں قائل کر لینا چاہئے کہ یہوؔواہ اور یسوؔع انفرادی طور پر ہمیں پیار کرتے ہیں؟
۱۷ سوئم، یہوؔواہ ہمارے لئے اپنی محبت کو ثابت کرنے کیلئے بہت کچھ کرتا ہے۔ یقینی طور پر، مسیح کا فدیہ اس شیطانی جھوٹ کا سب سے اثرآفریں جواب ہے کہ ہم ناچیز یا محبت کے لائق نہیں ہیں۔ ہمیں کبھی یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ تکلیفدہ موت جو یسوؔع نے سُولی پر گوارا کی اور اس سے بھی بڑی تکلیف جو یہوؔواہ نے اپنے پیارے بیٹے کی موت کو دیکھتے ہوئے برداشت کی ہمارے لئے ان کی محبت کے ثبوت تھیں۔ مزیدبرآں، وہ محبت ہم پر ذاتی طور پر عائد ہوتی ہے۔ پولسؔ رسول نے اسے اس طرح خیال کِیا، کیونکہ اس نے لکھا: ”خدا کے بیٹے نے . . . مجھ سے محبت رکھی اور اپنے آپکو میرے لئے موت کے حوالہ کر دیا۔“—گلتیوں ۲:۲۰۔
۱۸. کس مفہوم میں یہوؔواہ ہمیں مسیح کی جانب کھینچتا ہے؟
۱۸ ہمیں انفرادی طور پر مسیح کی قربانی کے فائدوں سے مستفید ہونے میں مدد دینے سے یہوؔواہ نے ہمارے لئے اپنی محبت کو ثابت کر دیا ہے۔ یسوؔع نے یوحنا ۶:۴۴ میں کہا: ”کوئی میرے پاس نہیں آ سکتا جب تک باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اسے کھینچ نہ لے۔“ منادی کے کام کے ذریعے، جو انفرادی طور پر ہم تک پہنچتا ہے، اور اپنی روحاُلقدس کے ذریعے، جسے یہوؔواہ ہماری کوتاہیوں اور ناکاملیتوں کے باوجود ہمیں روحانی سچائیوں کو سمجھنے اور انکا اطلاق کرنے میں مدد دینے کیلئے استعمال کرتا ہے، یہوؔواہ ذاتی طور پر ہمیں اپنے بیٹے اور ابدی زندگی کی اُمید کی طرف کھینچتا ہے۔ اسلئے یہوؔواہ ہماری بابت ویسا ہی کہہ سکتا ہے جیسا اس نے اسرائیل کی بابت کہا: ”مَیں نے تجھ سے ابدی محبت رکھی اسی لئے مَیں نے اپنی شفقت تجھ پر بڑھائی۔“—یرمیاہ ۳۱:۳۔
۱۹. ہمارے لئے دُعا کے استحقاق کو کیوں ہمیں یہوؔواہ کی ذاتی محبت کا یقین دِلانا چاہئے؟
۱۹ تاہم، شاید یہ دُعا کے استحقاق ہی کے ذریعے ہے کہ ہم یہوؔواہ کی محبت کا نہایت قریبی طور پر تجربہ کرتے ہیں۔ وہ ہم میں سے ہر ایک کو دعوت دیتا ہے کہ اس سے ”بلاناغہ دُعا“ کریں۔ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۷) وہ سنتا ہے! اُسے تو ”دُعا کا سننے والا“ بھی کہا جاتا ہے۔ (زبور ۶۵:۲) اس نے یہ حق کسی اور شخص کو نہیں سونپا، اپنے بیٹے کو بھی نہیں۔ ذرا سوچیں: کائنات کا خالق ہمیں تاکید کرتا ہے کہ گفتگو کرنے کی آزادی کیساتھ دُعا میں اس تک رسائی کریں۔ ہو سکتا ہے کہ آپکی مناجات یہوؔواہ کو وہ کام کرنے کی تحریک بھی دیں جو شاید بصورتِدیگر اس نے نہ کِیا ہوتا۔—عبرانیوں ۴:۱۶؛ یعقوب ۵:۱۶؛ دیکھیں یسعیاہ ۳۸:۱-۱۶۔
۲۰. ہمارے لئے خدا کی محبت کیوں ہماری طرف سے خودبینی یا خودپسندی کا جواز نہیں ہے؟
۲۰ کوئی بھی متوازن مسیحی خدا کی محبت اور پاسولحاظ کے ایسے ثبوت کو خود کو جو کچھ وہ حقیقت میں ہے اس سے زیادہ اہم خیال کرنے کیلئے ایک عذر کے طور پر نہیں لیگا۔ پولسؔ نے لکھا: ”مَیں اس توفیق کی وجہ سے جو مجھ کو ملی ہے تم میں سے ہر ایک سے کہتا ہوں کہ جیسا سمجھنا چاہئے اُس سے زیادہ کوئی اپنے آپکو نہ سمجھے بلکہ جیسا خدا نے ہر ایک کو اندازہ کے موافق ایمان تقسیم کِیا ہے اعتدال کیساتھ اپنے آپکو ویسا ہی سمجھے۔“ (رومیوں ۱۲:۳) پس جبکہ ہم اپنے آسمانی باپ کی محبت کے تپاک سے لطفاندوز ہوتے ہیں تو آیئے ہم ذہنی اعتبار سے پُختہ ہوں اور یاد رکھیں کہ خدا کا فضل غیرمستحق ہے۔—مقابلہ کریں لوقا ۱۷:۱۰۔
۲۱. کس شیطانی جھوٹ کی ہمیں ہمیشہ مخالفت کرنا اور کس الہٰی سچائی پر ہمیں ہمیشہ غور کرنا چاہئے؟
۲۱ ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ ان تمام نظریات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے جنہیں شیطان اس دم توڑتی ہوئی پُرانی دنیا میں فروغ دیتا ہے۔ اس میں اس خیال کو مسترد کرنا بھی شامل ہے کہ ہم ناچیز یا محبت کے لائق نہیں ہیں۔ اگر اس نظام میں زندگی نے آپ کو یہ سکھا دیا ہے کہ اپنے آپ کو خدا کی بےپناہ محبت حاصل کرنے کے لئے ایک حوصلہشکن رکاوٹ یا اپنے نیک کاموں کو اس کی ہرسُو دیکھنے والی آنکھوں کا مرکز بننے کے لئے نہایت غیراہم یا اپنے گناہوں کو اسقدر زیادہ خیال کریں کہ اس کے عزیز بیٹے کی موت بھی انہیں ڈھانپ نہ سکے تو آپ کو ایک جھوٹ سکھایا گیا ہے۔ ایسے جھوٹوں کو اس تمام نفرت کے ساتھ مسترد کر دیں جس کے یہ مستحق ہیں! آیئے ہم ہمیشہ پولسؔ رسول کے رومیوں ۸:۳۸، ۳۹ کے الفاظ کو ذہن میں رکھیں: ”کیونکہ مجھ کو یقین ہے کہ خدا کی جو محبت ہمارے خداوند مسیح یسوؔع میں ہے اُس سے ہم کو نہ موت جدا کر سکے گی نہ زندگی۔ نہ فرشتے نہ حکومتیں۔ نہ حال کی نہ استقبال کی چیزیں۔ نہ قدرت نہ بلندی نہ پستی نہ کوئی اَور مخلوق۔“ (۱۰ ۴/۰۱ w۹۵)
[فٹنوٹ]
a درحقیقت، وہ غریب لوگوں کو حقارتآمیز اصطلاح ”ایمہاآرتس،“ یا ”زمین کے لوگ“ کیساتھ نظرانداز کرتے تھے۔ ایک عالم کے مطابق، فریسی یہ تعلیم دیتے تھے کہ کسی بھی شخص کو قیمتی چیزوں کے سلسلے میں ان پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی انکی گواہی کو تسلیم کرنا چاہئے، نہ انہیں بطور مہمان بلانا چاہئے، نہ انکے مہمان بننا چاہئے، نہ ہی ان سے کچھ خریدنا چاہئے۔ مذہبی پیشوا کہتے تھے کہ کسی شخص کی بیٹی کا ان لوگوں میں سے کسی کیساتھ شادی کرنا اسے بندھا ہوا اور بیکس کسی جانور کے آگے ڈال دینے کی مانند ہوگا۔
آپ کا کیا خیال ہے؟
▫ شیطان کیوں ہمیں یہ یقین دلانا چاہتا ہے کہ ہم ناچیز اور محبت کے لائق نہیں ہیں؟
▫ یسوؔع نے یہ کیسے سکھایا کہ یہوؔواہ ہم میں سے ہر ایک کی قدر کرتا ہے؟
▫ ہم کیسے جانتے ہیں کہ یہوؔواہ ہماری اچھی خوبیوں کو عزیز رکھتا ہے؟
▫ ہم کیسے اس بات کا یقین کر سکتے ہیں کہ یہوؔواہ ہماری کوششوں کو بیشبہا خیال کرتا ہے؟
▫ بطور افراد کے یہوؔواہ ہمارے لئے اپنی محبت کا ثبوت کیسے دیتا ہے؟
[تصویر]
یہوؔواہ ان سب پر دھیان دیتا اور یاد رکھتا ہے جو ا کے نام کی بابت سوچتے ہیں