باب 82
مُنادی کرنے کے لیے پیریہ کا دورہ
تنگ دروازے سے داخل ہونے کے لیے جیتوڑ کوشش ضروری ہے
یسوع مسیح کو یروشلیم ہی میں فوت ہونا تھا
یسوع مسیح نے یہودیہ اور یروشلیم میں لوگوں کو تعلیم دی تھی اور اُنہیں شفا دی تھی۔ پھر وہ دریائےاُردن پار کر کے پیریہ کے علاقے میں شہر شہر تعلیم دینے لگے۔ لیکن وہ زیادہ دیر اُس علاقے میں نہیں رُکے کیونکہ اُنہیں واپس یروشلیم جانا تھا۔
پیریہ میں ایک آدمی نے یسوع سے پوچھا: ”مالک، کیا یہ سچ ہے کہ کم ہی لوگ نجات پائیں گے؟“ شاید اِس آدمی نے سنا تھا کہ مذہبی رہنماؤں کی اکثر اِس موضوع پر بحث ہوتی تھی کہ آیا زیادہ لوگ نجات پائیں گے یا صرف کم۔ اِس سوال کا جواب دینے کی بجائے یسوع نے وہاں موجود لوگوں کو بتایا کہ نجات حاصل کرنے کے لیے کیا ضروری ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”تنگ دروازے سے داخل ہونے کی جیتوڑ کوشش کریں۔“ مگر اِتنی سخت کوشش کرنا کیوں ضروری ہے؟ یسوع نے اِس کی وجہ یوں بتائی: ”مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ بہت سے لوگ اندر جانے کی کوشش کریں گے لیکن جا نہیں سکیں گے۔“—لُوقا 13:23، 24۔
پھر یسوع مسیح نے جیتوڑ کوشش کرنے کی اہمیت پر زور دینے کے لیے یہ مثال دی: ”جب گھر کا سربراہ اُٹھ کر دروازے کو تالا لگا لے گا تو آپ باہر کھڑے ہو کر دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور کہیں گے: ”مالک، دروازہ کھولیں۔“ . . . لیکن وہ آپ سے کہے گا: ”بُرے کام کرنے والو، مَیں تمہیں نہیں جانتا۔ مجھ سے دُور ہو جاؤ!““—لُوقا 13:25-27۔
اِس مثال سے یسوع مسیح نے اُن لوگوں کی صورتحال کو واضح کِیا جو آنے میں دیر کرتے ہیں یعنی تب آتے ہیں جب اُن کے پاس وقت ہوتا ہے۔ مگر جب وہ پہنچتے ہیں تو وہ دروازے پر تالا پاتے ہیں۔ اِن لوگوں کو وقت پر آنا چاہیے تھا، چاہے ایسا کرنا اُن کے لیے کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہوتا۔ یہی صورتحال یسوع کے زمانے کے لوگوں کی تھی۔ اِن لوگوں کو یسوع سے تعلیم پانے کا موقع مل رہا تھا لیکن اُنہوں نے اِسے نظرانداز کِیا۔ اُنہوں نے یہوواہ کی عبادت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ نہیں دیا۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے یسوع مسیح کو قبول بھی نہیں کِیا جن کے ذریعے اُنہیں نجات ملنی تھی۔ اِس لیے یسوع نے کہا کہ یہ لوگ باہر کھڑے ہو کر ”روئیں گے اور دانت پیسیں گے۔“ البتہ کچھ ”لوگ مشرق اور مغرب سے اور شمال اور جنوب سے [یعنی تمام قوموں سے] آئیں گے اور خدا کی بادشاہت میں میز پر بیٹھیں گے۔“—لُوقا 13:28، 29۔
یسوع مسیح نے بتایا: ”جو لوگ پہلے ہیں، [یعنی یہودی مذہبی رہنما جنہیں ابراہام کی اولاد ہونے پر بڑا مان تھا] اُن میں سے کچھ آخر ہو جائیں گے اور جو لوگ آخر ہیں، [یعنی غیریہودی اور ایسے یہودی جنہیں حقیر جانا جاتا تھا] اُن میں سے کچھ پہلے ہو جائیں گے۔“ (لُوقا 13:30) ناشکرے یہودی اِس مفہوم میں ”آخر“ ہو گئے کہ اُنہیں خدا کی بادشاہت میں داخل ہونے کی اِجازت نہیں ملی۔
پھر کچھ فریسی یسوع کے پاس آئے اور اُن سے کہنے لگے: ”جلدی سے یہاں سے چلے جائیں کیونکہ ہیرودیس [انتپاس] آپ کو مار ڈالنا چاہتا ہے۔“ ہو سکتا ہے کہ بادشاہ ہیرودیس نے یہ افواہ خود پھیلائی تھی تاکہ یسوع مسیح اُس علاقے سے چلے جائیں۔ ہیرودیس نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کو مروایا تھا اور شاید وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ ایک اَور نبی کی موت میں ملوث ہو۔ لیکن یسوع مسیح نے فریسیوں سے کہا: ”جائیں، اُس لومڑی سے کہیں کہ ”مَیں آج اور کل لوگوں میں سے بُرے فرشتوں کو نکالوں گا اور بیماروں کو ٹھیک کروں گا اور پرسوں میرا کام ختم ہو جائے گا۔““ (لُوقا 13:31، 32) ہو سکتا ہے کہ یسوع نے ہیرودیس کو اِس لیے ”لومڑی“ کہا کیونکہ وہ چالاک تھا۔ لیکن یسوع مسیح بادشاہ ہیرودیس یا کسی اَور کے اِشاروں پر نہیں چلنے والے تھے۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے اپنے آسمانی باپ کی مرضی کے مطابق وہ کام کِیا جس کے لیے وہ آئے تھے۔
یسوع مسیح نے یروشلیم کی طرف اپنا سفر جاری رکھا کیونکہ اُنہوں نے کہا: ”ممکن نہیں کہ ایک نبی کو یروشلیم سے باہر مار ڈالا جائے۔“ (لُوقا 13:33) بائبل کی کسی پیشگوئی میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ مسیح کو یروشلیم میں مار ڈالا جائے گا۔ تو پھر یسوع مسیح نے یہ کیوں کہا کہ اُنہیں وہاں فوت ہونا ہوگا؟ کیونکہ یروشلیم دارالحکومت تھا اور وہاں 71 رُکنوں پر مشتمل یہودیوں کی عدالتِعظمیٰ بھی تھی۔ اِس عدالت کے سامنے عموماً ایسے لوگوں پر مُقدمے چلائے جاتے تھے جن پر جھوٹے نبی ہونے کا اِلزام لگایا جاتا تھا۔ اِس کے علاوہ یروشلیم ہی میں جانوروں کی قربانیاں بھی پیش کی جاتی تھیں۔ اِس لیے یسوع مسیح نے کہا کہ یہ مناسب نہیں کہ اُنہیں کہیں اَور مار ڈالا جائے۔
یسوع نے یروشلیم کے لوگوں پر افسوس کرتے ہوئے کہا: ”یروشلیم کے لوگو! نبیوں کو قتل کرنے والو اور پیغمبروں کو سنگسار کرنے والو! مَیں نے بہت بار چاہا کہ مَیں ویسے ہی تمہیں جمع کروں جیسے مُرغی، چُوزوں کو اپنے پَروں کے نیچے جمع کرتی ہے۔ لیکن تُم نے ایسا نہیں چاہا۔ دیکھو! تمہارا گھر چھوڑ دیا جائے گا۔“ (لُوقا 13:34، 35) یہودیوں نے خدا کے بیٹے کو ترک کر دیا تھا اِس لیے اُنہیں اِس کے نتائج بھگتنے پڑے۔
یروشلیم پہنچنے سے پہلے یسوع مسیح فریسیوں کے ایک پیشوا کے گھر دعوت پر گئے۔ وہاں ایک ایسا آدمی بھی موجود تھا جس کے ہاتھ پاؤں ایک بیماری کی وجہ سے سُوجھے ہوئے تھے۔ دعوت پر آئے لوگ غور سے دیکھنے لگے کہ اب یسوع مسیح کیا کریں گے کیونکہ سبت کا دن تھا۔ اُس آدمی کو دیکھ کر یسوع نے شریعت کے ماہروں اور فریسیوں سے پوچھا: ”کیا سبت کے دن کسی کو ٹھیک کرنا جائز ہے یا نہیں؟“—لُوقا 14:3۔
لیکن اُن لوگوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ یسوع مسیح نے اُس آدمی کو شفا دی اور پھر اُن لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے پوچھا: ”اگر آپ کا بیٹا یا بیل سبت کے دن کنوئیں میں گِر جائے تو کیا آپ فوراً اُسے باہر نہیں نکالیں گے؟“ (لُوقا 14:5) وہ یسوع مسیح کی اِس دلیل کا کوئی جواب نہیں دے سکے۔