ماندہ اشخاص کیلئے ایک پُرمحبت دعوت
”اَے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔ مَیں تم کو آرام دونگا۔“—متی ۱۱:۲۸۔
۱. یسوؔع نے اپنی منادی کے تیسرے دورے پر گلیلؔ میں کیا دیکھا؟
۳۳ س.ع. کے آغاز کے لگبھگ، یسوؔع گلیلؔ کے علاقے میں اپنی منادی کے تیسرے دورے پر تھا۔ وہ، ”اُن کے عبادتخانوں میں تعلیم دیتا اور بادشاہی کی منادی کرتا اور ہر طرح کی بیماری اور ہر طرح کی کمزوری کو دُور کرتا“ ہوا، شہروں اور دیہاتوں میں سے گزرا۔ جب اُس نے ایسا کِیا تو اُس نے بِھیڑ کو دیکھا اور ”اُسکو لوگوں پر ترس آیا کیونکہ وہ اُن بھیڑوں کی مانند جنکا چرواہا نہ ہو خستہحال اور پراگندہ تھے۔“—متی ۹:۳۵، ۳۶۔
۲. یسوؔع نے لوگوں کی مدد کیسے کی؟
۲ تاہم، یسوؔع نے بِھیڑ پر محض ترس کھانے سے زیادہ کچھ کِیا۔ اپنے شاگردوں کو ”فصل کے مالک،“ یہوؔواہ خدا سے دُعا کرنے کی ہدایت دینے کے بعد، اُس نے اُنہیں لوگوں کی مدد کرنے کے لئے بھیجا۔ (متی ۹:۳۸؛ ۱۰:۱) پھر اُس نے حقیقی آراموسکون کے طریقۂکار کی بابت لوگوں کو اپنی ذاتی یقیندہانی پیش کی۔ اُس نے اُنہیں دل کو گرما دینے والی یہ دعوت دی: ”اَے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔ مَیں تم کو آرام دونگا۔ میرا جُوا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مجھ سے سیکھو کیونکہ مَیں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔ تو تمہاری جانیں آرام پائینگی۔“—متی ۱۱:۲۸، ۲۹۔
۳. یسوؔع کی دعوت آجکل بھی یکساں طور پر خوشگوار کیوں ہے؟
۳ آجکل ہم ایسے دَور میں رہتے ہیں جب بہتیرے نہایت بھاری بوجھ سے دبے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ (رومیوں ۸:۲۲؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱) بعض کے لئے، روزی کمانا ہی اُن کے وقت اور توانائی کو اسقدر کھا جاتا ہے کہ اُن کے پاس اپنے خاندان، دوستواحباب، یا کسی دوسرے کام کے لئے بہت ہی کم وقت اور توانائی بچتی ہے۔ بہتوں پر تشویشناک علالت، تکالیف، افسردگی اور دیگر جسمانی اور جذباتی مسائل کا بوجھ پڑا ہوا ہے۔ دباؤ کو محسوس کرتے ہوئے، بعض عیشوعشرت، کھانے، پینے، حتیٰکہ منشیات کا ناجائز استعمال کرنے میں خود کو غرق کر لینے سے تسکین حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بِلاشُبہ، یہ اُن کے لئے مزید مسائل اور دباؤ کا باعث بنتے ہوئے، اُنہیں محض بُرائی کے چکر میں پھینک دیتا ہے۔ (رومیوں ۸:۶) صاف طور پر، یسوؔع کی پُرمحبت دعوت آج بھی اُتنی ہی خوشگوار معلوم ہوتی ہے جتنی کہ یہ اُسوقت ماضی میں تھی۔
۴. یسوؔع کی پُرمحبت دعوت سے مستفید ہونے کی غرض سے ہمیں کن سوالات پر غور کرنا چاہئے؟
۴ تاہم، یسوؔع کے زمانے میں لوگ کس چیز کی محکومی میں تھے کہ وہ ایسے ”خستہحال اور پراگندہ“ دکھائی دئے کہ اِس بات نے یسوؔع کو اُن پر ترس کھانے کی تحریک دی؟ وہ بار اور بوجھ کونسے تھے جو اُنہیں اُٹھانے تھے اور یسوؔع کی دعوت اُنہیں کیسے مدد دیگی؟ اِن سوالات کے جواب ماندہ اشخاص کے لئے یسوؔع کی پُرمحبت دعوت سے فائدہ اُٹھانے میں ہمارے لئے بہت مددگار ہو سکتے ہیں۔
”محنت اُٹھانے والے اور بوجھ سے دبے ہوئے“
۵. یہ کیونکر مناسب تھا کہ متیؔ رسول نے یسوؔع کی خدمتگزاری کے اِس واقعہ کو بیان کِیا؟
۵ دلچسپی کی بات ہے کہ صرف متیؔ ہی نے یسوؔع کی خدمتگزاری کے اِس واقعہ کو بیان کِیا۔ ایک محصول لینے والے کی حیثیت سے، متیؔ، جو لاویؔ بھی کہلاتا تھا، ایک خاص بار سے واقف تھا جو لوگ اُٹھا رہے تھے۔ (متی ۹:۹؛ مرقس ۲:۱۴) کتاب ڈیلی لائف اِن دی ٹائم آف جیزز (یسوؔع کے زمانہ میں روزمرّہ زندگی) کہتی ہے: ”پیسے اور جنس کی صورت میں جو محصول [یہودیوں کو] ادا کرنا تھے وہ بےحد بھاری تھے، اور وہ اُن کے لئے محاصل کی دو متوازی اقسام یعنی شہری محصول اور مذہبی محصول میں اَور بھی زیادہ گراںبار تھے؛ اور کوئی بھی ہلکا نہیں تھا۔“
۶. (ا) یسوؔع کے زمانے میں محصول کا کونسا نظام رائج تھا؟ (ب) محصول لینے والوں کی شہرت اتنی بُری کیوں تھی؟ (پ) پولسؔ نے اپنے ساتھی مسیحیوں کو کس چیز کی بابت یاد دلانے کی ضرورت محسوس کی؟
۶ جس چیز نے اِس سب کو بالخصوص بوجھل بنا دیا وہ اُسوقت کا محصول کا نظام تھا۔ رومی اہلکاروں نے صوبوں سے محصولات جمع کرنے کا اختیار سب سے بڑی بولی لگانے والوں کو ٹھیکے پر دے دیا۔ پھر، اُنہوں نے محصول جمع کرنے کے اصل کام کی نگرانی کرنے کے لئے مقامی علاقوں میں لوگوں کو ملازم رکھا۔ منافع خوری کے منصوبے میں ہر ایک نے اپنے ذاتی کمیشن یا حصے میں اضافہ کرنے کو بالکل درست خیال کِیا۔ مثال کے طور پر، لوؔقا نے بیان کِیا کہ ”زکائیؔ نام ایک آدمی تھا جو محصول لینے والوں کا سردار اور دولتمند تھا۔“ (لوقا ۱۹:۲) ”محصول لینے والوں کا سردار“ زکائیؔ اور اُس کی زیرِنگرانی اشخاص لوگوں کا نقصان کرکے بظاہر امیر ہو گئے تھے۔ ایسے نظام کی پیداکردہ بدسلوکی اور بدعنوانی لوگوں کے لئے محصول لینے والوں کو گنہگاروں اور کسبیوں میں شمار کرنے کا سبب بنیں، اور غالباً زیادہتر معاملات میں بجا طور پر وہ اِس کے مستحق تھے۔ (متی ۹:۱۰؛ ۲۱:۳۱، ۳۲؛ مرقس ۲:۱۵؛ لوقا ۷:۳۴) چونکہ لوگوں نے تقریباً ناقابلِبرداشت بار محسوس کِیا، کچھ عجب نہیں کہ پولسؔ نے اپنے ساتھی مسیحیوں کو یاد دلانے کی ضرورت محسوس کی کہ رومی جُوئے کے بوجھ تلے برہم نہ ہوں بلکہ ”سب کا حق ادا کریں۔ جسکو خراج چاہئے خراج دیں۔ جسکو محصول چاہئے محصول۔“—رومیوں ۱۳:۷ الف؛ مقابلہ کریں لوقا ۲۳:۲۔
۷. روم کے تعزیری قوانین نے لوگوں کے بوجھ میں کسطرح اضافہ کِیا؟
۷ پولسؔ نے مسیحیوں کو یہ بھی یاد کرایا کہ ”جس سے ڈرنا چاہئے اُس سے ڈرو۔ جس کی عزت کرنا چاہئے اُس کی عزت کرو۔“ (رومیوں ۱۳:۷ب) رومی ظلم اور اپنے تعزیری قوانین کی سختی کے لئے مشہور تھے۔ لوگوں کو تابع رکھنے کی غرض سے اذیت پہنچانے، کوڑے مارنے، سخت قیدی معیادوں اور پھانسیوں کو اکثر استعمال کِیا جاتا تھا۔ (لوقا ۲۳:۳۲، ۳۳؛ اعمال ۲۲:۲۴، ۲۵) یہانتک کہ یہودی پیشواؤں کو بھی جب وہ مناسب سمجھیں ایسی سزائیں دینے کا اختیار دیا گیا تھا۔ (متی ۱۰:۱۷؛ اعمال ۵:۴۰) ایسا نظام یقیناً نہایت ظالمانہ، بلکہ اِس کے تحت زندگی بسر کرنے والے ہر شخص کے لئے اَور بھی استبدادی تھا۔
۸. مذہبی پیشواؤں نے لوگوں پر کیسے بوجھ ڈالا تھا؟
۸ تاہم، رومی محصولات اور قوانین سے بھی بدتر، وہ بار تھا جو اُسوقت کے مذہبی پیشواؤں کی طرف سے عام لوگوں پر ڈالا گیا تھا۔ دراصل، یسوؔع کی اوّلین فکر یہی معلوم ہوتی ہے جب اُس نے لوگوں کو ”محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے“ کے طور پر بیان کِیا۔ یسوؔع نے کہا کہ ستمرسیدہ لوگوں کو اُمید اور تسلی دینے کی بجائے، مذہبی پیشوا ”ایسے بھاری بوجھ جن کو اُٹھانا مشکل ہے باندھ کر لوگوں کے کندھوں پر رکھتے ہیں مگر آپ اُن کو اپنی ایک اُنگلی سے بھی ہلانا نہیں چاہتے۔“ (متی ۲۳:۴؛ لوقا ۱۱:۴۶) کوئی بھی شخص اناجیل میں مذہبی پیشواؤں—خصوصاً فقیہوں اور فریسیوں—کی ایک متکبر، سنگدل اور ریاکار گروہ کے طور پر واضح تصویرکشی کو دیکھنے میں خطا نہیں کر سکتا۔ وہ عام لوگوں کو اَنپڑھ اور ناپاک جانکر حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور وہ اپنے درمیان اجنبیوں سے نفرت کرتے تھے۔ اُن کے رویے پر ایک تبصرہ بیان کرتا ہے: ”ایک آدمی جو ایک گھوڑے پر حد سے زیادہ بوجھ لادتا ہے وہ آجکل قانون کے سامنے جوابدہ ہے۔ اُس آدمی کی بابت کیا ہے جو اُن ’عام لوگوں‘ پر ۶۱۳ احکام لاد دے جنہیں کوئی مذہبی تربیت حاصل نہیں تھی، اور پھر، اُن کی مدد کے لئے کچھ بھی نہ کرتے ہوئے، اُنہیں بیدینوں کے طور پر رد کر دے؟“ بےشک، حقیقی بار موسوی شریعت نہیں بلکہ لوگوں پر عائدکردہ روایت کا انبار تھا۔
تکلیف کی اصل وجہ
۹. یسوؔع کے وقت میں لوگوں کے درمیان حالتوں کا مقابلہ بادشاہ سلیماؔن کے دَور کی حالتوں کے ساتھ کیسے کِیا گیا؟
۹ بعضاوقات لوگوں پر مالی بوجھ بہت زیادہ ہوتا تھا کیونکہ غربت ہر جگہ پھیلی ہوئی تھی۔ اسرائیلیوں کو موسوی شریعت کی طرف سے لگائے گئے معقول حد تک محصولات کو ادا کرنا تھا۔ پھر سلیماؔن کے دورِحکومت کے دوران، لوگوں نے بہت ہی مہنگے قومی منصوبوں کی نگرانی کی، جیسے کہ ہیکل اور دیگر شاندار عمارات کی تعمیر۔ (۱-سلاطین ۷:۱-۸؛ ۹:۱۷-۱۹) تاہم، بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ لوگ ”کھاتے پیتے اور خوش رہتے تھے۔ . . . اور سلیماؔن کی عمربھر یہوؔداہ اور اسرائیل کا ایک ایک آدمی اپنی تاک اور اپنے انجیر کے درخت کے نیچے داؔن سے بیرسبعؔ تک اَمن سے رہتا تھا۔“ (۱-سلاطین ۴:۲۰، ۲۵) کونسی چیز فرق کا سبب تھی؟
۱۰. پہلی صدی کے لگبھگ اسرائیل کی حالت کی وجہ کیا تھی؟
۱۰ جب تک قوم سچی پرستش کے لئے ثابتقدم رہی، اُنہوں نے یہوؔواہ کی کرمفرمائی سے استفادہ کِیا اور بھاری قومی خرچے کے باوجود تحفظ اور بَرومندی کی برکت سے نوازے گئے تھے۔ تاہم، یہوؔواہ نے آگاہ کِیا کہ اگر وہ ”[اُس کی] پیروی سے برگشتہ ہو جائیں اور [اُس کے] احکام . . . نہ مانیں“ تو وہ سنگین بُری حالتوں میں مبتلا ہو جائیں گے۔ درحقیقت، ”اسرائیل سب قوموں میں ضربُالمثل اور انگشتنما ہوگا۔“ (۱-سلاطین ۹:۶، ۷) حالات بالکل ایسے ہی ہو گئے۔ اسرائیل غیرقوم کے تسلط میں چلا گیا، اور جو کبھی پُرشکوہ سلطنت ہوا کرتا تھا اب محض نوآبادیاتی حیثیت تک محدود ہو کر رہ گیا۔ اپنے روحانی فرائض کو نظرانداز کرنے کے لئے چکائی گئی کیا ہی قیمت!
۱۱. یسوؔع نے یہ کیوں محسوس کِیا کہ لوگ ”اُن بھیڑوں کی مانند جنکا چرواہا نہ ہو خستہحال اور پراگندہ تھے“؟
۱۱ یہ سب ہمیں اِس بات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ کس وجہ سے یسوؔع کو یہ احساس ہوا کہ وہ لوگ جنہیں اُس نے دیکھا ”خستہحال اور پراگندہ“ تھے۔ یہ وہ اسرائیلی، یہوؔواہ کے لوگ، تھے جو مجموعی طور پر خدا کے قوانین کے مطابق زندگی بسر کرنے اور ایک قابلِقبول طریقے سے اپنی پرستش کو جاری رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاہم، صرف سیاسی اور تجارتی اختیار والوں نے ہی نہیں بلکہ اُن کے درمیان برگشتہ مذہبی پیشواؤں نے بھی اُن سے ناجائز فائدہ اُٹھایا اور اُن پر ستم ڈھایا تھا۔ وہ ”ایسی بھیڑوں کی مانند“ تھے ”جنکا چرواہا نہ ہو“ کیونکہ اُن کے پاس کوئی بھی نہیں تھا جو اُن کی نگہداشت کرتا یا اُن کے معاملے میں اُن کی وکالت کرتا۔ اُنہیں نہایت تلخ حقائق کا مقابلہ کرنے کے لئے مدد درکار تھی۔ یسوؔع کی پُرمحبت اور نرمدل دعوت کسقدر برمحل تھی!
آجکل یسوؔع کی دعوت
۱۲. آجکل خدا کے خادم اور دیگر خلوصدل لوگ کونسے دباؤ محسوس کرتے ہیں؟
۱۲ بہتیرے طریقوں سے حالتیں آجکل بالکل ویسی ہی ہیں۔ خلوصدل لوگ جو ایمانداری سے گزارہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اِس بدعنوان نظامالعمل کی طرف سے دباؤ اور مطالبات کو برداشت کرنا مشکل پاتے ہیں۔ حتیٰکہ وہ بھی جنہوں نے یہوؔواہ کے لئے اپنی زندگیاں مخصوص کی ہیں اِس سے محفوظ نہیں ہیں۔ رپورٹیں ظاہر کرتی ہیں کہ یہوؔواہ کے گواہوں میں سے بعض اپنی تمامتر ذمہداریوں کو پورا کرنا روزافزوں مشکل پا رہے ہیں، پھر بھی وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بوجھ تلے دبے ہوئے، ماندہ، تھکن سے چُور محسوس کرتے ہیں۔ بعض محسوس کرتے ہیں کہ اگر وہ محض تمام چیزوں کی بابت فکرمند ہونا چھوڑ دیں اور کہیں روپوش ہو جائیں تاکہ وہ خود کو جذباتی طور پر مستحکم کر سکیں تو اِس سے تسکین حاصل ہوگی۔ کیا آپ نے کبھی ایسا محسوس کِیا ہے؟ کیا آپ اپنے کسی قریبی شخص کو جانتے ہیں جو ایسی حالت میں مبتلا ہے؟ جیہاں، یسوؔع کی دل کو گرما دینے والی دعوت آجکل ہمارے لئے بہت بڑا مطلب رکھتی ہے۔
۱۳. ہم کیوں یقین رکھ سکتے ہیں کہ یسوؔع ہمیں آرام اور تازگی حاصل کرنے میں مدد دے سکتا ہے؟
۱۳ اِس سے پیشتر کہ یسوؔع اپنی پُرمحبت دعوت دیتا، اُس نے بیان کِیا: ”میرے باپ کی طرف سے سب کچھ مجھے سونپا گیا ہے اور کوئی بیٹے کو نہیں جانتا سوا باپ کے اور کوئی باپ کو نہیں جانتا سوا بیٹے کے اور اُس کے جس پر بیٹا اُسے ظاہر کرنا چاہے۔“ (متی ۱۱:۲۷) یسوؔع اور اُس کے باپ کے درمیان قریبی رشتے کی وجہ سے، ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ یسوؔع کی دعوت قبول کرنے اور اُس کے شاگرد بننے سے، ہم ”ہر طرح کی تسلی کے خدا،“ یہوؔواہ کے ساتھ ایک قریبی، ذاتی رشتے میں داخل ہو سکتے ہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۱:۳؛ مقابلہ کریں یوحنا ۱۴:۶۔) اس کے علاوہ، چونکہ ’تمام چیزیں اُسکو سونپی گئی ہیں،‘ صرف یسوؔع مسیح کے پاس ہی ہمارے بوجھ کو ہلکا کرنے کی قدرت اور اختیار ہے۔ کونسے بار؟ بدعنوان سیاسی، تجارتی اور مذہبی نظاموں کے لادے گئے بوجھ، اور ہمارے موروثی گناہ اور ناکاملیت کا لادا ہوا بوجھ بھی۔ شروع ہی سے یہ کسقدر حوصلہافزا اور تقویتبخش خیال ہے!
۱۴. یسوؔع کونسی محنت اُٹھانے سے تازگی فراہم کر سکتا تھا؟
۱۴ یسوؔع نے کہا: ”اَے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔ مَیں تمکو آرام دونگا۔“ (متی ۱۱:۲۸) یقیناً یسوؔع محنت کرنے کے خلاف نہیں کہہ رہا تھا، کیونکہ اُس نے اکثر اپنے شاگردوں کو نصیحت کی کہ جو کام اُن کے پاس ہے اُس میں جانفشانی کریں۔ (لوقا ۱۳:۲۴) لیکن ”محنت اُٹھانا“ (”مشقت کرنا،“ کنگڈم اِنٹرلینئیر) طویل اور تھکا دینے والی مشقت کی دلالت کرتا ہے جسکا اکثر کوئی کارآمد نتیجہ نہیں نکلتا۔ اور ”بوجھ سے دبے ہوئے“ عمومی صلاحیت سے زیادہ بار سے لدے ہوئے ہونے کا خیال پیش کرتا ہے۔ اِسے ایک پوشیدہ خزانے کے لئے کھدائی کرنے والے آدمی اور بیگار کیمپ میں خندقیں کھودنے والے آدمی کے درمیان فرق سے تشبِیہ دی جا سکتی ہے۔ وہ ایک جیسی محنت کر رہے ہیں۔ ایک کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ شوق سے کام کی ذمہداری اُٹھائی گئی ہے لیکن دوسرے کے معاملے میں، یہ ایک غیرمختتم چاکری ہے۔ جو چیز فرق کا باعث بنتی ہے وہ کام کا مقصد یا پھر مقصد کا فقدان ہے۔
۱۵. (ا) اگر ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم اپنے کندھوں پر بھاری بار اُٹھائے ہوئے ہیں تو ہمیں خود سے کونسے سوالات پوچھنے چاہئیں؟ (ب) ہمارے باروں کے ماخذ کی بابت کیا کہا جا سکتا ہے؟
۱۵ کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ ”محنت اُٹھانے والے اور بوجھ سے دبے ہوئے“ ہیں، یعنی کہ آپ کے وقت اور توانائی پر بہت زیادہ مطالبے ہیں؟ جو بار آپ نے اُٹھائے ہوئے ہیں کیا وہ آپ کے لئے بہت بھاری دکھائی دیتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو خود سے یہ پوچھنا مدد کر سکتا ہے کہ ’مَیں کس لئے محنت اُٹھا رہا ہوں؟ مَیں کس قِسم کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہوں؟‘ اِس سلسلے میں، ایک بائبل تبصرہنگار نے ۸۰ سال سے زیادہ عرصہ پہلے بیان کِیا: ”اگر ہم زندگی کے باروں پر غور کریں تو وہ دو زمروں میں تقسیم ہوتے ہیں؛ ہم اِنہیں ازخود عائدکردہ اور ناگزیر کہہ سکتے ہیں: وہ جو ہمارے افعال کے باعث ہیں اور وہ جو نہیں ہیں۔“ پھر اُس نے اضافہ کِیا: ”ہم میں سے بہتیرے ایک سخت ذاتی جانچ کے بعد یہ جان کر حیران ہو جائیں گے کہ کیسے ہمارے تمام باروں کا بڑا تناسب ازخود عائدکردہ ہے۔“
۱۶. ہم غیردانشمندانہ طور پر اپنے اُوپر کونسے بوجھ ڈال سکتے ہیں؟
۱۶ بعض بار کونسے ہیں جو ہم اپنے اُوپر ڈال سکتے ہیں؟ آجکل ہم ایک مادہپرست، عیشوعشرت کی دلدادہ اور بداخلاق دُنیا میں رہتے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵) حتیٰکہ مخصوصشُدہ مسیحی بھی دُنیا کے فیشن اور طرزِزندگی اپنانے کے مستقل دباؤ کے تحت ہیں۔ یوؔحنا رسول نے ”جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی“ کی بابت لکھا۔ (۱-یوحنا ۲:۱۶) یہ قوی اثرات ہیں جو ہم پر بآسانی اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ یہ بات تو مسلمہ ہے کہ بعض لوگ زیادہ دُنیاوی آسائشوں سے لطفاندوز ہونے یا کسی مخصوص طرزِزندگی کو برقرار رکھنے کے لئے بہت زیادہ قرضے میں پھنس جانے کو تیار رہے ہیں۔ پھر اُنہیں خبر ہوتی ہے کہ اُن کے لئے لازم ہے کہ اپنے قرضہجات ادا کرنے کے لئے پیسے حاصل کرنے کی غرض سے کام پر حد سے زیادہ وقت صرف کریں، یا مختلف نوکریاں کریں۔
۱۷. کونسی حالت بوجھ اُٹھانے کو اَور بھی مشکل بنا سکتی ہے اور اس کا تدارک کیسے کِیا جا سکتا ہے؟
۱۷ جبکہ کوئی شخص یہ استدلال کر سکتا ہے کہ جو چیزیں دوسروں کے پاس ہیں یا جو کام دوسرے کر رہے ہیں اُنہی چیزوں کو اپنے پاس رکھنا یا اُنہی کاموں کو کرنا تو کوئی غلط بات نہیں ہے تو بھی اِس بات کا جائزہ لینا اہم ہے کہ آیا وہ غیرضروری طور پر اپنے بوجھ میں اضافہ تو نہیں کر رہا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۲۳) چونکہ ایک شخص صرف اتنا ہی اُٹھا سکتا ہے اس لئے دوسرا بوجھ اُٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ کچھ بوجھ اُتار دیا جائے۔ اکثر، یہ ہماری روحانی بہبود کے لئے لازمی چیزیں—ذاتی بائبل مطالعہ، اجلاس پر حاضری اور میدانی خدمتگزاری—ہی ہیں جنہیں پہلے ختم کِیا جاتا ہے۔ نتیجہ روحانی طاقت کا نقصان ہوتا ہے جو پھر بوجھ اُٹھانے کو اَور بھی مشکل بنا دیتا ہے۔ یسوؔع مسیح نے ایسے خطرے کیخلاف آگاہ کِیا جب اُس نے کہا: ”پس خبردار رہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے دل خمار اور نشہبازی اور اِس زندگی کی فکروں سے سُست ہو جائیں اور وہ دِن تم پر پھندے کی طرح ناگہاں آ پڑے۔“ (لوقا ۲۱:۳۴، ۳۵؛ عبرانیوں ۱۲:۱) اگر کوئی شخص بوجھ سے دبا اور تھکن سے چُور ہو تو پھندے کو پہچاننا اور اُس سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔
تسکین اور تازگی
۱۸. یسوؔع نے اپنے پاس آنے والوں کو کس چیز کی پیشکش کی؟
۱۸ اس لئے، محبت بھرے انداز میں، یسوؔع نے حل پیش کِیا: ”میرے پاس آؤ، مَیں تمہیں تازہدم کرونگا۔“ (متی ۱۱:۲۸، اینڈبلیو) یہاں پر الفاظ ”تازہدم“ اور ۲۹ آیت میں ”تازگی“ اُن یونانی الفاظ سے مشتق ہیں جو اُس لفظ کے مساوی ہیں جسے ہفتادی ترجمہ ”سبت“ یا ”سبت ماننے“ کے لئے عبرانی لفظ کا ترجمہ کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ (خروج ۱۶:۲۳) پس، یسوؔع نے یہ وعدہ نہیں کِیا تھا کہ اُس کے پاس آنے والوں کے پاس کوئی مزید کام نہیں ہوگا بلکہ اُس نے وعدہ فرمایا کہ وہ اُنہیں تازہدم کردیگا تاکہ وہ اُس کام کو کرنے کے لئے تیار ہوں جو اُنہیں خدا کے مقصد کی مطابقت میں سرانجام دینا لازم ہے۔
۱۹. کوئی کیسے ’یسوؔع کے پاس آتا ہے‘؟
۱۹ تاہم، کوئی کیسے ’یسوؔع کے پاس آتا ہے‘؟ اپنے شاگردوں سے یسوؔع نے کہا: ”اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہولے۔“ (متی ۱۶:۲۴) لہٰذا، یسوؔع کے پاس آنا اِس بات کی دلالت کرتا ہے کہ کوئی شخص ذمہداری کا کچھ بوجھ قبول کرتے ہوئے، اور مسلسل ایسا کرتے ہوئے اپنی مرضی کو خدا اور مسیح کی مرضی کے تابع کر دے۔ کیا یہ سب بہت تقاضا کرنے والا ہے؟ کیا لاگت بہت زیادہ ہے؟ ماندہ اشخاص کے لئے پُرمحبت دعوت دینے کے بعد یسوؔع نے جو کچھ کہا آئیے اُس پر غور کریں۔ (۱۲ ۸/۱۵ w۹۵)
کیا آپ یاد کر سکتے ہیں؟
▫ کن طریقوں سے یسوؔع کے زمانے کے لوگ بوجھ تلے دبے ہوئے تھے؟
▫ لوگوں کی مشکل کی اصل وجہ کیا تھی؟
▫ اگر ہم خود کو بھاری بوجھ تلے محسوس کرتے ہیں تو ہم کسطرح اپنی جانچ کر سکتے ہیں؟
▫ ہم غیردانشمندانہ طور پر اپنے اُوپر کونسے بوجھ ڈال سکتے ہیں؟
▫ ہم یسوؔع کی وعدہکردہ تازگی کو کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
[تصویر]
بعض بوجھ کونسے ہیں جو ہم اپنے اُوپر ڈال سکتے ہیں؟
[تصویر کا حوالہ]
Courtesy of Bahamas Ministry of Tourism