لوقا
(ایسآئی ص. ۱۸۷-۱۸۸ پ. ۱-۹؛ ص. ۱۹۲-۱۹۳ پ. ۳۰-۳۵)
لوقا کی تمہید
۱. لوقا کی انجیل کی خصوصیت کیا ہے؟
۱ لوقا کی انجیل ایک ذہین اور رحمدل شخص نے تحریر کی تھی۔ خدا کی روح کی راہنمائی میں یہ عمدہ خوبیاں ایک ایسی سرگزشت پر منتج ہوئیں جو درست ہونے کے ساتھ ساتھ جوشوجذبے سے بھی معمور ہے۔ ابتدائی آیات میں لوقا بیان کرتا ہے: ”مَیں نے بھی مناسب جانا کہ سب باتوں کا سلسلہ شروع سے ٹھیک ٹھیک دریافت کرکے اُن کو تیرے لئے ترتیب سے لکھوں۔“ اُس کی مفصل اور محتاط تحریر نے اُس کے اِس دعوے کو ثابت کر دیا ہے۔—لو ۱:۳۔
۲، ۳. پاک صحائف کی شہادت اور کونسی بیرونی شہادت طبیب لوقا کو اِس انجیل کا مصنف ثابت کرتی ہے؟
۲ اِس انجیل میں لوقا کا بنام ذکر کہیں نہیں کِیا گیا توبھی قدیم ذرائع اِس بات پر متفق ہیں کہ وہی اِس کا مصنف تھا۔ نئے عہدنامے کی کتابوں کی ابتدائی دریافتشُدہ فہرست میوریٹورین فریگمنٹ (تقریباً ۱۷۰ عیسوی) لوقا کو اِس انجیل کا مصنف مانتی ہے۔ سکندریہ کے ارینیس اور کلیمنٹ جیسے دوسری صدی کے مصنّفین نے بھی اِس بات کو تسلیم کِیا۔ پاک صحائف بھی واضح طور پر لوقا کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کلسیوں ۴:۱۴ میں پولس رسول اُس کا ذکر ”پیارا طبیب لوؔقا“ کے طور پر کرتا ہے۔ علاوہازیں، لوقا کی تحریر میں موجود معلوماتی ترتیب سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اِس کتاب کو ایک طبیب جیسے صاحبِعلم شخص ہی نے لکھا ہے۔ زبان کا عمدہ انتخاب اور باقی تین انجیلنویسوں کے مقابلہ میں وسیع ذخیرۂالفاظ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ لوقا نے اِس اہم مضمون کو محتاط اور جامع انداز میں بیان کِیا۔ جیسے لوقا نے مسرف بیٹے کی بابت بیان کِیا بعض لوگ اُسے ایک بہترین کہانی قرار دیتے ہیں۔
۳ لوقا نے ۳۰۰ سے زائد طبّی اصطلاحات یا الفاظ استعمال کئے۔ اُس نے طب کی زبان میں اُن کی وضاحت کچھ اِس طرح کی ہے کہ مسیحی یونانی صحائف کے لکھنے والے دیگر اشخاص ایسا نہیں کر سکے۔a مثال کے طور پر، کوڑھ کے بارے میں باتچیت کرتے ہوئے لوقا دوسروں کی طرح ایک ہی اصطلاح استعمال نہیں کرتا۔ دوسرے مصنّفین کوڑھ کو کوڑھ ہی کہتے ہیں لیکن ایک طبیب کے لئے کوڑھ کے مختلف مراحل ہوتے ہیں اِس لئے جب لوقا ایک کوڑھی کا ذکر کرتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ ایک شخص ”کوڑھ سے بھرا ہوا“ تھا۔ وہ مزید کہتا ہے کہ لعزر ”ناسوروں سے بھرا ہوا“ تھا۔ کوئی دوسرا انجیلنویس یہ بیان نہیں کرتا کہ پطرس کی ساس کو ”بڑی تپ“ چڑھی ہوئی تھی۔ (۵:۱۲؛ ۱۶:۲۰؛ ۴:۳۸) اگرچہ دوسرے تین انجیلنویس ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ پطرس نے سردار کاہن کے نوکر کا کان اُڑا دیا تاہم صرف لوقا ہی یہ بتاتا ہے کہ یسوع نے اُسے شفا بھی بخشی۔ (۲۲:۵۱) ایک ڈاکٹر ہی ایک عورت کی بابت یہ کہہ سکتا ہے کہ اُس کو ”اٹھارہ برس سے . . . کمزوری تھی۔ وہ کبڑی ہو گئی تھی اور کسی طرح سیدھی نہ ہو سکتی تھی۔“ نیز، کیا ’طبیب لوقا‘ کے علاوہ اَور کوئی یہ تفصیل ریکارڈ کر سکتا تھا کہ ایک سامری نے ایک شخص کو ابتدائی طبّی امداد دینے کے لئے ”اُس کے زخموں کو تیل اور مے لگا کر باندھا“ تھا؟—۱۳:۱۱؛ ۱۰:۳۴۔
۴. لوقا کی انجیل غالباً کب لکھی گئی، اور کونسے حالات اِس بات کی تائید کرتے ہیں؟
۴ لوقا نے اپنی انجیل کب تحریر کی تھی؟ اعمال ۱:۱ ظاہر کرتی ہے کہ اعمال کا مصنف (جو لوقا ہی تھا) اُس نے ”پہلا رسالہ“ یعنی انجیل بھی تحریر کی تھی۔ اعمال کی کتاب تقریباً ۶۱ عیسوی میں مکمل ہوئی جب لوقا پولس رسول کے ساتھ روم میں تھا۔ پولس وہاں قیصر سے اپنی اپیل کے جواب کا منتظر تھا۔ لہٰذا، لوقا نے اپنا یہ انجیلی بیان غالباً قیصریہ میں تقریباً ۵۶-۵۸ عیسوی میں لکھا۔ یہ لوقا کے پولس کے ساتھ اُس کے تیسرے مشنری دورے کے اختتام پر فلپی سے واپس لوٹنے کے بعد کا واقعہ ہے۔ کیونکہ اُس وقت پولس اپنی اپیل کی وجہ سے روم جانے سے پہلے قیصریہ میں دو سال تک قید میں رہا تھا۔ چونکہ اُس دوران لوقا فلستین میں تھا اِس لئے وہ یسوع کی زندگی اور اُس کی خدمتگزاری کی بابت ”سب باتوں کا سلسلہ شروع سے ٹھیک ٹھیک دریافت“ کرنے کے لئے بہترین جگہ پر تھا۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوقا کی انجیل مرقس کی انجیل سے پہلے لکھی گئی تھی۔
۵. لوقا کن ذرائع سے یسوع کی زندگی کے واقعات ”ٹھیک ٹھیک دریافت“ کر سکتا تھا؟
۵ سچ ہے کہ لوقا نے اپنی انجیل میں جو واقعات قلمبند کئے وہ اُن تمام کا عینی شاہد نہیں تھا۔ کیونکہ لوقا ۱۲ رسولوں میں شامل نہیں تھا اور شاید وہ یسوع کی موت کے بعد اُس پر ایمان لایا تھا۔ تاہم، وہ مشنری خدمت میں پولس کے ساتھ ساتھ رہا تھا۔ (۲-تیم ۴:۱۱؛ فلیمون ۲۴) لہٰذا، یہ کہا جا سکتا ہے کہ اُس کی تحریر سے پولس کا اثرورسوخ جھلکتا ہے۔ اِس کا اندازہ خداوند کے عشائیے کی بابت لوقا ۲۲:۱۹، ۲۰ اور ۱-کرنتھیوں ۱۱:۲۳-۲۵ میں درج بیانات کے موازنے سے لگایا جا سکتا ہے۔ لوقا مزید معلومات کے لئے متی کی انجیل سے مدد حاصل کر سکتا تھا۔ وہ یسوع مسیح کی زندگی کے واقعات کو اُن شاگردوں کے ذریعے جان سکتا تھا جو اُس وقت تک زندہ تھے۔ اِس کے علاوہ، وہ ممکنہ طور پر یسوع کی ماں مریم سے ذاتی طور پر باتچیت کرکے ’سب باتوں کو ٹھیک ٹھیک دریافت‘ کر سکتا تھا۔ ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ اُس نے قابلِبھروسا تفصیلات جمع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہوگی۔
۶. لوقا کی انجیل کا کتنا حصہ دوسری اناجیل سے منفرد ہے، اور اُس نے اِسے کن کے لئے لکھا؟ آپ یہ کیوں کہتے ہیں؟
۶ چاروں اناجیل کے بیانات کے جائزے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اِن کے لکھنے والوں نے محض ایک دوسرے کے بیانات کی دہرائی نہیں کی اور نہ ہی اُن کے لکھنے کا مقصد صرف بائبل کے اِس اہمترین ریکارڈ کے مستند ہونے کا ثبوت فراہم کرنا تھا۔ لوقا کا اندازِبیان سب سے منفرد ہے۔ مجموعی طور پر، اُس کی انجیل کا ۵۹ فیصد حصہ دوسروں سے بالکل مختلف ہے۔ اُس نے کمازکم چھ خاص معجزوں کا ذکر کِیا ہے۔ دوسرے انجیلی بیانات کے مقابلہ میں اُس نے دو گُنا زیادہ تمثیلیں ریکارڈ کی ہیں۔ اُس کی انجیل کا ایک تہائی حصہ حکایتی اور دو تہائی حصہ بیانیہ ہے۔ نیز، اُس کی انجیل سب سے طویل ہے۔ متی نے بنیادی طور پر یہودی اور مرقس نے غیریہودی بالخصوص رومی قارئین کے لئے لکھا تھا۔ لوقا کی انجیل ”معزز تھیفلُسؔ“ اور اُس کے ذریعے یہودیوں اور غیریہودیوں دونوں کو مخاطب کرتی ہے۔ (لو ۱:۳، ۴) اپنے بیان کو سب لوگوں کے لئے دلکش بنانے کے لئے وہ یسوع کے نسبنامے کو ’خدا کے بیٹے آدم‘ تک لے جاتا ہے۔ متی کی طرح جس نے بالخصوص یہودیوں کے لئے لکھا تھا لوقا یسوع کے نسبنامے کو ابرہام تک محدود نہیں رکھتا۔ وہ خاص طور پر شمعون کے نبوّتی الفاظ کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ یسوع ”غیرقوموں کو روشنی دینے“ کا ذریعہ ہوگا اور یہ کہ ”ہر بشر خدا کی نجات دیکھے گا۔“—۳:۳۸؛ ۲:۲۹-۳۲؛ ۳:۶۔
۷. کونسی چیز لوقا کی انجیل کے مستند ہونے کا پُرزور ثبوت فراہم کرتی ہے؟
۷ لوقا اپنی کتاب میں درج تمام حالاتوواقعات کو بڑے مؤثر انداز میں بیان کرتا ہے اِسی لئے اُس کی انجیل میں عمدہ ترتیب اور درستی پائی جاتی ہے۔ لوقا نے اپنی تحریروں کو جس درستی اور صداقت سے بیان کِیا وہ اِن کے مستند ہونے کا پُرزور ثبوت ہے۔ ایک موقع پر ایک قانونی دستاویز لکھنے والے نے بیان کِیا: ”رومانوی داستانیں، قصےکہانیاں اور جھوٹے بیانات، حالاتوواقعات کو کسی غیرواضح جگہ اور وقت کے ساتھ منسوب کرتے ہیں اور یوں وہ اُن ابتدائی اُصولوں کی خلافورزی کرتے ہیں جس میں ہم جیسے وکلا کو عمدہ دلالت کے سلسلے میں تربیت دی جاتی ہے کہ ’کسی بھی تحریر کو وقت اور جگہ واضح کرنی چاہئے۔‘ اِس کے برعکس بائبل میں درج واقعات کو بیان کرنے والوں نے تاریخ اور جگہ کو واضح اور درست طور پر بیان کِیا ہے۔“b اِس کے ثبوت میں وہ لوقا ۳:۱، ۲ کا حوالہ دیتا ہے: ”تبریسؔ قیصر کی حکومت کے پندرھویں برس جب پُنطیُسؔ پیلاطُس یہوؔدیہ کا حاکم تھا اور ہیرؔودیس گلیلؔ کا اور اُس کا بھائی فلپسؔ اؔتوریہ اور ترخونیؔتس کا اور لساؔنیاس ابلینےؔ کا حاکم تھا۔ اور حناؔہ اور کاؔئفا سردار کاہن تھے اُس وقت خدا کا کلام بیابان میں زکرؔیاہ کے بیٹے یوؔحنا پر نازل ہوا۔“ یہاں وقت یا جگہ کا بیان قطعاً مبہم نہیں بلکہ لوقا کمازکم سات سرکاری اہلکاروں کا بنام ذکر کرتا ہے تاکہ ہم یوحنا اور یسوع کی خدمتگزاری کے آغاز کا تعیّن کر سکیں۔
۸. لوقا یسوع کی پیدائش کا ”ٹھیک ٹھیک“ وقت کیسے ظاہر کرتا ہے؟
۸ لوقا نے ہمیں یسوع کی پیدائش کے وقت کا تعیّن کرنے کے سلسلے میں لوقا ۲:۱، ۲ میں دو اشارے بھی دئے ہیں۔ وہ بیان کرتا ہے: ”اُن دنوں میں ایسا ہوا کہ قیصر اوگوستُسؔ کی طرف سے یہ حکم جاری ہوا کہ ساری دُنیا کے لوگوں کے نام لکھے جائیں۔ یہ پہلی اسمِنویسی سوؔریہ کے حاکم کوؔرنیس کے عہد میں ہوئی۔“ یہ اُس وقت کا واقعہ ہے جب یوسف اور مریم اپنا نام لکھوانے کے لئے بیتلحم گئے جہاں یسوع کی پیدائش ہوئی تھی۔c ہمیں اُس تبصرہنگار کے ساتھ اتفاق کرنا چاہئے جس نے کہا: ”تاریخ بیان کرنے میں لوقا کی مہارت نے اُسے ہمیشہ درستی کے ساتھ بیان کرنے کے قابل بنایا۔“d ہمیں لوقا کے اِس دعوے کو درست تسلیم کرنا چاہئے کہ اُس نے ”سب باتوں کا سلسلہ شروع سے ٹھیک ٹھیک دریافت“ کِیا ہے۔
۹. لوقا میں درج یسوع کی کونسی پیشینگوئی ۷۰ عیسوی میں حیرتانگیز طور پر پوری ہوئی؟
۹ لوقا یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ عبرانی صحائف کی پیشینگوئیاں یسوع مسیح پر کیسے پوری ہوئیں۔ اِس سلسلے میں وہ یسوع کی زبانی پیشینگوئیوں کی تصدیق کا بھی حوالہ دیتا ہے۔ (۲۴:۲۷، ۴۴) علاوہازیں، اُس نے مستقبل کی بابت یسوع مسیح کی پیشینگوئیوں کو بھی درست طور پر ریکارڈ کِیا ہے جن میں سے بیشتر کی شاندار تکمیل بالکل اُسی طرح ہو چکی ہے۔ مثال کے طور پر، یسوع کی پیشینگوئی کے مطابق ۷۰ عیسوی میں یروشلیم کے گرد مورچہ باندھ کر اُسے گھیر لیا گیا اور اُسے بھیانک انداز میں مکمل طور پر تباہوبرباد کر دیا گیا۔ (لو ۱۹:۴۳، ۴۴؛ ۲۱:۲۰-۲۴؛ متی ۲۴:۲) رومی فوج کی آمد کا عینی گواہ، دُنیاوی مؤرخ فلاویس یوسیفس اِس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ نوکیلی باڑ بنانے کے لئے مضافاتی علاقے میں تقریباً ۱۶ کلومیٹر (دس میل) تک درخت کاٹے گئے تھے، محاصرے کی دیوار ۲.۷ کلو میٹر (ساڑھے چار میل) لمبی تھی، کئی عورتیں اور بچے قحط سے ہلاک ہوئے، ۱۰،۰۰،۰۰۰ سے زیادہ یہودی مر گئے اور ۹۷،۰۰۰ کو اسیر کرکے لے جایا گیا۔ آج بھی روم میں آرک آف ٹائٹس یروشلیم کی ہیکل سے لوٹی ہوئی چیزوں کے ساتھ رومی فتح کے جلوس کی تصویرکشی کرتی ہے۔e ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ لوقا کی معرفت قلمبند دیگر الہامی پیشینگوئیاں بھی ضرور پوری ہوں گی۔
کیوں فائدہمند
۳۰، ۳۱. (ا) لوقا کیسے عبرانی صحائف کے الہامی ہونے پر ہمارے اعتماد کو بڑھاتا ہے؟ (ب) عبرانی صحائف کی اہمیت کو بھرپور طریقے سے واضح کرنے کے لئے لوقا نے یسوع کے کن الفاظ کا حوالہ دیا؟
۳۰ لوقا کی انجیل میں پائی جانے والی خوشخبری خدا کے کلام پر ہمارے اعتماد کو بڑھاتی اور ایمان کو مضبوط کرتی ہے تاکہ ہم خدا سے جُدا دُنیا کی مخالفت کا مقابلہ کر سکیں۔ لوقا عبرانی صحائف کی تکمیل کی بیشمار مثالیں فراہم کرتا ہے۔ اِس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ یسوع مسیح اپنے کام کو بیان کرنے کے لئے کیسے یسعیاہ کے صحیفے سے مخصوص الفاظ کا انتخاب کرتا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ لوقا نے اپنی پوری کتاب میں اِسی موضوع کو استعمال کِیا ہے۔ (لو ۴:۱۷-۱۹؛ یسع ۶۱:۱، ۲) مختلف موقعوں پر یسوع نے نبیوں کے صحائف کا حوالہ دیا۔ مثال کے طور پر، ابلیس کی تین آزمائشوں کو رد کرتے ہوئے یسوع نے شریعت کا حوالہ دیا۔ جب یسوع کے مخالفوں نے اُس سے سوال کِیا کہ ”مسیح کو کس طرح داؔؤد کا بیٹا کہتے ہیں؟“ تو اُن کے سوال کا جواب دینے کے لئے یسوع نے زبور کا حوالہ دیا۔ لوقا کی کتاب میں عبرانی صحائف کے بہت سے دیگر اقتباسات بھی شامل ہیں۔—لو ۴:۴، ۸، ۱۲؛ ۲۰:۴۱-۴۴؛ است ۸:۳؛ ۶:۱۳، ۱۶؛ زبور ۱۱۰:۱۔
۳۱ جب یسوع زکریاہ ۹:۹ میں کی جانے والی پیشینگوئی کے مطابق گدھے پر سوار ہو کر یروشلیم میں آیا تو بِھیڑ نے اُس پر زبور ۱۱۸:۲۶ کے صحیفے کا اطلاق کرتے ہوئے خوشی سے اُس کا استقبال کِیا۔ (لو ۱۹:۳۵-۳۸) ایک جگہ پر، لوقا کی صرف دو آیات یسوع کی لعنتی موت اور اُس کے مُردوں میں سے زندہ کئے جانے کی بابت عبرانی صحائف میں درج پیشینگوئیوں کے چھ مختلف نکات کا احاطہ کرتی ہیں۔ (لو ۱۸:۳۲، ۳۳؛ زبور ۲۲:۷؛ یسع ۵۰:۶؛ ۵۳:۵-۷؛ یوناہ ۱:۱۷) اپنی قیامت کے بعد یسوع نے اپنے شاگردوں پر تمام عبرانی صحائف کی اہمیت کو بھرپور طریقے سے واضح کِیا۔ ”پھر اُس نے اُن سے کہا یہ میری وہ باتیں ہیں جو مَیں نے تم سے اُس وقت کہی تھیں جب تمہارے ساتھ تھا کہ ضرور ہے کہ جتنی باتیں موؔسیٰ کی توریت اور نبیوں کے صحیفوں اور زبور میں میری بابت لکھی ہیں پوری ہوں۔ پھر اُس نے اُن کا ذہن کھولا تاکہ کتابِمُقدس کو سمجھیں۔“ (لو ۲۴:۴۴، ۴۵) یسوع مسیح کے ابتدائی شاگردوں کی طرح ہم بھی عبرانی صحائف کی تکمیل پر دھیان دینے سے بصیرت اور مضبوط ایمان حاصل کر سکتے ہیں۔ لوقا اور مسیحی یونانی صحائف کے دیگر مصنّفین نے بڑی اچھی طرح عبرانی صحائف کی وضاحت کی ہے۔
۳۲. لوقا کا بیان بادشاہت کو کیسے نمایاں کرتا ہے، اور بادشاہت کی بابت ہمارا رُجحان کیسا ہونا چاہئے؟
۳۲ لوقا اپنی پوری کتاب میں قاری کی توجہ خدا کی بادشاہت پر دلاتا ہے۔ کتاب کے شروع سے لیکر جہاں فرشتہ مریم سے وعدہ کرتا ہے کہ اُس کا بیٹا ”یعقوؔب کے گھرانے پر ابد تک بادشاہی کرے گا اور اُس کی بادشاہی کا آخر نہ ہوگا“ کتاب کے آخری ابواب تک جہاں یسوع اپنے رسولوں کے ساتھ بادشاہتی عہد باندھنے کا ذکر کرتا ہے لوقا بادشاہتی اُمید کو نمایاں کرتا ہے۔ (۱:۳۳؛ ۲۲:۲۸، ۲۹) لوقا یہ بھی بیان کرتا ہے کہ یسوع نے بادشاہی کی منادی کرنے کے کام کی راہنمائی کی۔ سب سے پہلے اُس نے ۱۲ رسولوں اور بعدازاں ۷۰ شاگردوں کو اِسی کام کو کرنے کے لئے بھیجا۔ (۴:۴۳؛ ۹:۱، ۲؛ ۱۰:۱، ۸، ۹) یسوع نے بادشاہت میں داخل ہونے کے لئے درکار عقیدت پر زور دیتے ہوئے فرمایا: ”مُردوں کو اپنے مُردے دفن کرنے دے لیکن تُو جا کر خدا کی بادشاہی کی خبر پھیلا۔“ پھر اُس نے کہا: ”جو کوئی اپنا ہاتھ ہل پر رکھ کر پیچھے دیکھتا ہے وہ خدا کی بادشاہی کے لائق نہیں۔“—۹:۶۰، ۶۲۔
۳۳. مثالوں سے واضح کریں کہ لوقا نے دُعا کی اہمیت پر کیسے زور دیا، اور ہم اِس سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
۳۳ لوقا دُعا کی اہمیت پر بھی زور دیتا ہے۔ اُس کی انجیل کی نمایاں خصوصیت یہی ہے۔ یہ زکریاہ کے زمانے میں بیشمار لوگوں کے ہیکل میں دُعا کرنے کا ذکر کرتی ہے۔ اِس میں یہ بھی بیان کِیا گیا ہے کہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کی پیدائش بھی دُعاؤں کے نتیجے میں ہوئی تھی۔ اِس کے علاوہ یہ بتاتی ہے کہ حناہ نبِیّہ دن رات دُعا کِیا کرتی تھی۔ لوقا کی انجیل بیان کرتی ہے کہ یسوع اپنے بپتسمہ کے وقت، ۱۲ رسولوں کے انتخاب سے پہلے پوری رات اور صورت بدلنے کی رویا کے دوران دُعا کر رہا تھا۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو یہ نصیحت کرنے کے لئے کہ ”ہر وقت دُعا کرتے رہنا اور ہمت نہ ہارنا چاہئے“ ایک مستقلمزاج بیوہ کی تمثیل بیان کی جو اُس وقت تک قاضی سے مِنت کرتی رہی جب تک کہ اُسے انصاف نہ مل گیا۔ صرف لوقا ہی یہ بتاتا ہے کہ شاگردوں نے یسوع سے درخواست کی تھی کہ اُنہیں دُعا کرنا سکھائے۔ نیز، صرف یہی انجیل اِس واقعہ کا ذکر کرتی ہے کہ جب یسوع زیتون کے پہاڑ پر دُعا کر رہا تھا تو ایک فرشتہ اُسے تقویت دے رہا تھا۔ صرف اِسی انجیل میں یسوع کی آخری دُعا کے اِن الفاظ کو ریکارڈ کِیا گیا ہے: ”اَے باپ! مَیں اپنی روح تیرے ہاتھوں میں سونپتا ہوں۔“ (۱:۱۰، ۱۳؛ ۲:۳۷؛ ۳:۲۱؛ ۶:۱۲؛ ۹:۲۸، ۲۹؛ ۱۸:۱-۸؛ ۱۱:۱؛ ۲۲:۳۹-۴۶؛ ۲۳:۴۶) لوقا کی انجیل کے لکھے جانے کے وقت سے آج تک دُعا الہٰی مرضی پوری کرنے والوں کو مضبوط کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
۳۴. لوقا یسوع کی کن خوبیوں پر زور دیتا ہے جو مسیحیوں کے لئے ایک عمدہ نمونہ ہیں؟
۳۴ لوقا کی فہموفراست اور خوشکلامی نے یسوع کی تعلیم کو زندہ اور مؤثر بنا دیا ہے۔ کمزوروں، مظلوموں اور کچلے ہوؤں کے لئے یسوع کی محبت، مہربانی، رحم اور ہمدردی کو فقیہوں اور فریسیوں کے سردمہر، رسمی، تعصبپسند اور ریاکار مذہب کے بالکل برعکس پیش کِیا گیا ہے۔ (۴:۱۸؛ ۱۸:۹) یسوع غریبوں، قیدیوں، اندھوں اور کچلے ہوؤں کی ہمیشہ حوصلہافزائی کرتا اور اُنہیں مدد دیتا تھا۔ اِس طرح اُس نے اپنے ’نقشِقدم پر چلنے‘ کے خواہشمند لوگوں کے لئے ایک شاندار نمونہ قائم کِیا۔—۱-پطر ۲:۲۱۔
۳۵. ہم لوقا کی انجیل فراہم کرنے کے لئے یہوواہ خدا کے نہایت شکرگزار کیوں ہو سکتے ہیں؟
۳۵ جس طرح خدا کے کامل اور حیرتانگیز کام کرنے والے بیٹے یسوع نے اپنے شاگردوں اور تمام خلوصدل لوگوں کے لئے پُرمحبت فکرمندی ظاہر کی اُسی طرح ہمیں بھی اپنی خدمتگزاری میں محبت ظاہر کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کیونکہ ”یہ ہمارے خدا کی عین رحمت“ کے مطابق ہے۔ (لو ۱:۷۸) یہی وجہ ہے کہ لوقا کی انجیل واقعی فائدہمند اور مددگار ہے۔ ہم یقیناً یہوواہ خدا کے شکرگزار ہو سکتے ہیں کہ اُس نے ’پیارے طبیب لوقا‘ کو درست، تقویتبخش اور حوصلہافزا معلومات تحریر کرنے کا الہام بخشا جوکہ یسوع مسیح کی بادشاہت کے ذریعے ”خدا کی نجات“ حاصل کرنے پر زور دیتی ہیں۔—کل ۴:۱۴؛ لو ۳:۶۔
[فٹنوٹ]
a دی میڈیکل لینگویج آف لوق، ۱۹۵۴، ڈبلیو. کے. ہوبارٹ، صفحہ xi-xxviii.
b انسائٹ آن دی سکرپچرز، جِلد ۲، صفحہ ۷۶۶، ۷۶۷۔
c ماڈرن ڈسکوری اینڈ دی بائبل، ۱۹۵۵، اے. رینڈل شارٹ، صفحہ ۲۱۱۔
d اے لائر ایگزامنز دی بائبل، ۱۹۴۳، آئی. ایچ. لنٹن، صفحہ ۳۸۔
e دی جیواِش وار، V، ۴۹۱-۵۱۵، ۵۲۳ (iix، ۴-۱) VI، ۴۲۰ (ix، ۳)؛ انسائٹ آن دی سکرپچرز، جِلد ۲، صفحہ ۷۵۱، ۷۵۲ کو بھی پڑھیں۔