مُردوں کے جی اُٹھنے پر آپ کا ایمان کتنا مضبوط ہے؟
”آخری آدم زندگی بخشنے والی روح بنا۔“—1-کُرنتھیوں 15:45۔
1-3. (الف) کون سا عقیدہ ہمارے بنیادی عقیدوں میں شامل ہے؟ (ب) مُردوں کے جی اُٹھنے کی تعلیم اِتنی اہم کیوں ہے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ آپ کے مذہب کی بنیادی تعلیمات کیا ہیں تو آپ اُسے کیا جواب دیں گے؟ بِلاشُبہ آپ اُسے بتائیں گے کہ یہوواہ کائنات کا خالق ہے اور اُس نے ہمیں زندگی دی ہے۔ شاید آپ اُسے یہ بھی بتائیں کہ آپ یسوع مسیح پر ایمان رکھتے ہیں جنہوں نے ہمارے لیے اپنی جان فدیے کے طور پر دی۔ بےشک آپ اِس بات کا بھی ذکر کریں گے کہ مستقبل میں زمین فردوس بن جائے گی اور خدا کے بندے اِس میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ لیکن کیا آپ اُسے یہ بھی بتائیں گے کہ مُردوں کا جی اُٹھنا آپ کے بنیادی عقیدوں میں شامل ہے؟
2 ہمارے پاس ٹھوس وجوہات ہیں جن کی بِنا پر ہم مُردوں کے جی اُٹھنے کو اپنے بنیادی عقیدوں کا اہم حصہ سمجھتے ہیں۔ یہ بات اُس صورت میں بھی سچ ہے اگر ہم زندہ ہی بڑی مصیبت سے نکل کر زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی اُمید رکھتے ہیں۔ پولُس رسول نے بتایا کہ مُردوں کے جی اُٹھنے کی تعلیم اِتنی اہم کیوں ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”اگر مُردے زندہ نہیں ہوں گے تو مسیح بھی زندہ نہیں ہوا۔“ اگر یسوع مسیح زندہ نہ ہوئے ہوتے تو وہ آسمان پر حکمرانی نہ کر رہے ہوتے اور ایسی صورت میں بادشاہت کی مُنادی کا کام فضول ہوتا۔ (1-کُرنتھیوں 15:12-19 کو پڑھیں۔) لیکن ہم جانتے ہیں کہ یسوع مسیح زندہ ہوئے۔ چونکہ ہم یسوع کے جی اُٹھنے پر ایمان رکھتے ہیں اِس لیے ہم صدوقی فرقے کے لوگوں کی طرح نہیں ہیں جو اِس عقیدے کے خلاف تھے کہ مُردے زندہ ہو سکتے ہیں۔ چاہے دوسرے لوگ ہمارا مذاق ہی کیوں نہ اُڑائیں، ہم اِس بات پر اپنے ایمان کو کمزور نہیں ہونے دیتے کہ خدا مُردوں کو زندہ کر سکتا ہے۔—مرقس 12:18؛ اعمال 4:2، 3؛ 17:32؛ 23:6-8۔
3 پولُس رسول نے کہا کہ ”مُردوں کے زندہ ہونے“ کا عقیدہ ”مسیح کے متعلق اِبتدائی تعلیمات“ کا حصہ ہے۔ (عبرانیوں 6:1، 2) اُنہوں نے اِس بات پر زور دیا کہ وہ مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان رکھتے ہیں۔ (اعمال 24:10، 15، 24، 25) یہ سچ ہے کہ مُردوں کا جی اُٹھنا ہماری اِبتدائی تعلیمات میں شامل ہے لیکن پھر بھی ہمیں اِس عقیدے کے بارے میں گہرائی سے مطالعہ کرنا چاہیے۔ (عبرانیوں 5:12) اِس کی کیا وجہ ہے؟
4. مُردوں کے جی اُٹھنے کے حوالے سے کون سے سوال پیدا ہوتے ہیں؟
4 جب لوگ بائبل کورس کرنا شروع کرتے ہیں تو عموماً وہ ماضی کے اُن واقعات کے بارے میں پڑھتے ہیں جن میں مُردوں کو زندہ کِیا گیا تھا، مثلاً لعزر کے واقعے کے بارے میں۔ وہ یہ بھی سیکھتے ہیں کہ ابراہام، ایوب اور دانیایل کو یقین تھا کہ مستقبل میں مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا۔ لیکن آپ کسی شخص کو یہ کیسے ثابت کریں گے کہ بائبل میں مُردوں کے جی اُٹھنے کے حوالے سے جو وعدے سینکڑوں سال پہلے کیے گئے، وہ قابلِبھروسا ہیں؟ کیا بائبل سے اِس بات کا اِشارہ ملتا ہے کہ مُردوں کو کب زندہ کِیا جائے گا؟ اِن سوالوں کے جوابوں پر غور کرنے سے ہمارا ایمان مضبوط ہوگا۔
ایک شخص کے جی اُٹھنے کا وعدہ جو سینکڑوں سال بعد پورا ہوا
5. ہم مُردوں کے جی اُٹھنے کے حوالے سے پہلے کس بات پر غور کریں گے؟
5 اِس بات کا تصور کرنا اِتنا مشکل نہیں ہے کہ ایک شخص کو اُس کی موت کے تھوڑی دیر بعد زندہ کر دیا جائے۔ (یوحنا 11:11؛ اعمال 20:9، 10) لیکن شاید ایک شخص کے سلسلے میں یہ وعدہ کِیا جائے کہ اُسے سینکڑوں سال بعد زندہ کِیا جائے گا۔ چاہے یہ وعدہ اُس شخص کے مرنے کے تھوڑی دیر بعد کِیا جائے یا کافی عرصے بعد، کیا ہم اِس وعدے پر بھروسا کر سکتے ہیں؟ اصل میں آپ ایک ایسے شخص کے زندہ ہونے پر ایمان رکھتے ہیں جس کے جی اُٹھنے کا وعدہ کِیا گیا اور یہ وعدہ سینکڑوں سال بعد پورا ہوا۔ وہ شخص کون ہے؟ اور اُس کے جی اُٹھنے کا اِس اُمید سے کیا تعلق ہے کہ مستقبل میں مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا؟
6. زبور 118 میں کی گئی پیشگوئی کا یسوع مسیح سے کیا تعلق ہے؟
6 ذرا زبور 118 پر غور کریں جسے غالباً داؤد نے لکھا تھا۔ اِس زبور میں درج پیشگوئی سے ہمیں یہ اِشارہ ملتا ہے کہ ایک شخص مُردوں میں سے زندہ ہوگا۔ اور یہ پیشگوئی بہت سال بعد پوری ہوئی۔ اِس میں یہ الفاظ درج ہیں: ”اَے [یہوواہ]! بچا لے۔ . . . مبارک ہے وہ جو [یہوواہ] کے نام سے آتا ہے۔“ لوگوں نے مسیح کے متعلق کی گئی اِس پیشگوئی کے الفاظ اُس وقت بولے جب یسوع اپنی موت سے کچھ دن پہلے 9 نیسان کو یروشلیم آئے۔ (زبور 118:25، 26؛ متی 21:7-9) لیکن اِس زبور سے اِس بات کا اِشارہ کیسے ملتا ہے کہ ایک شخص نے جی اُٹھنا تھا اور ایسا کئی سال بعد ہونا تھا؟ ذرا اِس زبور میں لکھے اِن الفاظ پر غور کریں: ”جس پتھر کو معماروں نے رد کِیا وہی کونے کے سرے کا پتھر [”کونے کا سب سے اہم پتھر،“ ترجمہ نئی دُنیا] ہو گیا۔“—زبور 118:22۔
7. یہودیوں نے یسوع کو کیسے رد کِیا؟
7 جن ”معماروں“ نے مسیح کو رد کِیا، وہ یہودی رہنما تھے۔ اُنہوں نے یسوع کو صرف مسیح ماننے سے اِنکار نہیں کِیا بلکہ بہت سے اَور یہودیوں کے ساتھ مل کر اُن کے قتل کا مطالبہ بھی کِیا۔ (لُوقا 23:18-23) یسوع مسیح کی موت میں اُن لوگوں کا بڑا ہاتھ تھا۔
8. یسوع ”کونے کا سب سے اہم پتھر“ کیسے بن سکتے تھے؟
8 ہم نے دیکھا کہ یسوع کو رد کر دیا گیا اور قتل کر دیا گیا۔ تو پھر وہ ”کونے کا سب سے اہم پتھر“ کیسے بن سکتے تھے؟ ایسا صرف اُسی صورت میں ہو سکتا تھا اگر یسوع کو زندہ کِیا جاتا۔ اِس بات کو واضح کرنے کے لیے یسوع مسیح نے انگوروں کے باغ کے مالک کی مثال دی جس نے اپنے غلاموں کو کاشتکاروں کے پاس بھیجا۔ کاشتکاروں نے اُن غلاموں کے ساتھ بہت بُرا سلوک کِیا۔ آخرکار مالک نے اپنے بیٹے کو یہ سوچ کر اُن کے پاس بھیجا کہ وہ اُس کا تو لحاظ کریں گے۔ لیکن اُنہوں نے مالک کے بیٹے کو مار دیا۔ اِس مثال کو بیان کرنے کے بعد یسوع نے زبور 118:22 کا حوالہ دیا۔ (لُوقا 20:9-17) پطرس رسول نے بھی یروشلیم میں جمع ’یہودیوں کے حاکموں، بزرگوں اور شریعت کے عالموں‘ سے باتچیت کے دوران اِسی آیت کا حوالہ دیا۔ پطرس نے اُن سے کہا: ”اُسی یسوع کے نام سے جسے آپ نے سُولی دی لیکن جسے خدا نے مُردوں میں سے زندہ کِیا۔ وہی وہ ”پتھر ہے جس کو مزدوروں نے یعنی آپ نے ٹھکرا دیا لیکن وہ کونے کا سب سے اہم پتھر بن گیا۔““—اعمال 3:15؛ 4:5-11؛ 1-پطرس 2:5-7۔
9. زبور 118:22 میں کس شاندار واقعے کی پیشگوئی کی گئی؟
9 لہٰذا ہم نے دیکھا کہ زبور 118:22 میں درج پیشگوئی سے یہ اِشارہ ملتا ہے کہ ایک شخص مُردوں میں سے زندہ ہوگا اور ایسا سینکڑوں سال بعد ہوا۔ اِس پیشگوئی کے مطابق مسیح کو رد کِیا گیا اور مار ڈالا گیا۔ لیکن پھر اُسے زندہ کر دیا گیا اور وہ کونے کا سب سے اہم پتھر بن گیا۔ زندہ ہونے کے بعد یسوع وہ واحد شخص بن گئے جن کے نام کے ”ذریعے ہمیں نجات ملے“ گی۔—اعمال 4:12؛ اِفسیوں 1:20۔
10. (الف) زبور 16:10 میں کیا پیشگوئی کی گئی؟ (ب) ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ زبور 16:10 میں داؤد کے بارے میں بات نہیں کی جا رہی تھی؟
10 آئیں، اب ایک اَور آیت پر غور کریں جس میں ایک شخص کے جی اُٹھنے کی پیشگوئی درج ہے۔ یہ پیشگوئی 1000 سال سے زیادہ عرصے کے بعد پوری ہوئی۔ اِس پیشگوئی پر غور کرنے سے ہمیں یہ یقین ہو جائے گا کہ اگر کسی شخص کو زندہ کرنے کا وعدہ ایک لمبا عرصہ پہلے کِیا گیا ہو تو بھی یہ وعدہ پورا ہو سکتا ہے۔ زبور 16 میں داؤد نے لکھا: ”تُو نہ میری جان کو پاتال [یعنی قبر] میں رہنے دے گا نہ اپنے مُقدس کو سڑنے دے گا۔“ (زبور 16:10) اِس آیت میں داؤد اپنے بارے میں یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ وہ کبھی نہیں مریں گے اور قبر میں نہیں جائیں گے۔ خدا کے کلام میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ داؤد بوڑھے ہوئے اور ’اپنے باپدادا کے ساتھ سو گئے اور داؔؤد کے شہر میں دفن ہوئے۔‘ (1-سلاطین 2:1، 10) تو پھر اِس آیت میں کس کے بارے میں بات کی جا رہی تھی؟
11. پطرس نے زبور 16:10 کی وضاحت کب کی؟
11 جب داؤد نے زبور 16:10 کو لکھا تو اِس کے 1000 سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد پطرس نے بتایا کہ اِس آیت میں کس کی بات کی جا رہی تھی۔ یسوع مسیح کے مُردوں میں سے زندہ ہونے کے کچھ ہفتے بعد پطرس نے ہزاروں پیدائشی یہودیوں اور یہودی مذہب اپنانے والوں کے سامنے تقریر کی۔ (اعمال 2:29-32 کو پڑھیں۔) پطرس نے اُنہیں یاد دِلایا کہ داؤد فوت ہوئے اور اُنہیں دفن کِیا گیا۔ اور بائبل میں یہ نہیں لکھا کہ اُن لوگوں میں سے کسی نے پطرس کی اِس بات کی مخالفت کی کہ داؤد ”پہلے سے جانتے تھے کہ مسیح مُردوں میں سے زندہ ہوگا . . . اور اُنہوں نے اِس بات کا ذکر بھی کِیا۔“
12. (الف) زبور 16:10 میں درج پیشگوئی کیسے پوری ہوئی؟ (ب) زبور 16:10 میں درج پیشگوئی کی تکمیل سے یہ کیسے ثابت ہو جاتا ہے کہ مُردوں کو زندہ کرنے کا وعدہ ضرور پورا ہوگا؟
12 اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے پطرس نے زبور 110:1 کا حوالہ دیا۔ (اعمال 2:33-36 کو پڑھیں۔) پطرس نے صحیفوں سے جو دلیلیں دیں، اُن کی وجہ سے بہت سے لوگ اِس بات کے قائل ہو گئے کہ یسوع ہی ”مالک اور مسیح“ ہیں۔ لوگ یہ جان گئے کہ زبور 16:10 میں درج پیشگوئی تب پوری ہوئی جب یسوع کو مُردوں میں سے زندہ کِیا گیا۔ بعد میں پولُس نے بھی پِسدیہ کے شہر انطاکیہ میں یہودیوں کے سامنے تقریر کرتے وقت اُنہی دلیلوں کو اِستعمال کِیا جو پطرس نے دی تھیں۔ پولُس نے اُنہیں جو باتیں بتائیں، اُن کا اُن لوگوں پر بہت گہرا اثر ہوا اور اُنہوں نے مزید سیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ (اعمال 13:32-37، 42 کو پڑھیں۔) اِن دلیلوں پر غور کرنے سے ہمیں بھی یہ یقین ہو جاتا ہے کہ بائبل میں ایک شخص کے جی اُٹھنے کے حوالے سے جو پیشگوئیاں کی گئیں، وہ قابلِبھروسا تھیں حالانکہ وہ سینکڑوں سال بعد پوری ہوئیں۔
مُردوں کو کب زندہ کِیا جائے گا؟
13. کچھ لوگوں کے ذہن میں مُردوں کے جی اُٹھنے کے حوالے سے کون سے سوال آ سکتے ہیں؟
13 ہمیں یہ جان کر بہت حوصلہ ملتا ہے کہ اگر ایک شخص کو زندہ کرنے کا وعدہ کِیا گیا ہو تو یہ وعدہ سینکڑوں سال بعد بھی پورا ہو سکتا ہے۔ لیکن شاید کچھ لوگ سوچیں: ”کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ مجھے اپنے اُن عزیزوں سے ملنے کے لیے لمبا عرصہ اِنتظار کرنا ہوگا جو فوت ہو چُکے ہیں؟ مُردوں کو کب زندہ کِیا جائے گا؟“ ذرا غور کریں کہ یسوع نے اپنے شاگردوں کو کہا تھا کہ کچھ ایسی باتیں ہیں جنہیں وہ نہ تو جانتے ہیں اور نہ ہی جان سکتے ہیں۔ یسوع نے اُن سے کہا تھا: ”یہ آپ کا کام نہیں کہ اُن وقتوں یا زمانوں کے بارے میں جانیں جنہیں مقرر کرنے کا اِختیار باپ نے اپنے پاس رکھا ہے۔“ (اعمال 1:6، 7؛ یوحنا 16:12) لیکن ہمارے پاس اِس حوالے سے کچھ معلومات ہیں کہ مُردوں کو کب زندہ کِیا جائے گا۔
14. یسوع کے جی اُٹھنے اور اُن اشخاص کے جی اُٹھنے میں کیا فرق تھا جنہیں یسوع سے پہلے زندہ کِیا گیا؟
14 بائبل میں مُردوں کے زندہ ہونے کے جو واقعات درج ہیں، اُن میں سب سے اہم واقعہ یسوع کے زندہ ہونے کا ہے۔ اگر یسوع مُردوں میں سے زندہ نہ ہوئے ہوتے تو ہم میں سے کوئی بھی اپنے اُن عزیزوں سے دوبارہ ملنے کی اُمید نہ رکھ پاتا جو فوت ہو چُکے ہیں۔ جن لوگوں کو یسوع کے جی اُٹھنے سے پہلے زندہ کِیا گیا، مثلاً جن لوگوں کو ایلیاہ اور اِلیشع نے زندہ کِیا، وہ ہمیشہ زندہ نہیں رہے۔ وہ دوبارہ مر گئے اور خاک میں مل گئے۔ لیکن ”مسیح مُردوں میں سے زندہ ہو گیا ہے، وہ پھر سے نہیں مرے گا یعنی اب موت اُس کی مالک نہیں رہی۔“ وہ آسمان پر ”ہمیشہ ہمیشہ تک زندہ“ رہے گا۔—رومیوں 6:9؛ مکاشفہ 1:5، 18؛ کُلسّیوں 1:18؛ 1-پطرس 3:18۔
15. یسوع کو ”پہلا پھل“ کیوں کہا گیا ہے؟
15 یسوع وہ پہلے شخص تھے جنہیں روح کے طور پر آسمان پر زندہ کِیا گیا اور روح کے طور پر زندہ ہونے کے حوالے سے یسوع کا جی اُٹھنا سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ (اعمال 26:23) لیکن یسوع وہ واحد شخص نہیں تھے جنہیں آسمان پر زندہ کِیا جانا تھا۔ یسوع نے اپنے رسولوں سے وعدہ کِیا کہ وہ آسمان پر اُن کے ساتھ حکمرانی کریں گے۔ (لُوقا 22:28-30) لیکن رسولوں کو آسمان پر زندگی کا اِنعام تبھی ملنا تھا جب اُنہوں نے مرنا تھا۔ اُن کے مرنے کے بعد اُنہیں یسوع کی طرح روح کے طور پر زندہ کِیا جانا تھا۔ پولُس نے لکھا کہ ”مسیح کو مُردوں میں سے زندہ کِیا گیا ہے۔ دراصل مسیح اُن لوگوں میں سے پہلا پھل ہے جو موت کی نیند سو رہے ہیں۔“ پولُس نے یہ بھی بتایا کہ کچھ اَور لوگوں کو بھی زندہ کِیا جائے گا اور وہ آسمان پر جائیں گے۔ اُنہوں نے کہا: ”مُردوں کو ترتیب سے زندہ کِیا جائے گا: پہلا پھل مسیح ہے، پھر مسیح کی موجودگی کے دوران اُن مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا جو اُس کے ہیں۔“—1-کُرنتھیوں 15:20، 23۔
16. پولُس نے اُس وقت کے بارے میں کون سا اِشارہ دیا جب مُردوں کو آسمان پر زندہ کِیا جانا تھا؟
16 پولُس کے الفاظ سے ہمیں اِس بات کا اِشارہ ملتا ہے کہ آسمان پر زندگی کی اُمید رکھنے والوں کو کب زندہ کِیا جانا تھا۔ ایسا یسوع مسیح کی ”موجودگی کے دوران“ ہونا تھا۔ یہوواہ کے گواہ بہت سالوں سے اِس بات کی تعلیم دے رہے ہیں کہ بائبل کے مطابق یسوع مسیح کی ”موجودگی“ کا عرصہ 1914ء میں شروع ہوا۔ ہم ابھی بھی اِسی عرصے میں رہ رہے ہیں اور اِس بُری دُنیا کا خاتمہ بہت نزدیک ہے۔
17، 18. مسیح کی موجودگی کے دوران کچھ مسحشُدہ مسیحیوں کے ساتھ کیا ہوگا؟
17 آسمان پر زندگی پانے والوں کے حوالے سے بائبل میں مزید بتایا گیا ہے: ”ہم نہیں چاہتے کہ آپ اُن کے حوالے سے بےخبر رہیں جو موت کی نیند سو رہے ہیں . . . کیونکہ اگر ہمارا ایمان ہے کہ یسوع مر گئے اور پھر زندہ ہوئے تو ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ خدا اُن لوگوں کو زندہ کرے گا جو . . . موت کی نیند سو گئے ہیں تاکہ وہ یسوع کے ساتھ ہوں۔ . . . ہم میں سے جو لوگ مالک کی موجودگی کے وقت باقی ہوں گے، وہ کسی بھی صورت میں اُن لوگوں سے پہلے آسمان پر نہیں جائیں گے جو موت کی نیند سو گئے ہیں۔ کیونکہ ہمارے مالک آسمان سے . . . حکم دیں گے اور وہ لوگ پہلے زندہ ہوں گے جو مسیح کی پیروی کرتے کرتے مر گئے۔ اِس کے بعد ہم جو باقی ہوں گے، بادلوں میں اُٹھائے جائیں گے تاکہ ہم بھی اُن لوگوں کے ساتھ ہوں اور آسمان پر اپنے مالک سے ملیں۔ پھر ہم ہمیشہ اپنے مالک کے ساتھ رہیں گے۔“—1-تھسلُنیکیوں 4:13-17۔
18 جب مسیح کی موجودگی کا عرصہ شروع ہوا تو اِس کے کچھ دیر بعد ہی آسمان پر مُردوں کو زندہ کرنے کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ جو مسحشُدہ مسیحی بڑی مصیبت کے دوران زمین پر ہوں گے، وہ ”بادلوں میں اُٹھائے جائیں گے۔“ اِس بات کا کیا مطلب ہے؟ جو مسحشُدہ مسیحی ”اُٹھائے جائیں گے،“ وہ اِس لحاظ سے ”موت کی نیند نہیں سوئیں گے“ کہ وہ زیادہ دیر تک موت کی حالت میں نہیں رہیں گے۔ اِس کی بجائے وہ ”ایک ہی لمحے میں پلک جھپکتے ہی بدل جائیں گے . . . جس وقت آخری نرسنگا بجے گا۔“—1-کُرنتھیوں 15:51، 52؛ متی 24:31۔
19. اِس بات کا کیا مطلب ہے کہ مستقبل میں مُردوں کو ”بہتر لحاظ سے زندہ کِیا جائے“ گا؟
19 آجکل زیادہتر مسیحی مسحشُدہ نہیں ہیں اور اُنہیں مسیح کے ساتھ آسمان پر حکمرانی کرنے کے لیے نہیں چُنا گیا ہے۔ اِس کی بجائے وہ ’یہوواہ کے دن‘ کا اِنتظار کر رہے ہیں جس کے دوران وہ اِس بُری دُنیا کو ختم کر دے گا۔ کوئی بھی اُس وقت کے بارے میں بالکل صحیح طور پر نہیں جانتا لیکن حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وقت بہت قریب ہے۔ (1-تھسلُنیکیوں 5:1-3) جب خدا کی نئی دُنیا آئے گی تو مُردوں کو زمین پر زندگی بخشی جائے گی۔ اُس وقت زندہ ہونے والوں کے پاس یہ اُمید ہوگی کہ وہ گُناہ سے مکمل طور پر پاک ہو جائیں اور دوبارہ کبھی نہ مریں۔ ماضی میں جن لوگوں کو زندہ کِیا گیا، وہ کچھ عرصے بعد پھر سے مر گئے۔ لیکن نئی دُنیا میں جن لوگوں کو زندہ کِیا جائے گا، وہ کبھی نہیں مریں گے۔ اِسی لیے بائبل میں لکھا ہے کہ ”اُنہیں بہتر لحاظ سے زندہ کِیا جائے“ گا۔—عبرانیوں 11:35۔
20. ہم اِس بات پر یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ مُردوں کو زندہ کرنے کا کام منظم انداز میں کِیا جائے گا؟
20 بائبل میں لکھا ہے کہ جو لوگ آسمان پر جاتے ہیں، اُنہیں ”ترتیب سے زندہ“ کِیا جاتا ہے۔ (1-کُرنتھیوں 15:23) لہٰذا ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ زمین پر مُردوں کو زندہ کرنے کا کام بھی منظم انداز میں کِیا جائے گا۔ لیکن اِس حوالے سے ہمارے ذہن میں کچھ سوال پیدا ہو سکتے ہیں، مثلاً ”کیا اُن لوگوں کو مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے آغاز میں زندہ کِیا جائے گا جو حال ہی میں مرے ہوں گے تاکہ اُن کے عزیز اُن کا اِستقبال کر سکیں؟ کیا خدا کے اُن وفادار بندوں کو پہلے زندہ کِیا جائے گا جنہوں نے ماضی میں خدا کے لوگوں کی پیشوائی کی تاکہ وہ نئی دُنیا میں بھی پیشوائی کا کام انجام دیں؟ اُن لوگوں کو کب اور کہاں زندہ کِیا جائے گا جنہیں کبھی یہوواہ کے بارے میں سیکھنے کا موقع نہیں ملا؟“ شاید ہمارے ذہن میں اِس طرح کے اَور بھی بہت سے سوال ہوں۔ لیکن کیا ہمیں ابھی اِن معاملات کے بارے میں حد سے زیادہ سوچنے کی ضرورت ہے؟ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم اِنتظار کریں اور دیکھیں کہ اُس وقت کیا ہوگا؟ ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ وقت بہت شاندار ہوگا جب ہم نئی دُنیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ یہوواہ اِن معاملات کو کیسے انجام دیتا ہے۔
21. آپ کس بات پر ایمان رکھتے ہیں؟
21 جب تک نئی دُنیا نہیں آتی، ہمیں یہوواہ خدا پر اپنے ایمان کو اَور مضبوط کرنا چاہیے۔ یہوواہ نے یسوع کے ذریعے یہ بتایا ہے کہ اُسے مُردوں کے بارے میں ہر تفصیل یاد ہے اور یہ وعدہ کِیا ہے کہ وہ اُنہیں زندہ کرے گا۔ (یوحنا 5:28، 29؛ 11:23) اِس بات کو ثابت کرنے کے لیے کہ یہوواہ مُردوں کو زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے، یسوع مسیح نے کہا کہ ابراہام، اِضحاق اور یعقوب ”اُس کی نظر میں . . . زندہ ہیں۔“ (لُوقا 20:37، 38) بِلاشُبہ ہمارے پاس بھی پولُس رسول کی طرح یہ کہنے کی بےشمار وجوہات ہیں کہ ”میرا بھی ایمان ہے کہ خدا [مُردوں] کو زندہ کرے گا۔“—اعمال 24:15۔