خوف—اب عام لیکن ہمیشہ کیلئے نہیں!
خدا کے کلام کے طالبعلم اس بات سے حیران نہیں ہیں کہ خوف اسقدر عام ہے۔ جیسےکہ یہوؔواہ کے گواہوں نے اپنی خدمتگزاری میں وسیع پیمانے پر اسکی تشہیر کی ہے، اس بات کی واضح شہادت ہے کہ ہم انسانی تاریخ کے ایک مخصوص دَور میں رہ رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ اس کی نشاندہی دُور دُور تک پھیلے ہوئے خوف سے ہوتی ہے۔ لیکن بہت عرصہ پہلے یسوؔع نے، ہمارے زمانے کی نشاندہی کی، یا اسکی طرف اشارہ کِیا۔ وہ اپنی موجودگی اور اس نظامالعمل کے خاتمے، یا ’دُنیا کے آخر‘ کی بابت رسولوں کے سوالات کا جواب دے رہا تھا۔—متی ۲۴:۳۔
جس چیز کی یسوؔع نے پیشینگوئی کی اسکا اقتباس یوں ہے:
”قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی۔ اور بڑے بڑے بھونچال آئینگے اور جابجا کال اور مری پڑیگی اور آسمان پر بڑی بڑی دہشتناک باتیں اور نشانیاں ظاہر ہونگی۔“—لوقا ۲۱:۱۰، ۱۱۔
کیا آپ نے ”دہشتناک باتوں“ کی بابت اُس کے تبصرے پر غور کِیا؟ بعدازاں اُسی جواب میں، یسوؔع نے خوف کی بابت ایک اَور اہم اظہارِخیال کِیا جوکہ براہِراست اور فیصلہکُن طور پر آپ اور آپکے عزیزوں پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ لیکن اس پر توجہ دینے سے پہلے، آیئے مختصراً اس بات کی چند اضافی شہادتوں پر غور کریں کہ ہم آخری ایام میں رہ رہے ہیں۔—۲-تیمتھیس ۳:۱۔
جنگ کا جائز خوف
فوجی لڑائیوں نے زمین کے بہت سے خطوں کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ مثال کے طور پر، جیئو رسالے نے تیل کے اُن کنوؤں کو جو مشرقِوسطیٰ کی حالیہ لڑائی میں جلتے چھوڑ دئے گئے تھے ”انسان کے ہاتھوں پہلے کبھی لائی جانے والی عظیمترین ماحولیاتی تباہی“ کا نام دیا۔ جنگوں نے کروڑوں لوگوں کو ہلاک کر ڈالا یا اپاہج بنا دیا ہے۔ پہلی عالمی جنگ میں لاکھوں فوجی اور شہری اموات کے علاوہ، دوسری عالمی جنگ میں ۵۵ ملین مارے گئے تھے۔ یاد کریں کہ نشان کے اس حصے کے طور پر کہ دُنیا کا خاتمہ قریب ہے، یسوؔع نے کہا تھا کہ ”قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کریگی۔“
ہم انسان کی نسلکُشی کی کوششوں—تمام نسلوں یا لوگوں کی بربادی کو بھی نظرانداز نہیں کر سکتے۔ لاکھوں آرمینیوں، کمبوڈیوں، یہودیوں، روانڈیوں، یوکرینیوں اور دیگر لوگوں کی اموات نے ۲۰ ویں صدی کے دوران نوعِانسان کے بوکھلا دینے والے خون کے جرم میں اضافہ کِیا ہے۔ قتلِعام ایسے ممالک میں جاری ہے جہاں مذہبی انتہاپسندوں کے ذریعے نسلی نفرتوں کی حوصلہافزائی کی جاتی ہے۔ جیہاں، جنگیں ابھی تک زمین کو انسانی خون سے تر کر رہی ہیں۔
جدید جنگیں جنگبندی کے بعد بھی لوگوں کی جانیں لینا جاری رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر، زمین دوز سرنگوں کے بِلاامتیاز بچھائے جانے پر غور کریں۔ ریسرچ آرگنائزیشن ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ”پوری دُنیا میں کوئی ۱۰۰ ملین سرنگیں شہری آبادی کیلئے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔“ ایسی سرنگیں معصوم مردوں، عورتوں اور بچوں کیلئے اُس جنگ کے ختم ہو جانے کے بعد بھی جس میں وہ استعمال کی گئی تھیں خطرناک ثابت ہو رہی ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ۶۰ سے زائد ممالک میں ہر مہینے ہزاروں لوگ زمینی سرنگوں کے باعث زخمی یا ہلاک ہوتے ہیں۔ کیوں یہ زندگی اور انسانی اعضا کیلئے خطرناک سرنگیں باقاعدہ طور پر ختم نہیں کر دی جاتیں؟ دی نیو یارک ٹائمز لکھتا ہے: ”جتنی زیادہ، سرنگیں تلف کرنے کے عمل سے ناکارہ بنائی جاتی ہیں اس سے کہیں زیادہ سرنگیں ہر روز بچھائی جاتی ہیں، اور یوں زخمیوں کی شرح میں متواتر اضافہ ہو رہا ہے۔“
۱۹۹۳ کے اخبار کے اُس مضمون نے بیان کِیا کہ ان سرنگوں کی تجارت ایک ایسا کاروبار بن گیا ہے جو ”سالانہ ۲۰۰ ملین ڈالر کا نفع بخشتا ہے۔“ اس میں ”۴۸ ممالک کے اندر، تقریباً ۱۰۰ کمپنیاں اور سرکاری ایجنسیاں کام کرتی ہیں“ جوکہ ”۳۴۰ مختلف اقسام“ کی سرنگیں برآمد کر رہی ہیں۔ بےرحمی سے، بعض سرنگوں کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ وہ کھلونوں کی طرح دکھائی دیں تاکہ اُنہیں بچوں کیلئے دلکش بنایا جا سکے! تصور کریں، جانبوجھ کر اپاہج بنانے اور ختم کرنے کیلئے معصوم بچوں کو نشانہ بنانا! ”۱۰۰ ملین آتشی مشینیں“ کے عنوان سے ایک اداریے نے دعویٰ کِیا کہ سرنگوں نے ”کیمیائی، حیاتیاتی اور نیوکلیئر جنگ سے زیادہ لوگوں کو زخمی یا ہلاک“ کِیا ہے۔
لیکن زمینی سرنگیں ہی عالمی منڈی میں فروخت ہونے والا جانلیوا تجارتی مال نہیں ہیں۔ پوری دُنیا میں جنگی اسلحے کا کاروبار کرنے والے حریص لوگ کروڑوں بلین ڈالر کا کاروبار کر رہے ہیں۔ سینٹر فار ڈیفنس انفارمیشن کی طرف سے شائعکردہ دی ڈیفنس مونیٹر بیان کرتا ہے: ”گزشتہ عشرے کے دوران [ایک بڑے ملک] نے ۱۳۵ بلین ڈالر کی مالیت کا اسلحہ برآمد کِیا۔“ اس طاقتور قوم نے ”۱۴۲ ممالک کو ۶۳ بلین ڈالر کی قیمت کے اسلحے، فوجی تعمیرات اور تربیت کی بوکھلا دینے والی فروخت کا اختیار دیا۔“ یوں مستقبل میں جنگ اور انسانی تکلیف کا بیج بویا جا رہا ہے۔ دی ڈیفنس مونیٹر کے مطابق، ”صرف ۱۹۹۰ میں، جنگوں نے ۵ ملین لوگوں کو اسلحے سے لیس رکھا، جس کی لاگت ۵۰ بلین ڈالر سے زیادہ تھی اور جس نے ایک چوتھائی ملین لوگوں کو قتل کِیا، جن میں سے زیادہتر شہری تھے۔“ آپ یقینی طور پر ایسی بیشمار جنگوں کی بابت سوچ سکتے ہیں جوکہ اس سال کے بعد لڑی گئی ہیں، اور جو مزید لاکھوں کیلئے خوف اور موت کا باعث رہی ہیں!
زمین اور اُس پر کی زندگی کی مزید بربادی
پروفیسر بیرؔی کومنر آگاہ کرتے ہیں: ”مجھے یقین ہے کہ اگر زمین کی مسلسل آلودگی کو نہ روکا گیا تو یہ بالآخر انسانی زندگی کیلئے رہنے کی جگہ کے طور پر اس سیارے کی موزونیت کو تباہ کر دیگی۔“ وہ مزید کہتا ہے کہ مسئلہ بےخبری کا نہیں بلکہ دانستہ لالچ کا ہے۔ کیا آپ سوچتے ہیں کہ ہمیں آلودگی کے بڑھتے ہوئے خوف کے خطرے میں ڈالتے ہوئے ہمارا منصف اور پُرمحبت خدا غیرمُعیّنہ عرصے تک اس حالت کو برداشت کریگا؟ زمین کی بربادی برباد کرنے والوں کا حساب مانگتی ہے اور پھر اس سیارے کی الہٰی بحالی کیلئے آواز بلند کرتی ہے۔ جو کچھ یسوؔع نے ’دُنیا کے آخر‘ کی بابت اپنے رسولوں کو جواب دیتے ہوئے کہا، وہ اس کا ایک حصہ ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ خدا کیونکر یہ جوابطلبی کریگا، آیئے انسان کے مزید ریکارڈ پر غور کریں۔ انسان کی بےادبی کی جزوی فہرست بھی افسوسناک ہے: تیزابی بارش اور درخت کاٹنے کی حریص عادات جو کہ تمامتر جنگلات کو تباہ کر دیتی ہیں؛ بےاحتیاطی کیساتھ نیوکلیئر کوڑےکرکٹ، زہریلے کیمیاوی مادوں کا پھینکا جانا اور تلف کرنے کے عمل سے گذارے جانے کے بغیر خام کچرے کو گندے نالے کے پانی میں چھوڑ دینا؛ تحفظ فراہم کرنے والی اوزون پرت کا کمزور پڑ جانا؛ اور جڑی بوٹیاں تلف کرنے والی اور کیڑے مار ادویات کا بےدریغ استعمال۔
تجارتی مفادات نفع حاصل کرنے کے لئے دیگر طریقوں سے بھی زمین کو آلودہ کرتے ہیں۔ ٹنوں کے حساب سے ہر روز فاضل مادے دریاؤں، سمندروں، ہوا اور زمین میں دفن کئے جاتے ہیں۔ سائنسدان خود اسے بعد میں صاف نہ کرتے ہوئے، فضا کو خلائی کوڑےکرکٹ سے آلودہ کرتے ہیں۔ زمین بڑی تیزی کیساتھ خلا میں گردش کرتے ہوئے کوڑےکرکٹ کے مدار میں گردش کرنے والی ہے۔ اگر وہ قدرتی عوامل نہ ہوتے جوکہ خدا نے ترتیب دئے ہیں جن کے ذریعے زمین خود کو ازسرِنو بحال کر سکتی ہے تو ہمارا زمینی کرہ کبھی بھی زندگی کو برقرار نہ رکھتا اور عین ممکن ہے کہ انسان بہت عرصہ پہلے اپنے ہی کوڑےکرکٹ میں دَم گھٹنے سے مر گیا ہوتا۔
انسان تو اپنے آپکو بھی آلودہ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، تمباکو اور دیگر منشیات کو ہی لے لیں۔ ریاستہائے متحدہ میں، ایسی چیزوں کے غلط استعمال کو ”قوم کے اول درجے کا صحت کا مسئلہ“ قرار دیا گیا ہے۔ اُس ملک کی اس پر سالانہ لاگت ۲۳۸ بلین ڈالر ہے، جس میں سے ۳۴ بلین ڈالر ”غیرضروری [یعنی جس سے گریز کِیا جا سکتا ہے] صحت کی نگہداشت پر صرف کِیا جاتا ہے۔“ آپکے خیال میں جہاں آپ رہتے ہیں وہاں تمباکو کی قیمت پیسے اور زندگیوں کے حساب سے کیا ہے؟
اباحتی اور متجاوز طرزِزندگی، جس پر بہتیرے اپنے حق کے طور پر زور دیتے ہیں، اُس نے بہتوں کو وقت سے پہلے قبر رسید کرتے ہوئے، جنسی طور پر منتقل ہونے والی جانلیوا بیماریوں کی خوفناک فصل پیدا کی ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ بڑے شہروں کے اخبارات میں موت کی خبریں شائع کرنے والے کالم اب ۳۰ اور ۴۰ کے عشرے میں مرنے والوں کی تعداد میں اضافے کو ظاہر کرتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ اکثر اُنکی بُری عادات نے اُنہیں جلد آ لیا ہے۔ جنسی اور دیگر بیماریوں میں ایسا افسوسناک اضافہ بھی یسوؔع کی پیشینگوئی پر پورا اُترتا ہے، کیونکہ اُس نے کہا تھا کہ ”جگہ جگہ مری پڑیگی۔“
تاہم، سب سے بدترین آلودگی، انسانی دماغ اور روح، یا رویے کی ہے۔ اگر آپ اُن تمام طرح کی آلودگیوں پر غور کریں جنکا ہم نے اب تک ذکر کِیا ہے تو کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اُن میں سے زیادہتر آلودہ ذہن کی پیداوار ہیں؟ اُس بربادی پر غور کریں جو بیمار ذہن قتلوغارت، عصمتدریوں، چوریوں اور دیگر اقسام کے تشدد کی شکل میں ایک شخص کے ذریعے دوسرے پر کِیا جاتا ہے۔ بہتیرے اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہر سال عمل میں لائے جانے والے لاکھوں اسقاطِحمل بھی ذہنی اور روحانی آلودگی کا نشان ہیں۔
ہم نوجوانوں کے رویے سے بھی بہت کچھ دیکھ سکتے ہیں۔ والدین اور دیگر اصحابِاختیار کیلئے بےادبی خاندانی شکستگی اور نظموضبط کے عدول پر منتج ہوتی ہے۔ اختیار کیلئے اس خوشگوار خوف کی کمی براہِراست ایک نوجوان کی روحانیت میں کمی کیساتھ تعلق رکھتی ہے۔ اسلئے، وہ جو ارتقاء، دہریت اور دیگر ایمان کو بگاڑنے والے نظریات کی تعلیم دیتے ہیں خاطرخواہ جرم کے حامل ہیں۔ اسکے علاوہ بہت سے مذہبی مُعلم جنہوں نے جدید اور ”صحیح“ تسلیم کئے جانے کی اپنی کوششوں میں خدا کے کلام سے مُنہ موڑ لیا ہے وہ بھی قصوروار ہیں۔ وہ اور دیگر جن پر دُنیا کی حکمت کا رنگ چڑھ گیا ہے متضاد انسانی فیلسوفیوں کی تعلیم دیتے ہیں۔
آجکل اس کے نتائج بالکل واضح ہیں۔ لوگ خدا اور ساتھی انسانوں کیلئے محبت سے نہیں بلکہ لالچ اور نفرت سے تحریک پاتے ہیں۔ اسکی خراب فصل ہر جگہ پھیلی ہوئی بداخلاقی، تشدد اور مایوسی ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ ایماندار لوگوں کو خوفزدہ کرتا ہے، بشمول اس خوف کے کہ انسان خود کو اور اس سیارے کو تباہ کر دیگا۔
کیا یہ بدتر یا بہتر ہوگا؟
جہاں تک خوف کا تعلق ہے تو مستقبل قریب کیا تھامے ہوئے ہے؟ کیا خوف میں اضافہ ہوتا رہیگا یا کیا اس پر قابو پا لیا جائیگا؟ آیئے ایک بار پھر اُس پر غور کریں جو کچھ یسوؔع نے اپنے رسولوں کو بتایا۔
اُس نے کسی ایسی چیز کی طرف اشارہ کِیا جو مستقبل قریب میں واقع ہوگی—بڑی مصیبت۔ اُسکے الفاظ یوں ہیں: ”فوراً اُن دِنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک ہو جائیگا اور چاند اپنی روشنی نہ دیگا اور ستارے آسمان سے گرینگے اور آسمانوں کی قوتیں ہلائی جائینگی۔ اور اُس وقت ابنِآدم کا نشان آسمان پر دکھائی دیگا۔ اور اُس وقت زمین کی سب قومیں چھاتی پیٹیں گی اور ابنِآدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھینگی۔“—متی ۲۴:۲۹، ۳۰۔
پس ہم توقع کر سکتے ہیں کہ بڑی مصیبت جلد شروع ہو جائیگی۔ دیگر بائبل پیشینگوئیاں ظاہر کرتی ہیں کہ اسکا پہلا حصہ عالمگیر پیمانے پر جھوٹے مذہب کے خلاف کارروائی ہوگا۔ اسکے بعد کسی طرح کے آسمانی مظاہر سمیت، یہ حیرانکُن تبدیلیاں رونما ہونگی جنکا ابھی حوالہ دِیا گیا ہے۔ لاکھوں لوگوں پر اسکا کیا اثر پڑیگا؟
یسوؔع کے جواب کے مماثل بیان پر غور کریں جہاں ہم تفصیلی نبوّتی تبصرے پاتے ہیں:
”سورج اور چاند اور ستاروں میں نشان ظاہر ہونگے اور زمین پر قوموں کو تکلیف ہوگی کیونکہ وہ سمندر اور اُسکی لہروں کے شور سے گھبرا جائینگی۔ اور ڈر کے مارے اور زمین پر آنے والی بلاؤں کی راہ دیکھتے دیکھتے لوگوں کی جان میں جان نہ رہیگی۔ اسلئے کہ آسمان کی قوتیں ہلائی جائینگی۔“—لوقا ۲۱:۲۵، ۲۶۔
یہ ہے ہمارا مستقبل۔ لیکن اُس وقت تمام انسان ایسے خوف کا شکار نہیں ہونگے جس سے کہ اُنکی جان میں جان نہیں رہیگی۔ اسکے برعکس، یسوؔع نے کہا: ”جب یہ باتیں ہونے لگیں تو سیدھے ہو کر سر اُوپر اُٹھانا اسلئے کہ تمہاری مخلصی نزدیک ہوگی۔“—لوقا ۲۱:۲۸۔
اُس نے یہ حوصلہافزا الفاظ اپنے سچے پیروکاروں سے کہے تھے۔ خوف سے گھبرا جانے یا بےبس ہو جانے کی بجائے، اُنکے پاس بِلاخوف اپنے سر اُوپر اُٹھانے کی وجہ ہوگی، اگرچہ وہ جانتے ہیں کہ بڑی مصیبت کا عروج بہت نزدیک ہے۔ خوف کیوں نہیں؟
کیونکہ بائبل واضح طور پر کہتی ہے کہ اس تمامتر ”بڑی مصیبت“ سے بچنے والے ہونگے۔ (مکاشفہ ۷:۱۴) اس کا وعدہ کرنے والا بیان کہتا ہے کہ اگر ہم اُن بچنے والوں کے درمیان ہیں تو ہم خدا کی طرف سے بینظیر برکات سے لطفاندوز ہو سکتے ہیں۔ یہ اس یقیندہانی کیساتھ اختتامپذیر ہوتا ہے کہ یسوؔع ”اُنکی گلہبانی کریگا اور اُنہیں آبِحیات کے چشموں کے پاس لے جائیگا اور خدا اُنکی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دیگا۔“—مکاشفہ ۷:۱۶، ۱۷۔
وہ—اور ہم بھی اُن میں شامل ہو سکتے ہیں—جو ایسی برکات سے لطف اُٹھاتے ہیں اور جنہیں وہ خوف نہ ہوگا جس نے آجکل لوگوں کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ تاہم، اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اُنہیں بالکل کسی قسم کا خوف نہیں ہوگا، کیونکہ بائبل ظاہر کرتی ہے کہ اچھا اور خوشگوار خوف بھی ہے۔ اگلا مضمون اس پر باتچیت کریگا کہ یہ کیا ہے اور اسے ہم پر کیسے اثرانداز ہونا چاہئے۔