یہوواہ کے روزِعظیم کیلئے تیار رہیں
”تُم بھی تیار رہو کیونکہ جس گھڑی تُمکو گمان بھی نہ ہوگا ابنِآدم آ جائیگا۔“—متی ۲۴:۴۴۔
۱. ہمیں یہوواہ کے روزِعظیم کو کیوں ذہن میں رکھنا چاہئے؟
یہوواہ خدا کا ”خوفناک روزِعظیم“ ضرور آئیگا۔ وہ دن قہر کا دن ہوگا۔ دُکھ اور رنج کا دن۔ تاریکی اور اُداسی کا دن ہوگا۔ جسطرح نوح کے زمانے میں طوفان نے تمام بُرے لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا اِسی طرح یہوواہ کے روزِعظیم سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ لیکن ”جو کوئی [یہوواہ] کا نام لیگا نجات پائیگا۔“ (یوایل ۲:۳۰-۳۲؛ عاموس ۵:۱۸-۲۰) جیہاں، خدا اپنے دشمنوں کو ختم کر دیگا لیکن اپنے بندوں کو نجات دیگا۔ وقت کی اہمیت کو جانتے ہوئے صفنیاہ نبی نے لکھا: ”[یہوواہ] کا روزِعظیم قریب ہے ہاں وہ نزدیک آ گیا۔ وہ آ پہنچا!“ (صفنیاہ ۱:۱۴) لیکن یہوواہ کا روزِعظیم کب آئیگا؟
۲، ۳. ہمیں یہوواہ کے روزِعظیم کیلئے ابھی سے تیاری کیوں کرنی چاہئے؟
۲ یسوع نے اس روزِعظیم کے بارے میں کہا کہ ”اُس دن اور اُس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا۔ نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر صرف باپ۔“ (متی ۲۴:۳۶) ہمیں معلوم نہیں کہ وہ دن کب آئیگا۔ اِسلئے ہمیں سن ۲۰۰۴ کی سالانہ آیت پر عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے جس میں کہا گیا ہے: ”جاگتے رہو . . . تیار رہو۔“—متی ۲۴:۴۲، ۴۴۔
۳ یسوع نے کہا: ”اُس وقت دو آدمی کھیت میں ہونگے ایک لے لیا جائیگا اور دوسرا چھوڑ دیا جائیگا۔ دو عورتیں چکی پیستی ہونگی۔ ایک لے لی جائیگی اور دوسری چھوڑ دی جائیگی۔“ (متی ۲۴:۴۰، ۴۱) اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کا روزِعظیم اچانک آئیگا۔ جو اس دن کیلئے تیار نہیں ہوگا وہ اس سے بچ نہیں سکیگا۔ کیا ہم یہوواہ کے روزِعظیم کیلئے تیار ہیں؟ کیا ہم اُسکے منتظر ہیں؟ ہمیں اِس دن کیلئے ابھی سے تیاری شروع کر دینی چاہئے۔ ایسا کرنے کیلئے ہمیں تین چیزوں سے گریز کرنا چاہئے۔ ہمیں لاپرواہی، روحانی طور پر سُست پڑ جانے اور بُری عادات سے کنارہ کرنا چاہئے۔
لاپرواہی سے بچیں
۴. نوح کے دنوں میں لوگ کیسا رویہ رکھتے تھے؟
۴ بائبل نوح کے زمانے کے بارے میں کہتی ہے کہ ”ایمان ہی کہ سبب سے نوؔح نے ان چیزوں کی بابت جو اُس وقت تک نظر نہ آتی تھیں ہدایت پا کر خدا کے خوف سے اپنے گھرانے کے بچاؤ کیلئے کشتی بنائی۔“ (عبرانیوں ۱۱:۷) یہ کشتی اتنی بڑی تھی کہ وہ دُور سے نظر آتی تھی اسلئے وہ اُس زمانے کے لوگوں کیلئے ایک انوکھی چیز تھی۔ اِسکے علاوہ نوح ’راستبازی کی منادی کرنے والا‘ بھی تھا۔ (۲-پطرس ۲:۵) تاہم اُس وقت کے لوگوں نے نہ تو کشتی کی تعمیر سے اور نہ ہی نوح کی منادی سے اپنی روش کو بدلنے کی تحریک پائی تھی۔ وہ ایسا رویہ کیوں رکھتے تھے؟ اِسلئےکہ وہ ’کھانےپینے اور بیاہشادیاں کرنے میں‘ یعنی اپنے ذاتی معاملوں اور عیشوعشرت میں اتنے مگن تھے کہ ”جبتک طوفان آ کر اُن سب کو بہا نہ لے گیا اُنکو خبر نہ ہوئی۔“—متی ۲۴:۳۸، ۳۹۔
۵. لوط کے دنوں میں لوگ کیسا رویہ رکھتے تھے؟
۵ لوط کے زمانے میں بھی لوگوں کا یہی حال تھا۔ بائبل صحائف بیان کرتے ہیں: ”لوگ کھاتےپیتے اور خریدوفروخت کرتے اور درخت لگاتے اور گھر بناتے تھے۔ لیکن جس دن لوؔط سدؔوم سے نکلا آگ اور گندھک نے آسمان سے برس کر سب کو ہلاک کِیا۔“ (لوقا ۱۷:۲۸، ۲۹) لوط نے فرشتوں سے آنے والی تباہی کی آگاہی پانے کے بعد اپنے دامادوں کو بھی خبردار کِیا۔ لیکن اُنہوں نے اُسکی ایک نہ مانی بلکہ وہ تو ”اپنے دامادوں کی نظر میں مضحک سا معلوم ہوا۔“—پیدایش ۱۹:۱۴۔
۶. ہمیں کونسے رویے سے گریز کرنا چاہئے؟
۶ یسوع نے اپنی موجودگی کے بارے میں کہا کہ جسطرح نوح اور لوط کا زمانہ تھا بالکل ”اُسی طرح ابنِآدم [کی موجودگی کے وقت] ہوگا۔“ (متی ۲۴:۳۹؛ لوقا ۱۷:۳۰) آج بھی زیادہتر لوگ اپنی روش بدلنے کو تیار نہیں ہیں۔ اسلئے ہمیں خبردار رہنا چاہئے کہ ہم بھی اُنکی طرح لاپرواہ نہ بن جائیں۔ کھاناپینا بذاتِخود غلط نہیں ہے۔ شادی کرنے میں بھی کوئی بُرائی نہیں کیونکہ خدا ہی نے پہلے انسانی جوڑے کو شادی کے بندھن میں باندھا تھا۔ تاہم، اگر ایسے کام ہماری زندگی میں اتنی اہمیت اختیار کر گئے ہیں کہ ہمارے پاس روحانی کارگزاریوں کیلئے وقت نہیں ہے توپھر ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے: کیا مَیں واقعی یہوواہ کے خوفناک روزِعظیم کیلئے تیار ہوں؟
۷. کوئی بھی منصوبہ بنانے سے پہلے ہمیں خود سے کیا پوچھنا چاہئے اور یہ کیوں اہم ہے؟
۷ پولس رسول نے لکھا: ”وقت تنگ ہے۔ پس آگے کو چاہئے کہ بیوی والے ایسے ہوں کہ گویا اُنکی بیویاں نہیں۔“ (۱-کرنتھیوں ۷:۲۹-۳۱) خدا نے ہمیں بادشاہت کے بارے میں منادی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس اہم کام کیلئے ہمارے پاس بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ (متی ۲۴:۱۴) اِسلئے پولس شادیشُدہ لوگوں کو ہدایت کر رہا ہے کہ وہ ایک دوسرے میں اتنے مگن نہ ہو جائیں کہ اُنکے پاس خدا کی خدمت کیلئے وقت ہی نہ ہو۔ پولس ہمیں لاپرواہ بن جانے سے خبردار کر رہا تھا۔ یسوع نے کہا، ”تُم پہلے [خدا] کی بادشاہی اور اُسکی راستبازی کی تلاش کرو۔“ (متی ۶:۳۳) اِسلئے ہمیں کوئی بھی فیصلہ کرنے یا منصوبہ بنانے سے پہلے خود سے پوچھنا چاہئے: ’کیا ایسا کرنے سے مَیں خدا کی خدمت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دے سکونگا؟‘
۸. اگر روزمرّہ کے کام ہی ہماری زندگی کا محور بن جاتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۸ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ اپنے روزمرّہ کے کاموں میں اتنے مگن ہیں کہ ہمارے پاس خدا کی مرضی پوری کرنے کیلئے کم وقت رہ جاتا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ کیا ہم بھی ایسے لوگوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں جو صحائف کو نہیں جانتے اور نہ ہی منادی کے کام میں حصہ لیتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں اسکے بارے میں دُعا کرنی چاہئے کیونکہ یہوواہ خدا ہمیں اپنے رویے کو بدلنے میں مدد کر سکتا ہے۔ (رومیوں ۱۵:۵؛ فلپیوں ۳:۱۵) اِسکے علاوہ وہ ہمیں نیکی کرنے اور اپنی مسیحی ذمہداری پوری کرنے میں بھی مدد دے سکتا ہے۔—رومیوں ۱۲:۲؛ ۲-کرنتھیوں ۱۳:۷۔
روحانی طور پر سُست نہ پڑ جائیں
۹. مکاشفہ ۱۶:۱۴-۱۶ میں ہمیں روحانی طور پر سُست پڑنے سے کیوں خبردار کِیا گیا ہے؟
۹ جس پیشینگوئی میں ”قادرِمطلق خدا کے روزِعظیم کی لڑائی“ کا ذکر کِیا گیا ہے اُسی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کچھ مسیحی روحانی طور سُست پڑ جائینگے۔ اِسکے بارے میں یسوع مسیح نے کہا: ”دیکھو مَیں چور کی طرح آتا ہوں۔ مبارک وہ ہے جو جاگتا ہے اور اپنی پوشاک کی حفاظت کرتا ہے تاکہ ننگا نہ پھرے اور لوگ اُسکی برہنگی نہ دیکھیں۔“ (مکاشفہ ۱۶:۱۴-۱۶) اِس پوشاک سے مُراد وہ تمام کام ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم یہوواہ کے مسیحی گواہ ہیں۔ اِن میں ہمارا منادی کا کام اور مسیحی چالچلن بھی شامل ہے۔ اگر ہم روحانی طور پر اُونگھنے لگیں گے تو ہم اپنی پوشاک یعنی مسیحی ہونے کا ثبوت کھو بیٹھنے کے خطرے میں ہونگے۔ یہ حالت ہمارے لئے نہ صرف شرمندگی کا باعث ہوگی بلکہ خطرناک بھی ہو سکتی ہے۔ اِسلئے ہمیں ایسی حالت میں پڑنے سے خبردار رہنا چاہئے۔ لیکن ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۰. روحانی طور پر ہوشیار رہنے کیلئے ہمیں روزانہ بائبل کیوں پڑھنی چاہئے؟
۱۰ بائبل ہمیں مختلف حوالوں میں روحانی طور پر جاگنے اور ہوشیار رہنے کی آگاہی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر، اناجیل میں کہا گیا ہے کہ ”جاگتے رہو“ (متی ۲۴:۴۲؛ ۲۵:۱۳؛ مرقس ۱۳:۳۵، ۳۷)، ”تیار رہو“ (متی ۲۴:۴۴؛ لوقا ۱۲:۴۰)، ’خبردار! جاگتے رہو‘ (مرقس ۱۳:۳۳)۔ پولس رسول نے اِس بات کا ذکر کِیا کہ یہوواہ کا دن اِس دُنیا پر اچانک آئیگا۔ اسکے بعد وہ مسیحیوں کو یہ ہدایت دیتا ہے: ”پس اَوروں کی طرح سو نہ رہیں بلکہ جاگتے اور ہوشیار رہیں۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۶) بائبل کی آخری کتاب میں یسوع اِس بات کو نمایاں کرتا ہے کہ ”مَیں جلد آنے والا ہوں۔“ (مکاشفہ ۳:۱۱؛ ۲۲:۷، ۱۲، ۲۰) اسکے علاوہ دیگر نبیوں نے بھی یہوواہ کے روزِعظیم کے بارے میں تفصیلات بیان کرکے ہمیں آگاہ کِیا ہے۔ (یسعیاہ ۲:۱۲، ۱۷؛ یرمیاہ ۳۰:۷؛ یوایل ۲:۱۱؛ صفنیاہ ۳:۸) اسلئے اگر ہم روزانہ بائبل کو پڑھیں گے اور اِس پر غور کرینگے تو ہم روحانی طور پر ہوشیار رہ سکیں گے۔
۱۱. ذاتی طور پر بائبل کا مطالعہ کرنا کیوں اتنا اہم ہے؟
۱۱ ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ نے بائبل کے بارے میں بہت سی مطبوعات شائع کی ہیں۔ اپنے ذاتی بائبل مطالعہ میں اِنکو استعمال کرنے سے ہم روحانی طور پر چوکس رہ سکتے ہیں۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) جب ہم باقاعدگی سے بائبل کا مطالعہ کرنے سے اپنے علم کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم اس سے حقیقی فائدہ حاصل کرینگے۔ (عبرانیوں ۵:۱۴–۶:۳) ہمیں باقاعدگی سے بائبل کی گہری سچائیوں کے بارے میں سیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہم جانتے ہیں کہ اِس زمانے میں ایسا کرنے کیلئے وقت نکالنا مشکل ہے۔ لیکن یہ ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔ (افسیوں ۵:۱۵، ۱۶) اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ”ایمان درست“ رہے اور ہم جاگتے رہیں تو ہمیں باقاعدگی سے ذاتی طور پر بائبل کا مطالعہ کرنے کیلئے وقت نکالنا چاہئے۔—ططس ۱:۱۳۔
۱۲. مسیحی اجلاسوں، اسمبلیوں اور کنونشنوں پر حاضر ہونے سے ہم روحانی طور پر سُست پڑ جانے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
۱۲ روحانی طور پر سُست پڑ جانے سے بچنے کے لئے ہمیں مسیحی اجلاسوں، اسمبلیوں اور کنونشنوں پر حاضر ہونا چاہئے کیونکہ اِن اجلاسوں پر ہمیں باقاعدگی سے یاد دلایا جاتا ہے کہ یہوواہ کا دن قریب ہے۔ اسکے علاوہ اپنے ہفتہوار اجلاسوں پر ایک دوسرے کو ”محبت اور نیک کاموں کی ترغیب“ دینے سے بھی ہم روحانی طور پر چوکس رہ سکتے ہیں۔ اِس وجہ سے ہمیں باقاعدگی سے جمع ہونے کا حکم دیا گیا ہے خاص طور پر جب ہم ’اس دن کو نزدیک ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔‘—عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵۔
۱۳. منادی کے کام میں حصہ لینے سے ہم روحانی طور پر کیسے چوکس رہ سکتے ہیں؟
۱۳ جب ہم منادی کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں تو ہم روحانی طور پر چوکس رہ سکتے ہیں۔ دوسروں کو زمانوں کی علامتوں کے بارے میں سمجھانے سے ہم خود بھی چوکس رہتے ہیں۔ ہمارا جوش خاص طور پر اُس وقت بڑھ جاتا ہے جب ایک شخص جسکے ساتھ ہم بائبل کا مطالعہ کر رہے ہیں اپنی زندگی میں تبدیلیاں لانے لگتا ہے۔ پطرس رسول کہتا ہے کہ ہمیں اپنی ’عقل کی کمر باندھ کر ہوشیار ہونے‘ کی ضرورت ہے۔ (۱-پطرس ۱:۱۳) ”خداوند کے کام میں ہمیشہ افزایش کرتے“ رہنا روحانی سُستی کو دُور کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔—۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۸۔
بُری عادات سے بچیں
۱۴. لوقا ۲۱:۳۴-۳۶ میں یسوع ہمیں کیسے طرزِزندگی کے خلاف آگاہ کرتا ہے؟
۱۴ اپنی موجودگی کے بارے میں پیشینگوئی کرتے ہوئے یسوع نے آگاہی دی: ”پس خبردار رہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے دل خمار اور نشہبازی اور اس زندگی کی فکروں سے سُست ہو جائیں اور وہ دن تم پر پھندے کی طرح ناگہاں آ پڑے۔ کیونکہ جتنے لوگ تمام رویِزمین پر موجود ہونگے ان سب پر وہ اسی طرح آ پڑیگا۔ پس ہر وقت جاگتے اور دُعا کرتے رہو تاکہ تمکو اُن سب ہونے والی باتوں سے بچنے اور ابنِآدم کے حضور کھڑے ہونے کا مقدور ہو۔“ (لوقا ۲۱:۳۴-۳۶) اِس حوالہ میں یسوع نے کھانےپینے میں بےاعتدالی، نشہبازی اور پریشانکُن طرزِزندگی جیسی بُری عادتوں کا ذکر کِیا ہے۔
۱۵. ہمیں حد سے زیادہ کھانےپینے سے کیوں گریز کرنا چاہئے؟
۱۵ حد سے زیادہ کھانا اور نشہبازی بائبل اصولوں کے خلاف ہے۔ بائبل میں لکھا ہے کہ ”تُو شرابیوں میں شامل نہ ہو اور نہ حریص کبابیوں میں۔“ (امثال ۲۳:۲۰) اگرچہ ہم حریص کبابی یا شرابی تو نہیں بنتے توبھی حد سے زیادہ کھانے پینے سے ہم سُست ضرور پڑ سکتے ہیں۔ بائبل کہتی ہے: ”سُست آدمی آرزو کرتا ہے پر کچھ نہیں پاتا لیکن محنتی کی جان فربہ ہوگی۔“ (امثال ۱۳:۴) سُست شخص خدا کی مرضی پوری کرنے کی آرزو تو رکھتا ہے لیکن وہ اِس پر عمل نہیں کرتا اور اِسلئے اُسکی آرزو کبھی پوری نہیں ہوتی۔
۱۶. ہم اپنے خاندان کی روزمرّہ ضروریات کو پورا کرنے کی فکر میں مبتلا رہنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
۱۶ یسوع زندگی کی فکروں کے بارے میں بھی آگاہی دیتا ہے۔ اِن میں اپنے خاندان کی روزمرّہ ضروریات کو پورا کرنے کی فکر شامل ہے۔ لیکن ایسی فکروں کے بوجھ تلے دب جانا کتنی احمقانہ بات ہوگی! یسوع سوال کرتا ہے، ”تُم میں اَیسا کون ہے جو فکر کرکے اپنی عمر میں ایک گھڑی بھی بڑھا سکے؟“ اِسلئے وہ لوگوں کو تاکید کرتا ہے کہ ”ان سب چیزوں کی تلاش میں غیرقومیں رہتی ہیں اور تمہارا آسمانی باپ جانتا ہے کہ تُم ان سب چیزوں کے محتاج ہو۔“ ہمیں خدا کی خدمت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینا چاہئے۔ اِسکے علاوہ ہمیں اِس بات پر یقین رکھنا چاہئے کہ یہوواہ خدا ہماری روزمرّہ ضروریات کو پورا کریگا۔ ایسا کرنے سے نہ صرف ہماری پریشانی دُور ہو جائیگی بلکہ ہم روحانی طور پر بھی جاگتے رہینگے۔—متی ۶:۲۵-۳۴۔
۱۷. دولت کا لالچ ہماری فکروں کو کیسے بڑھا سکتا ہے؟
۱۷ دولت کا لالچ بھی ہماری فکروں کو بڑھا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، کچھ مسیحی آرامدہ زندگی گزارنے کے لئے پیسے اُدھار لیتے ہیں۔ کئی جلد سے جلد دولتمند بننے کے منصوبوں میں حصہ لیتے ہیں یا پھر بغیر سوچےسمجھے کسی کاروبار میں پیسے لگا دیتے ہیں۔ دوسرے اچھی سے اچھی ملازمت پانے کیلئے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ملازمت پانے کیلئے ایک حد تک تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔ لیکن اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں بہت وقت لگتا ہے۔ اِس میں مشغول رہنے سے ہم روحانی طور پر کمزور ہو سکتے ہیں۔ ایسی حالت میں پڑنا ہمارے لئے خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ یہوواہ کا دن نزدیک ہے! بائبل ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ ”جو دولتمند ہونا چاہتے ہیں وہ ایسی آزمایش اور پھندے اور بہت سی بیہودہ اور نقصان پہنچانے والی خواہشوں میں پھنستے ہیں جو آدمیوں کو تباہی اور ہلاکت کے دریا میں غرق کر دیتی ہیں۔“—۱-تیمتھیس ۶:۹۔
۱۸. دولت کے لالچ سے بچنے کیلئے ہمیں کونسی صلاحیت پیدا کرنی چاہئے؟
۱۸ ہم دولت کے لالچ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ ہمیں اپنے اندر نیکوبد کی تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہئے۔ اِس صلاحیت کو پیدا کرنے کیلئے ہمیں روحانی طور پر ”سخت غذا“ کھانی چاہئے جو ”پوری عمر والوں کیلئے ہوتی ہے۔“ اِسکے علاوہ ہمیں اپنے ’حواس کو کام میں لاکر نیکوبد میں امتیاز کرنے کیلئے تیز کرنا چاہئیں۔‘ (عبرانیوں ۵:۱۳، ۱۴) غلط فیصلے کرنے سے بچنے کیلئے ہمیں ”بہتر چیزوں کا امتیاز“ کرکے اِنکو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینا چاہئے۔—فلپیوں ۱:۱۰، کیتھولک ورشن۔
۱۹. اگر ہمارے پاس روحانی کارگزاریوں کیلئے وقت کم بچتا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۱۹ اکثر دولت کو بڑھانے کی کوشش میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ روحانی کارگزاریوں کیلئے کم ہی وقت بچتا ہے۔ ہم اِس پھندے میں پڑنے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ ہمیں خدا سے مدد مانگ کر اسکے بارے میں سوچنا چاہئے کہ ہم کسطرح اور کس حد تک اپنی زندگی میں تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ بنی اسرائیل کے بادشاہ سلیمان نے کہا تھا کہ ”محنتی کی نیند میٹھی ہے خواہ وہ تھوڑا کھائے خواہ بہت لیکن دولت کی فراوانی دولتمند کو سونے نہیں دیتی۔“ (واعظ ۵:۱۲) ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے پاس جتنی زیادہ چیزیں ہونگی اُتنا ہی ہمیں اُنکی دیکھبھال اور حفاظت میں وقت اور پیسہ خرچ کرنا پڑیگا۔ اگر ہمارے پاس بہت کچھ ہے تو کیا ہم اسے کم کرکے سادہ زندگی گزار سکتے ہیں؟
چاہے کچھ بھی ہو تیار رہیں
۲۰، ۲۱. (ا) پطرس رسول ہمیں یہوواہ کے دن کے بارے میں کس بات کا یقین دلاتا ہے؟ (ب) ہمیں پاک چالچلن اور دینداری کے کونسے کاموں میں مشغول رہنا چاہئے؟
۲۰ نوح کے زمانے کی دُنیا کو تباہ کر دیا گیا تھا اور ہمارے زمانے میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ پطرس رسول ہمیں یقین دلاتا ہے کہ ”[یہوواہ] کا دن چور کی طرح آ جائیگا۔ اُس دن آسمان بڑے شوروغل کیساتھ برباد ہو جائینگے اور اجرامِفلک حرارت کی شدت سے پگھل جائینگے اور زمین اور اُس پر کے کام جل جائینگے۔“ علامتی آسمان یعنی بدکار انسانی حکومتیں اور علامتی زمین یعنی خدا سے دُور انسان یہوواہ کے قہر سے نہیں بچ سکیں گے۔ پھر پطرس ہمیں بتاتا ہے کہ ہم اِس دن کیلئے کیسے تیار رہ سکتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے: ”جب یہ سب چیزیں اِسطرح پگھلنے والی ہیں تو تمہیں پاک چالچلن اور دینداری میں کیسا کچھ ہونا چاہئے۔ اور خدا کے اُس دن کے آنے کا کیسا کچھ منتظر اور مشتاق رہنا چاہئے۔“—۲-پطرس ۳:۱۰-۱۲۔
۲۱ اِس پاک چالچلن اور دینداری میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم باقاعدگی سے مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہوں اور منادی کے کام میں حصہ لیں۔ دُعا ہے کہ ہم دل لگا کر اِن کاموں میں مشغول اور یہوواہ کے روزِعظیم کے منتظر رہیں۔ ہمیں ”[خدا] کے سامنے اطمینان کی حالت میں بیداغ اور بےعیب نکلنے کی کوشش“ میں مگن رہنا چاہئے۔—۲-پطرس ۳:۱۴۔
کیا آپکو یاد ہے؟
• ہمیں یہوواہ کے روزِعظیم کیلئے کیوں تیار رہنا چاہئے؟
• اگر ہماری زندگی میں روحانی کارگزاریوں کی نسبت روزمرّہ کے کام زیادہ اہمیت رکھتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
• کیا چیز ہمیں روحانی طور پر سُست پڑ جانے سے بچنے میں مدد دیگی؟
• ہمیں کونسی بُری عادات سے بچنا چاہئے اور کیسے؟
[صفحہ ۲۰ پر تصویریں]
نوح کے زمانے میں لوگوں نے آنے والی سزا کی بابت آگاہی کو نظرانداز کِیا —کیا آپ بھی ایسا کر رہے ہیں؟
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
کیا آپ روحانی کارگزاریوں کیلئے وقت نکالنے کی خاطر اپنی زندگی میں تبدیلیاں لا سکتے ہیں؟