”مسیح کی عقل“ کو جاننا
”[یہوواہ] کی عقل کو کس نے جانا کہ اُسکو تعلیم دے سکے؟ مگر ہم میں مسیح کی عقل ہے۔“—۱-کرنتھیوں ۲:۱۶۔
۱، ۲. اپنے کلام میں، یہوواہ نے یسوع کی بابت کس بات کو آشکارا کرنا مناسب سمجھا؟
یسوع کیسا دکھائی دیتا تھا؟ اس کے بالوں، جلد اور آنکھوں کا رنگ کیسا تھا؟ اس کا قد کتنا تھا؟ اس کا وزن کتنا تھا؟ صدیوں سے، یسوع کی مختلف تصاویر بنائی گئی ہیں جن میں سے بعض معقول اور بعض بالکل بعیدازقیاس ہیں۔ کچھ میں تو اُسے تندرست اور چاقوچوبند دکھایا گیا ہے جبکہ دیگر میں اُسکی عکاسی نہایت نحیفونزار شخص کے طور پر کی جاتی ہے۔
۲ تاہم، بائبل، یسوع کی وضعقطع پر توجہ مُرتکز نہیں کرتی۔ اس کے برعکس، یہوواہ نے اس سے کہیں زیادہ اہم چیز یعنی یسوع کی شخصیت کو آشکارا کرنا مناسب سمجھا۔ اناجیل کے بیانات یسوع کی باتوں اور کاموں کی تفصیل پیش کرنے کے علاوہ اُسکے اقوالوافعال میں پنہاں احساسات اور طرزِفکر کی گہرائی کو بھی آشکارا کرتے ہیں۔ یہ چار الہامی سرگزشتیں ہمیں پولس کی پیشکردہ اصطلاح ”مسیح کی عقل“ کا مشاہدہ کرنے کے قابل بناتی ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۲:۱۶) ہمارا یسوع کے خیالات، احساسات اور شخصیت سے واقف ہونا نہایت اہم ہے۔ کیوں؟ کمازکم دو وجوہات کی بِنا پر ایسا کرنا ضروری ہے۔
۳. مسیح کی عقل سے واقف ہونا ہمیں کونسی بصیرت عطا کر سکتا ہے؟
۳ اوّل، مسیح کی عقل ہمیں یہوواہ خدا کی عقل کی جھلک دکھاتی ہے۔ یسوع اپنے باپ کو اتنا قریب سے جانتا تھا کہ وہ کہہ سکتا تھا: ”کوئی نہیں جانتا کہ بیٹا کون ہے سوا باپ کے اور کوئی نہیں جانتا کہ باپ کون ہے سوا بیٹے کے اور اُس شخص کے جس پر بیٹا اُسے ظاہر کرنا چاہے۔“ (لوقا ۱۰:۲۲) گویا یسوع یہ کہہ رہا تھا کہ ’اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ یہوواہ کیسا ہے تو مجھے دیکھو۔‘ (یوحنا ۱۴:۹) پس، جب ہم اناجیل میں آشکارا یسوع کی سوچ اور احساسات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دراصل یہوواہ کی سوچ اور احساسات کی بابت سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ایسا علم ہمیں اپنے خدا کی قربت حاصل کرنے کے قابل بناتا ہے۔—یعقوب ۴:۸۔
۴. مسیح کی طرح عمل کرنے کیلئے ہمیں سب سے پہلے کیا سیکھنا چاہئے اور کیوں؟
۴ دوم، مسیح کی عقل کو جاننا ”اُسکے نقشِقدم پر [چلنے]“ کیلئے ہماری مدد کرتا ہے۔ (۱-پطرس ۲:۲۱) یسوع کی پیروی کرنے کا مطلب محض اسکی باتوں کو دہرانا اور اس کے کاموں کی نقل کرنا نہیں ہے۔ چونکہ خیالات اور احساسات ہمارے اقوال اور افعال پر اثرانداز ہوتے ہیں اسلئے مسیح کی پیروی کرنا ہم سے اُسی جیسا ”مزاج“ پیدا کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ (فلپیوں ۲:۵) باالفاظِدیگر، اگر ہم واقعی یسوع کی طرح عمل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ناکامل انسان ہونے کے باوجود اپنی پوری صلاحیت کو بروئےکار لاتے ہوئے سب سے پہلے اس کی مانند سوچنا اور محسوس کرنا سیکھنا چاہئے۔ پس آئیے انجیل نویسوں کی مدد کیساتھ مسیح کی عقل کا مشاہدہ کریں۔ سب سے پہلے ہم یسوع کی سوچ اور احساسات پر اثرانداز ہونے والے عناصر پر گفتگو کرینگے۔
اس کی قبلازانسانی زندگی
۵، ۶. (ا)ہمارے ساتھی ہم پر کیسا اثر چھوڑ سکتے ہیں؟ (ب) زمین پر آنے سے قبل آسمان پر خدا کے پہلوٹھے بیٹے کی رفاقت کیسی تھی اور اس کا اس پر کیسا اثر پڑا؟
۵ ہمارے قریبی ساتھی ہمارے خیالات، احساسات اور افعال کو مثاثر کرتے ہوئے ہم پر اچھا یا بُرا اثر ڈال سکتے ہیں۔a (امثال ۱۳:۲۰) ذرا اس رفاقت پر غور کریں جو یسوع زمین پر آنے سے پہلے آسمان پر رکھتا تھا۔ یوحنا کی انجیل ”کلام“ یا خدا کے نمائندہ کے طور پر یسوع کی قبلازانسانی زندگی پر توجہ دلاتی ہے۔ یوحنا بیان کرتا ہے: ”ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا، اور کلام ایک خدا تھا۔ یہ ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔“ (یوحنا ۱:۱، ۲، اینڈبلیو) چونکہ یہوواہ کی کوئی ابتدا نہیں ہے اس لئے کلام کا ”ابتدا“ سے خدا کیساتھ ہونا خدا کے تخلیقی کاموں کے آغاز کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ (زبور ۹۰:۲) یسوع ”تمام مخلوقات سے پہلے مولود ہے۔“ لہٰذا، وہ دیگر روحانی مخلوقات اور طبیعی کائنات کے خلق ہونے سے پہلے موجود تھا۔—کلسیوں ۱:۱۵؛ مکاشفہ ۳:۱۴۔
۶ بعض سائنسی قیافوں کے مطابق، طبیعی کائنات کمازکم ۱۲ بلین سال سے موجود ہے۔ اگر یہ قیافے کسی لحاظ سے کچھ درست ہیں تو خدا کے پہلوٹھے بیٹے نے آدم کی تخلیق سے پہلے کئی بلین سال تک اپنے باپ کیساتھ قریبی رفاقت سے استفادہ کِیا تھا۔ (مقابلہ کریں میکاہ ۵:۲۔) یوں ان دونوں کے درمیان ایک مشفق اور گہرا بندھن اُستوار ہو گیا تھا۔ تجسمِحکمت کے طور پر، اس پہلوٹھے بیٹے کو انسان بننے سے قبل یوں کہتے ہوئے پیش کِیا گیا ہے: ”مَیں ہر روز [یہوواہ] کی خوشنودی تھی اور ہمیشہ اُسکے حضور شادمان رہتی تھی۔“ (امثال ۸:۳۰) یقیناً محبت کے ماخذ کی قریبی رفاقت میں انگنت دَور گزارنے سے خدا کے بیٹے پر گہرا اثر پڑا تھا! (۱-یوحنا ۴:۸) یہ بیٹا اپنے باپ کے خیالات، احساسات اور طریقوں کو ایسے جاننے اور ظاہر کرنے لگا کہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا تھا۔—متی ۱۱:۲۷۔
زمینی زندگی اور اثرات
۷. خدا کے پہلوٹھے بیٹے کے زمین پر آنے کی ضروری وجوہات میں سے ایک کیا ہے؟
۷ خدا کے بیٹے کو بہت کچھ سیکھنا تھا کیونکہ یہوواہ کا مقصد اپنے بیٹے کو ایک شفیق سردار کاہن ہونے کے لئے تیار کرنا تھا جو ”ہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد“ بننے کے لائق ہو۔ (عبرانیوں ۴:۱۵) بیٹے کے انسان بن کر زمین پر آنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ اس کردار کے تقاضوں پر پورا اُترنا تھا۔ یہاں گوشت اور خون والے آدمی کے طور پر، یسوع کو ایسے حالات اور اثرات کا تجربہ ہوا جنہیں اس نے پہلے آسمان سے صرف دیکھا ہی تھا۔ اب وہ انسانی احساسات اور جذبات کا براہِراست تجربہ کرنے کے قابل تھا۔ بعضاوقات اس نے تھکاوٹ، پیاس اور بھوک محسوس کی تھی۔ (متی ۴:۲؛ یوحنا ۴:۶، ۷) اس سے بھی بڑھکر اس نے ہر قسم کی سختی اور تکلیف برداشت کی۔ یوں اس نے ”فرمانبرداری سیکھی“ اور سردار کاہن کا کردار ادا کرنے کے لائق ثابت ہوا۔—عبرانیوں ۵:۸-۱۰۔
۸. ہم یسوع کی زمینی زندگی کی بابت کیا جانتے ہیں؟
۸ زمین پر ابتدائی زندگی کے دوران یسوع کو کیسے تجربات پیش آئے؟ اس کے بچپن کا ریکارڈ بہت ہی مختصر ہے۔ درحقیقت، صرف متی اور لوقا ہی اس کی پیدائش کے واقعات بیان کرتے ہیں۔ انجیلنویس جانتے تھے کہ یسوع زمین پر آنے سے قبل آسمان میں زندگی گزار چکا تھا۔ اُسکی قبلازانسانی زندگی کسی بھی چیز سے زیادہ اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ وہ کس قسم کا انسان ثابت ہوا۔ تاہم، یسوع ایک مکمل انسان تھا۔ کامل ہونے کے باوجود، وہ شیرخوارگی سے طفولیت اور نوعمری سے بلوغت کے مراحل سے گزرا اور اس تمام کے دوران مسلسل سیکھتا رہا۔ (لوقا ۲:۵۱، ۵۲) بائبل یسوع کی زمینی زندگی کے متعلق بعض باتیں بتاتی ہے جو بِلاشُبہ اس پر اثرانداز ہوئیں۔
۹. (ا)یسوع کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے کی بابت کیا اشارہ ملتا ہے؟ (ب) یسوع نے غالباً کس قسم کے حالات میں پرورش پائی؟
۹ بدیہی طور پر، یسوع ایک غریب گھرانے میں پیدا ہؤا تھا۔ یہ بات اس نذر سے عیاں تھی جو یوسف اور مریم اس کی پیدائش کے تقریباً ۴۰ روز بعد ہیکل میں لائے تھے۔ سوختنی قربانی کے طور پر ایک جوان مینڈھا اور خطا کی قربانی کے طور پر ایک کبوتر یا ایک قمری لانے کی بجائے وہ ”قمریوں کا ایک جوڑا یا کبوتر کے دو بچے“ لائے۔ (لوقا ۲:۲۴) موسوی شریعت کے مطابق، یہ نذر غریب لوگوں کی سہولت کیلئے تھی۔ (احبار ۱۲:۶-۸) وقت آنے پر، یہ ادنیٰ خاندان بڑھا۔ یسوع کی معجزانہ پیدائش کے بعد یوسف اور مریم کے کمازکم چھ اَور بچے قدرتی عمل سے پیدا ہوئے۔ (متی ۱۳:۵۵، ۵۶) پس یسوع نے ایک بڑے خاندان، غالباً ادنیٰ حالتوں میں پرورش پائی۔
۱۰. کس بات سے مریم اور یوسف کے خداپرست ہونے کا اشارہ ملتا ہے؟
۱۰ یسوع کی ایسے خداپرست والدین نے پرورش کی جو اُسکی بہت زیادہ فکر کرتے تھے۔ اس کی ماں مریم ایک ممتاز خاتون تھی۔ یاد کریں کہ جبرائیل فرشتے نے اسے سلام کرتے وقت کہا: ”سلام تجھ کو جس پر فضل ہوا ہے! [یہوواہ] تیرے ساتھ ہے۔“ (لوقا ۱:۲۸) یوسف بھی ایک نیک آدمی تھا۔ ہر سال وہ فسح منانے کیلئے ۱۵۰ کلومیٹر کا سفر طے کر کے وفاداری کیساتھ یروشلیم جاتا تھا۔ مریم بھی ساتھ جاتی تھی اگرچہ صرف مردوں کو ایسا کرنا ہوتا تھا۔ (خروج ۲۳:۱۷؛ لوقا ۲:۴۱) ایک ایسے ہی موقع پر، یوسف اور مریم نے کافی تلاش کے بعد ۱۲سالہ یسوع کو اُستادوں کے بیچ پایا۔ اپنے فکرمند والدین سے یسوع نے کہا: ”کیا تم کو معلوم نہ تھا کہ مجھے اپنے باپ کے ہاں ہونا ضرور ہے؟“ (لوقا ۲:۴۹) ”باپ“ کا لفظ نوجوان یسوع کیلئے پُرتپاک اور مثبت مفہوم رکھتا تھا۔ ایک بات تو یہ ہے کہ اسے بدیہی طور پر بتایا گیا تھا کہ یہوواہ اس کا حقیقی باپ ہے۔ اس کے علاوہ، یوسف یسوع کیلئے ایک اچھا رضاعی باپ ثابت ہوا ہوگا۔ یقیناً یہوواہ نے ایک سخت یا ظالم آدمی کو اپنے عزیز بیٹے کی پرورش کیلئے منتخب نہیں کِیا ہوگا!
۱۱. یسوع نے کونسا ہنر سیکھا اور بائبل وقتوں میں اس پیشے میں کیا شامل تھا؟
۱۱ ناصرۃ میں گزارے گئے سالوں کے دوران، یسوع نے غالباً اپنے رضاعی باپ یوسف سے بڑھئی کا پیشہ سیکھا۔ یسوع اس پیشے میں اسقدر ماہر تھا کہ وہ خود بھی ”بڑھئی“ کہلایا۔ (مرقس ۶:۳) بائبل وقتوں میں، بڑھیوں سے گھر بنانے، فرنیچر (بشمول میزیں، سٹول، اور بینچ) اور زرعی آلات بنانے کی خدمت لی جاتی تھی۔ دوسری صدی کے جسٹن مارٹر نے اپنی کتاب ڈائیلاگ وِد ٹرائفو میں یسوع کے متعلق لکھا: ”بڑھئی کے طور پر اسے لوگوں کی موجودگی میں ہل اور جوئے بنانے کا کام کرنے کی عادت تھی۔“ ایسا کام آسان نہیں تھا کیونکہ قدیم بڑھئی غالباً اپنی لکڑی خرید نہیں سکتے تھے۔ بہت اغلب ہے کہ وہ کہیں باہر جا کر کسی درخت کا انتخاب کرکے اپنے کلہاڑے سے لکڑی کاٹتا اور پھر اُٹھا کر گھر لاتا تھا۔ پس یسوع روزی کمانے، گاہکوں کیساتھ لیندین اور گھر کا خرچ چلانے کے چیلنج سے واقف تھا۔
۱۲. کس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوسف بدیہی طور پر یسوع سے پہلے وفات پا گیا تھا اور یسوع کیلئے اس کا کیا مطلب تھا؟
۱۲ بظاہر یوسف جب یسوع سے پہلے وفات پا گیا تو بالخصوص بڑے بیٹے کی حیثیت سے یسوع نے غالباً خاندان کی کفالت میں بھی مدد دی ہوگی۔b جنوری ۱، ۱۹۰۰ کے زائنز واچ ٹاور نے بیان کِیا: ”روایت کے مطابق یوسف کی وفات اس وقت ہوئی جب یسوع ابھی چھوٹا ہی تھا اور پھر اسی نے بڑھئی کا پیشہ اختیار کِیا اور خاندان کی کفالت کرنے لگا۔ صحیفائی شہادت سے بھی اس بات کی کچھ حمایت ہوتی ہے جہاں یسوع کو بذاتِخود بڑھئی کہا گیا ہے اور اس کی ماں اور بھائیوں کا ذکر کِیا گیا ہے لیکن یوسف کا ذکر نہیں ملتا۔ (مرقس ۶:۳) . . . پس بہت اغلب ہے کہ ہمارے خداوند کی زندگی کے ۱۸ سال کا طویل عرصہ، [لوقا ۲:۴۱-۴۹ میں مندرج] واقعہ سے لیکر اس کے بپتسمہ کے وقت تک، زندگی کے عام فرائض کی انجامدہی میں صرف ہؤا تھا۔“ یسوع سمیت مریم اور اس کے بچے غالباً اس درد سے آشنا تھے جو ایک عزیز شوہر اور باپ کی موت سے پیدا ہوتا ہے۔
۱۳. جب یسوع نے اپنی خدمتگزاری کا آغاز کِیا تو اس میں ایسا علم، بصیرت اور گہرا احساس کیوں شامل تھا جو کسی دوسرے انسان میں نہیں ہو سکتا تھا؟
۱۳ واضح طور پر، یسوع نے پُرآسائش حالات میں پرورش نہیں پائی تھی۔ اِسکی بجائے، اُس نے عام لوگوں کے حالاتِزندگی کا براہِراست تجربہ کِیا۔ اس کے بعد، ۲۹ س.ع. میں، یسوع کیلئے متوقع الہٰی تفویض کو پورا کرنے کا وقت آ گیا۔ اس سال کے موسمِخزاں میں، اس نے پانی میں بپتسمہ لیا اور اُسکی خدا کے لےپالک روحانی بیٹے کے طور پر پیدائش ہوئی۔ ’اُس کیلئے آسمان کھل گیا‘ جو بدیہی طور پر اِسکا بات کا اشارہ تھا کہ اب وہ انسان بننے سے قبل اپنی آسمانی زندگی اور اس سے وابستہ خیالات اور احساسات کو یاد کر سکتا تھا۔ (لوقا ۳:۲۱، ۲۲) پس، جب یسوع نے اپنی خدمتگزاری کا آغاز کِیا تو اس میں ایسا علم، بصیرت اور گہرا احساس شامل تھا جو کسی دوسرے انسان میں نہیں ہو سکتا تھا۔ انجیل نویسوں نے معقول طور پر اپنی تحریروں کو یسوع کی خدمتگزاری کے واقعات کیلئے وقف کِیا ہے۔ اس پر بھی وہ اُسکی ہر بات اور ہر کام کو قلمبند نہیں کر سکے تھے۔ (یوحنا ۲۱:۲۵) تاہم اُنہیں جوکچھ بھی تحریر کرنے کا الہام ہوا اُس سے ہم ایسے عظیمترین انسان کی عقل کا بغور جائزہ لینے کے قابل ضرور ہو جاتے ہیں جو کبھی ہو گزرا ہے۔
یسوع ایک شخص کے طور پر کیسا تھا
۱۴. اناجیل کیسے یسوع کی ایک شفیق، پُرتپاک اور حساس انسان کے طور پر تصویرکشی کرتی ہیں؟
۱۴ اناجیل سے یسوع کی شخصیت کی جو جھلک نظر آتی ہے اُس سے پتا چلتا ہے کہ وہ ایک شفیق، پُرتپاک اور حساس انسان تھا۔ اُس نے مختلف جذبات کا مظاہرہ کِیا: کوڑھی کیلئے ترس (مرقس ۱:۴۰، ۴۱)؛ غیراثرپذیر لوگوں کیلئے غم (لوقا ۱۹:۴۱، ۴۲)؛ حریص صرافوں پر واجب غصہ (یوحنا ۲:۱۳-۱۷)۔ ایک ہمدرد آدمی کے طور پر یسوع آنسو بھی بہا سکتا تھا اور اپنے جذبات کو پوشیدہ نہیں رکھتا تھا۔ جب اس کا عزیز دوست لعزر مر گیا تو لعزر کی بہن مریم کو روتے دیکھ کر یسوع اس قدر متاثر ہؤا کہ دوسروں کے سامنے وہ رونے لگا۔—یوحنا ۱۱:۳۲-۳۶۔
۱۵. دوسروں کی بابت یسوع کی سوچ اور برتاؤ سے اُس کے مشفقانہ جذبات کیسے عیاں ہوتے ہیں؟
۱۵ یسوع کے مشفقانہ جذبات بالخصوص دوسروں کی بابت اُس کی سوچ اور برتاؤ سے نمایاں تھے۔ اُس نے آگے بڑھکر غریبوں اور کچلے ہوؤں کی مدد کی تاکہ وہ ’اپنی جانوں کیلئے تازگی‘ پا سکیں۔ (متی ۱۱:۴، ۵، ۲۸-۳۰) وہ کبھی بھی اتنا مصروف نہیں تھا کہ مصیبتزدہ لوگوں کی ضروریات پر دھیان ہی نہ دے سکے خواہ وہ کوئی جریانِخون میں مبتلا عورت ہو جس نے چپکے سے اس کی پوشاک چھو لی تھی یا پھر کوئی اندھا بھکاری ہو جسے خاموش کرانا مشکل تھا۔ (متی ۹:۲۰-۲۲؛ مرقس ۱۰:۴۶-۵۲) یسوع نے دوسروں میں اچھی باتوں کی تلاش کی اور انکی تعریف کی؛ تاہم، وہ بوقتِضرورت تادیب کرنے کیلئے بھی تیار تھا۔ (متی ۱۶:۲۳؛ یوحنا ۱:۴۷؛ ۸:۴۴) ایک وقت تھا کہ جب عورتوں کو محض چند حقوق حاصل تھے لیکن یسوع نے ان کیلئے موزوں عزتواحترام دکھایا۔ (یوحنا ۴:۹، ۲۷) قابلِفہم طور پر، عورتوں کی ایک گروہ خوشی کیساتھ اپنے مال سے اس کی خدمت کرتی تھی۔—لوقا ۸:۳۔
۱۶. کس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع زندگی اور مادی چیزوں کے متعلق ایک متوازن نظریہ رکھتا تھا؟
۱۶ یسوع زندگی کی بابت ایک متوازن نظریہ رکھتا تھا۔ مادی چیزیں اس کیلئے اوّلین اہمیت کی حامل نہیں تھیں۔ اُسکے پاس مادی چیزیں، بظاہر بہت ہی کم تھیں۔ اس نے کہا کہ اس کے پاس ”سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں“ ہے۔ (متی ۸:۲۰) تاہم یسوع نے دوسروں کی خوشیوں کو دوبالا کِیا تھا۔ جب وہ ایک شادی کی ضیافت—امتیازی طور پر موسیقی اور ناچ گانے کا ایک موقع—پر حاضر ہؤا تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ وہاں رنگ میں بھنگ ڈالنے کیلئے موجود نہیں تھا۔ اسکے برعکس، یسوع نے تو وہاں اپنا پہلا معجزہ دکھایا۔ جب مے ختم ہو گئی تو اس نے پانی کو نہایت عمدہ مے میں تبدیل کر دیا، ایک ایسا مشروب جو ”اِنسان کے دل کو خوش [کرتا] ہے۔“ (زبور ۱۰۴:۱۵؛ یوحنا ۲:۱-۱۱) اس طرح ضیافت جاری رہی اور دُلہا اور دُلہن بِلاشُبہ پریشانی سے بچ گئے۔ اس سلسلے میں اس کا توازن ایسے کئی مواقع کے بیان سے بھی ظاہر ہوتا ہے جب یسوع نے اپنی خدمتگزاری میں بڑی محنت سے دیر تک کام کِیا۔—یوحنا ۴:۳۴۔
۱۷. یہ بات حیرانکُن کیوں نہیں ہے کہ یسوع ایک ماہر اُستاد تھا اور اس کی تعلیمات نے کس بات کو منعکس کِیا؟
۱۷ یسوع ایک ماہر اُستاد تھا۔ اس کی زیادہتر تعلیم نے روزمرّہ زندگی کی حقیقتوں کو ظاہر کِیا جن سے وہ بخوبی واقف تھا۔ (متی ۱۳:۳۳؛ لوقا ۱۵:۸) اس کی تعلیم کا طریقہ لاثانی—ہمیشہ واضح، سادہ اور عملی—تھا۔ تاہم اُسکی تعلیم تو اَور بھی زیادہ اہم تھی۔ اس کی تعلیمات نے اس کی دلی خواہش ظاہر کی کہ اس کے سامعین یہوواہ کے خیالات، احساسات اور راہوں سے واقف ہوں۔—یوحنا ۱۷:۶-۸۔
۱۸، ۱۹. (ا)یسوع کن واضح الفاظ میں اپنے باپ کی تصویرکشی کرتا ہے؟ (ب) اگلے مضمون میں کس چیز پر بات کی جائیگی؟
۱۸ اکثراوقات تمثیلوں کا استعمال کرتے ہوئے یسوع نے اپنے باپ کو ایسے واضح الفاظ میں بیان کِیا جنہیں آسانی سے بھلایا نہیں جا سکتا تھا۔ خدا کے رحم کی بابت عام اصطلاحات میں گفتگو کرنا ایک بات ہے۔ لیکن یہوواہ کو ایسے معاف کرنے والے باپ سے تشبِیہ دینا بالکل الگ بات ہے جو واپس آنے والے اپنے بیٹے کو دیکھ کر اسقدر جذبات میں آ جاتا ہے کہ ’دوڑ کر اپنے بیٹے کو گلے لگا کر شفقت سے چوم لیتا ہے۔‘ (لوقا ۱۵:۱۱-۲۴) اس سختگیر ثقافت کو ردّ کرتے ہوئے جس میں مذہبی لیڈر عام لوگوں کو حقیر جانتے تھے، یسوع نے واضح کِیا کہ اس کا باپ قابلِرسائی خدا ہے جو شیخیباز فریسی کی ریاکارانہ دُعا پر ایک فروتن محصول لینے والے کی مُناجات کو ترجیح دیتا ہے۔ (لوقا ۱۸:۹-۱۴) یسوع نے ایک فکرمند باپ کے طور پر یہوواہ کی تصویرکشی کی جو یہانتک جانتا ہے کہ ایک ننھی چڑیا زمین پر کب گرتی ہے۔ ”پس ڈرو نہیں،“ یسوع نے اپنے شاگردوں کی ڈھارس بندھائی، ”تمہاری قدر تو بہت سی چڑیوں سے زیادہ ہے۔“ (متی ۱۰:۲۹، ۳۱) قابلِفہم طور پر، لوگ یسوع کی ”تعلیم“ سے حیران ہوئے اور اس کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ (متی ۷:۲۸، ۲۹) بیشک، ایک موقع پر تو ”بڑی بِھیڑ“ تین دن تک اس کے ساتھ رہی حتیٰکہ ان کے پاس خوراک بھی ختم ہو گئی تھی!—مرقس ۸:۱، ۲۔
۱۹ ہم یہوواہ کے شکرگزار ہو سکتے ہیں کہ اس نے اپنے کلام میں مسیح کی عقل کو آشکارا کِیا ہے! تاہم، ہم کس طرح مسیح کی عقل کو پا کر دوسروں کیساتھ اپنے تعلقات میں اسکا اظہار کر سکتے ہیں؟ اس پر اگلے مضمون میں باتچیت کی جائیگی۔
[فٹنوٹ]
a مکاشفہ ۱۲:۳، ۴ سے ظاہر ہوتا ہے کہ روحانی مخلوقات اپنی رفاقت سے متاثر ہو سکتی ہیں۔ یہاں شیطان کی تصویرکشی ایک ایسے ”اژدہا“ کے طور پر کی گئی ہے جو دیگر ”ستاروں“ یا روحانی فرزندوں کو باغیانہ روش میں اپنے ساتھ ملانے کیلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کے قابل تھا۔—مقابلہ کریں ایوب ۳۸:۷۔
b یوسف کا آخری براہِراست تذکرہ ۱۲سالہ یسوع کے ہیکل میں ملنے کے موقع پر کِیا گیا ہے۔ یسوع کی خدمتگزاری کے آغاز کے وقت قانا میں شادی کی ضیافت پر یوسف کی موجودگی کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ (یوحنا ۲:۱-۳) یسوع نے ۳۳ س.ع. میں سولی پر لٹکے ہوئے مریم کی نگہداشت اپنے پیارے رسول یوحنا کے سپرد کی کی تھی۔ اگر یوسف زندہ ہوتا تو یسوع نے ایسا نہ کِیا ہوتا۔—یوحنا ۱۹:۲۶، ۲۷۔
کیا آپکو یاد ہے؟
• ”مسیح کی عقل“ سے واقف ہونا کیوں اہم ہے؟
• یسوع انسان بننے سے پہلے کیسی رفاقت رکھتا تھا؟
• اپنی زمینی زندگی کے دوران، یسوع نے کن حالات اور اثرات کا براہِراست تجربہ کِیا؟
• اناجیل یسوع کی شخصیت کے متعلق کیا آشکارا کرتی ہیں؟
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
یسوع نے ایک بڑے گھرانے اور غالباً ادنیٰ حالتوں میں پرورش پائی تھی
[صفحہ ۱۲ پر تصویریں]
استاد ۱۲سالہ یسوع کی سمجھ اور جوابات سے دنگ تھے