متی
(ایسآئی ص. ۱۷۵-۱۷۷ پ. ۱-۱۰؛ ص. ۱۸۰-۱۸۱ پ. ۲۹-۳۳)
متی کی تمہید
۱. (ا) یہوواہ خدا نے عدن میں بغاوت کے بعد نسلِانسانی کے ساتھ کیا وعدہ کِیا؟ (ب) مسیحا پر یہودیوں کی اُمید کیسے اَور زیادہ مضبوط ہوگئی؟
۱ عدن میں بغاوت کے بعد یہوواہ خدا نے نسلِانسانی سے یہ تسلیبخش وعدہ کِیا کہ وہ راستبازی سے محبت رکھنے والوں کو ”عورت“ کی نسل کے ذریعے نجات دلائے گا۔ اُس نے اِس نسل یعنی مسیحا کو اسرائیلی قوم سے برپا کرنے کا قصد کِیا۔ کئی صدیاں بعد، اُس نے عبرانی مصنّفین کی معرفت لاتعداد پیشینگوئیاں ریکارڈ کرائیں۔ جن سے ظاہر ہوا کہ یہ نسل یعنی مسیحا خدا کی بادشاہت کا حکمران ہوگا اور یہوواہ کے نام کو پاک ٹھہراتے ہوئے اِس پر لائی جانے والی رسوائی کو ہمیشہ کے لئے دُور کرے گا۔ اِن نبیوں کے ذریعے اِس ہستی کی بابت بہت سی تفصیلات فراہم کی گئیں جو یہوواہ خدا کو سربلند کرکے انسانوں کو خوف، ظلم، گناہ اور موت سے رہائی دلائے گا۔ عبرانی صحائف کی تحریر کے مکمل ہو جانے کے ساتھ مسیحا پر یہودیوں کی اُمید اَور زیادہ مضبوط ہوگئی۔
۲. مسیحا کے ظہور کے وقت، خوشخبری پھیلانے کے لئے حالات کیسے سازگار تھے؟
۲ اِس دوران دُنیا میں مسلسل تبدیلیاں واقع ہوتی رہیں۔ یہوواہ خدا مسیحا کے ظہور کے لئے قوموں کو حرکت میں لا چکا تھا اور ہر جگہ اِس خوشخبری کو پھیلانے کے لئے حالات سازگار تھے۔ پانچویں عالمی طاقت، یونان نے قوموں کے درمیان رابطے کے عالمگیر ذریعے کے طور پر ایک عام زبان رائج کی۔ چھٹی عالمی طاقت، روم نے اپنی ماتحت قوموں کو ایک عالمی سلطنت میں شامل کرنے اور سڑکیں بنانے سے سلطنت کے تمام حصوں تک رسائی کو ممکن بنا دیا۔ بہتیرے یہودی اِس پوری سلطنت میں پھیل گئے جس کی وجہ سے دیگر لوگ بھی آنے والے مسیحا کی بابت یہودیوں کی اُمید سے واقف ہو گئے۔ عدن میں کئے گئے وعدے کے تقریباً ۴،۰۰۰ سال بعد، اب مسیحا کا ظہور ہو چکا تھا! جس موعودہ نسل کا عرصۂدراز سے انتظار تھا وہ آ چکی تھی! جب مسیحا نے وفاداری سے زمین پر خدا کی مرضی پوری کی تو نسلِانسانی کی تاریخ میں اہمترین واقعات رُونما ہوئے۔
۳. (ا) یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کی زندگی کی تفصیلات کو ریکارڈ کرانے کے لئے کیا بندوبست کِیا؟ (ب) تمام اناجیل کی امتیازی خصوصیت کیا ہے، اور یہ چاروں اہمیت کی حامل کیوں ہیں؟
۳ اب پھر سے الہامی کتابیں تحریر کرنے کا وقت تھا تاکہ اِن اہمترین واقعات کو قلمبند کِیا جا سکے۔ یہوواہ کی پاک رُوح نے چار وفادار آدمیوں کو اِن واقعات کو تحریر کرنے کا الہام بخشا۔ اِس طرح چار مرتبہ یسوع کے مسیحا، موعودہ نسل اور بادشاہ ہونے کی گواہی دی گئی۔ اِس کے علاوہ، اِن کتابوں میں یسوع کی زندگی، خدمتگزاری، موت اور قیامت کی تفصیلات بھی فراہم کی گئیں۔ یہ سرگزشتیں اناجیل کہلاتی ہیں۔ لفظ ”انجیل“ کا مطلب ”خوشخبری“ ہے۔ اگرچہ اِن چاروں اناجیل میں کموبیش ایک جیسے واقعات بیان کئے گئے ہیں توبھی یہ ایک دوسرے کی نقل نہیں ہیں۔ پہلی تین اناجیل کو اکثر ”متفقہ“ یعنی ”ایک جیسی باتیں بیان کرنے والی“ اناجیل کہا جاتا ہے۔ اِسلئےکہ یہ یسوع مسیح کی زمینی زندگی کو یکساں انداز میں پیش کرتی ہیں۔ تاہم، یہ چاروں مصنّفین متی، مرقس، لوقا اور یوحنا اپنے اپنے انداز میں مسیح کی بابت بیان کرتے ہیں۔ اِن میں سے ہر ایک کا اپنا ایک خاص موضوع اور مقصد ہے۔ ہر ایک نے اپنی اپنی شخصیت کو منعکس کِیا اور اپنے قارئین کو ذہن میں رکھتے ہوئے لکھا۔ ہم اُن کی تحریروں کی جتنی زیادہ تحقیق کرتے ہیں اُتنا ہی زیادہ ہم اُن میں سے ہر ایک کی امتیازی خصوصیات کو سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اِس کے علاوہ، ہم جان جاتے ہیں کہ یہ چاروں الہامی کتابیں یسوع مسیح کی زندگی کے بارے میں بالکل الگ انداز میں مکمل اور ہمآہنگ تفصیلات فراہم کرتی ہیں۔
۴. پہلی انجیل کے مصنف کے بارے میں کونسی معلومات دستیاب ہیں؟
۴ سب سے پہلے متی نے مسیح کی بابت خوشخبری کو تحریری شکل دی۔ اُس کا نام غالباً عبرانی نام ”متتیاہ“ کا مخفف ہے جس کا مطلب ”یہوواہ کی بخشش“ ہے۔ وہ اُن بارہ رسولوں میں سے ایک تھا جنہیں یسوع مسیح نے چُنا۔ متی کا اپنے اُستاد کے ساتھ اتنا گہرا اور قریبی رشتہ تھا کہ وہ فلستین کے علاقے میں خدا کی بادشاہت کی منادی کرنے اور تعلیم دینے کے دوران اُس کے ساتھ ساتھ تھا۔ یسوع کا شاگرد بننے سے پہلے متی کا پیشہ محصول لینا تھا۔ یہودی اِس پیشے کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ یہ ہمیشہ اُنہیں یاد دلاتا تھا کہ وہ آزاد نہیں بلکہ رومی سلطنت کے غلام ہیں۔ متی کا دوسرا نام لاوی تھا اور وہ حلفئی کا بیٹا تھا۔ جب یسوع مسیح نے اُسے اپنے پیچھے آنے کی دعوت دی تو اُس نے فوراً اِسے قبول کر لیا۔—متی ۹:۹؛ مر ۲:۱۴؛ لو ۵:۲۷-۳۲۔
۵. اِس بات کی تصدیق کیسے ہوتی ہے کہ پہلی انجیل کا مصنف متی ہے؟
۵ اگرچہ متی کے نام سے منسوب انجیل اُس کی شناخت مصنف کے طور پر نہیں کراتی توبھی ابتدائی کلیسیا کے مؤرخین کی شہادتیں اِس بات کی تصدیق کرتی ہیں۔ غالباً کسی اَور کتاب کے مصنف کو اتنے واضح اور مکمل اتفاقِرائے سے قبول نہیں کِیا گیا جیسے متی کی انجیل کے مصنف کو کِیا گیا۔ ہیراپلس کے پاپائس کے وقت سے لیکر (دوسری صدی کے اوائل میں) ہمارے پاس اِس بات کی ابتدائی شہادتیں موجود ہیں کہ اِس انجیل کو متی نے تحریر کِیا اور یہ خدا کے کلام کا ایک مستند حصہ ہے۔ میکلنٹاک اور سٹرانگ کا سائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے: ”جسٹن مارٹر، ڈائیاوگنیٹس کے نام خط کے مصنف، ہیگاسیپس، ارنیئس، طاطیان، اتھینیگورس، تھیفلُس، کلیمنٹ، طرطلیان اور اوریگن نے متی کی انجیل سے اقتباسات کا حوالہ دیا ہے۔ ہم محض حوالہجات ہی کو نہیں بلکہ اقتباسات کے اندازِبیان، مستند ہونے کی تصدیق کرنے والی منطق اور کسی بھی قسم کے شکوشُبے کی گنجائش کے نہ ہونے کو اِس بات کا ثبوت خیال کرتے ہیں کہ اِس کتاب میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔“a متی ایک رسول تھا اور خدا کی رُوح اُس کے ساتھ تھی۔ اِس لئے ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ اُس کی تحریر بالکل درست ہے۔
۶، ۷. (ا) متی کی انجیل سب سے پہلے کب اور کس زبان میں لکھی گئی؟ (ب) کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ یہ بنیادی طور پر یہودیوں کے لئے لکھی گئی تھی؟ (پ) نیو ورلڈ ٹرانسلیشن میں متی کی انجیل کے اندر نام یہوواہ کتنی بار آیا ہے، اور کیوں؟
۶ متی نے اپنی انجیل فلستین میں لکھی۔ اگرچہ اِس کا صحیح سال معلوم نہیں ہے توبھی بعض مسودوں (دسویں صدی عیسوی کے بعد کے مسودوں) کے آخر پر کئے گئے دستخط ثابت کرتے ہیں کہ یہ ۴۱ عیسوی میں لکھی گئی۔ اِس بات کا بھی ثبوت موجود ہے کہ متی نے اپنی انجیل کو اُس وقت کی عام عبرانی زبان میں لکھا تھا اور بعدازاں اِس کا ترجمہ یونانی زبان میں کِیا گیا۔ جیروم نے (مشہور آدمیوں کی بابت) اپنی ایک کتاب کے باب ۳ میں بیان کِیا: ”متی جوکہ ایک لاوی بھی تھا اور محصول لینے والے سے رسول بنا، اُس نے یہودیہ میں ایمان لانے والے مختونوں کے فائدے کے لئے سب سے پہلے عبرانی زبان میں مسیح کے بارے میں تحریر کِیا تھا۔“b جیروم نے مزید بیان کِیا کہ اِس انجیل کا عبرانی متن اُس کے زمانہ (چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی) کے دوران اُس کُتبخانے میں محفوظ تھا جو پیمفیلس نے قیصریہ میں بنایا تھا۔
۷ یوسیبیس کے مطابق، تیسری صدی کے اوائل میں اوریگن نے اناجیل کے بارے میں بیان کِیا کہ سب سے پہلے ”یہودیت سے مسیحیت پر ایمان لانے والے لوگوں کے لئے پہلی انجیل لکھنے والے متی نے اِسے عبرانی زبان میں تحریر کِیا تھا۔“c یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ یہ انجیل بنیادی طور پر یہودیوں کو مدِنظر رکھ کر لکھی گئی تھی اِس میں درج نسبنامہ سے یسوع کو ابرہام کی نسل سے ثابت کِیا گیا ہے۔ نیز، عبرانی صحائف کے بہتیرے حوالہجات کے استعمال سے یہ ظاہر کِیا گیا ہے کہ یہ مسیحا کے آنے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ یقین کرنا معقول بات ہے کہ متی نے عبرانی صحائف کا حوالہ دیتے ہوئے اِن میں موجود الہٰی نام یہوواہ کو ٹیٹراگریمٹن کی شکل میں استعمال کِیا تھا۔ اِس لئے ۱۹ ویں صدی میں شائع ہونے والے ابتدائی عبرانی متن کے ایک ترجمے اور نیو ورلڈ ٹرانسلیشن میں متی کی انجیل کے اندر نام یہوواہ ۱۸ بار آیا ہے۔ یقیناً متی بھی الہٰی نام کی بابت یسوع جیسا رُجحان رکھتا تھا اور وہ اِس نام کو استعمال نہ کرنے کے سلسلے میں اُس وقت کی یہودی توہمپرستی سے مغلوب نہیں ہوا تھا۔—متی ۶:۹؛ یوح ۱۷:۶، ۲۶۔
۸. متی کی انجیل یہ کیسے ظاہر کرتی ہے کہ متی ایک محصول لینے والا تھا؟
۸ متی ایک محصول لینے والا تھا اِس لئے اُس نے پیسوں، اعدادوشمار اور چیزوں کی قدروقیمت کا ذرا زیادہ وضاحت کے ساتھ ذکر کِیا ہے۔ (متی ۱۷:۲۷؛ ۲۶:۱۵؛ ۲۷:۳) وہ اِس بات کے لئے شکرگزار تھا کہ خدا نے اُس پر رحم کرتے ہوئے اُسے یسوع کا قریبی ساتھی اور خوشخبری کا مُناد بننے کا موقع دیا حالانکہ وہ ایک محصول لینے والا تھا جسے لوگ حقیر خیال کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اناجیل لکھنے والوں میں صرف متی ہی بارہا ہماری توجہ یسوع کی اِس بات پر دلاتا ہے کہ قربانی کے علاوہ رحم بھی ضروری ہے۔ (۹:۹-۱۳؛ ۱۲:۷؛ ۱۸:۲۱-۳۵) متی نے یہوواہ کے غیرمستحق فضل سے بڑی تسلی حاصل کی اور موزوں طور پر یسوع کے بعض تسلیبخش الفاظ کو قلمبند کِیا: ”اَے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔ مَیں تمکو آرام دُونگا۔ میرا جؤا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مجھ سے سیکھو۔ کیونکہ مَیں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔ تو تمہاری جانیں آرام پائیں گی۔ کیونکہ میرا جؤا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا۔“ (۱۱:۲۸-۳۰) یہ الفاظ اِس سابقہ محصول لینے والے کے لئے کسقدر تازگیبخش تھے جسے اُس کے ہموطنوں کی طرف سے نفرت کے سوا اَور کچھ نہیں ملا تھا!
۹. متی کی انجیل کا موضوع کیا ہے اور اِس میں پیشکش کا کونسا انداز اپنایا گیا ہے؟
۹ متی نے اِس بات پر خاص زور دیا کہ یسوع کی تعلیم کا موضوع ”آسمان کی بادشاہی“ تھا۔ (۴:۱۷) اُس کے نزدیک یسوع مُنادی کے کام میں کامل اُستاد یا بادشاہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اُس نے ”بادشاہی“ کی اصطلاح اتنی مرتبہ (۵۰ سے زائد مرتبہ) دُہرائی کہ اُس کی انجیل کو بادشاہتی انجیل کہا جا سکتا ہے۔ متی لوگوں کے ساتھ یسوع کی باتچیت اور اُس کے وعظ کی تاریخی ترتیب کی بجائے منطقی پیشکش کی بابت زیادہ فکرمند تھا۔ پہلے ۱۸ ابواب میں بادشاہتی موضوع کو نمایاں کرنا متی رسول کے تاریخی ترتیب سے ہٹ جانے کا باعث بنا۔ تاہم، آخری دس ابواب (۱۹-۲۸) میں بادشاہت پر بھی زور دیا گیا ہے اور تاریخی ترتیب کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔
۱۰. متی کی کتاب کا کتنا مواد دوسری اناجیل میں موجود نہیں، اور یہ انجیل کتنے عرصے کا احاطہ کرتی ہے؟
۱۰ متی کی انجیل کا بیالیس فیصد حصہ دوسری تینوں اناجیل میں نہیں ملتا۔d اِس میں کمازکم دس کہانیاں یا تمثیلیں شامل ہیں: اِن میں کڑوے دانوں (۱۳:۲۴-۳۰)، چھپے ہوئے خزانے (۱۳:۴۴)، قیمتی موتی (۱۳:۴۵، ۴۶)، جال (۱۳:۴۷-۵۰)، بےرحم نوکر (۱۸:۲۳-۳۵)، مزدور اور دینار (۲۰:۱-۱۶)، باپ اور دو بچے (۲۱:۲۸-۳۲)، بادشاہ کے بیٹے کی شادی (۲۲:۱-۱۴)، دس کنواریاں (۲۵:۱-۱۳) اور توڑوں (۲۵:۱۴-۳۰) کی تمثیلیں شامل ہیں۔ غرض یہ کتاب ۲ قبلازمسیح میں یسوع کی پیدائش سے لیکر ۳۳ عیسوی میں اُس کے آسمان پر جانے سے پہلے اپنے شاگردوں کے ساتھ ملاقات تک پیش آنے والے واقعات کا ذکر کرتی ہے۔
کیوں فائدہمند
۲۹. (ا) متی کی انجیل کیسے عبرانی اور یونانی صحائف میں تعلق قائم کرتی ہے؟ (ب) وہ کونسا شرف ہے جو یسوع کے لئے خوشی کا باعث تھا اور آج مسیحیوں کو بھی حاصل ہے؟
۲۹ چاروں اناجیل میں سے صرف متی کی انجیل ہی عبرانی اور مسیحی یونانی صحائف کے درمیان شاندار تعلق قائم کرتی ہے۔ یہ انجیل واضح طور پر مسیحا اور موعودہ بادشاہت کے بادشاہ کی شناخت کراتی ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ یہ یسوع کے پیروکار بننے کے تقاضوں کے بارے میں بھی بیان کرتی ہے۔ علاوہازیں، یہ اُس کام کے بارے میں بیان کرتی ہے جسے مسیح کے پیروکاروں نے آنے والے وقت میں زمین پر کرنا تھا۔ سب سے پہلے یوحنا بپتسمہ دینے والے، پھر یسوع مسیح اور آخر میں اُس کے شاگردوں نے یہ منادی کی کہ ”آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔“ مزیدبرآں، یسوع کے اِس حکم کا اطلاق اِس دُنیا کے آخری وقت پر بھی ہوتا ہے: ”بادشاہی کی اِس خوشخبری کی منادی تمام دُنیا میں ہوگی تاکہ سب قوموں کے لئے گواہی ہو۔ تب خاتمہ ہوگا۔“ واقعی، اپنے مالک کی نقل کرتے ہوئے منادی کرنے اور ’سب قوموں کو شاگرد بنانے‘ کے کام میں حصہ لینا پہلے بھی ایک عظیم اور شاندار شرف تھا اور آج بھی ایسا ہی ہے۔—۳:۲؛ ۴:۱۷؛ ۱۰:۷؛ ۲۴:۱۴؛ ۲۸:۱۹۔
۳۰. عملی قدروقیمت کے اعتبار سے متی کے کس خاص حصے کو مقبولیت حاصل ہے؟
۳۰ متی کی انجیل واقعی ایک ”خوشخبری“ ہے۔ اِس کا الہامی پیغام پہلی صدی عیسوی میں اُن لوگوں کے لئے ”خوشخبری“ تھا جنہوں نے اِس پر دھیان دیا۔ اِسی لئے یہوواہ خدا نے اِسے آج تک ”خوشخبری“ کے طور پر محفوظ کرایا ہے۔ یہاں تک کہ غیرمسیحیوں نے بھی اِس انجیل کی طاقت کو تسلیم کِیا ہے۔ مثال کے طور پر، ہندو راہنما موہنداس (مہاتما) گاندھی کے بارے میں بیان کِیا جاتا ہے کہ اُنہوں نے انڈیا کے ایک سابقہ وائسرائے لارڈ ارون سے کہا تھا: ”جب میرا اور آپ کا مُلک اُن تعلیمات پر عمل کرے گا جو مسیح نے اپنے پہاڑی وعظ میں دی ہیں تو ہم نہ صرف اپنے بلکہ پوری دنیا کے ممالک کے مسائل حل کر لیں گے۔“e ایک دوسرے موقع پر گاندھی نے بیان کِیا: ”پہاڑی وعظ میں درج تعلیمات سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں . . . کیونکہ یہ تعلیمات ہم سب کے لئے ہیں۔“f
۳۱. کن لوگوں نے متی کی کتاب میں پائی جانے والی مشورت کے لئے حقیقی قدردانی ظاہر کی، اور اِس انجیل کا بار بار مطالعہ کرنا کیوں فائدہمند ہے؟
۳۱ تاہم، نامنہاد مسیحیوں سمیت پوری دُنیا اپنے اپنے مسائل میں الجھی ہوئی ہے۔ اِس کے برعکس، سچے مسیحیوں کا ایک چھوٹا سا گروہ پہاڑی وعظ اور متی کی معرفت دی جانے والی خوشخبری کی دانشمندانہ مشورت کی قدر کرنے، اِس کا مطالعہ کرنے اور اِس کا اطلاق کرنے سے بیشمار فوائد حاصل کرتا ہے۔ حقیقی خوشی کی تلاش، اخلاقیات اور شادی، محبت کی طاقت، قابلِقبول دُعا، روحانی اور مادی اقدار کے موازنے، پہلے بادشاہت کی تلاش، پاک چیزوں کے لئے احترام اور ہوشیار اور فرمانبردار رہنے کی بابت یسوع کی عمدہ مشورت کا بار بار مطالعہ کرنا بہت فائدہمند ہے۔ متی کے ۱۰ باب میں یسوع مسیح ”آسمان کی بادشاہی“ کی خوشخبری کی منادی کرنے والوں کو خدمتی ہدایات دیتا ہے۔ یسوع کی بیشتر تمثیلیں ’سننے والوں‘ کے لئے انتہائی سبقآموز ہیں۔ علاوہازیں، یسوع کی پیشینگوئیاں مثلاً اُس کی ’موجودگی کے نشان‘ کی بابت اُس کا مفصل بیان مستقبل کے بارے میں مضبوط اُمید اور اعتماد پیدا کرتا ہے۔—۵:۱–۷:۲۹؛ ۱۰:۵-۴۲؛ ۱۳:۱-۵۸؛ ۱۸:۱–۲۰:۱۶؛ ۲۱:۲۸–۲۲:۴۰؛ ۲۴:۳–۲۵:۴۶۔
۳۲. (ا) مثال سے ظاہر کریں کہ تکمیلشُدہ پیشینگوئیاں کیسے ثابت کرتی ہیں کہ یسوع ہی مسیحا ہے؟ (ب) پیشینگوئیوں کی یہ تکمیل ہمیں کونسی پُرزور یقیندہانی کراتی ہے؟
۳۲ متی کی انجیل تکمیلشُدہ پیشینگوئیوں سے بھری پڑی ہے۔ الہامی عبرانی صحائف سے اُس کے زیادہتر اقتباسات پیش کرنے کا مقصد اِن کی تکمیل کو ظاہر کرنا تھا۔ اِس لئے یہ حوالے اِس بات کا ٹھوس ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ یسوع ہی مسیحا ہے۔ کیونکہ قبلازوقت اِن تمام تفصیلات کو بیان کرنا قطعاً ممکن نہیں تھا۔ مثال کے طور پر، متی ۱۳:۱۴، ۱۵، یسعیاہ ۶:۹، ۱۰؛ متی ۲۱:۴۲، زبور ۱۱۸:۲۲، ۲۳؛ متی ۲۶:۳۱، ۵۶ اور زکریاہ ۱۳:۷ کا موازنہ کریں۔ ایسی تکمیل ہمیں پُرزور یقیندہانی کراتی ہے کہ ”آسمان کی بادشاہی“ کے سلسلے میں یہوواہ کے عظیم مقاصد کی تکمیل کے ساتھ ساتھ متی کی انجیل میں درج یسوع کی تمام پیشینگوئیاں بھی وقت آنے پر پوری ہوں گی۔
۳۳. راستی سے محبت رکھنے والے لوگ اِس وقت کونسے علم اور اُمید سے شادمان ہو سکتے ہیں؟
۳۳ خدا نے بادشاہت کے بادشاہ کی زندگی کی بابت چھوٹی چھوٹی تفصیلات کی بھی کتنی درست پیشینگوئی کی تھی! متی نے الہام سے اِن پیشینگوئیوں کی تکمیل کو وفاداری کے ساتھ کسقدر واضح اور صحیح انداز میں درج کِیا تھا! متی کی انجیل میں درج نبوّتی تکمیلوں اور وعدوں پر غور کرتے وقت راستی سے محبت رکھنے والے لوگ واقعی ”آسمان کی بادشاہی“ کے علم اور اُمید سے شادمان ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ اُن کے ذریعے یہوواہ اپنے نام کی تقدیس کرائے گا۔ یہ یسوع مسیح کی بادشاہت ہی ہے جو ”ابنِآدم کے نئی پیدایش میں اپنے جلال کے تخت پر“ بیٹھنے کے بعد حلیم اور روحانی طور پر بھوکے لوگوں کے لئے زندگی کی لاتعداد برکات اور خوشی لائے گی۔ (متی ۱۹:۲۸) یہ تمام وعدے ”متی کی انجیل“ میں پائی جانے والی شاندار خوشخبری کا حصہ ہیں۔
[فٹنوٹ]
a سن ۱۹۸۱ نئی اشاعت، جِلد V، صفحہ ۸۹۵۔
b یہ اقتباس لاطینی متن کے اُس ترجمے سے لیا گیا ہے جسے ای. سی. ریچرڈسن نے ۱۸۹۶ میں ایک سلسلہوار اشاعت کے طور پر شائع کِیا۔
c دی ایکلیزیایسٹیکل ہسٹری، VI، XXV، ۳-۶۔
d سی. ایف. اینڈریو کی مُرتبکردہ مہاتما گاندھیز آئیڈیاز، ۱۹۳۰، صفحہ ۹۶۔
e ایس. آئی. سٹابر اور ٹی. سی. کلارک، کی اشاعت، ٹریژری آف دی کرسچین فیتھ، ۱۹۴۹، صفحہ ۴۳۔
f سن ۱۸۹۶ میں بی. ایف. ویسٹکوٹ، کی تحریرکردہ انٹروڈکشن ٹو دی سٹڈی آف دی گوسپلز، صفحہ ۲۰۱۔