”میری بادشاہت کا اِس دُنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے“
”مَیں اِسی لیے پیدا ہوا اور دُنیا میں آیا تاکہ سچائی کے بارے میں گواہی دوں۔“—یوحنا 18:37۔
1، 2. (الف) یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ دُنیا دن بہدن بٹتی جا رہی ہے؟ (ب) اِس مضمون میں کن سوالوں پر بات کی جائے گی؟
جنوبی یورپ میں رہنے والی ایک بہن نے اپنے ماضی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا: ”مَیں نے بچپن سے ہر جگہ نااِنصافی ہی دیکھی تھی۔ اِس وجہ سے میرا اپنے ملک کے سیاسی نظام سے بھروسا اُٹھ گیا اور مَیں ایسے نظریات کی حمایت کرنے لگی جنہیں لوگ اِنتہاپسند نظریات سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ مَیں کئی سال تک ایک دہشتگرد کی گرل فرینڈ بھی رہی۔“ جنوبی افریقہ میں رہنے والا ایک بھائی پہلے تشددپسند ہوا کرتا تھا۔ وہ کہتا ہے: ”مَیں اپنے قبیلے کو باقی سب قبیلوں سے افضل سمجھتا تھا۔ مَیں ایک ایسی سیاسی پارٹی کا حصہ بن گیا جس میں ہمیں یہ سکھایا جاتا تھا کہ ہم اپنے مخالفوں کو نیزے سے قتل کریں، یہاں تک کہ اپنے قبیلے کے اُن افراد کو بھی جو دوسری سیاسی پارٹیوں کی حمایت کرتے تھے۔“ ایک بہن جس کا تعلق وسطی یورپ سے ہے، کہتی ہے: ”میرے دل میں تعصب بھرا ہوا تھا۔ مَیں ہر اُس شخص سے نفرت کرتی تھی جس کا تعلق میری قوم یا میرے مذہب سے نہیں ہوتا تھا۔“
2 آجکل بہت سے لوگ ایسے ہی نظریات رکھتے ہیں اور اِن لوگوں کی تعداد میں اِضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بہت سی سیاسی جماعتیں آزادی حاصل کرنے کے لیے تشدد کا سہارا لیتی ہیں۔ سیاست کے نام پر لڑائی جھگڑے عام سی بات ہیں۔ اِس کے علاوہ بہت سے ملکوں میں غیرملکیوں کے ساتھ پہلے سے زیادہ بدسلوکی کی جا رہی ہے۔ واقعی اِس آخری زمانے میں لوگ ”ضدی“ ہیں اور کٹر نظریات رکھتے ہیں۔ (2-تیمُتھیُس 3:1، 3) ایک ایسی دُنیا میں رہتے ہوئے جو سیاسی، سماجی اور نسلی لحاظ سے بٹتی جا رہی ہے، مسیحی اپنے اِتحاد کو کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں؟ اِس حوالے سے ہم یسوع مسیح کی مثال سے اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔ اُن کے زمانے میں بھی سیاسی اِختلافات عروج پر تھے۔ اِس مضمون میں ہم اِن تین سوالوں کے جواب حاصل کریں گے: (1) یسوع مسیح نے آزادی کی تحریکوں میں حصہ لینے سے کیوں اِنکار کِیا؟ (2) یسوع مسیح نے اپنی مثال سے یہ کیسے واضح کِیا کہ خدا کے بندوں کو سیاسی معاملات میں کسی کی حمایت نہیں کرنی چاہیے؟ (3) اور اُنہوں نے اپنے پیروکاروں کو یہ کیسے سکھایا کہ اُنہیں کبھی تشدد کا سہارا نہیں لینا چاہیے؟
کیا یسوع نے آزادی کی تحریکوں کی حمایت کی؟
3، 4. (الف) یسوع مسیح کے زمانے میں بہت سے یہودی کیا چاہتے تھے؟ (ب) یہودیوں کی سوچ کا یسوع مسیح کے شاگردوں پر کیا اثر ہوا؟
3 جن یہودیوں کو یسوع مسیح مُنادی کرتے تھے، اُن میں سے بہت سے رومی حکومت سے آزادی چاہتے تھے۔ ایک یہودی جماعت جو اِنتہاپسند نظریات رکھتی تھی، لوگوں کے دلوں میں آزادی کی خواہش کو اَور بڑھاوا دے رہی تھی۔ کئی اِنتہاپسند لوگ گلیل کے رہنے والے یہوداہ نامی شخص کے حامی تھے۔ یہوداہ عوام کی نظر میں مسیح بنا بیٹھا تھا اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کر رہا تھا۔ یہودی تاریخدان یوسیفس نے کہا کہ یہوداہ، یہودیوں کو روم کے خلاف بغاوت پر اُکساتا تھا اور اُن لوگوں کو بزدل کہتا تھا جو رومی حکومت کو ٹیکس دیتے تھے۔ آخرکار رومیوں نے یہوداہ کو قتل کروا دیا۔ (اعمال 5:37) کچھ یہودی اِنتہاپسند تو اپنے اِرادوں کو پورا کرنے کی خاطر تشدد پر بھی اُتر آئے۔
4 زیادہتر یہودی مسیح کے آنے کے منتظر تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ مسیح اُنہیں روم کی غلامی سے رِہائی دِلائے گا اور اِسرائیل کو دوبارہ سے عظیم قوم بنائے گا۔ (لُوقا 2:38؛ 3:15) بہت سے لوگوں کا ماننا تھا کہ مسیح زمین پر اِسرائیل میں بادشاہت قائم کرے گا۔ وہ سمجھتے تھے کہ اِس کے بعد وہ سارے یہودی جو دُنیا کے مختلف حصوں میں تتربتر ہو گئے تھے، واپس اِسرائیل آ جائیں گے۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے بھی یسوع سے پوچھا: ”کیا آپ ہی وہ شخص ہیں جسے آنا تھا یا کیا ہم کسی اَور کا اِنتظار کریں؟“ (متی 11:2، 3) شاید یوحنا کے ذہن میں یہ سوال تھا کہ کیا کوئی اَور شخص یہودیوں کو رِہائی دِلانے آئے گا۔ یسوع مسیح کے زندہ ہونے کے بعد اِماؤس کی طرف جانے والے راستے پر دو شاگرد اُن سے ملے۔ اُنہوں نے کہا کہ اُنہیں یہ توقع تھی کہ یسوع اِسرائیل کو چھٹکارا دِلائیں گے۔ (لُوقا 24:21 کو پڑھیں۔) اِس کے کچھ ہی عرصے بعد یسوع مسیح کے رسولوں نے اُن سے پوچھا: ”مالک، کیا آپ ابھی اِسرائیل کی بادشاہت بحال کریں گے؟“—اعمال 1:6۔
5. (الف) گلیل کے لوگ یسوع کو اپنا بادشاہ کیوں بنانا چاہتے تھے؟ (ب) یسوع مسیح نے اُن لوگوں کی سوچ کو کیسے درست کِیا؟
5 یہودیوں کو یہ توقع تھی کہ مسیح اُن کے مسئلے حل کر دے گا۔ شاید اِسی لیے گلیل کے لوگ یسوع کو اپنا بادشاہ بنانا چاہتے تھے۔ غالباً اُن کا خیال تھا کہ اُنہیں یسوع سے بہتر رہنما کہیں اَور نہیں مل سکتا۔ یسوع کمال کے مقرر تھے، وہ بیماروں کو شفا دیتے تھے اور بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ جب یسوع نے 5000 مردوں کو کھانا فراہم کِیا تو لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ یسوع اُن کے اِرادوں سے واقف تھے۔ بائبل میں لکھا ہے: ”یسوع کو پتہ تھا کہ لوگ اُن کو زبردستی بادشاہ بنانا چاہتے ہیں اِس لیے وہ اکیلے ایک پہاڑ پر چلے گئے۔“ (یوحنا 6:10-15) اگلے دن تک لوگوں کا جوش کسی حد تک ٹھنڈا پڑ چُکا تھا۔ پھر یسوع نے اُن لوگوں کو بتایا کہ وہ اُن کی جسمانی ضروریات پوری کرنے نہیں آئے ہیں بلکہ اُنہیں خدا کی بادشاہت کے بارے میں تعلیم دینے آئے ہیں۔ یسوع نے اُن سے کہا: ”اُس کھانے کے لیے محنت نہ کریں جو خراب ہوتا ہے بلکہ اُس کھانے کے لیے جو خراب نہیں ہوتا اور جس کے ذریعے ہمیشہ کی زندگی ملتی ہے۔“—یوحنا 6:25-27۔
6. یسوع مسیح نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ سیاسی اِختیار حاصل نہیں کرنا چاہتے تھے؟ (مضمون کے شروع میں دائیں ہاتھ والی تصویر کو دیکھیں۔)
6 اپنی موت سے تھوڑی دیر پہلے یسوع کو یہ اندازہ ہو گیا کہ اُن کے شاگرد یہ سوچ رہے تھے کہ وہ یروشلیم میں حکمرانی شروع کرنے والے ہیں۔ اپنے شاگردوں کی اِس غلطفہمی کو دُور کرنے کے لیے یسوع نے اُنہیں ایک ”نواب“ کی مثال دی جو اپنے غلاموں کو کاروبار کے لیے چاندی دے کر ایک لمبے عرصے کے لیے دُوردراز ملک چلا جاتا ہے۔ (لُوقا 19:11-13، 15) یسوع مسیح نے رومی افسر پُنطیُس پیلاطُس کو بھی صاف صاف کہا کہ وہ سیاسی معاملات میں کسی کی طرفداری نہیں کرتے۔ پیلاطُس نے یسوع سے پوچھا: ”کیا تُم یہودیوں کے بادشاہ ہو؟“ (یوحنا 18:33) شاید پیلاطُس کو یہ ڈر تھا کہ یسوع لوگوں کو رومی حکومت کے خلاف بغاوت پر اُکسائیں گے۔ لیکن یسوع نے جواب دیا: ”میری بادشاہت کا اِس دُنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“ (یوحنا 18:36) یسوع مسیح نے سیاست میں حصہ لینے سے اِنکار کر دیا کیونکہ اُن کی بادشاہت آسمان پر قائم ہونی تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ زمین پر ”سچائی کے بارے میں گواہی“ دینے آئے ہیں۔—یوحنا 18:37 کو پڑھیں۔
7. اپنے دل میں بھی آزادی کی تحریکوں کی حمایت نہ کرنا کیوں مشکل ہو سکتا ہے؟
7 یسوع جانتے تھے کہ خدا نے اُنہیں کون سی ذمےداری دے کر زمین پر بھیجا تھا۔ جب ہم بھی یہ سمجھ جاتے ہیں کہ خدا نے ہمیں کون سی ذمےداری سونپی ہے تو ہم کسی بھی طرح سے، یہاں تک کہ اپنے دل میں بھی آزادی کی تحریکوں کی حمایت نہیں کرتے۔ ایسا کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ حلقے کے ایک نگہبان نے بتایا کہ اُس کے علاقے میں اِنتہاپسندی کی وبا بڑھتی جا رہی ہے۔ وہاں کے لوگوں کو اپنی نسل پر بڑا فخر ہے اور وہ مانتے ہیں کہ اگر اُنہیں اپنی حکومت قائم کرنے کی آزادی مل جائے تو اُن کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ حلقے کے نگہبان نے یہ بھی کہا: ”خدا کا شکر ہے کہ بہن بھائیوں نے اپنی توجہ بادشاہت کی خوشخبری سنانے پر رکھی اور یوں اپنے اِتحاد کو کمزور نہیں پڑنے دیا۔ اُنہیں پورا بھروسا ہے کہ خدا ہی نااِنصافی اور ہماری دیگر مشکلات کو ختم کرے گا۔“
یسوع سیاسی معاملات میں غیرجانبدار رہے
8. یسوع مسیح کے زمانے میں بہت سے یہودیوں کو کون سی نااِنصافی کا سامنا تھا؟
8 جب لوگ اپنے اِردگِرد نااِنصافی ہوتے دیکھتے ہیں تو عموماً وہ سیاست میں زیادہ دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ یسوع مسیح کے زمانے میں ٹیکس کی ادائیگی ایک ایسا مسئلہ تھا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ سیاسی جماعتوں کی حمایت کرنے کی طرف مائل ہو گئے تھے۔ گلیل کے یہوداہ نے روم کے خلاف بغاوت دراصل اِسی لیے کی تھی کیونکہ رومی حکومت لوگوں کی مردمشماری کر رہی تھی تاکہ اِس بات کا دھیان رکھ سکے کہ سب لوگ ٹیکس ادا کریں۔ لوگوں کو بہت سے ٹیکس ادا کرنے ہوتے تھے، مثلاً اپنی زمینوں اور گھروں وغیرہ پر۔ سونے پہ سہاگا کہ ٹیکس وصول کرنے والے بددیانتی سے کام لے رہے تھے۔ کبھی کبھار وہ سرکاری اہلکاروں کی جیبیں گرم کر کے اعلیٰ مرتبے حاصل کر لیتے تھے اور پھر اپنا اِختیار اِستعمال کر کے لوگوں سے پیسے بٹورتے تھے۔ یریحو میں ٹیکس وصول کرنے والوں کا افسر زکائی بھی لوگوں سے ناحق پیسے بٹور کر ہی امیر بنا تھا۔—لُوقا 19:2، 8۔
9، 10. (الف) یسوع مسیح کے دُشمنوں نے اُنہیں ایک سیاسی معاملے میں پھنسانے کی کوشش کیسے کی؟ (ب) یسوع مسیح نے ہیرودیس کے حامیوں کو جو جواب دیا، اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ (مضمون کے شروع میں درمیان والی تصویر کو دیکھیں۔)
9 یسوع مسیح کے دُشمن اُنہیں ٹیکس کی ادائیگی کے معاملے میں پھنسانا چاہتے تھے۔ اُنہوں نے یسوع سے پوچھا: ”آپ کے خیال میں قیصر کو ٹیکس دینا جائز ہے یا نہیں؟“ دراصل وہ لوگ یسوع مسیح سے ایک دینار ٹیکس دینے کے بارے میں سوال کر رہے تھے جو سارے یہودیوں کو ادا کرنا ہوتا تھا۔ (متی 22:16-18 کو پڑھیں۔) یہودیوں کو یہ ٹیکس ادا کرنے سے سخت نفرت تھی کیونکہ یہ اِس بات کو ظاہر کرتا تھا کہ وہ رومی حکومت کے غلام ہیں۔ ”ہیرودیس کے حامیوں“ کا خیال تھا کہ اگر یسوع یہ کہیں گے کہ یہ ٹیکس ادا کرنا صحیح نہیں ہے تو وہ اُنہیں رومی حکومت کا دُشمن قرار دے پائیں گے اور اگر یسوع اِس ٹیکس کی ادائیگی کو جائز قرار دیں گے تو لوگ اُن کی پیروی کرنا چھوڑ دیں گے۔ یسوع نے کیا کِیا؟
10 یسوع مسیح اِس معاملے میں غیرجانبدار رہنا چاہتے تھے۔ اِس لیے اُنہوں نے کہا: ”جو چیزیں قیصر کی ہیں، قیصر کو دو اور جو چیزیں خدا کی ہیں، خدا کو دو۔“ (متی 22:21) یسوع جانتے تھے کہ ٹیکس وصول کرنے والے بہت سے لوگ بددیانت ہیں۔ لیکن اُن کا دھیان اِس چیز پر نہیں تھا۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے اپنی توجہ اِس بات پر رکھی کہ صرف خدا کی بادشاہت ہی اِنسانوں کے مسئلوں کا حقیقی حل نکالے گی۔ اِس طرح یسوع نے ہمارے لیے عمدہ مثال قائم کی۔ ہمیں سیاسی معاملات میں کسی کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں تب بھی ایسا کرنے سے گریز کرنا چاہیے جب ہمیں لگتا ہے کہ فلاں سیاسی جماعت صحیح ہے اور فلاں غلط۔ مسیحی پہلے خدا کی بادشاہت اور اُس کے نیک معیاروں کی تلاش کرتے ہیں۔ لہٰذا جب نااِنصافی کی بات آتی ہے تو ہم نہ تو اِس کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں اور نہ ہی آواز اُٹھانے والوں کی دل ہی دل میں حمایت کرتے ہیں۔—متی 6:33۔
11. نااِنصافی سے لڑنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟
11 بہت سے لوگ یہوواہ کے گواہ بننے کے بعد کٹر سیاسی نظریات کو ترک کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اِس سلسلے میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والی ایک بہن کی مثال پر غور کریں۔ اُس نے سچائی سیکھنے سے پہلے یونیورسٹی سے معاشرتی علوم کی تعلیم حاصل کی اور اِنتہاپسند نظریات کو ماننے لگی۔ وہ کہتی ہے: ”مَیں سیاہفام لوگوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا چاہتی تھی کیونکہ ہمیں بہت زیادہ نااِنصافی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مَیں لوگوں سے بحث میں تو جیت جاتی تھی لیکن پھر بھی مایوس رہتی تھی۔ مَیں اِس بات کو نہیں سمجھتی تھی کہ مختلف نسلوں کے ساتھ ہونے والی نااِنصافی کو ختم کرنے کے لیے لوگوں کے دلوں سے تعصب کی جڑیں اُکھاڑنا ضروری ہے۔ پھر جب مَیں نے بائبل کورس کرنا شروع کِیا تو مجھے احساس ہوا کہ مجھے پہلے اپنے دل سے تعصب کو ختم کرنا ہوگا۔“ ایسا کرنے میں ایک سفیدفام یہوواہ کی گواہ نے اُس بہن کی مدد کی۔ وہ بہن کہتی ہے: ”اب مَیں اِشاروں کی زبان والی کلیسیا میں پہلکار کے طور پر خدمت کر رہی ہوں اور ہر طرح کے لوگوں کی مدد کرنا سیکھ رہی ہوں۔“
”اپنی تلوار واپس رکھ لیں“
12. یسوع نے اپنے شاگردوں کو کس طرح کے ”خمیر“ سے دُور رہنے کو کہا؟
12 یسوع مسیح کے زمانے میں مذہبی رہنما اکثر سیاسی جماعتوں کی حمایت کرتے تھے۔ کتاب ”زمانۂمسیح کے دوران فلستین میں روزمرہ زندگی“ (انگریزی میں دستیاب) میں بتایا گیا ہے کہ یہودی مختلف مذہبی گروہوں میں بٹے ہوئے تھے اور یہ گروہ سیاسی جماعتوں جیسا کردار ادا کرتے تھے۔ لہٰذا یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا: ”اپنی آنکھیں کُھلی رکھیں اور فریسیوں کے خمیر اور ہیرودیس کے خمیر سے خبردار رہیں۔“ (مرقس 8:15) جب یسوع نے ہیرودیس کا ذکر کِیا تو وہ غالباً ہیرودیس کے حامیوں کی بات کر رہے تھے۔ اِس کے علاوہ یسوع نے فریسیوں کا بھی ذکر کِیا جو اِس نظریے کی حمایت کرتے تھے کہ یہودی، رومی حکومت سے آزاد ہو جائیں۔ متی کی اِنجیل کے مطابق یسوع نے اپنے شاگردوں کو صدوقیوں کے حوالے سے بھی خبردار کِیا۔ صدوقی یہ چاہتے تھے کہ اِسرائیل میں روم کی حکومت قائم رہے کیونکہ حکومت نے اُنہیں اِختیار دے رکھا تھا۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو ہیرودیس کے حامیوں، فریسیوں اور صدوقیوں کے ”خمیر“ یعنی تعلیمات سے دُور رہنے کو کہا۔ (متی 16:6، 12) دلچسپی کی بات ہے کہ یسوع نے اپنے شاگردوں کو یہ نصیحت اُس وقت کے تھوڑی ہی دیر بعد کی جب لوگوں نے اُنہیں بادشاہ بنانے کی کوشش کی۔
یسوع نے اپنے شاگردوں کو مکمل طور پر غیرجانبدار رہنے کی تعلیم دی۔
13، 14. (الف) یسوع کے زمانے میں مذہب اور سیاست کے گٹھ جوڑ نے تشدد اور نااِنصافی کو کیسے جنم دیا؟ (ب) ہمیں اُس صورت میں بھی تشدد کا سہارا کیوں نہیں لینا چاہیے جب ہمارے ساتھ نااِنصافی ہوتی ہے؟ (مضمون کے شروع میں بائیں ہاتھ والی تصویر کو دیکھیں۔)
13 مذہب اور سیاست کا گٹھ جوڑ اکثر تشدد کو جنم دیتا ہے۔ یسوع مسیح کے زمانے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ یسوع نے تو اپنے شاگردوں کو مکمل طور پر غیرجانبدار رہنے کی تعلیم دی لیکن اعلیٰ کاہن اور فریسی مذہب اور سیاست کو ساتھ ساتھ لے کر چل رہے تھے۔ اُنہیں یہ ڈر تھا کہ لوگ یسوع کے پیروکار بن جائیں گے اور اُن کی پیروی کرنا چھوڑ دیں گے۔ اگر ایسا ہوتا تو اُن کا مذہبی اور سیاسی اِختیار خطرے میں پڑ سکتا تھا۔ اِس لیے وہ یسوع کو مروانا چاہتے تھے۔ اُنہوں نے کہا: ”اگر ایسے ہی چلتا رہا تو سب لوگ اُس پر ایمان لے آئیں گے اور پھر رومی آ کر ہماری جگہ اور ہماری قوم دونوں کو چھین لیں گے۔“ (یوحنا 11:48) لہٰذا کاہنِاعظم کائفا نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر یسوع کو مارنے کی سازش گھڑنی شروع کر دی۔—یوحنا 11:49-53؛ 18:14۔
14 کائفا نے رات کے اندھیرے میں سپاہیوں کو یسوع کو گِرفتار کرنے کے لیے بھیجا۔ لیکن یسوع اِس بات سے واقف تھے کہ اُنہیں مارنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ اِس لیے اپنے شاگردوں کے ساتھ آخری بار کھانا کھاتے وقت یسوع نے اُنہیں کچھ تلواریں ساتھ لینے کو کہا۔ شاگردوں کے پاس صرف دو تلواریں تھیں اور یسوع نے کہا کہ یہ کافی ہیں۔ دراصل یسوع اُنہیں ایک اہم بات سکھانے والے تھے۔ (لُوقا 22:36-38) اُس رات بعد میں ایک بِھیڑ یسوع کو گِرفتار کرنے آئی۔ اِس نااِنصافی کو دیکھ کر پطرس اِتنے غصے میں آ گئے کہ اُنہوں نے تلوار نکال کر ایک آدمی پر حملہ کر دیا۔ (یوحنا 18:10) لیکن یسوع نے پطرس سے کہا: ”اپنی تلوار واپس رکھ لیں کیونکہ جو تلوار چلاتے ہیں، اُنہیں تلوار سے ہلاک کِیا جائے گا۔“ (متی 26:52، 53) اِس طرح یسوع نے اپنے شاگردوں کو یہ اہم بات سکھائی کہ اُنہیں دُنیا کا حصہ نہیں ہونا چاہیے۔ اُس رات کچھ گھنٹے پہلے یسوع نے اِسی بارے میں دُعا کی تھی۔ (یوحنا 17:16 کو پڑھیں۔) اِس سب سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ ہمیں خود نااِنصافی کے خلاف لڑنے کی بجائے اِس معاملے کو خدا پر چھوڑ دینا چاہیے۔
15، 16. (الف) کچھ بہن بھائی خدا کے کلام کی مدد سے اِنتہاپسند نظریات کو ترک کرنے کے قابل کیسے ہوئے ہیں؟ (ب) جب یہوواہ اِس دُنیا کو اور اپنے بندوں کو دیکھتا ہوگا تو اُسے کیا فرق نظر آتا ہوگا؟
15 مضمون کے شروع میں جنوبی یورپ سے تعلق رکھنے والی جس بہن کا ذکر کِیا گیا ہے، اُس نے بھی یہ سیکھ لیا کہ ہمیں خود نااِنصافی کے خلاف لڑنے کی بجائے معاملے کو خدا پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اُس نے کہا: ”مَیں نے دیکھا ہے کہ تشدد کرنے سے اِنصاف نہیں ملتا۔ جو لوگ تشدد کا سہارا لیتے ہیں، اُن میں سے بعض کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے جبکہ بعض کے اندر غموغصے کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔ مجھے بائبل سے یہ سیکھ کر بڑی خوشی ملی کہ صرف خدا ہی زمین پر حقیقی اِنصاف قائم کر سکتا ہے۔ پچھلے 25 سال سے مَیں اِسی پیغام کی مُنادی کر رہی ہوں۔“ جنوبی افریقہ میں رہنے والے بھائی نے نیزے کی جگہ ہاتھ میں ”روح کی تلوار“ یعنی خدا کا کلام لے لیا ہے۔ (اِفسیوں 6:17) اب وہ سب لوگوں کو پھر چاہے اُن کا تعلق کسی بھی قبیلے سے ہو، امن کا پیغام سناتا ہے۔ اور وسطی یورپ سے تعلق رکھنے والی بہن نے یہوواہ کی گواہ بننے کے بعد ایک ایسی نسل کے بھائی سے شادی کی جس کے لوگوں سے وہ پہلے نفرت کرتی تھی۔ اِن تینوں نے اپنی زندگی میں یہ تبدیلیاں اِس لیے کیں کیونکہ وہ مسیح کی طرح بننا چاہتے تھے۔
16 ایسی تبدیلیاں کرنا واقعی بہت فائدہمند ہے۔ بائبل میں کہا گیا ہے کہ اِنسان سمندر کی طرح ہیں جس میں ہمیشہ لہریں اُٹھتی رہتی ہیں اور جو کبھی ساکن نہیں ہوتا۔ (یسعیاہ 17:12؛ 57:20، 21؛ مکاشفہ 13:1) سیاسی مسائل لوگوں میں غصے کی آگ بھڑکاتے ہیں، اُنہیں ایک دوسرے سے جُدا کرتے ہیں اور تشدد کو جنم دیتے ہیں۔ لیکن ہم ساکن رہتے ہیں یعنی اپنے امن اور اِتحاد کو قائم رکھتے ہیں۔ جب یہوواہ یہ دیکھتا ہوگا کہ ہم سیاسی، سماجی اور نسلی لحاظ سے بٹی ہوئی اِس دُنیا میں کتنے متحد ہیں تو اُس کا دل بہت خوش ہوتا ہوگا۔—صفنیاہ 3:17 کو پڑھیں۔
17. (الف) ہم کن تین طریقوں سے اِتحاد کو فروغ دے سکتے ہیں؟ (ب) اگلے مضمون میں ہم کیا سیکھیں گے؟
17 اِس مضمون میں ہم نے سیکھا ہے کہ ہم اِن تین طریقوں سے اِتحاد کو فروغ دے سکتے ہیں: (1) ہم اِس بات پر پورا بھروسا رکھ سکتے ہیں کہ خدا کی بادشاہت ہر قسم کی نااِنصافی کا خاتمہ کر دے گی؛ (2) ہم سیاسی معاملات میں کسی کی حمایت نہیں کرتے (3) اور ہم کبھی تشدد کا سہارا نہیں لیتے۔ لیکن ایک ایسی چیز جس کی وجہ سے ہمارا اِتحاد خطرے میں پڑ سکتا ہے، وہ تعصب ہے۔ اگلے مضمون میں ہم سیکھیں گے کہ ہم پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں کی طرح تعصب پر کیسے غالب آ سکتے ہیں۔