باب 129
”دیکھو! یہی وہ آدمی ہے“
متی 27:15-17، 20-30 مرقس 15:6-19 لُوقا 23:18-25 یوحنا 18:39–19:5
پیلاطُس نے یسوع مسیح کو چھڑانے کی کوشش کی
یہودیوں نے برابا کی رِہائی کی مانگ کی
یسوع مسیح کا مذاق اُڑایا گیا اور اُن پر ظلم ڈھایا گیا
پیلاطُس نے اُن لوگوں سے جو یسوع مسیح کو مروانا چاہتے تھے، کہا: ”مَیں نے دیکھا کہ تمہارے اِلزام بےبنیاد ہیں۔ اور ہیرودیس بھی اِسی نتیجے پر پہنچے کیونکہ اُنہوں نے اِسے ہمارے پاس واپس بھیج دیا ہے۔ دیکھو! اِس نے کوئی ایسا کام نہیں کِیا جس کے لیے اِسے سزائےموت دی جائے۔“ (لُوقا 23:14، 15) پھر پیلاطُس نے یسوع کو بچانے کے لیے ایک اَور طریقہ آزمایا۔ اُس نے یہودیوں سے کہا: ”تمہارا رواج ہے کہ مَیں عیدِفسح کے موقعے پر تمہارے لیے ایک آدمی کو رِہا کروں۔ کیا تُم چاہتے ہو کہ مَیں یہودیوں کے بادشاہ کو رِہا کر دوں؟“—یوحنا 18:39۔
اُس وقت ایک اَور آدمی بھی حوالات میں تھا جس کا نام برابا تھا۔ وہ ایک ڈاکو، باغی اور قاتل تھا۔ پیلاطُس نے یہودیوں سے پوچھا: ”تُم کسے چھڑانا چاہتے ہو؟ برابا کو یا یسوع کو جو مسیح کہلاتا ہے؟“ اعلیٰ کاہنوں کے اُکسانے پر لوگوں نے برابا کو رِہا کرنے کی مانگ کی۔ مگر پیلاطُس نے دوبارہ پوچھا: ”تُم اِن دونوں میں سے کس کو چھڑانا چاہتے ہو؟“ وہ چلّانے لگے: ”برابا کو۔“—متی 27:17، 21۔
جب پیلاطُس نے یہ سنا تو اُسے دُکھ ہوا اور اُس نے کہا: ”تو پھر مَیں یسوع کے ساتھ کیا کروں جو مسیح کہلاتا ہے؟“ لوگ چلّا چلّا کر کہنے لگے: ”اُسے سُولی پر چڑھا دیں!“ (متی 27:22) یہ بڑی شرم کی بات تھی کہ وہ ایک بےقصور آدمی کی موت چاہتے تھے۔ پیلاطُس نے اُن سے اِلتجا کرتے ہوئے کہا: ”مگر کیوں؟ اِس نے کون سا بُرا کام کِیا ہے؟ مجھے تو کوئی ایسی وجہ نہیں ملی جس کی بِنا پر اِسے سزائےموت دی جائے۔ اِس لیے مَیں اِسے کوڑے لگوا کر رِہا کر دوں گا۔“—لُوقا 23:22۔
مگر پیلاطُس کی تمام کوششوں کے باوجود لوگ اَور زور سے چلّانے لگے: ”اُسے سُولی پر چڑھا دیں!“ (متی 27:23) مذہبی پیشواؤں نے لوگوں کو اِس حد تک بھڑکا دیا تھا کہ وہ یسوع کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے۔ یہ کتنے تعجب کی بات تھی کہ وہ کسی قاتل کو نہیں بلکہ اُس شخص کو مروانا چاہتے تھے جس کا اُنہوں نے پانچ دن پہلے بادشاہ کے طور پر خیرمقدم کِیا تھا۔ اگر یسوع کے شاگرد وہاں موجود تھے تو یقیناً وہ یہ سب کچھ خاموشی سے دیکھ رہے تھے۔
لوگ ہنگامہ کرنے لگے۔ جب پیلاطُس نے دیکھا کہ اُس کی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں تو اُس نے پانی لے کر اُن کے سامنے اپنے ہاتھ دھوئے اور کہا: ”میرا اِس آدمی کے قتل میں کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ تُم ہی اِس کے ذمےدار ہوگے۔“ یہ سُن کر بھی لوگ اپنی بات پر ڈٹے رہے۔ اُنہوں نے جواب دیا: ”ٹھیک ہے، اِس کا خون ہمارے اور ہمارے بچوں کے سر پر ہو۔“—متی 27:24، 25۔
پیلاطُس کو اِنصاف سے کام لینے کی اِتنی فکر نہیں تھی جتنی کہ لوگوں کو خوش کرنے کی۔ لہٰذا اُس نے اُن کی مانگ پوری کرنے کے لیے برابا کو رِہا کر دیا اور یسوع کو کوڑے لگانے کا حکم دیا۔
یسوع مسیح کو کوڑے لگانے کے بعد سپاہی اُنہیں پیلاطُس کی رہائشگاہ میں لے گئے اور ساری فوج کو اُن کے گِرد جمع کِیا۔ پھر وہ یسوع پر طرح طرح کے ظلم ڈھانے لگے۔ اُنہوں نے کانٹوں سے ایک تاج بنا کر یسوع کے سر پر رکھ دیا، اُن کے دائیں ہاتھ میں ایک چھڑی پکڑا دی اور اُن کو جامنی رنگ کا چوغہ بھی پہنایا جیسا کہ شاہی گھرانے کے لوگ پہنتے تھے۔ اِس کے بعد وہ یسوع کا مذاق اُڑا اُڑا کر کہنے لگے: ”یہودیوں کے بادشاہ! آداب!“ (متی 27:28، 29) سپاہیوں نے یسوع پر تھوکا اور اُن کے مُنہ پر تھپڑ مارے۔ پھر اُنہوں نے یسوع کے ہاتھ سے چھڑی لی اور اِسے اُن کے سر پر مارنے لگے جس کی وجہ سے تاج کے کانٹے اُن کے سر میں دھنس گئے۔
جب پیلاطُس نے دیکھا کہ یسوع مسیح یہ سب کچھ کتنی دلیری اور صبر سے سہہ رہے ہیں تو وہ بہت متاثر ہوا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ یسوع کا خون اُس کے سر پر ہو۔ اِس لیے اُس نے دوبارہ سے یسوع کو رِہا کرنے کی کوشش کی۔ اُس نے یہودیوں سے کہا: ”دیکھو! مَیں اُسے تمہارے پاس باہر لا رہا ہوں تاکہ تُم جان جاؤ کہ میرے خیال میں اُس نے کوئی جُرم نہیں کِیا۔“ شاید پیلاطُس نے سوچا ہو کہ یسوع کو اِس زخمی حالت میں دیکھ کر یہودیوں کو اُن پر ترس آ جائے گا۔ اِس لیے اُس نے یسوع کو اُس سنگدل بِھیڑ کے سامنے کھڑا کر کے کہا: ”دیکھو! یہی وہ آدمی ہے۔“—یوحنا 19:4، 5۔
پیلاطُس کے اِن الفاظ میں یسوع کے لیے ترس کے ساتھ ساتھ احترام بھی چھلک رہا تھا۔ لگتا ہے کہ وہ یسوع کے صبر اور وقار کو دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکا۔