باب 132
”بےشک یہ آدمی خدا کا بیٹا تھا!“
متی 27:45-56 مرقس 15:33-41 لُوقا 23:44-49 یوحنا 19:25-30
سُولی پر یسوع مسیح کی موت
یسوع مسیح کی موت کے وقت حیرتانگیز واقعات
اب ”چھٹا گھنٹہ“ تھا یعنی دوپہر کے 12 بج رہے تھے۔ اچانک ”سارے ملک میں تاریکی چھا گئی اور نویں گھنٹے تک رہی“ یعنی دوپہر تین بجے تک۔ (مرقس 15:33) یہ تاریکی سورج گرہن کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی کیونکہ سورج گرہن نئے چاند کے وقت ہوتا ہے۔ لیکن اُس وقت عیدِفسح کا موقع تھا جب چاند پورا ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ سورج گرہن کے دوران تاریکی بس چند منٹوں کے لیے رہتی ہے جبکہ یہ تاریکی کچھ گھنٹوں تک رہی۔ لہٰذا یہ تاریکی خدا کی طرف سے تھی۔
ذرا سوچیں کہ اِس واقعے کا اُن لوگوں پر کیا اثر ہوا ہوگا جو یسوع مسیح کا مذاق اُڑا رہے تھے۔ تاریکی کے دوران چار عورتیں یسوع کی سُولی کے پاس آئیں۔ یہ یسوع کی ماں مریم، سَلومی، مریم مگدلینی اور یعقوب رسول کی ماں مریم تھیں۔
یوحنا رسول بھی یسوع مسیح کی ماں کے ساتھ ”سُولی کے پاس“ کھڑے تھے۔ مریم اپنے پیارے بیٹے کو تکلیف میں تڑپتا دیکھ رہی تھیں جسے اُنہوں نے جنم دیا تھا اور پالا پوسا تھا۔ اُن کو لگ رہا تھا جیسے اُن کے ”دل میں ایک لمبی تلوار گھونپی“ جا رہی ہے۔ (یوحنا 19:25؛ لُوقا 2:35) یسوع مسیح شدید تکلیف میں تھے لیکن اِس کے باوجود اُن کو اپنی ماں کا خیال تھا۔ اُنہوں نے یوحنا کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے اپنی ماں سے کہا: ”دیکھیں، یہ آپ کا بیٹا ہے۔“ پھر اُنہوں نے مریم کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے یوحنا سے کہا: ”دیکھیں، یہ آپ کی ماں ہے۔“—یوحنا 19:26، 27۔
یوں یسوع مسیح نے اُس رسول کو مریم کا خیال رکھنے کو کہا جو اُنہیں بہت عزیز تھا۔ مریم اُس وقت بیوہ تھیں اور اُن کے دوسرے بیٹے یعنی یسوع کے سوتیلے بھائی ابھی تک یسوع مسیح پر ایمان نہیں لائے تھے۔ لہٰذا یسوع نے اِس بات کا بندوبست کِیا کہ اُن کی ماں کی نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی ضروریات بھی پوری کی جائیں۔ اِس طرح اُنہوں نے ہمارے لیے بڑی اچھی مثال قائم کی۔
جس وقت تاریکی ختم ہوئی، یسوع مسیح نے کہا: ”مجھے پیاس لگی ہے۔“ یوں اُنہوں نے ایک صحیفہ پورا کِیا۔ (یوحنا 19:28؛ زبور 22:15) یسوع نے محسوس کِیا کہ اُن کا آسمانی باپ اُن کی حفاظت نہیں کر رہا تاکہ اُن کی وفاداری کا پورا اِمتحان لیا جا سکے۔ اُنہوں نے چلّا کر کہا: ”ایلی، ایلی، لما شبقتنی؟“ جس کا مطلب ہے: ”میرے خدا، میرے خدا، تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟“ پاس کھڑے کچھ لوگوں کو یسوع کی بات سمجھ نہیں آئی اور وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے: ”دیکھو! یہ ایلیاہ نبی کو بلا رہا ہے۔“ ایک آدمی بھاگ کر گیا اور اُس نے ایک سپنج کو کھٹی مے میں ڈبویا اور اِسے ایک چھڑی پر لگا کر یسوع کے آگے کِیا تاکہ وہ اِسے چوس سکیں۔ لیکن دوسرے لوگوں نے اُسے روکا اور کہا: ”دیکھتے ہیں کہ ایلیاہ اِسے نیچے اُتارنے آتے ہیں یا نہیں۔“—مرقس 15:34-36۔
پھر یسوع نے کراہ کر کہا: ”سب کچھ مکمل ہو گیا ہے!“ (یوحنا 19:30) اور واقعی اُنہوں نے وہ سارے کام مکمل کر لیے تھے جن کے لیے اُن کے آسمانی باپ نے اُنہیں زمین پر بھیجا تھا۔ آخرکار یسوع نے کہا: ”باپ، مَیں اپنا دم تیرے سپرد کرتا ہوں۔“ (لُوقا 23:46) یوں اُنہوں نے اِس بات پر پکا یقین ظاہر کِیا کہ یہوواہ خدا اُنہیں دوبارہ زندہ کرے گا۔ اِس کے بعد اُن کا سر جھک گیا اور اُنہوں نے دم دے دیا۔
اُسی لمحے ایک بہت ہی شدید زلزلہ آیا جس کی وجہ سے چٹانیں پھٹ گئیں۔ زلزلے کی شدت سے یروشلیم سے باہر واقع قبریں کُھل گئیں اور بہت سی لاشیں نکل آئیں۔ جو لوگ وہاں سے گزر رہے تھے، اُنہوں نے اِن لاشوں کو دیکھا اور ”مُقدس شہر“ یروشلیم میں جا کر سب کو اِس کے بارے میں بتایا۔—متی 27:51-53۔
جب یسوع مسیح فوت ہو گئے تو ہیکل میں مُقدس خانے اور مُقدسترین خانے کے بیچ میں جو لمبا اور بھاری پردہ تھا، وہ اُوپر سے نیچے تک پھٹ گیا اور اِس کے دو حصے ہو گئے۔ اِس حیرتانگیز معجزے کے ذریعے خدا نے اُن لوگوں پر اپنا غصہ ظاہر کِیا جنہوں نے اُس کے بیٹے کو مار ڈالا۔ اِس سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ اب اِنسانوں کے لیے ”مُقدسترین خانے“ یعنی آسمان پر جانے کا راستہ کُھل گیا تھا۔—عبرانیوں 9:2، 3؛ 10:19، 20۔
اِن سب واقعات کو دیکھ کر لوگ بہت ڈر گئے۔ جس فوجی افسر کے سپرد یسوع کو سزائےموت دینے کی ذمےداری تھی، اُس نے تسلیم کِیا: ”بےشک یہ آدمی خدا کا بیٹا تھا!“ (مرقس 15:39) ہو سکتا ہے کہ جب پیلاطُس نے یسوع سے پوچھا تھا کہ کیا وہ خدا کے بیٹے ہیں یا نہیں تو یہ افسر بھی وہاں موجود تھا۔ اب اُسے پورا یقین ہو گیا کہ یسوع مسیح نیک آدمی ہیں اور واقعی خدا کے بیٹے ہیں۔
جب وہاں کھڑے لوگوں نے یہ سب کچھ دیکھا تو وہ غم اور ندامت کے مارے ”اپنی چھاتی پیٹتے ہوئے“ اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ (لُوقا 23:48) جو لوگ یسوع کی سُولی سے کچھ فاصلے پر کھڑے تھے، اُن میں بہت سی ایسی عورتیں بھی شامل تھیں جو یسوع کی شاگرد بن گئی تھیں اور وقتاًفوقتاً اُن کے ساتھ مل کر سفر کرتی تھیں۔ وہ بہت ہی غمگین اور افسردہ تھیں۔