آپ بےیقینی کا مقابلہ کر سکتے ہیں
”یقیناً!“ ”بیشک!“ ”بِلاشُبہ!“ غالباً آپ نے بہت دفعہ ایسے اظہارات سنے ہونگے۔ تاہم، اپنی روزمرّہ زندگی میں ہم زیادہ باتوں کا یقین نہیں کر سکتے۔ زندگی اتنی غیریقینی ہے کہ اکثر ہم یہ سوچتے ہیں کہ کیا کوئی ایسی چیز ہے جسکا ہم یقین کر سکتے ہیں۔ شک اور بےیقینی زندگی کا حصہ لگتی ہے۔
بیشتر لوگ اپنے لئے اور اپنے خاندان کے لئے تحفظ اور خوشی کے خواہاں ہیں۔ وہ روپے پیسے اور مادی اثاثوں جیسی چیزیں حاصل کرنے کیلئے سخت محنت کرتے ہیں جو اُنکے خیال میں اُنہیں خوشی اور تحفظ بخش سکتی ہیں۔ تاہم، ایک بھونچال، زلزلہ، حادثہ یا پُرتشدد جرم ایسے اثاثوں کو فوری طور پر ختم کر سکتا ہے۔ سنگین بیماری، طلاق یا بیروزگاری راتوںرات زندگیاں بدل سکتی ہے۔ سچ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ آپ کیساتھ بھی ایسا ہی واقع ہوا ہو۔ تاہم، یہ جاننا کہ کوئی خوفناک صورتحال کسی بھی وقت واقع ہو سکتی ہے پریشانکُن اور مایوسکُن ہوتی ہے۔ مگر مسئلہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا۔
بےیقینی شک کے مترادف ہے اور ایک لغت ”شک“ کو عدمیقینی، شکوشُبہ کی حالت کے طور پر بیان کرتی ہے۔ علاوہازیں، کتاب مینیجنگ یور مائنڈ کے مطابق، ”کسی اہم چیز کی بابت بےیقینی پریشانی اور فکرمندی کا بڑا سبب ہے۔“ جب شک کو دُور نہیں کِیا جاتا تو یہ پریشانی، مایوسی اور غصے کا باعث بن سکتا ہے۔ جیہاں، کیا واقع ہو سکتا ہے اور کیا نہیں اسکی بابت پریشان رہنا ہمیں ذہنی اور جسمانی طور پر نقصان پہنچا سکتا ہے۔
نتیجتاً، بعض لوگ دوسری طرف انتہا تک چلے جاتے ہیں۔ وہ اُس برازیلی نوجوان کی مانند ہیں جس نے کہا: ”واقع ہونے والی باتوں کی بابت پریشان کیوں ہوں؟ ہمیں مستقبل کی بجائے صرف حال کی بابت سوچنا چاہئے۔“ تاہم ”آؤ کھائیں پئیں“ کا خطرناک رُجحان محض مایوسی، پریشانی اور انجامکار موت کا باعث بن سکتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۲) ہمارے لئے بہتر یہی ہے کہ خالق یہوواہ خدا کی طرف رجوع کریں جس کی بابت بائبل بیان کرتی ہے، ”جس میں نہ کوئی تبدیلی ہو سکتی ہے اور نہ گردش کے سبب سے اُس پر سایہ پڑتا ہے۔“ (یعقوب ۱:۱۷) اگر ہم خدا کے کلام بائبل کا جائزہ لیں تو ہم زندگی کی بےیقینی سے نپٹنے کے سلسلے میں اچھی مشورت اور راہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں بھی مدد ملے گی کہ اسقدر بےیقینی کیوں پائی جاتی ہے۔
بےیقینی کی وجہ
صحائف زندگی کی بابت حقیقتپسندانہ نظریہ رکھنے کے علاوہ ہمیں بےیقینی اور تبدیلی کے سلسلے میں مناسب میلان پیدا کرنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔ اگرچہ خاندانی روابط، معاشرتی مرتبہ، ذہانت، اچھی صحت اور اسی طرح کی دیگر چیزیں کسی حد تک تحفظ فراہم کرتی ہیں، توبھی بائبل ظاہر کرتی ہے کہ ہم ان چیزوں پر بھروسا نہیں کر سکتے اور نہ ہی ہمیشہ خوشباش زندگی بسر کرنے کا تصور کر سکتے ہیں۔ دانشمند بادشاہ سلیمان نے کہا: ”دُنیا میں نہ تو دوڑ میں تیزرفتار کو سبقت ہے نہ جنگ میں زورآور کو فتح اور نہ روٹی دانشمند کو ملتی ہے نہ دولت عقلمندوں کو اور نہ عزت اہلِخرد کو۔“ مگر کیوں؟ ”اُن سب کیلئے وقت اور حادثہ ہے۔“ پس سلیمان نے متنبہ کِیا: ”جسطرح مچھلیاں جو مصیبت کے جال میں گرفتار ہوتی ہیں اور جسطرح چڑیاں پھندے میں پھنسائی جاتی ہیں اُسی طرح بنیآدم بھی بدبختی میں جب اچانک اُن پر آ پڑتی ہے پھنس جاتے ہیں۔“—واعظ ۹:۱۱، ۱۲۔
یسوع مسیح نے بھی انتہائی پریشانکُن اور بےیقینی کے وقت کا ذکر کِیا جو تمام نسلِانسانی پر آئیگا۔ اُس نے واضح الفاظ میں کہا: ”سورج اور چاند اور ستاروں میں نشان ظاہر ہونگے اور زمین پر قوموں کو تکلیف ہوگی کیونکہ وہ سمندر اور اُسکی لہروں کے شور سے گھبرا جائینگی۔ اور ڈر کے مارے اور زمین پر آنے والی بلاؤں کی راہ دیکھتے دیکھتے لوگوں کی جان میں جان نہ رہیگی۔ اسلئےکہ آسمان کی قوتیں ہلائی جائینگی۔“ تاہم یسوع نے ہمارے زمانے کے خلوصدل لوگوں کیلئے ایک مثبت اور حوصلہافزا بات بھی کہی: ”جب تم ان باتوں کو ہوتے دیکھو تو جان لو کہ خدا کی بادشاہی نزدیک ہے۔“ (لوقا ۲۱:۲۵، ۲۶، ۳۱) پس غیریقینی مستقبل کی بابت خوفزدہ ہونے کی بجائے، ہم خدا پر ایمان رکھتے ہیں جو ہمیں اس بےیقینی کے پار ایک شاندار اور محفوظ مستقبل کو دیکھنے میں مدد دیتا ہے۔
’پوری پوری اُمید رکھنا‘
اگرچہ ہم سننے، پڑھنے یا نظر آنے والی ہر چیز کی بابت پُراُمید تو نہیں ہو سکتے توبھی ہمارے پاس خالق پر بھروسا رکھنے کی معقول وجہ ہے۔ وہ اعلیٰوبالا حاکم ہونے کے علاوہ ایک شفیق باپ بھی ہے جو اپنے زمینی بچوں کی فکر رکھتا ہے۔ اپنے کلام کی بابت خدا خود فرماتا ہے: ”وہ بےانجام میرے پاس واپس نہ آئیگا بلکہ جوکچھ میری خواہش ہوگی وہ اُسے پورا کریگا اور اُس کام میں جسکے لئے مَیں نے اُسے بھیجا مؤثر ہوگا۔“—یسعیاہ ۵۵:۱۱۔
یسوع مسیح نے خدا کی طرف سے سچائی کی تعلیم دی اور اُسکی تعلیم کو سننے والے بیشتر لوگوں نے اُسے یقین اور بھروسے کیساتھ قبول کِیا۔ مثال کے طور پر، خلوصدل سامریوں کے ایک گروہ نے یسوع کا کلام سننے والی ایک سامری عورت سے کہا: ”اب ہم تیرے کہنے ہی سے ایمان نہیں لاتے کیونکہ ہم نے خود سن لیا اور جانتے ہیں کہ یہ فیالحقیقت دُنیا کا مُنجی ہے۔“ (یوحنا ۴:۴۲) اسی طرح آجکل بھی، عدمِتحفظ کے دَور میں رہنے کے باوجود، ہمیں اپنے ایمان کی بابت بےیقینی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
جب مذہبی اعتقادات کی بات آتی ہے تو بہتیرے یہ مانتے ہیں کہ ہمیں کچھ سمجھنے کی بجائے بس ایمان لانے کی ضرورت ہے۔ تاہم، ایک بائبل مصنف، لوقا ایسا نہیں سمجھتا تھا۔ اُس نے تحقیق کی اور صحیح معلومات فراہم کیں تاکہ جوکچھ اُس نے لکھا تھا دوسرے ’اُسکی پختگی کو معلوم کر سکیں۔‘ (لوقا ۱:۴) ممکن ہے ہمارا بےایمان خاندان اور دوستاحباب یہ سمجھتے ہوں کہ ہمیں انجامکار مایوسی کا سامنا کرنا پڑیگا تو اس صورت میں ہمیں اپنے ایمان کا دفاع کرنے کی ضرورت ہے۔ (۱-پطرس ۳:۱۵) جوکچھ ہم مانتے ہیں اُسکی بابت صحیح علم رکھنے کی وجہ سے ہی ہم دوسروں کو خدا پر بھروسا رکھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ بائبل یہوواہ کی بابت بیان کرتی ہے: ”وہ وہی چٹان ہے۔ اُسکی صنعت کامل ہے۔ کیونکہ اُسکی سب راہیں انصاف کی ہیں۔ وہ وفادار خدا اور بدی سے مبرا ہے۔ وہ منصف اور برحق ہے۔“—استثنا ۳۲:۴۔
آخری بیان پر غور کریں: ”وہ منصف اور برحق ہے۔“ اسکا یقین کرنے کیلئے ہمارے پاس کیا ثبوت ہے؟ پطرس رسول اس حقیقت سے واقف تھا۔ اُس نے ایک رومی اہلکار اور اُسکے گھرانے کو بتایا: ”اب مجھے پورا یقین ہو گیا کہ خدا کسی کا طرفدار نہیں۔ بلکہ ہر قوم میں جو اُس سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اُسکو پسند آتا ہے۔“ (اعمال ۱۰:۳۴، ۳۵) پطرس نے یہ اِسلئے کہا تھا کیونکہ وہ دیکھ چکا تھا کہ کیسے خدا نے ایک غیرقوم خاندان کو جوکہ پہلے ناپاک اور نامقبول تھا اپنے حضور قابلِقبول بنانے کیلئے راہنمائی کی تھی۔ پطرس کی طرح، ہم بھی ۲۳۰ سے زائد ممالک سے آنے والے لوگوں کی ”بڑی بِھیڑ“ کو دیکھ کر جنہوں نے اپنی سابقہ روش کو ترک کر دیا ہے اور اب راستی سے چلتے ہیں، خدا کے غیرجانبدار اور راست ہونے کا یقین کر سکتے ہیں۔—مکاشفہ ۷:۹؛ یسعیاہ ۲:۲-۴۔
سچے مسیحیوں کے طور پر، ہم جنونی یا سختگیر نہیں بلکہ فروتن اور معقول بننا چاہتے ہیں۔ تاہم، ہم مستقبل کی بابت اپنے ایمان اور اپنی توقعات کی بابت بےیقینی کا شکار نہیں ہیں۔ پہلی صدی کے مسیحیوں کو پولس رسول نے لکھا: ”ہم اس بات کے آرزومند ہیں کہ تم میں سے ہر شخص پوری اُمید کے واسطے آخر تک اسی طرح کوشش ظاہر کرتا رہے۔“ (عبرانیوں ۶:۱۱) پس بائبل کی خوشخبری نے ہمیں ”پوری اُمید“ بخشی ہے۔ لہٰذا پولس کے بیان کے مطابق خدا کے کلام پر مضبوطی سے قائم اس اُمید سے ہمیں ”شرمندگی حاصل نہیں ہوتی۔“—رومیوں ۵:۵۔
علاوہازیں، ہم اس بات کے بھی قائل ہیں کہ دوسروں کو خوشخبری میں شریک کرنا نہ صرف روحانی طور پر بلکہ جذباتی اور جسمانی طور پر بھی تحفظ اور یقین بخشتا ہے۔ ہم پولس کیساتھ ملکر یہ کہہ سکتے ہیں: ”ہماری خوشخبری تمہارے پاس نہ فقط لفظی طور پر پہنچی بلکہ قدرت اور رُوحاُلقدس اور پورے اعتقاد کیساتھ بھی۔“—۱-تھسلنیکیوں ۱:۵۔
روحانی تحفظ کی موجودہ برکات
اگرچہ آجکل ہم زندگی میں مکمل تحفظ کی توقع تو نہیں کر سکتے توبھی ایسے بہت سے کام ہیں جو ہمیں نسبتاً مستحکم اور محفوظ زندگی بسر کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اجلاسوں پر مسیحی کلیسیا کیساتھ باقاعدہ رفاقت استحکام بخش سکتی ہے کیونکہ وہاں ہم راست اور درست اُصولوں اور قدروں کی تعلیم پاتے ہیں۔ پولس نے لکھا: ”اس موجودہ جہان کے دولتمندوں کو حکم دے کہ مغرور نہ ہوں اور ناپایدار دولت پر نہیں بلکہ خدا پر اُمید رکھیں جو ہمیں لطف اُٹھانے کیلئے سب چیزیں افراط سے دیتا ہے۔“ (۱-تیمتھیس ۶:۱۷) بہتیرے لوگ ختم ہو جانے والی مادی یا عیشوعشرت کی چیزوں کی بجائے یہوواہ پر بھروسا کرنے سے خود کو ایسی پریشانیوں اور تفکرات سے آزاد کرانے کے قابل ہوئے ہیں۔—متی ۶:۱۹-۲۱۔
کلیسیا میں ہم پُرمحبت برادری کی رفاقت سے بھی استفادہ کرتے ہیں جو ہمیں مختلف طریقوں سے مدد اور حمایت فراہم کرتی ہے۔ اپنی خدمتگزاری میں ایک موقع پر، پولس رسول اور اُسکے ساتھی سفری نگہبان نے ’شدید دباؤ‘ محسوس کِیا اور وہ ’اپنی زندگیوں کی بابت بھی بےیقینی میں مبتلا تھے۔‘ پولس نے حمایت اور تسلی کہاں حاصل کی؟ بیشک خدا پر اُسکا اعتماد کبھی متزلزل نہیں ہوا تھا۔ بہرصورت اُس نے ساتھی مسیحیوں سے تسلی پائی جو اُسکی مدد کیلئے پہنچے تھے۔ (۲-کرنتھیوں ۱:۸، ۹؛ ۷:۵-۷) آجکل بھی جب قدرتی آفات یا دیگر مصیبتیں ہمیں آ دباتی ہیں تو ہمارے مسیحی بھائی ہی ساتھی مسیحیوں اور دیگر لوگوں کی مالی اور روحانی مدد کیلئے سب سے پہلے پہنچتے ہیں۔
زندگی کی بےثباتی سے نپٹنے کیلئے ایک اَور مدد دُعا ہے۔ جب ہمیں غیرمتوقع دباؤ کا سامنا ہوتا ہے تو ہم اپنے شفیق آسمانی خالق سے رجوع کر سکتے ہیں۔ ”[یہوواہ] مظلوموں کیلئے اُونچا بُرج ہوگا۔ مصیبت کے ایّام میں اُونچا بُرج۔“ (زبور ۹:۹) انسانی والدین اپنے بچوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہ سکتے ہیں۔ تاہم، خدا ہمیشہ ہمیں اپنے اندیشوں اور بےیقینی کے احساسات سے نپٹنے میں مدد دینے کیلئے تیار ہے۔ دُعا میں اپنی تمام فکریں یہوواہ پر ڈال دینے سے ہم یہ یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ ”ہماری درخواست اور خیال سے بہت زیادہ کام کر سکتا ہے۔“—افسیوں ۳:۲۰۔
کیا آپ خدا سے باقاعدہ دُعا کرتے ہیں؟ کیا آپکو یقین ہے کہ خدا آپکی دُعا سنتا ہے؟ ساؤپولو سے ایک نوجوان لڑکی نے کہا، ”میری والدہ نے مجھے کہا کہ مجھے خدا سے دُعا کرنی چاہئے۔ مگر مَیں نے خود سے پوچھا: ’مَیں کسی ایسے شخص سے کیوں بات کروں جسے مَیں جانتی ہی نہیں؟‘ تاہم امثال ۱۸:۱۰ نے مجھے یہ سمجھنے میں مدد دی کہ ہمیں خدا کی مدد کی ضرورت ہے اور ہمیں دُعا میں اس سے بات کرنی چاہئے۔“ یہ صحیفہ بیان کرتا ہے: ”[یہوواہ] کا نام محکم بُرج ہے۔ صادق اُس میں بھاگ جاتا ہے اور امن میں رہتا ہے۔“ واقعی، اگر ہم خدا کیساتھ ہمکلام ہونے کی عادت نہیں بناتے تو ہم کیسے اُس پر اعتماد اور بھروسا رکھ سکتے ہیں؟ روحانی تحفظ سے استفادہ کرنے کیلئے ہمیں روزانہ یہوواہ سے دُعا کرنے کی عادت بنانے کی ضرورت ہے۔ یسوع نے فرمایا: ”ہر وقت جاگتے اور دُعا کرتے رہو تاکہ تمکو ان سب ہونے والی باتوں سے بچنے اور ابنِآدم کے حضور کھڑے ہونے کا مقدور ہو۔“—لوقا ۲۱:۳۶۔
ایک دوسری چیز جس پر ہمارا یقین ہونا چاہئے وہ خدا کی بادشاہت پر ہماری اُمید ہے۔ دانیایل ۲:۴۴ کے الفاظ پر غور کریں: ”آسمان کا خدا ایک سلطنت برپا کریگا جو تاابد نیست نہ ہوگی اور اُسکی حکومت کسی دوسری قوم کے حوالہ نہ کی جائیگی بلکہ وہ اِن تمام مملکتوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور نیست کریگی اور وہی ابد تک قائم رہیگی۔“ یہ اُمید قابلِاعتماد اور ایک ایسی چیز ہے جسکا ہم یقین کر سکتے ہیں۔ انسانی وعدے اکثر پورے نہیں ہوتے مگر ہم خدا کے وعدوں پر ہمیشہ اعتماد رکھ سکتے ہیں۔ خدا ناقابلِبھروسا ہونے کی بجائے، ایک ایسی چٹان ہے جس پر ہم بھروسا کر سکتے ہیں۔ ہم داؤد کی طرح محسوس کر سکتے ہیں جس نے کہا: ”خدا میری چٹان ہے۔ مَیں اُسی پر بھروسا رکھونگا۔ وہی میری سپر اور میری نجات کا سینگ ہے۔ میرا اُونچا بُرج اور میری پناہ ہے۔ میرے نجات دینے والے! تُو ہی مجھے ظلم سے بچاتا ہے۔“—۲-سموئیل ۲۲:۳۔
متذکرہ کتاب مینیجنگ یور مائنڈ مزید بیان کرتی ہے: ”ایک شخص جتنا زیادہ غیرمتوقع ناخوشگوار باتوں کی بابت سوچتا ہے اُسی قدر وہ اُسکے ذہن میں نقش ہو جاتی ہیں اور پھر اُنکے ساتھ نپٹنا اُتنا ہی مشکل ہوتا جاتا ہے۔“ پس، خود کو دُنیا کے تفکرات اور اندیشوں کے بوجھ تلے کیوں دبائیں؟ اسکی بجائے خدا کے وعدوں پر بھروسا رکھیں۔ یہوواہ کے وعدوں پر ایمان رکھنے سے ہمیں یہ یقیندہانی حاصل ہوتی ہے: ”جو کوئی اُس پر ایمان لائیگا وہ شرمندہ نہ ہوگا۔“—رومیوں ۱۰:۱۱۔
[صفحہ ۲۹ پر عبارت]
خدا کا کلام مستقبل میں انسانوں کیلئے برکات کا یقین دلاتا ہے
[صفحہ ۳۰ پر عبارت]
”جو کوئی اُس پر ایمان لائیگا وہ شرمندہ نہ ہوگا“
[صفحہ ۳۱ پر تصویر]
بادشاہتی خوشخبری لوگوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے