”مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“ کے حوالے
5-11 نومبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | یوحنا 20، 21
”کیا آپ اِن سے زیادہ مجھ سے پیار کرتے ہیں؟“
(یوحنا 21:1-3) پھر یسوع، بحیرۂطبریہ کے کنارے دوبارہ اپنے شاگردوں پر ظاہر ہوئے۔ اور وہ اِس طرح ظاہر ہوئے: 2 وہاں شمعون پطرس، توما (جنہیں جُڑواں کہا جاتا تھا)، نتنایل جو گلیل کے قصبے قانا سے تھے، زبدی کے دونوں بیٹے اور دو اَور شاگرد جمع تھے۔ 3 شمعون پطرس نے اُن سب سے کہا: ”مَیں مچھلیاں پکڑنے جا رہا ہوں۔“ اِس پر اُنہوں نے کہا: ”ہم بھی آپ کے ساتھ چلیں گے۔“ وہ سب کشتی پر سوار ہو کر گئے۔ مگر اُس رات اُن کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔
(یوحنا 21:4-14) جب صبح ہو رہی تھی تو یسوع آ کر جھیل کے کنارے پر کھڑے ہو گئے لیکن شاگرد اُن کو پہچان نہیں پائے۔ 5 پھر یسوع نے اُن سے کہا: ”پیارے بچو! کیا آپ کے پاس کھانے کو کچھ ہے؟“ اُنہوں نے جواب دیا: ”نہیں۔“ 6 یسوع نے اُن سے کہا: ”کشتی کی دائیں طرف جال ڈالیں تو آپ کو ضرور کچھ ملے گا۔“ اُنہوں نے جال ڈالا اور اُن کے ہاتھ اِتنی مچھلیاں لگیں کہ جال کو اُوپر لانا مشکل ہو گیا۔ 7 اِس پر اُس شاگرد نے جس سے یسوع بہت پیار کرتے تھے، پطرس سے کہا: ”یہ تو ہمارے مالک ہیں۔“ یہ سُن کر پطرس نے اپنا کُرتا پہنا کیونکہ وہ ننگے تھے اور جھیل میں کود پڑے۔ 8 لیکن باقی شاگرد چھوٹی کشتی میں اُن کے پیچھے گئے۔ وہ مچھلیوں سے بھرے جال کو کھینچتے ہوئے کنارے تک لائے کیونکہ وہ کنارے سے زیادہ دُور نہیں تھے بلکہ تقریباً 300 فٹ دُور تھے۔ 9 جب وہ کنارے پر پہنچے تو اُنہوں نے دیکھا کہ کوئلے دہک رہے ہیں اور اِن پر مچھلی اور روٹی رکھی ہے۔ 10 یسوع نے اُن سے کہا: ”جو مچھلیاں آپ نے ابھی پکڑی ہیں، اُن میں سے کچھ لائیں۔“ 11 لہٰذا شمعون پطرس کشتی پر گئے اور جال کو کھینچ کر خشکی پر لائے جو 153 (ایک سو ترپن) بڑی مچھلیوں سے بھرا تھا۔ حالانکہ اُس میں اِتنی ساری مچھلیاں تھیں لیکن پھر بھی وہ پھٹا نہیں۔ 12 یسوع نے اُن سب سے کہا: ”آئیں، ناشتہ کر لیں۔“ شاگردوں میں سے کسی میں اِتنی ہمت نہیں تھی کہ اُن سے پوچھے کہ ”آپ کون ہیں؟“ کیونکہ وہ سب جانتے تھے کہ یہ مالک ہیں۔ 13پہلے یسوع نے روٹی لی اور اُنہیں دی۔ پھر اُنہوں نے اُن کو مچھلی دی۔ 14 جب سے یسوع مُردوں میں سے زندہ ہوئے تھے، یہ تیسری بار تھا کہ وہ اپنے شاگردوں پر ظاہر ہوئے۔
(یوحنا 21:15-19) جب اُن سب نے ناشتہ کر لیا تو یسوع نے شمعون پطرس سے پوچھا: ”یوحنا کے بیٹے شمعون، کیا آپ اِن سے زیادہ مجھ سے پیار کرتے ہیں؟“ اُنہوں نے جواب دیا: ”جی مالک، آپ جانتے ہیں کہ مَیں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں۔“ یسوع نے اُن سے کہا: ”میرے میمنوں کو چرائیں۔“ 16 یسوع نے دوسری بار اُن سے پوچھا: ”یوحنا کے بیٹے شمعون، کیا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں؟“ اُنہوں نے جواب دیا: ”جی مالک، آپ جانتے ہیں کہ مَیں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں۔“ یسوع نے اُن سے کہا: ”میری چھوٹی بھیڑوں کی گلّہبانی کریں۔“ 17 پھر اُنہوں نے تیسری بار اُن سے پوچھا: ”یوحنا کے بیٹے شمعون، کیا آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں؟“ پطرس کو اِس بات پر دُکھ ہوا کہ یسوع نے تیسری بار پوچھا ہے کہ ”کیا آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں؟“ اِس لیے اُنہوں نے جواب دیا: ”مالک، آپ تو سب کچھ جانتے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے کہ مَیں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں۔“ یسوع نے اُن سے کہا: ”میری چھوٹی بھیڑوں کو چرائیں۔ 18 مَیں آپ سے بالکل سچ کہتا ہوں کہ جب آپ جوان تھے تو آپ خود اپنے کپڑے پہنتے تھے اور اپنی مرضی سے اِدھر اُدھر جاتے تھے۔ لیکن جب آپ بوڑھے ہوں گے تو آپ اپنے ہاتھ آگے کریں گے اور کوئی اَور آپ کو کپڑے پہنائے گا اور آپ کو اُٹھا کر وہاں لے جائے گا جہاں آپ نہیں جانا چاہیں گے۔“ 19 اِس بات سے یسوع نے اِشارہ دیا کہ پطرس کس طرح کی موت مر کر خدا کی بڑائی کریں گے۔ اِس کے بعد یسوع نے اُن سے کہا: ”میری پیروی کرتے رہیں۔“
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں یوحنا 21:15، 17 پر اِضافی معلومات
یسوع نے شمعون پطرس سے پوچھا: یسوع مسیح اور پطرس کے درمیان یہ باتچیت اُس واقعے کے تھوڑے ہی عرصے بعد ہوئی جب پطرس نے تین دفعہ یسوع مسیح کو جاننے سے اِنکار کِیا تھا۔ یسوع مسیح نے اپنے بارے میں پطرس کے احساسات جاننے کے لیے اُن سے تین سوال پوچھے، یہاں تک کہ ”پطرس کو اِس بات پر دُکھ ہوا۔“ (یوح 21:17) یوحنا 21:15-17 میں دو مختلف یونانی فعل ”آگاپاؤ“ اور ”فیلیو“ اِستعمال ہوئے ہیں اور اُردو میں اِن دونوں کا ترجمہ پیار یا محبت کِیا گیا ہے۔ یسوع مسیح نے تین مرتبہ پطرس سے پوچھا کہ آیا وہ اُن سے پیار کرتے ہیں۔ اور پطرس نے ہر مرتبہ اُنہیں یقین دِلایا کہ وہ اُن سے پیار کرتے ہیں۔ یسوع مسیح نے اِس بات پر زور دیا کہ اُن سے پیار کرنے کی وجہ سے پطرس کو یہ ترغیب ملنی چاہیے کہ وہ اُن کے میمنوں یا ”چھوٹی بھیڑوں“ یعنی اُن کے شاگردوں کو روحانی لحاظ سے چرائیں اور اُن کی گلّہبانی کریں۔ (یوح 21:16، 17؛ 1-پطر 5:1-3) یسوع مسیح نے تین مرتبہ پطرس کو اپنی محبت کا اِقرار کرنے دیا اور پھر اُنہیں اپنی بھیڑوں کی دیکھبھال کرنے کی ذمےداری سونپی۔ اِس طرح یسوع مسیح نے ظاہر کِیا کہ اُنہوں نے پطرس کو اِس بات کے لیے معاف کر دیا ہے کہ اُنہوں نے تین بار اُنہیں جاننے سے اِنکار کِیا تھا۔
کیا آپ اِن سے زیادہ مجھ سے پیار کرتے ہیں؟: گرامر کے قواعد کے حساب سے اِصطلاح ”اِن سے زیادہ“ کے فرق فرق مطلب ہو سکتے ہیں۔ کچھ عالموں کا کہنا ہے کہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ”کیا آپ اِن شاگردوں کی نسبت مجھ سے زیادہ پیار کرتے ہیں؟“ یا ”کیا آپ اِن شاگردوں سے زیادہ مجھ سے پیار کرتے ہیں؟“ لیکن اِس کا مطلب غالباً یہ ہے کہ ”کیا آپ اِن چیزوں (یعنی اِن مچھلیوں یا مچھلیوں کے کاروبار سے متعلقہ چیزوں) سے زیادہ مجھ سے پیار کرتے ہیں؟“ لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ اِس آیت میں یہ خیال پیش کِیا گیا ہے کہ ”کیا آپ اِن چیزوں یا کاموں سے زیادہ مجھ سے پیار کرتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو میرے میمنوں کو چرائیں۔“ پطرس کے ماضی کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو یسوع مسیح کا سوال بالکل مناسب تھا۔ حالانکہ پطرس یسوع کے اِبتدائی شاگردوں میں سے ایک تھے (یوح 1:35-42) لیکن اُنہوں نے فوراً کُلوقتی طور پر یسوع کی پیروی شروع نہیں کی۔ اِس کی بجائے وہ دوبارہ مچھلیاں پکڑنے میں لگ گئے۔ اِس کے کچھ مہینے بعد یسوع نے پطرس کو مچھلیاں پکڑنے کا کاروبار چھوڑ کر ”ایک اَور طرح کا مچھیرا“ بننے یعنی مچھلیوں کی بجائے ”اِنسانوں کو جمع“ کرنے کو کہا۔ (متی 4:18-20؛ لُو 5:1-11) یسوع کی موت کے تھوڑے عرصے بعد پطرس نے پھر سے کہا کہ وہ مچھلیاں پکڑنے جا رہے ہیں اور دوسرے رسولوں نے بھی اُن کا ساتھ دیا۔ (یوح 21:2، 3) لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ یہاں یسوع پطرس کو یہ احساس دِلا رہے تھے کہ اُنہیں سمجھداری سے فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنے کاروبار کو یعنی اپنے سامنے لگے مچھلیوں کے ڈھیر کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دیں گے یا یسوع کے میمنوں یعنی پیروکاروں کو روحانی کھانا کھلانے کے کام کو۔—یوح 21:4-8۔
تیسری بار: پطرس نے تین بار اپنے مالک کو جاننے سے اِنکار کِیا تھا۔ لیکن اب یسوع اُنہیں موقع دے رہے تھے کہ وہ اُن کے لیے اپنے احساسات کا اِقرار کریں۔ جب پطرس نے ایسا کِیا تو یسوع نے اُنہیں بتایا کہ وہ خدا کی خدمت کو سب سے زیادہ اہمیت دینے سے اپنے پیار کا اِظہار کریں۔ پطرس کو باقی ذمےدار رسولوں کے ساتھ مل کر مسیح کے گلّے یعنی اُن کے وفادار پیروکاروں کو کھانا فراہم کرنا تھا، اُنہیں مضبوط کرنا تھا اور اُن کی گلّہبانی کرنی تھی۔ یہ پیروکار مسحشُدہ تھے لیکن پھر بھی اُنہیں روحانی کھانے کی ضرورت تھی۔—لُو 22:32۔
سنہری باتوں کی تلاش
(یوحنا 20:17) یسوع نے اُن سے کہا: ”مجھے پکڑ کر نہ رکھیں۔ ابھی تو مَیں باپ کے پاس نہیں گیا۔ لیکن میرے بھائیوں کے پاس جائیں اور اُنہیں بتائیں کہ ”مَیں اپنے اور آپ کے باپ اور اپنے اور آپ کے خدا کے پاس جا رہا ہوں۔““
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں یوحنا 20:17 پر اِضافی معلومات
مجھے پکڑ کر نہ رکھیں: یونانی فعل ”ہپتومائی“ کا مطلب ”چُھونا“ یا ”پکڑنا؛ تھامنا“ ہو سکتا ہے۔ کچھ ترجموں میں یسوع کے الفاظ کا ترجمہ یوں کِیا گیا ہے: ”مجھے نہ چُھو۔“ لیکن یسوع مسیح اِس بات پر اِعتراض نہیں کر رہے تھے کہ مریم مگدلینی نے اُنہیں چُھوا ہے کیونکہ اُنہوں نے اُس وقت کوئی اِعتراض نہیں کِیا تھا جب اُن کے جی اُٹھنے کے بعد عورتیں ”اُن کے قدموں پر گِر گئیں۔“ (متی 28:9) ایسا لگتا ہے کہ مریم مگدلینی کو یہ ڈر تھا کہ یسوع تھوڑی دیر میں آسمان پر چلے جائیں گے۔ مریم نے اپنے مالک یسوع کے ساتھ رہنے کی شدید خواہش کی وجہ سے اُنہیں اِتنی مضبوطی سے پکڑ لیا کہ وہ جا نہ سکیں۔ یسوع نے مریم کو یقین دِلانے کے لیے کہ وہ ابھی نہیں جا رہے، اُنہیں ہدایت کی کہ وہ اُنہیں پکڑ کر رکھنے کی بجائے اُن کے شاگردوں کے پاس جا کر اُنہیں بتائیں کہ وہ جی اُٹھے ہیں۔
(یوحنا 20:28) توما نے اُن سے کہا: ”میرے مالک اور میرے خدا!“
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں یوحنا 20:28 پر اِضافی معلومات
میرے مالک اور میرے خدا!: کچھ عالموں کا خیال ہے کہ یہ بات حیرانی کا اِظہار کرنے کے لیے یسوع سے کہی گئی لیکن اصل میں خدا کو یعنی یسوع کے باپ کو مخاطب کِیا گیا۔ اِس کے برعکس کئی عالموں کا دعویٰ ہے کہ یونانی متن کے مطابق اِن الفاظ کو یسوع پر لاگو کِیا جانا چاہئے۔ اگر ایسا ہے بھی تو اِصطلاح ”میرے مالک اور میرے خدا“ کے مقصد کو سمجھنے کے لیے باقی آیتوں کے سیاقوسباق پر غور کرنا ضروری ہے۔ چونکہ توما کی اِس بات سے پہلے یسوع نے اپنے شاگردوں کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ ”مَیں اپنے اور آپ کے باپ اور اپنے اور آپ کے خدا کے پاس جا رہا ہوں“ اِس لیے یہ ماننا مناسب نہیں ہوگا کہ توما یسوع کو لامحدود قدرت کا مالک خدا خیال کر رہے تھے۔ (یوح 20:17) توما نے یسوع کو اپنے ”باپ“ سے دُعا کرتے اور اُسے ’واحد اور سچا خدا‘ کہتے سنا تھا۔ (یوح 17:1-3) لہٰذا شاید توما نے اِن وجوہات کی بِنا پر یسوع کو ”میرے خدا“ کہا: اُنہوں نے یسوع کو ”ایک خدا“ تو خیال کِیا لیکن لامحدود قدرت والا خدا نہیں۔ (یوحنا 1:1 پر اِضافی معلومات کو دیکھیں۔) یا شاید توما نے یسوع کو اُسی طرح مخاطب کِیا جیسے عبرانی صحیفوں میں خدا کے بندوں نے اُن فرشتوں کو مخاطب کِیا جو یہوواہ کا پیغام لائے۔ توما یقیناً اُن واقعات سے واقف تھے جن میں لوگوں یا کبھی کبھار بائبل لکھنے والوں نے یہوواہ کا پیغام لانے والے فرشتے سے ایسے بات کی گویا وہ یہوواہ خدا ہو۔ (پیدایش 16:7-11، 13؛ 18:1-5، 22-33؛ 32:24-30 اور قضاۃ 6:11-15؛ 13:20-22 پر غور کریں۔) لہٰذا توما نے شاید یسوع کو اِس سوچ سے ”میرے خدا“ کہا ہو کہ اِس طرح وہ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ یسوع سچے خدا کے ترجمان اور پیغمبر ہیں۔
12-18 نومبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | اعمال 1-3
”مسیحی کلیسیا پر پاک روح نازل ہوئی“
(اعمال 2:1-8) عیدِپنتِکُست پر سب شاگرد ایک جگہ جمع تھے۔ 2 اچانک آسمان سے ایک آواز آئی جو بالکل ویسی تھی جیسی تیز ہوا کی ہوتی ہے اور اِس سے وہ گھر گونج اُٹھا جہاں وہ بیٹھے تھے۔ 3 اور اُنہیں آگ کے شعلوں جیسا کچھ دِکھائی دیا جو الگ الگ ہو کر اُن میں سے ہر ایک پر ٹھہر گیا۔ 4 وہ سب پاک روح سے معمور ہو گئے اور فرق فرق زبانیں بولنے لگے جیسے پاک روح نے اُنہیں توفیق دی۔ 5 اُس وقت یروشلیم میں زمین کے کونے کونے سے خداپرست یہودی آئے ہوئے تھے۔ 6 جب یہ آواز سنائی دی تو بہت سے لوگ جمع ہو گئے اور اُلجھن میں پڑ گئے کیونکہ شاگرد اُن سب کی زبانیں بول رہے تھے۔ 7 وہ حیران تھے اور کہہ رہے تھے: ”یہ لوگ تو گلیلی ہیں۔ 8 تو پھر یہ ہماری زبانیں کیسے بول سکتے ہیں؟
(اعمال 2:14) اِس پر پطرس 11 رسولوں کے ساتھ کھڑے ہوئے اور بلند آواز میں کہا: ”یہودیہ اور یروشلیم کے لوگو، میری باتیں دھیان سے سنیں۔
(اعمال 2:37، 38) یہ سب باتیں لوگوں کے دل کو لگیں اور اُنہوں نے پطرس اور دوسرے رسولوں سے کہا: ”بھائیو، بتائیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟“ 38 پطرس نے کہا: ”توبہ کریں اور آپ میں سے ہر ایک یسوع مسیح کے نام سے بپتسمہ لے تاکہ آپ کے گُناہ معاف ہو جائیں۔ پھر آپ کو پاک روح کی نعمت ملے گی۔
(اعمال 2:41) جن لوگوں نے خوشی سے اِس پیغام کو قبول کِیا، اُنہوں نے بپتسمہ لے لیا۔ اُس دن تقریباً 3000 لوگ شاگردوں میں شامل ہوئے۔
(اعمال 2:42-47) اور وہ رسولوں سے تعلیم پاتے، ایک دوسرے سے ملتے جلتے، مل کر کھانا کھاتے اور دُعا کرتے تھے۔ 43 اور سب لوگوں پر خوف چھا گیا کیونکہ رسول بہت سے معجزے اور نشانیاں دِکھانے لگے۔ 44 جو لوگ ایمان لائے، وہ سب ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہوتے تھے اور اپنی چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ بانٹتے تھے۔ 45 وہ اپنی جائیداد اور زمینیں بیچ کر رقم ہر ایک کی ضرورت کے مطابق تقسیم کرتے تھے۔ 46 اور وہ ہر روز ہیکل میں جمع ہوتے تھے اور کھانا کھانے کے لیے ایک دوسرے کے گھر جاتے تھے اور اپنا کھانا پورے خلوص اور خوشی سے دوسروں کے ساتھ بانٹتے تھے۔ 47 وہ خدا کی بڑائی کرتے تھے اور لوگوں کی نظر میں نیک نام تھے۔ اور یہوواہ نجات پانے والے لوگوں کی تعداد میں روزبروز اِضافہ کر رہا تھا۔
ڈبلیو86 1/12 ص. 29 پ. 4، 5، 7
خوشی کا باعث بننے والے عطیات
سن 33 عیسوی میں جس دن مسیحی کلیسیا کا آغاز ہوا، اُس دن 3000 سے زیادہ نئے بپتسمہیافتہ لوگوں نے ایک دوسرے کے ساتھ ’مل کر کھانا کھایا اور دُعا کی۔‘ اُنہوں نے ایسا اِس لیے کِیا تاکہ وہ ”رسولوں سے تعلیم پاتے“ رہیں اور یوں اپنے نئے نئے ایمان کو مضبوط کر سکیں۔—اعمال 2:41، 42۔
پیدائشی یہودی اور یہودی مذہب اپنانے والے لوگ صرف عیدِپنتِکُست منانے کے لیے یروشلیم آئے تھے۔ لیکن اِن میں سے جو لوگ مسیحی بن گئے، وہ کچھ عرصہ اَور یروشلیم میں رُکنا چاہتے تھے تاکہ وہ اپنے نئے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے اِس کے بارے میں مزید سیکھ سکیں۔ اِس وجہ سے اچانک سے اُن کے کھانے پینے اور ٹھہرنے کا اِنتظام کرنے کا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ اِن میں سے کچھ کے پاس اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے کافی رقم نہیں تھی جبکہ کچھ کے پاس اِضافی رقم تھی۔ اِس لیے عارضی طور پر عطیات جمع کیے گئے اور ضرورتمندوں کو دیے گئے۔—اعمال 2:43-47۔
مسیحی اپنی مرضی سے اپنی جائیداد کو بیچنے اور دوسروں کے ساتھ اپنی چیزیں بانٹنے کا فیصلہ کر سکتے تھے۔ کسی کو بھی اپنی چیزیں بیچنے یا عطیات دینے کے لیے مجبور نہیں کِیا گیا اور نہ ہی غربت کو بڑھاوا دینے کے لیے ایسا کِیا گیا۔ یہاں یہ خیال پیش نہیں کِیا گیا کہ کلیسیا کے امیر ارکان اپنا سب کچھ بیچ کر غریب بن جائیں۔ اِس کی بجائے اُنہوں نے اُس وقت کی صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنے ہمایمانوں سے ہمدردی کی بِنا پر اپنی جائیدادیں بیچیں اور رقم عطیے کے طور پر دے دی تاکہ بادشاہت کے پیغام کو فروغ ملے۔—2-کُرنتھیوں 8:12-15 پر غور کریں۔
پاک کلام سے سنہری باتیں
(اعمال 3:15) اور یوں زندگی کے عظیم پیشوا کو مار ڈالا۔ لیکن خدا نے اُسے زندہ کِیا اور ہم اِس بات کے گواہ ہیں۔
آئیٹی-2 ص. 61 پ. 1
یسوع مسیح
”زندگی کے عظیم پیشوا۔“ یسوع مسیح نے اپنے باپ کی عظیم رحمت کے اِظہار میں اپنی بےعیب زندگی قربان کر دی۔ اِس طرح یہ ممکن ہوا کہ مسیح کے چُنے ہوئے پیروکار آسمان پر جا کر اُن کے ساتھ حکمرانی کریں۔ اِسی کے ذریعے یہ بھی ممکن ہوا کہ لوگ اُن کی بادشاہت کی رعایا کے طور پر زمین پر رہیں۔ (متی 6:10؛ یوح 3:16؛ اِفس 1:7؛ عبر 2:5) یوں وہ تمام اِنسانوں کے لیے ”زندگی کے عظیم پیشوا [”مالک،“ اُردو ریوائزڈ ورشن؛ نیو اُردو بائبل ورشن]“ بن گئے۔ (اعما 3:15) یہاں جو یونانی اِصطلاح اِستعمال ہوئی ہے، اُس کا بنیادی مطلب ”عظیم پیشوا“ ہی ہے اور اِس سے ملتا جلتا لفظ اِسرائیل کے ”حاکم“ کے طور پر موسیٰ (اعما 7:27، 35) کے لیے بھی اِستعمال ہوا ہے۔
(اعمال 3:19) لہٰذا توبہ کریں اور اپنی روِش بدلیں تاکہ آپ کے گُناہ مٹائے جائیں اور یہوواہ کی طرف سے تازگی کے دن آئیں
سیایل ص. 265 پ. 14
”معاف کرنے کو تیار“ خدا
یہوواہ خدا کے معاف کرنے کے بارے میں اعمال 3:19 میں لکھا ہے: ”لہٰذا توبہ کریں اور اپنی روِش بدلیں تاکہ آپ کے گُناہ مٹائے جائیں۔“ اصلی متن میں اِس آیت کے آخری حصے میں جو یونانی فعل اِستعمال ہوا ہے، اُس کا مطلب ”مٹانا . . . ختم کرنا یا تباہ کرنا“ ہو سکتا ہے۔ کچھ عالموں کے مطابق یہاں کسی لکھائی کو مٹانے کی تصویر پیش کی گئی ہے۔ یہ کیسے ممکن تھا؟ قدیم زمانے میں عام طور پر جو سیاہی اِستعمال ہوتی تھی، وہ کاربن، گوند اور پانی کا مُرکب ہوتی تھی۔ اِس سیاہی سے لکھنے کے فوراً بعد گیلے سپنج سے لکھائی کو مٹایا جا سکتا تھا۔ یہوواہ کے رحم کو ظاہر کرنے کے لیے یہ بڑی خوبصورت تصویر ہے۔ جب وہ ہمارے گُناہوں کو معاف کرتا ہے تو گویا وہ ایک سپنج کے ذریعے اِنہیں مٹا دیتا ہے۔
شاگرد بنانے کی تربیت
آئیٹی-1 ص. 129 پ. 2، 3
رسول
یہوداہ اِسکریوتی نے یسوع سے بےوفائی کی اور اِسی حالت میں مر گیا جس کی وجہ سے صرف 11 رسول باقی رہ گئے۔ یسوع نے اپنے جی اُٹھنے سے لے کر آسمان پر جانے تک یعنی 40 دن تک کسی کو یہوداہ کی جگہ رسول مقرر نہیں کِیا۔ لیکن یسوع کے آسمان پر جانے اور عیدِپنتِکُست کے درمیان کے دس دنوں کے دوران کسی وقت یہ ضروری سمجھا گیا کہ یہوداہ کی جگہ کسی اَور کو مقرر کِیا جائے، صرف اِس لیے نہیں کہ وہ فوت ہو گیا تھا بلکہ اِس لیے کہ اُس نے بےوفائی کی جیسے کہ پطرس نے زبور کی کتاب سے اِقتباس دے کر واضح کِیا۔ (اعما 1:15-22؛ زبور 69:25؛ 109:8؛ مکاشفہ 3:11 پر غور کریں۔) اِس کے برعکس اِس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ جب وفادار رسول یعقوب کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تو اُن کی جگہ کسی اَور کو رسول مقرر کرنے کے بارے میں سوچا گیا۔—اعما 12:2۔
پطرس کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت اِس بات پر غور کِیا گیا کہ یسوع کے رسولوں میں شامل ہونے کے لیے لازمی تھا کہ جس شخص کو مقرر کِیا جائے، وہ یسوع مسیح سے ذاتی طور پر واقف ہو اور اُن کے کاموں، معجزوں اور خاص طور پر اُن کے جی اُٹھنے کا عینی شاہد ہو۔ لہٰذا یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کسی ایسے شخص کو رسول مقرر کرنا ناممکن ہو جاتا جو اِن شرائط پر پورا اُترتا ہو بشرطیکہ خدا کوئی معجزہ کر کے کسی شخص کو اِس قابل نہ بناتا۔ لیکن عیدِپنتِکُست سے پہلے جب بےوفا رسول یہوداہ کی جگہ کسی کو چُننے کی بات آئی تو کئی ایسے آدمی موجود تھے جو اِن شرائط پر پورا اُترتے تھے۔ اِنہی میں سے دو کے نام یہوداہ کی جگہ رسول بننے کے لیے پیش کیے گئے۔ بےشک امثال 16:33 کو ذہن میں رکھتے ہوئے قُرعہ ڈالا گیا اور متیاہ کو چُنا گیا اور اِس کے بعد وہ ”12 رسولوں میں شمار ہوئے۔“ (اعما 1:23-26) لہٰذا متیاہ اُن ”12 رسولوں“ میں شامل تھے جنہوں نے یونانی بولنے والے شاگردوں کا مسئلہ حل کِیا (اعما 6:1، 2) اور پولُس نے بھی اُس وقت اُنہیں ”12 رسولوں“ میں شمار کِیا جب اُنہوں نے 1-کُرنتھیوں 15:4-8 میں اِس بات کا ذکر کِیا کہ یسوع جی اُٹھنے کے بعد لوگوں کو دِکھائی دیتے رہے۔ لہٰذا جب عیدِپنتِکُست آئی تو 12 رسول وہ بنیاد تھے جس پر اُس وقت قائمکردہ روحانی اِسرائیل کو کھڑا کِیا جا سکتا تھا۔
19-25 نومبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | اعمال 4، 5
”وہ دلیری سے خدا کا کلام سناتے رہے“
(اعمال 4:5-13) اگلے دن یہودیوں کے حاکم، بزرگ اور شریعت کے عالم یروشلیم میں جمع ہوئے۔ 6 اُن کے ساتھ کائفا، یوحنا، سکندر، اعلیٰ کاہن حنّا اور اُس کے رشتےدار بھی تھے۔ 7 اُنہوں نے پطرس اور یوحنا کو اپنے بیچ کھڑا کِیا اور اُن سے پوچھا: ”تُم یہ کام کس کے نام سے کرتے ہو؟ تمہیں کس نے یہ اِختیار دیا ہے؟“ 8 پطرس نے پاک روح سے معمور ہو کر جواب دیا: ”قوم کے حاکمو اور بزرگو، 9 آج ہم سے اِس لیے پوچھگچھ کی جا رہی ہے کیونکہ ہم نے ایک لنگڑے آدمی کے ساتھ بھلائی کی۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ اِس آدمی کو کس نے ٹھیک کِیا 10 تو آپ لوگ اور باقی تمام اِسرائیلی یہ جان لیں کہ یہ آدمی ناصرت کے یسوع مسیح کے نام سے آپ کے سامنے بالکل تندرست کھڑا ہے۔ ہاں، اُسی یسوع کے نام سے جسے آپ نے سُولی دی لیکن جسے خدا نے مُردوں میں سے زندہ کِیا۔ 11 وہی وہ ”پتھر ہے جس کو مزدوروں نے یعنی آپ نے ٹھکرا دیا لیکن وہ کونے کا سب سے اہم پتھر بن گیا۔“ 12 دراصل کسی اَور کے ذریعے نجات ممکن نہیں کیونکہ خدا نے زمین پر کوئی اَور نام نہیں چُنا جس کے ذریعے ہمیں نجات ملے۔“ 13 جب اُن لوگوں نے دیکھا کہ پطرس اور یوحنا اِتنی دلیری سے بات کر رہے ہیں حالانکہ وہ کم پڑھے لکھے اور معمولی آدمی ہیں تو وہ دنگ رہ گئے اور اُنہیں اندازہ ہو گیا کہ وہ دونوں یسوع کے ساتھ ہوتے تھے۔
ڈبلیو08 1/9 ص. 15 پر بکس
یونانی صحیفوں کی تحریر
کیا رسول اَنپڑھ تھے؟
جب یروشلیم کے حاکموں اور بزرگوں نے ”پطرؔس اور یوؔحنا کی دلیری دیکھی اور معلوم کِیا کہ یہ اَنپڑھ اور ناواقف آدمی ہیں تو تعجب کِیا۔“ (اعمال 4:13) کیا رسول واقعی کم پڑھے لکھے یا اَنپڑھ تھے؟ اِس بیان کے حوالے سے ”دی نیو اِنٹرپریٹر بائبل“ میں بتایا گیا ہے کہ ”شاید اِن اِصطلاحوں کا مطلب یہ نہیں نکالنا چاہیے کہ پطرس [اور یوحنا] نے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور وہ پڑھ لکھ نہیں سکتے تھے۔ دراصل وہ لوگ تختِعدالت پر بیٹھے اشخاص اور رسولوں کے درمیان پائے جانے والے نمایاں سماجی فرق کی طرف اِشارہ کر رہے تھے۔“
م08 15/5 ص. 31 پ. 1
اعمال کی کتاب سے اہم نکات
4:13—کیا پطرس اور یوحنا واقعی اَنپڑھ تھے؟ جینہیں۔ اُنہیں اس لئے ”اَنپڑھ اور ناواقف آدمی“ کہا گیا کیونکہ اُنہوں نے ربّیوں کے مدرسوں میں مذہبی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔
(اعمال 4:18-20) اِس کے بعد اُنہوں نے اُن دونوں کو بلایا اور حکم دیا کہ وہ یسوع کے نام سے نہ تو تعلیم دیں اور نہ ہی کوئی اَور بات کہیں۔ 19 لیکن پطرس اور یوحنا نے جواب دیا: ”اگر آپ سمجھتے ہیں کہ خدا کی نظر میں یہ مناسب ہے کہ ہم اُس کی بات ماننے کی بجائے آپ کی بات مانیں تو یہ آپ کی رائے ہے۔ 20 لیکن جہاں تک ہمارا تعلق ہے، ہم اُن باتوں کے بارے میں چپ نہیں رہ سکتے جو ہم نے دیکھی اور سنی ہیں۔“
(اعمال 4:23-31) رِہا ہونے کے بعد وہ دونوں دوسرے شاگردوں کے پاس گئے اور اُنہیں بتایا کہ اعلیٰ کاہنوں اور بزرگوں نے اُن سے کیا کہا ہے۔ 24 یہ سُن کر اُن سب نے یہ دُعا کی: ”اَے کائنات کے مالک، تُو ہی نے آسمان اور زمین اور سمندر اور اِن میں موجود سب چیزیں بنائی ہیں۔ 25 تُو ہی نے اپنے خادم اور ہمارے باپ داؤد کو پاک روح کے ذریعے یہ کہنے کی ترغیب دی کہ ”قومیں غصے میں کیوں آئیں اور لوگ فضول باتوں پر دھیان کیوں دینے لگے؟ 26 زمین کے بادشاہ مقابلے کے لیے تیار ہو گئے اور حکمران متحد ہو کر یہوواہ اور اُس کے مسیح کے خلاف جمع ہو گئے۔“ 27 اور ایسا ہی ہوا۔ ہیرودیس اور پُنطیُس پیلاطُس اور غیریہودی اور اِسرائیلی سب اِس شہر میں تیرے مُقدس خادم یسوع کے خلاف جسے تُو نے مسح کِیا تھا، جمع ہوئے 28 تاکہ وہ کام کریں جو تیری قدرت اور مرضی کے مطابق پہلے سے طے تھا۔ 29 اَے یہوواہ، اُن کی دھمکیوں پر توجہ دے اور اپنے غلاموں کو توفیق دے کہ دلیری سے تیرا کلام سناتے رہیں۔ 30 اَے خدا، اپنی قدرت کے ذریعے لوگوں کو شفا دے اور اپنے مُقدس خادم یسوع کے نام سے معجزے اور نشانیاں دِکھا جیسے تُو نے آج تک کِیا ہے۔“ 31 جب وہ یہ اِلتجا کر چکے تو وہ جگہ جہاں وہ جمع تھے، ہلنے لگی اور وہ سب کے سب پاک روح سے معمور ہو گئے اور دلیری سے خدا کا کلام سنانے لگے۔
آئیٹی-1 ص. 128 پ. 3
رسول
مسیحی کلیسیا میں کردار۔ عیدِپنتِکُست پر پاک روح نازل ہونے کے بعد رسولوں کو بڑی ہمت ملی۔ رسولوں کے اعمال کے پہلے پانچ ابواب سے اِس بات کی شہادت ملتی ہے کہ رسولوں نے حاکموں کی طرف سے قید، مارپیٹ اور موت کی دھمکیوں کے باوجود دلیری سے خوشخبری سنائی اور یسوع کے جی اُٹھنے کا اِعلان کِیا۔ عیدِپنتِکُست کے بعد کے چند دنوں میں رسولوں نے پاک روح کی مدد سے مسیحی کلیسیا کی زبردست پیشوائی کی جس کے نتیجے میں مسیحیوں کی تعداد میں حیرتانگیز اِضافہ ہوا۔ (اعما 2:41؛ 4:4) شروع شروع میں اُنہوں نے صرف یروشلیم میں مُنادی کی لیکن پھر وہ سامریہ اور آخرکار ”زمین کی اِنتہا“ تک گواہی دینے کے قابل ہوئے۔—اعما 5:42؛ 6:7؛ 8:5-17، 25؛ 1:8۔
پاک کلام سے سنہری باتیں
(اعمال 4:11) وہی وہ ”پتھر ہے جس کو مزدوروں نے یعنی آپ نے ٹھکرا دیا لیکن وہ کونے کا سب سے اہم پتھر بن گیا۔“
آئیٹی-1 ص. 514 پ. 4
کونے کا سب سے اہم پتھر
زبور 118:22 میں بتایا گیا ہے کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کِیا، وہ ”کونے کے سرے کا پتھر“ بن جائے گا۔ (عبرانی لفظ، ”روش پناِہ“) یسوع مسیح نے اِس پیشگوئی کو دُہرایا اور اِسے اپنے اُوپر لاگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ’کونے کے سب سے اہم پتھر‘ (یونانی لفظ، ”کیفالے گونیاس“ یعنی کونے کا سر) ہیں۔ (متی 21:42؛ مر 12:10، 11؛ لُو 20:17) جس طرح عمارت کا بنیادی پتھر سب سے اہم ہوتا ہے اُسی طرح یسوع مسیح مسحشُدہ مسیحیوں کی کلیسیا کے جسے روحانی ہیکل سے تشبیہ دی گئی ہے، بنیادی پتھر ہیں۔ پطرس نے بھی زبور 118:22 میں درج پیشگوئی کو یسوع مسیح پر لاگو کرتے ہوئے کہا کہ یسوع ہی وہ ”پتھر“ ہیں جسے اِنسانوں نے ٹھکرا دیا لیکن خدا نے اُسے ”کونے کا سب سے اہم پتھر“ بننے کے لیے چُنا۔—اعما 4:8-12؛ 1-پطرس 2:4-7 کو بھی دیکھیں۔
(اعمال 5:1) اور ایک آدمی حننیاہ اور اُس کی بیوی سفیرہ نے بھی کچھ زمین بیچی۔
م13 1/4 ص. 15 پ. 3
پطرس اور حننیاہ نے جھوٹ بولا—ہم اُن سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
حننیاہ اور سفیرہ نے بھی اپنی کچھ جائیداد بیچ دی تاکہ وہ اِن پیسوں سے نئے شاگردوں کی مدد کر سکیں۔ جب حننیاہ رسولوں کے پاس پیسے لے کر آئے تو اُنہوں نے رسولوں کو بتایا کہ وہ سارے پیسے دے رہے ہیں۔ لیکن یہ سچ نہیں تھا۔ اُنہوں نے کچھ پیسے اپنے پاس رکھ لئے تھے۔ خدا نے پطرس کو یہ بات بتا دی تھی۔ اِس لئے پطرس نے حننیاہ سے کہا: ’تُم نے آدمیوں سے نہیں بلکہ خدا سے جھوٹ بولا ہے۔‘ یہ سُن کر حننیاہ زمین پر گِر گئے اور مر گئے۔ پھر تقریباً تین گھنٹے بعد حننیاہ کی بیوی بھی رسولوں کے پاس گئیں۔ وہ نہیں جانتی تھیں کہ اُن کے شوہر کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ اُنہوں نے بھی رسولوں سے جھوٹ بولا۔ اِس لئے وہ بھی اُسی وقت مر گئیں۔
26 نومبر–2 دسمبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | اعمال 6-8
”نئی مسیحی کلیسیا کا اِمتحان ہوا“
(اعمال 6:1) اُن دنوں میں جب شاگردوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی تو یونانی بولنے والے یہودی عبرانی بولنے والے یہودیوں کے خلاف شکایت کرنے لگے کیونکہ ہر روز جب کھانا تقسیم ہوتا تھا تو اُن کی بیواؤں کو نظرانداز کِیا جاتا تھا۔
بیٹی ص. 41 پ. 17
ہمارے لیے خدا کا کہنا ماننا زیادہ ضروری ہے
17 ابھی ابھی وجود میں آنے والی کلیسیا کو اب ایک ایسے خفیہ خطرے کا سامنا تھا جو کلیسیا کے اندر ہی پیدا ہو رہا تھا۔ یہ کون سا خطرہ تھا؟ بپتسمہ لینے والے بہت سے شاگرد یروشلیم میں مہمان تھے اور وہ اپنے گھروں کو لوٹنے سے پہلے خدا کے کلام کے بارے میں مزید سیکھنا چاہتے تھے۔ یروشلیم میں رہنے والے شاگردوں نے اپنی خوشی سے اِن لوگوں کے کھانے پینے اور دیگر چیزیں کا اِنتظام کرنے کے لیے عطیات دیے۔ (اعمال 2:44-46؛ 4:34-37) اُس وقت ایک اِنتہائی نازک صورتحال پیدا ہو گئی۔ ”ہر روز جب کھانا تقسیم ہوتا تھا“ تو یونانی بولنے والی بیواؤں کو ”نظرانداز کِیا جاتا تھا۔“ (اعمال 6:1) لیکن عبرانی بولنے والی بیواؤں کو نظرانداز نہیں کِیا جاتا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ یونانی بولنے والی بیواؤں سے اِمتیازی سلوک برتا جا رہا تھا۔ یہ اُن چند مسئلوں میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے کلیسیا کا اِتحاد داؤ پر لگ سکتا ہے۔
(اعمال 6:2-7) اِس لیے 12 رسولوں نے تمام شاگردوں کو اِکٹھا کِیا اور اُن سے کہا: ”یہ مناسب نہیں کہ ہم خدا کے کلام کی تعلیم دینا چھوڑ کر کھانا تقسیم کرنے لگیں۔ 3 اِس لیے بھائیو، اپنے درمیان سے سات نیک نام آدمیوں کو چُن لیں جو پاک روح اور دانشمندی سے معمور ہوں تاکہ ہم اُنہیں اِس ضروری کام کے لیے مقرر کریں 4 جبکہ ہم دُعا کرنے اور خدا کے کلام کی تعلیم دینے میں مشغول رہیں۔“ 5 یہ بات شاگردوں کو پسند آئی اور اُنہوں نے اِن آدمیوں کو چُنا: ستفنُس جو مضبوط ایمان کے مالک اور پاک روح سے معمور تھے؛ انطاکیہ کے نیکلاؤس جنہوں نے یہودی مذہب اپنایا تھا؛ فِلپّس؛ پروخورُس؛ نیکانور؛ تیمون اور پرمِناس۔ 6 پھر وہ اِن آدمیوں کو رسولوں کے پاس لائے اور رسولوں نے دُعا کر کے اُن پر ہاتھ رکھے۔ 7 اِس کے نتیجے میں خدا کا کلام پھیلتا رہا اور یروشلیم میں شاگردوں کی تعداد میں بڑا اِضافہ ہوا یہاں تک کہ بہت سے کاہن بھی ایمان لے آئے۔
بیٹی ص. 42 پ. 18
ہمارے لیے خدا کا کہنا ماننا زیادہ ضروری ہے
18 رسولوں نے جو اُس وقت بڑھتی ہوئی کلیسیا کی گورننگ باڈی تھے، یہ پہچان لیا کہ یہ دانشمندی کی بات نہیں ہوگی کہ وہ ”خدا کے کلام کی تعلیم دینا چھوڑ کر کھانا تقسیم کرنے لگیں۔“ (اعمال 6:2) اِس معاملے کو حل کرنے کے لیے اُنہوں نے شاگردوں کو ہدایت کی کہ وہ سات ایسے آدمیوں کو تلاش کریں جو ”پاک روح اور دانشمندی سے معمور ہوں“ جنہیں رسول ”اِس ضروری کام کے لیے مقرر کریں۔“ (اعمال 6:3) اِس کام کے لیے تجربہکار آدمیوں کی ضرورت تھی کیونکہ اِس میں صرف کھانا تقسیم کرنا شامل نہیں تھا بلکہ پیسوں کو اِستعمال کرنا، چیزیں خریدنا اور حساب کتاب رکھنا بھی شامل تھا۔ شاگردوں نے جن آدمیوں کو چُنا، اُن سب کے یونانی نام تھے جس کی وجہ سے شاید اُن بیواؤں کو تسلی ملتی جنہیں ٹھیس پہنچی تھی۔ رسولوں نے کافی سوچ بچار اور دُعا کے بعد شاگردوں کے تجویزکردہ سات بھائیوں کو اِس ”ضروری کام“ کے لیے مقرر کِیا۔
(اعمال 7:58–8:1) پھر وہ اُنہیں شہر سے باہر لے گئے اور سنگسار کرنے لگے۔ ستفنُس کے خلاف گواہی دینے والوں نے اپنے کپڑے ایک جوان آدمی کے قدموں میں رکھے جس کا نام ساؤل تھا۔ 59 جب ستفنُس پر پتھر برسائے جا رہے تھے تو اُنہوں نے اِلتجا کی: ”مالک یسوع، مَیں اپنا دم آپ کے سپرد کرتا ہوں۔“ 60 پھر اُنہوں نے گھٹنے ٹیکے اور اُونچی آواز میں کہا: ”اَے یہوواہ، یہ گُناہ اِن لوگوں کے ذمے نہ لگا۔“ اِس کے بعد وہ موت کی نیند سو گئے۔
8 اور ساؤل، ستفنُس کے قتل پر خوش تھے۔ اُس دن سے یروشلیم کی کلیسیا کو بہت اذیت دی جانے لگی۔ اِس لیے رسولوں کے سوا باقی سب شاگرد یہودیہ اور سامریہ کے علاقوں میں چلے گئے۔
پاک کلام سے سنہری باتیں
(اعمال 6:15) جب اُن سب نے جو عدالتِعظمیٰ میں بیٹھے تھے، ستفنُس کی طرف دیکھا تو اُن کا چہرہ ایک فرشتے کے چہرے جیسا لگ رہا تھا۔
بیٹی ص. 45 پ. 2
ستفنُس کو خدا کی خوشنودی اور طاقت حاصل تھی
اِس موقعے پر ستفنُس کے چہرے کے تاثرات قابلِغور تھے۔ جب عدالتِعظمیٰ میں بیٹھے لوگوں نے ستفنُس کی طرف دیکھا تو اُن کا چہرہ ”ایک فرشتے کے چہرے جیسا لگ رہا تھا۔“ (اعمال 6:15) فرشتے یہوواہ خدا کی طرف سے پیغام لاتے تھے اِس لیے وہ نڈر، پُرسکون اور مطمئن ہوتے تھے۔ اِسی لیے ستفنُس بھی نڈر، پُرسکون اور مطمئن تھے اور یہ بات وہ منصف بھی دیکھ سکتے تھے جن کے دلوں میں نفرت بھری تھی۔ ستفنُس اِتنے پُرسکون کیسے ہو سکتے تھے؟
(اعمال 8:26-30) یہوواہ کے فرشتے نے فِلپّس سے کہا کہ ”اُٹھیں اور جنوب کی طرف اُس سڑک پر جائیں جو یروشلیم سے غزہ کو جاتی ہے۔“ (یہ سڑک ویرانے سے گزرتی ہے۔) 27 فِلپّس وہاں گئے اور اُنہوں نے ایک ایتھیوپیائی خواجہسرا کو دیکھا۔ وہ ایتھیوپیوں کی ملکہ یعنی کنداکے کا ایک اعلیٰ افسر تھا اور اُس کے سارے خزانے کا مختار تھا۔ وہ عبادت کرنے کے لیے یروشلیم گیا تھا 28 اور اب واپس جا رہا تھا۔ وہ اپنے رتھ پر بیٹھا اُونچی آواز میں یسعیاہ نبی کی کتاب پڑھ رہا تھا۔ 29 پاک روح نے فِلپّس سے کہا: ”اُس رتھ کے پاس جائیں۔“ 30 فِلپّس بھاگ کر اُس کے پاس گئے۔ اُنہوں نے سنا کہ خواجہسرا یسعیاہ نبی کی کتاب کو پڑھ رہا ہے۔ اُنہوں نے اُس سے پوچھا: ”کیا آپ اُن باتوں کو سمجھ رہے ہیں جو آپ پڑھ رہے ہیں؟“
بیٹی ص. 58 پ. 16
”یسوع کے بارے میں خوشخبری“ کا اِعلان
آجکل مسیحیوں کو ایک ایسا کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے جیسا فِلپّس نے کِیا تھا۔ عموماً وہ ایسے لوگوں کو بادشاہت کا پیغام سنانے کے قابل ہوتے ہیں جو اُنہیں مختلف موقعوں پر ملتے ہیں جیسے کہ سفر کے دوران۔ بہت سی صورتوں میں یہ بالکل واضح ہوتا ہے کہ کسی ایسے شخص سے ملاقات محض اِتفاق نہیں ہوتی جو سچے دل سے سچائی کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔ ہم ایسی ملاقاتوں کی توقع کر سکتے ہیں کیونکہ بائبل میں صاف بتایا گیا ہے کہ فرشتے مُنادی کے کام میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں تاکہ بادشاہت کا پیغام ”ہر قوم اور قبیلے اور زبان اور نسل“ تک پہنچے۔ (مکا 14:6) یسوع مسیح نے بھی پیشگوئی کی کہ فرشتے مُنادی کے کام میں ہماری رہنمائی کریں گے۔ اُنہوں نے گندم اور زہریلے پودوں والی مثال میں کہا کہ کٹائی یعنی دُنیا کے آخری زمانے کے دوران ”کاٹنے والے فرشتے ہیں۔“ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ فرشتے ”اُن سب لوگوں کو جمع کریں گے جو بُرے کام کرتے ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں۔“ (متی 13:37-41) اِس دوران فرشتے اُن لوگوں کو بھی جمع کریں گے جو بادشاہت کے وارث ہوں گے اور بعد میں وہ ’اَور بھی بھیڑوں‘ کی ایک ”بڑی بِھیڑ“ کو بھی جمع کریں گے جنہیں یہوواہ اپنی تنظیم میں لانا چاہتا ہے۔—مکا 7:9؛ یوح 6:44، 65؛ 10:16۔