افسیوں
(ایسآئی ص. ۲۲۰-۲۲۱ پ. ۱-۸؛ ص. ۲۲۲-۲۲۳ پ. ۱۶-۱۹)
افسیوں کی تمہید
۱. پولس نے کب اور کن حالات میں افسیوں کے نام خط لکھا تھا؟
۱ تصور کریں کہ آپ ایک مشنری کے طور پر اپنی سرگرم کارگزاری کی وجہ سے قید میں اذیت برداشت کر رہے ہیں۔ اب جبکہ آپ سفر کرنے، کلیسیاؤں کا دورہ کرنے اور اِنہیں مضبوط کرنے کے قابل نہیں ہیں تو آپ کیا کریں گے؟ شاید آپ اُن لوگوں کو خط لکھیں جو آپکی مُنادی کی وجہ سے مسیحی بنے ہیں۔ یقیناً وہ آپ کا حال دریافت کرنے اور آپ سے حوصلہافزائی حاصل کرنے کے مشتاق ہیں! پس آپ خط لکھنا شروع کرتے ہیں۔ آپ بالکل وہی کام کر رہے ہونگے جو پولس رسول نے روم میں تقریباً ۵۹-۶۱ عیسوی میں اپنی پہلی قید کے دوران کِیا تھا۔ اُس نے قیصر سے اپیل کی تھی۔ اگرچہ وہ سپاہیوں کی نگرانی میں تھا اور اپنے مقدمے کے فیصلے کا انتظار کر رہا تھا توبھی اُسے کچھ آزادی حاصل تھی۔ پولس نے غالباً ۶۰ یا ۶۱ عیسوی میں روم سے ”افسیوں کے نام“ خط لکھ کر اِسے تخکس اور انیسمس کے ہاتھ اُنہیں بھیجا۔—افس ۶:۲۱؛ کل ۴:۷-۹۔
۲، ۳. اِس بات کا حتمی ثبوت کیا ہے کہ افسیوں کے نام خط پولس رسول نے لکھا تھا اور یہ کتاب بائبل کی فہرستِمسلمہ کا حصہ ہے؟
۲ پولس شروع ہی میں اپنی شناخت اِس کتاب کے مصنف کے طور پر کراتا ہے۔ وہ چار مرتبہ اپنا ذکر ”خداوند میں قیدی“ کے طور پر کرتا ہے۔ (افس ۱:۱؛ ۳:۱، ۱۳؛ ۴:۱؛ ۶:۲۰) پولس کے اِس خط کا مصنف نہ ہونے کی بابت دئے جانے والے دلائل بالکل بےبنیاد ثابت ہوئے ہیں۔ چیسٹر بیایٹی پائپرس نمبر ۲ (46P) جسکی بابت کہا جاتا ہے کہ یہ تقریباً ۲۰۰ عیسوی میں لکھا گیا اُسکے ۸۶ صفحات پولس کے خطوط پر مشتمل ہیں۔ اِن میں سے ایک افسیوں کے نام خط تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اُس وقت اُسکے دیگر خطوط میں شامل تھا۔
۳ ابتدائی مصنّفین بھی اِس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ”افسیوں کے نام“ خط پولس رسول نے لکھا تھا۔ مثال کے طور پر، دوسری صدی عیسوی کے ایرینیس نے افسیوں ۵:۳۰ کا یوں حوالہ دیا: ”جیساکہ مُقدس پولس افسیوں کے نام خط میں فرماتے ہیں، ہم اُسکے بدن کے عضو ہیں۔“ اُسی زمانہ کے سکندریہ کے کلیمنٹ نے افسیوں ۵:۲۱ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ”اسی طرح وہ افسیوں کے نام خط میں بھی لکھتا ہے کہ خدا کے خوف سے ایک دوسرے کے تابع رہو۔“ تیسری صدی عیسوی کے پہلے نصف حصے میں آریگن نے افسیوں ۱:۴ کا حوالہ دیتے ہوئے بیان کِیا: ”رسول بھی افسیوں کے خط میں یہی بات بیان کرتا ہے کہ اُس نے ہم کو بنائےعالم سے پیشتر چن لیا۔“a ابتدائی مسیحی تاریخ کے ایک اَور مصنف یوسیبیس (تقریباً ۲۶۰-۳۴۲ عیسوی) نے افسیوں کے خط کو بائبل کی فہرستِمسلمہ میں شامل کِیا ہے اور ابتدائی مصنّفین میں سے بیشتر افسیوں کے خط کا حوالہ الہامی صحائف کے حصے کے طور پر دیتے ہیں۔b
۴. (ا) بعض لوگ یہ کیوں کہتے ہیں کہ افسیوں کا خط کسی اَور کے نام لکھا گیا تھا؟ (ب) تاہم، کونسا ثبوت ظاہر کرتا ہے کہ یہ خط افسیوں کے نام لکھا گیا تھا؟
۴ چیسٹر بیایٹی پائپرس، ویٹیکن مینوسکرپٹ نمبر ۱۲۰۹ اور سینا کے نسخے میں ۱ باب کی ۱ آیت میں ”افسس میں“ کے الفاظ موجود نہیں ہیں۔ اسلئے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ خط کس کے نام لکھا گیا ہے۔ اِسکے علاوہ، بعض لوگوں نے اِس بنیاد پر کہ اِس خط میں افسس کے لوگوں کی خیروعافیت دریافت نہیں کی گئی (اگرچہ پولس نے وہاں تین سال تک خدمت کی) یہ نتیجہ اخذ کِیا ہے کہ یہ خط کسی اَور کے نام لکھا گیا تھا یا شاید یہ افسس سمیت ایشیائےکوچک کی تمام کلیسیاؤں کیلئے تھا۔ تاہم، دیگر مسودے ”افسس میں“ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور جیساکہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں ابتدائی مصنّفین نے اِسے افسیوں کے نام خط کے طور پر قبول کِیا تھا۔
۵. پولس کے زمانہ میں افسس کس بات کیلئے مشہور تھا؟
۵ چند حقائق اِس خط کے مقصد کو سمجھنے میں ہماری مدد کریں گے۔ پہلی صدی عیسوی میں افسس سفلی علم، جادوگری، علمِنجوم اور باروری کی دیوی ارتمس کی پرستش کیلئے مشہور تھا۔c اِس دیوی کے مجسّمے کے گرد ایک عالیشان مندر تعمیر کِیا گیا تھا جو قدیم دُنیا کے سات عجائب میں سے ایک خیال کِیا جاتا تھا۔ اُنیسویں صدی کے دوران اِس علاقے میں ہونے والی کھدائی سے اِس بات کا انکشاف ہوا کہ یہ مندر ایک ۲۴۰ فٹ چوڑے اور ۴۱۸ فٹ لمبے چبوترے پر بنایا گیا تھا۔ مندر کی چوڑائی ۱۶۴ فٹ اور لمبائی ۳۴۳ فٹ تھی۔ اِس میں سنگِمرمر سے بنے ۱۰۰ ستون تھے جو تقریباً ۵۵ فٹ اُونچے تھے۔ اِسکی چھت پر سفید سنگِمرمر کی بڑی بڑی ٹائلیں لگی ہوئی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ سنگِمرمر کی اینٹوں کے جوڑ میں سیمنٹ اور ریت کی بجائے سونا استعمال کِیا گیا تھا۔ دُنیابھر سے سیاح اِس مندر کو دیکھنے آتے تھے اور تہواروں کے موقع پر تو لاکھوں لوگ اِس شہر میں اُمنڈ آتے تھے۔ افسس کے سنار ارتمس کے مندر کے چھوٹے چھوٹے چاندی کے نمونے یہاں زیارت کیلئے آنے والے لوگوں کو بیچ کر منافعبخش کاروبار کِیا کرتے تھے۔
۶. افسس میں پولس کی کارگزاری کتنی وسیع تھی؟
۶ پولس نے اپنے دوسرے مشنری سفر کے دوران منادی کرنے کیلئے تھوڑا عرصہ افسس میں قیام کِیا تھا اور پھر کام کو جاری رکھنے کیلئے اُس نے اکولہ اور پرسکلہ کو وہاں چھوڑا تھا۔ (اعما ۱۸:۱۸-۲۱) اپنے تیسرے مشنری سفر کے دوران اُس نے تقریباً تین سال تک یہاں قیام کِیا تھا۔ اِس دوران وہ منادی کرتا اور بہتیروں کو ”اِس طریق“ کی تعلیم دیتا رہا۔ (اعما ۱۹:۸-۱۰؛ ۲۰:۳۱) پولس نے افسس میں سخت محنت کی تھی۔ اپنی کتاب ڈیلی لائف ان بائبل ٹائمز میں اے. ای. بائلی لکھتا ہے: ”پولس اپنے عام دستور کے مطابق طلوعِآفتاب سے صبح ۱۱ بجے تک خیمہدوزی کا کام کرتا تھا (اعما ۲۰: ۳۴، ۳۵) تب تک ترنس کے مدرسہ میں تدریسی سرگرمیاں ختم ہو جاتی تھیں؛ اِس کے بعد پولس صبح ۱۱ بجے سے شام ۴ بجے تک مدرسہ میں منادی کرنے اور لوگوں کیساتھ باتچیت کرنے میں مصروف رہتا تھا، . . . اور پھر شام ۴ بجے سے رات گئے تک وہ گھربہگھر منادی کرتا تھا۔ (اعما ۲۰:۲۰، ۲۱، ۳۱) شاید آپ سوچیں کہ پھر وہ کب کھانا کھاتا اور سوتا تھا۔“—۱۹۴۳، صفحہ ۳۰۸۔
۷. پولس کی پُرجوش منادی کا کیا نتیجہ نکلا؟
۷ اِس پُرجوش منادی کے دوران پولس نے پرستش میں مورتوں کے استعمال کی بابت سچائی بیان کی۔ نتیجتاً اُسے دیمیتریس نامی سنار جیسے لوگوں کے غضب کا سامنا کرنا پڑا جو مندر کے نمونے بنا کر فروخت کرتے تھے۔ آخرکار شدید مخالفت کے پیشِنظر پولس کو یہ شہر چھوڑنا پڑا۔—اعما ۱۹:۲۳-۲۰:۱۔
۸. پولس کا خط کن طریقوں سے افسس کے مسیحیوں کیلئے نہایت موزوں تھا؟
۸ اب قید میں پولس کو افسس کی کلیسیا کے اُن بہنبھائیوں کی فکر ستا رہی تھی جو بُتپرست لوگوں اور ارتمس کے مندر کے پوجاریوں میں گھرے ہوئے تھے۔ اِن ممسوح مسیحیوں کو یقیناً پولس کی اِس موزوں تمثیل کی ضرورت تھی جو ظاہر کرتی ہے کہ وہ ایک ”پاک مقدِس“ کا حصہ ہیں جس میں یہوواہ اپنی رُوح کے ذریعے سکونت کرتا ہے۔ (افس ۲:۲۱) یسوع مسیح کے ذریعے امنواتحاد بحال کرنے کے سلسلے میں خدائی بندوبست (اپنے گھرانے کے معاملات نپٹانے کا طریقہ) سے متعلق پاک ”بھید“ کا انکشاف افسس کے مسیحیوں کیلئے واقعی بڑی حوصلہافزائی اور تسلی کا باعث تھا۔ (۱:۹، ۱۰) پولس نے مسیح میں یہودیوں اور غیرقوموں کے اتحاد پر زور دیا۔ اُس نے اتفاق اور اتحاد سے رہنے کی نصیحت بھی کی۔ پس آج ہم اِس کتاب کے مقصد، قدروقیمت اور اِسکے الہامی ہونے کی واضح حقیقت کی قدر کر سکتے ہیں۔
کیوں فائدہمند
۱۶. (ا) افسیوں کا خط کونسے سوالات کا عملی جواب دیتا ہے؟ (ب) اِس خط میں خدا کی نظر میں پسندیدہ انسانیت کی بابت کیا بیان کِیا گیا ہے؟
۱۶ افسیوں کا خط مسیحی زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو زیرِبحث لاتا ہے۔ آجکل دُنیا کے پریشانکُن مسائل اور جرائم میں اضافے کے پیشِنظر پولس کی معقول عملی مشورت خداپرستانہ زندگی بسر کرنے کے خواہشمند لوگوں کیلئے واقعی فائدہمند ہے۔ والدین اور بچوں کو ایک دوسرے کیساتھ کیسے پیش آنا چاہئے؟ شوہر اور بیوی کی ایک دوسرے کیلئے کیا ذمہداریاں ہیں؟ کلیسیا کے اراکین کو ایک بدکار دُنیا میں مسیحی محبت اور پاکیزگی برقرار رکھنے کیلئے کیا کرنا چاہئے؟ پولس رسول اِن سوالات کا جواب دینے کیساتھ ساتھ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ نئی مسیحی انسانیت کو پہننے میں کیا کچھ شامل ہے۔ افسیوں کے خط کا مطالعہ کرنے والے تمام لوگ خدا کی نظر میں پسندیدہ انسانیت کی حقیقی قدر کرنے کے قابل ہونگے جو ”خدا کے مطابق سچائی کی راستبازی اور پاکیزگی میں پیدا کی گئی ہے۔“—۴:۲۴-۳۲؛ ۶:۱-۴؛ ۵:۳-۵، ۱۵-۲۰، ۲۲-۳۳۔
۱۷. افسیوں کا خط کلیسیائی انتظامات کیلئے تعاون دکھانے کی بابت کیا ظاہر کرتا ہے؟
۱۷ یہ خط کلیسیا میں تقرریوں اور تفویضات کے مقصد کو بھی آشکارا کرتا ہے۔ اِنکا مقصد یہ ہے کہ پختگی کی جانب بڑھتے ہوئے ”مُقدس لوگ کامل بنیں اور خدمتگذاری کا کام کِیا جائے اور مسیح کا بدن ترقی پائے۔“ اِن کلیسیائی انتظامات کیلئے بھرپور تعاون دکھانے سے ایک مسیحی ”اُسکے ساتھ جو سر ہے یعنی مسیح کے ساتھ پیوستہ ہوکر ہر طرح سے“ ترقی کر سکتا ہے۔—۴:۱۲، ۱۵۔
۱۸. ”بھید“ اور روحانی ہیکل کے سلسلے میں کونسی بات واضح کی گئی ہے؟
۱۸ افسیوں کا خط ’مسیح کے بھید‘ کی بابت ابتدائی مسیحیوں کی سمجھ کو بڑھانے کیلئے نہایت فائدہمند ثابت ہوا۔ اِس میں واضح کِیا گیا کہ ایماندار یہودیوں کیساتھ ساتھ ’غیرقوموں‘ کو بھی ”مسیح یسوؔع میں . . . خوشخبری کے وسیلہ سے میراث میں شریک اور بدن میں شامل اور وعدہ میں داخل“ ہونے کی دعوت دی جا رہی تھی۔ غیرقوموں کو یہودیوں سے الگ کرنے والی دیوار یعنی ”شریعت“ کو موقوف کر دیا گیا تھا اور اب مسیح کے خون سے تمام لوگ مُقدسوں کیساتھ شریک اور خدا کے خاندان کا حصہ بن گئے تھے۔ ارتمس کے مندر کے بالکل برعکس جہاں بُتپرستی ہوتی تھی یہ لوگ مسیح یسوع کیساتھ متحد ہوکر ’یہوواہ کیلئے ایک پاک مقدِس‘ کے طور پر تعمیر کئے جا رہے تھے جس میں خدا کا رُوح بستا ہے۔—۳:۴، ۶؛ ۲:۱۵، ۲۱۔
۱۹. افسیوں کا خط آجکل بھی کونسی اُمید اور حوصلہافزائی فراہم کرتا ہے؟
۱۹ اِس ”بھید“ کے سلسلے میں پولس نے ایک ایسے ”انتظام“ کی بابت بھی باتچیت کی جسکے ذریعے ”مسیح میں سب چیزوں کا مجموعہ ہو جائے۔ خواہ وہ آسمان کی ہوں [آسمانی بادشاہت کیلئے منتخب لوگ] خواہ زمین کی [بادشاہت کے تحت زمین پر رہنے والے لوگ]۔“ یوں امنواتحاد بحال کرنے کے خدا کے شاندار مقصد کو نمایاں کِیا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں پولس نے افسس کے مسیحیوں کیلئے دُعا کی جنکے دل کی آنکھوں کو روشن کِیا گیا تھا تاکہ وہ خدا کی طرف سے پیش کی جانے والی اُمید کو سمجھیں اور یہ دیکھ پائیں کہ ”اُسکی میراث کے جلال کی دولت مُقدسوں میں کیسی کچھ ہے۔“ اِن الفاظ نے یقیناً اُنکی اُمید کو بہت مضبوط کِیا ہوگا۔ نیز افسیوں کے نام یہ الہامی خط زمانۂجدید کی کلیسیا کو بھی مضبوط کرتا ہے تاکہ ’ہم خدا کی ساری معموری تک معمور ہو جائیں۔‘—۱:۹-۱۱، ۱۸؛ ۳:۱۹۔
[فٹنوٹ]
a اوریجن اینڈ ہسٹری آف دی بکس آف دی بائبل، ۱۸۶۸، سی. ای. سٹو، صفحہ ۳۵۷۔
b نیو بائبل ڈکشنری، دوسرا ایڈیشن، ۱۹۸۶، جے. ڈی. ڈگلس کی اشاعت، صفحہ ۱۷۵۔
c انسائٹ آن دی سکرپچرز، جِلد ۱، صفحہ ۱۸۲۔