کون ”بچ نکلیں“ گے؟
”جو کوئی خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کا نام لیگا نجات پائیگا۔“—اعمال ۲:۲۱۔
۱. دُنیا کی تاریخ میں ۳۳ س.ع. پنتِکُست ایک انقلابی دن کیوں تھا؟
پنتِکُست ۳۳ س.ع. دُنیا کی تاریخ کا ایک انقلابی دن تھا۔ کیوں؟ اسلئےکہ اُس دن ایک نئی قوم نے جنم لیا تھا۔ شروع میں تو یہ کوئی اتنی بڑی قوم نہیں تھی—یسوع کے صرف ۱۲۰ شاگرد جو یروشلیم کے بالاخانے میں جمع ہوئے تھے۔ لیکن آجکل اُس زمانے کی بہت سی قوموں کے فراموش کر دئے جانے کے باوجود، اُس بالاخانے میں پیدا ہونے والی قوم ابھی تک ہمارے ساتھ ہے۔ یہ حقیقت ہم سب کیلئے نہایت اہم ہے کیونکہ اسی قوم کو خدا نے نوعِانسان کے سامنے اپنا گواہ ہونے کیلئے مقرر کِیا ہے۔
۲. کن معجزانہ واقعات نے نئی قوم کی پیدائش کی نشاندہی کی تھی؟
۲ جب یہ نئی قوم تشکیل پانے لگی تو ایسے اہم واقعات رُونما ہوئے جن سے یوایل کے نبوّتی الفاظ کی تکمیل ہوئی۔ ہم اعمال ۲:۲-۴ میں ان واقعات کی بابت پڑھتے ہیں: ”یکایک آسمان سے ایسی آواز آئی جیسے زور کی آندھی کا سناٹا ہوتا ہے اور اُس سے سارا گھر جہاں وہ بیٹھے تھے گونج گیا۔ اور اُنہیں آگ کے شعلہ کی سی پھٹتی ہوئی زبانیں دکھائی دیں اور اُن میں سے ہر ایک پر آ ٹھہریں۔ اور وہ سب رُوحاُلقدس سے بھر گئے اور غیرزبانیں بولنے لگے جس طرح رُوح نے اُنہیں بولنے کی طاقت بخشی۔“ اسطرح وہ ۱۲۰ ایماندار مرد اور عورتیں روحانی قوم بنے، اُس گروہ کے پہلے ارکان جسے پولس رسول نے ”خدا کا اؔسرائیل“ کہا۔—گلتیوں ۶:۱۶۔
۳. یوایل کی کونسی پیشینگوئی ۳۳ س.ع. پنتِکُست پر پوری ہوئی تھی؟
۳ اُس ”آواز“ کی جو ”زور کی آندھی“ جیسی تھی تفتیش کرنے کیلئے لوگوں کا ہجوم لگ گیا اور پطرس رسول نے اُن کے سامنے وضاحت کی کہ یوایل کی ایک پیشینگوئی پوری ہو رہی تھی۔ کونسی پیشینگوئی؟ چنانچہ، جوکچھ اُس نے کہا اُسے سنیں: ”آخری دنوں میں ایسا ہوگا کہ مَیں اپنے رُوح میں سے ہر بشر پر ڈالونگا اور تمہارے بیٹے اور تمہاری بیٹیاں نبوّت کریں گی اور تمہارے جوان رویا اور تمہارے بڈھے خواب دیکھینگے۔ بلکہ مَیں اپنے بندوں اور اپنی بندیوں پر بھی اُن دنوں میں اپنے رُوح میں سے ڈالونگا اور وہ نبوّت کرینگی۔ اور مَیں اُوپر آسمان پر عجیب کام اور نیچے زمین پر نشانیاں یعنی خون اور آگ اور دھوئیں کا بادل دکھاؤنگا۔ سورج تاریک اور چاند خون ہو جائیگا۔ پیشتر اس سے کہ خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کا عظیم اور جلیل دن آئے۔ اور یوں ہوگا کہ جو کوئی خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کا نام لیگا نجات پائیگا۔“ (اعمال ۲:۱۷-۲۱) پطرس نے جن الفاظ کا حوالہ دیا وہ یوایل ۲:۲۸-۳۲ میں پائے جاتے ہیں اور اُنکی تکمیل کا مطلب تھا کہ یہودی قوم کا وقت ختم ہو گیا تھا۔ ”خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کا عظیم اور جلیل دن،“ بیوفا اسرائیل کیلئے احتساب کا وقت، قریب تھا۔ تاہم کون محفوظ رہینگے یا بچ نکلیں گے؟ نیز اس نے کس چیز کا عکس پیش کِیا؟
پیشینگوئی کی دو تکمیلیں
۴، ۵. آئندہ واقعات کے پیشِنظر، پطرس نے کونسی مشورت پیش کی اور وہ مشورت اُس کے زمانے کے بعد بھی کیوں قابلِاطلاق تھی؟
۴ خدا کا روحانی اسرائیل ۳۳ س.ع. کے بعد کے سالوں میں پھلنےپھولنے لگا مگر جسمانی اُمتِاسرائیل پر زوال آیا۔ جسمانی اسرائیل ۶۶ س.ع. میں روم کیساتھ جنگ میں اُلجھا ہوا تھا۔ اسرائیل ۷۰ س.ع. میں تقریباً معدوم ہو گیا اور یروشلیم کو اُسکی ہیکل سمیت راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا تھا۔ پنتِکُست ۳۳ س.ع. کے موقع پر، پطرس نے آنے والے اس المناک واقعہ کے پیشِنظر عمدہ مشورت پیش کی۔ ایک بار پھر یوایل کا حوالہ دیتے ہوئے اُس نے کہا: ”جو کوئی خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کا نام لیگا نجات پائیگا۔“ ہر ایک یہودی کو یہوواہ کا نام لینے کیلئے ذاتی فیصلہ کرنا تھا۔ اس میں پطرس کی مزید ہدایات پر دھیان دینا شامل تھا: ”توبہ کرو اور تم میں سے ہر ایک اپنے گناہوں کی معانی کے لئے یسوع مسیح کے نام پر بپتسمہ لے۔“ (اعمال ۲:۳۸) پطرس کی بات سننے والوں کو یسوع کو مسیحا کے طور پر قبول کرنا تھا جسے اسرائیل ایک قوم کے طور پر رد کر چکا تھا۔
۵ یوایل کے اُن نبوّتی الفاظ نے پہلی صدی کے حلیم لوگوں پر بڑا گہرا اثر کِیا تھا۔ تاہم، آجکل یہ اُس سے بھی زیادہ گہرا اثر رکھتے ہیں کیونکہ ۲۰ ویں صدی کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ یوایل کی پیشینگوئی کی دوسری تکمیل بھی ہوئی ہے۔ آئیے دیکھیں کیسے۔
۶. جب ۱۹۱۴ آیا تو خدا کے اسرائیل کی شناخت کیسے واضح ہونے لگی؟
۶ رسولوں کی موت کے بعد، خدا کے اسرائیل کو جھوٹی مسیحیت کے کڑوے دانوں نے چھپا لیا۔ تاہم، آخری زمانے کے دوران، جسکی ابتدا ۱۹۱۴ میں ہوئی، اس روحانی قوم کی شناخت پھر سے واضح ہو گئی۔ یہ سب کچھ یسوع کی گیہوں اور کڑوے دانوں کی تمثیل کی تکمیل میں تھا۔ (متی ۱۳:۲۴-۳۰، ۳۶-۴۳) ۱۹۱۴ کے نزدیک آنے کیساتھ ہی، ممسوح مسیحیوں نے بیوفا مسیحی دُنیا کے جھوٹے عقائد کو دلیری سے رد کرتے ہوئے اور آنے والے ”غیرقوموں کی میعاد“ کے خاتمے کی منادی کرتے ہوئے خود کو اس سے علیٰحدہ کرنا شروع کر دیا۔ (لوقا ۲۱:۲۴) مگر پہلی عالمی جنگ نے جو ۱۹۱۴ میں شروع ہوئی ایسے مسائل کھڑے کر دئے جن کیلئے وہ بالکل تیار نہیں تھے۔ شدید دباؤ کے تحت بہتیرے سُست پڑ گئے اور بعض نے حالات کے ساتھ مصالحت کر لی۔ ۱۹۱۸ تک اُنکی منادی کی کارگزاری بالکل بند ہو چکی تھی۔
۷. (ا) پنتِکُست ۳۳ س.ع. جیسے کونسے واقعات ۱۹۱۹ میں رُونما ہوئے؟ (ب) یہوواہ کے خادموں پر ۱۹۱۹ سے خدا کی روح کے نزول کا کیا اثر ہوا ہے؟
۷ تاہم، یہ حالت زیادہ دیر قائم نہ رہی۔ ۱۹۱۹ سے شروع کر کے، یہوواہ اپنے لوگوں پر اپنی رُوح ایسے طریقے سے نازل کرنے لگا جس نے ۳۳ س.ع. پنتِکُست کی یاد کو تازہ کر دیا۔ بِلاشُبہ، ۱۹۱۹ میں کوئی غیرزبانیں نہیں بولی گئی تھیں اور نہ ہی زور کی آندھی جیسی کوئی آواز سنائی دی تھی۔ ہم ۱-کرنتھیوں ۱۳:۸ میں پولس کے الفاظ سے سمجھتے ہیں کہ معجزات کا وقت تو بہت پہلے ہی ختم ہو چکا تھا۔ تاہم، ۱۹۱۹ میں خدا کی روح بالکل نمایاں تھی جب سیڈر پوائنٹ، اوہائیو، یو.ایس.اے. میں ایک کنونشن پر وفادار مسیحیوں نے ازسرِنو تقویت حاصل کی اور بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کا کام دوبارہ شروع کِیا۔ ۱۹۲۲ میں وہ ایک بار پھر سیڈر پوائنٹ آئے اور ”بادشاہ اور اُسکی بادشاہت کا اشتہار دو، اشتہار دو، اشتہار دو“ کی اپیل سے تحریک پائی۔ جیساکہ پہلی صدی میں واقع ہو چکا تھا، دُنیا خدا کی روح کے نزول کے اثرات کو دیکھنے پر مجبور ہو گئی۔ ہر مخصوصشُدہ مسیحی—مردوزن، پیروجوان—نے ”نبوّت“ کرنا یعنی ”خدا کے بڑے بڑے کاموں“ کو بیان کرنا شروع کر دیا۔ (اعمال ۲:۱۱) پطرس کی طرح اُنہوں نے حلیم لوگوں کو تاکید کی: ”اپنے آپ کو اس ٹیڑھی قوم سے بچاؤ۔“ (اعمال ۲:۴۰) اثرپذیر ہونے والے لوگ یہ کام کیسے کر سکتے تھے؟ یوایل ۲:۳۲ میں پائے جانے والے یوایل کے الفاظ پر دھیان دینے سے: ”جو کوئی خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کا نام لیگا نجات پائیگا۔“
۸. خدا کے اسرائیل کے سلسلے میں ۱۹۱۹ سے کیسے پیشرفت ہوئی ہے؟
۸ اُن ابتدائی سالوں سے لیکر، خدا کے اسرائیل کے امور میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ممسوح اشخاص پر مہر لگانے کا کام آخری مراحل میں دکھائی دیتا ہے اور ۱۹۳۰ کے دہے سے لیکر زمینی اُمید کے حامل حلیم لوگوں کی ایک بڑی بِھیڑ منظرِعام پر آئی ہے۔ (مکاشفہ ۷:۳، ۹) سب فوری تعمیل کا احساس رکھتے ہیں کیونکہ یوایل ۲:۲۸، ۲۹ کی دوسری تکمیل ظاہر کرتی ہے کہ ہم یہوواہ کے پہلے سے زیادہ ہولناک دن کے قریب ہیں جب عالمگیر مذہبی، سیاسی اور تجارتی نظام تباہوبرباد کر دیا جائیگا۔ ہمارے پاس اس پورے ایمان کیساتھ ’یہوواہ کا نام لینے‘ کی ہر وجہ موجود ہے کہ وہ ہمیں مخلصی بخشے گا!
ہم کیسے یہوواہ کا نام لیتے ہیں؟
۹. یہوواہ کا نام لینے میں بعض کونسی باتیں شامل ہیں؟
۹ یہوواہ کا نام لینے میں کیا کچھ شامل ہے؟ یوایل ۲:۲۸، ۲۹ کا سیاقوسباق اس سوال کا جواب دینے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، یہوواہ ہر پکارنے والے شخص کی نہیں سنتا۔ ایک دوسرے نبی، یسعیاہ کی معرفت یہوواہ نے اسرائیل سے کہا: ”جب تم اپنے ہاتھ پھیلاؤ گے تو مَیں تم سے آنکھ پھیر لونگا۔ ہاں جب تم دُعا پر دُعا کرو گے تو مَیں نہ سنونگا۔“ یہوواہ نے اپنی ہی قوم کی فریاد سننے سے انکار کیوں کر دیا؟ وہ خود وضاحت کرتا ہے: ”تمہارے ہاتھ تو خونآلودہ ہیں۔“ (یسعیاہ ۱:۱۵) یہوواہ کسی بھی خونی یا گنہگار کی پکار نہیں سنیگا۔ اسی لئے پطرس نے پنتِکُست کے موقع پر یہودیوں سے توبہ کرنے کیلئے کہا تھا۔ یوایل ۲:۲۸، ۲۹ کے سیاقوسباق میں، ہم دیکھتے ہیں کہ یوایل بھی توبہ کرنے پر اصرار کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، یوایل ۲:۱۲، ۱۳ میں ہم پڑھتے ہیں: ”خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] فرماتا ہے اب بھی پورے دل سے اور روزہ رکھ کر اور گِریہوزاریوماتم کرتے ہوئے میری طرف رجوع لاؤ۔ اور اپنے کپڑوں کو نہیں بلکہ دِلوں کو چاک کر کے خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] اپنے خدا کی طرف متوجہ ہو کیونکہ وہ رحیمومہربان قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی ہے۔“ ۱۹۱۹ سے، ممسوح مسیحیوں نے ان الفاظ کے مطابق عمل کِیا۔ وہ اپنی ناکامیوں پر پشیمان ہوئے اور پھر کبھی حالات سے مصالحت یا سستی نہ کرنے کا عزم کِیا۔ اس نے خدا کی روح کے نزول کی راہ کھول دی۔ ہر وہ شخص جو یہوواہ کا نام لینا چاہتا ہے اور یہ کہ اُسکی سنی جائے، اُسے ایسی ہی روش پر چلنا لازم ہے۔
۱۰. (ا) سچی توبہ کیا ہے؟ (ب) یہوواہ سچی توبہ کیلئے کیسا جوابیعمل دکھاتا ہے؟
۱۰ یاد رکھیں، حقیقی پشیمانی محض یہ کہہ دینا ہی نہیں کہ ”مجھے معاف کیجئے۔“ اسرائیلی اپنے احساسات کی شدت کا اظہار کرنے کیلئے اپنے پیراہن چاک کِیا کرتے تھے۔ لیکن یہوواہ فرماتا ہے: ”اپنے کپڑوں کو نہیں بلکہ دِلوں کو چاک“ کرو۔ حقیقی توبہ ہمارے دل، ہماری باطنی گہرائیوں سے نکلتی ہے۔ اس میں غلطکاری سے مُنہ موڑنا شامل ہے جیساکہ ہم یسعیاہ ۵۵:۷ میں بھی پڑھتے ہیں: ”شریر اپنی راہ کو ترک کرے اور بدکردار اپنے خیالوں کو اور وہ خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کی طرف پھرے۔“ اس میں یسوع کیطرح گناہ سے نفرت کرنا بھی شامل ہے۔ (عبرانیوں ۱:۹) پھر، ہم فدیے کی قربانی کی بنیاد پر اپنے گناہوں کی معافی کیلئے یہوواہ پر بھروسہ رکھتے ہیں کیونکہ یہوواہ ”رحیمومہربان قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی“ ہے۔ وہ ہماری پرستش، ہماری نذر کی قربانی اور تپاون کو قبول کریگا۔ جب ہم اُسکے نام سے پکارتے ہیں تو وہ ہماری سنیگا۔—یوایل ۲:۱۴۔
۱۱. سچی پرستش کو ہماری زندگیوں میں کیا مقام حاصل ہونا چاہئے؟
۱۱ پہاڑی وعظ میں، یسوع نے ہمیں ایک اَور چیز ذہن میں رکھنے کیلئے فراہم کی جب اُس نے کہا: ”پہلے اُسکی بادشاہی اور اُسکی راستبازی کی تلاش کرو۔“ (متی ۶:۳۳) ہمیں اپنی پرستش کو معمولی خیال نہیں کرنا چاہئے یعنی کوئی ایسا کام جو ہم محض برائےنام اپنے ضمیر کی عارضی تسلی کیلئے کرتے ہیں۔ خدا کی خدمت ہماری زندگی میں اوّل درجے کی مستحق ہے۔ پس، یوایل کی معرفت یہوواہ مزید کہتا ہے: ”صیوؔن میں نرسنگا پھونکو . . . لوگوں کو جمع کرو۔ جماعت کو مُقدس کرو۔ بزرگوں کو اکٹھا کرو۔ بچوں اور شِیرخواروں کو بھی فراہم کرو۔ دُلہا اپنی کوٹھری سے اور دُلہن اپنے خلوتخانہ سے نکل آئے۔“ (یوایل ۲:۱۵، ۱۶) نئے نویلے بیاہتا جوڑوں کیلئے ایک دوسرے کی ذات میں مگن ہو جانے سے انتشارِخیال میں پڑ جانا قدرتی بات ہے۔ لیکن اُن کیلئے بھی خدا کی خدمت کرنا پہلے درجے پر ہونا چاہئے۔ کسی بھی چیز کو ہمارے لئے اپنے خدا کے واسطے جمع ہونے، اُسکا نام لینے سے بڑھکر نہیں ہونا چاہئے۔
۱۲. گزشتہ سال کی میموریل رپورٹ میں ترقی کا کونسا امکان دیکھا گیا ہے؟
۱۲ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے آئیے ۱۹۹۷ کی سالانہ خدمتی رپورٹ سے ظاہر ہونے والے اعدادوشمار پر غور کریں۔ گزشتہ سال ہماری بادشاہتی پبلشروں کی انتہائی تعداد ۵۵،۹۹،۹۳۱ تھی—واقعی مدّاحین کی ایک بڑی بِھیڑ! میموریل پر حاضری ۱،۴۳،۲۲،۲۲۶ تھی—پبلشروں کی تعداد سے بھی تقریباً ساڑھے آٹھ ملین زیادہ۔ یہ تعداد ترقی کیلئے حیرانکُن امکان کو ظاہر کرتی ہے۔ ان ساڑھے آٹھ ملین لوگوں میں سے بہتیرے پہلے ہی سے دلچسپی رکھنے والے اشخاص یا بپتسمہیافتہ والدین کے بچوں کے طور پر یہوواہ کے گواہوں کیساتھ بائبل مطالعہ کر رہے ہیں۔ ایک بہت بڑی تعداد اجلاس پر پہلی مرتبہ حاضر ہوئی تھی۔ اُن کے حاضر ہونے سے یہوواہ کے گواہوں کو اُن سے واقف ہونے اور مزید ترقی کیلئے اُنہیں مدد پیش کرنے کا موقع حاصل ہوا۔ علاوہازیں، بعض ایسے بھی ہیں جو ہر سال میموریل پر حاضر ہوتے ہیں اور شاید کچھ دیگر اجلاسوں پر بھی حاضر ہوتے ہیں لیکن وہ مزید کوئی ترقی نہیں کرتے۔ بِلاشُبہ، ایسے اشخاص بصد شوق اجلاسوں پر حاضر ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہم اُنہیں یوایل کے نبوّتی الفاظ پر احتیاط سے غوروخوض کرنے اور اس بات پر دھیان دینے کی تاکید کرتے ہیں کہ اُنہیں یہ یقین کرنے کیلئے کونسے اقدام کرنے چاہئیں تاکہ جب وہ اُس کا نام لیں تو یہوواہ اُن کی سنے۔
۱۳. اگر ہم پہلے ہی سے یہوواہ کا نام لے رہے ہیں تو دوسروں کے سلسلے میں ہم پر کونسی ذمہداری عائد ہوتی ہے؟
۱۳ پولس رسول نے خدا کا نام لینے کے ایک اَور پہلو پر زور دیا۔ رومیوں کے نام اپنے خط میں اُس نے یوایل کے نبوّتی الفاظ کا حوالہ دیا: ”جو کوئی خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کا نام لیگا نجات پائیگا۔“ پھر اُس نے استدلال کِیا: ”مگر جس پر وہ ایمان نہیں لائے اُس سے کیونکر دُعا کریں؟ اور جسکا ذکر اُنہوں نے سنا نہیں اُس پر ایمان کیونکر لائیں؟ اور بغیر منادی کرنے والے کے کیونکر سنیں؟“ (رومیوں ۱۰:۱۳، ۱۴) جیہاں، ایسے بہت سے دیگر لوگوں کو جو ابھی تک یہوواہ سے واقف نہیں ہوئے اُسکا نام لینے کی ضرورت ہے۔ جو پہلے ہی سے یہوواہ کو جانتے ہیں اُنکی یہ ذمہداری ہے کہ صرف منادی ہی نہ کریں بلکہ آگے بڑھکر اُنہیں درکار مدد فراہم کریں۔
ایک روحانی فردوس
۱۴، ۱۵. یہوواہ کے لوگ اُسے خوش کرنے والے انداز سے اُسکا نام لینے کی بدولت کن فردوسی برکات سے لطفاندوز ہوتے ہیں؟
۱۴ ممسوح اور دوسری بھیڑیں معاملات کو اسی نقطۂنظر سے دیکھتے ہیں اور نتیجتاً یہوواہ اُنہیں برکت دیتا ہے۔ ”تب خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کو اپنے مُلک کے لئے غیرت آئی اور اُس نے اپنے لوگوں پر رحم کِیا۔“ (یوایل ۲:۱۸) یہوواہ نے جب ۱۹۱۹ میں اپنے لوگوں کو بحال کِیا اور اُنہیں روحانی کارگزاری کی اپنی عملداری میں واپس لایا تو اُس نے اُن کیلئے غیرت اور رحم کا مظاہرہ کِیا۔ یہ واقعی ایک روحانی فردوس ہے جسے یوایل نے ان الفاظ میں کیا ہی عمدہ طریقے سے بیان کِیا ہے: ”اَے زمین ہراسان نہ ہو۔ خوشی اور شادمانی کر کیونکہ خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] نے بڑے بڑے کام کئے ہیں۔ اَے دشتی جانورو ہراسان نہ ہو کیونکہ بیابان کی چراگاہ سبز ہوتی ہے اور درخت اپنا پھل لاتے ہیں۔ انجیر اور تاک اپنی پوری پیداوار دیتے ہیں۔ پس اَے بنیصیوؔن خوش ہو اور خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] اپنے خدا میں شادمانی کرو کیونکہ وہ تم کو پہلی برسات اعتدال سے بخشے گا۔ وہی تمہارے لئے بارش یعنی پہلی اور پچھلی برسات بروقت بھیجیگا۔ یہانتک کہ کھلیہان گیہوں سے بھر جائینگے اور حوض نئی مے اور تیل سے لبریز ہونگے۔“—یوایل ۲:۲۱-۲۴۔
۱۵ کیا ہی دلکش منظرکشی کی گئی ہے! کثیر گلّوں کے علاوہ اسرائیل میں زندگی کیلئے تین لازمی اشیاء—اناج، زیتون کا تیل اور مے—کی کثرت۔ ہمارے زمانے میں بِلاشُبہ ان نبوّتی الفاظ کی روحانی انداز سے تکمیل ہوئی ہے۔ یہوواہ ہمیں ہماری ضرورت کے مطابق تمام روحانی خوراک فراہم کرتا ہے۔ کیا ہم سب ایسی خداداد فراوانی سے خوش نہیں ہیں؟ واقعی، جیسے ملاکی نے پیشینگوئی کی، ہمارے خدا نے ’ہم پر آسمان کے دریچوں کو کھولکر برکت برسائی ہے یہانتککہ ہمارے پاس اُس کیلئے جگہ نہیں رہی۔‘—ملاکی ۳:۱۰۔
ایک نظامالعمل کا خاتمہ
۱۶. (ا) یہوواہ کی روح کا نزول ہمارے زمانے کیلئے کیا مطلب رکھتا ہے؟ (ب) مستقبل کیا تھامے ہوئے ہے؟
۱۶ خدا کے لوگوں کی فردوسی حالتوں کی پیشینگوئی کرنے کے بعد یوایل یہوواہ کی روح کے نزول کی پیشینگوئی کرتا ہے۔ جب پطرس نے پنتِکُست پر اس پیشینگوئی کا حوالہ دیا تو اُس نے کہا کہ اسکی تکمیل ”آخری دنوں“ میں ہوئی تھی۔ (اعمال ۲:۱۷) اُس وقت خدا کی روح کے نزول کا مطلب یہ تھا کہ یہودی نظامالعمل کے آخری دن شروع ہو چکے تھے۔ اس ۲۰ ویں صدی میں خدا کے اسرائیل پر خدا کی روح کے نزول کا مطلب یہ ہے کہ ہم عالمگیر نظامالعمل کے آخری ایّام میں رہ رہے ہیں۔ اس بات کے پیشِنظر، مستقبل کیا تھامے ہوئے ہے؟ یوایل کی پیشینگوئی ہمیں مزید بتاتی ہے: ”مَیں زمینوآسمان میں عجائب ظاہر کرونگا یعنی خون اور آگ اور دُھوئیں کے ستون۔ اس سے پیشتر کہ خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کا خوفناک روزِعظیم آئے آفتاب تاریک اور مہتاب خون ہو جائیگا۔“—یوایل ۲:۳۰، ۳۱۔
۱۷، ۱۸. (ا) یروشلیم پر یہوواہ کا کونسا ہولناک دن آیا تھا؟ (ب) یہوواہ کے آئندہ ہولناک دن کا تیقّن ہمیں کیا کرنے کی تحریک دیتا ہے؟
۱۷ اسرائیل پر یہ نبوّتی الفاظ ۶۶ س.ع. میں پورے ہونا شروع ہو گئے تھے جبکہ واقعات بڑی تیزی سے ۷۰ س.ع. میں یہوواہ کے ہولناک دن کے عروج کی جانب بڑھنے لگے۔ اُس وقت یہوواہ کے نام کی بڑائی نہ کرنے والے لوگوں میں سے ہونا کتنی خوفناک بات تھی! آجکل بھی ویسے ہی خوفناک واقعات رُونما ہونے والے ہیں جب یہ سارا دُنیاوی نظام یہوواہ کے ہاتھوں نیست ہو جائیگا۔ تاہم، بچ نکلنا ممکن ہے۔ پیشینگوئی مزید بیان کرتی ہے: ”جو کوئی خداوند [”یہوواہ“، اینڈبلیو] کا نام لیگا نجات پائیگا کیونکہ کوہِصیوؔن اور یرؔوشلیم میں جیسا یہوواہ نے فرمایا ہے بچ نکلنے والے ہونگے اور باقی لوگوں میں وہ جنکو خداوند [”یہوواہ“، اینڈبلیو] بلاتا ہے۔“ (یوایل ۲:۳۲) یہوواہ کے نام سے واقف ہو کر یہوواہ کے گواہ واقعی مشکور ہیں اور اُنہیں پورا توکل ہے کہ جب وہ اُس کا نام لیتے ہیں تو وہ اُنہیں بچائیگا۔
۱۸ تاہم، جب یہوواہ کا عظیم اور جلیل دن پوری شدت سے اس دُنیا پر آتا ہے تو کیا واقع ہوگا؟ اس پر آخری مطالعے کے مضمون میں گفتگو کی جائیگی۔
کیا آپ کو یاد ہے؟
◻یہوواہ نے پہلےپہل اپنے لوگوں پر اپنی روح کب نازل کی تھی؟
◻یہوواہ کا نام لینے میں بعض کونسی باتیں شامل ہیں؟
◻یہوواہ کا عظیم اور جلیل دن جسمانی اسرائیل پر کب آیا؟
◻آجکل جو لوگ یہوواہ کا نام لیتے ہیں وہ اُنہیں کیسے برکت دیتا ہے؟
[صفحہ 25 پر تصویر]
لوگوں کی یہوواہ کا نام لینے کیلئے مدد کی جانی چاہئے