”مَیں قیصرؔ کے ہاں اپیل کرتا ہوں!“
بِھیڑ ایک بےیارومددگار شخص کو پکڑ کر مارنا شروع کر دیتی ہے۔ اُن کے خیال میں وہ شخص موت کا سزاوار ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ اسے مار ڈالتے سپاہی وہاں پہنچ جاتے ہیں اور اُسے بڑی مشکل سے اُس متشدّد ہجوم سے بچا لیتے ہیں۔ وہ شخص پولس رسول ہے۔ پولس پر حملہ کرنے والے یہودی اُسکی منادی کے سخت مخالف اور اُس پر ہیکل کی بےحرمتی کا الزام لگاتے ہیں۔ اُسے بچانے والے رومی ہیں جن کا سردار کلودیس لوسیاس ہے۔ اس افراتفری کے عالم میں ایک مشکوک مجرم کے طور پر پولس کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
اعمال کی کتاب کے آخری سات ابواب میں اُس مقدمے کا احاطہ کِیا گیا ہے جس کی ابتدا اس گرفتاری سے ہوئی۔ یہ بات قابلِفہم ہے کہ اگر ہم پولس کے قانونی پسمنظر، اُس پر عائدکردہ الزامات، اُس کے دفاع اور روم میں سزا دینے کے قانون کی بابت کچھ علم رکھتے ہیں تو ان ابواب کو سمجھنے میں ہماری مدد ہوگی۔
کلودیس لوسیاس کی زیرِحفاظت
کلودیس لوسیاس کی ذمہداریوں میں یروشلیم میں امنوامان قائم رکھنا بھی شامل تھا۔ اُسکا سربراہ، یہودیہ کا رومی حاکم قیصریہ میں رہتا تھا۔ پولس کے معاملے میں لوسیاس کی کارروائی ایک شخص کو تشدد سے بچانے اور امنوامان میں خلل ڈالنے والے ایک مجرم کو حراست میں لینے کا عمل خیال کی جا سکتی تھی۔ یہودیوں کے جوابیعمل نے لوسیاس کو اپنے قیدی کو انتونی بُرج میں واقع سپاہیوں کے قلعے میں لیجانے کی تحریک دی۔—اعمال ۲۱:۲۷–۲۲:۲۴۔
لوسیاس کو دریافت کرنا تھا کہ پولس نے کیا کِیا تھا۔ بِھیڑ کے شوروغل میں وہ کچھ بھی نہ جان سکا تھا۔ لہٰذا اُس نے بِلاتاخیر یہ حکم جاری کِیا کہ ’پولس کو کوڑے مار کر اسکا اظہار لیا جائے تاکہ اُسے معلوم ہو کہ وہ کس سبب سے اُسکی مخالفت میں یوں چلّاتے ہیں۔‘ (اعمال ۲۲:۲۴) مجرموں، غلاموں اور دوسرے ادنیٰ طبقے کے لوگوں سے راز اُگلوانے کا یہ ایک عام دستور تھا۔ کوڑا (فلیگرم) اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے ایک اذیتناک ہتھیار تھا۔ بعض کوڑوں کیساتھ زنجیروں میں بندھے ہوئے لوہے کے چھوٹےچھوٹے گولے بھی ہوا کرتے تھے۔ دوسروں پر چمڑے کیساتھ نوکیلی ہڈیاں اور لوہے کے ٹکڑے لگا دئے جاتے تھے۔ یہ جسم پر گہرے زخم لگاتے تھے۔
اُس وقت پولس نے ایک رومی شہری کے طور پر اپنی شناخت کروائی۔ ایک رومی شخص کا گناہ ثابت کئے بغیر اُسے کوڑے لگوانا غیرقانونی تھا لہٰذا پولس کا اپنے حقوق کو واضح کرنا فوری ردِعمل کا باعث بنا۔ ایک رومی شہری کیساتھ بدسلوکی کرنے یا اُسے سزا دینے کی وجہ سے کوئی رومی افسر اپنی ملازمت کھو سکتا تھا۔ قابلِفہم طور پر اُس وقت سے پولس کو ایک خاص قیدی کی حیثیت دی گئی اور لوگوں کو اُس سے ملنے کی اجازت تھی۔—اعمال ۲۲:۲۵-۲۹؛ ۲۳:۱۶، ۱۷۔
پولس کے خلاف الزامات کی بابت متذبذب ہونے کی وجہ سے لوسیاس نے اس ہنگامی صورتحال کے حل کیلئے اُسے صدرعدالت میں پیش کِیا۔ تاہم پولس کے اس بیان سے بحثوتکرار شروع ہو گئی کہ اُس پر قیامت کے بارے میں مقدمہ چل رہا ہے۔ اس نااتفاقی نے ایسی شدت اختیار کر لی کہ لوسیاس نے اس ڈر سے ایک بار پھر پولس کو اُن غضبناک یہودیوں سے بچا لیا کہ کہیں وہ اسے مار نہ ڈالیں۔—اعمال ۲۲:۳۰–۲۳:۱۰۔
لوسیاس نہیں چاہتا تھا کہ وہ ایک رومی کے قتل کا ذمہدار ٹھہرے۔ لہٰذا اپنے قیدی کے قتل کے منصوبے کی بابت جاننے کے بعد وہ اُسے فوراً قیصریہ لے جاتا ہے۔ قانونی ضوابط قیدیوں کو عدالت میں اعلیٰ حکام کے سامنے پیش کرنے کیلئے اُنکے خلاف مقدمے کا احاطہ کرنے والی رپورٹوں کو پیش کرنے کا تقاضا بھی کرتے تھے۔ ان رپورٹوں میں ابتدائی تحقیقوتفتیش، کارروائی کے اسباب اور مقدمے کی تفتیش کرنے والے شخص کی رائے بھی شامل ہوتی تھی۔ لوسیاس نے پولس کی بابت رپورٹ دی کہ ’یہودی شریعت کے مسئلوں کی بابت اُس پر نالش کرتے ہیں لیکن اُس پر کوئی ایسا الزام نہیں لگایا گیا کہ وہ قتل یا قید کے لائق ہو‘ اور اُس نے پولس پر الزام لگانے والوں کو صوبے کے حاکم فیلکس کے سامنے اپنے الزامات بیان کرنے کا حکم دیا۔—اعمال ۲۳:۲۹، ۳۰۔
حاکم فیلکس فیصلہ سنانے میں ناکام رہتا ہے
صوبائی عدالتی نظام فیلکس کے زیرِاختیار تھا۔ وہ چاہتا تو عام رسومات یا پھر معاشرے کے معزز لوگوں اور حکومتی افسروں کیلئے مخصوص جرموسزا کے قانون پر عمل کر سکتا تھا۔ اسے اورڈو یا سرکاری فہرست کہا جاتا تھا۔ وہ ایکسٹرا اورڈینم کے عدالتی نظام کے تحت ایک مجرم کو اپنی مرضی کے مطابق سزا دینے کا اختیار رکھتا تھا۔ ایک صوبائی گورنر سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ ’رومی طریقِکار کی پیروی کرنے کی بجائے اس بات پر غور کرے کہ عام صورتحال میں کیا کِیا جانا چاہئے۔‘ لہٰذا اُسکا فیصلہ نہایت اہم ہوا کرتا تھا۔
قدیم رومی قانون کی تمام تفصیلات واضح نہیں ہیں لیکن پولس کا مقدمہ ”ایکسٹرا اورڈینم کے صوبائی عدالتی نظام میں سب سے منفرد“ خیال کِیا جاتا ہے۔ گورنر اپنے صلاحکاروں کی مدد سے انفرادی اشخاص کی طرف سے الزامات کو سنتا تھا۔ ملزم اپنے مدعی کے خلاف اپنا دفاع کر سکتا تھا لیکن جرم ثابت کرنے کی ذمہداری مدعی کی ہوا کرتی تھی۔ مجسٹریٹ اپنے طور پر مناسب سزا دینے کا اختیار رکھتا تھا۔ وہ فوری طور پر فیصلہ سنا سکتا تھا یا اسے ایک غیرمُتعیّن عرصے کیلئے ملتوی کرتے ہوئے مدعاعلیہ کو حراست میں بھی رکھ سکتا تھا۔ سکالر ہنری کیڈبری بیان کرتا ہے، ”بیشک ایسی آمرانہ طاقت رکھنے والا حاکم ’ناجائز اثر‘ سے مغلوب ہونے اور رشوت لیکر ملزم کو بری کرنے، سزا دینے یا سزا کو ملتوی کرنے کے قابل تھا۔“
سردار کاہن حننیاہ، یہودیوں کے بزرگ اور ترطلس نے باضابطہ طور پر فیلکس کی موجودگی میں پولس پر ’مفسد اور سب یہودیوں میں فتنہانگیز‘ ہونے کا الزام لگایا۔ اُنہوں نے الزام لگایا کہ وہ ”ناصریوں کے بدعتی فرقہ کا سرگروہ“ تھا اور اُس نے ہیکل کو ناپاک کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔—اعمال ۲۴:۱-۶۔
پولس پر جن لوگوں نے سب سے پہلے حملہ کِیا اُنکے خیال میں وہ ایک غیرقومی شخص ترفمس کیساتھ ہیکل کے صحن میں یہودیوں کے لئے مخصوص جگہ میں داخل ہوا تھا۔a (اعمال ۲۱:۲۸، ۲۹) صحیح معنوں میں اس خطا کا قصوروار ترفمس تھا۔ تاہم اگر یہودی پولس کے بیجا مداخلت کرنے کی ترغیب دینے اور اُس کی حمایت کرنے کی مبیّنہ خطا کو ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو اُسے سزائےموت دی جا سکتی تھی۔ اِس کے علاوہ روم نے بظاہر اس جرم کو سزائےموت کے قابل ٹھہرانے کی منظوری دے دی تھی۔ لہٰذا اگر لوسیاس کی بجائے ہیکل کے یہودی سپاہی پولس کو گرفتار کر لیتے تو صدرعدالت بڑی آسانی سے اُس پر مقدمہ چلا کر اُسے سزا دے سکتی تھی۔
یہودیوں نے استدلال کِیا کہ پولس کی تعلیم یہودیت یا کسی باضابطہ مذہب (ریلجیو لیکائٹا) سے تعلق نہیں رکھتی تھی۔ اسکے برعکس اِسے غیرقانونی اور تخریبی خیال کِیا جانا تھا۔
اُنہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ پولس ”دُنیا کے سب یہودیوں میں فتنہانگیز . . . پایا“ گیا۔ (اعمال ۲۴:۵) کلودیس بادشاہ نے حال ہی میں سکندریہ کے یہودیوں کو ”دُنیابھر میں اضطراب پھیلانے“ کے لئے قصوروار ٹھہرایا تھا۔ یہ مشابہت قابلِغور تھی۔ مؤرخ اے. این. شروِن وائٹ کے مطابق، ”کلودیس کے دورِحکومت میں یا نیرو کی حکمرانی کے ابتدائی سالوں میں ایک یہودی کے خلاف ایسا الزام نہایت مؤثر ثابت ہوتا تھا۔ یہودی اُس گورنر کو اس بات پر قائل کرنا چاہتے تھے کہ پولس کی منادی ملک میں یہودیوں کے اندر ابتری پھیلانے کے مترادف تھی۔ وہ جانتے تھے کہ گورنر صرف مذہبی بنیاد پر ایک ملزم کو سزا دینے کیلئے تیار نہ تھے لہٰذا اُنہوں نے اس مذہبی الزام کو ایک سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی۔“
پولس نے اپنے خلاف لگائے گئے ہر الزام کا جواب دیا۔ ’مَیں نے کوئی فساد نہیں اُٹھایا۔ لیکن تیرے سامنے یہ اقرار کرتا ہوں کہ جس طریق کو وہ بدعت کہتے ہیں مَیں اُسکا حصہ ہوں تاہم اُنکے الزام کا تعلق یہودی رسومات سے ہے۔ ہاں آسیہ کے چند یہودی فساد کا باعث بنے تھے۔ اگر وہ مجھ پر الزام لگاتے ہیں تو تیرے سامنے ثابت کر سکتے ہیں۔‘ پولس نے ان الزامات کو یہودیوں کے درمیان مذہبی تکرار تک محدود کر دیا جسے حل کرنا رومیوں کے بس کی بات نہیں تھی۔ مضطرب یہودیوں کو ناراض کرنے سے بچنے کیلئے فیلکس نے مقدمے کو ایک ایسی قانونی صورتحال میں بدل دیا کہ کارروائی کو ملتوی کرنا پڑا۔ پولس کو اس معاملے کو بخوبی نپٹانے کا دعویٰ کرنے والے یہودیوں کے حوالہ نہیں کِیا گیا، نہ ہی رومی قانون کے مطابق اُس کا فیصلہ کِیا گیا اور نہ ہی اُسے رِہا کِیا گیا۔ فیلکس کو فیصلہ سنانے پر مجبور نہیں کِیا جا سکتا تھا اور یہودیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے علاوہ تاخیر کی ایک اَور وجہ یہ بھی تھی کہ وہ پولس سے رشوت لینا چاہتا تھا۔—اعمال ۲۴:۱۰-۱۹، ۲۶۔b
پُرکیس فیستُس کے زمانے میں بحران
دو سال بعد، یروشلیم میں یہودیوں نے نئے حاکم پُرکیس فیستُس کی آمد پر اپنے الزامات دہراتے ہوئے پولس کو اُنکے حوالے کر دینے کی درخواست کی۔ تاہم فیستُس نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا: ”رومیوں کا یہ دستور نہیں کہ کسی آدمی کو رعایتہً سزا کیلئے حوالہ کریں جب تک کہ مدعاعلیہ کو اپنے مدعیوں کے روبرو ہوکر دعویٰ کا موقع نہ ملے۔“ مؤرخ ہیری ڈبلیو. ٹاژرا بیان کرتا ہے: ”فیستُس فوراً سمجھ گیا کہ قانون کی آڑ میں ایک رومی شہری کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا تھا۔“ لہٰذا یہودیوں کو اپنا مقدمہ قیصریہ لیجانے کا حکم دیا گیا۔—اعمال ۲۵:۱-۶، ۱۶۔
وہاں پر یہودیوں نے پھر دعویٰ کِیا کہ پولس کا ”آگے کو جیتا رہنا مناسب نہیں“ لیکن وہ اُس کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے اور فیستُس نے سمجھ لیا کہ پولس نے کوئی ایسا کام نہیں کِیا جو سزائےموت کے لائق ہو۔ فیستُس نے ایک افسر سے وضاحت کی: وہ ”اپنے دین اور کسی شخص یسوؔع کی بابت اُس سے بحث کرتے تھے جو مر گیا تھا اور پولسؔ اُس کو زندہ بتاتا ہے۔“—اعمال ۲۵:۷، ۱۸، ۱۹، ۲۴، ۲۵۔
واضح طور پر پولس کسی سیاسی جرم کا قصوروار نہیں تھا لیکن یہودی غالباً یہ بحث کر رہے تھے کہ صرف اُنکی عدالت اس مذہبی تکرار کو حل کرنے کے قابل تھی۔ کیا پولس ان معاملات کے فیصلے کیلئے یروشلیم جانے کو تیار تھا؟ فیستُس نے پولس سے پوچھا کہ آیا وہ ایسا کرنا چاہتا تھا لیکن یہ واقعی ایک نامناسب تجویز تھی۔ یروشلیم جانے کے حکم کا مطلب تھا کہ پولس یہودیوں کے رحموکرم پر ہوتا کیونکہ وہاں مدعی خود حاکم بن جاتے۔ لہٰذا پولس نے کہا: ”مَیں قیصرؔ کے تختِعدالت کے سامنے کھڑا ہوں۔ میرا مقدمہ یہیں فیصل ہونا چاہئے۔ یہودیوں کا مَیں نے کچھ قصور نہیں کِیا۔ . . . کوئی مجھ کو اُنکے حوالہ نہیں کر سکتا۔ مَیں قیصرؔ کے ہاں اپیل کرتا ہوں۔“—اعمال ۲۵:۱۰، ۱۱، ۲۰۔
ایک رومی شہری کے ان الفاظ نے صوبائی عدالت کی تمام کارروائیوں کو روک دیا۔ اُسکا اپیل کرنے کا حق (پرواکیٹیو) ”مستند، جامع اور مؤثر تھا۔“ لہٰذا اس معاملے کی باریکیوں پر اپنے صلاحکاروں کیساتھ مشورہ کرنے کے بعد، فیستُس نے کہا: ”تُو نے قیصرؔ کے ہاں اپیل کی ہے تو قیصرؔ ہی کے پاس جائیگا۔“—اعمال ۲۵:۱۲۔
فیستُس پولس سے چھٹکارا حاصل کرکے خوش تھا۔ کچھ دنوں بعد اُس نے ہیرودیس اگِرپا دوم کی موجودگی میں تسلیم کِیا کہ اس مقدمے نے اُسے اُلجھن میں ڈال دیا تھا۔ بعدازاں فیستُس کو بادشاہ کیلئے اس مقدمے کا تحریری بیان پیش کرنا پڑا لیکن اُسے ان الزامات میں یہودی قانون کی ناقابلِفہم پیچیدگیاں نظر آئیں۔ تاہم اگِرپا ایسے معاملات کو نپٹانے میں مہارت رکھتا تھا لہٰذا اُسکی دلچسپی کو بھانپتے ہوئے فوراً مقدمے کو تحریری شکل دینے کیلئے اُس سے مدد کی درخواست کی گئی۔ بعدازاں اگِرپا کی موجودگی میں پولس کی باتوں کو سمجھنے میں ناکام ہوکر فیستُس نے بیان کِیا: ”تُو دیوانہ ہے۔ بہت علم نے تجھے دیوانہ کر دیا ہے۔“ لیکن اگِرپا اُسکی بات کو واضح طور پر سمجھ گیا تھا۔ اُس نے کہا: ”تُو تو تھوڑی ہی سی نصیحت کرکے مجھے مسیحی کر لینا چاہتا ہے۔“ پولس کے دلائل کی بابت اُنکے احساسات سے قطعنظر، فیستُس اور اگِرپا دونوں متفق تھے کہ پولس بیگناہ تھا اور اگر وہ قیصر سے اپیل نہ کرتا تو آزاد کِیا جا سکتا تھا۔—اعمال ۲۵:۱۳-۲۷؛ ۲۶:۲۴-۳۲۔
طویل قانونی معاملے کا انجام
روم پہنچ کر پولس منادی کے علاوہ یہ پتہ لگانے کے لئے بھی یہودیوں کے رئیسوں کو بلواتا ہے کہ وہ اُس کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔ اس سے وہ اپنے مدعیان کے ارادوں کو جان سکتا تھا۔ کسی مقدمے کی کارروائی کے دوران، یروشلیم کی سرکار کا رومی یہودیوں کی مدد طلب کرنا کوئی عجیب بات نہیں تھی لیکن پولس کو خبر ملی کہ اُنہیں اُسکی بابت کوئی ہدایات نہیں دی گئی تھیں۔ پولس کے مقدمے کی کارروائی میں ابھی وقت تھا لہٰذا اُسے ایک گھر کرائے پر لینے اور آزادی سے منادی کرنے کی اجازت مل گئی تھی۔ ایسی رعایت کا مطلب ہو سکتا تھا کہ رومی حکومت پولس کو بیگناہ خیال کرتی تھی۔—اعمال ۲۸:۱۷-۳۱۔
پولس مزید دو سال تک حراست میں رہا۔ وہ کیوں؟ بائبل اس سلسلے میں کوئی تفصیل بیان نہیں کرتی۔ جبتک مدعی اپنے الزامات کو ثابت نہیں کر لیتے مدعاعلیہ کو عموماً قید میں رکھا جاتا تھا تاہم یروشلیم کے یہودیوں نے اپنے مقدمے کی کمزوری کو جانتے ہوئے ایسا نہیں کِیا۔ عدالت سے غیرحاضری ہی پولس کو خاموش رکھنے کا سب سے مؤثر طریقہ ثابت ہو سکتا تھا۔ بہرکیف پولس ظاہری طور پر نیرو کی حضوری میں پیش ہوا، بیگناہ قرار دیا گیا اور آخرکار پانچ سال بعد اپنی مشنری کارگزاریوں کو دوبارہ شروع کرنے کیلئے آزاد کر دیا گیا۔—اعمال ۲۷:۲۴۔
سچائی کے مخالفین صدیوں سے مسیحی منادی کے کام کو روکنے کے لئے ’قانون کی آڑ میں بدی گھڑتے‘ رہے ہیں۔ اس سے ہمیں حیران نہیں ہونا چاہئے۔ یسوع نے کہا: ”اگر اُنہوں نے مجھے ستایا تو تمہیں بھی ستائینگے۔“ (زبور ۹۴:۲۰؛ یوحنا ۱۵:۲۰) تاہم یسوع ہمیں پوری دُنیا کو خوشخبری سنانے کی آزادی کی یقیندہانی بھی کراتا ہے۔ (متی ۲۴:۱۴) پس جس طرح پولس رسول نے اذیت اور مخالفت کی مزاحمت کی، آجکل یہوواہ کے گواہ بھی ’خوشخبری کی جوابدہی اور ثبوت‘ پیش کرتے ہیں۔—فلپیوں ۱:۷۔
[فٹنوٹ]
a پتھر کے ستونوں کی تین ہاتھ اُونچی دیوار غیرقوموں کے صحن کو اندورنی صحن سے جُدا کرتی تھی۔ اس دیوار پر وقفےوقفے سے یونانی اور لاطینی زبان میں آگاہیاں درج تھیں: ”کسی اجنبی کا اس دیوار اور مقدِس کے گرد باڑ کو پار کرنا ممنوع ہے۔ خلافورزی کرنے والا اس جرم کی سزا میں اپنی موت کا خود ذمہدار ہوگا۔“
b یہ عمل غیرقانونی تھا۔ ایک تحقیق بیان کرتی ہے: ”کسی سے جبراً پیسے لینے کے خلاف قانون لیکس رپیٹنڈیرم کے مطابق ایک حاکم یا ناظم رشوت کا مطالبہ یا اسے قبول کرکے کسی کو حراست میں لینے یا آزاد کرنے، فیصلہ سنانے یا اسے ملتوی کرنے یا ایک قیدی کو بری کرنے کا اختیار نہیں رکھتا تھا۔“