”پاک روح پر دھیان دینے کا انجام زندگی اور صلح ہے“
”جو لوگ پاک روح کے مطابق چلتے ہیں، اُن کا دھیان روحانی چیزوں پر رہتا ہے۔“—روم 8:5۔
1، 2. مسحشُدہ مسیحی رومیوں کے آٹھویں باب میں خاص دلچسپی کیوں رکھتے ہیں؟
آپ نے دیکھا ہوگا کہ یسوع مسیح کی موت کی یادگاری تقریب پر اکثر رومیوں 8:15-17 پڑھی جاتی ہے۔ اِن آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ مسحشُدہ مسیحیوں کو کیسے پتہ چلتا ہے کہ اُنہیں مسح کِیا گیا ہے۔ اِس باب کی پہلی آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ باب مسحشُدہ مسیحیوں کے لیے لکھا گیا تھا کیونکہ اِس میں اُن لوگوں کا ذکر ہے جو ”مسیح یسوع کے ساتھ متحد ہیں۔“ تو پھر کیا اِس باب میں بتائی گئی باتیں صرف مسحشُدہ مسیحیوں پر لاگو ہوتی ہیں؟ یا پھر کیا ایسے مسیحی بھی اِن سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں جو فردوس میں رہنے کی اُمید رکھتے ہیں؟
2 یہ سچ ہے کہ رومیوں کا آٹھواں باب خاص طور پر مسحشُدہ مسیحیوں کے لیے لکھا گیا کیونکہ اُن کو ”پاک روح ملی ہے“ اور وہ ’بےتابی سے اُس وقت کا اِنتظار کر رہے ہیں جب اُنہیں گود لیا جائے گا یعنی جب اُنہیں اپنے جسموں سے رِہائی ملے گی۔‘ (روم 8:23) وہ مستقبل میں آسمان پر خدا کے بیٹوں کے طور پر رہیں گے۔ یہ اِس لیے ممکن ہے کیونکہ خدا نے فدیے کی بِنا پر اُن کے گُناہ معاف کیے ہیں اور اُنہیں نیک قرار دیا ہے۔—روم 3:23-26؛ 4:25؛ 8:30۔
3. جو مسیحی فردوس میں رہنے کی اُمید رکھتے ہیں، اُنہیں بھی رومیوں کے آٹھویں باب میں دلچسپی کیوں لینی چاہیے؟
3 لیکن جو مسیحی فردوس میں رہنے کی اُمید رکھتے ہیں، اُنہیں بھی رومیوں کے آٹھویں باب میں بتائی گئی باتوں میں دلچسپی لینی چاہیے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ خدا اُنہیں بھی نیک خیال کرتا ہے۔ ہم یہ کیسے جانتے ہیں؟ پولُس رسول نے رومیوں کے چوتھے باب میں ابراہام کے بارے میں کہا کہ اُن کے ایمان کی وجہ سے ”اُن کو نیک قرار دیا گیا“ حالانکہ وہ یسوع مسیح کی موت سے سینکڑوں سال پہلے زندہ تھے۔ (رومیوں 4:20-22 کو پڑھیں۔) اِسی طرح یہوواہ خدا آج بھی اُن مسیحیوں کو نیک خیال کر سکتا ہے جو ہمیشہ تک زمین پر رہنے کی اُمید رکھتے ہیں۔ اِس لیے وہ بھی اُن باتوں سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں جو رومیوں کے آٹھویں باب میں لکھی ہیں۔
4. ہمیں رومیوں 8:21 کے حوالے سے خود سے کیا پوچھنا چاہیے؟
4 رومیوں 8:21 میں اِس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ نئی دُنیا ضرور آئی گی۔ اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اِنسان ’تباہی کی غلامی سے آزاد ہو جائیں گے اور خدا کی اولاد کی شاندار آزادی کا مزہ لیں گے۔‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھی اُس وقت کو دیکھیں گے اور نئی دُنیا میں رہنے کا لطف اُٹھائیں گے؟ آئیں، رومیوں 8 باب پر غور کریں اور دیکھیں کہ نئی دُنیا میں رہنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہوگا۔
”جسمانی چیزوں پر دھیان“ نہ دیں
5. پولُس رسول نے رومیوں 8:4-13 میں کس سنگین صورتحال کا ذکر کِیا؟
5 رومیوں 8:4-13 کو پڑھیں۔ رومیوں 8 باب میں پولُس رسول نے دو طرح کے لوگوں کے بارے میں بات کی۔ ایک تو وہ جو ”جسم کی خواہشوں کے مطابق چلتے ہیں“ اور دوسرے وہ جو ”پاک روح کے مطابق چلتے ہیں۔“ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پولُس رسول یہاں مسیحیوں کا موازنہ ایسے لوگوں سے کر رہے تھے جو مسیحی نہیں تھے۔ لیکن یاد رکھیں کہ پولُس نے یہ خط اُن مسیحیوں کو لکھا ”جنہیں مُقدس ہونے کے لیے بلایا گیا“ تھا۔ (روم 1:7) لہٰذا پولُس مسیحیوں سے ہی مخاطب ہو رہے تھے جن میں سے کچھ ”جسم کی خواہشوں کے مطابق“ چل رہے تھے اور کچھ ”پاک روح کے مطابق“ چل رہے تھے۔ آئیں، دیکھتے ہیں کہ ”جسم کی خواہشوں کے مطابق“ چلنے کا کیا مطلب ہے۔
6، 7. (الف) بائبل میں لفظ ”جسم“ کن معنوں میں اِستعمال کِیا گیا ہے؟ (ب) رومیوں 8:4-13 میں اِصطلاح ’جسم کی خواہشوں کے مطابق چلنے‘ کا کیا مطلب ہے؟
6 بائبل میں لفظ ”جسم“ کو فرق فرق معنوں میں اِستعمال کِیا گیا ہے۔ اکثر اِس لفظ سے مُراد گوشت پوست کا جسم ہوتا ہے۔ (روم 2:28؛ 1-کُر 15:39، 50) مگر یہ لفظ رشتہ ظاہر کرنے کے لیے بھی اِستعمال ہوا ہے۔ مثال کے طور پر پولُس رسول نے کچھ بھائیوں کے بارے میں کہا کہ وہ ”جسمانی طور پر میرے رشتےدار ہیں۔“—روم 9:3۔
7 تو پھر اِصطلاح ’جسم کی خواہشوں کے مطابق چلنے‘ کا کیا مطلب ہے؟ رومیوں 7:5 سے ظاہر ہوتا ہے کہ جسم کی خواہشیں دراصل ”گُناہگار خواہشیں“ ہوتی ہیں۔ پولُس رسول نے ’جسم کی خواہشوں کے مطابق چلنے‘ والے مسیحیوں کے بارے میں یہ بھی کہا کہ ”اُن کا دھیان جسمانی چیزوں پر رہتا ہے۔“ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے مسیحی اپنی خواہشوں کے غلام ہوتے ہیں۔ وہ اپنی ہر حسرت، خواہش، شوق اور ہوس کو پورا کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔
8. پولُس رسول نے مسحشُدہ مسیحیوں کو ”جسم کی خواہشوں کے مطابق“ چلنے سے کیوں خبردار کِیا؟
8 لیکن پولُس رسول نے مسحشُدہ مسیحیوں کو ”جسم کی خواہشوں کے مطابق“ چلنے سے کیوں خبردار کِیا؟ اور کیا آج بھی مسیحی ”جسم کی خواہشوں کے مطابق“ چلنے کے خطرے میں ہیں؟ افسوس کی بات ہے کہ کوئی بھی مسیحی اپنے جسم کی گُناہگار خواہشوں کا غلام بن سکتا ہے۔ مثال کے طور پر پولُس رسول نے روم کی کلیسیا کے کچھ مسیحیوں کا ذکر کِیا جو ”اپنی خواہشوں کے غلام“ تھے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مسیحی اپنی جنسی خواہش، کھانے پینے کی خواہش یا کسی اَور خواہش کو حد سے زیادہ اہمیت دینے لگے تھے۔ اِن میں سے کچھ تو ’سیدھے سادے لوگوں کو بھی بہکا رہے تھے۔‘ (روم 16:17، 18؛ فل 3:18، 19؛ یہوداہ 4، 8، 12) کُرنتھس کی کلیسیا میں بھی ایک بھائی تھا جو ”اپنے باپ کی بیوی کے ساتھ حرامکاری“ کر رہا تھا۔ (1-کُر 5:1) یہی وجہ تھی کہ پولُس رسول نے خدا کے اِلہام سے مسیحیوں کو ”جسمانی چیزوں پر دھیان دینے“ سے خبردار کِیا۔—روم 8:5، 6۔
9. رومیوں 8:6 میں پولُس رسول کیا نہیں کہہ رہے تھے؟
9 آج بھی مسیحیوں کو ”جسمانی چیزوں پر دھیان دینے“ سے خبردار رہنا چاہیے۔ جو مسیحی بہت عرصے سے یہوواہ خدا کی خدمت کر رہے ہیں، وہ بھی ”جسم کی خواہشوں کے مطابق“ چلنے لگ سکتے ہیں۔ کیا رومیوں 8:6 میں پولُس رسول یہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں کبھی کھانے پینے، ملازمت یا سیروتفریح کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے یا یہ کہ ہر جنسی خواہش غلط ہے؟ نہیں تو۔ یہ باتیں تو زندگی کا حصہ ہیں۔ یسوع مسیح بھی اچھے کھانوں سے لطف اُٹھاتے تھے اور اُنہوں نے دوسروں کو بھی کھانا کھلایا۔ اور پولُس رسول نے لکھا کہ ازدواجی بندھن میں جنسی تعلقات کو اہم مقام حاصل ہے۔
10. رومیوں 8:5، 6 میں اِصطلاح ”دھیان دینے“ کا کیا مطلب ہے؟
10 لیکن پھر اِصطلاح ”جسمانی چیزوں پر دھیان دینے“ کا کیا مطلب ہے؟ پولُس رسول نے اِصطلاح ”دھیان دینے“ کے لیے جو یونانی لفظ اِستعمال کِیا، اِس کا مطلب ہے: ”اپنی سوچ کسی چیز پر مرکوز کر لینا اور اِسے حاصل کرنے کی جستجو میں رہنا۔“ ایک عالم کے مطابق جو لوگ جسمانی چیزوں پر دھیان دیتے ہیں، ”وہ اِنہی میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، اِنہیں سر پر سوار کر لیتے ہیں اور سارا وقت اِن کے بارے میں بات کرتے رہتے ہیں۔“
11. کچھ ”جسمانی چیزوں“ کا ذکر کریں جو ہماری سوچ کا مرکز بن سکتی ہیں۔
11 یہ ضروری تھا کہ روم کی کلیسیا کے مسیحی یہ دیکھنے کے لیے اپنا جائزہ لیتے کہ وہ کن چیزوں کو سب سے زیادہ اہمیت دے رہے تھے۔ کیا اُن کا دھیان ”جسمانی چیزوں“ پر رہتا تھا؟ اِسی طرح ہمیں بھی اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہمارا دھیان کن چیزوں پر لگا رہتا ہے۔ ہم کن چیزوں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور بات کرتے ہیں؟ اِس طرح سے اپنا جائزہ لینے کے بعد شاید کچھ بہن بھائیوں کو احساس ہو کہ اُن کا دھیان کھانے پینے، بناؤسنگھار، سرمایہکاری، سیروتفریح وغیرہ پر رہتا ہے۔ ایسی چیزیں بذاتِخود غلط نہیں ہوتیں۔ یاد کریں کہ یسوع مسیح بھی اچھے کھانوں سے لطفاندوز ہوتے تھے۔ (لُو 5:29؛ یوح 12:2) لیکن کیا اُن کا دھیان کھانے پینے پر رہتا تھا اور وہ سارا وقت اِسی کے بارے میں بات کرتے تھے؟ نہیں۔ تو پھر ہمارا دھیان کن چیزوں پر رہتا ہے؟
12، 13. اِس بات کا جائزہ لینا کیوں اہم ہے کہ ہم کن چیزوں پر دھیان دے رہے ہیں؟
12 یہ بہت اہم ہے کہ ہم جسمانی چیزوں کے حوالے سے اپنا جائزہ لیں کیونکہ پولُس رسول نے لکھا: ”جسمانی چیزوں پر دھیان دینے کا انجام موت ہے۔“ (روم 8:6) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اِن چیزوں پر دھیان دینے کی وجہ سے خدا سے دُور ہو سکتے ہیں اور ہمیشہ کی زندگی پانے سے محروم ہو سکتے ہیں۔ لیکن ”جسمانی چیزوں پر دھیان“ دینے والا شخص اِس انجام سے بچ سکتا ہے کیونکہ وہ بدل سکتا ہے۔ کُرنتھس کی کلیسیا میں جس بھائی نے حرامکاری کی تھی اور جسے کلیسیا سے خارج کِیا گیا تھا، اُس نے بھی اپنی غلط روِش چھوڑ دی اور دوبارہ سے سیدھی راہ پر چلنے لگا۔—2-کُر 2:6-8۔
13 اگر وہ بھائی اپنی روِش کو بدل سکتا تھا تو آج بھی ایک مسیحی اپنی روِش کو بدل سکتا ہے، خاص طور پر اگر اُس نے اِتنا سنگین گُناہ نہ کِیا ہو جتنا کہ اُس بھائی نے کِیا تھا۔ اگر ہم جسمانی چیزوں پر دھیان دینے کے انجام کو یاد رکھیں گے تو ہمیں اپنی روِش کو بدلنے کی ترغیب ملے گی۔
”پاک روح پر دھیان“ دیں
14، 15. (الف) ہمیں ”جسمانی چیزوں پر دھیان“ دینے کی بجائے کس پر دھیان دینا چاہیے؟ (ب) ”پاک روح پر دھیان دینے“ کا مطلب کیا نہیں ہے؟
14 ”جسمانی چیزوں پر دھیان“ دینے سے خبردار کرنے کے بعد پولُس رسول نے یہ حوصلہافزا بات لکھی: ”پاک روح پر دھیان دینے کا انجام زندگی اور صلح ہے۔“ یہ کتنا اچھا انجام ہے!
15 کیا ”پاک روح پر دھیان دینے“ کا مطلب یہ ہے کہ ہم سارا وقت صرف خدا، اُس کے کلام اور بادشاہت کے بارے میں سوچتے رہیں؟ نہیں۔ یاد کریں کہ پولُس رسول اور اُن کے زمانے کے باقی مسیحی بھی دوسرے لوگوں کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ وہ کھانا کھاتے تھے اور محنت مزدوری کر کے روزی کماتے تھے۔ اُن میں سے بہت سے بہن بھائی شادیشُدہ تھے اور بچوں کی پرورش کر رہے تھے۔—مر 6:3؛ 1-تھس 2:9۔
16. پولُس رسول نے اپنی زندگی میں کس کام کو پہلا درجہ دیا؟
16 لیکن پولُس رسول اور اُن کے زمانے کے باقی مسیحی اِن مصروفیات کو زندگی میں سب سے پہلا درجہ نہیں دیتے تھے۔ ہم جانتے ہیں کہ پولُس رسول کا پیشہ خیمے بنانا تھا۔ مگر اُن کا پیشہ اُن کی سوچ کا مرکز نہیں تھا بلکہ اُن کا دھیان خدا کی خدمت کرنے پر تھا۔ وہ مُنادی کرنے اور تعلیم دینے میں مگن رہتے تھے۔ (اعمال 18:2-4؛ 20:20، 21، 34، 35 کو پڑھیں۔) پولُس رسول نے روم کی کلیسیا کے بہن بھائیوں کے لیے اور ہمارے لیے بھی کیا ہی عمدہ مثال قائم کی!—روم 15:15، 16۔
17. ”پاک روح پر دھیان“ دینے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟
17 خدا کی خدمت پر دھیان دینے کا کیا انجام ہوتا ہے؟ رومیوں 8:6 میں لکھا ہے: ”پاک روح پر دھیان دینے کا انجام زندگی اور صلح ہے۔“ پاک روح پر دھیان دینے کا مطلب ہے کہ ہم خدا کی سوچ کو جاننے اور اِس کو اپنانے کی کوشش کریں۔ اِس کے نتیجے میں ہماری زندگی خوشگوار اور بامقصد ہو جائے گی اور ہم ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید رکھ سکیں گے۔
18. پاک روح پر دھیان دینے کا انجام صلح کیوں ہوتا ہے؟
18 لیکن اِس بات کا کیا مطلب ہے کہ ”پاک روح پر دھیان دینے کا انجام . . . صلح ہے“؟ اگر ہم پاک روح کے مطابق چلتے ہیں تو ہم دوسروں کے ساتھ صلح صفائی سے رہنے کی کوشش کرتے ہیں، چاہے یہ گھر پر ہو یا کلیسیا میں۔ ہم سب خطاکار ہیں اور غلطیاں کرتے ہیں جس کی وجہ سے کبھی کبھار ہمارے درمیان کشیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ لیکن ایسی صورت میں ہم یسوع مسیح کی اِس ہدایت پر عمل کرتے ہیں: ”اپنے بھائی سے صلح کریں۔“ (متی 5:24) جب ہم یاد رکھتے ہیں کہ ہمارے بہن بھائی بھی اُسی خدا کی عبادت کرتے ہیں ”جو امن کا سرچشمہ ہے“ تو ہمیں اُن سے صلح کرنا زیادہ آسان لگتا ہے۔ (روم 16:20) دوسروں کے ساتھ صلح صفائی سے رہنے سے ہمیں دلی سکون اور اِطمینان بھی ملتا ہے۔
19. ”پاک روح پر دھیان دینے“ سے ہماری کس کے ساتھ صلح ہو جاتی ہے؟
19 ”پاک روح پر دھیان دینے“ سے اپنے پروردگار کے ساتھ ہماری صلح ہو جاتی ہے۔ اِس کا کیا نتیجہ ہوتا ہے؟ یسعیاہ نبی نے کہا: ”اَے [یہوواہ]، جس کا اِرادہ مضبوط ہے اُسے تُو محفوظ رکھتا ہے۔ اُسے پوری سلامتی حاصل ہے، کیونکہ وہ تجھ پر بھروسا رکھتا ہے۔“—یسع 26:3، اُردو جیو ورشن؛ رومیوں 5:1 کو پڑھیں۔
20. آپ رومیوں 8 باب میں درج نصیحت کے لیے شکرگزار کیوں ہیں؟
20 چاہے ہم مسحشُدہ ہوں یا فردوس میں رہنے کی اُمید رکھتے ہوں، ہم سب اُن باتوں سے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں جو رومیوں 8 باب میں درج ہیں۔ ہم شکرگزار ہیں کہ ہمیں جسمانی چیزوں پر دھیان دینے سے خبردار کِیا گیا ہے اور پاک روح پر دھیان دینے کی حوصلہافزائی کی گئی ہے جس کا انجام ”زندگی اور صلح ہے۔“ اِس نصیحت پر عمل کرنے کا بڑا خوشکُن نتیجہ نکلتا ہے کیونکہ پولُس رسول نے لکھا: ”گُناہ کی مزدوری موت ہے لیکن خدا کی نعمت ہمیشہ کی زندگی ہے جو ہمیں اپنے مالک مسیح یسوع کے ذریعے ملتی ہے۔“—روم 6:23۔