یہوواہ کی برکت پانے کے لیے زورآزمائی کرتے رہیں
”تُو نے خدا اور آدمیوں کے ساتھ زورآزمائی کی اور غالب ہوا۔“—پید 32:28۔
گیت: 23، 38
1، 2. یہوواہ کے بندوں کو کن مخالفوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے؟
ہابل کے زمانے سے لے کر آج تک خدا کے تمام خادموں کو مشکلات اور مصیبتوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ پولُس رسول نے عبرانی مسیحیوں کو لکھا: ”آپ نے تکلیف اُٹھا اُٹھا کر ثابتقدمی سے مشکلوں کا سامنا کِیا۔“ اِن مسیحیوں نے یہوواہ کی برکت اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے یہ سب کچھ سہا۔ (عبر 10:32-34) پولُس رسول نے مسیحیوں کا موازنہ اپنے زمانے کے کھلاڑیوں سے کِیا جو دوڑ، کُشتی اور باکسنگ کے مقابلوں میں حصہ لیتے تھے۔ (عبر 12:1، 4) آج ہم زندگی کی دوڑ میں حصہ لے رہے ہیں اور ہمیں ایسے مخالفوں کا سامنا ہے جو ہماری توجہ دوڑ سے ہٹانے اور ہمیں گِرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنی خوشی کھو دیں اور اِنعام سے محروم رہیں۔
2 اِن مخالفوں میں شیطان اور اُس کی دُنیا سرِفہرست ہیں جن سے ہم متواتر ”جنگ“ کر رہے ہیں۔ (اِفس 6:12) ہمیں چوکس رہنا چاہیے کہ ہم دُنیا کی اُن چیزوں سے متاثر نہ ہو جائیں ”جو بڑی مضبوطی سے قائم ہیں۔“ اِن میں دُنیا کے نظریوں اور عقیدوں کے علاوہ بُرے کام بھی شامل ہیں جیسا کہ حرامکاری کرنا، تمباکو اِستعمال کرنا، منشیات لینا اور حد سے زیادہ شراب پینا۔ اِس کے علاوہ ہمیں اپنی غلط خواہشوں اور منفی سوچ سے بھی مسلسل لڑنا پڑتا ہے۔—2-کُر 10:3-6؛ کُل 3:5-9۔
3. خدا ہماری تربیت کیسے کرتا ہے تاکہ ہم اپنے مخالفوں کا مقابلہ کر سکیں؟
3 کیا اِتنے طاقتور مخالفوں کا مقابلہ کرنا ممکن ہے؟ جی، مگر یہ آسان نہیں، اِس کے لیے بڑی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ پولُس رسول نے اپنا موازنہ ایک باکسر سے کِیا اور کہا: ”مَیں ہوا میں مکے نہیں مارتا بلکہ عین نشانے پر مارتا ہوں۔“ (1-کُر 9:26) بالکل جیسے ایک باکسر اپنے مخالف پر مکوں کی بھرمار کرتا ہے ویسے ہی ہمیں بھی اپنے دُشمنوں سے لڑنا پڑتا ہے۔ اِس لڑائی میں یہوواہ خدا ہماری مدد کرتا ہے۔ وہ بائبل، اِس پر مبنی مطبوعات، اِجلاسوں اور اِجتماعوں کے ذریعے ہماری تربیت کرتا ہے۔ کیا آپ اِس تربیت کو قبول کر رہے ہیں؟ اگر آپ اِس تربیت پر عمل نہیں کریں گے تو آپ ”ہوا میں مکے“ مار رہے ہوں گے یعنی اچھی طرح سے اپنے مخالفوں کا مقابلہ نہیں کر رہے ہوں گے۔
4. ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ بُرائی ہم پر غالب نہ آئے؟
4 ہمارے دُشمن ہم پر اُس وقت وار کرتے ہیں جب ہمیں اِس کی توقع نہیں ہوتی یا ہم کمزور ہوتے ہیں۔ اِس لیے ہمیں ہر وقت چوکس رہنا ہوگا۔ خدا کے کلام میں یہ نصیحت کی گئی ہے کہ ”بُرائی کو اپنے اُوپر غالب نہ آنے دیں بلکہ اچھائی سے بُرائی پر غالب آئیں۔“ (روم 12:21) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم بُرائی پر غالب آ سکتے ہیں۔ لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ ہم لڑتے رہیں۔ اگر ہم چوکس نہیں رہیں گے اور لڑنا بند کر دیں گے تو شیطان اور اُس کی دُنیا اور ہماری غلط خواہشیں ہم پر غالب آ جائیں گی۔ لہٰذا بےحوصلہ نہ ہوں اور اپنے ہاتھ ڈھیلے نہ پڑنے دیں بلکہ ڈٹ کر شیطان کا مقابلہ کریں۔—1-پطر 5:9۔
5. (الف) ہمیں کیا یاد رکھنا ہوگا تاکہ ہم اپنے دُشمنوں کے خلاف جنگ جیت سکیں؟ (ب) ہم کن لوگوں کی مثال پر غور کریں گے؟
5 اِس جنگ میں جیتنے کے لیے ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ہم یہ جنگ کیوں لڑ رہے ہیں۔ دراصل ہم خدا کی برکت اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے یہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ عبرانیوں 11:6 میں لکھا ہے کہ ”جو شخص خدا کی عبادت کرتا ہے، اُس کو ایمان رکھنا ہوگا کہ وہ ہے اور اُن سب کو اجر دے گا جو لگن سے اُس کی خدمت کرتے ہیں۔“ جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”لگن سے“ کِیا گیا ہے، اِس کا مطلب ”سخت کوشش کرنا“ بھی ہے۔ پاک کلام میں بہت سے ایسے آدمیوں اور عورتوں کا ذکر ہے جنہوں نے خدا کی برکت حاصل کرنے کے لیے سخت کوشش کی۔ مثال کے طور پر یعقوب، راخل، یوسف اور پولُس رسول کو مشکل صورتحال کا مقابلہ کرنا پڑا لیکن اُنہوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ اِس ثابتقدمی کے لیے اُنہیں بہت سی برکتیں ملیں۔ آئیں، دیکھتے ہیں کہ ہم اِن سے کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
ثابتقدم رہیں اور برکتیں پائیں
6. یعقوب نے ایک فرشتے سے زورآزمائی کیوں کی اور اُنہیں کیا اِنعام ملا؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
6 یعقوب نے ثابتقدمی سے مشکل حالات کا مقابلہ کِیا کیونکہ وہ یہوواہ خدا سے محبت کرتے تھے، اُنہیں خدا کی دوستی عزیز تھی اور اُنہیں پکا یقین تھا کہ یہوواہ خدا اپنے وعدے کے مطابق اُن کی اولاد کو برکت دے گا۔ (پید 28:3، 4) جب یعقوب تقریباً 100 سال کے تھے تو اُنہوں نے خدا سے برکت حاصل کرنے کے لیے ایک فرشتے سے کُشتی کی۔ (پیدایش 32:24-28 کو پڑھیں۔) کیا یعقوب واقعی اِتنے طاقتور تھے کہ وہ ایک فرشتے کو کُشتی میں ہرا سکتے تھے؟ نہیں تو۔ دراصل وہ ہر صورت میں برکت پانا چاہتے تھے اور اِس لیے اُنہوں نے اپنی پوری طاقت لگا کر فرشتے سے زورآزمائی کی۔ یہوواہ خدا نے اُنہیں اِس کوشش کے لیے برکت دی اور اُن کا نام اِسرائیل رکھا جس کا مطلب ہے ”خدا کے ساتھ زورآزمائی کرنے والا۔“ یعقوب کو وہی اِنعام ملا جسے ہم بھی پانے کی کوشش کر رہے ہیں یعنی خدا کی برکت اور خوشنودی۔
7. (الف) راخل کو کس مشکل صورتحال کا سامنا تھا؟ (ب) اُنہوں نے اِس صورتحال کا مقابلہ کیسے کِیا اور اِس کے لیے اُنہیں کیا اِنعام ملا؟
7 یعقوب کی بیوی راخل یہ دیکھنے کو بےتاب تھیں کہ خدا وہ وعدہ کیسے پورا کرے گا جو اُس نے یعقوب سے کِیا تھا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ راخل بانجھ تھیں جو کہ اُس زمانے میں ایک عورت کے لیے بڑی رسوائی کا باعث تھا۔ راخل اِس مشکل صورتحال کا مقابلہ کیسے کر پائیں؟ اُنہوں نے اُمید کا دامن نہیں چھوڑا بلکہ اَور بھی لگن سے خدا سے اولاد کے لیے اِلتجائیں کیں۔ یہوواہ خدا نے راخل کی سنی اور اُنہیں اولاد دی۔ اِس لیے راخل نے بڑے فخر سے کہا: ”مَیں . . . نہایت زور مار مار کر کُشتی لڑی اور مَیں نے فتح پائی۔“—پید 30:8، 20-24۔
8. (الف) یوسف کو کئی سالوں تک کس مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا؟ (ب) یوسف نے جو ردِعمل دِکھایا، ہم اِس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
8 یعقوب اور راخل کی ثابتقدمی کو دیکھ کر اُن کے بیٹے یوسف بھی ثابتقدمی سے آزمائشوں کا مقابلہ کر پائے۔ جب یوسف 17 سال کے تھے تو اُن کی زندگی میں بھونچال سا آ گیا۔ اُن کے بھائی اُن سے اِس قدر جلتے تھے کہ اُنہوں نے یوسف کو غلام کے طور پر بیچ دیا۔ اِس کے کچھ عرصے بعد یوسف پر جھوٹے اِلزام لگائے گئے اور اُنہیں قید میں ڈال دیا گیا۔ (پید 37:23-28؛ 39:7-9، 20، 21) اِتنے بھیانک تجربوں کے باوجود یوسف بےحوصلہ نہیں ہوئے اور اُنہوں نے اپنے دل میں رنجش نہیں پالی۔ اِس کی بجائے اُن کا دھیان اُس دوستی پر رہا جو اُن کے اور یہوواہ خدا کے بیچ تھی۔ (احبا 19:18؛ روم 12:17-21) ہم یوسف سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اگر ہمارا بچپن اچھا نہیں گزرا یا ہمارے موجودہ حالات اِتنے خراب ہیں کہ ہمیں اُمید کی کوئی کِرن نظر نہیں آتی تو ہمیں بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے بلکہ ثابتقدمی سے حالات کا مقابلہ کرتے رہنا چاہیے۔ پھر یہوواہ خدا ہمیں ضرور برکت دے گا۔—پیدایش 39:21-23 کو پڑھیں۔
9. ہم یعقوب، راخل اور یوسف کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
9 شاید آپ بھی مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہوں۔ مثال کے طور پر شاید آپ کو تعصب، نااِنصافی یا طعنوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یا پھر شاید کسی نے حسد کے مارے آپ پر جھوٹے اِلزام لگائے ہیں۔ ایسی صورتحال میں بےحوصلہ ہونے کی بجائے یعقوب، راخل اور یوسف کی طرح ثابتقدمی سے یہوواہ خدا کی خدمت کرتے رہیں۔ اِن تینوں کو یہوواہ خدا کی دوستی بہت عزیز تھی اِس لیے خدا نے اِن کو طاقت اور برکت عطا کی۔ اُنہوں نے خدا سے مدد کی اِلتجا کی اور اِس کے ساتھ ساتھ اُس کی ہدایتوں پر عمل بھی کِیا۔ یاد رکھیں کہ اِس بُری دُنیا کا خاتمہ آنے والا ہے اور حالات جلد بہتر ہو جائیں گے۔ تو پھر کیا آپ یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مجازی معنوں میں زورآزمائی کرنے کو تیار ہیں؟
برکت پانے کے لیے زورآزمائی کریں
10، 11. (الف) کچھ ایسی صورتحال کیا ہیں جن میں شاید ہمیں برکت پانے کے لیے زورآزمائی کرنی پڑے؟ (ب) ہم ایسے فیصلے کیسے کر سکتے ہیں جن سے خدا خوش ہو؟
10 کچھ ایسی صورتحال کیا ہیں جن میں شاید ہمیں برکت پانے کے لیے زورآزمائی کرنی پڑے؟ بعض مسیحی کسی خامی پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسروں کو مُنادی کرنے کا شوق برقرار رکھنا مشکل لگتا ہے۔ کچھ اَور بہن بھائیوں کی صحت خراب رہتی ہے یا پھر وہ تنہائی کا شکار ہیں۔ اور ایسے بھی بہن بھائی ہیں جن کو کسی شخص نے ٹھیس پہنچائی ہے اور اُنہیں اُسے معاف کرنا بہت مشکل لگ رہا ہے۔ چاہے ہم کتنے ہی عرصے سے خدا کی خدمت کر رہے ہوں، ہم سب کو کچھ ایسی چیزوں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے جو اِس خدمت کی راہ میں رُکاوٹ بن سکتی ہیں۔
11 بِلاشُبہ مشکل صورتحال کا سامنا کرتے وقت ایسے فیصلے کرنا آسان نہیں ہوتا جن سے خدا خوش ہو کیونکہ ہمارا دھوکےباز دل ہمیں اکثر غلط راہ کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرتا ہے۔ (یرم 17:9) اگر آپ بھی ایسا محسوس کر رہے ہیں تو خدا سے پاک روح مانگیں۔ دُعا اور پاک روح کے ذریعے آپ کو ایسی راہ اِختیار کرنے کی طاقت ملے گی جس سے خدا خوش ہوگا اور آپ کو برکت دے گا۔ آپ نے جس چیز کے لیے دُعا کی ہے، اِسے حاصل کرنے کے لیے خود بھی قدم اُٹھائیں۔ ہر روز بائبل کو پڑھیں۔ ذاتی طور پر بائبل کا مطالعہ کرنے کے لیے وقت نکالیں اور باقاعدگی سے خاندانی عبادت بھی کریں۔—زبور 119:32 کو پڑھیں۔
12، 13. دو مسیحیوں کو اپنی غلط خواہشوں پر قابو پانے کے سلسلے میں مدد کیسے ملی؟
12 بہت سے مسیحی خدا کے کلام، اُس کی پاک روح اور اُس کی تنظیم کی مطبوعات کی مدد سے اپنی بُری خواہشوں پر غالب آ سکے۔ مثال کے طور پر جب ایک نوجوان بھائی نے 8 دسمبر 2003ء کے اویک! میں غلط خواہشوں پر قابو پانے کے بارے میں ایک مضمون پڑھا تو اُس نے کہا: ”مجھے اپنی غلط خواہشوں پر قابو پانا بہت مشکل لگ رہا ہے۔ جب مَیں نے مضمون میں پڑھا کہ ”بہت سے مسیحیوں کو بُری خواہشوں پر غالب آنے کے لیے سخت کوشش کرنی پڑتی ہے“ تو مجھے پتہ چلا کہ مَیں اکیلا نہیں ہوں بلکہ میرے اَور بھی بہن بھائی اِسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔“ اِس نوجوان بھائی کو ایک اَور مضمون سے بھی بہت فائدہ ہوا جو 8 اکتوبر 2003ء کے اویک! میں شائع ہوا تھا۔ اِس مضمون میں بتایا گیا تھا کہ غیرفطری جنسی خواہشوں کے بارے میں خدا کا نقطۂنظر کیا ہے۔ اِس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ کچھ مسیحیوں کے لیے غیرفطری جنسی خواہشیں ’ایک کانٹے کی طرح ہیں جو اُن کے جسم میں چبھتی رہتی ہیں۔‘ (2-کُر 12:7) لیکن اگر وہ اپنے چالچلن کو پاکیزہ رکھنے کی کوشش کرتے رہیں گے تو خدا اُنہیں ایک اچھا مستقبل دے گا۔ جب اُس بھائی نے یہ پڑھا تو اُس نے کہا: ”مجھے یقین ہو گیا ہے کہ مَیں ہر گزرتے دن خدا کا وفادار رہ سکوں گا۔ مَیں یہوواہ کا بہت شکرگزار ہوں کہ وہ اپنی تنظیم کے ذریعے ہماری مدد کرتا ہے تاکہ ہم ہر روز اِس بُری دُنیا پر غالب آ سکیں۔“
13 امریکہ میں رہنے والی ایک بہن نے لکھا: ”مَیں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ آپ ہمیشہ صحیح وقت پر وہ روحانی کھانا فراہم کرتے ہیں جس کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے اکثر لگتا ہے کہ ایک مضمون خاص طور پر میرے لیے لکھا گیا ہے۔ مَیں بہت سالوں سے ایک ایسی خواہش سے لڑ رہی ہوں جس سے یہوواہ نفرت کرتا ہے۔ کبھی کبھی تو میرا جی چاہتا ہے کہ مَیں ہار مان لوں اور اِس خواہش کے آگے ہتھیار ڈال دوں۔ مجھے پتہ ہے کہ یہوواہ رحیم ہے اور ہمیں معاف کرتا ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ مَیں اُس کی مدد کے لائق نہیں ہوں کیونکہ مَیں اصل میں اُس غلط خواہش سے نفرت نہیں کرتی۔ اِس جنگ سے میری زندگی کا ہر پہلو متاثر ہے۔ . . . لیکن جب مَیں نے 15 مارچ 2013ء کے مینارِنگہبانی میں مضمون ”کیا آپ کے دل میں خدا کو پہچاننے کی خواہش ہے؟“ کو پڑھا تو مجھے احساس ہوا کہ یہوواہ واقعی میری مدد کرنا چاہتا ہے۔“
14. (الف) پولُس رسول کو اُس جنگ کے بارے میں کیا یقین تھا جو وہ اپنے جسم کے خلاف لڑ رہے تھے؟ (ب) ہم اپنی غلط خواہشوں اور خامیوں پر کیسے غالب آ سکتے ہیں؟
14 رومیوں 7:21-25 کو پڑھیں۔ پولُس رسول جانتے تھے کہ اپنی غلط خواہشوں اور خامیوں پر غالب آنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اُنہیں پکا یقین تھا کہ اگر وہ یہوواہ سے مدد مانگیں گے اور یسوع مسیح کی قربانی پر ایمان رکھیں گے تو وہ اِس جنگ کو جیت سکیں گے۔ ہم بھی پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ ہم اپنی غلط خواہشوں اور خامیوں پر غالب آ سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں بھی پولُس رسول کی طرح اپنی طاقت پر نہیں بلکہ یہوواہ خدا کی مدد پر بھروسا کرنا چاہیے اور اِس بات پر پکا یقین رکھنا چاہیے کہ یسوع مسیح کی قربانی کی وجہ سے ہمارے گُناہ معاف ہو سکتے ہیں۔
15. ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ دُعا کرنے سے ہم ثابتقدمی سے حالات کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟
15 کبھی کبھار خدا یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم ایک معاملے کے بارے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہم خود یا ہمارا کوئی رشتےدار کسی سنگین بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو ہمارا ردِعمل کِیا ہوتا ہے؟ اگر ہم یہوواہ خدا پر بھروسا کرتے ہیں تو ہم دُعا کریں گے کہ وہ ہمیں وفادار رہنے کی طاقت دے اور ہماری مدد کرے تاکہ ہم اپنی خوشی کو برقرار رکھیں اور اُس کی قربت میں رہیں۔ (فل 4:13) پولُس کے زمانے میں اور آج بھی بہت سے مسیحیوں نے دیکھا ہے کہ دُعا کرنے سے اُن کو ثابتقدمی سے حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت ملی ہے۔
مخالفوں کا مقابلہ کرتے رہیں
16، 17. آپ کا عزم کیا ہے؟
16 شیطان چاہتا ہے کہ آپ ہار مان کر ہاتھ ڈھیلے چھوڑ دیں۔ اِس لیے اِس ہدایت پر عمل کرنے کا عزم کریں: ”جو باتیں اچھی ہوں، اُن سے چپکے رہیں۔“ (1-تھس 5:21) آپ شیطان، اُس کی دُنیا اور اپنی غلط خواہشوں پر ضرور غالب آ سکتے ہیں۔ لیکن آپ کو اِس بات پر پورا بھروسا رکھنا ہوگا کہ یہوواہ خدا آپ کو اِس جنگ میں جیتنے کی قوت دے سکتا ہے۔—2-کُر 4:7-9؛ گل 6:9۔
17 لہٰذا لڑتے رہیں۔ ثابتقدم رہیں۔ اپنے مخالفوں کا مقابلہ کرتے رہیں۔ اِس بات پر پکا یقین رکھیں کہ یہوواہ ’ہم پر آسمان کے دریچوں کو کھول کر برکت برسائے گا یہاں تک کہ ہمارے پاس اِس کے لئے جگہ نہیں رہے گی۔‘—ملا 3:10۔