-
خدا اور قیصرمینارِنگہبانی—1996ء | 1 جون
-
-
۱۱. پولسؔ نے مسیحیوں کو دُنیاوی حکمرانوں سے کسطرح پیش آنے کی نصیحت کی؟
۱۱ یہ اس بات کی مطابقت میں تھا کہ مسیح کی موت سے کوئی ۲۰ سال سے تھوڑا زیادہ عرصہ بعد، پولسؔ رسول نے رؔوم میں مسیحیوں کو بتایا: ”ہر شخص اعلےٰ حکومتوں کا تابعدار رہے۔“ (رومیوں ۱۳:۱) تقریباً دس سال بعد، اُس کے دوسری مرتبہ قید ہونے اور رؔوم میں اُس کے سزا پانے سے تھوڑا پہلے، پولسؔ نے ططسؔ کو لکھا: ”اُنکو [کرؔیتے کے مسیحیوں کو] یاد دِلا کہ حاکموں اور اختیار والوں کے تابع رہیں اور اُن کا حکم مانیں اور ہر نیک کام کے لئے مستعد رہیں۔ کسی کی بدگوئی نہ کریں۔ تکراری نہ ہوں بلکہ نرممزاج ہوں اور سب آدمیوں کے ساتھ کمال حلیمی سے پیش آئیں۔“—ططس ۳:۱، ۲۔
”اعلےٰ حکومتوں“ کی بابت بتدریج سمجھ
۱۲. (ا) اربابِاختیار کے سلسلے میں مسیحیوں کی موزوں حیثیت کے بارے میں چارلسؔ ٹیز رسل کا کیا نظریہ تھا؟ (ب) مسلح افواج میں ملازمت کرنے کی بابت، ممسوح مسیحیوں نے پہلی عالمی جنگ کے دوران کونسے مختلف خیالات کا اظہار کِیا؟
۱۲ ۱۸۸۶ کے اوائل میں، چارلسؔ ٹیز رسل نے کتاب دی پلان آف دی ایجز میں لکھا: ”نہ تو یسوؔع نہ ہی رسول کسی بھی طریقے سے زمینی حکمرانوں کے ساتھ اُلجھے۔ . . . اُنہوں نے کلیسیا کو قانون کی تابعداری کرنے، اور اربابِاختیار کی اُن کے مرتبے کی وجہ سے عزت کرنے، . . . اُن کے مقررکردہ ٹیکس ادا کرنے، اور ماسوائے جہاں وہ خدا کے قوانین سے ٹکراتے تھے (اعمال ۴:۱۹؛ ۵:۲۹) کسی بھی قائمکردہ قانون کی مزاحمت نہ کرنے کی تعلیم دی۔ (رومیوں ۱۳:۱-۷؛ متی ۲۲:۲۱) یسوؔع اور رسول اور ابتدائی کلیسیا تمام کے تمام قانون کی پابندی کرتے تھے، اگرچہ وہ منفصل اور اس دُنیا کی حکومتوں میں کسی قسم کا حصہ نہیں لیتے تھے۔“ اس کتاب نے موزوں طور پر پولسؔ رسول کے متذکرہ ”اعلیٰ اختیار والوں،“ یا ”اعلےٰ حکومتوں“ کی شناخت بطور انسانی حکومتی اربابِاختیار کے کروائی۔ (رومیوں ۱۳:۱، کنگ جیمز ورشن) ۱۹۰۴ میں کتاب دی نیو کریئشن نے بیان کِیا کہ سچے مسیحیوں کو ”دورِحاضر کے سب سے زیادہ قانون کی پابندی کرنے والوں میں شامل ہونا چاہئے—نہ تخریبکاروں میں، نہ فسادیوں میں، نہ نقادوں میں۔“ بعض نے اسے یوں سمجھا کہ اس کا مطلب پہلی عالمی جنگ کے دوران مسلح افواج میں ملازمت قبول کرنے کی حد تک اختیار والوں کی مکمل اطاعت کرنا ہے۔ تاہم، دیگر نے اسے یسوؔع کے اس بیان کے برعکس خیال کِیا: ”جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے۔“ (متی ۲۶:۵۲) ظاہر ہے کہ اعلیٰ حکومتوں کے لئے مسیحی تابعداری کی بابت واضح سمجھ درکار تھی۔
۱۳. ۱۹۲۹ میں اعلیٰ اختیار والوں کی شناخت کی بابت سمجھ میں کونسی تبدیلی پیش کی گئی، اور یہ کیسے فائدہمند ثابت ہوئی؟
۱۳ ۱۹۲۹ میں، ایک وقت پر جب مختلف حکومتوں کے قوانین ایسی چیزوں کو منع کرنا جنکا خدا حکم دیتا ہے یا ایسی چیزوں کا تقاضا کرنا شروع کر رہے تھے جنکو خدا منع کرتا ہے تو یہ محسوس کِیا گیا کہ اعلیٰ اختیار کے مالک یہوؔواہ خدا اور یسوؔع مسیح کو ہونا چاہئے۔b دوسری عالمی جنگ سے پہلے کے نازک دَور، اور پھر سرد جنگ، اس کے عسکری توازن، اور اس کی فوجی تیاری کرنے کے دوران یہوؔواہ کے گواہ یہی سمجھ رکھتے تھے۔ ماضی پر نگاہ ڈالتے ہوئے، یہ ضرور کہا جانا چاہئے کہ چیزوں کی بابت اس نظریے نے، یہوؔواہ اور اُس کے مسیح کے اقتدارِاعلیٰ کو سربلند کرتے ہوئے، اس مشکل دَور میں غیرمصالحانہ طور پر غیرجانبدارانہ مؤقف اختیار کرنے کے لئے خدا کے لوگوں کی مدد کی۔
نسبتی تابعداری
۱۴. ۱۹۶۲ میں رومیوں ۱۳:۱، ۲ اور متعلقہ صحائف پر کیسے اضافی روشنی ڈالی گئی؟
۱۴ ۱۹۶۱ میں نیو ورلڈ ٹرانسلیشن آف دی ہولی سکرپچرز کو مکمل کر لیا گیا۔ اس کی تیاری کے لئے صحائف کی اصلی زبان کے گہرے مطالعے کی ضرورت تھی۔ نہ صرف رومیوں ۱۳ باب میں استعمال ہونے والے الفاظ کے بلکہ ططس ۳:۱، ۲ اور ۱-پطرس ۲:۱۳، ۱۷ جیسے اقتباسات میں استعمال ہونے والے الفاظ کے درست ترجمے نے واضح کر دیا کہ اصطلاح ”اعلےٰ حکومتوں“ یہوؔواہ اور اُس کے بیٹے یسوؔع کے اعلیٰ اختیار کا نہیں بلکہ انسانی حکومتی اختیار کا حوالہ دیتی ہے۔ ۱۹۶۲ کے آخر میں، دی واچٹاور میں ایسے مضامین شائع کئے گئے جنہوں نے رومیوں ۱۳ باب کی درست وضاحت پیش کی اور اُس نظریے کی زیادہ واضح سمجھ بھی فراہم کی جو سی. ٹی. رسلؔ کے وقت میں مروّج تھا۔ ان مضامین نے نشاندہی کی کہ حکومتوں کے لئے مسیحی تابعداری کُلی نہیں ہو سکتی۔ اسے نسبتی ہونا چاہئے، بشرطیکہ خدا کے خادموں کو خدا کے قوانین سے متصادم نہ کرائے۔ دی واچٹاور میں مزید مضامین نے اس اہم نکتے پر زور دیا ہے۔c
۱۵، ۱۶. (ا) رومیوں ۱۳ باب کی نئی سمجھ کونسے بہتر متوازن نظریے کا باعث بنی ہے؟ (ب) کونسے سوالات کا جواب دیا جانا باقی ہے؟
۱۵ رومیوں ۱۳ باب کی درست سمجھ کی اس کُنجی نے یہوؔواہ کے لوگوں کو اہم صحیفائی اصولوں پر ایک غیرمصالحانہ مؤقف کے ساتھ سیاسی حکومتوں کے لئے واجب احترام کو متوازن کرنے کے قابل بنایا ہے۔ (زبور ۹۷:۱۱؛ یرمیاہ ۳:۱۵) اس چیز نے اُن کو خدا کے ساتھ اپنے رشتے اور حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کی بابت ایک موزوں نظریہ اپنانے کا موقع فراہم کِیا ہے۔ اس نے یقین دلایا ہے کہ جب وہ قیصر کی چیزیں قیصر کو ادا کرتے ہیں تو وہ خدا کی چیزیں خدا کو ادا کرنے کے سلسلے میں غفلت سے کام نہ لیں۔
-
-
خدا اور قیصرمینارِنگہبانی—1996ء | 1 جون
-
-
دلچسپی کی بات ہے کہ رومیوں ۱۳ باب پر اپنی تفسیر میں، پروفیسر ایف. ایف. برؔوس لکھتے ہیں: ”اصلی اقتباس سے صاف ظاہر ہے، جیسےکہ رسولی نوشتوں کے عام اقتباس سے ظاہر ہے، کہ حکومت صرف اُن مقاصد کی حدود میں درست طور پر فرمانبرداری کی مستحق ہو سکتی ہے جن کے لئے اسے الہٰی طور پر قائم کِیا گیا ہے—بالخصوص، نہ صرف حکومت کی مزاحمت کی جانی چاہئے، بلکہ ضرور مزاحمت کی جانی چاہئے جب یہ اُس تابعداری کا تقاضا کرے جو صرف خدا کے لئے واجب ہے۔“
-