دلیر بنیں!
”دلیری سے کہیں: ”یہوواہ میرا مددگار ہے۔““—عبرانیوں ۱۳:۶، اینڈبلیو ۔
۱. جنہوں نے پہلی صدی س۔ع۔ میں خدا کی سچائی کو سیکھا انہوں نے کیا دلیری دکھائی تھی؟
یہ ہمارے سن عام کی پہلی صدی تھی۔ جس مسیحا کی طویل عرصے سے راہ دیکھی جا رہی تھی آ چکا تھا۔ وہ اپنے شاگردوں کو خوب تعلیم دے چکا تھا اور منادی کرنے کے اہم کام کو شروع کر چکا تھا۔ اب وقت تھا کہ لوگ خدا کی بادشاہت کی خوشخبری سنیں۔ لہذا، جو مردوزن سچائی سیکھ چکے تھے انہوں نے اس شاندار پیغام کا دلیری سے اعلان کیا۔—متی ۲۸:۱۹، ۲۰۔
۲. آجکل یہوواہ کے گواہوں کو دلیری کی ضرورت کیوں ہے؟
۲ بادشاہت ان دنوں میں قائم نہیں ہوئی تھی۔ لیکن نامزدبادشاہ، یسوع مسیح، بادشاہی اختیار میں اپنی آئندہ نادیدنی موجودگی کے متعلق پیشینگوئی کر چکا تھا۔ اسکی بنظیر جنگوں، قحطسالی، وباؤں، زلزلوں، اور خوشخبری کی عالمگیر منادی جیسی چیزوں سے نشاندہی ہونی تھی۔ (متی ۲۴:۳-۱۴، لوقا ۲۱:۱۰، ۱۱) یہوواہ کے گواہوں کے طور پر، ہمیں ایسی حالتوں اور اذیت کا سامنا کرنے کیلئے دلیری کی ضرورت ہے جسکا ہم تجربہ کرتے ہیں۔ اسلئے پہلی صدی س۔ع۔ کے جراتمند بادشاہتی منادوں کی بابت بائبل سرگزشتوں پر غوروخوض کرنا فائدہمند ہوگا۔
مسیح کی نقل کرنے کیلئے دلیری
۳. دلیری کا بہترین نمونہ کون فراہم کرتا ہے، اور اسکی بابت عبرانیوں ۱۲:۱-۳ میں کیا کہا گیا تھا؟
۳ یسوع مسیح دلیری کی بہترین مثال فراہم کرتا ہے۔ مسیحیوں سے قبل یہوواہ کے دلیر گواہوں کے ”بڑے بادل“ کا ذکر کرنے کے بعد، پولس رسول نے یہ کہتے ہوئے یسوع پر توجہ مرکوز کرائی: ”پس جب کہ گواہوں کا ایسا بڑا بادل ہمیں گھیرے ہوئے ہے تو آؤ ہم بھی ہر ایک بوجھ اور اس گناہ کو جو ہمیں آسانی سے الجھا لیتا ہے دور کرکے اس دوڑ میں صبر سے دوڑیں جو ہمیں درپیش ہے۔ اور ایمان کے بانی اور کامل کرنے والے یسوع کو تکتے رہیں جس نے اس خوشی کیلئے جو اسکی نظروں کے سامنے تھی شرمندگی کی پروا نہ کرکے صلیب [سولی، این ڈبلیو] کا دکھ سہا اور خدا کے تخت کی دہنی طرف جا بیٹھا۔ پس اس پر غور کرو جس نے اپنے حق میں برائی کرنے والے گنہگاروں کی اس قدر مخالفت کی برداشت کی تاکہ تم بےدل ہو کر ہمت نہ ہارو۔“—عبرانیوں ۱۲:۱-۳۔
۴. جب شیطان نے یسوع کو آزمایا تو یسوع نے کیسے دلیری دکھائی؟
۴ اپنے بپتسمے اور بیابان میں ۴۰ دنوں کی غوروفکر، دعا، اور فاقہکشی کے بعد، یسوع نے دلیری سے شیطان کا مقابلہ کیا۔ پتھروں کو روٹی میں بدلنے کیلئے ابلیس سے آزمائے جانے پر، یسوع نے انکار کیا کیونکہ ذاتی خواہش کو پورا کرنے کیلئے ایک معجزہ کرنا غلط تھا۔ ”لکھا ہے،“ یسوع نے کہا، ”آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہیگا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے۔“ جب شیطان نے اسے ہیکل کے کنگرے سے چھلانگ لگانے کیلئے چیلنج کیا تو یسوع نے انکار کر دیا کیونکہ امکانی خودکشی سے اسے بچانے کیلئے خدا کو آزمانا ایک گناہ ہوتا۔ ”یہ بھی لکھا ہے،“ مسیح نے بیان کیا، ”تو خداوند اپنے خدا کی آزمایش نہ کر۔“ شیطان نے اسے صرف ایک ”سجدے“ کی خاطر دنیا کی تمام سلطنتوں کی پیشکش کی، لیکن یسوع ایمان سے برگشتہ نہ ہوا اور نہ ہی ابلیس کے اس چیلنج کی حمایت کی کہ انسان آزمائش کے تحت خدا کے وفادار نہیں رہتے۔ لہذا یسوع نے بیان کیا: ”اے شیطان دور ہو کیونکہ لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اسی کی عبادت کر۔“ اس پر، آزمانے والا ”اسکے پاس سے چلا گیا۔“—متی ۴:۱-۱۱، لوقا ۴:۱۳۔
۵. آزمائش کا مقابلہ کرنے کیلئے کیا چیز ہماری مدد کر سکتی ہے؟
۵ یسوع یہوواہ کی تابعداری میں تھا اور شیطان کا مخالف تھا۔ اسی طرح اگر ہم بھی ”خدا کے تابع ہو جائیں اور ابلیس کا مقابلہ کریں تو وہ ہم سے بھاگ جائیگا۔“ (یعقوب ۴:۷) اگر ہم صحائف کا اطلاق کرتے ہیں، تو شاید کوئی گنہگارانہ کام کرنے کیلئے آزمائے جانے کے وقت انکا حوالہ دینے سے، یسوع کی طرح ہم بھی دلیری سے آزمایش کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ کیا یہ اغلب ہے کہ ہم چوری کرنے کی آزمایش کے سامنے جھک جائیں گے، اگر ہم اس وقت پر خدا کے آئین کو دہراتے ہیں: ”تو چوری نہ کرنا۔“؟ کیا دو مسیحی ممکنہ طور پر جنسی بداخلاقی کا شکار ہو سکتے ہیں اگر ان میں سے ایک ہی دلیری سے ان الفاظ کا حوالہ دیتا ہے: ”تو زنا نہ کرنا۔“؟—رومیوں ۱۳:۸-۱۰، خروج ۲۰:۱۴، ۱۵۔
۶. یسوع ایک دلیر عالمی فاتح کیسے تھا؟
۶ جبکہ یہ دنیا مسیحیوں سے نفرت کرتی ہے تو ہم اسکی روح اور گنہگارانہ طرزعمل سے بچ سکتے ہیں۔ یسوع نے اپنے پیروکاروں کو بتایا: ”دنیا میں مصیبت اٹھاتے ہو لیکن خاطر جمع رکھو میں دنیا پر غالب آیا ہوں۔“ (یوحنا ۱۶:۳۳) اس نے دنیا کی مانند نہ بننے سے اس پر فتح پائی تھی۔ فاتح کے طور پر اسکا نمونہ اور راستی پر چلنے والی اسکی روش کا انجام ہمیں دلیری سے معمور کر سکتا ہے کہ اس دنیا سے الگ رہنے اور اس سے آلودہ نہ ہونے سے اسکی نقل کریں۔—یوحنا ۱۷:۱۶۔
منادی کرتے رہنے کیلئے دلیری
۷، ۸. اذیت کے باوجود کیا چیز منادی کو جاری رکھنے میں ہماری مدد کریگی؟
۷ یسوع اور اسکے شاگردوں نے اذیت کے باوجود منادی کو جاری رکھنے کیلئے دلیری کی خاطر خدا پر تکیہ کیا۔ مسیح نے اذیت کے باوجود نڈر ہو کر اپنی خدمتگزاری کو پورا کیا، اور ۳۳ س۔ع۔ کے پنتکست کے بعد، اسکے اذیتیافتہ پیروکاروں نے خوشخبری کے اعلان کرنے کو جاری رکھا اگرچہ یہودی مذہبی لیڈروں نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ (اعمال ۴:۱۸-۲۰، ۵:۲۹) شاگردوں نے دعا کی: ”اب اے خداوند! انکی دھمکیوں کو دیکھ اور اپنے بندوں کو یہ توفیق دے کہ وہ تیرا کلام کمال دلیری کے ساتھ سنائیں۔“ اور کیا واقع ہوا؟ ”جب وہ دعا کر چکے تو جس مکان میں جمع تھے وہ ہل گیا اور وہ سب روحالقدس سے بھر گئے اور خدا کا کلام دلیری سے سناتے رہے۔“—اعمال ۴:۲۴-۳۱۔
۸ چونکہ آجکل لوگوں کی اکثریت خوشخبری سے اثرپذیر نہیں، اسلئے منادی کو جاری رکھنے کیلئے اکثر دلیری کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر جب ستائے جاتے ہیں تو پوری طرح گواہی دینے کیلئے یہوواہ کے خادموں کو خداداد حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ (اعمال ۲:۴۰، ۲۰:۲۴) اسلئے دلیر بادشاہتی مناد پولس نے ایک جوان، کم تجربہکار ساتھی کارکن کو بتایا: ”کیونکہ خدا نے ہمیں دہشت کی روح نہیں بلکہ قدرت اور محبت اور تربیت کی روح دی ہے۔ پس ہمارے خداوند کی گواہی دینے سے اور مجھ سے جو اسکا قیدی ہوں شرم نہ کر بلکہ خدا کی قدرت کے موافق خوشخبری کی خاطر میرے ساتھ دکھ اٹھا۔“ (۲-تیمتھیس ۱:۷، ۸) اگر ہم دلیری کے لئے دعا کریں، تو ہم منادی کرتے رہنے کے قابل ہونگے، اور اذیت بھی بادشاہتی منادوں کے طور پر ہمیں ہماری خوشی سے محروم نہیں کریگی۔—متی ۵:۱۰-۱۲۔
یہوواہ کی حمایت کرنے کیلئے دلیری
۹، ۱۰. (ا) پہلی صدی کے یہودیوں اور غیرقوم لوگوں نے مسیح کے پیروکار بننے کیلئے کیا کیا؟ (ب) ایک مسیحی بننے کیلئے دلیری کیوں درکار تھی؟
۹ پہلی صدی کے بہتیرے یہودیوں اور غیرقوم لوگوں نے مسیح کے بپتسمہیافتہ پیروکار بننے کیلئے دلیری سے غیرصحیفائی روایات کو ترک کر دیا۔ ۳۳ س۔ع۔ کے پنتکست کے تھوڑا بعد، ”یروشلیم میں شاگردوں کا شمار بہت ہی بڑھتا گیا اور کاہنوں کی بڑی گروہ اس دین کے تحت میں ہو گئی۔“ (اعمال ۶:۷) وہ یہودی مذہبی بندھنوں کو توڑنے اور یسوع کو مسیحا کے طور پر قبول کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔
۱۰ ۳۶ س۔ع۔ کے شروع سے بہتیرے غیرقوم لوگ ایمان لے آئے۔ جب کرنیلیس، اسکے خاندان کے افراد، اور دوسرے غیرقوم لوگوں نے خوشخبری کو سنا، تو انہوں نے بلاتاخیر اسے قبول کر لیا، روحالقدس حاصل کی، اور ”انہیں یسوع مسیح کے نام سے بپتسمہ دیا“ گیا۔ (اعمال ۱۰:۱-۴۸) فلپی میں ایک غیرقوم جیلر اور اسکے گھرانے نے فوری طور پر مسیحیت کو قبول کر لیا، اور ”اسی وقت اپنے سب لوگوں سمیت بپتسمہ لیا۔“ (اعمال ۱۶:۲۵-۳۴) ایسے اقدام اٹھانے کیلئے حوصلہ درکار تھا کیونکہ مسیحی ایک ستائی ہوئی، ناپسندیدہ اقلیت تھے۔ وہ ابھی تک ہیں۔ لیکن اگر آپ نے خدا کیلئے مخصوصیت نہیں کی اور یہوواہ کے گواہوں میں سے ایک کے طور پر بپتسمہ نہیں لیا ہے، تو کیا آپ کیلئے یہ دلیرانہ اقدام اٹھانے کا وقت نہیں ہے؟
منقسم گھرانوں میں دلیری
۱۱. یونیکے اور تیمتھیس نے دلیری کی کونسی عمدہ مثالیں فراہم کیں؟
۱۱ یونیکے اور اسکے بیٹے تیمتھیس نے مذہبی طور پر منقسم گھرانے میں دلیرانہ ایمان کے عمدہ نمونے قائم کئے۔ اگرچہ یونیکے کا خاوند بتپرست تھا، تو بھی اس نے اپنے بیٹے کو بچپن سے ”پاک نوشتوں“ کی تعلیم دی۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۴-۱۷) ایک مسیحی بننے پر، اس نے ”بےریا ایمان“ ظاہر کیا۔ (۲-تیمتھیس ۱:۵) اپنے بےایمان شوہر کی سرداری کیلئے احترام دکھاتے ہوئے وہ تیمتھیس کو مسیحی تعلیم دینے کا حوصلہ بھی رکھتی تھی۔ یقینی طور پر، اسے اسکے ایمان اور دلیری کا صلہ مل گیا جب اسکے خوب تربیتیافتہ بیٹے کو پولس کے ساتھ مشنری دوروں پر جانے کیلئے منتخب کر لیا گیا تھا۔ یہ ان مسیحی والدین کیلئے کتنا حوصلہافزا ہو سکتا ہے جو خود کو ایسے ہی حالات میں پاتے ہیں!
۱۲. تیمتھیس کس قسم کا شخص بنا، اور اب کون اسکی مانند ثابت ہو رہے ہیں؟
۱۲ اگرچہ تیمتھیس مذہبی طور پر منقسم گھرانے میں رہتا تھا، تو بھی اس نے دلیری کے ساتھ مسیحیت کو قبول کیا اور ایک روحانی شخص بن گیا جسکی بابت پولس کہہ سکتا تھا: ”مجھے خداوند یسوع میں امید ہے کہ تمیتھیس کو تمہارے [فلپیوں] پاس جلد بھیجونگا تاکہ تمہارا احوال دریافت کرکے میری بھی خاطر جمع ہو۔ کیونکہ کوئی ایسا ہمخیال [اس جیسے خیال والا، اینڈبلیو ] میرے پاس نہیں جو صافدلی سے تمہارے لئے فکرمند ہو۔ ... لیکن تم اسکی پختگی سے واقف ہو کہ جیسے بیٹا باپ کی خدمت کرتا ہے ویسے ہی اس نے میرے ساتھ خوشخبری پھیلانے میں خدمت کی۔“ (فلپیوں ۲:۱۹-۲۲) آجکل، مذہبی طور پر منقسم گھرانوں سے بہتیرے لڑکے اور لڑکیاں نڈر ہو کر مسیحیت کو قبول کرتے ہیں۔ تیمتھیس کی طرح وہ اپنی پختگی کا ثبوت دے رہے ہیں، اور ہم کسقدر خوش ہیں کہ وہ یہوواہ کی تنظیم کا حصہ ہیں!
”اپنے سر دینے“ کیلئے دلیری
۱۳. اکولہ اور پرسکلہ نے کس طریقے سے دلیری دکھائی؟
۱۳ اکولہ اور اسکی بیوی پرسکلہ (پرسکہ) نے ایک ساتھی ایماندار کیلئے دلیری سے ”اپنے سر دے رکھنے“ سے ایک نمونہ قائم کیا۔ انہوں نے پولس کو اپنے گھر میں اتارا، اسکے ساتھ خیمہدوزی کا کام کیا، اور کرنتھس میں ایک نئی کلیسیا قائم کرنے کیلئے اسکی مدد کی۔ (اعمال ۱۸:۱-۴) اپنی ۱۵ سالہ دوستی کے دوران، انہوں نے اسکی خاطر اپنی زندگیوں کو ایک غیرپوشیدہ طریقے سے خطرے میں ڈالا۔ وہ روم میں رہتے تھے جب اس نے وہاں کے مسیحیوں کو بتایا: ”پرسکہ اور اکولہ سے میرا سلام کہو۔ وہ مسیح یسوع میں میرے ہمخدمت ہیں۔ انہوں نے میری جان کیلئے اپنا سر دے رکھا تھا اور صرف میں ہی نہیں بلکہ غیرقوموں کی سب کلیسیائیں بھی انکی شکرگذار ہیں۔“—رومیوں ۱۶:۳، ۴۔
۱۴. پولس کیلئے اپنے سر دینے سے، اکولہ اور پرسکہ کس حکم کی مطابقت میں عمل کر رہے تھے؟
۱۴ پولس کیلئے اپنے سر دینے سے، اکولہ اور پرسکہ نے یسوع کے الفاظ کی مطابقت میں عمل کیا: ”میں تمہیں ایک نیا حکم دیتا ہوں کہ ایکدوسرے سے محبت رکھو کہ جیسے میں نے تم سے محبت رکھی تم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔“ (یوحنا ۱۳:۳۴) یہ حکم اس لحاظ سے ”نیا“ تھا کہ یہ موسوی شریعت کے تقاضے سے آگے نکل گیا تھا کہ ایک شخص اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھے۔ (احبار ۱۹:۱۸) اس نے خودایثار محبت کا مطالبہ کیا جو اس حد تک جائیگی کہ کوئی دوسروں کیلئے اپنی جان دیدے، جیسے یسوع نے دی۔ دوسری اور تیسری صدی س۔ع۔ کے مصنف ٹرٹولین نے مسیحیوں کی بابت دنیاوی لوگوں کے الفاظ کا حوالہ دیا جب اس نے لکھا: ”دیکھیں، وہ کہتے ہیں، کہ وہ ایک دوسرے کیلئے کتنی محبت رکھتے ہیں۔ ... اور کیسے وہ ایکدوسرے کی خاطر مرنے کیلئے بھی تیار ہیں۔“ (اپالوجی، باب XXXIX [۳۹]، ۷) خاص طور پر اذیت کے وقت میں ہم دلیری سے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں تاکہ دشمنوں کے ہاتھوں اپنے ہمایمانوں کو سفاکی اور موت کے خطرے میں ڈالنے سے گریز کریں۔—۱-یوحنا ۳:۱۶۔
دلیری خوشی لاتی ہے
۱۵، ۱۶. جیسے کہ اعمال ۱۶ باب میں ظاہر کیا گیا ہے، دلیری اور خوشی کو کیسے جوڑا جا سکتا ہے؟
۱۵ پولس اور سیلاس نے شہادت فراہم کی کہ آزمائشوں کے دوران دلیری دکھانا خوشی لا سکتا ہے۔ فلپی کے شہر کے فوجداری کے حاکموں کے حکم پر، انہیں سب کے سامنے بینت لگوائے گئے تھے اور قیدخانہ میں انکے پاؤں کاٹھ میں ٹھونک دئے گئے تھے۔ تو بھی مایوس ہو کر ڈر کے مارے جھک نہ گئے۔ اپنے مشکل حالات کے باوجود وہ ڈر کے مارے بددل اور مایوس نہیں ہوئے تھے، تاہم انہیں خداداد دلیری اور وہ خوشی حاصل تھی جو یہ وفادار مسیحیوں کو دیتی ہے۔
۱۶ آدھی رات کے قریب، پولس اور سیلاس دعا کر رہے تھے اور خدا کی حمد کے گیت گا رہے تھے۔ یکایک ایک بھونچال نے قیدخانہ کو ہلا کر رکھ دیا، انکی بیڑیاں کھول دیں، اور دروازے کھول دئے۔ خوفزدہ داروغے اور اسکے خاندان کو دلیرانہ گواہی دی گئی جو یہوواہ کے خادموں کے طور پر انکے بپتسمے کا سبب بنی۔ اس نے خود ”اپنے سارے گھرانے سمیت خدا پر ایمان لا کر بڑی خوشی کی۔“ (اعمال ۱۶:۱۶-۳۴) اس سے پولس اور سیلاس کو کتنی خوشی ملی ہوگی! دلیری کی اس اور دوسری صحیفائی مثالوں پر غور کرنے کے بعد ہم یہوواہ کے خادموں کے طور پر کیسے دلیر رہ سکتے ہیں؟
دلیر بنے رہیں
۱۷. جیسے کہ زبور ۲۷ میں ظاہر کیا گیا ہے، یہوواہ پر آس رکھنا دلیری سے کیسے منسلک ہے؟
۱۷ یہوواہ پر امید رکھنا دلیر بننے میں ہماری مدد کریگا۔ داؤد نے گیت گایا: ”خداوند کی آس رکھ۔ مضبوط ہو اور تیرا دل قوی ہو۔ ہاں خداوند ہی کی آس رکھ۔“ (زبور ۲۷:۱۴) زبور ۲۷ ظاہر کرتا ہے کہ داؤد نے یہوواہ پر اپنی زندگی کے ”پشتے“ کے طور پر توکل رکھا۔ (آیت ۱) یہ دیکھنے سے کہ خدا نے ماضی میں داؤد کے دشمنوں کیساتھ کیسا سلوک کیا اس کو حوصلہ ملا۔ (۲، ۳ آیات) یہوواہ کی پرستش کے مرکز کیلئے قدردانی ایک اور پہلو تھا۔ (۴ آیت) یہوواہ کی مدد، تحفظ، اور رہائی پر بھروسہ رکھنے سے بھی داؤد کے حوصلے کو تقویت ملی۔ (۵-۱۰ آیات) یہوواہ کی راست راہ کے اصولوں میں باقاعدہ تعلیم بھی مفید تھی۔ (۱۱ آیت) اپنے دشمنوں سے رہائی کیلئے پراعتماد دعا نے ایمان اور امید کے ساتھ داؤد کو دلیر رہنے میں مدد دی۔ (۱۲-۱۴ آیات) پس یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ ہم واقعی ”خداوند کی آس“ رکھتے ہیں، ایسے ہی طریقوں سے ہم اپنی دلیری کو بڑھا سکتے ہیں۔
۱۸. (ا) کیا ظاہر کرتا ہے کہ ساتھی یہوواہ کے پرستاروں کے ساتھ باقاعدہ رفاقت دلیر بننے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟ (ب) مسیحی اجلاس دلیری پیدا کرنے کیلئے کیا کردار ادا کرتے ہیں؟
۱۸ یہوواہ کے ساتھی پرستاروں کے ساتھ باقاعدہ رفاقت دلیر رہنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے۔ جب پولس نے قیصر کے ہاں اپیل کی اور روم کی طرف جا رہا تھا تو ساتھی ایماندار اسے اپیس کے چوک اور تین سرای میں ملے۔ سرگزشت بیان کرتی ہے کہ ”پولس نے انہیں دیکھکر خدا کا شکر کیا اور اسکی خاطر جمع ہوئی۔“ (اعمال ۲۸:۱۵) جب ہم باقاعدگی سے مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہوتے ہیں، تو ہم پولس کی اس مشورت کو سنتے ہیں: ”محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے کیلئے ایک دوسرے کا لحاظ رکھیں۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہونے سے باز نہ آئیں جیسا بعض لوگوں کا دستور ہے بلکہ ایک دوسرے کو نصیحت کریں اور جس قدر اس دن کو نزدیک ہوتے ہوئے دیکھتے ہو اسی قدر زیادہ کیا کرو۔“ (عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵) ایکدوسرے کی حوصلہافزائی کرنے کا کیا مطلب ہے؟ حوصلہافزائی کرنے کا مطلب، ”دلیری، جذبے، یا امید کیساتھ جوش پیدا کرنا ہے۔“ (ویبسٹرز نائنتھ نیو کالجیٹ ڈکشنری) ہم دلیری کے ساتھ دوسرے مسیحیوں میں جوش پیدا کرنے کیلئے بہت کچھ کر سکتے ہیں، اور انکی حوصلہافزائی اسی طرح سے ہمارے اندر اس خوبی کو پیدا کر سکتی ہے۔
۱۹. صحائف اور مسیحی مطبوعات کس طرح ہمارے دلیر بننے کیساتھ کیا تعلق رکھتی ہیں؟
۱۹ دلیر رہنے کیلئے، ہمیں چاہیے کہ باقاعدگی سے خدا کے کلام کا مطالعہ کریں اور اپنی زندگیوں میں اسکی مشورت کو عائد کریں۔ (استثنا ۳۱:۹-۱۲، یشوع ۱:۸) ہمارے باقاعدہ مطالعے میں صحائف پر مبنی مسیحی مطبوعات کو شامل ہونا چاہیے، کیونکہ اس طرح فراہمکردہ پختہ نصیحت خداداد دلیری کے ساتھ ایمان کی آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ہماری مدد کریگی۔ بائبل سرگزشتوں سے، ہم نے دیکھ لیا ہے کہ کسطرح یہوواہ کے خادم مختلف حالتوں میں دلیر رہے ہیں۔ اب اس وقت، شاید ہمیں معلوم نہ ہو کہ ایسی معلومات کیسے ہماری مدد کر سکتی ہیں، لیکن خدا کا کلام قوت رکھتا ہے، اور جو کچھ ہم اس سے سیکھتے ہیں وہ ہمیشہ ہمیں فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ (عبرانیوں ۴:۱۲) مثال کے طور پر، اگر انسان کا خوف ہماری خدمتگزاری پر اثرانداز ہونے لگتا ہے تو ہم یاد رکھ سکتے ہیں کہ کسطرح حنوک بیدین لوگوں کو خدا کا پیغام سنانے کی دلیری رکھتا تھا۔—یہوداہ ۱۴، ۱۵۔
۲۰. یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہمیں یہوواہ کے خادموں کے طور پر دلیر بننا ہے تو دعا نہایت اہم ہے؟
۲۰ یہوواہ کے خادموں کے طور پر دلیر بننے کیلئے، ہمیں دعا میں مشغول رہنا چاہیے۔ (رومیوں ۱۲:۱۲) یسوع نے دلیری کے ساتھ اپنی آزمائشوں کی برداشت کی کیونکہ اس نے ”زور زور سے پکار کر اور آنسو بہا بہا کر اسی سے دعائیں اور التجائیں کیں جو اسکو موت سے بچا سکتا تھا اور خداترسی کے سبب سے اسکی سنی گئی۔“ (عبرانیوں ۵:۷) دعا میں خدا کی قربت میں رہنے سے، ہم دنیاوی ہجوموں کی مانند نہیں ہونگے جنکو ”دوسری موت“ کا تجربہ کرنا ہوگا جس سے کوئی قیامت نہیں۔ (مکاشفہ ۲۱:۸) الہی تحفظ اور خدا کی نئی دنیا میں زندگی اسکے دلیر خادموں کیلئے محفوظ ہیں۔
۲۱. یہوواہ کے وفادار گواہ کیوں دلیر بن سکتے ہیں؟
۲۱ یہوواہ کے وفادار گواہوں کے طور پر، ہمیں شیطانی اور انسانی دشمنوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ہمارے پاس خدا کی حمایت اور دنیا پر غالب آنے والے کے طور پر یسوع کا دلیرانہ نمونہ موجود ہے۔ اسی طرح سے یہوواہ کے لوگوں کے ساتھ روحانی طور پر تعمیری رفاقت دلیر ہونے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ ہماری دلیری صحائف اور مسیحی مطبوعات کی راہنمائی اور مشورت کے ذریعے بھی فروغ پاتی ہے۔ اور ماضی کے خدا کے خادموں کی بائبل سرگزشتیں اسکی راہوں میں دلیری سے چلنے کیلئے ہماری مدد کرتی ہیں۔ اسلئے، ان برے آخری ایام میں، آئیے ہم پاک خدمت میں دلیری کے ساتھ آگے بڑھیں، جیہاں، یہوواہ کے تمام لوگ دلیر بنیں! (۱۷ ۱۱/۱۵ ۹۳w)
آپ کیسے جواب دینگے؟
▫ یسوع کا نمونہ ہمیں دلیری سے کیسے معمور کر سکتا ہے؟
▫ کس چیز نے یسوع اور اسکے شاگردوں کو منادی کرتے رہنے کی دلیری دی؟
▫ یہودیوں اور غیرقوم لوگوں کو یہوواہ کی حمایت کرنے کیلئے دلیری کی کیوں ضرورت تھی؟
▫ یونیکے اور تیمتھیس نے دلیری کے کونسے نمونے فراہم کئے گئے تھے؟
▫ اسکی کیا شہادت ہے کہ دلیری اذیت میں بھی خوشی لاتی ہے؟
[تصویر]
اگر ہم صحائف کا اطالاق کرتے اور حوالہ دیتے ہیں تو یسوع کی طرح، ہم آزمائش کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔