”مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“ کے حوالے
4-10 مارچ
پاک کلام سے سنہری باتیں | رومیوں 12-14
”مسیح جیسی محبت ظاہر کرنے کا کیا مطلب ہے؟“
(رومیوں 12:10) ایک دوسرے سے بہن بھائیوں کی طرح پیار کریں۔ ایک دوسرے کی عزت کرنے میں پہل کریں۔
ایک دوسرے سے بہن بھائیوں کی طرح پیار کرنے کا عزم کریں
ایک دوسرے سے بہن بھائیوں کی طرح پیار کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟ عبرانیوں 13:1 میں پولُس رسول نے یونانی لفظ ”فِلدلفیہ“ اِستعمال کِیا جو ایسے گہرے لگاؤ یا اپنائیت کی طرف اِشارہ کرتا ہے جو خاندان کے افراد یا قریبی دوستوں میں پائی جاتی ہے۔ (یوح 11:36) ہم بہن بھائی ہونے کا صرف دعویٰ نہیں کرتے بلکہ ہم میں واقعی بہن بھائیوں جیسی اپنائیت ہے۔ (متی 23:8) خدا کے خادموں کے آپسی لگاؤ کو بائبل میں یوں بیان کِیا گیا ہے: ”برادرانہ محبت سے آپس میں ایک دوسرے کو پیار کرو۔ عزت کے رُو سے ایک دوسرے کو بہتر سمجھو۔“ (روم 12:10) جب ہم ایسی اپنائیت اور لگاؤ کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے بےلوث محبت (یونانی میں ”اگاپے“) بھی کرتے ہیں تو ہمارا اِتحاد اور دوستی بڑھتی ہے۔
ایک عالم کے مطابق ”اِصطلاح ”بہن بھائیوں جیسی محبت“ دوسری ادبی کتابوں کی نسبت مسیحی کتابوں میں کہیں زیادہ اِستعمال ہوتی ہے۔“ ماضی میں یہودی لوگ لفظ ”بھائی“ قریبی رشتےداروں کے لیے یا کبھی کبھار اُس شخص کے لیے اِستعمال کرتے تھے جو اُن کی قوم کا ہوتا تھا۔ وہ یہ لفظ کبھی بھی غیریہودیوں کے لیے اِستعمال نہیں کرتے تھے۔ لیکن یہوواہ کے بندوں کے طور پر ہم سب بھائی ہیں، چاہے ہمارا تعلق کسی بھی ملک یا قوم سے ہو۔ (روم 10:12) یہوواہ خدا نے ہمیں ایک دوسرے سے محبت کرنا سکھایا ہے۔ (1-تھس 4:9) لیکن ایک دوسرے سے محبت کرتے رہنا اِتنا ضروری کیوں ہے؟
(رومیوں 12:17-19) بُرائی کے بدلے بُرائی نہ کریں۔ وہ کام کریں جو سب لوگوں کی نظر میں اچھا ہو۔ 18 جہاں تک ممکن ہو، اپنی طرف سے سب کے ساتھ امن سے رہیں۔ 19 عزیزو، بدلہ نہ لیں بلکہ خدا کا غضب ظاہر ہونے دیں کیونکہ ”یہوواہ نے کہا ہے کہ ”بدلہ لینا میرا کام ہے۔ مَیں بدلہ دوں گا۔““
م09 1/10 ص. 16 پ. 3
”سب آدمیوں کے ساتھ میلملاپ رکھو“
رومیوں 12:17 کو پڑھیں۔ پولس رسول نے بیان کِیا کہ جب لوگ ہمارے ساتھ بُری طرح پیش آتے ہیں تو ہمیں بدلے میں ویسا نہیں کرنا چاہئے۔ اُس کی یہ نصیحت خاص طور پر ایسے خاندانوں کے لئے اہمیت رکھتی ہے جہاں سب افراد یہوواہ کی پرستش نہیں کرتے۔ جب کسی مسیحی کا بیاہتا ساتھی اُس سے سختی سے پیش آتا ہے تو اُسے اُس کے ساتھ ویسا برتاؤ نہیں کرنا چاہئے۔ ’بدی کے عوض بدی‘ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ صورتحال اَور زیادہ خراب ہو جائے گی۔
م07 1/7 ص. 23 پ. 12، 13
”بدی کے عوض کسی سے بدی نہ کرو“
اس کے بعد پولس رسول نے ہمایمانوں اور بےایمانوں کے ساتھ برتاؤ کے سلسلے میں نصیحت کی کہ ”بدی کے عوض کسی سے بدی نہ کرو۔“ یہ بیان اُس کے پہلے الفاظ ”بدی سے نفرت رکھو“ کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ اگر ایک شخص دوسروں کے ساتھ بدی کے عوض بدی کرتا ہے توپھر وہ یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ وہ بدی یا بُرائی سے نفرت رکھتا ہے؟ ایسا کرنا ”بےریا محبت“ ظاہر کرنے کے بالکل برعکس ہوگا۔ اس کے بعد پولس رسول کہتا ہے: ”جو باتیں سب لوگوں کے نزدیک اچھی ہیں اُن کی تدبیر کرو۔“ (رومیوں 12:9، 17) ہم ان الفاظ پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
پولس رسول نے کرنتھیوں کے نام اپنے خط میں اُن مشکلات کی بابت لکھا جن کا رسولوں کو سامنا ہوا تھا۔ اُس نے کہا: ”ہم دُنیا اور فرشتوں اور آدمیوں کے لئے ایک تماشا ٹھہرے۔ . . . لوگ بُرا کہتے ہیں ہم دُعا دیتے ہیں۔ وہ ستاتے ہیں ہم سہتے ہیں۔ وہ بدنام کرتے ہیں ہم مِنتسماجت کرتے ہیں۔“ (1-کُرنتھیوں 4:9-13) اسی طرح آجکل بھی سچے مسیحیوں کے ساتھ جوکچھ ہوتا ہے وہ دُنیا کی نظر سے چھپا نہیں۔ جب ہمارے اردگرد کے لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ ہم بےانصافی کا سامنا کرنے کے باوجود اچھے کام کرتے ہیں تو وہ ہمارے پیغام میں زیادہ دلچسپی لینے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔—1-پطرس 2:12۔
(رومیوں 12:20، 21) لیکن ”اگر آپ کے دُشمن کو بھوک لگی ہے تو اُسے کھانا کھلائیں اور اگر اُسے پیاس لگی ہے تو اُسے پانی پلائیں کیونکہ ایسا کرنے سے آپ اُس کے سر پر دہکتے ہوئے کوئلوں کا ڈھیر لگائیں گے۔“ 21 بُرائی کو اپنے اُوپر غالب نہ آنے دیں بلکہ اچھائی سے بُرائی پر غالب آئیں۔
م12 1/11 ص. 28 پ. 13
ایک دوسرے کو معاف کرنے کے لئے تیار رہیں
بعض اوقات شاید کوئی ایسا شخص آپ کو چوٹ پہنچائے جو کلیسیا کا رُکن نہیں۔ ایسی صورت میں آپ شاید اُسے سچائی کی طرف کھینچ لیں۔ پولس رسول نے لکھا: ”اگر تیرا دُشمن بھوکا ہو تو اُس کو کھانا کھلا۔ اگر پیاسا ہو تو اُسے پانی پلا کیونکہ ایسا کرنے سے تُو اُس کے سر پر آگ کے انگاروں کا ڈھیر لگائے گا۔ بدی سے مغلوب نہ ہو بلکہ نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب آؤ۔“ (روم 12:20، 21) جب لوگ آپ کے ساتھ غصے سے پیش آتے ہیں مگر آپ اُن کے ساتھ بڑے تحمل سے بات کرتے ہیں تو اُن کا رویہ بدل سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ بھی آپ کے ساتھ نرمی سے پیش آنے لگیں۔ اگر آپ اُن کے حالات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور مہربانی سے کام لیتے ہیں تو شاید وہ بائبل سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ چاہے وہ سچائی قبول کریں یا نہ کریں، آپ کا اچھا ردِعمل اُنہیں یہ سوچنے کی ترغیب دے گا کہ آپ دوسروں سے اِتنے فرق کیوں ہیں۔—1-پطر 2:12؛ 3:16۔
سنہری باتوں کی تلاش
(رومیوں 12:1) لہٰذا بھائیو، مَیں خدا کے رحم کی بِنا پر آپ سے اِلتجا کرتا ہوں کہ اپنے جسم ایک ایسی قربانی کے طور پر پیش کریں جو زندہ، پاک اور خدا کو پسندیدہ ہے یعنی اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو اِستعمال میں لا کر مُقدس خدمت انجام دیں۔
خدا کی محبت، ص. 63، 64 پ. 5، 6
آپ مناسب تفریح کا انتخاب کیسے کر سکتے ہیں؟
ہم روزمرہ زندگی میں جو کچھ کرتے ہیں، اِس کے مطابق یہوواہ خدا ہماری عبادت کو یا تو قبول کرے گا یا پھر اِسے رد کر دے گا۔ پولس رسول اِس حقیقت سے خوب واقف تھا اِس لئے اُس نے رومہ کے مسیحیوں کو یوں تاکید کی: ”اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کے لئے نذر کرو جو زندہ اور پاک اور خدا کو پسندیدہ ہو۔ یہی تمہاری معقول عبادت ہے۔“ (رومیوں 12:1) خدا کی خدمت کرنے میں ہم اپنے دل، ذہن اور طاقت کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ (مرقس 12:30) لہٰذا پولس رسول کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ دلوجان سے یہوواہ خدا کی خدمت کرنا ایک قربانی کی طرح ہے جو ہم اُس کے لئے نذر کرتے ہیں۔ دراصل پولس رسول کی تاکید میں ایک آگاہی پائی جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ موسیٰ کی شریعت کے تحت خدا صرف ایسی قربانیوں کو قبول کرتا تھا جو بےعیب تھیں۔ (احبار 22:18-20) اِس سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اگر ایک مسیحی کی قربانی میں کوئی عیب یا نقص ہو تو خدا اِسے رد کر دے گا۔ یہ کس صورت میں ہو سکتا ہے؟
پولس رسول نے رومہ کے مسیحیوں سے کہا: ”اپنے اعضا . . . گُناہ کے حوالہ نہ کِیا کرو۔“ اِس کے علاوہ اُس نے اُن سے یہ بھی کہا کہ ”بدن کے کاموں کو نیستونابود کرو۔“ (رومیوں 6:12-14؛ 8:13) پولس رسول نے رومیوں کے نام اپنے خط میں ”بدن کے کاموں“ کی کچھ مثالیں دیں۔ اُس نے بدکار لوگوں کے بارے میں کہا کہ ”اُن کا مُنہ لعنت اور کڑواہٹ سے بھرا ہے۔“ ”اُن کے قدم خون بہانے کے لئے تیزرَو ہیں۔“ ”اُن کی آنکھوں میں خدا کا خوف نہیں۔“ (رومیوں 3:13-18) اگر ایک مسیحی اپنے اعضا کو ایسے بُرے کاموں کے لئے استعمال کرے گا تو اُس کا بدن خدا کی نظروں میں ناپاک ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر ایک مسیحی جانبوجھ کر گندی تصویریں یا پُرتشدد فلمیں دیکھتا ہے تو وہ اپنی آنکھوں کو ”گُناہ کے حوالہ“ کرتا ہے اور یوں اُس کا پورا بدن ناپاک ہو جاتا ہے۔ لہٰذا وہ خدا کی خدمت میں جو کچھ کرتا ہے، یہ خدا کے نزدیک ایک عیبدار قربانی ہے اور خدا ایسی قربانیوں کو قبول نہیں کرتا۔ (استثنا 15:21؛ 1-پطرس 1:14-16؛ 2-پطرس 3:11) جیہاں، غلط قسم کی تفریح ہمارے لئے بہت ہی نقصاندہ ہے!
(رومیوں 13:1) ہر شخص حاکموں کا تابعدار ہو کیونکہ اِختیار خدا کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ حاکموں کے پاس جو اِختیار ہے، وہ اُنہیں خدا سے ملا ہے۔
م08 15/6 ص. 31 پ. 4
رومیوں کے نام خط سے اہم نکات
13:1—اعلیٰ حکومتیں کس لحاظ سے ”خدا کی طرف سے مقرر ہیں“؟ وہ خدا کی اجازت سے ہی حکومت کرتی ہیں۔ اور بعض اوقات خدا کو پہلے سے ہی علم تھا کہ کونسی حکومت آئے گی۔ یہ اِس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بائبل میں کئی حکمرانوں کے آنے کے بارے میں پیشینگوئی کی گئی تھی۔
شاگرد بنانے کی تربیت
ڈبلیو11 1/9 ص. 21، 22
کیا ٹیکس دینا لازمی ہے؟
کم ہی لوگ ایسے ہیں جنہیں ٹیکس دینا اچھا لگتا ہے۔ بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ اُن کے ٹیکس ضائع ہو جاتے ہیں کیونکہ اِنہیں صحیح طرح یا صحیح جگہ اِستعمال نہیں کِیا جاتا یا یہ کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اخلاقی وجوہات کی بِنا پر ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ مشرقِوسطیٰ کے کچھ لوگوں نے ٹیکس نہ دینے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا: ”ہم اُن ہتھیاروں کے لیے پیسہ نہیں دیں گے جن سے ہمارے بچے مرتے ہیں۔“
اِس طرح کے جذبات نہ تو صرف ایک خطے تک محدود ہیں اور نہ ہی نئے ہیں۔ ہندوؤں کے لیڈر موہنداس کرمچند گاندھی نے بھی اپنے جذبات کا اِظہار کچھ اِس طرح کِیا: ”جو مرد یا عورت براہِراست یا کسی اَور طریقے سے کسی ایسی ریاست کی حمایت کرتا ہے جسے فوج چلا رہی ہو، وہ گُناہ کرتا ہے۔ جو بھی شخص چاہے وہ بوڑھا ہو یا جوان، ریاست کا نظام چلانے کے لیے ٹیکس دینے سے اِس گُناہ میں شریک ہوتا ہے۔“
اِسی طرح اُنیسویں صدی کے فلسفی ہنری ڈیوڈ نے جنگ کو فروغ دینے کے لیے اِستعمال ہونے والے ٹیکس نہ دینے کی اخلاقی وجوہات بتاتے ہوئے کہا: ”کیا ایک شہری کو کبھی ایک لمحے کے لیے بھی اپنا ضمیر کسی قانون ساز کے حوالے کرنا چاہیے؟ اگر ایسا ہے تو پھر ہر کسی کے پاس ضمیر کیوں ہے؟“
مسیحیوں کو بھی اِس مسئلے کا سامنا ہے کیونکہ بائبل میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ اُنہیں ہر معاملے میں اپنا ضمیر صاف رکھنا چاہیے۔ (2-تیمُتھیُس 1:3) دوسری طرف بائبل میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حکومتوں کے پاس ٹیکس وصول کرنے کا اِختیار ہے۔ اِس میں لکھا ہے: ”ہر شخص اعلےٰ حکومتوں کا تابعدار رہے کیونکہ کوئی حکومت ایسی نہیں جو خدا کی طرف سے نہ ہو اور جو حکومتیں موجود ہیں وہ خدا کی طرف سے مقرر ہیں۔ پس تابعدار رہنا نہ صرف غضب کے ڈر سے ضرور ہے بلکہ دل [یعنی ضمیر] بھی یہی گواہی دیتا ہے۔ تُم اِسی لئے خراج [یعنی ٹیکس] بھی دیتے ہو کہ وہ خدا کے خادم ہیں اور اِس خاص کام میں ہمیشہ مشغول رہتے ہیں۔ سب کا حق ادا کرو۔ جس کو خراج چاہئے خراج دو۔“—رومیوں 13:1، 5-7۔
اِسی لیے پہلی صدی عیسوی کے مسیحی خوشی سے ٹیکس دینے کی وجہ سے جانے جاتے تھے حالانکہ اِس کا ایک بڑا حصہ فوج کو جاتا تھا۔ آج بھی یہوواہ کے گواہ ایسا کرتے ہیں۔ تو کیا اِس کا مطلب ہے کہ جب ٹیکس دینے کی بات آتی ہے تو ایک مسیحی کو اپنے ضمیر کی آواز کو دبا دینا چاہیے؟
ٹیکس اور ضمیر
غور کریں کہ پہلی صدی عیسوی کے مسیحیوں پر جو ٹیکس لاگو کِیا گیا تھا، اُس کا ایک بڑا حصہ فوج کو جاتا تھا۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے ضمیر کو صاف رکھنے کے لیے ایسا کرتے تھے۔ اِس کے برعکس گاندھی اور ہنری ڈیوڈ نے اپنے ضمیر کو صاف رکھنے کے لیے ٹیکس دینے سے اِنکار کر دیا۔
مسیحیوں نے رومیوں 13 باب میں درج حکم پر محض سزا کے ڈر سے نہیں بلکہ اپنے ”دل“ یعنی ضمیر کی وجہ سے عمل کِیا۔ (رومیوں 13:5) اصل میں ایک مسیحی کا ضمیر یہ گوارا نہیں کرتا کہ وہ ٹیکس ادا نہ کرے پھر چاہے اِسے ایسے کاموں میں ہی کیوں نہ اِستعمال کِیا جائے جنہیں وہ ذاتی طور پر پسند نہیں کرتا۔ ضمیر کی بِنا پر ٹیکس دینے یا نہ دینے کے معاملے کو سمجھنے کے لیے ہمیں اپنے ضمیر یعنی اپنے اندر کی آواز کے متعلق جو ہمیں صحیح اور غلط کے بارے میں بتاتی ہے، ایک اہم بات کو جاننا ہوگا۔
جیسے کہ ہنری ڈیوڈ نے کہا کہ ہر شخص کے اندر ضمیر ہوتا ہے۔ لیکن لازمی نہیں کہ یہ قابلِبھروسا بھی ہو۔ اگر ہم خدا کو خوش کرنا چاہتے ہیں تو ہمارا ضمیر اُس کے معیاروں کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہمیں اکثر اپنی سوچ کو خدا کی سوچ کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اُس کی سوچ ہماری سوچ سے بلند ہے۔ (زبور 19:7) لہٰذا ہمیں اِنسانی حکومتوں کے بارے میں خدا کا نظریہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آئیں، دیکھیں کہ حکومتوں کے بارے میں خدا کا نظریہ کیا ہے؟
ہم نے دیکھا کہ پولُس نے اِنسانی حکومتوں کو ”خدا کے خادم“ کہا۔ (رومیوں 13:6) اِس کا کیا مطلب ہے؟ اِس کا مطلب ہے کہ وہ امنوامان برقرار رکھتی ہیں اور معاشرے کے لیے بہت اہم کام سرانجام دیتی ہیں۔ اِنتہائی بدعنوان حکومتیں بھی اکثر عوام کے لیے ڈاک کی ترسیل، تعلیم اور آگ بجھانے جیسی سہولتوں کا اِنتظام کرتی ہیں اور قانون بھی نافذ کرتی ہیں۔ اگرچہ خدا اِن اِنسانی حکومتوں کی خامیوں سے اچھی طرح واقف ہے لیکن پھر بھی اُس نے اِنہیں کچھ عرصے تک حکومت کرنے کی اِجازت دی ہے اور وہ ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم ٹیکس ادا کر کے اُس کے اِس بندوبست کا احترام کریں کہ اُس نے اِن حکومتوں کو حکمرانی کرنے کی اِجازت دی ہے۔
خدا نے اِنسانی حکومتوں کو عارضی طور پر حکمرانی کرنے کی اِجازت دی ہے۔ اُس کی مرضی ہے کہ وہ اِن تمام حکومتوں کی جگہ اپنی آسمانی بادشاہت قائم کرے اور آخرکار اُس سارے نقصان کی بھرپائی کر دے جو اِنسانی حکومتیں صدیوں سے اِنسانوں کو پہنچا رہی ہیں۔ (دانیایل 2:44؛ متی 6:10) لیکن تب تک خدا نے مسیحیوں کو یہ اِختیار نہیں دیا کہ وہ ٹیکس نہ دے کر یا کسی اَور طریقے سے حکومت کی نافرمانی کریں۔
لیکن اگر آپ کو پھر بھی گاندھی کی طرح یہ لگتا ہے کہ ایسے ٹیکس دینا جن سے جنگ کو فروغ ملے، گُناہ ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ اگر ہم کسی اُونچی جگہ پر ہوں تو ہم کسی علاقے کو زیادہ اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں۔ اِسی طرح اگر ہم اِس بات پر غور کریں کہ خدا کی سوچ ہماری سوچ سے کتنی بلند ہے تو ہمیں اپنی سوچ کو اُس کی سوچ کے مطابق ڈھالنا آسان لگے گا۔ خدا نے یسعیاہ نبی کے ذریعے کہا: ”جتنا آسمان زمین سے اُونچا ہے اُتنی ہی میری راہیں تمہاری راہوں اور میرے خیالات تمہارے خیالات سے بلند ہیں۔“—یسعیاہ 55:8، 9۔
11-17 مارچ
پاک کلام سے سنہری باتیں | رومیوں 15، 16
”تسلی پانے اور ثابتقدم رہنے کے لیے یہوواہ سے مدد مانگیں“
(رومیوں 15:4) کیونکہ جتنی بھی باتیں پہلے لکھی گئیں، وہ ہماری ہدایت کے لیے لکھی گئیں تاکہ ہم صحیفوں سے تسلی پا کر اور ثابتقدم رہ کر اُمید حاصل کر سکیں۔
”اُن کے ساتھ روئیں جو رو رہے ہیں“
ہمیں بائبل میں نہ صرف یہ پڑھ کر تسلی ملتی ہے کہ یسوع مسیح کو لعزر کی موت پر شدید دُکھ ہوا بلکہ ہمیں اَور بھی بہت سی آیتوں سے تسلی مل سکتی ہے۔ بِلاشُبہ ”جتنی بھی باتیں پہلے لکھی گئیں، وہ ہماری ہدایت کے لیے لکھی گئیں تاکہ ہم صحیفوں سے تسلی پا کر اور ثابتقدم رہ کر اُمید حاصل کر سکیں۔“ (رومیوں 15:4) اگر آپ کسی عزیز کی موت پر غمزدہ ہیں تو آپ کو بھی نیچے دی گئی آیتوں کو پڑھ کر تسلی مل سکتی ہے:
▪ ”[یہوواہ] شکستہدلوں کے نزدیک ہے اور خستہ جانوں کو بچاتا ہے۔“—زبور 34:18، 19۔
▪ ”جب میرے دل میں فکروں کی کثرت ہوتی ہے تو تیری تسلی میری جان کو شاد کرتی ہے۔“—زبور 94:19۔
▪ ”ہماری دُعا ہے کہ ہمارے مالک یسوع مسیح اور ہمارا باپ خدا جو ہم سے محبت کرتا ہے اور جس نے اپنی عظیم رحمت کے ذریعے ہمیں ابدی تسلی اور شاندار اُمید دی ہے، آپ کے دلوں کو تسلی دیں اور آپ کو مضبوط بنائیں۔“—2-تھسلُنیکیوں 2:16، 17۔
(رومیوں 15:5) اور خدا جو ثابتقدم رہنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے اور تسلی دیتا ہے، آپ سب کو مسیح یسوع جیسی سوچ عطا کرے
”ثابتقدمی کو اپنا کام پورا کرنے دیں“
یہوواہ خدا سے مدد مانگیں۔ یہوواہ خدا ہمیں ”ثابتقدم رہنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے اور تسلی دیتا ہے۔“ (روم 15:5) اُس سے بہتر اَور کوئی نہیں جانتا کہ ہماری صورتحال، ہمارے احساسات اور ہمارا پسمنظر ہم پر کیسے اثرانداز ہوتے ہیں۔ لہٰذا اُسے معلوم ہے کہ ہمیں ثابتقدم رہنے کے لیے کس طرح کی مدد کی ضرورت ہے۔ بائبل میں لکھا ہے: ”جو اُس سے ڈرتے ہیں وہ اُن کی مُراد پوری کرے گا۔ وہ اُن کی فریاد سنے گا اور اُن کو بچا لے گا۔“ (زبور 145:19) لیکن جب ہم ثابتقدم رہنے کے سلسلے میں خدا سے مدد مانگتے ہیں تو وہ ہماری دُعاؤں کا جواب کیسے دیتا ہے؟
(رومیوں 15:13) ہاں، خدا جو ہمیں اُمید بخشتا ہے، آپ کو خوشی اور اِطمینان عطا کرے تاکہ پاک روح کی طاقت سے آپ کی اُمید اَور مضبوط ہو جائے کیونکہ آپ اُس پر بھروسا کرتے ہیں۔
’یہوواہ اپنے خدا سے محبت رکھیں‘
خدا ہمیں ایسی اُمید دیتا ہے جو ہمارے لیے ”خوشی اور اِطمینان“ کا باعث بنتی ہے۔ (روم 15:13) اِس اُمید کی بدولت ہم آزمائشوں میں خدا کے وفادار رہنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ممسوح مسیحی جو ’جان دینے تک وفادار رہتے ہیں،‘ اُنہیں آسمان پر ”زندگی کا تاج“ ملے گا۔ (مکا 2:10) خدا کے وفادار بندے جو زمین پر رہنے کی اُمید رکھتے ہیں، وہ ایک خوبصورت فردوس میں ہمیشہ کی زندگی کا لطف اُٹھائیں گے۔ (لو 23:43) ایسی اُمید کے بارے میں جان کر آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟ کیا آپ خوشی اور اِطمینان محسوس نہیں کرتے؟ کیا آپ کا دل خدا کے لیے محبت سے بھر نہیں جاتا جو ”ہر اچھی بخشش اور ہر کامل اِنعام“ دیتا ہے؟—یعقو 1:17۔
سنہری باتوں کی تلاش
(رومیوں 15:27) بےشک اُن بھائیوں نے خوشی سے ایسا کِیا لیکن اصل میں تو وہ اِن کے قرضدار ہیں۔ اگر اُنہوں نے اِن مُقدسوں کی روحانی چیزوں سے فائدہ حاصل کِیا تو اب اُن کا فرض ہے کہ اپنے مال سے اُن کی مدد کریں۔
ڈبلیو89 1/12 ص. 24 پ. 3
”مَیں . . . آزمانا چاہتا ہوں کہ آپ کی محبت کتنی سچی ہے“
بےشک اُن مسیحیوں کو جو پہلے غیریہودی تھے، یروشلیم کے مسیحیوں کی مدد کرنے کی ترغیب ملنی چاہیے تھی۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک خاص لحاظ سے یروشلیم کے مسیحیوں کے ”قرضدار“ تھے۔ اصل میں خوشخبری یروشلیم سے ہی غیریہودیوں تک پہنچی تھی۔ پولُس رسول نے کہا: ”اگر یہودی مسیحیوں نے اپنی روحانی چیزیں غیریہودیوں کے ساتھ بانٹیں تو غیریہودیوں کا بھی فرض ہے کہ اپنے مال سے اُن کی مدد کریں۔“—رومیوں 15:27، دی نیو اِنگلش بائبل۔
(رومیوں 16:25) خدا آپ کو اُس پیغام کے ذریعے جو یسوع مسیح کے متعلق ہے اور اُس خوشخبری کے ذریعے جو مَیں سنا رہا ہوں، مضبوط بنا سکتا ہے۔ یہ خوشخبری اُس مُقدس راز کے مطابق ہے جس سے پردہ ہٹا دیا گیا ہے۔ یہ راز بہت عرصے سے چھپا ہوا تھا۔
آئیٹی-1 ص. 858 پ. 5
خدا کے اِرادے اور پیشگوئیاں
مسیح کو ہی وہ نسل ہونا تھا جس کا وعدہ کِیا گیا تھا اور جس کے ذریعے زمین کے تمام نیک لوگوں کو برکت ملنی تھی۔ (گل 3:8، 14) اِس ”نسل“ کا پہلی بار ذکر باغِعدن میں بغاوت شروع ہونے کے بعد لیکن ہابل کے پیدا ہونے سے پہلے کِیا گیا۔ (پید 3:15) اِس کے کوئی 4000 سال بعد اِس ”مُقدس راز“ سے اُس وقت پردہ ہٹایا گیا جب یہ بتایا گیا کہ یہ نسل کون ہوگی۔ لہٰذا ”یہ راز بہت عرصے سے چھپا ہوا تھا۔“—روم 16:25-27؛ اِفس 1:8-10؛ 3:4-11۔
18-24 مارچ
پاک کلام سے سنہری باتیں | 1-کُرنتھیوں 1-3
”کیا آپ اِنسانی سوچ کے مالک ہیں یا روحانی سوچ کے؟“
(1-کُرنتھیوں 2:14) جو شخص اِنسانی سوچ رکھتا ہے، وہ اُن باتوں کو قبول نہیں کرتا جو خدا کی روح سے ہیں کیونکہ یہ باتیں اُس کی نظر میں بےوقوفی ہیں۔ ایسا شخص اِن باتوں کو سمجھ ہی نہیں سکتا کیونکہ اِن کو پرکھنے کے لیے خدا کی روح کی ضرورت ہے۔
روحانی سوچ رکھنے والے شخص کی پہچان کیا ہے؟
ہم اِنسانی سوچ رکھنے والے شخص کو کیسے پہچان سکتے ہیں؟ ایسا شخص دُنیا کی سوچ اپنا لیتا ہے جو لوگوں کو اپنی منمانی کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ پولُس رسول نے دُنیا کی سوچ کے بارے میں کہا: ”یہ روح اب نافرمانی کے بیٹوں پر اثر کر رہی ہے۔“ (اِفسیوں 2:2) اِس روح یعنی سوچ کی وجہ سے زیادہتر لوگ وہی کام کرنے لگتے ہیں جو وہ اپنے اِردگِرد لوگوں کو کرتے دیکھتے ہیں۔ وہ خدا کے معیاروں کو خاطر میں نہیں لاتے اور بس وہ کام کرتے ہیں جو اُنہیں ٹھیک لگتے ہیں۔ اِنسانی سوچ رکھنے والے شخص کی نظر میں اُس کا مرتبہ اور مالودولت سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے اور وہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔
اِس کے علاوہ اِنسانی سوچ رکھنے والا شخص اکثر ایسے کام کرتا ہے جنہیں بائبل میں ”جسم کے کام“ کہا گیا ہے۔ (گلتیوں 5:19-21) کُرنتھس کی کلیسیا کے نام اپنے پہلے خط میں پولُس رسول نے کچھ اَور کاموں کا ذکر کِیا جن سے اِنسانی سوچ رکھنے والے لوگوں کی پہچان ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اِختلافات کی صورت میں طرفداری کرتے ہیں؛ لوگوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں؛ دوسروں کو بغاوت کرنے پر اُکساتے ہیں؛ ایک دوسرے کو عدالتوں میں گھسیٹتے ہیں؛ کلیسیا میں سربراہی کو تسلیم نہیں کرتے اور کھانے پینے کو زندگی میں بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ جب ایسے لوگوں کو غلط کام کرنے پر اُکسایا جاتا ہے تو وہ فوراً ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ (امثال 7:21، 22) یسوع مسیح کے شاگرد یہوداہ نے اپنے خط میں یہ ظاہر کِیا کہ جو مسیحی اِنسانی سوچ اپنا لیتے ہیں، وہ خدا کی پاک روح سے محروم ہو سکتے ہیں۔—یہوداہ 18، 19۔
(1-کُرنتھیوں 2:15، 16) مگر جو شخص روحانی سوچ رکھتا ہے، وہ سب باتوں کو پرکھتا ہے لیکن اُسے کوئی اِنسان نہیں پرکھ سکتا۔ 16 لکھا ہے کہ ”کس نے یہوواہ کی سوچ کو سمجھا ہے تاکہ وہ اُسے تعلیم دے؟“ لیکن ہم مسیح کی سوچ ضرور رکھتے ہیں۔
روحانی سوچ رکھنے والے شخص کی پہچان کیا ہے؟
اِنسانی سوچ رکھنے والے شخص کے برعکس روحانی سوچ رکھنے والا شخص خدا کے ساتھ اپنی دوستی کو بہت عزیز رکھتا ہے۔ وہ خدا کی پاک روح کی رہنمائی میں چلنے اور یہوواہ کی مثال پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ (اِفسیوں 5:1) اُس کی نظر میں یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ وہ یہوواہ کی سوچ کو جانے اور مختلف معاملات کو اُس کی نظر سے دیکھے۔ جو شخص روحانی سوچ کا مالک ہوتا ہے، وہ زندگی کے ہر پہلو میں خدا کے معیاروں کے مطابق چلتا ہے۔ (زبور 119:33؛ 143:10) وہ ”جسم کے کام“ نہیں کرتا بلکہ اپنے اندر ”روح کا پھل“ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔—گلتیوں 5:22، 23۔
روحانی سوچ رکھنے والے شخص کی پہچان کیا ہے؟
ہم یسوع مسیح کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ 1-کُرنتھیوں 2:16 میں بتایا گیا ہے کہ ہمیں ”مسیح کی سوچ“ اپنانے کی ضرورت ہے۔ رومیوں 15:5 میں ہماری حوصلہافزائی کی گئی ہے کہ ہم ”مسیح یسوع جیسی سوچ“ اپنائیں۔ یسوع کی مثال پر عمل کرنے کے لیے ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ کیسی سوچ رکھتے تھے اور اُن کی شخصیت کیسی تھی۔ پھر ہی ہم اُن کے نقشِقدم پر چل سکیں گے۔ یسوع مسیح کے نزدیک یہوواہ کے ساتھ اُن کی دوستی کسی بھی اَور چیز سے زیادہ اہم تھی۔ لہٰذا مسیح کی مثال پر عمل کرنے سے ہم ایک لحاظ سے یہوواہ کی مثال پر عمل کر رہے ہوں گے۔ اِس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم یسوع مسیح جیسی سوچ اپنائیں۔
سنہری باتوں کی تلاش
(1-کُرنتھیوں 1:20) تو پھر اِس زمانے کے دانشمند اور شریعت کے عالم اور بحث مباحثہ کرنے والے کہاں ہیں؟ کیا خدا نے یہ ثابت نہیں کر دیا کہ دُنیا کی دانشمندی اصل میں بےوقوفی ہے؟
آئیٹی-2 ص. 1193 پ. 1
دانشمندی
دُنیا نے اپنی دانشمندی سے اُس بندوبست کو بےوقوفی سمجھ کر رد کر دیا جو خدا نے مسیح کے ذریعے کِیا تھا، یہاں تک کہ اِس کے حاکموں نے جو شاید بڑے قابل اور دانشمند تھے، ’ہمارے عظیم مالک کو سُولی پر چڑھا دیا۔‘ (1-کُر 1:18؛ 2:7، 8) لیکن اب خدا اپنے اِرادے کو پورا کرنے کے لیے اُس چیز کو جسے وہ ”بےوقوفی“ سمجھتے تھے اور اُن لوگوں کو جنہیں وہ ’بےوقوف، کمزور اور معمولی‘ سمجھتے تھے، اِستعمال کر رہا تھا۔ اِس طرح وہ دُنیا کے دانشمندوں کو شرمندہ کر کے یہ ثابت کر رہا تھا کہ دُنیا کی دانشمندی اصل میں بےوقوفی ہے۔ (1-کُر 1:19-28) پولُس رسول نے کُرنتھس کے مسیحیوں کو یاد دِلایا کہ ”اِس زمانے اور اِس زمانے کے حاکموں کی دانشمندی“ تباہ ہو جائے گی اِس لیے ایسی دانشمندی پولُس رسول کے پیغام کا حصہ نہیں تھی۔ (1-کُر 2:6، 13) اُنہوں نے کُلسّے کے مسیحیوں کو نصیحت کی کہ ”خبردار رہیں کہ کوئی آپ کو ایسے فلسفوں [یونانی لفظ: ”فیلوسوفیاس،“ یونانی میں: ”دانشمندی سے محبت“] اور فضول باتوں کا شکار نہ بنا لے جو اِنسانی روایتوں . . . کے مطابق ہیں۔“—کُل 2:8؛ 20-23 آیتوں پر غور کریں۔
(1-کُرنتھیوں 2:3-5) جب مَیں آپ کے پاس آیا تو مَیں کمزور تھا اور خوف کے مارے کانپ رہا تھا 4 اور مَیں نے آپ کو جو کچھ بتایا اور سکھایا، وہ اِنسانی دانشمندی کی دلکش باتوں کے ذریعے نہیں تھا بلکہ خدا کی روح اور طاقت سے تھا 5 تاکہ آپ اِنسانی دانشمندی پر ایمان نہ لائیں بلکہ خدا کی طاقت پر۔
م08 15/7 ص. 27 پ. 5
کرنتھیوں کے نام خطوط سے اہم نکات
2:3-5۔ یونانی فیلسوفی اور تعلیم کے مرکز کرنتھس میں منادی کرنے کے دوران شاید پولس رسول نے یہ سوچا ہو کہ وہ اپنے سننے والوں کو قائل کرنے کے قابل ہوگا یا نہیں۔ تاہم، اُس نے اپنے اندر موجود کسی طرح کی کمزوری یا خوف کو خدا کی خدمت کرنے کی راہ میں رُکاوٹ نہ بننے دیا۔ اِسی طرح ہمیں بھی مشکل حالات کو خدا کی بادشاہی کی منادی کرنے کی راہ میں رُکاوٹ نہیں بننے دینا چاہئے۔ ہمیں پولس کی طرح یہوواہ خدا پر مکمل بھروسا رکھنا چاہئے۔
25-31 مارچ
پاک کلام سے سنہری باتیں | 1-کُرنتھیوں 4-6
”تھوڑا سا خمیر پورے آٹے کو خمیر کر دیتا ہے“
(1-کُرنتھیوں 5:1، 2) مَیں نے سنا ہے کہ آپ میں ایک آدمی ہے جو اپنے باپ کی بیوی کے ساتھ حرامکاری کرتا ہے۔ اِس طرح کی حرامکاری تو غیرایمان والے بھی نہیں کرتے۔ 2 اور آپ نے کیا کِیا؟ اِس کی بجائے کہ آپ کو افسوس ہوتا اور آپ اُس آدمی کو کلیسیا سے خارج کرتے، آپ نے فخر کِیا۔
(1-کُرنتھیوں 5:5-8) اِس آدمی کو شیطان کے حوالے کر دیں تاکہ اِس کا بُرا اثر ختم ہو جائے اور کلیسیا کی روح ہمارے مالک کے دن کے دوران محفوظ رہے۔ 6 آپ جس بات پر فخر کر رہے ہیں، وہ اچھی نہیں۔ کیا آپ کو پتہ نہیں کہ تھوڑا سا خمیر پورے آٹے کو خمیر کر دیتا ہے؟ 7 لہٰذا اُس پُرانے آٹے کو دُور کر دیں جو خمیر ہو گیا ہے تاکہ آپ نیا آٹا بن سکیں اور خمیر سے بالکل پاک ہوں جیسے آپ ہیں بھی۔ مسیح جو عیدِفسح کا میمنا ہے، قربان ہو گیا ہے۔ 8 اِس لیے آئیں، ہم عید کو پُرانے خمیرے آٹے یا بُرائی اور بدی کے خمیر کے ساتھ نہ منائیں بلکہ خلوص اور سچائی کی بےخمیری روٹیوں کے ساتھ منائیں۔
(1-کُرنتھیوں 5:13) جبکہ خدا دُنیا کے لوگوں کی عدالت کرتا ہے۔ جیسے لکھا ہے کہ ”بُرے شخص کو اپنے بیچ سے دُور کرو۔“
آئیٹی-2 ص. 230
خمیر
جب پولُس رسول نے کُرنتھس کی کلیسیا کو حکم دیا کہ وہ اُس بدکار شخص کو کلیسیا سے خارج کر دیں تو اُنہوں نے بھی خمیر کی مثال دی۔ اُنہوں نے کہا: ”کیا آپ کو پتہ نہیں کہ تھوڑا سا خمیر پورے آٹے کو خمیر کر دیتا ہے؟ لہٰذا اُس پُرانے آٹے کو دُور کر دیں جو خمیر ہو گیا ہے تاکہ آپ نیا آٹا بن سکیں اور خمیر سے بالکل پاک ہوں جیسے آپ ہیں بھی۔ مسیح جو عیدِفسح کا میمنا ہے، قربان ہو گیا ہے۔“ پھر اُنہوں نے واضح کِیا کہ اُنہوں نے لفظ ”خمیر“ کیوں اِستعمال کِیا۔ اُنہوں نے کہا: ”اِس لیے آئیں، ہم عید کو پُرانے خمیرے آٹے یا بُرائی اور بدی کے خمیر کے ساتھ نہ منائیں بلکہ خلوص اور سچائی کی بےخمیری روٹیوں کے ساتھ منائیں۔“ (1-کُر 5:6-8) پولُس یہاں مجازی معنوں میں یہودیوں کی بےخمیری روٹی کی عید کی طرف اِشارہ کر رہے تھے جو عیدِفسح کے فوراً بعد منائی جاتی تھی۔ جس طرح تھوڑا سا خمیر سارے آٹے کو خمیر کر دیتا ہے اُسی طرح اگر اُس بدکار شخص کو کلیسیا سے نہ نکالا جاتا تو اُس کے بُرے اثر کی وجہ سے پوری کلیسیا یہوواہ کی نظروں میں ناپاک ہو سکتی تھی۔ اُنہیں اُس ”خمیر“ یعنی اُس بُرے شخص کو اپنے بیچ سے دُور کرنا تھا، بالکل اُسی طرح جس طرح بنیاِسرائیل بےخمیری روٹی کی عید کے دوران ہر طرح کے خمیر کو اپنے گھر سے دُور کر دیتے تھے۔
آئیٹی-2 ص. 869، 870
شیطان
اِس بات کا کیا مطلب تھا کہ ”اِس آدمی کو شیطان کے حوالے کر دیں تاکہ اِس کا بُرا اثر ختم ہو جائے“؟
جب پولُس نے کُرنتھس کی کلیسیا کو ہدایت کی کہ وہ اُس بدکار شخص کے خلاف کارروائی کریں جو اپنے باپ کی بیوی کے ساتھ حرامکاری کر رہا تھا تو اُنہوں نے لکھا کہ ”اِس آدمی کو شیطان کے حوالے کر دیں تاکہ اِس کا بُرا اثر ختم ہو جائے۔“ (1-کُر 5:5) اِس حکم کا مطلب یہ تھا کہ اُس شخص کو کلیسیا سے خارج کر دیا جائے اور اُس سے ہر طرح کا تعلق ختم کر لیا جائے۔ (1-کُر 5:13) اُسے شیطان کے حوالے کرنے سے وہ کلیسیا سے نکل کر دُنیا میں چلا جاتا جس کا خدا اور حاکم شیطان ہے۔ جس طرح ”تھوڑا سا خمیر پورے آٹے کو خمیر کر دیتا ہے“ اُسی طرح اِس شخص کی اِنسانی سوچ پوری کلیسیا پر اثر ڈال رہی تھی اور اِس بدکار شخص کو نکالنے سے روحانی سوچ کی مالک کلیسیا اِس کے ’بُرے اثر‘ کو اپنے بیچ سے دُور کر دیتی۔ (1-کُر 5:6، 7) اِسی طرح پولُس نے ہِمنیُس اور سکندر کو بھی شیطان کے حوالے کِیا تھا کیونکہ اُنہوں نے ایمان اور صاف ضمیر کو رد کر دیا تھا جس کے نتیجے میں اُن کے ایمان کا بیڑا غرق ہو گیا۔—1-تیم 1:20۔
(1-کُرنتھیوں 5:9-11) مَیں نے اپنے خط میں آپ کو لکھا تھا کہ حرامکاروں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا چھوڑ دیں۔ 10 میرا مطلب یہ نہیں تھا کہ اِس دُنیا کے حرامکاروں یا لالچیوں یا لُٹیروں یا بُتپرستوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا بالکل ہی چھوڑ دیں ورنہ تو آپ کو دُنیا کے ساتھ تمام تعلقات توڑنے پڑتے۔ 11 لیکن اب مَیں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ اگر ایک بھائی حرامکار یا لالچی یا بُتپرست یا شرابی یا لُٹیرا ہے یا دوسروں کو ذلیل کرتا ہے تو اُس کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا بالکل چھوڑ دیں اور اُس کے ساتھ کھانا تک نہ کھائیں۔
ہمیں ایک خارج شُدہ شخص سے کیسے پیش آنا چاہئے؟
ہمیں ایک ایسے شخص سے کیسے پیش آنا چاہئے جسے کلیسیا سے خارج کِیا گیا ہے؟ بائبل میں لکھا ہے: ”اگر کوئی بھائی کہلا کر حرامکار یا لالچی یا بُتپرست یا گالی دینے والا یا شرابی یا ظالم ہو تو اُس سے صحبت نہ رکھو بلکہ ایسے کے ساتھ کھانا تک نہ کھانا۔“ (1-کرنتھیوں 5:11) ایسا شخص جو ”مسیح کی تعلیم پر قائم نہیں رہتا“ اُس کے بارے میں یہ ہدایت دی گئی ہے: ”نہ اُسے گھر میں آنے دو اور نہ سلام کرو۔ کیونکہ جو کوئی ایسے شخص کو سلام کرتا ہے وہ اُس کے بُرے کاموں میں شریک ہوتا ہے۔“ (2-یوحنا 9-11) ہم ایک ایسے شخص کو خدا کی خدمت کے کسی بھی پہلو میں شریک نہیں کریں گے اور نہ ہی اُس کے ساتھ رفاقت رکھیں گے۔ مینارِنگہبانی جون 1982 کے صفحہ 15 پر یوں لکھا تھا: ”ایک معمولی ’ہیلو‘ پہلا قدم ہو سکتا ہے جو اس کے ساتھ باتچیت یا یہاں تک کہ دوستی کو بڑھاتا ہے۔ کیا ہم یہ پہلا قدم خارجشُدہ شخص کی طرف اُٹھانا چاہیں گے؟“
سنہری باتوں کی تلاش
(1-کُرنتھیوں 4:9) مجھے لگتا ہے کہ خدا نے میرے اور باقی رسولوں کے بارے میں فیصلہ کِیا ہے کہ ہمیں سزائےموت کے مُجرموں کی طرح سب سے آخر میں تماشاگاہ میں لایا جائے کیونکہ ہم دُنیا اور فرشتوں اور اِنسانوں کے لیے تماشا بن گئے ہیں۔
م09 1/5 ص. 26 پ. 16
فرشتے ”خدمتگزار روحیں“ ہیں
16 آزمائشوں کا سامنا کرتے وقت مسیحی ”فرشتوں کے لئے تماشا“ ٹھہرتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ فرشتے اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ ہم آزمائشوں کے دوران کیسا ردِعمل دکھاتے ہیں۔ (1-کر 4:9) اگر ہم خدا کے وفادار رہتے ہیں تو وہ اِس سے خوش ہوتے ہیں۔ وہ اُس وقت بھی خوش ہوتے ہیں جب کوئی گنہگار شخص توبہ کرتا ہے۔ (لو 15:10) نیز، جب مسیحی عورتیں بائبل کے اصولوں کے مطابق چلتی ہیں تو فرشتے اِس کو بھی دیکھتے ہیں۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ ”فرشتوں کے سبب سے عورت کو چاہئے کہ اپنے سر پر محکوم ہونے کی علامت رکھے۔“ (1-کر 11:3، 10) جیہاں، فرشتے مسیحی عورتوں اور زمین پر خدا کے دیگر خادموں کو خاندان اور کلیسیا میں اختیار کی تابعداری کرتے دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ اُن کی یہ تابعداری فرشتوں کو اِس بات کی یاد دلاتی ہے کہ اُنہیں بھی اختیار کی تابعداری کرنی چاہئے۔
(1-کُرنتھیوں 6:3) کیا آپ جانتے نہیں کہ ہم فرشتوں کی عدالت کریں گے؟ تو پھر ہم اِس زندگی کے مسئلے کیوں نہیں نپٹا سکتے؟
آئیٹی-2 ص. 211
شریعت
فرشتوں کے لیے شریعت۔ فرشتے اِنسانوں سے بلند ہیں لیکن وہ خدا کی شریعت اور حکموں کے تابع ہیں۔ (عبر 1:7، 14؛ زبور 104:4) ایک موقعے پر تو یہوواہ نے اپنے مخالف شیطان کو بھی حکم دیا اور اُس کے لیے ایک حد مقرر کی۔ (ایو 1:12؛ 2:6) جب فرشتوں کے سردار میکائیل اور شیطان میں بحث چھڑی تو میکائیل نے یہوواہ کو سب سے اعلیٰ منصف تسلیم کرتے اور اُس کے اِختیار کا احترام کرتے ہوئے شیطان سے کہا: ”یہوواہ ہی تمہیں ملامت کرے۔“ (یہوداہ 9؛ زکریاہ 3:2 پر غور کریں۔) یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کو شاندار مرتبہ عطا کرنے کے بعد اُنہیں تمام فرشتوں پر اِختیار دیا۔ (عبر 1:6؛ 1-پطر 3:22؛ متی 13:41؛ 25:31؛ فل 2:9-11) اِس لیے یسوع کے حکم پر ایک فرشتہ یوحنا کے پاس پیغام لے کر گیا۔ (مکا 1:1) لیکن 1-کُرنتھیوں 6:3 میں پولُس رسول نے مسیح کے بھائیوں کے بارے میں کہا کہ وہ فرشتوں کی عدالت کریں گے کیونکہ وہ کسی حد تک بُرے فرشتوں کو سزا دینے میں شامل ہوں گے۔