شادی کے بندھن کو مضبوط بنائیں
”آپ میں سے ہر ایک اپنی بیوی سے ویسے ہی محبت کرے جیسے وہ خود سے کرتا ہے اور بیوی اپنے شوہر کا دل سے احترام کرے۔“—اِفس 5:33۔
گیت: 25، 3
1. بائبل کے مطابق شادیشُدہ جوڑوں کو کس بات کی توقع کرنی چاہیے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
شادی کے دن جب ایک پیاری سی دُلہن اور ایک خوبرُو دُلہا عہدوپیمان لیتے ہیں تو اُن دونوں کی خوشی کی اِنتہا نہیں ہوتی۔ وہ ایک دوسرے سے اِتنی محبت کرتے ہیں کہ وہ عمر بھر ایک دوسرے کے وفادار رہنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ زندگی کے اِس نئے باب میں اُن دونوں کو بہت سی تبدیلیاں لانی پڑیں گی۔ خدا کے کلام میں شادیشُدہ جوڑوں کے لیے بہت سی ہدایتیں پائی جاتی ہیں کیونکہ خدا ہی نے شادی کے رواج کو وجود دیا اور وہ چاہتا ہے کہ تمام شادیشُدہ جوڑوں کی ازدواجی زندگی کامیاب رہے اور خوشیوں سے بھری ہو۔ (امثا 18:22) لیکن اِس کے ساتھ ساتھ خدا کے کلام میں یہ بھی لکھا ہے کہ ”جو لوگ شادی کرتے ہیں، اُنہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔“ اِس کی وجہ یہ ہے کہ تمام اِنسان گُناہگار ہیں۔ (1-کُر 7:28) تو پھر شادیشُدہ جوڑے کیا کر سکتے ہیں تاکہ اُنہیں اپنی ازدواجی زندگی میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے؟ اور یہوواہ کے بندے اپنے ازدواجی بندھن کو کیسے کامیاب بنا سکتے ہیں؟
2. میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لیے محبت کے کون سے پہلو ظاہر کرنے چاہئیں؟
2 بائبل کے مطابق ازدواجی زندگی میں محبت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ یونانی زبان میں محبت کے لیے چار لفظ اِستعمال ہوتے ہیں جن سے محبت کے مختلف پہلو ظاہر ہوتے ہیں۔ میاں بیوی میں دوستانہ محبت (یونانی میں ”فیلیا“) ضرور ہونی چاہیے؛ جنسی کشش پر مبنی محبت (یونانی میں ”ایروس“) اُن کے لیے خوشی کا باعث بنتی ہے؛ جب اُن کے بچے ہوتے ہیں تو میاں بیوی کو بچوں کے لیے وہ پیار اور اپنائیت (یونانی میں ”سٹورگے“) ظاہر کرنی چاہیے جو خونی رشتوں میں ہوتی ہے۔ لیکن ازدواجی بندھن کو مضبوط بنانے کے لیے سب سے اہم محبت وہ ہے جو خدا کے اصولوں پر مبنی ہے (یونانی میں ”اگاپے“)۔ پولُس رسول محبت کے اِسی پہلو کے بارے میں بات کر رہے تھے جب اُنہوں نے لکھا: ”آپ میں سے ہر ایک اپنی بیوی سے ویسے ہی محبت کرے جیسے وہ خود سے کرتا ہے اور بیوی اپنے شوہر کا دل سے احترام کرے۔“—اِفس 5:33۔
شوہر اور بیوی کی ذمےداریاں
3. میاں بیوی میں محبت کتنی گہری ہونی چاہیے؟
3 پولُس رسول نے لکھا: ”شوہرو، اپنی بیوی سے محبت کرتے رہیں، بالکل ویسے ہی جیسے مسیح نے کلیسیا سے محبت کی اور اِس کے لیے جان دے دی۔“ (اِفس 5:25) یسوع کے پیروکاروں کو ایک دوسرے سے ویسی ہی محبت کرنی چاہیے جیسی یسوع مسیح نے اُن سے کی تھی۔ (یوحنا 13:34، 35؛ 15:12، 13 کو پڑھیں۔) اِس کا مطلب ہے کہ مسیحیوں کو اپنے جیون ساتھی سے اِتنی محبت کرنی چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے جان دینے کو بھی تیار ہوں۔ لیکن اگر ازدواجی زندگی میں بڑے بڑے مسئلے ہیں تو اِتنی گہری محبت ظاہر کرنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ بہرحال ”محبت [یونانی میں ”اگاپے“] سب کچھ برداشت کرتی ہے، سب باتوں پر یقین کرتی ہے، سب چیزوں کی اُمید رکھتی ہے۔ . . . محبت کبھی ناکام نہیں ہوگی۔“ (1-کُر 13:7، 8، فٹنوٹ) اگر ازدواجی زندگی میں مسئلے کھڑے ہو جاتے ہیں تو میاں بیوی کو یاد رکھنا چاہیے کہ اُنہوں نے ایک دوسرے سے محبت کرنے اور وفا نبھانے کا عہد کِیا تھا۔ یوں اُنہیں ترغیب ملے گی کہ وہ بائبل کے اصولوں پر عمل کر کے اپنے مسئلوں کو حل کریں۔
4، 5. (الف) سربراہ کے طور پر شوہر کی کیا ذمےداری ہے؟ (ب) بیوی کو شوہر کی سربراہی کو کیسا خیال کرنا چاہیے؟ (ج) ایک جوڑے کو شادی کے بعد کون سی تبدیلیاں لانی پڑیں؟
4 پولُس رسول نے بیوی اور شوہر کی ذمےداریوں کے بارے میں لکھا: ”بیویاں بالکل ویسے ہی اپنے شوہروں کی تابعدار ہوں جیسے وہ ہمارے مالک کی تابعدار ہیں۔ کیونکہ ہر شوہر اپنی بیوی کا سربراہ ہے، بالکل ویسے ہی جیسے مسیح کلیسیا کا سربراہ ہے۔“ (اِفس 5:22، 23) اِس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کی نظر میں بیوی کی قدر کم ہے۔ لیکن جب بیوی اپنے شوہر کی سربراہی تسلیم کرتی ہے تو وہ اُس مقصد کو پورا کرتی ہے جس کے لیے خدا نے عورت کو بنایا تھا۔ باغِعدن میں خدا نے کہا تھا: ”آؔدم کا اکیلا رہنا اچھا نہیں۔ مَیں اُس کے لئے ایک مددگار اُس کی مانند بناؤں گا۔“ (پید 2:18) شوہر کو محبت سے سربراہی کرنی چاہیے، بالکل جیسے ’کلیسیا کے سربراہ‘ یسوع مسیح کرتے ہیں۔ جب شوہر یسوع مسیح کی مثال پر عمل کرتا ہے تو بیوی پُرسکون رہتی ہے، خوشی سے شوہر کا احترام کرتی ہے، اُس کی حمایت کرتی ہے اور اُس کی تابعدار ہوتی ہے۔
5 کیتھی[1] اِس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ شادی کے بعد میاں بیوی کو بہت سی تبدیلیاں لانی پڑتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ”شادی سے پہلے مَیں اپنے خرچے خود پورے کرتی تھی اور سارے فیصلے خود کرتی تھی۔ لیکن جب میری شادی ہوئی تو مجھے اپنی سوچ بدلنی پڑی کیونکہ اب میرے شوہر ہم دونوں کے لیے اہم معاملوں میں فیصلے کرتے ہیں۔ ایسا کرنا میرے لیے آسان نہیں تھا لیکن یہوواہ کے اصولوں پر عمل کرنے سے ہم ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہو گئے۔“ کیتھی کے شوہر فریڈ کہتے ہیں: ”مجھے فیصلہ کرنا ہمیشہ سے مشکل لگتا تھا۔ لیکن شادی کے بعد مرد کو صرف اپنی نہیں بلکہ اپنی بیوی کی ضروریات کو بھی ذہن میں رکھ کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے جو کہ اَور بھی مشکل ہوتا ہے۔ لیکن مَیں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے یہوواہ سے مدد مانگتا ہوں اور اپنی بیوی کی رائے ضرور لیتا ہوں۔ اِس لیے فیصلے کرنا میرے لیے زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم اچھی ٹیم ہیں!“
6. جب میاں بیوی میں اَنبن ہو جاتی ہے تو محبت اُنہیں کیسے ’متحد کرتی ہے‘؟
6 شادی کا بندھن تب مضبوط ہوتا ہے جب جیون ساتھی ایک دوسرے کی خامیوں اور کمزوریوں کو خاطر میں نہیں لاتے، ’ایک دوسرے کی برداشت کرتے ہیں اور دل سے ایک دوسرے کو معاف کرتے ہیں۔‘ یہ سچ ہے کہ میاں بیوی دونوں غلطیاں کرتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی غلطیوں سے سیکھ سکتے ہیں، ایک دوسرے کو معاف کر سکتے ہیں اور یوں ثابت کر سکتے ہیں کہ محبت ”ایسا بندھن ہے جو . . . پوری طرح متحد کرتا ہے۔“ (کُل 3:13، 14) یاد رکھیں کہ ”محبت صبر کرتی ہے اور مہربان ہے . . . اور غلطیوں کا حساب نہیں رکھتی۔“ (1-کُر 13:4، 5) اگر میاں بیوی میں اَنبن ہو جائے تو اُنہیں ”سورج کے ڈوبنے تک“ یعنی جلد از جلد صلح کر لینی چاہیے۔ (اِفس 4:26، 27) معافی مانگنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ اِس کے لیے خاکساری اور دلیری چاہیے ہوتی ہے۔ لیکن جب جیون ساتھی ایک دوسرے سے معافی مانگتے ہیں تو اُن کے بہت سے مسئلے سلجھ جاتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہو جاتے ہیں۔
ازدواجی بندھن میں پیار اور نرمی کی اہمیت
7، 8. (الف) بائبل میں جیون ساتھیوں کے درمیان جنسی تعلقات کے سلسلے میں کون سی ہدایات پائی جاتی ہیں؟ (ب) جیون ساتھیوں کو ایک دوسرے سے پیار اور نرمی سے کیوں پیش آنا چاہیے؟
7 بائبل میں ایسی ہدایتیں پائی جاتی ہیں جن کی مدد سے جیون ساتھی ازدواجی حق کے بارے میں درست نظریہ اپنا سکتے ہیں۔ (1-کُرنتھیوں 7:3-5 کو پڑھیں۔) یہ بہت اہم ہے کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے احساسات اور ضروریات کا لحاظ رکھیں۔ اگر شوہر اپنی بیوی کے ساتھ پیار اور نرمی سے پیش نہیں آتا تو بیوی کو ازدواجی حق ادا کرنے میں خوشی نہیں ملتی۔ بائبل میں شوہروں کو تاکید کی گئی ہے کہ ”اپنی بیوی کے ساتھ رہتے ہوئے اُس کا لحاظ رکھیں۔“ (1-پطر 3:7) جیون ساتھیوں کو ایک دوسرے کو جنسی تعلقات کے لیے مجبور نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی اِصرار کر کے اپنا حق وصول کرنا چاہیے۔ عورت کی نسبت مرد میں جنسی تعلقات کی خواہش زیادہ جلدی اُبھرتی ہے لیکن اِس خواہش پر تب ہی عمل کِیا جانا چاہیے جب بیوی بھی اِس پر راضی ہو۔
8 حالانکہ بائبل میں تفصیل سے نہیں بتایا گیا کہ میاں بیوی جنسی تعلقات کے دوران ایک دوسرے کے لیے چاہت اور پیار کا اِظہار کن کن طریقوں سے کر سکتے ہیں لیکن اِس میں ایسے اِظہارات کا ذکر ضرور آتا ہے۔ (غز 1:2؛ 2:6) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیون ساتھیوں کو ایک دوسرے سے پیار اور نرمی سے پیش آنا چاہیے۔
9. اپنے جیون ساتھی کے علاوہ کسی اَور کے لیے جنسی خواہش کو بڑھاوا دینا غلط کیوں ہے؟
9 جو مسیحی خدا اور پڑوسی سے محبت کرتا ہے، وہ کبھی اِس بات کی اِجازت نہیں دے گا کہ کوئی شخص یا چیز اُس کے اور اُس کے جیون ساتھی کے بیچ دیوار کھڑی کرے۔ بعض مسیحی فحش مواد دیکھنے کی عادت میں پڑ گئے جس کے نتیجے میں اُن کے ازدواجی رشتے پر بُرا اثر پڑا، یہاں تک کہ کچھ کی شادیاں بھی ٹوٹ گئیں۔ اِس لیے اگر ایک شادیشُدہ مسیحی فحش مواد دیکھنے کی خواہش محسوس کرتا ہے یا اُس کے دل میں کسی غیرشخص کے لیے جنسی کشش پیدا ہوتی ہے تو اُسے خود پر قابو پانے کے لیے فوراً قدم اُٹھانے چاہئیں۔ ایک شادیشُدہ مسیحی کو کسی غیرشخص سے دللگی تک نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے وہ اپنے جیون ساتھی کو دُکھ پہنچاتا ہے جو کہ سچی محبت کی راہ نہیں ہوتی۔ اگر ہم یاد رکھیں گے کہ خدا ہمارے ہر خیال اور ہر کام سے واقف ہے تو اُس کی نظر میں پاکیزہ رہنے کا ہمارا عزم زیادہ مضبوط ہو جائے گا۔—متی 5:27، 28؛ عبرانیوں 4:13 کو پڑھیں۔
سنگین ازدواجی مسئلوں کی صورت میں کیا کِیا جائے؟
10، 11. (الف) طلاق لینا کتنا عام ہو گیا ہے؟ (ب) خدا کے کلام میں علیٰحدگی کے سلسلے میں کون سی ہدایت پائی جاتی ہے؟ (ج) مسئلوں کی صورت میں میاں بیوی کو کن باتوں کو یاد رکھنا چاہیے تاکہ وہ جلد علیٰحدگی اِختیار نہ کر لیں؟
10 اگر میاں بیوی میں سنگین مسئلے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اُنہیں سلجھایا نہیں جاتا تو ہو سکتا ہے کہ بات علیٰحدگی، یہاں تک کہ طلاق تک پہنچ جائے۔ کچھ ملکوں میں تو آدھی سے زیادہ شادیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔ حالانکہ یہوواہ کے بندوں میں طلاق لینا اِتنا عام نہیں ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ اُن میں بھی ازدواجی مسائل بڑھ رہے ہیں جو کہ بڑی پریشانی کا باعث ہے۔
11 خدا کے کلام میں یہ ہدایت پائی جاتی ہے: ”بیوی اپنے شوہر کو چھوڑ کر چلی نہ جائے۔ اور اگر وہ اپنے شوہر سے علیٰحدگی اِختیار کر بھی لے تو دوسری شادی نہ کرے یا اپنے شوہر سے صلح کر لے۔ اِسی طرح شوہر بھی اپنی بیوی کو چھوڑ کر چلا نہ جائے۔“ (1-کُر 7:10، 11) اپنے جیون ساتھی سے الگ ہو جانا ایک سنگین معاملہ ہے۔ کچھ مسیحیوں کو لگتا ہے کہ اِس قدم کے علاوہ اَور کوئی چارہ نہیں لیکن اکثر اُن کے مسئلے کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتے ہیں۔ یسوع مسیح نے خدا کی اِس بات کا ذکر کرنے کے بعد کہ مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر اپنی بیوی کے ساتھ جُڑا رہے گا، یہ کہا کہ ”جسے خدا نے جوڑا ہے، اُسے کوئی اِنسان جُدا نہ کرے۔“ (متی 19:3-6؛ پید 2:24) لہٰذا خدا چاہتا ہے کہ ”کوئی اِنسان،“ یہاں تک کہ میاں یا بیوی بھی ازدواجی بندھن کو نہ توڑے۔ اُس کی نظر میں ازدواجی بندھن عمر بھر قائم رہتا ہے۔ (1-کُر 7:39) اگر جیون ساتھی یاد رکھیں گے کہ اُنہیں خدا کو حساب دینا پڑے گا تو وہ اپنے ازدواجی مسائل کو حل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے تاکہ یہ زیادہ سنگین نہ بن جائیں۔
12. کچھ جیون ساتھی کن مسائل کی وجہ سے علیٰحدگی اِختیار کرنے کا سوچنے لگتے ہیں؟
12 اکثر اوقات ازدواجی مسائل اِس لیے کھڑے ہو جاتے ہیں کیونکہ میاں بیوی ایک دوسرے سے ایسی اُمیدیں باندھتے ہیں جن پر وہ پورا نہیں اُتر سکتے۔ اُن کا خیال ہے کہ اُن کی ازدواجی زندگی ہمیشہ خوشی خوشی گزرے گی اور جب یہ خواب پورا نہیں ہوتا تو اُنہیں لگتا ہے جیسے اُنہیں دھوکا دیا گیا ہو اور اُن کے دل میں رنجش پلنے لگتی ہے۔ کچھ ازدواجی مسئلوں کی وجہ میاں بیوی کا فرق مزاج یا پسمنظر ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ سُسرالیوں، اخراجات اور بچوں کی پرورش کو لے کر بھی اُن میں اَنبن ہو سکتی ہے۔ لیکن خوشی کی بات ہے کہ زیادہتر مسیحی جوڑے یہوواہ خدا کی رہنمائی پر عمل کر کے ایسے مسئلے حل کر لیتے ہیں۔
13. کن صورتحال میں علیٰحدگی اِختیار کرنا غلط نہیں ہوتا؟
13 بعض صورتحال اِتنی سنگین ہوتی ہیں کہ علیٰحدگی اِختیار کرنا غلط نہیں ہوتا، مثلاً جب شوہر جان بُوجھ کر اپنے بیوی بچوں کی ضروریات پوری نہ کرے یا جب ایک شخص اپنے جیون ساتھی کے لیے یہوواہ خدا کی عبادت کرنا ناممکن بنا دے یا پھر اُس پر شدید تشدد کرے۔ ایسی صورتحال میں بعض مسیحیوں نے علیٰحدگی اِختیار کرنے کا فیصلہ کِیا ہے۔ اگر مسیحی جوڑے سنگین ازدواجی مسئلوں کا سامنا کر رہے ہیں تو اُنہیں کلیسیا کے بزرگوں سے مدد مانگنی چاہیے۔ یہ تجربہکار بھائی اُنہیں خدا کے کلام میں سے مشورے دے سکتے ہیں اور اِن پر عمل کرنے میں اُن کی مدد کر سکتے ہیں۔ جیون ساتھی ازدواجی مسئلوں کو حل کرنے کے لیے یہوواہ خدا سے پاک روح بھی مانگ سکتے ہیں تاکہ وہ خود میں اِس کے پھل پیدا کر سکیں اور اِس کی مدد سے بائبل کی ہدایات پر عمل کر سکیں۔—گل 5:22، 23۔ [2]
14. بائبل میں ایسے مسیحیوں کو کیا ہدایت دی گئی ہے جن کا جیون ساتھی یہوواہ خدا کی عبادت نہیں کرتا؟
14 کچھ مسیحیوں کے جیون ساتھی یہوواہ خدا کی عبادت نہیں کرتے۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ایسے مسیحیوں کو اپنے جیون ساتھی کو کیوں نہیں چھوڑنا چاہیے۔ (1-کُرنتھیوں 7:12-14 کو پڑھیں۔) یہوواہ خدا ایک مسیحی کے غیرایمان جیون ساتھی کو بھی پاک خیال کرتا ہے۔ اِسی طرح خدا کی نظر میں اُن کے بچے بھی پاک ہوتے ہیں یعنی اُنہیں خدا کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ پولُس رسول نے غیرایمان جیون ساتھی کے ساتھ رہنے کی وجہ یوں بتائی: ”بیویو، شاید آپ کا شوہر آپ کی وجہ سے نجات پا لے اور شوہرو، شاید آپ کی بیوی آپ کی وجہ سے نجات پا لے۔“ (1-کُر 7:16) اور واقعی یہوواہ کے گواہوں کی تقریباً ہر کلیسیا میں ایسے لوگ ہیں جو اپنے جیون ساتھی کی عمدہ مثال کی وجہ سے ایمان لے آئے۔
15، 16. (الف) پاک کلام میں اُن مسیحی عورتوں کو کیا ہدایت دی گئی ہے جن کے شوہر یہوواہ خدا کی عبادت نہیں کرتے؟ (ب) اگر ایک مسیحی کا ’غیرایمان جیون ساتھی اُس سے علیٰحدہ ہونا چاہتا ہے‘ تو اُس مسیحی کو کیا کرنا چاہیے؟
15 پطرس رسول نے مسیحی عورتوں کو اپنے غیرایمان شوہر کے تابعدار ہونے کی ہدایت دی اور اِس کی وجہ یوں بتائی: ”تاکہ اگر آپ کا شوہر کلام کو نہیں مانتا تو آپ اُسے بغیر کسی لفظ کے اپنے چالچلن سے قائل کر سکیں کیونکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھے گا کہ آپ کا چالچلن پاک ہے اور آپ اُس کا گہرا احترام بھی کرتی ہیں۔“ دیکھا گیا ہے کہ اگر ایک مسیحی بیوی اپنے شوہر کو سارا وقت گواہی دینے کی بجائے خود کو ’اُس پُرسکون اور نرم رویے سے سجاتی ہے جو خدا کی نظر میں بہت ہی قیمتی ہے‘ تو اِس کا زیادہ اِمکان ہوتا ہے کہ اُس کا شوہر بھی یہوواہ خدا کی عبادت کرنے لگے۔—1-پطر 3:1-4۔
16 لیکن اگر ایک مسیحی کا غیرایمان جیون ساتھی اُسے چھوڑنا چاہتا ہے تو اُس مسیحی کو کیا کرنا چاہیے؟ پاک کلام میں لکھا ہے: ”اگر آپ کا غیرایمان جیون ساتھی آپ سے علیٰحدہ ہونا چاہتا ہے تو اُسے جانے دیں۔ ایسی صورت میں ایک بھائی یا بہن اُس کے ساتھ رہنے کا پابند نہیں ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ آپ کو اِطمینان حاصل ہو۔“ (1-کُر 7:15، فٹنوٹ) اِس کا مطلب یہ نہیں کہ بائبل کے مطابق اُس مسیحی کو اب کسی اَور سے شادی کرنے کی اِجازت ہے۔ لیکن اُسے اپنے غیرایمان جیون ساتھی کو اپنے ساتھ رہنے پر مجبور بھی نہیں کرنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ علیٰحدگی کی وجہ سے اُس مسیحی کو ایک حد تک اِطمینان مل جائے۔ اِس کے ساتھ ساتھ اُسے اُمید کا دامن بھی نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ شاید اُس کا جیون ساتھی واپس لوٹ آئے اور اُس کے ساتھ مل کر ازدواجی بندھن کو مضبوط بنانے کی کوشش کرے۔ اور کیا پتہ کہ ایک نہ ایک دن وہ یہوواہ خدا کی عبادت بھی کرنے لگے۔
ازدواجی زندگی میں خدا کی بادشاہت کی اہمیت
17. شادیشُدہ مسیحیوں کو اپنی زندگی میں کس بات کو پہلا درجہ دینا چاہیے؟
17 ہم ”آخری زمانے میں“ رہ رہے ہیں اور دن بہدن مشکلات میں اِضافہ ہو رہا ہے۔ (2-تیم 3:1-5) لیکن خدا کی قربت میں رہنے سے ہم اِس بُرے ماحول میں رنگے جانے سے محفوظ رہیں گے۔ پولُس رسول نے لکھا: ”اب وقت کم رہ گیا ہے۔ اِس لیے جن کی بیوی ہے، وہ اُن کی طرح ہوں جن کی بیوی نہیں . . . اور جو دُنیا کا فائدہ اُٹھاتے ہیں، وہ اُن کی طرح ہوں جو اِس کا بھرپور فائدہ نہیں اُٹھاتے۔“ (1-کُر 7:29-31) کیا پولُس رسول شادیشُدہ مسیحیوں سے کہہ رہے تھے کہ وہ اپنی ازدواجی ذمےداریوں کو نظرانداز کریں؟ نہیں۔ لیکن چونکہ وقت کم ہے اِس لیے شادیشُدہ مسیحیوں کو چاہیے کہ وہ خدا کی بادشاہت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیں۔—متی 6:33۔
18. شادیشُدہ مسیحیوں کی ازدواجی زندگی کس صورت میں خوشگوار اور کامیاب ہو سکتی ہے؟
18 اِس مشکل دَور میں بہت سی شادیاں ٹوٹ رہی ہیں لیکن اگر شادیشُدہ مسیحی کلیسیا کی قربت میں رہیں گے، پاک کلام کی ہدایتوں پر عمل کریں گے اور یہوواہ کی پاک روح کی رہنمائی پر چلیں گے تو اُن کی ازدواجی زندگی خوشگوار اور کامیاب ہوگی۔ یوں وہ اِس حکم کو پورا کریں گے کہ ”جسے خدا نے جوڑا ہے، اُسے کوئی اِنسان جُدا نہ کرے۔“—مر 10:9۔
^ [1] (پیراگراف 5) فرضی نام اِستعمال کیے گئے ہیں۔
^ [2] (پیراگراف 13) کتاب خدا کی محبت میں قائم رہیں میں صفحہ 219-221 پر مضمون ”طلاق اور علیحدگی کے بارے میں خدا کا نظریہ“ کو دیکھیں۔