سُن کر بھولنے والے نہ بنیں
”کلام پر عمل کرنے والے بنو نہ محض سننے والے جو اپنےآپ کو دھوکا دیتے ہیں۔“ —یعقوب ۱:۲۲۔
۱. قدیم اسرائیل کو کونسے معجزات دیکھنے کا شرف حاصل ہوا تھا؟
قدیم مصر میں یہوواہ کے معجزات کو بیان کرنے کے لئے لفظ ”ناقابلِفراموش“ بالکل موزوں ہے۔ دس آفتوں میں سے ہر آفت ناقابلِتردید طور پر ہیبتناک تھی۔ ان واقعات کے بعد بنیاسرائیل کو دو حصوں میں بٹے ہوئے بحرِقلزم کے بیچ میں خشک زمین پر چل کر پار نکل جانے سے حیرانکُن مخلصی حاصل ہوئی۔ (استثنا ۳۴:۱۰-۱۲) اگر آپ نے یہ واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوتے تو یقیناً آپ انہیں وقوع میں لانے والی ہستی کو کبھی بھول نہ پاتے۔ تاہم، زبورنویس نے اپنے گیت میں بیان کِیا: ”وہ [اسرائیلی] اپنے مُنجی خدا کو بھول گئے جس نے مصرؔ میں بڑے بڑے کام کئے اور حاؔم کی سرزمین میں عجائب اور بحرِقلزؔم پر دہشتانگیز کام کئے۔“—زبور ۱۰۶:۲۱، ۲۲۔
۲. کس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کے مہیب کاموں کیلئے اسرائیل کی قدردانی محض عارضی تھی؟
۲ بحرِقلزم پار کرنے کے بعد، اسرائیلی ”[یہوواہ] سے ڈرے اور [یہوواہ] پر . . . ایمان لائے۔“ (خروج ۱۴:۳۱) اسرائیلی مردوں نے موسیٰ کیساتھ ملکر یہوواہ کے حضور فتح کا گیت گایا جبکہ مریم اور دیگر عورتیں دف بجابجا کر ناچ رہی تھیں۔ (خروج ۱۵:۱، ۲۰) واقعی، یہوواہ کے لوگ اُسکے مہیب کاموں سے بہت متاثر ہوئے تھے۔ لیکن جس ہستی نے اُن کیلئے یہ سب کام کئے اُس کیلئے اُنکی قدردانی محض عارضی تھی۔ کچھ ہی عرصے بعد اُن میں سے بیشتر کے اعمال سے ایسا معلوم ہونے لگا جیسے وہ سب کچھ بھول گئے ہیں۔ وہ یہوواہ کے خلاف بڑبڑانے اور شکایت کرنے لگے۔ بعض بُتپرستی اور جنسی بداخلاقی میں پڑ گئے۔—گنتی ۱۴:۲۷؛ ۲۵:۱-۹۔
ہم کیوں بھول جاتے ہیں؟
۳. اپنی ناکاملیت کی وجہ سے ہم کیا بھول سکتے ہیں؟
۳ اسرائیل کے اندر قدردانی کی کمی واقعی حیرانکُن بات ہے۔ لیکن ہمارے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ سچ ہے کہ ہم نے ایسے الہٰی معجزات نہیں دیکھے۔ تاہم، خدا کیساتھ اپنے رشتے میں یقیناً ہم نے بھی ناقابلِفراموش مواقع کا تجربہ کِیا ہوگا۔ ہم میں سے بعض کو وہ وقت یاد ہوگا جب ہم نے بائبل سچائی کو قبول کِیا تھا۔ دیگر خوشکُن اوقات میں یہوواہ کے حضور مخصوصیت کیلئے ہماری دُعا اور سچا مسیحی بننے کیلئے پانی میں بپتسمہ لینا شامل ہو سکتے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر کو اپنی زندگی میں کئی دوسرے مواقع پر یہوواہ کی مدد کا تجربہ ہوا ہوگا۔ (زبور ۱۱۸:۱۵) سب سے بڑھکر، ہمیں خدا کے اپنے بیٹے، یسوع مسیح کی قربانی کے وسیلے نجات کی اُمید حاصل ہوئی ہے۔ (یوحنا ۳:۱۶) تاہم، اپنی ناکاملیت کی وجہ سے جب ہمیں غلط خواہشات اور زندگی کی فکروں کا سامنا ہوتا ہے تو شاید ہم بھی بڑی آسانی سے یہوواہ کے اُن اچھے کاموں کو بھول جائیں جو اُس نے ہماری خاطر کئے ہیں۔
۴، ۵. (ا) یعقوب سُن کر بھولنے والے بننے کے خطرے سے کیسے آگاہ کرتا ہے؟ (ب) ہم آدمی اور آئینے سے متعلق یعقوب کی تمثیل کا اطلاق کیسے کر سکتے ہیں؟
۴ یسوع کے سوتیلے بھائی یعقوب نے ساتھی مسیحیوں کے نام خط میں سُن کر بھولنے والے بننے کے خطرے سے آگاہ کِیا تھا۔ اُس نے لکھا: ”کلام پر عمل کرنے والے بنو نہ محض سننے والے جو اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں۔ کیونکہ جو کوئی کلام کا سننے والا ہو اور اُس پر عمل کرنے والا نہ ہو وہ اُس شخص کی مانند ہے جو اپنی قدرتی صورت آئینہ میں دیکھتا ہے۔ اسلئے کہ وہ اپنےآپ کو دیکھ کر چلا جاتا ہے اور فوراً بھول جاتا ہے کہ مَیں کیسا تھا۔“ (یعقوب ۱:۲۲-۲۴) یعقوب کا اس بات سے کیا مطلب تھا؟
۵ جب ہم صبحسویرے جاگتے ہیں تو عموماً آئینہ دیکھ کر اپنی وضعقطع سنوارتے ہیں۔ لیکن مختلف کاموں میں مصروف ہو جانے سے جب ہمارا دھیان کہیں اَور لگ جاتا ہے تو ہم نے آئینے میں جوکچھ دیکھا تھا اُسکی بابت سوچنا چھوڑ دیتے ہیں۔ روحانی مفہوم میں بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ جب ہم خدا کا کلام پڑھتے ہیں تو ہم خدا کے تقاضوں کے مطابق اپنا جائزہ لے سکتے ہیں۔ یوں، ہمیں اپنی کمزوریاں صاف دکھائی دینے لگتی ہیں۔ لہٰذا، اس سے ہمیں اپنی شخصیت میں تبدیلیاں کرنے کی تحریک ملنی چاہئے۔ لیکن جب ہم روزمرّہ کاموں اور اپنے مسائل کو حل کرنے کی تگودَو میں لگ جاتے ہیں تو ہم بآسانی روحانی معاملات کی بابت سوچنا بند کر سکتے ہیں۔ (متی ۵:۳؛ لوقا ۲۱:۳۴) گویا ہم خدا کے اُن مشفقانہ کاموں کو بھول جاتے ہیں جو اُس نے ہماری خاطر کئے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو ہم گنہگارانہ رُجحانات کے نرغے میں پھنس جاتے ہیں۔
۶. کس صحیفے پر غوروفکر یہوواہ کی باتوں کو فراموش نہ کرنے کے سلسلے میں ہماری مدد کر سکتا ہے؟
۶ کرنتھس کے مسیحیوں کے نام اپنے پہلے الہامی خط میں پولس رسول بیابان میں مقیم اسرائیلیوں کا ذکر کرتا ہے جو سُن کر بھولنے والے ثابت ہوئے تھے۔ جس طرح پولس کی مشورت پہلی صدی کے مسیحیوں کیلئے مفید ثابت ہوئی تھی اُسی طرح یہ یہوواہ کی باتوں کو فراموش نہ کرنے کے سلسلے میں ہماری مدد بھی کر سکتی ہے۔ پس آئیے ۱-کرنتھیوں ۱۰:۱-۱۲ پر غور کریں۔
دُنیاوی خواہشات کو رد کریں
۷. اسرائیلیوں کو یہوواہ کی محبت کا کونسا ناقابلِتردید ثبوت ملا تھا؟
۷ اسرائیلیوں کی بابت پولس کا بیان دراصل مسیحیوں کیلئے ایک آگاہی ہے۔ جزواً، پولس لکھتا ہے: ”اَے بھائیو! مَیں تمہارا اس سے ناواقف رہنا نہیں چاہتا کہ ہمارے سب باپدادا بادل کے نیچے تھے اور سب کے سب سمندر میں سے گذرے۔ اور سب ہی نے اُس بادل اور سمندر میں موسیٰؔ کا بپتسمہ لیا۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱-۴) موسیٰ کے زمانے میں اسرائیلیوں نے خدا کی طاقت کے عظیم کرشموں کو دیکھا تھا جن میں وہ معجزاتی ابر کا ستون بھی شامل تھا جو دن میں اُن کی راہنمائی کرتا تھا اور جس نے بحرِقلزم سے بچ کر نکل جانے میں اُن کی مدد کی تھی۔ (خروج ۱۳:۲۱؛ ۱۴:۲۱، ۲۲) جیہاں، اُن اسرائیلیوں کو اپنے لئے یہوواہ کی محبت کا ناقابلِتردید ثبوت ملا تھا۔
۸. اسرائیلیوں کیلئے روحانی طور پر سُن کر بھول جانے کا کیا انجام ہوا؟
۸ پولس مزید بیان کرتا ہے کہ ”ان میں اکثروں سے خدا راضی نہ ہوا۔ چنانچہ وہ بیابان میں ڈھیر ہو گئے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۵) کتنے افسوس کی بات ہے! مصر سے نکلنے والے بیشتر اسرائیلی خود کو موعودہ مُلک میں داخل ہونے کے لائق ثابت نہ کر پائے۔ وہ ایمان کی کمی کے باعث خدا کی مقبولیت کھو بیٹھے اور بیابان میں ہی مر مٹے۔ (عبرانیوں ۳:۱۶-۱۹) ہم اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ پولس بیان کرتا ہے: ”یہ باتیں ہمارے واسطے عبرت ٹھہریں تاکہ ہم بُری چیزوں کی خواہش نہ کریں جیسے اُنہوں نے کی۔“—۱-کرنتھیوں ۱۰:۶۔
۹. یہوواہ نے اپنے لوگوں کیلئے کیا بندوبست کِیا تھا مگر اسرائیل نے کیسا ردِعمل دکھایا؟
۹ بیابان میں اسرائیلیوں کو روحانی معاملات پر توجہ مُرتکز رکھنے کے لئے کافی مدد فراہم کی گئی تھی۔ وہ یہوواہ کیساتھ ایک عہد میں شامل ہو کر اُس کی مخصوص قوم بن گئے۔ مزیدبرآں، اُن کیلئے کہانت، پرستش کے مرکز کے طور پر خیمۂاجتماع اور یہوواہ کے حضور قربانیاں گزراننے کا بندوبست کِیا گیا تھا۔ تاہم، ان روحانی نعمتوں سے خوش ہونے کی بجائے، وہ خدا کی مادی فراہمیوں کے سلسلے میں غیرمطمئن ہو گئے۔—گنتی ۱۱:۴-۶۔
۱۰. ہمیں خدا کو ہمیشہ کیوں یاد رکھنا چاہئے؟
۱۰ بیابان میں رہنے والے اسرائیلیوں کے برعکس، آجکل یہوواہ کے لوگ اُسکی مقبولیت سے استفادہ کرتے ہیں۔ پس، انفرادی طور پر خدا کو یاد رکھنا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے۔ ایسا کرنا خودغرضانہ خواہشات کو مسترد کرنے میں ہماری مدد کریگا جو ہماری روحانی بصیرت کو ماند کر سکتی ہیں۔ ہمیں ”بیدینی اور دُنیوی خواہشوں کا انکار کرکے اس موجودہ جہان میں پرہیزگاری اور راستبازی اور دینداری کے ساتھ زندگی“ گزارنے کا عزم کرنا چاہئے۔ (ططس ۲:۱۲) لہٰذا، اگر ہم بچپن ہی سے مسیحی کلیسیا کیساتھ وابستہ ہیں تو ہمیں کبھی بھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم کسی اچھی چیز سے محروم رہ گئے ہیں۔ اگر ہمارے ذہن میں ایسے خیالات آئیں تو ہمارے لئے یہوواہ اور عنقریب اُسکی طرف سے ملنے والی برکات کو یاد رکھنا مفید ہوگا۔—عبرانیوں ۱۲:۲، ۳۔
یہوواہ کیلئے مکمل فرمانبرداری
۱۱، ۱۲. بُتوں کی پرستش کئے بغیر بھی کوئی شخص بُتپرستی کا مُرتکب کیسے ہو سکتا ہے؟
۱۱ پولس ہمیں ایک اَور آگاہی دیتے ہوئے لکھتا ہے: ”تم بُتپرست نہ بنو جسطرح بعض اُن میں سے بن گئے تھے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ لوگ کھانے پینے کو بیٹھے۔ پھر ناچنے کودنے کو اُٹھے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۷) پولس اُس موقع کا حوالہ دے رہا ہے جب اسرائیلیوں نے ہارون کو سونے کا بچھڑا بنانے پر مجبور کِیا تھا۔ (خروج ۳۲:۱-۴) شاید ہم براہِراست بُتپرستی میں تو ملوث نہ ہوں لیکن ہم اپنی خودغرضانہ خواہشات کو پورے دلوجان کے ساتھ یہوواہ کی پرستش کرنے سے منحرف کر دینے کی اجازت دیکر بُتپرست ضرور بن سکتے ہیں۔—کلسیوں ۳:۵۔
۱۲ ایک اَور موقع پر پولس نے ایسے لوگوں کا ذکر کِیا جو روحانی معاملات کی بجائے مادی اشیا کی بابت زیادہ فکرمند تھے۔ اُن لوگوں کے حوالے سے جو ”مسیح کی صلیب کے دشمن ہیں“ اُس نے لکھا: ”اُنکا انجام ہلاکت ہے۔ انکا خدا پیٹ ہے۔“ (فلپیوں ۳:۱۸، ۱۹) وہ کسی تراشی ہوئی مورت کو سجدہ نہیں کر رہے تھے بلکہ اُنکی جسمانی خواہشات اُنکا معبود بن گئی تھیں۔ بِلاشُبہ، تمام خواہشات تو غلط نہیں ہوتیں۔ یہوواہ نے ہمیں انسانی ضروریات اور مختلف نعمتوں سے لطفاندوز ہونے کی صلاحیت کیساتھ خلق کِیا ہے۔ لیکن ذاتی خوشی کو خدا کے ساتھ رشتے پر ترجیح دینے والے لوگ واقعی بُتپرست بن جاتے ہیں۔—۲-تیمتھیس ۳:۱-۵۔
۱۳. ہم سونے کے بچھڑے کی سرگزشت سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۳ مصر سے نکلنے کے بعد، اسرائیلیوں نے پرستش کیلئے سونے کا ایک بچھڑا بنا لیا۔ بُتپرستی کے خلاف آگاہی کے علاوہ اس سرگزشت میں ایک اَور اہم سبق بھی پایا جاتا ہے۔ اسرائیلیوں نے یہوواہ کی واضح ہدایات کی خلافورزی کی تھی۔ (خروج ۲۰:۴-۶) اگرچہ اُنکا یہوواہ کو اپنے خدا کے طور پر رد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا توبھی اُنہوں نے ڈھالے ہوئے بچھڑے کے آگے قربانیاں گزرانیں اور اُس موقعے کو ”[یہوواہ] کے لئے عید“ کا نام دیا۔ اُنہوں نے دراصل یہ سوچ کر بڑی بھول کی تھی کہ خدا اُنکی نافرمانی کو نظرانداز کر دیگا۔ یہ یہوواہ کی توہین تھی جس سے وہ انتہائی غضبناک ہوا۔—خروج ۳۲:۵، ۷-۱۰؛ زبور ۱۰۶:۱۹، ۲۰۔
۱۴، ۱۵. (ا) اسرائیلیوں کے پاس سُن کر بھولنے والے بننے کا کوئی عذر کیوں نہیں تھا؟ (ب) اگر ہم نے سُن کر بھولنے والے نہ بننے کا قصد کر رکھا ہے توپھر ہم یہوواہ کے احکام کے سلسلے میں کیا کرینگے؟
۱۴ یہوواہ کے کسی گواہ کے لئے جھوٹے مذہب میں شامل ہو جانا بڑی غیرمعمولی بات ہوگی۔ تاہم، بعض کلیسیا میں رہتے ہوئے بھی دیگر طریقوں سے یہوواہ کی راہنمائی کو رد کر سکتے ہیں۔ اسرائیلیوں کے پاس سُن کر بھول جانے والے بننے کا کوئی عذر نہیں تھا۔ اُنہوں نے دس احکام کو سنا تھا اور اُن کی موجودگی میں ہی موسیٰ نے اُنہیں خدا کا یہ حکم بھی دیا تھا: ”تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا یعنی چاندی یا سونے کے دیوتا اپنے لئے نہ گھڑ لینا۔“ (خروج ۲۰:۱۸، ۱۹، ۲۲، ۲۳) اسکے باوجود، اسرائیلیوں نے سونے کے بچھڑے کی پرستش کی۔
۱۵ ہمارے پاس بھی سُن کر بھول جانے والے بننے کا کوئی عذر نہیں ہے۔ صحائف میں ہمیں زندگی کے مختلف حلقوں کی بابت خدائی راہنمائی فراہم کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر، یہوواہ کا کلام پیسہ اُدھار لیکر واپس نہ کرنے کی سخت مذمت کرتا ہے۔ (زبور ۳۷:۲۱) بچوں کو اپنے والدین کی فرمانبرداری کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور والدوں سے ”[یہوواہ] کی طرف سے . . . نصیحت دے دے کر“ اپنے بچوں کی پرورش کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ (افسیوں ۶:۱-۴) کنوارے مسیحیوں کو ”صرف خداوند“ میں شادی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اور خدا کے بیاہتا خادموں سے یہ کہا گیا ہے: ”بیاہ کرنا سب میں عزت کی بات سمجھی جائے اور بستر بےداغ رہے کیونکہ خدا حرامکاروں اور زانیوں کی عدالت کریگا۔“ (۱-کرنتھیوں ۷:۳۹؛ عبرانیوں ۱۳:۴) اگر ہم نے قصد کر رکھا ہے کہ ہم سُن کر بھولنے والے نہیں بنیں گے توپھر ہم تمام خدائی ہدایات کو سنجیدہ خیال کرتے ہوئے اِن پر عمل کرینگے۔
۱۶. سونے کے بچھڑے کی پرستش کرنے کا انجام کیا ہوا تھا؟
۱۶ یہوواہ نے اسرائیلیوں کی اس کوشش کو پسند نہیں کِیا تھا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اُسکی پرستش کرینگے۔ نتیجتاً، ۳،۰۰۰ لوگ مارے گئے کیونکہ اُنہوں نے غالباً سونے کے بچھڑے کی باغیانہ پرستش میں نمایاں کردار ادا کِیا تھا۔ دیگر خطاکاروں میں یہوواہ نے مری بھیج دی۔ (خروج ۳۲:۲۸، ۳۵) اُن لوگوں کیلئے یہ کتنی عبرتناک بات ہے جو خدا کا کلام پڑھتے تو ہیں مگر اپنی مرضی پر چلنے کا انتخاب کرتے ہیں!
”حرامکاری سے بھاگو“
۱۷. ۱-کرنتھیوں ۱۰:۸ میں کس واقعہ کا حوالہ دیا گیا تھا؟
۱۷ پولس ایک اَور ایسے حلقے کی نشاندہی کرتے ہوئے جس میں جسمانی خواہشات روحانی طور پر سُن کر بھولنے کا باعث بن سکتی ہیں کچھ یوں بیان کرتا ہے: ”ہم حرامکاری نہ کریں جسطرح اُن میں سے بعض نے کی اور ایک ہی دن میں تیئیس ہزار مارے گئے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۸) یہاں پولس بیابان میں اسرائیل کے ۴۰سالہ سفر کے اختتام پر موآب کے میدانوں میں پیش آنے والے واقعہ کا حوالہ دیتا ہے۔ کچھ ہی عرصہ پہلے اسرائیلیوں نے یہوواہ کی مدد سے یردن کے مشرقی علاقوں کو فتح کِیا تھا لیکن بہتیرے اسے بھول گئے اور بڑی بےقدری کا مظاہرہ کِیا۔ موعودہ مُلک کی سرحد پر، وہ جنسی بداخلاقی اور بعل فغور کی ناپاک پرستش کے پھندے میں پھنس گئے۔ تقریباً ۲۴،۰۰۰ ہزار کھیت آئے جن میں ۱،۰۰۰ سردار بھی شامل تھے۔—گنتی ۲۵:۹۔
۱۸. کس قسم کا چالچلن جنسی بداخلاقی پر منتج ہو سکتا ہے؟
۱۸ آجکل یہوواہ کے لوگ اپنے اعلیٰ اخلاقی معیاروں کی وجہ سے مشہور ہیں۔ لیکن جنسی بداخلاقی کی آزمائش کے تحت بعض مسیحیوں نے خدا اور اُسکے اُصولوں کی بابت سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ وہ سُن کر بھولنے والے بن گئے ہیں۔ آزمائش کی ابتدا شاید حرامکاری سے تو نہ ہو مگر فحش تصاویر اور فلمیں دیکھنے کا تجسّس، غیرمہذب مذاق یا فلرٹنگ یا پھر بداخلاق لوگوں کیساتھ قریبی رفاقت رکھنا اسکی طرف مائل ضرور کر سکتا ہے۔ یہ تمام حالتیں مسیحیوں کیلئے گنہگارانہ چالچلن میں ملوث ہونے کا باعث بنی ہیں۔—۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۳؛ یعقوب ۴:۴۔
۱۹. ’حرامکاری سے بھاگنے‘ کے سلسلے میں کونسی صحیفائی مشورت ہماری مدد کرتی ہے؟
۱۹ بداخلاقی کی آزمائش میں، ہمیں یہوواہ کی بابت سوچنا بند نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ، ہمیں اُس کے کلام میں درج یاددہانیوں پر دھیان دینا چاہئے۔ (زبور ۱۱۹:۱، ۲) مسیحیوں کے طور پر، تقریباً ہم سب اخلاقی پاکیزگی برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں لیکن خدا کے حضور راستی پر چلنے کے لئے مسلسل کوشش درکار ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۹:۲۷) پولس نے روم کے مسیحیوں کو لکھا: ”تمہاری فرمانبرداری سب میں مشہور ہو گئی ہے اسلئے مَیں تمہارے بارے میں خوش ہوں لیکن یہ چاہتا ہوں کہ تم نیکی کے اعتبار سے دانا بن جاؤ اور بدی کے اعتبار سے بھولے بنے رہو۔“ (رومیوں ۱۶:۱۹) جس طرح ۲۴،۰۰۰ اسرائیلیوں کو اُن کے گناہوں کی سزا ملی تھی اُسی طرح حرامکاری اور دیگر گناہوں کے مُرتکب لوگ جلد ہی یہوواہ کی کڑی عدالت کا تجربہ کریں گے۔ (افسیوں ۵:۳-۶) پس، سُن کر بھولنے والے بننے کی بجائے ہمیں مسلسل ’حرامکاری سے بھاگتے رہنا‘ چاہئے۔—۱-کرنتھیوں ۶:۱۸۔
ہمیشہ یہوواہ کی فراہمیوں کی قدر کریں
۲۰. اسرائیلیوں نے یہوواہ کو کیسے آزمایا تھا اور اسکا کیا نتیجہ نکلا؟
۲۰ مسیحیوں کی اکثریت جنسی بداخلاقی کی آزمائش سے کبھی مغلوب نہیں ہوتی۔ لیکن پھربھی ہمیں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم بڑبڑانے والے نہ بن جائیں جو الہٰی نامقبولیت پر منتج ہو سکتا ہے۔ پولس ہمیں تلقین کرتا ہے: ”ہم [یہوواہ] کی آزمایش نہ کریں جیسے اُن [اسرائیلیوں] میں سے بعض نے کی اور سانپوں نے اُنہیں ہلاک کِیا۔ اور تم بڑبڑاؤ نہیں جس طرح اُن میں سے بعض بڑبڑائے اور ہلاک کرنے والے سے ہلاک ہوئے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۹، ۱۰) معجزانہ طور پر فراہمکردہ من کی بابت شکایت کرتے ہوئے اسرائیلی موسیٰ اور ہارون کے علاوہ خدا کے خلاف بھی بڑبڑائے تھے۔(گنتی ۱۶:۴۱؛ ۲۱:۵) کیا یہوواہ اُنکی حرامکاری کی نسبت بڑبڑانے سے کم برہم ہوا تھا؟ بائبل بیان کرتی ہے کہ بہتیرے بڑبڑانے والے سانپوں کے ڈسنے سے ہلاک ہو گئے۔ (گنتی ۲۱:۶) اس سے پیشتر ایک موقع پر، ۱۴،۷۰۰ سے زیادہ بڑبڑانے والے باغی ہلاک ہو گئے تھے۔ (گنتی ۱۶:۴۹) پس یہوواہ کی فراہمیوں کی بےحُرمتی کرنے سے ہمیں کبھی بھی یہوواہ کے صبر کو آزمانا نہیں چاہئے۔
۲۱. (ا) پولس نے الہام سے کونسی نصیحت تحریر کی؟ (ب) یعقوب ۱:۲۵ کے مطابق ہم حقیقی خوشی کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
۲۱ ساتھی مسیحیوں کے نام خط میں پولس آگاہیوں کی فہرست کو اس نصیحت کے ساتھ ختم کرتا ہے: ”یہ باتیں اُن پر عبرت کے لئے واقع ہوئیں اور ہم آخری زمانہ والوں کی نصیحت کے واسطے لکھی گئیں۔ پس جو کوئی اپنےآپ کو قائم سمجھتا ہے خبردار رہے کہ گِر نہ پڑے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۱، ۱۲) اسرائیلیوں کی طرح، ہم نے بھی یہوواہ سے بہتیری برکات حاصل کی ہیں۔ تاہم، دُعا ہے کہ اُن کے برعکس، ہم کبھی بھی اُن کاموں کو نہ تو بھولیں اور نہ ہی اُن کے لئے قدردانی دکھانے میں ناکام ہوں جو خدا ہماری خاطر کر رہا ہے۔ جب زندگی کے تفکرات ہم پر دباؤ ڈالتے ہیں تو ہمیں خدا کے کلام میں پائے جانے والے شاندار وعدوں پر غور کرنا چاہئے۔ دُعا ہے کہ ہم یہوواہ کے ساتھ اپنے بیشقیمت رشتے کو یاد رکھیں اور بادشاہتی منادی کا کام کرتے رہیں جو ہمارے سپرد کِیا گیا ہے۔ (متی ۲۴:۱۴؛ ۲۸:۱۹، ۲۰) ایسی روش یقیناً حقیقی خوشی پر منتج ہوگی کیونکہ صحائف وعدہ کرتے ہیں: ”جو شخص آزادی کی کامل شریعت پر غور سے نظر کرتا رہتا ہے وہ اپنے کام میں اس لئے برکت پائے گا کہ سُن کر بھولتا نہیں بلکہ عمل کرتا ہے۔“—یعقوب ۱:۲۵۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
• ہم کیوں سُن کر بھولنے والے بن سکتے ہیں؟
• خدا کی مکمل فرمانبرداری کیوں ضروری ہے؟
• ہم کیسے ’حرامکاری سے بھاگ‘ سکتے ہیں؟
• یہوواہ کی فراہمیوں کیلئے ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہئے؟
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
اسرائیلی یہوواہ کے اُن مہیب کاموں کو بھول گئے جو اُس نے اُنکی خاطر کئے تھے
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
یہوواہ کے لوگ اعلیٰ اخلاقی معیار برقرار رکھنے کا عزم کئے ہوئے ہیں