-
مسیحی مردو! کیا آپ یسوع مسیح کا اختیار مانتے ہیں؟مینارِنگہبانی—2010ء | مئی
-
-
مسیحی مردو! کیا آپ یسوع مسیح کا اختیار مانتے ہیں؟
”ہر مرد کا سر مسیح . . . ہے۔“—۱-کر ۱۱:۳۔
۱. یہ کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا بےترتیبی کا نہیں بلکہ ترتیب کا بانی ہے؟
”اَے ہمارے [یہوواہ] اور خدا تُو ہی تمجید اور عزت اور قدرت کے لائق ہے کیونکہ تُو ہی نے سب چیزیں پیدا کیں اور وہ تیری ہی مرضی سے تھیں اور پیدا ہوئیں۔“ (مکا ۴:۱۱) یہ آیت ظاہر کرتی ہے کہ یہوواہ خدا کائنات کا خالق ہے۔ اِسی لئے وہ اپنی تمام مخلوق پر اختیار رکھتا ہے۔ یہوواہ خدا ”بےترتیبی کا نہیں بلکہ ترتیب کا بانی ہے۔“ (۱-کر ۱۴:۳۳، کیتھولک ترجمہ) مثال کے طور پر خدا نے ایک ایسا انتظام قائم کِیا ہے جس کے تحت فرشتے منظم طریقے سے اُس کی خدمت کرتے ہیں۔—یسع ۶:۱-۳؛ عبر ۱۲:۲۲، ۲۳۔
۲، ۳. (ا) یہوواہ خدا نے سب سے پہلے کس کو خلق کِیا؟ (ب) بائبل سے ہم یہوواہ خدا اور اُس کے پہلوٹھے بیٹے کے مرتبے کے متعلق کیا سیکھتے ہیں؟
۲ یہوواہ خدا ساری کائنات کی تخلیق سے بھی پہلے موجود تھا۔ اُس کی سب سے پہلی تخلیق ایک رُوحانی ہستی تھی۔ اُس کا نام ”کلام“ تھا کیونکہ وہ یہوواہ خدا کا نمائندہ تھا۔ اِس کلام کے وسیلے سے باقی تمام چیزوں کو خلق کِیا گیا۔ پھر وہ ایک بےعیب انسان کے طور پر زمین پر آیا۔ زمین پر وہ یسوع مسیح کہلایا۔—یوحنا ۱:۱-۳، ۱۴ کو پڑھیں۔
۳ بائبل سے ہم یہوواہ خدا اور اُس کے پہلوٹھے بیٹے کے مرتبے کے متعلق کیا سیکھتے ہیں؟ اِس سلسلے میں پولس رسول کی اِس بات پر غور کریں جو اُس نے خدا کے الہام سے لکھی: ”مَیں تمہیں آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہر مرد کا سر مسیح اور عورت کا سر مرد اور مسیح کا سر خدا ہے۔“ (۱-کر ۱۱:۳) یہ آیت واضح کرتی ہے کہ یسوع مسیح جس کے ’وسیلے سے سب چیزیں پیدا کی گئیں‘ اپنے باپ کے تابع ہے۔ (کل ۱:۱۶) دراصل خدا کے خادموں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ یہوواہ خدا کی طرف سے دئے گئے اختیار کی تابعداری کریں تاکہ اُن میں امن اور اتحاد قائم رہے۔
۴، ۵. ہم کیسے جانتے ہیں کہ یسوع مسیح اپنے باپ کا اختیار تسلیم کرتا تھا؟
۴ کیا یسوع مسیح خوشی سے یہوواہ کے اختیار کو تسلیم کرتے ہوئے زمین پر آیا تھا؟ بائبل بیان کرتی ہے: ”اُس نے اگرچہ خدا کی صورت پر تھا خدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔ بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہوگیا۔ اور انسانی شکل میں ظاہر ہو کر اپنے آپ کو پست کر دیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارا کی۔“—فل ۲:۵-۸۔
۵ یسوع مسیح ہمیشہ اپنے باپ کا اختیار تسلیم کرتا تھا۔ اِس لئے اُس نے کہا: ”مَیں اپنے آپ سے کچھ نہیں کر سکتا۔ . . . میری عدالت راست ہے کیونکہ مَیں اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی چاہتا ہوں۔“ (یوح ۵:۳۰) اُس نے بتایا کہ ”مَیں ہمیشہ وہی کام کرتا ہوں جو [میرے باپ کو] پسند آتے ہیں۔“ (یوح ۸:۲۹) اپنی موت سے پہلے یسوع مسیح نے دُعا میں اپنے باپ سے کہا: ”جو کام تُو نے مجھے کرنے کو دیا تھا اُس کو تمام کرکے مَیں نے زمین پر تیرا جلال ظاہر کِیا۔“ (یوح ۱۷:۴) پس یسوع مسیح نے اپنے باپ کے اختیار کو خوشی سے تسلیم کِیا۔
باپ کی تابعداری بیٹے کے لئے فائدہمند
۶. یسوع مسیح نے کونسی عمدہ خوبیاں ظاہر کیں؟
۶ یسوع مسیح نے زمین پر آکر بہت سی عمدہ خوبیاں ظاہر کیں۔ مثال کے طور پر اُس نے اپنے باپ سے بہت محبت کی۔ اُس نے کہا کہ ”مَیں باپ سے محبت رکھتا ہوں۔“ (یوح ۱۴:۳۱) یسوع مسیح نے انسانوں کے لئے بھی بڑی محبت ظاہر کی۔ (متی ۲۲:۳۵-۴۰ کو پڑھیں۔) یسوع مسیح مہربان اور رحمدل تھا۔ وہ مغرور یا سختمزاج نہیں تھا۔ اُس نے کہا: ”اَے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔ مَیں تُم کو آرام دُوں گا۔ میرا جؤا اپنے اُوپر اُٹھا لو اور مجھ سے سیکھو۔ کیونکہ مَیں حلیم ہوں اور دل کا فروتن۔ تو تمہاری جانیں آرام پائیں گی۔ کیونکہ میرا جؤا ملائم ہے اور میرا بوجھ ہلکا۔“ (متی ۱۱:۲۸-۳۰) ہر عمر کے لوگ یسوع مسیح سے مل کر خوش ہوتے تھے۔ خاص طور پر ظلم اور ناانصافی کا سامنا کرنے والے لوگ یسوع مسیح کی باتوں سے تسلی پاتے تھے۔
۷، ۸. (ا) جس عورت کے ۱۲ سال سے خون جاری تھا اُس کے لئے شریعت کے مطابق کیا کرنا منع تھا؟ (ب) یسوع مسیح اِس عورت کے ساتھ کیسے پیش آیا؟
۷ ذرا غور کریں کہ یسوع مسیح عورتوں کے ساتھ کیسے پیش آتا تھا۔ شروع ہی سے مرد عورتوں کے ساتھ سختی سے پیش آتے رہے ہیں۔ قدیم اسرائیل میں مذہبی پیشوا بھی عورتوں سے بُرا سلوک کرتے تھے۔ لیکن یسوع مسیح عورتوں کے ساتھ عزت سے پیش آیا۔ اِس سلسلے میں اُس عورت کی مثال پر غور کریں جس کے ۱۲ سال سے خون جاری تھا۔ وہ ”کئی طبیبوں سے بڑی تکلیف اُٹھا چکی تھی اور اپنا سب مال خرچ کرکے بھی اُسے کچھ فائدہ نہ ہوا تھا بلکہ زیادہ بیمار ہوگئی تھی۔“ شریعت کے مطابق وہ ناپاک تھی اِس لئے جو کوئی اُسے چُھوتا وہ بھی ناپاک ہو جاتا۔—احبا ۱۵:۱۹، ۲۵۔
۸ جب اِس عورت نے سنا کہ یسوع بیماروں کو شفا دیتا ہے تو وہ بھی یسوع مسیح کے آسپاس جمع بِھیڑ میں شامل ہوگئی۔ اُس نے سوچا کہ ”اگر مَیں صرف اُس کی پوشاک ہی چُھو لوں گی تو اچھی ہو جاؤں گی۔“ لہٰذا، اُس نے جیسے ہی یسوع کو چُھوا تو وہ ٹھیک ہو گئی۔ یسوع مسیح جانتا تھا کہ اِس عورت کو شریعت کے مطابق اُس کی پوشاک نہیں چُھونی چاہئے تھی۔ پھربھی یسوع غصہ ہونے کی بجائے اُس کے ساتھ رحم سے پیش آیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ طویل بیماری کی وجہ سے یہ عورت بہت دُکھی ہے اور اُسے مدد کی اشد ضرورت ہے۔ پس، یسوع مسیح نے اُس سے بڑے پیار سے کہا: ”بیٹی تیرے ایمان سے تجھے شفا ملی۔ سلامت جا اور اپنی اِس بیماری سے بچی رہ۔“—مر ۵:۲۵-۳۴۔
۹. جب شاگردوں نے بچوں کو یسوع مسیح کے پاس آنے سے روکا تو اُس نے کیا کہا؟
۹ بچے بھی یسوع مسیح کے پاس آ کر خوش ہوتے تھے۔ ایک موقع پر جب لوگ اپنے بچوں کو یسوع مسیح کے پاس لانے لگے تو شاگردوں نے اُنہیں جھڑکا۔ اُنہوں نے سوچا کہ یسوع مسیح بہت مصروف ہے اِس لئے وہ بچوں سے ملنا نہیں چاہے گا۔ مگر ”یسوؔع یہ دیکھ کر خفا ہوا اور [شاگردوں] سے کہا بچوں کو میرے پاس آنے دو۔ اُن کو منع نہ کرو کیونکہ خدا کی بادشاہی ایسوں ہی کی ہے۔ . . . پھر اُس نے اُنہیں اپنی گود میں لیا اور اُن پر ہاتھ رکھ کر اُن کو برکت دی۔“ یسوع مسیح کسی مجبوری کے تحت نہیں بلکہ خوشی کے ساتھ بچوں سے ملا۔—مر ۱۰:۱۳-۱۶۔
۱۰. یسوع مسیح میں وہ تمام خوبیاں کیسے پیدا ہوئیں جو اُس نے زمین پر آکر ظاہر کیں؟
۱۰ یسوع مسیح میں وہ تمام خوبیاں کیسے پیدا ہوئیں جو اُس نے زمین پر آکر ظاہر کی تھیں؟ دراصل زمین پر آنے سے پہلے وہ اپنے آسمانی باپ کے ساتھ ایک لمبا عرصہ گزار چکا تھا اور اُس سے بہت کچھ سیکھ چکا تھا۔ (امثال ۸:۲۲، ۲۳، ۳۰ کو پڑھیں۔) وہ یہ دیکھ چکا تھا کہ اُس کا باپ تمام مخلوقات پر اپنا اختیار بڑی محبت سے عمل میں لاتا ہے۔ اِس سے یسوع نے بھی اپنا اختیار محبت سے عمل میں لانا سیکھا۔ اگر یسوع مسیح اپنے باپ کی تابعداری نہ کرتا تو وہ کبھی بھی ایسا کرنے کے قابل نہ ہوتا۔ یسوع مسیح کے لئے اپنے باپ کا اختیار ماننا بڑی خوشی کی بات تھی اور یہوواہ خدا کو بھی یقیناً ایسے تابعدار بیٹے پر ناز تھا۔ اِسی لئے یسوع مسیح نے زمین پر آکر اپنے آسمانی باپ کی شاندار خوبیاں ظاہر کیں۔ واقعی، خدا کی بادشاہت کے حکمران یسوع مسیح کا اختیار تسلیم کرنا ہمارے لئے ایک شرف ہے!
مسیح جیسی خوبیاں ظاہر کریں
۱۱. (ا) ہمیں کس کی مانند بننے کی کوشش کرنی چاہئے؟ (ب) کلیسیا میں خاص طور پر مردوں کو کیوں مسیح کی مانند بننا چاہئے؟
۱۱ کلیسیا کے تمام ارکان خاص طور پر مردوں کو یسوع مسیح کی مانند بننے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ ’ہر مرد کا سر مسیح ہے۔‘ جیسے یسوع مسیح اپنے سر یہوواہ خدا کی مانند بنا ویسے ہی مسیحی مردوں کو اپنے سر یسوع مسیح کی مانند بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مسیحی بننے کے بعد پولس رسول نے بھی ایسا ہی کِیا تھا۔ اِس لئے اُس نے مسیحیوں کو یہ مشورہ دیا: ”تُم میری مانند بنو جیسا مَیں مسیح کی مانند بنتا ہوں۔“ (۱-کر ۱۱:۱) پطرس رسول نے بھی کچھ ایسا ہی کہا: ”تُم اِسی کے لئے بلائے گئے ہو کیونکہ مسیح بھی تمہارے واسطے دُکھ اُٹھا کر تمہیں ایک نمونہ دے گیا ہے تاکہ اُس کے نقشِقدم پر چلو۔“ (۱-پطر ۲:۲۱) ایک اَور وجہ بھی ہے جس کی بِنا پر مردوں کو مسیح کی مانند بننا چاہئے۔ کلیسیا میں مردوں کو ہی بزرگوں اور خادموں کے طور پر مقرر کِیا جاتا ہے۔ جس طرح یسوع مسیح نے اپنے اندر یہوواہ خدا کی خوبیاں پیدا کرنے سے خوشی حاصل کی اُسی طرح مسیحی مرد بھی مسیح جیسی خوبیاں پیدا کرنے سے خوشی حاصل کرتے ہیں۔
۱۲، ۱۳. بزرگوں کو گلّے کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہئے؟
۱۲ کلیسیا کے بزرگوں کے لئے لازمی ہے کہ وہ مسیح کی مانند بننا سیکھیں۔ اِس سلسلے میں پطرس رسول نے بزرگوں کو یہ نصیحت کی: ”خدا کے اُس گلّہ کی گلّہبانی کرو جو تُم میں ہے۔ لاچاری سے نگہبانی نہ کرو بلکہ خدا کی مرضی کے موافق خوشی سے اور ناجائز نفع کے لئے نہیں بلکہ دلی شوق سے۔ اور جو لوگ تمہارے سُپرد ہیں اُن پر حکومت نہ جتاؤ بلکہ گلّہ کے لئے نمونہ بنو۔“ (۱-پطر ۵:۱-۳) مسیحی بزرگوں کو حکومت جتانے والے، اپنی منمانی کرنے والے اور دوسروں پر سختی کرنے والے نہیں ہونا چاہئے۔ اِس کی بجائے اُنہیں گلّے کے ساتھ محبت، نرمی، فروتنی اور مہربانی سے پیش آنا چاہئے۔
۱۳ کلیسیا میں پیشوائی کرنے والوں کو یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ بھی خطاکار ہیں۔ (روم ۳:۲۳) اِس لئے اُنہیں بڑے شوق سے یسوع مسیح کے بارے میں سیکھنا چاہئے اور اُس کی طرح دوسروں کے ساتھ محبت سے پیش آنا چاہئے۔ اُنہیں اِس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح دوسروں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں۔ اِس سلسلے میں پطرس رسول یہ نصیحت کرتا ہے: ”سب کے سب ایک دوسرے کی خدمت کے لئے فروتنی سے کمربستہ رہو اِس لئے کہ خدا مغروروں کا مقابلہ کرتا ہے مگر فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے۔“—۱-پطر ۵:۵۔
۱۴. بزرگ دوسروں کی عزت کرنے کے سلسلے میں کیسے ایک عمدہ مثال قائم کر سکتے ہیں؟
۱۴ بزرگوں کو خدا کے گلّہ کے ساتھ پیش آتے وقت عمدہ خوبیاں ظاہر کرنی چاہئیں۔ رومیوں ۱۲:۱۰ بیان کرتی ہے: ”برادرانہ محبت سے آپس میں ایک دوسرے کو پیار کرو۔ عزت کے رُو سے ایک دوسرے کو بہتر سمجھو۔“ لہٰذا، بزرگوں اور خادموں کو دوسروں کی عزت کرنی چاہئے۔ دوسرے مسیحیوں کی طرح اُنہیں بھی اِس نصیحت پر عمل کرنا چاہئے: ”تفرقے اور بیجا فخر کے باعث کچھ نہ کرو بلکہ فروتنی سے ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھے۔“ (فل ۲:۳) خاص طور پر پیشوائی کرنے والے دوسروں کو خود سے بہتر سمجھتے ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ پولس رسول کی اِس مشورت پر عمل کر رہے ہوں گے: ”غرض ہم زورآوروں کو چاہئے کہ ناتوانوں کی کمزوریوں کی رعایت کریں نہ کہ اپنی خوشی کریں۔ ہم میں ہر شخص اپنے پڑوسی کو اُس کی بہتری کے واسطے خوش کرے تاکہ اُس کی ترقی ہو۔ کیونکہ مسیح نے بھی اپنی خوشی نہیں کی۔“—روم ۱۵:۱-۳۔
’بیویوں کی عزت کریں‘
۱۵. شوہروں سے کیا توقع کی جاتی ہے؟
۱۵ آئیں اب شادیشُدہ مردوں کے لئے پطرس کی مشورت پر غور کریں۔ وہ لکھتا ہے: ”اَے شوہرو! تُم بھی بیویوں کے ساتھ عقلمندی سے بسر کرو اور عورت کو نازک ظرف جان کر اُس کی عزت کرو۔“ (۱-پطر ۳:۷) کسی کی عزت کرنے میں یہ بات شامل ہے کہ اُس کی رائے، ضروریات اور خواہشات کا لحاظ رکھا جائے اور اگر اُس کی بات کسی اصول کے خلاف نہیں ہے تو اُسے مان لیا جائے۔ شوہروں سے بھی اپنی بیویوں کے لئے اِسی طرح عزت دکھانے کی توقع کی جاتی ہے۔
۱۶. پاک کلام کے مطابق شوہروں کو اپنی بیویوں کی عزت کیوں کرنی چاہئے؟
۱۶ پطرس نے شوہروں کو بیویوں کی عزت کرنے کا مشورہ دینے کے ساتھساتھ یہ بھی واضح کِیا کہ اُنہیں ایسا کیوں کرنا چاہئے۔ اُس نے بتایا کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو اُن کی ’دُعائیں رُک جائیں‘ گی یعنی یہوواہ خدا اُن کی دُعائیں نہیں سنے گا۔ (۱-پطر ۳:۷) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا کی نظر میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ شوہر اپنی بیوی کی عزت کرے۔ نیز، جب شوہر اپنی بیوی کے ساتھ عزت سے پیش آتا ہے تو بیوی کے دل میں بھی اپنے شوہر کے لئے عزت بڑھ جاتی ہے۔
۱۷. شوہروں کو اپنی بیویوں سے کس حد تک محبت کرنی چاہئے؟
۱۷ بیویوں سے محبت کرنے کے سلسلے میں خدا کا کلام نصیحت کرتا ہے: ”شوہروں کو لازم ہے کہ اپنی بیویوں سے اپنے بدن کی مانند محبت رکھیں۔ . . . کیونکہ کبھی کسی نے اپنے جسم سے دشمنی نہیں کی بلکہ اُس کو پالتا اور پرورش کرتا ہے جیسے کہ مسیح کلیسیا کو۔ . . . تُم میں سے بھی ہر ایک اپنی بیوی سے اپنی مانند محبت رکھے۔“ (افس ۵:۲۸، ۲۹، ۳۳) شوہروں کو اپنی بیویوں سے کس حد تک محبت کرنی چاہئے؟ اِس سلسلے میں پولس رسول نے لکھا: ”اَے شوہرو! اپنی بیویوں سے محبت رکھو جیسے مسیح نے بھی کلیسیا سے محبت کرکے اپنے آپ کو اُس کے واسطے موت کے حوالہ کر دیا۔“ (افس ۵:۲۵) اِس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے یسوع مسیح نے دوسروں کی خاطر اپنی جان قربان کی ویسے ہی شوہروں کو بھی بیویوں کی خاطر اپنی جان دے دینے سے دریغ نہیں کرنا چاہئے۔ جب مسیحی شوہر اپنی بیوی کے لئے ہمدردی اور محبت دکھاتا ہے تو بیوی کے لئے شوہر کے اختیار کو ماننا آسان ہو جاتا ہے۔
۱۸. شوہر اپنی بیویوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آنے کے قابل کیسے ہو سکتے ہیں؟
۱۸ کیا شوہروں کے لئے اِس حد تک بیویوں کی عزت کرنا مشکل ہے؟ جینہیں۔ کیونکہ یہوواہ خدا کبھی بھی شوہروں سے کسی ایسے کام کی توقع نہیں کرتا جو اُن کے بس میں نہ ہو۔ اِس کے علاوہ، یہوواہ کے خادم اُس کی پاک رُوح سے مدد حاصل کر سکتے ہیں۔ یسوع مسیح نے کہا: ”جب تُم بُرے ہو کر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو آسمانی باپ اپنے مانگنے والوں کو روحُالقدس کیوں نہ دے گا؟“ (لو ۱۱:۱۳) شوہر دُعا میں یہوواہ خدا سے اُس کی پاک رُوح مانگ سکتے ہیں تاکہ وہ دوسروں خاص طور پر اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کے قابل ہو سکیں۔—اعمال ۵:۳۲ کو پڑھیں۔
۱۹. اگلے مضمون میں کس بات پر غور کِیا جائے گا؟
۱۹ واقعی، مردوں کی ذمہداری ہے کہ وہ مسیح کا اختیار تسلیم کریں اور اُس کی مثال پر عمل کرنا سیکھیں۔ لیکن اِس سلسلے میں عورتوں خاص طور پر بیویوں کی ذمہداری کیا ہے؟ اگلے مضمون میں ہم سیکھیں گے کہ یہوواہ کے انتظام میں عورتوں کا کردار کیا ہے اور اُنہیں اِسے کیسا خیال کرنا چاہئے؟
-
-
بیوی کے لئے شوہر کا اختیار ماننے کی اہمیتمینارِنگہبانی—2010ء | مئی
-
-
بیوی کے لئے شوہر کا اختیار ماننے کی اہمیت
”عورت کا سر مرد . . . ہے۔“—۱-کر ۱۱:۳۔
۱، ۲. (ا) پولس رسول نے اختیار کے سلسلے میں یہوواہ کے انتظام کے متعلق کیا لکھا؟ (ب) اِس مضمون میں کن سوالوں کا جواب دیا جائے گا؟
پولس رسول نے اختیار کے سلسلے میں یہوواہ کے انتظام کے متعلق لکھا: ”مرد کا سر مسیح اور . . . مسیح کا سر خدا ہے۔“ (۱-کر ۱۱:۳) پچھلے مضمون میں ہم نے سیکھا تھا کہ یسوع مسیح خوشی سے اپنے سر یہوواہ خدا کی تابعداری کرتا تھا۔ ہم نے یہ بھی سیکھا کہ مسیحی مردوں کو اپنے سر یسوع مسیح کا اختیار تسلیم کرنا چاہئے۔ یسوع مسیح لوگوں کے ساتھ بڑی مہربانی، نرمی اور شفقت سے پیش آتا تھا۔ مسیحی کلیسیا میں مردوں کو بھی سب کے ساتھ خاص طور پر اپنی بیویوں کے ساتھ ایسے ہی پیش آنا چاہئے۔
۲ لیکن سوال یہ ہے کہ عورتوں کو کس کا اختیار تسلیم کرنا چاہئے؟ اِس سلسلے میں پولس رسول نے خدا کے الہام سے لکھا: ”عورت کا سر مرد . . . ہے۔“ عورتیں اِس بات سے کیا سیکھ سکتی ہیں؟ اگر کوئی عورت یہوواہ کی گواہ ہے مگر اُس کا شوہر گواہ نہیں ہے تو کیا اُسے اپنے شوہر کا اختیار تسلیم کرنا چاہئے؟ کیا مرد کے اختیار کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ عورت کسی معاملے میں بولنے کا حق ہی نہیں رکھتی؟ ایک عورت تعریف کے لائق کیسے ٹھہر سکتی ہے؟
’مَیں اُس کے لئے ایک مددگار بناؤں گا‘
۳، ۴. شوہر اور بیوی کے لئے یہوواہ کی طرف سے سربراہی کے انتظام کے مطابق چلنا کیوں فائدہمند ہے؟
۳ یہ یہوواہ خدا کا فیصلہ تھا کہ خاندان کا سربراہ شوہر ہوگا۔ آدم کو خلق کرنے کے بعد یہوواہ خدا نے محسوس کِیا کہ آدم کا ”اکیلا رہنا اچھا نہیں۔ مَیں اُس کے لئے ایک مددگار اُس کی مانند بناؤں گا۔“ جب حوا کو آدم کے سامنے لایا گیا تو وہ اپنے ساتھی اور مددگار کو دیکھ کر اتنا خوش ہوا کہ اُس نے کہا: ”یہ تو اب میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے۔“ (پید ۲:۱۸-۲۴) آدم اور حوا کے پاس بےعیب اولاد پیدا کرنے اور زمین پر فردوس میں ہمیشہ تک زندہ رہنے کا موقع تھا۔
۴ لیکن اُنہوں نے اپنی نافرمانی کی وجہ سے فردوس میں رہنے کا موقع گنوا دیا۔ (رومیوں ۵:۱۲ کو پڑھیں۔) اِس کے باوجود خاندان میں اختیار کے سلسلے میں یہوواہ خدا کا فیصلہ یہی رہا کہ شوہر ہی بیوی کا سر ہے۔ جب شوہر اپنے اختیار کو صحیح استعمال کرتا ہے اور بیوی اُس اختیار کو تسلیم کرتی ہے تو خاندانی زندگی خوشگوار ہو جاتی ہے۔ یسوع مسیح کو بھی اپنے باپ یہوواہ کی تابعداری کرنے سے خوشی حاصل ہوتی تھی۔ زمین پر آنے سے پہلے یسوع مسیح ”ہمیشہ [یہوواہ] کے حضور شادمان“ رہتا تھا۔ (امثا ۸:۳۰) سچ ہے کہ خطاکار ہونے کی وجہ سے نہ تو مرد اپنا اختیار صحیح طرح استعمال کرنے کے قابل ہیں اور نہ ہی عورتیں اُن کی پوری طرح تابعداری کرتی ہیں۔ لیکن جب شوہر اور بیوی اختیار کے سلسلے میں یہوواہ کے انتظام کے مطابق چلنے کی کوشش کرتے ہیں تو اُنہیں بہت خوشی اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
۵. شوہر اور بیوی کو رومیوں ۱۲:۱۰ میں پائی جانے والی مشورت پر عمل کیوں کرنا چاہئے؟
۵ شوہر اور بیوی کو اپنی ازدواجی زندگی کامیاب بنانے کے لئے اِس مشورت پر عمل کرنا چاہئے جو دراصل تمام مسیحیوں کے لئے ہے: ”برادرانہ محبت سے آپس میں ایک دوسرے کو پیار کرو۔ عزت کے رُو سے ایک دوسرے کو بہتر سمجھو۔“ (روم ۱۲:۱۰) شوہر اور بیوی کو یہ کوشش بھی کرنی چاہئے کہ وہ ’ایک دوسرے پر مہربان اور نرمدل ہوں اور ایک دوسرے کے قصور معاف کریں۔‘—افس ۴:۳۲۔
اگر آپ کا جیونساتھی یہوواہ کی عبادت نہیں کرتا
۶، ۷. اگر کسی مسیحی عورت کا شوہر یہوواہ کا گواہ نہیں ہے اور وہ اُس کا اختیار تسلیم کرتی ہے تو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟
۶ فرض کریں کہ بیوی یہوواہ کی گواہ ہے جبکہ شوہر نہیں ہے۔ ایسی صورت میں کیا بیوی کو اپنے شوہر کا اختیار تسلیم کرنا چاہئے؟ اِس سوال کا جواب بائبل یوں دیتی ہے: ”اَے بیویو! تُم بھی اپنےاپنے شوہر کے تابع رہو۔ اِس لئے کہ اگر بعض اُن میں سے کلام کو نہ مانتے ہوں تو بھی تمہارے پاکیزہ چالچلن اور خوف کو دیکھ کر بغیر کلام کے اپنیاپنی بیوی کے چالچلن سے خدا کی طرف کھنچ جائیں۔“—۱-پطر ۳:۱، ۲۔
۷ خدا کا کلام بیوی کو نصیحت کرتا ہے کہ اگر اُس کا شوہر یہوواہ کی عبادت نہیں کرتا توبھی وہ اپنے شوہر کا اختیار تسلیم کرے۔ بیوی کا عمدہ چالچلن شوہر کو یہ سوچنے کی طرف مائل کر سکتا ہے کہ اُس کی بیوی کے اچھے رویے کی وجہ کیا ہے۔ اِس طرح ہو سکتا ہے کہ شوہر اُن تعلیمات میں دلچسپی لینے لگے جن پر اُس کی بیوی ایمان رکھتی ہے اور آخرکار خود بھی اپنی بیوی کے ساتھ یہوواہ کی عبادت کرنے لگے۔
۸، ۹. اگر بیوی کے اچھے چالچلن کے باوجود شوہر کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تو خدا کا کلام بیوی کو کیا نصیحت کرتا ہے؟
۸ اگر بیوی کے اچھے چالچلن کے باوجود شوہر کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تو ایسی صورت میں خدا کا کلام بیوی کو کیا نصیحت کرتا ہے؟ بائبل مشورہ دیتی ہے کہ بیوی مشکلات میں بھی اپنے شوہر کے ساتھ اچھی طرح پیش آتی رہے۔ مثال کے طور پر، ۱-کرنتھیوں ۱۳:۴ بیان کرتی ہے کہ ”محبت صابر ہے۔“ لہٰذا، مسیحی بیوی ”کمال فروتنی اور حلم کے ساتھ تحمل کرکے محبت سے . . . برداشت“ کرے گی۔ (افس ۴:۲) یہوواہ کی پاک رُوح مشکل حالات میں ایسی عمدہ خوبیاں ظاہر کرنے میں اُس کی مدد کرے گی۔
۹ پولس رسول نے لکھا: ”جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس میں مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں۔“ (فل ۴:۱۳) خدا کی پاک رُوح کسی مسیحی شوہر یا بیوی کو ایسے کام کرنے کے قابل بنا سکتی ہے جو بظاہر ناممکن دکھائی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر شوہر یا بیوی میں سے کوئی اپنے ساتھی کے ساتھ بُری طرح پیش آتا ہے تو شاید دوسرا بھی اُس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنے کی طرف مائل ہو سکتا ہے۔ تاہم، بائبل تمام مسیحیوں کو ہدایت کرتی ہے: ”بدی کے عوض کسی سے بدی نہ کرو۔ . . . کیونکہ یہ لکھا ہے کہ [یہوواہ] فرماتا ہے انتقام لینا میرا کام ہے۔ بدلہ مَیں ہی دُوں گا۔“ (روم ۱۲:۱۷-۱۹) پہلا تھسلنیکیوں ۵:۱۵ بھی ایسی ہی نصیحت کرتی ہے: ”کوئی کسی سے بدی کے عوض بدی نہ کرے بلکہ ہر وقت نیکی کرنے کے درپے رہو۔ آپس میں بھی اور سب سے۔“ ہم اپنی طاقت سے تو نہیں مگر روحُالقدس کی مدد سے ایسا کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا، دُعا میں یہوواہ خدا سے روحُالقدس مانگنا بہت ضروری ہے۔
۱۰. یسوع مسیح نے دوسروں کے بُرے سلوک کے باوجود کیا کِیا؟
۱۰ دوسروں کے بُرے سلوک کو برداشت کرنے کے سلسلے میں یسوع مسیح نے عمدہ مثال قائم کی۔ پہلا پطرس ۲:۲۳ بیان کرتی ہے کہ یسوع مسیح ”نہ . . . گالیاں کھا کر گالی دیتا تھا اور نہ دُکھ پا کر کسی کو دھمکاتا تھا بلکہ اپنے آپ کو سچے انصاف کرنے والے کے سپرد کرتا تھا۔“ ہمیں یسوع مسیح کی اِس عمدہ مثال پر عمل کرنا چاہئے۔ ہمیں دوسروں کے بُرے رویے کی وجہ سے غصے میں آنے کی بجائے اِس مشورت پر دھیان دینا چاہئے کہ ”نرم دل اور فروتن بنو۔ بدی کے عوض بدی نہ کرو اور گالی کے بدلے گالی نہ دو۔“—۱-پطر ۳:۸، ۹۔
کیا بیوی کو بولنے کا حق نہیں؟
۱۱. بعض مسیحی عورتوں کو کونسا شرف بخشا گیا ہے؟
۱۱ کیا شوہر کے اختیار کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بیوی کو گھریلو یا دیگر معاملات میں اپنی رائے دینے کا کوئی حق نہیں ہے؟ ایسا ہرگز نہیں۔ یہوواہ خدا نے اپنی خدمت میں مردوں اور عورتوں دونوں کو شرف دئے ہیں۔ مثلاً، ایک لاکھ ۴۴ ہزار اشخاص کو مسیح کے ساتھ بادشاہوں اور کاہنوں کے طور پر زمین پر حکمرانی کرنے کا شرف عطا کِیا گیا ہے۔ اِن اشخاص میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ (گل ۳:۲۶-۲۹) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عورتیں بھی یہوواہ خدا کے انتظام میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
۱۲، ۱۳. مثال سے واضح کریں کہ عورتیں نبوت کرتی تھیں۔
۱۲ بائبل بتاتی ہے کہ بعض عورتیں نبوت کرتی تھیں۔ اِس سلسلے میں یوایل ۲:۲۸، ۲۹ کہتی ہے: ”مَیں ہر فردِبشر پر اپنی رُوح نازل کروں گا اور تمہارے بیٹے بیٹیاں نبوّت کریں گے۔ . . . بلکہ مَیں اُن ایّام میں غلاموں اور لونڈیوں پر اپنی رُوح نازل کروں گا۔“
۱۳ اِس پیشینگوئی کی تکمیل ۳۳ عیسوی میں پنتیکست کے موقع پر ہوئی۔ اُس وقت یسوع مسیح کے ۱۲۰ شاگرد یروشلیم کے ایک بالاخانہ میں جمع تھے کہ اُن پر خدا کی روحُالقدس نازل ہوئی۔ قابلِغور بات یہ ہے کہ اِن شاگردوں میں عورتیں بھی شامل تھیں۔ اِسی لئے پطرس رسول نے اِس موقع پر یوایل نبی کی پیشینگوئی کا حوالہ دیا جو مردوں اور عورتوں دونوں پر پوری ہوئی۔ اُس نے بیان کِیا: ”یہ وہ بات ہے جو یوئیلؔ نبی کی معرفت کہی گئی ہے کہ۔ خدا فرماتا ہے کہ آخری دِنوں میں ایسا ہوگا کہ مَیں اپنے رُوح میں سے ہر بشر پر ڈالوں گا اور تمہارے بیٹے اور تمہاری بیٹیاں نبوّت کریں گی۔ . . . بلکہ مَیں اپنے بندوں اور اپنی بندیوں پر بھی اُن دِنوں میں اپنے رُوح میں سے ڈالوں گا اور وہ نبوّت کریں گی۔“—اعما ۲:۱۶-۱۸۔
۱۴. عورتوں نے مسیح کی تعلیم پھیلانے میں کیا کردار ادا کِیا؟
۱۴ پہلی صدی میں عورتوں نے مسیح کی تعلیم پھیلانے میں ایک اہم کردار ادا کِیا۔ اُنہوں نے نہ صرف دوسروں کو خدا کی بادشاہت کا پیغام سنایا بلکہ دیگر طریقوں سے بھی اِس کام کی حمایت کی۔ (لو ۸:۱-۳) مثال کے طور پر، رومیوں کے نام خط میں پولس رسول نے فیبےؔ کے متعلق کہا کہ وہ ”کنخرؔیہ کی کلیسیا کی خادمہ ہے۔“ اِسی خط میں اُس نے دیگر مسیحیوں کے ساتھساتھ ”ترؔوفینہ اور ترؔوفوسہ سے سلام“ کہا ”جو خداوند میں محنت کرتی“ تھیں۔ اُس نے ’پرسس سے بھی سلام کہا جس نے خداوند میں بہت محنت‘ کی تھی۔—روم ۱۶:۱، ۱۲۔
۱۵. آج کل عورتیں خدا کی بادشاہت کی خوشخبری سنانے میں کیا کردار ادا کرتی ہیں؟
۱۵ آجکل ۷۰ لاکھ سے زیادہ لوگ خدا کی بادشاہت کی خوشخبری سنا رہے ہیں جن میں عورتوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ (متی ۲۴:۱۴) اِن میں سے بہت سی عورتیں کُلوقتی طور پر خدمت کر رہی ہیں۔ خدا کی خدمت کرنے والی عورتوں کے بارے میں زبورنویس داؤد نے لکھا: ”[یہوواہ] حکم دیتا ہے۔ خوشخبری دینے والیاں فوج کی فوج ہیں۔“ (زبور ۶۸:۱۱) واقعی، زبورنویس کی یہ بات آج سچ ثابت ہو رہی ہے! یہوواہ خدا اِس بات کی بہت قدر کرتا ہے کہ عورتیں خوشخبری سنانے میں بڑی محنت کرتی ہیں۔ پس اِن تمام حقائق کی روشنی میں ہم کس نتیجے پر پہنچتے ہیں؟ ہم سیکھتے ہیں کہ اگرچہ یہوواہ خدا مسیحی عورتوں سے اختیار کے تابع رہنے کی توقع کرتا ہے توبھی اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُنہیں اپنی رائے دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔
دو عورتیں جنہوں نے ضروری قدم اُٹھانے میں پہل کی
۱۶، ۱۷. سارہ کی مثال سے کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ بیویوں کو اپنی رائے دینے کا حق ہے؟
۱۶ ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہوواہ خدا نے عورتوں کو اپنی خدمت کرنے کا شرف دیا ہے۔ اِس بات کے پیشِنظر اچھا ہوگا کہ ایک شوہر کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنی بیوی کی رائے لے۔ خدا کے کلام میں کئی ایسے واقعات درج ہیں جن میں بیویوں نے کچھ معاملات حل کرنے میں پہل کی۔ آئیں اِس سلسلے میں دو مثالوں پر غور کرتے ہیں۔
۱۷ ابرہام نے اپنی بیوی سارہ کی لونڈی ہاجرہ سے شادی کی جس سے اُس کا ایک بیٹا پیدا ہوا۔ ہاجرہ کا بیٹا سارہ کے بیٹے اضحاق کو ستاتا تھا۔ اِس لئے سارہ نے ابرہام سے کہا کہ وہ اِس لونڈی اور اُس کے بیٹے کو نکال دے۔ ابرہام کو ”یہ بات نہایت بُری معلوم ہوئی۔“ مگر یہوواہ خدا نے ابرہام سے کہا: ”تجھے اِس لڑکے اور اپنی لونڈی کے باعث بُرا نہ لگے۔ جو کچھ ساؔرہ تجھ سے کہتی ہے تُو اُس کی بات مان۔“ (پید ۲۱:۸-۱۲) ابرہام نے یہوواہ خدا کے کہنے پر سارہ کی بات مانی۔
۱۸. عقلمندی سے کام کرنے کے سلسلے میں ابیجیل نے کیسے پہل کی؟
۱۸ نابال کی بیوی ابیجیل کی مثال پر بھی غور کریں۔ جب داؤد، ساؤل بادشاہ سے اپنی جان بچانے کے لئے بھاگا تو اُس نے نابال کے گلّوں کے نزدیک ڈیرا ڈالا۔ نابال کے مالواسباب میں سے کچھ لینے کی بجائے داؤد اور اُس کے آدمیوں نے اُس کے چرواہوں اور دیگر چیزوں کی حفاظت کی۔ تاہم، نابال ایک ”بےادب اور بدکار“ شخص تھا۔ وہ ایک ”خبیث“ اور احمق آدمی تھا۔ جب داؤد کے آدمی اُس کے پاس کچھ چیزیں مانگنے آئے تو وہ اُن پر ”جھنجھلایا“ اور اُنہیں چیزیں دینے سے صاف انکار کر دیا۔ جب ابیجیل کو اِس بات کی خبر ہوئی تو اُس نے نابال کو بتائے بغیر ”جلدی“ سے ”دو سو روٹیاں اور مے کے دو مشکیزے اور پانچ پکیپکائی بھیڑیں اور بھنے ہوئے اناج کے پانچ پیمانے اور کشمش کے ایک سو خوشے اور انجیر کی دو سو ٹکیاں“ اپنے ساتھ لیں اور داؤد اور اُس کے آدمیوں کو دیں۔ کیا ابیجیل نے جو کِیا وہ صحیح تھا؟ بائبل بیان کرتی ہے کہ ”[یہوواہ] نے ناؔبال کو مارا اور وہ مر گیا۔“ اِس کے بعد داؤد نے ابیجیل سے شادی کر لی۔—۱-سمو ۲۵:۳، ۱۴-۱۹، ۲۳-۲۵، ۳۸-۴۲۔
’قابلِتعریف عورت‘
۱۹، ۲۰. ایک عورت تعریف کے لائق کیسے ٹھہرتی ہے؟
۱۹ پاک کلام ایسی بیوی کی بہت تعریف کرتا ہے جو یہوواہ کی مرضی کے مطابق عمل کرتی ہے۔ امثال کی کتاب ایک ”نیکوکار بیوی“ کی تعریف اِن خوبصورت الفاظ میں کرتی ہے: ”اُس کی قدر مرجان سے بھی بہت زیادہ ہے۔ اُس کے شوہر کے دل کو اُس پر اعتماد ہے اور اُسے منافع کی کمی نہ ہوگی۔ وہ اپنی عمر کے تمام ایّام میں اُس سے نیکی ہی کرے گی۔ بدی نہ کرے گی۔ اُس کے مُنہ سے حکمت کی باتیں نکلتی ہیں۔ اُس کی زبان پر شفقت کی تعلیم ہے۔ وہ اپنے گھرانے پر بخوبی نگاہ رکھتی ہے اور کاہلی کی روٹی نہیں کھاتی۔ اُس کے بیٹے اُٹھتے ہیں اور اُسے مبارک کہتے ہیں۔ اُس کا شوہر بھی اُس کی تعریف کرتا ہے۔“—امثا ۳۱:۱۰-۱۲، ۲۶-۲۸۔
۲۰ ایک عورت ایسی تعریف کے لائق کیسے ٹھہرتی ہے؟ امثال ۳۱:۳۰ بیان کرتی ہے: ”حسن دھوکا اور جمال بےثبات ہے لیکن وہ عورت جو [یہوواہ] سے ڈرتی ہے ستودہ [”قابلِتعریف،“ نیو اُردو بائبل ورشن] ہوگی۔“ یہوواہ سے ڈرنے میں یہ شامل ہے کہ اختیار کے سلسلے میں یہوواہ کے انتظام کے مطابق چلیں۔ اِس انتظام کے تحت ’عورت کا سر مرد، مرد کا سر مسیح اور مسیح کا سر خدا ہے۔‘—۱-کر ۱۱:۳۔
خدا کی بخشش کے لئے شکرگزار ہوں
۲۱، ۲۲. (ا) مسیحی شوہر اور بیوی شادی کے بندھن کے لئے یہوواہ کے شکرگزار کیوں ہو سکتے ہیں؟ (ب) ہمیں اختیار کے سلسلے میں یہوواہ کے انتظام کے مطابق کیوں چلنا چاہئے؟ (صفحہ ۲۰ پر بکس کو دیکھیں۔)
۲۱ مسیحی شوہر اور بیوی شادی کو یہوواہ کی طرف سے ایک بخشش سمجھتے ہیں۔ وہ یہوواہ کے بہت شکرگزار ہیں کہ اِس بندھن کی بدولت وہ ہنسی خوشی زندگی گزارنے اور مل کر یہوواہ کی خدمت کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ (روت ۱:۹؛ میک ۶:۸) یہوواہ خدا نے شادی کا بندوبست شروع کِیا تھا اِس لئے وہی جانتا ہے کہ گھریلو زندگی کو خوشگوار کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ پس، اگر آپ ہمیشہ یہوواہ کی مشورت پر عمل کریں گے تو مشکلات سے بھری اِس دُنیا میں بھی ’یہوواہ کی شادمانی آپ کی پناہگاہ ہوگی۔‘—نحم ۸:۱۰۔
۲۲ جب ایک مسیحی شوہر اپنے اختیار کو نرمی اور مہربانی سے عمل میں لاتا ہے تو اُس کی بیوی اُس کی عزت اور حمایت کرتی ہے۔ یوں وہ اپنی بیوی سے اپنی مانند محبت کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ اُن کی شادی دوسروں کے لئے ایک مثال بن جاتی ہے جس سے یہوواہ خدا کو جلال ملتا ہے۔
-