باب نمبر 23
اُنہوں نے اپنے مالک سے معافی کا درس حاصل کِیا
1. پطرس کی زندگی کا سب سے بُرا وقت غالباً کون سا تھا؟
پطرس اُس لمحے کو کبھی نہیں بھول پائے ہوں گے جب اُن کی نظریں یسوع سے ملی تھیں۔ کیا یسوع کے چہرے کے تاثرات سے یہ ظاہر ہوا کہ وہ پطرس سے مایوس اور ناخوش ہوئے ہیں؟ ہم یقین سے ایسا نہیں کہہ سکتے۔ ہمیں بائبل سے بس یہ پتہ چلتا ہے کہ ”ہمارے مالک نے مُڑ کر پطرس کی طرف دیکھا۔“ (لُو 22:61) مگر اُس لمحے پطرس کو یہ احساس ضرور ہو گیا ہوگا کہ اُن سے کتنی سنگین غلطی ہوئی ہے۔ وہ یہ سمجھ گئے تھے کہ اُنہوں نے وہی کام کِیا ہے جس کی پیشگوئی یسوع نے کی تھی اور جسے نہ کرنے کا اُنہوں نے بڑا دعویٰ کِیا تھا۔ دراصل اُنہوں نے اپنے مالک کو جاننے سے اِنکار کر دیا تھا۔ یہ پطرس کے لیے اِنتہائی مایوسکُن لمحات بلکہ شاید اُن کی زندگی کا سب سے بُرا وقت تھا۔
2. (الف) پطرس نے کون سا درس حاصل کِیا؟ (ب) ہم کس بات پر غور کریں گے اور کیوں؟
2 کیا اب سب ختم ہو گیا تھا؟ جی نہیں۔ چونکہ پطرس مضبوط ایمان والے شخص تھے اِس لیے اُن کے پاس اب بھی یہ موقع تھا کہ وہ اپنی غلطی پر توبہ کر کے آگے بڑھیں اور یسوع سے معافی کا درس حاصل کریں۔ دراصل یہ ایسا درس ہے جو ہم سب کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا آئیں، دیکھیں کہ پطرس نے اپنی زندگی میں معافی کی اہمیت کیسے سیکھی۔
معافی کے حوالے سے پطرس کا غلط نظریہ
3، 4. (الف) پطرس نے یسوع مسیح سے کون سا سوال پوچھا اور ایسا کرتے وقت شاید وہ کیا سوچ رہے تھے؟ (ب) یسوع مسیح نے کیسے ظاہر کِیا کہ پطرس کے ذہن پر اُس زمانے کے لوگوں کی سوچ کا اثر ہے؟
3 تقریباً چھ مہینے پہلے اپنے آبائی شہر کفرنحوم میں پطرس، یسوع کے پاس گئے اور اُن سے پوچھنے لگے: ”مالک، اگر میرا بھائی میرے خلاف گُناہ کرتا رہے تو مجھے کتنی بار اُس کے گُناہ معاف کرنے چاہئیں؟ سات بار؟“ شاید پطرس کو لگ رہا تھا کہ ایسا کرنے سے وہ بڑی دریادلی دِکھا رہے ہوں گے۔ دراصل اُن کے زمانے کے مذہبی رہنما یہ سکھاتے تھے کہ ایک شخص کو صرف تین بار معاف کرنا کافی ہے۔ مگر یسوع نے جواب دیا: ”سات بار نہیں بلکہ 77 (ستتر) بار۔“—متی 18:21، 22۔
4 کیا یسوع یہ کہہ رہے تھے کہ پطرس کو اِس بات کا حساب رکھنا چاہیے کہ فلاں شخص نے کتنی بار غلطی کی ہے؟ جی نہیں۔ سات کو ستتر میں تبدیل کرنے سے یسوع یہ واضح کرنا چاہ رہے تھے کہ جس شخص کے دل میں محبت ہوتی ہے، وہ دوسروں کو معاف کرنے کے حوالے سے کوئی حد مقرر نہیں کرتا۔ (1-کُر 13:4، 5) یسوع نے ظاہر کِیا کہ پطرس پر اُس زمانے کے پتھردل لوگوں کی سوچ کا اثر ہے جو دوسروں کو معاف کرنے کے سلسلے میں کڑا حساب کتاب رکھتے تھے۔ لیکن جو لوگ خدا کی مثال پر عمل کرنا چاہتے ہیں، اُنہیں بار بار دوسروں کو معاف کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔—1-یوحنا 1:7-9 کو پڑھیں۔
5. ہم کس صورت میں معافی کی اہمیت کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں؟
5 پطرس نے یسوع کی بات پر اِعتراض نہیں کِیا۔ لیکن کیا وہ سبق پطرس کے دل تک پہنچ گیا تھا جو یسوع اُنہیں سکھانا چاہتے تھے؟ کبھی کبھار ہم معافی کی اہمیت کو اُس وقت بہتر طور پر سمجھ پاتے ہیں جب ہمیں خود اِس کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اِس حوالے سے آئیں، دوبارہ اُن واقعات پر بات کریں جو یسوع کی موت سے پہلے ہوئے۔ اُس مشکل وقت کے دوران پطرس نے کئی ایسے کام کیے جن کے لیے اُنہیں اپنے مالک سے معافی کی ضرورت پڑی۔
پطرس کی غلطیوں پر یسوع کا ردِعمل
6. جب یسوع اپنے شاگردوں کو خاکساری کا درس دے رہے تھے تو پطرس نے کیسا ردِعمل دِکھایا اور یسوع اُن کے ساتھ کیسے پیش آئے؟
6 یہ یسوع کی زندگی کی آخری اور نہایت یادگار رات تھی۔ اُنہیں اپنے شاگردوں کو بہت سی اہم باتیں سکھانی تھیں، مثلاً خاکساری کی اہمیت۔ یسوع نے اِس سلسلے میں خود ایک مثال قائم کرتے ہوئے اپنے شاگردوں کے پاؤں دھوئے۔ یہ ایک ایسا کام تھا جو عموماً سب سے کمتر نوکر کِیا کرتے تھے۔ شروع میں تو پطرس نے یہ سوال اُٹھایا کہ ”مالک، آپ میرے پاؤں کیسے دھو سکتے ہیں؟“ اور یسوع کو ایسا کرنے سے منع کِیا۔ مگر پھر اُنہوں نے یسوع سے کہا کہ وہ نہ صرف اُن کے پاؤں بلکہ ہاتھ اور سر بھی دھوئیں۔ پطرس کی ایسی باتوں کے باوجود یسوع نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا بلکہ بڑی نرمی سے اپنے شاگردوں کو سمجھایا کہ جو کام وہ کر رہے ہیں، اُس کا کیا مقصد ہے۔—یوح 13:1-17۔
7، 8. (الف) پطرس نے یسوع کے صبر کا مزید اِمتحان کیسے لیا؟ (ب) یسوع یہ کیسے ظاہر کرتے رہے کہ وہ شفیق اور معاف کرنے والے شخص ہیں؟
7 تھوڑے عرصے بعد پطرس نے دوبارہ یسوع کے صبر کا اِمتحان لیا۔ رسول غرور میں آ کر اِس بات پر بحث کرنے لگے کہ اُن میں سے بڑا کون ہے۔ اور بےشک پطرس بھی اِس کام میں پیچھے نہیں تھے۔ مگر یسوع نے پیار سے رسولوں کی اِصلاح کی۔ اُنہوں نے تو اِس بات کے لیے اُنہیں داد بھی دی کہ وہ وفاداری سے اُن کے ساتھ ساتھ رہے ہیں۔ لیکن پھر یسوع نے پیشگوئی کی کہ وہ سب اُنہیں چھوڑ جائیں گے۔ جواب میں پطرس نے یہ دعویٰ کِیا کہ چاہے اُنہیں مرنا ہی کیوں نہ پڑے، وہ یسوع کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ اِس پر یسوع نے پیشگوئی کرتے ہوئے کہا کہ پطرس اُسی رات مُرغے کے دو بار بانگ دینے سے پہلے تین بار اپنے مالک کو جاننے سے اِنکار کریں گے۔ پطرس نے نہ صرف اِس بات کی تردید کی بلکہ شیخی بگھارتے ہوئے کہا کہ وہ خود کو دوسرے رسولوں سے زیادہ وفادار ثابت کریں گے۔—متی 26:31-35؛ مر 14:27-31؛ لُو 22:24-28؛ یوح 13:36-38۔
8 کیا اب پطرس کے حوالے سے یسوع کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا؟ اِس کٹھن وقت میں بھی یسوع کا دھیان ہمیشہ اپنے شاگردوں کی خوبیوں پر رہا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ پطرس اُنہیں مایوس کریں گے مگر پھر بھی اُنہوں نے کہا: ”مَیں نے خدا سے اِلتجا کی ہے کہ آپ کا ایمان کمزور نہ پڑے۔ اور جب آپ واپس آئیں گے تو اپنے بھائیوں کا حوصلہ بڑھائیں۔“ (لُو 22:32) یوں یسوع نے اِس بات پر اِعتماد ظاہر کِیا کہ پطرس اپنی غلطیوں پر توبہ کریں گے اور وفاداری سے خدا کی خدمت کرنا جاری رکھیں گے۔ یسوع واقعی بڑے شفیق اور معاف کرنے والے شخص تھے۔
9، 10. (الف) گتسمنی میں پطرس کو اِصلاح کی ضرورت کیوں پڑی؟ (ب) پطرس کی مثال ہماری توجہ کس بات پر دِلاتی ہے؟
9 تھوڑی دیر بعد گتسمنی باغ میں پطرس کو ایک سے زیادہ بار اِصلاح کی ضرورت پڑی۔ یسوع مسیح نے اُنہیں اور یعقوب اور یوحنا کو کہا کہ جب تک وہ دُعا کر رہے ہیں، وہ تینوں چوکس رہیں۔ یسوع سخت جذباتی تکلیف سے گزر رہے تھے اور ایسی حالت میں اُنہیں سہارے کی ضرورت تھی۔ لیکن پطرس اور باقی دو شاگرد بار بار سو جاتے تھے۔ اُنہیں دیکھ کر یسوع نے کہا: ”بےشک دل جوش سے بھرا ہے لیکن جسم کمزور ہے۔“ (مر 14:32-41) یسوع کے اِن الفاظ سے ظاہر ہوا کہ وہ شاگردوں کی حالت کو سمجھتے ہیں اور اُنہوں نے اُنہیں معاف کر دیا ہے۔
10 زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک بِھیڑ مشعلیں، تلواریں اور لاٹھیاں لیے ہوئے وہاں آ پہنچی۔ یہ ایسا وقت تھا جب رسولوں کو بڑی سمجھداری اور احتیاط سے کام لینے کی ضرورت تھی۔ لیکن پطرس نے جلدبازی دِکھاتے ہوئے کاہنِاعظم کے غلام ملخُس کے سر کی طرف تلوار گھمائی اور اُس کا کان اُڑا دیا۔ یسوع نے نرمی سے پطرس کی اِصلاح کی، اُس غلام کو شفا دی اور پھر تشدد کا سہارا نہ لینے کے حوالے سے ایک ایسا اصول بیان کِیا جس سے آج بھی اُن کے پیروکار رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ (متی 26:47-55؛ لُو 22:47-51؛ یوح 18:10، 11) اُس رات پہلے بھی پطرس کئی ایسے کام کر چُکے تھے جن کے لیے اُنہیں یسوع سے معافی کی ضرورت پڑی تھی۔ اُن کی مثال اِس بات پر ہماری توجہ دِلاتی ہے کہ ہم سب بھی اکثر گُناہ کرتے ہیں۔ (یعقوب 3:2 کو پڑھیں۔) بھلا ہم میں سے کون یہ کہہ سکتا ہے کہ اُسے ہر روز خدا سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے؟ جہاں تک پطرس کی بات ہے، اُن سے اُس رات ابھی ایک اَور بڑی غلطی ہونے والی تھی۔
پطرس کی سب سے بڑی غلطی
11، 12. (الف) جب یسوع کو گِرفتار کِیا گیا تو پطرس نے دلیری کیسے دِکھائی؟ (ب) پطرس اپنے دعوے کو پورا کرنے میں ناکام کیسے ہو گئے؟
11 یسوع نے لوگوں سے کہا کہ اگر وہ اُنہیں ڈھونڈ رہے ہیں تو اُن کے رسولوں کو جانے دیں۔ تب بِھیڑ نے یسوع کو پکڑ کر باندھ دیا اور پطرس بڑی بےبسی سے یہ سب دیکھتے رہے۔ پھر پطرس سمیت سبھی رسول وہاں سے بھاگ گئے۔
12 بھاگتے بھاگتے پطرس اور یوحنا رُکے اور شاید سابق کاہنِاعظم حنّا کے گھر کی طرف مُڑے جہاں یسوع کو سب سے پہلے پوچھگچھ کے لیے لے جایا گیا تھا۔ جب یسوع کو وہاں سے دوسری جگہ لے جایا جا رہا تھا تو پطرس اور یوحنا ”کافی فاصلے سے“ اُن کا پیچھا کرنے لگے۔ (متی 26:58؛ یوح 18:12، 13) پطرس بزدل نہیں تھے۔ آخر فاصلے سے یسوع کا پیچھا کرنے کے لیے بھی اُنہیں دلیری کی ضرورت تھی کیونکہ جن لوگوں نے یسوع کو پکڑا ہوا تھا، اُن کے پاس ہتھیار تھے اور پطرس اُن میں سے ایک کو زخمی کر چُکے تھے۔ لیکن جس وفاداری کا اُنہوں نے دعویٰ کِیا تھا، وہ اُسے ظاہر نہیں کر رہے تھے۔ پہلے تو اُن کی باتوں سے یہ لگ رہا تھا کہ موت بھی یسوع کے لیے اُن کی وفاداری کو نہیں توڑ سکتی مگر اب وہ اپنے اِس دعوے سے پیچھے ہٹتے نظر آ رہے تھے۔—مر 14:31۔
13. ہمیں کس طرح یسوع کے پیچھے چلنا چاہیے؟
13 آج بھی کچھ مسیحی، پطرس کی طرح ”کافی فاصلے سے“ یسوع کے پیچھے چلتے ہیں تاکہ کسی پر ظاہر نہ ہو کہ وہ یسوع کے پیروکار ہیں۔ لیکن جیسے کہ پطرس نے بعد میں لکھا، ہمیں یسوع کے نقشِقدم پر یعنی اُن کے بالکل پیچھے پیچھے چلنا چاہیے۔ اِس کا مطلب ہے کہ ہمیں ہر معاملے میں اُن کی مثال پر عمل کرنا چاہیے پھر چاہے اِس کے نتائج کچھ بھی ہوں۔—1-پطرس 2:21 کو پڑھیں۔
14. پطرس نے وہ رات کیسے گزاری جب یسوع پر مُقدمہ چل رہا تھا؟
14 پطرس چھپتے چھپاتے آخرکار یروشلیم کی ایک عالیشان عمارت کے دروازے پر پہنچ گئے۔ یہ کاہنِاعظم کائفا کا گھر تھا جو بڑے امیر اور اثرورسوخ والے شخص تھے۔ اُس زمانے میں امیر لوگوں کے گھر عام طور پر اِس طرح سے بنائے جاتے تھے کہ گھر کے بیچ میں صحن ہوتا تھا اور سامنے کی طرف دروازہ لگا ہوتا تھا۔ جب پطرس دروازے پر پہنچے تو اُنہیں اندر جانے کی اِجازت نہیں ملی۔ البتہ یوحنا جو کاہنِاعظم کے واقفکار تھے، پہلے ہی اُس گھر میں موجود تھے۔ جب اُنہوں نے پطرس کو دیکھا تو وہ دروازے پر گئے اور اُس نوکرانی سے جو گھر کی چوکیداری کر رہی تھی، کہا کہ وہ پطرس کو اندر آنے دے۔ ایسا لگتا ہے کہ پطرس، یوحنا کے ساتھ ساتھ نہیں رہے اور نہ ہی اُنہوں نے یسوع مسیح کے ساتھ رہنے کے لیے اُس کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کی جس میں یسوع سے پوچھگچھ کی جا رہی تھی۔ اِس کی بجائے وہ صحن ہی میں رہے جہاں غلام اور گھر کے نوکر سردی کے باعث انگیٹھی جلا کر آگ سینک رہے تھے۔ وہاں پطرس اُن لوگوں کو دیکھتے رہے جو یسوع کے خلاف جھوٹی گواہی دینے کے لیے آ جا رہے تھے۔—مر 14:54-57؛ یوح 18:15، 16، 18۔
15، 16. پطرس کے حوالے سے یسوع کی پیشگوئی کیسے پوری ہوئی؟
15 جس نوکرانی نے پطرس کو دروازے سے اندر آنے دیا تھا، اُسے اب آگ کی روشنی میں اُن کا چہرہ صاف نظر آ رہا تھا۔ اُس نے اُنہیں پہچان لیا اور اُن پر اِلزام لگاتے ہوئے کہا: ”تُم بھی تو گلیل کے یسوع کے ساتھ تھے۔“ پطرس اُس کی بات پر بوکھلا گئے اور یسوع کو جاننے سے اِنکار کرنے لگے۔ اُنہوں نے تو یہاں تک کہا کہ اُنہیں سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ وہ کیا کہہ رہی ہے۔ پھر وہ دروازے کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے اور لوگوں کی نظروں سے چھپنے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن ایک اَور لڑکی نے اُنہیں دیکھا اور اُس نے بھی وہی بات کہی کہ ”یہ آدمی ناصرت کے یسوع کے ساتھ تھا۔“ مگر پطرس نے قسم کھا کر کہا: ”مَیں اُس آدمی کو نہیں جانتا۔“ (متی 26:69-72؛ مر 14:66-68) یوں پطرس نے دوسری بار یسوع کو جاننے سے اِنکار کِیا اور شاید اُسی وقت ایک مُرغے نے بانگ دی۔ لیکن پطرس کا دھیان اِس قدر بھٹکا ہوا تھا کہ اُن کے ذہن میں یسوع کی وہ پیشگوئی آئی ہی نہیں جو اُنہوں نے چند گھنٹے پہلے کی تھی۔
16 پطرس ابھی تک اِس کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ لوگوں کی نظریں اُن پر نہ پڑیں۔ مگر پھر صحن میں کھڑے کچھ لوگ اُن کے پاس آئے۔ اُن میں سے ایک ملخُس نامی غلام کا رشتےدار تھا جسے پطرس نے زخمی کِیا تھا۔ اُس نے پطرس سے کہا: ”بےشک مَیں نے تمہیں اُس آدمی کے ساتھ باغ میں دیکھا تھا!“ پطرس کچھ بھی کر کے اُن لوگوں کو قائل کرنا چاہتے تھے کہ اُنہیں غلطفہمی ہو رہی ہے۔ لہٰذا اُنہوں نے قسم کھاتے ہوئے کہا کہ اگر وہ جھوٹ بول رہے ہیں تو اُن پر لعنت ہو۔ اب پطرس تیسری بار یسوع کو جاننے سے اِنکار کر چُکے تھے۔ جونہی اُن کے مُنہ سے یہ الفاظ نکلے، مُرغے نے دوسری بار بانگ دی۔—یوح 18:26، 27؛ مر 14:71، 72۔
17، 18. (الف) جب پطرس کو اپنی غلطی کی سنگینی کا احساس ہوا تو اُنہوں نے کیا کِیا؟ (ب) پطرس نے کیا سوچا ہوگا؟
17 یسوع ابھی ابھی بالکونی میں آئے تھے جہاں سے صحن نظر آتا تھا۔ اور اِسی لمحے اُن کی نظریں پطرس سے ملیں جیسا کہ اِس باب کے شروع میں بیان کِیا گیا ہے۔ پطرس کو فوراً یہ احساس ہو گیا کہ اُن سے کتنی سنگین غلطی ہوئی ہے۔ اُن کا ضمیر اُنہیں بُری طرح جھنجوڑنے لگا۔ وہ صحن سے باہر چلے گئے اور پورے چاند کی روشنی میں جو اب ڈوب رہا تھا، شہر کی گلیوں کی طرف نکل پڑے۔ اُن کی آنکھیں آنسوؤں سے اِتنی بھیگ گئیں کہ اُنہیں سب کچھ دُھندلا نظر آنے لگا۔ وہ خود پر قابو نہ رکھ پائے اور زاروقطار رونے لگے۔—مر 14:72؛ لُو 22:61، 62۔
18 جب کسی کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اُس سے کوئی سنگین غلطی ہوئی ہے تو شاید وہ فوراً یہ سوچنے لگے کہ اُس کی غلطی ناقابلِمعافی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پطرس کو بھی ایسا ہی لگ رہا ہو۔ لیکن کیا پطرس واقعی معافی کے قابل نہیں تھے؟
کیا پطرس کی غلطی ناقابلِمعافی تھی؟
19. (الف) پطرس کو اپنی غلطی پر کیسا محسوس ہوا ہوگا؟ (ب) ہم کیسے جانتے ہیں کہ پطرس مایوس ہو کر نہیں بیٹھ گئے؟
19 ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ پطرس پر اُس وقت کیا گزری ہوگی جب اگلی صبح اُنہوں نے وہ سب کچھ دیکھا ہوگا جو یسوع کے ساتھ ہوا۔ ذرا سوچیں کہ جب یسوع نے کئی گھنٹے اذیت سہنے کے بعد دم توڑ دیا تو تب پطرس نے خود کو کتنا کوسا ہوگا! یہ سوچ کر اُن کے دل میں درد کی لہر سی اُٹھتی ہوگی کہ جب اُن کا مالک اِنسان کے طور پر زمین پر اپنا آخری دن گزار رہا تھا تو اُنہوں نے اُس کی تکلیف کو بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کِیا۔ سچ ہے کہ پطرس پر غم کے گہرے اندھیرے چھائے ہوئے تھے لیکن وہ اِن اندھیروں میں اِس حد تک نہیں ڈوب گئے کہ مایوس ہو کر بیٹھ جاتے۔ ہم یہ بات اِس لیے کہہ سکتے ہیں کیونکہ بہت جلد وہ دوسرے رسولوں کے ساتھ تھے۔ (لُو 24:33) بِلاشُبہ سبھی رسول اِس بات پر پچھتائے ہوں گے کہ اُنہوں نے اُس تاریک رات پر اپنے مالک کے ساتھ کیا کِیا تھا اور اِس موقعے پر اُنہوں نے ضرور ایک دوسرے کو تسلی دی ہوگی۔
20. پطرس نے مشکل گھڑی میں سمجھداری کا ثبوت کیسے دیا اور ہم اِس سے کیا سیکھتے ہیں؟
20 اگر دیکھا جائے تو پطرس نے اِس موقعے پر بڑی سمجھداری سے کام لیا تھا۔ حالانکہ وہ بڑے دُکھی تھے مگر اُنہوں نے دوسرے رسولوں کے ساتھ جمع ہو کر یہ ظاہر کِیا تھا کہ اُن کا ایمان مضبوط ہے۔ دراصل جب خدا کے کسی بندے سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو یہ بات سب سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی کہ اُس کی غلطی کتنی سنگین ہے بلکہ اہمترین بات یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی غلطی کو سدھارنے کے لیے کتنی کوشش کرتا ہے۔ (امثال 24:16 کو پڑھیں۔) اگر ایک شخص غم یا پچھتاوے کے بوجھ تلے دبا ہے تو شاید وہ اکیلا رہنا چاہے۔ مگر ایسا کرنا بڑا خطرناک ہو سکتا ہے۔ (امثا 18:1) سمجھداری اِس بات میں ہوگی کہ وہ اپنے ہمایمانوں کے قریب رہے کیونکہ یوں اُسے خدا کی خدمت جاری رکھنے کی ہمت ملے گی۔—عبر 10:24، 25۔
21. دوسرے رسولوں کے ساتھ ہونے کی وجہ سے پطرس کے علم میں کون سی بات آئی؟
21 جب پطرس دوسرے رسولوں کے ساتھ تھے تو اُنہیں ایک چونکا دینے والی لیکن نہایت اہم خبر ملی۔ یسوع کی لاش قبر میں نہیں تھی۔ یہ خبر سنتے ہی پطرس اور یوحنا اُس جگہ کی طرف بھاگے جہاں یسوع کو دفنایا گیا تھا اور جس کا مُنہ پتھر سے بند کِیا گیا تھا۔ یوحنا جو غالباً پطرس کے مقابلے میں جوان تھے، اُن سے پہلے قبر پر پہنچ گئے۔ جب اُنہوں نے قبر کے مُنہ سے پتھر ہٹا ہوا دیکھا تو وہ اندر جانے سے ہچکچائے۔ لیکن پطرس نہیں ہچکچائے۔ حالانکہ تیز بھاگنے کی وجہ سے اُن کی سانس پھولی ہوئی تھی مگر وہ سیدھا قبر کے اندر چلے گئے۔ قبر واقعی خالی تھی۔—یوح 20:3-9۔
22. پطرس کی اُداسی اور شک کیسے دُور ہوا؟
22 پطرس کے قبر پر جانے سے پہلے کچھ عورتوں نے رسولوں کو بتایا تھا کہ فرشتوں نے اُنہیں یسوع کے جی اُٹھنے کی خبر دی ہے۔ تو پھر کیا قبر کو خالی دیکھ کر پطرس کو یقین ہو گیا کہ یسوع زندہ ہو گئے ہیں؟ شروع میں نہیں۔ (لُو 23:55–24:11) مگر دن کے آخر تک پطرس کے ذہن سے اُداسی اور شک کے بادل پوری طرح سے چھٹ گئے کیونکہ یسوع اپنے سب رسولوں کو دِکھائی دیے۔ وہ واقعی زندہ ہو چُکے تھے اور اب ایک طاقتور روحانی مخلوق تھے۔ لیکن رسولوں کو دِکھائی دینے سے پہلے یسوع نے کچھ اَور بھی کِیا۔ ذرا رسولوں کی اِس بات پر غور کریں جو اُنہوں نے اُس دن کہی: ”بےشک ہمارے مالک زندہ ہو گئے ہیں۔ وہ شمعون کو دِکھائی دیے ہیں۔“ (لُو 24:34) اِس کے علاوہ بعد میں پولُس رسول نے بھی اُس یادگار دن کے بارے میں لکھا جب یسوع ’کیفا کو دِکھائی دیے اور پھر 12 رسولوں کو۔‘ (1-کُر 15:5) کیفا اور شمعون، پطرس ہی کے دوسرے نام تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ اُس دن یسوع، پطرس کو تب دِکھائی دیے تھے جب وہ اکیلے تھے۔
23. آج جب کسی مسیحی سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو اُسے پطرس کی مثال کو کیوں یاد رکھنا چاہیے؟
23 بائبل میں یسوع اور پطرس کی اِس ملاقات کے بارے میں تفصیل سے کچھ بھی نہیں بتایا گیا۔ اُن کے درمیان جو باتچیت ہوئی، وہ صرف اُن دونوں کے بیچ ہی رہی۔ لیکن ذرا سوچیں کہ اپنے مالک کو زندہ دیکھ کر پطرس کو کس قدر خوشی ہوئی ہوگی اور وہ اِس بات پر کتنے شکرگزار ہوں گے کہ اُنہیں یسوع کے سامنے اپنے دُکھ اور شرمندگی کا اِظہار کرنے کا موقع ملا ہے! بےشک پطرس کی دلی خواہش تھی کہ اُنہیں اُن کی غلطی کی معافی مل جائے۔ اور یقیناً یسوع نے بھی اُنہیں پوری طرح سے معاف کر دیا تھا۔ آج جب کسی مسیحی سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو وہ پطرس کی مثال کو ذہن میں رکھ سکتا ہے۔ ہمیں یہ کبھی نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم سے جو غلطی ہوئی ہے، وہ خدا کی نظر میں ناقابلِمعافی ہے۔ اِس کی بجائے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یسوع اپنے باپ یہوواہ جیسے ہیں۔ لہٰذا جس طرح یسوع نے پطرس کو معاف کر دیا تھا اُسی طرح یہوواہ ہمارے گُناہ بھی بخش دے گا کیونکہ وہ ”کثرت سے معاف“ کرتا ہے۔—یسع 55:7۔
یسوع کی طرف سے معافی کے مزید ثبوت
24، 25. (الف) اُس رات کے بارے میں بتائیں جب پطرس گلیل کی جھیل میں مچھلیاں پکڑ رہے تھے۔ (ب) اگلی صبح یسوع کے معجزے پر پطرس کا کیا ردِعمل تھا؟
24 یسوع نے اپنے رسولوں سے کہا کہ وہ گلیل جائیں اور اُنہیں بتایا کہ وہاں وہ اُن سے دوبارہ ملیں گے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو پطرس نے فیصلہ کِیا کہ وہ گلیل کی جھیل میں مچھلیاں پکڑنے جائیں گے۔ شاگردوں میں سے کچھ پطرس کے ساتھ چلے گئے۔ پطرس ایک بار پھر اُسی جگہ پر تھے جہاں اُنہوں نے اپنی زندگی کا زیادہتر حصہ گزارا تھا۔ جب اُنہوں نے کشتی کی چرچراہٹ سنی ہوگی، اُچھلتی لہروں کو دیکھا ہوگا اور جال کو اپنے ہاتھوں میں پکڑا ہوگا تو اُن کی بہت سی پُرانی یادیں تازہ ہو گئی ہوں گی۔ لیکن اُس رات اُن کے ہاتھ کوئی مچھلی نہیں لگی۔—متی 26:32؛ یوح 21:1-3۔
25 صبح سویرے ساحل سے کسی آدمی نے اُنہیں آواز لگائی اور کشتی کی دوسری طرف جال ڈالنے کو کہا۔ اُنہوں نے ایسا ہی کِیا اور مچھلیوں کی ایک بڑی تعداد یعنی 153 مچھلیاں پکڑیں۔ پطرس سمجھ گئے کہ وہ آدمی کون ہے۔ اُنہوں نے کشتی سے چھلانگ لگائی اور تیر کر ساحل تک گئے۔ وہاں یسوع نے اپنے عزیز شاگردوں کو کوئلوں پر بھنی ہوئی مچھلی کھانے کو دی۔ اِس دوران یسوع کی خاص توجہ پطرس پر تھی۔—یوح 21:4-14۔
26، 27. (الف) یسوع نے پطرس کو تین بار کیا کرنے کا موقع دیا؟ (ب) یسوع نے یہ کیسے ظاہر کِیا کہ اُنہوں نے پطرس کو مکمل طور پر معاف کر دیا ہے؟
26 یسوع نے پطرس سے پوچھا کہ ”کیا آپ اِن سے زیادہ مجھ سے پیار کرتے ہیں؟“ ایسا کہتے ہوئے یسوع غالباً اُن ڈھیر ساری مچھلیوں کی طرف اِشارہ کر رہے تھے جو شاگردوں نے پکڑی تھیں۔ دراصل یسوع، پطرس سے یہ پوچھنا چاہ رہے تھے کہ کیا وہ اُن سے زیادہ ماہیگیری سے محبت کرتے ہیں۔ جس طرح پطرس نے تین بار اپنے مالک کو جاننے سے اِنکار کِیا تھا اُسی طرح یسوع نے تین بار اُنہیں دوسرے شاگردوں کے سامنے اپنی محبت کا اِظہار کرنے کا موقع دیا۔ جب پطرس نے ایسا کِیا تو یسوع نے اُنہیں اِس محبت کو ظاہر کرنے کا طریقہ بتایا۔ اُنہیں اُس بات کو زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دینی تھی جو خدا اُن سے چاہتا تھا۔ اور وہ بات یہ تھی کہ وہ مسیح کی بھیڑوں کو چرائیں اور اُن کی گلّہبانی کریں یعنی اُن کے پیروکاروں کو تعلیم دیں، اُن کی حوصلہافزائی کریں اور اُن کا خیال رکھیں۔—یوح 21:15-17۔
27 اِس طرح یسوع نے پطرس پر ظاہر کِیا کہ وہ اور اُن کا آسمانی باپ اب بھی اُنہیں اپنی خدمت کے لیے اِستعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مسیح کی نگرانی میں پطرس نے کلیسیا میں اہم کردار ادا کرنا تھا۔ بِلاشُبہ اِس سے یہ ثابت ہو گیا کہ یسوع نے پطرس کو مکمل طور پر معاف کر دیا ہے۔ اور یقیناً پطرس، یسوع کی رحمدلی کے لیے اُن کے بہت شکرگزار ہوئے ہوں گے اور اُنہوں نے معافی کے حوالے سے ایک اہم سبق سیکھ لیا ہوگا۔
28. پطرس اپنے نام کے مطلب پر کیسے پورے اُترے؟
28 پطرس نے مرتے دم تک اپنی ذمےداری کو وفاداری سے نبھایا۔ اُنہوں نے اپنے بھائیوں کا حوصلہ بڑھایا جیسا کہ یسوع نے اُنہیں اپنی موت سے کچھ گھنٹے پہلے حکم دیا تھا۔ (لُو 22:32) وہ بڑی شفقت اور صبر سے مسیح کی بھیڑوں کو چراتے اور اُن کی گلّہبانی کرتے رہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ شمعون نامی یہ شخص پطرس یعنی چٹان کے نام پر پورا اُترا جو یسوع نے اُسے دیا تھا۔ وہ ٹھوس ایمان اور ایسی مضبوط اور قابلِبھروسا شخصیت کا مالک بن گیا جس سے اُس کے ہمایمان سہارا حاصل کر سکتے تھے۔ اِس بات کا ثبوت بائبل میں درج پطرس کے دو خطوں سے بھی ملتا ہے جن سے بھائیوں کے لیے اُن کی محبت اور فکرمندی کے جذبات جھلکتے ہیں۔ اِن خطوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پطرس نے یسوع سے معافی کے بارے میں جو درس حاصل کِیا تھا، وہ اُسے کبھی نہیں بھولے تھے۔—1-پطرس 3:8، 9؛ 4:8 کو پڑھیں۔
29. ہم پطرس جیسا ایمان اور اُن کے مالک جیسی رحمدلی کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
29 دُعا ہے کہ ہم بھی اِس اہم سبق کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ ہمیں ہر روز اُن ڈھیروں خطاؤں کے لیے خدا سے معافی مانگنی چاہیے جو ہم سے ہوتی ہیں۔ اور پھر ہمیں اِس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ وہ ہمارے گُناہ معاف کرتا ہے اور یوں ہمیں پاک صاف کرتا ہے۔ اِس کے علاوہ ہمیں بھی اُس کی طرح دوسروں کو معاف کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے ہم پطرس جیسے ایمان اور اُن کے مالک جیسی رحمدلی کا مظاہرہ کریں گے۔