کیا آپ آج ہی کیلئے جیتے ہیں؟
ایک مشہور سائنسدان البرٹ آئنسٹائن کے اِن الفاظ کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے، ”کل کی فکر نہ کرو یہ تو فوراً ہی آ جاتا ہے۔“ بہتیرے دیگر لوگ بھی اِسی طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ شاید وہ کہیں، ”مستقبل کے لئے کیوں پریشان ہوں؟“ یا شاید آپ نے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہو: ”معمول کے مطابق زندگی گزارو۔“ ”آج کے لئے جیو۔“ ”کل کی کل دیکھی جائے گی۔“
اِس طرح کا رُجحان کوئی نئی بات نہیں ہے۔ قدیم یونانی فلسفی اپیکور کے حامیوں کا یہی مقولہ تھا، ”کھاؤپیو اور عیش کرو۔ کسی چیز کی فکر نہ کرو۔“ پولس رسول کے زمانے کے بعض لوگ بھی اِسی طرح کا نظریہ رکھتے تھے۔ وہ کہتے تھے: ”آؤ کھائیں پئیں کیونکہ کل تو مر ہی جائیں گے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۲) اُن کا خیال تھا کہ یہ مختصر سی زندگی ہی سب کچھ ہے۔ اِس لئے وہ اِس سوچ کو ہوا دے رہے تھے کہ ہمیں اِس زندگی کو جیبھر کے جینا چاہئے۔
دُنیا میں رہنے والے لاکھوں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ عیشوعشرت کے حصول کو اپنی زندگی کا بنیادی مقصد بنا لیا جائے۔ آج مشکلات کا سامنا کرنے والے بہتیرے لوگوں کے لئے زندگی محض جدوجہد کا نام ہے۔ ایسے لوگ ”کل“ یعنی مستقبل کے بارے میں کیوں سوچیں گے جو بہت ہی مایوسکُن دکھائی دیتا ہے؟
کیا کل کے لئے منصوبہسازی کرنی چاہئے؟
جن لوگوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں ہے وہ بھی اکثر مستقبل کی بابت سوچنے کو اہمیت نہیں دیتے۔ اُن کا کہنا ہے، ”فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔“ دیگر شاید یہ کہیں کہ جو لوگ مستقبل کے لئے منصوبے بناتے ہیں اُنہیں اکثر پریشانی اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قدیم زمانے میں جب ایوب نبی کے اپنے خاندان کے مستقبل کو خوشحال بنانے کے تمام منصوبے ”مٹ گئے“ یعنی ناکام ہو گئے تو اُسے بھی بہت زیادہ پریشانی اُٹھانی پڑی تھی۔—ایوب ۱۷:۱۱؛ واعظ ۹:۱۱۔
سکاٹلینڈ کا شاعر رابرٹ برنز ہماری مشکل صورتحال کو ایک جنگلی چوہے سے تشبِیہ دیتا ہے، جس کے گھر کو اُس نے انجانے میں اپنے ہل سے تباہ کر دیا تھا۔ جب چوہے کی دُنیا اُجڑ گئی تو وہ اپنی جان بچانے کو بھاگا۔ یہاں شاعر یہی بات کہہ رہا تھا کہ ’کتنی بار ایسا ہوتا ہے جب ہم حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر خود کو لاچار محسوس کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے احتیاط کے ساتھ بنائے گئے منصوبے بھی اکثر ناکام ہو جاتے ہیں۔‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مستقبل کی بابت منصوبہسازی کرنا بالکل بیکار ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جب طوفانوں یا قدرتی آفات کے سلسلے میں اچھی منصوبہسازی نہیں کی جاتی تو اِس کے تباہکُن نتائج نکلتے ہیں۔ مثال کے طور پر، کترینا نامی طوفان کو کوئی نہیں روک سکا تھا۔ لیکن اگر پہلے سے مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتیں تو کیا یہ شہر اور اِس میں آباد لوگ اتنے بڑے نقصان سے بچ نہ جاتے؟
آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا یہ کہنا معقول ہوگا کہ بس آج ہی کے لئے جئیں اور کل کو بالکل نظرانداز کر دیں؟ آئیں دیکھیں ہمارا اگلا مضمون اِس سلسلے میں کیا بیان کرتا ہے۔
[صفحہ ۳ پر تصویر]
”کھاؤپیو اور عیش کرو۔ کسی چیز کی فکر نہ کرو“
[صفحہ ۴ پر تصویر]
کیا پہلے سے مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے کترینا نامی طوفان سے ہونے والے نقصان سے بچا جا سکتا تھا؟
[تصویر کا حوالہ]
U.S. Coast Guard Digital