اُمیدِقیامت میں قدرت ہے
”مَیں نے سب چیزوں کا نقصان اُٹھایا . . . تاکہ . . . [ یسوع مسیح] کو اور اُسکے جی اُٹھنے کی قدرت کو . . . معلوم کروں۔“—فلپیوں ۳:۸-۱۰۔
۱، ۲. (ا) کئی سال پہلے، ایک پادری نے قیامت کی وضاحت کیسے کی تھی؟ (ب) قیامت کیسے وقوعپذیر ہوگی؟
عوامی پریس نے ۱۸۹۰ کے دہے کے اوائل میں، بروکلن نیو یارک، یو.ایس.اے. میں ایک پادری کے عجیب وعظ کی رپورٹ پیش کی۔ اس نے کہا کہ آگ یا حادثے سے نیست ہونے والے یا کسی درندے کا شکار ہونے یا پھر مٹی میں دفن ہو کر کھاد بن جانے والے تمام انسانی اجسام کی ہڈیوں اور گوشت کو قیامت کے دن جمع کرکے اُنہیں ازسرِنو تازگی بخشی جائیگی۔ اس مناد کے خیال میں ۲۴ گھنٹے کے ایک مخصوص دن پر، فضا لاکھوں مُردہ اشخاص کے ہاتھوں، بازوؤں، پاؤں، انگلیوں، ہڈیوں، عضلات اور جِلد سے سیاہ ہو جائیگی۔ یہ اعضا جس جسم کیساتھ جڑے ہوئے تھے اُسکے دیگر حصوں کو تلاش کرینگے۔ اس کے بعد بہشت اور دوزخ سے جانیں آکر ان قیامتیافتہ اجسام میں بسیرا کرینگی۔
۲ یہ خیال بالکل غیرمنطقی ہے کہ قیامت اصلی ایٹموں کو دوبارہ یکجا کرنے سے انجام پائیگی اور انسانوں میں غیرفانی جان بھی نہیں ہے۔ (واعظ ۹:۵، ۱۰؛ حزقیایل ۱۸:۴) قیامت بخشنے والے خدا یہوواہ کو اُنہی ایٹموں کو پھر سے جمع کرنے کی ضرورت نہیں ہے جن سے انسانی بدن پہلے بنا ہوا تھا۔ وہ قیامتیافتہ اشخاص کو نئے بدن دے سکتا ہے۔ یہوواہ نے اپنے بیٹے، یسوع مسیح کو مُردوں کو ابدی زندگی کے امکان کیساتھ زندہ کرنے کی قدرت عطا کی ہے۔ (یوحنا ۵:۲۶) پس یسوع نے کہا: ”قیامت اور زندگی تو مَیں ہوں۔ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے گو وہ مر جائے تو بھی زندہ رہیگا۔“ (یوحنا ۱۱:۲۵، ۲۶) کیا ہی دل کو گرما دینے والا وعدہ! یہ ہمیں آزمائشوں کی برداشت کرنے اور یہوواہ کے وفادار گواہوں کے طور پر موت کا سامنا کرنے کیلئے تقویت بخشتا ہے۔
۳. پولس کو قیامت کا دفاع کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟
۳ قیامت انسانوں میں غیرفانی جان کے نظریے—یہ نظریہ یونانی فیلسوف افلاطون کا تھا—سے ہمآہنگ نہیں ہے۔ پس، جب پولس رسول نے اتھینے میں اریوپگس کے مقام پر نامور یونانیوں کو گواہی دی اور یسوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کِیا کہ خدا نے اُسے مُردوں میں سے جلایا تو اُس وقت کیا واقع ہوا؟ بیان یوں ہے کہ ”جب اُنہوں نے مُردوں کی قیامت کا ذکر سنا تو بعض ٹھٹھا مارنے لگے۔“ (اعمال ۱۷:۲۹-۳۴) بہتیرے لوگ جنہوں نے قیامتیافتہ یسوع مسیح کو دیکھا تھا وہ ابھی تک زندہ تھے اور انہوں نے تمسخر کے باوجود تصدیق کی کہ وہ مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے۔ لیکن کرنتھس کی کلیسیا سے تعلق رکھنے والے جھوٹے استادوں نے قیامت سے انکار کِیا۔ لہٰذا، پولس نے ۱-کرنتھیوں ۱۵ باب میں اس مسیحی تعلیم کا پُرزور دفاع کِیا۔ اسکے دلائل کا بغور مطالعہ بِلاشُبہ ثابت کرتا ہے کہ اُمیدِقیامت یقینی ہے اور اس میں قدرت ہے۔
یسوع کی قیامت کا ٹھوس ثبوت
۴. پولس نے یسوع کی قیامت کا کونسا زندہ ثبوت پیش کِیا؟
۴ غور کریں کہ پولس اپنے دفاع کا آغاز کیسے کرتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۱-۱۱) نجات کی خوشخبری کو نہ ماننے کی صورت میں کرنتھس کے لوگوں کا ایمان لانا بےفائدہ تھا۔ مسیح ہمارے گناہوں کے واسطے مؤا، دفن ہوا اور جی اُٹھا۔ درحقیقت، قیامتیافتہ یسوع کیفا (پطرس) اور ”اُسکے بعد . . . بارہ کو دکھائی دیا۔“ (یوحنا ۲۰:۱۹-۲۳) اُسے تقریباً ۵۰۰ لوگوں نے بھی شاید اُس وقت دیکھا جب اُس نے یہ حکم دیا تھا: ’تم جا کر شاگرد بناؤ۔‘ (متی ۲۸:۱۹، ۲۰) وفادار رسولوں کی طرح، یعقوب نے بھی اُسے دیکھا تھا۔ (اعمال ۱:۶-۱۱) دمشق کے نزدیک، یسوع ”ادھورے دنوں کی پیدایش،“ ساؤل—گویا اُسے روحانی زندگی کیلئے پہلے ہی سے زندہ کر لیا گیا ہو—پر ظاہر ہوا۔ (اعمال ۹:۱-۹) کرنتھس کے باشندے پولس کی منادی کو قبول کرکے ایمان لے آئے۔
۵. پولس نے ۱-کرنتھیوں ۱۵:۱۲-۱۹ میں کیا استدلال کِیا؟
۵ پولس کے استدلال پر غور کریں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۱۲-۱۹) جب چشمدید گواہ یہ منادی کرتے ہیں کہ مسیح جی اُٹھا ہے توپھر کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ کوئی قیامت نہیں ہے؟ اگر مسیح مُردوں میں سے نہیں جی اُٹھا تو ہماری منادی اور ہمارا ایمان بیفائدہ ہے اور ہم یہ کہنے سے خدا کی بابت جھوٹی گواہی دینے والے ٹھہرتے ہیں کہ اُس نے مسیح کو زندہ کِیا ہے۔ اگر مُردے نہیں جی اُٹھتے تو ’ہم اب تک اپنے گناہوں میں گرفتار ہیں‘ اور جو مسیح میں موئے ہیں وہ تو پھر بالکل نیست ہو گئے ہیں۔ مزیدبرآں، ”اگر ہم صرف اِسی زندگی میں مسیح میں اُمید رکھتے ہیں تو سب آدمیوں سے زیادہ بدنصیب ہیں۔“
۶. (ا) یسوع کی قیامت کی تصدیق کرتے ہوئے پولس نے کیا کہا؟ (ب) ”پچھلا دشمن،“ کون ہے اور اسے کیسے نیست کِیا جائیگا؟
۶ پولس یسوع کی قیامت کی تصدیق کرتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۰-۲۸) چونکہ مسیح جو موت میں سو گئے اُن میں ”پہلا پھل“ ہے اس لئے دیگر بھی قیامت پائیں گے۔ جس طرح ایک انسان آدم کی نافرمانی کے سبب سے موت آئی اسی طرح قیامت بھی ایک انسان—یسوع—کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ اُس کے لوگوں کو اُس کی موجودگی کے دوران زندہ کِیا جانا تھا۔ مسیح خدا کی حاکمیت کے خلاف ”ساری حکومت سارا اختیار اور قدرت نیست“ کر دے گا اور اس وقت تک حکومت کریگا جبتک یہوواہ تمام دشمنوں کو اُسکے پاؤں تلے نہیں لے آتا۔ حتیٰکہ ”پچھلا دشمن“—آدم سے ورثے میں ملنے والی موت—بھی یسوع کی قربانی کی قیمت کے وسیلے نیست کر دیا جائیگا۔ اس کے بعد مسیح بادشاہی کو اپنے خدا اور باپ کے حوالے کر دیگا اور اُسکے تابع ہو جائیگا ”جس نے سب چیزیں اُسکے تابع کر دیں تاکہ سب میں خدا ہی سب کچھ ہو۔“
مُردوں کیلئے بپتسمہ پانا؟
۷. کون ”مر جانے کے مقصد سے بپتسمہ“ لیتے ہیں اور اُن کیلئے اس کا مطلب کیا ہے؟
۷ قیامت کے مخالفین سے پوچھا جاتا ہے: ”وہ لوگ کیا کرینگے جو مر جانے کے مقصد سے بپتسمہ لیتے ہیں؟“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۹، اینڈبلیو) پولس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ زندہ اشخاص کو مُردوں کے واسطے بپتسمہ لینا ہے کیونکہ یسوع کے شاگردوں کو ذاتی طور پر سیکھنا، ایمان لانا اور بپتسمہ پانا چاہئے۔ (متی ۲۸:۱۹، ۲۰؛ اعمال ۲:۴۱) ممسوح مسیحی ایسی روشِزندگی کے لئے وقف ہونے سے ”مر جانے کے مقصد سے بپتسمہ لیتے ہیں“ جو موت اور قیامت کا باعث بنتی ہے۔ اس قسم کا بپتسمہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب خدا کی روح ان میں آسمانی اُمید پیدا کرتی ہے اور اس وقت ختم ہوتا ہے جب وہ آسمان میں غیرفانی روحانی زندگی کیلئے مُردوں میں سے زندہ کئے جاتے ہیں۔—رومیوں ۶:۳-۵؛ ۸:۱۶، ۱۷؛ ۱-کرنتھیوں ۶:۱۴۔
۸. اگر شیطان اور اسکے خادم مسیحیوں کو قتل بھی کر ڈالیں تو وہ کس بات کا یقین رکھ سکتے ہیں؟
۸ پولس کے الفاظ کے مطابق، قیامت کی اُمید مسیحیوں کو بادشاہتی منادی کرنے کی وجہ سے ہر وقت خطرے اور ہر روز موت کا سامنا کرنے کے قابل بناتی ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۰، ۳۱) وہ جانتے ہیں کہ اگر یہوواہ شیطان اور اس کے خادموں کو انہیں قتل کرنے کی اجازت دیتا بھی ہے تو وہ انہیں دوبارہ زندہ کر سکتا ہے۔ صرف خدا ہی ان کی جان یا زندگی کو ابدی ہلاکت کی علامت، جہنم میں ڈال سکتا ہے۔—لوقا ۱۲:۵۔
ہوشیار رہنے کی ضرورت
۹. اگر اُمیدِقیامت کو ہماری زندگیوں میں تسلیبخش قوت ہونا ہے تو ہمیں کس چیز سے گریز کرنا چاہئے؟
۹ قیامت کی اُمید نے پولس کو سنبھالے رکھا۔ جب وہ افسس میں تھا تو شاید اس کے دشمنوں نے اُسے درندوں سے لڑنے کیلئے اکھاڑے میں ڈال دیا تھا۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۲) اگر ایسا ہوا تھا تو جیسے دانیایل کو شیروں سے بچا لیا گیا تھا ویسے ہی اُسے بھی چھڑا لیا گیا تھا۔ (دانیایل ۶:۱۶-۲۲؛ عبرانیوں ۱۱:۳۲، ۳۳) قیامت پر اُمید رکھنے کی وجہ سے پولس کا رویہ یسعیاہ کے زمانے میں یہوداہ کے برگشتہ لوگوں جیسا نہیں تھا۔ انہوں نے کہا: ”آؤ کھائیں اور پئیں کیونکہ کل تو ہم مرینگے۔“ (یسعیاہ ۲۲:۱۳) اگر اُمیدِقیامت کو پولس کی طرح ہماری زندگیوں میں بھی تسلیبخش قوت ثابت ہونا ہے تو ہمیں ایسا غیرصحتمندانہ رُجحان رکھنے والے لوگوں سے دُور رہنا چاہئے۔ پولس نے آگاہ کِیا: ”فریب نہ کھاؤ۔ بُری صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۳) بِلاشُبہ، اس اصول کا اطلاق زندگی کے مختلف حلقوں میں ہوتا ہے۔
۱۰. ہم اپنی اُمیدِقیامت کو کیسے زندہ رکھ سکتے ہیں؟
۱۰ قیامت پر شک کرنے والوں سے پولس نے کہا: ”راستباز ہونے کے لئے ہوش میں آؤ اور گناہ نہ کرو کیونکہ بعض خدا سے ناواقف ہیں۔ مَیں تمہیں شرم دلانے کو یہ کہتا ہوں۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۴) اس ”آخری زمانہ“ میں ہمیں خدا اور مسیح کے درست علم کے مطابق عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ (دانیایل ۱۲:۴؛ یوحنا ۱۷:۳) اس طرح ہماری قیامت کی اُمید زندہ رہیگی۔
کس جسم کیساتھ قیامت؟
۱۱. پولس ممسوح مسیحیوں کی قیامت کو تمثیل سے کیسے سمجھاتا ہے؟
۱۱ پولس آگے مخصوص سوالات پر بات کرتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۵-۴۱) شاید قیامت کے سلسلے میں شک پیدا کرنے کی کوشش میں، کوئی شخص پوچھ سکتا ہے: ”مُردے کس طرح جی اُٹھتے ہیں؟ اور کیسے جسم کے ساتھ واپس آتے ہیں؟“ پولس نے ظاہر کِیا کہ زمین میں بویا گیا بیج عملاً مر کر ہی ایک پودا بنتا ہے۔ اسی طرح روح سے پیداشُدہ انسان کو مرنا ضرور ہے۔ جس طرح بیج کے اندر سے ایک پودا نئے بدن کیساتھ نکلتا ہے اسی طرح قیامتیافتہ ممسوح مسیحی کا بدن بھی انسانی جسم سے فرق ہوتا ہے۔ اُسکی زندگی کے اوصاف تو بالکل وہی ہوتے ہیں جو وہ مرنے سے پہلا رکھتا تھا مگر اُسے آسمان میں زندہ رہنے کے لائق روحانی بدن کے ساتھ ایک نئی مخلوق کے طور پر جلایا جاتا ہے۔ قدرتی بات ہے کہ زمین پر قیامت پانے والوں کو انسانی جسم دئے جائیں گے۔
۱۲. ”آسمانی“ جسموں اور ”زمینی“ جسموں کے اظہارات سے کیا مُراد ہے؟
۱۲ پولس نے کہا، انسانی گوشت جانوروں کے گوشت سے فرق ہے۔ حتیٰکہ جانوروں کا گوشت بھی قسم قسم کا ہوتا ہے۔ (پیدایش ۱:۲۰-۲۵) روحانی مخلوقات کے ”آسمانی“ جسموں کا جلال ”زمینی“ جسموں کے جلال سے فرق ہوتا ہے۔ آفتاب، مہتاب اور ستاروں کے جلال میں بھی فرق ہے۔ لیکن قیامتیافتہ ممسوح اشخاص کا جلال ان سے کہیں بڑھکر ہے۔
۱۳. ۱-کرنتھیوں ۱۵:۴۲-۴۴ کے مطابق، کیا بویا جاتا ہے اور کیا جی اُٹھتا ہے؟
۱۳ فرق ظاہر کرنے کے بعد، پولس نے مزید بیان کِیا: ”مُردوں کی قیامت بھی ایسی ہی ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۴۲-۴۴) اس نے کہا: ”جسم فنا کی حالت میں بویا جاتا ہے اور بقا کی حالت میں جی اٹھتا ہے۔“ یہاں پولس ممسوح اشخاص کا ایک گروہ کے طور پر ذکر کرتا ہے۔ موت کے وقت جسم فنا کی حالت میں بویا جاتا ہے لیکن بقا یعنی گناہ سے پاک حالت میں زندہ کِیا جاتا ہے۔ دُنیا کی طرف سے بےعزتی کا سامنا کرنے کے باوجود، یہ آسمانی زندگی کیلئے جی اُٹھتا ہے اور مسیح کے ساتھ جلال پاتا ہے۔ (اعمال ۵:۴۱؛ کلسیوں ۳:۴) موت کے وقت ”نفسانی جسم“ بویا جاتا ہے اور ”روحانی جسم“ جی اٹھتا ہے۔ چونکہ یہ روح سے پیداشُدہ مسیحیوں کے معاملے میں ممکن ہے اسلئے ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ دیگر لوگ بھی زمین پر زندگی کیلئے زندہ کئے جا سکتے ہیں۔
۱۴. پولس نے مسیح کا آدم کیساتھ موازنہ کیسے کِیا؟
۱۴ اس کے بعد پولس نے مسیح کا آدم کیساتھ موازنہ کِیا۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۴۵-۴۹) پہلا آدمی یعنی آدم ”زندہ نفس“ بنا۔ (پیدایش ۲:۷) ”پچھلا آدؔم“—یسوع—”زندگی بخشنے والی روح بنا۔“ اس نے اپنی زندگی فدیے کی قربانی کے طور پر سب سے پہلے اپنے ممسوح پیروکاروں کے واسطے دی۔ (مرقس ۱۰:۴۵) انسانوں کے طور پر، وہ ’خاک سے بنے ہوئے آدم سے مشابہت رکھتے ہیں‘ لیکن قیامت کے بعد پچھلے آدم کی مانند بن جاتے ہیں۔ بِلاشُبہ، یسوع کی قربانی زمین پر قیامت پانے والوں سمیت، تمام فرمانبردار نوعِانسان کو فائدہ پہنچائیگی۔—۱-یوحنا ۲:۱، ۲۔
۱۵. ممسوح مسیحیوں کو جسم میں زندہ کیوں نہیں کِیا جاتا اور مسیح کی موجودگی کے دوران اُنہیں کیسے زندہ کِیا جاتا ہے؟
۱۵ جب ممسوح مسیحی مرتے ہیں تو انہیں جسم میں زندہ نہیں کِیا جاتا۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۰-۵۳) گوشت اور خون کا فنا ہونے والا بدن بقا اور آسمانی بادشاہت کا وارث نہیں ہو سکتا۔ بعض ممسوح اشخاص کو موت کی طویل نیند کا تجربہ نہیں کرنا پڑیگا۔ مسیح کی موجودگی کے دوران وفاداری کیساتھ اپنی زمینی زندگی ختم کرتے ہوئے ”وہ سب بدل جائینگے۔ اور یہ ایک دم میں۔ ایک پل میں“ ہوگا۔ وہ بقا اور جلال میں روحانی زندگی کیلئے فیالفور جی اُٹھینگے۔ انجامکار، مسیح کی آسمانی ”دُلہن“ کی ۱،۴۴،۰۰۰ کی تعداد پوری ہو جائیگی۔—مکاشفہ ۱۴:۱؛ ۱۹:۷-۹؛ ۲۱:۹؛ ۱-تھسلنیکیوں ۴:۱۵-۱۷۔
موت پر فتح!
۱۶. پولس اور ابتدائی انبیا کے مطابق، گنہگار آدم سے ورثے میں پائی ہوئی موت کے ساتھ کیا واقع ہوگا؟
۱۶ پولس نے فتحمندی سے بیان کِیا کہ موت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نابود ہو جائیگی۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۴-۵۷) جب فانی اور مرنے والا جسم بقا اور غیرفانیت کا جامہ پہن چکے گا تو یہ الفاظ تکمیل پائینگے: ”موت فتح کا لقمہ ہو گئی۔ اَے موت تیری فتح کہاں رہی؟ اَے موت تیرا ڈنک کہاں رہا؟“ (یسعیاہ ۲۵:۸؛ ہوسیع ۱۳:۱۴) گناہ ایک ایسا ڈنک ہے جس سے موت واقع ہوتی ہے اور گناہ کا زور شریعت ہے جو گنہگاروں پر موت کی سزا عائد کرتی ہے۔ لیکن یسوع کی قربانی اور قیامت کی بدولت، آدم سے ورثے میں پائی ہوئی موت پھر فاتح نہ رہے گی۔—رومیوں ۵:۱۲؛ ۶:۲۳۔
۱۷. آجکل ۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۸ کے الفاظ کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟
۱۷ پولس نے کہا: ”پس اَے میرے عزیز بھائیو! ثابتقدم اور قائم رہو اور خداوند کے کام میں ہمیشہ افزایش کرتے رہو کیونکہ یہ جانتے ہو کہ تمہاری محنت خداوند میں بیفائدہ نہیں ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۸) ان الفاظ کا اطلاق آجکل کے ممسوح بقیے اور یسوع کی ”دوسری بھیڑوں“ پر ہوتا ہے اگرچہ ان آخری ایّام میں اُنہیں موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ (یوحنا ۱۰:۱۶، اینڈبلیو) بادشاہتی منادوں کے طور انکی محنت بیفائدہ نہیں ہے کیونکہ قیامت انکی منتظر ہے۔ یہوواہ کے خادموں کے طور پر آئیے اس دن کا انتظار کرتے ہوئے خداوند کے کام میں مشغول رہیں جب ہم شادمانی سے للکار کر کہیں گے: ”اَے موت! تیری فتح کہاں رہی؟“
اُمیدِقیامت بَر آئی!
۱۸. قیامت پر پولس کی اُمید کتنی پُختہ تھی؟
۱۸ کرنتھیوں کے پہلے خط کے ۱۵ باب میں پولس کے الفاظ یہ واضح کرتے ہیں کہ قیامت کی اُمید اس کی زندگی میں واقعی بڑی قدرت رکھتی تھی۔ اسے پُختہ یقین تھا کہ یسوع مُردوں میں سے جی اُٹھا ہے اور دیگر بھی نسلِانسانی کی عام قبر سے رہائی پائینگے۔ کیا آپ ایسا پُختہ یقین رکھتے ہیں؟ پولس نے خودغرضانہ مفادات کو ”کوڑا“ سمجھا اور ’سب چیزوں کا نقصان اُٹھایا‘ تاکہ وہ ’مسیح کو اور اُسکے جی اُٹھنے کی قدرت کو معلوم کر سکے۔‘ رسول تو ”جی اُٹھنے کے درجہ تک پہنچنے“ کی اُمید میں مسیح جیسی موت بھی مرنے کیلئے تیار تھا۔ یہ ”پہلی قیامت“ ہے جسکا تجربہ یسوع کے ۱،۴۴،۰۰۰ ممسوح پیروکار کرتے ہیں۔ جیہاں، وہ آسمان میں روحانی زندگی کیلئے زندہ کئے جاتے ہیں جبکہ ”باقی مُردے“ زمین پر زندہ کئے جائینگے۔—فلپیوں ۳:۸-۱۱؛ مکاشفہ ۷:۴؛ ۲۰:۵، ۶۔
۱۹، ۲۰. (ا) بائبل ریکارڈ کے کونسے اشخاص زمین پر زندہ کئے جائینگے؟ (ب) آپ کس کی قیامت کے منتظر ہیں؟
۱۹ اُمیدِقیامت موت تک وفادار رہنے والے ممسوح اشخاص کے لئے ایک پُرجلال حقیقت بن گئی ہے۔ (رومیوں ۸:۱۸؛ ۱-تھسلنیکیوں ۴:۱۵-۱۸؛ مکاشفہ ۲:۱۰) جب ’سمندر اپنے اندر کے مُردوں کو دے دیگا اور موت اور قبریں اپنے اندر کے مُردوں کو دے دیں گی تو ”بڑی مصیبت“ سے بچنے والے زمین پر اُمیدِقیامت کو پورا ہوتے ہوئے دیکھیں گے۔‘ (مکاشفہ ۷:۹، ۱۳، ۱۴؛ ۲۰:۱۳) زمین پر زندہ ہونے والوں کے درمیان ایوب بھی ہوگا جس نے سات بیٹے اور تین بیٹیوں کی موت کا دُکھ برداشت کِیا تھا۔ ان کا خیرمقدم کرنے میں ذرا اس کی خوشی کا تصور کریں—اور وہ بھی اپنے اَور سات بھائیوں اور تین بہنوں کو دیکھکر کتنے خوش ہونگے!—ایوب ۱:۱، ۲، ۱۸، ۱۹؛ ۴۲:۱۲-۱۵۔
۲۰ جب ابرہام اور سارہ، اضحاق اور ربقہ—جیہاں ”سب نبیوں“ سمیت دیگر بہت سارے اشخاص—زمین پر زندہ کئے جائینگے تو یہ کتنا مبارک وقت ہوگا! (لوقا ۱۳:۲۸) ان نبیوں میں سے ایک دانیایل تھا جس کیساتھ مسیحائی حکمرانی کے تحت قیامت کا وعدہ کِیا گیا تھا۔ تقریباً ۲،۵۰۰ سال سے دانیایل قبر میں آرام کر رہا ہے لیکن قیامت کی قدرت سے وہ جلد ہی ”رُویِزمین پر سردار“ کی حیثیت سے ’اپنی میراث میں اُٹھ کھڑا ہوگا۔‘ (زبور ۴۵:۱۶؛ دانیایل ۱۲:۱۳) نہ صرف قدیم زمانے کے وفادار اشخاص بلکہ اپنے باپ، ماں، بیٹے، بیٹی یا دیگر عزیزوں کا خیرمقدم کرنا کسقدر ہیجانخیز ہوگا جنہیں دشمن موت نے چھین لیا تھا!
۲۱. ہمیں دوسروں کے لئے نیک کام کرنے میں تاخیر کیوں نہیں کرنی چاہئے؟
۲۱ شاید ہمارے بعض دوست اور عزیزوں نے دہوں تک خدا کی خدمت کی ہے اور اس وقت کافی عمررسیدہ ہیں۔ بڑھاپے کی وجہ سے شاید ان کے لئے زندگی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ انہیں اس وقت درکار مدد دینا کتنی پُرمحبت بات ہوگی! تب پھر اگر اُن پر موت آ جاتی ہے تو ہمیں اُن کے سلسلے میں اپنی ذمہداری پوری نہ کرنے کی بابت کوئی پچھتاوا نہیں ہوگا۔ (واعظ ۹:۱۱؛ ۱۲:۱-۷؛ ۱-تیمتھیس ۵:۳، ۸) ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ ہم دوسروں کے لئے ان کی عمر اور حالات سے قطعنظر جو بھی نیک کام کرتے ہیں یہوواہ اُسے ہرگز نہیں بھولیگا۔ پولس نے لکھا: ”جہاں تک موقع ملے سب کیساتھ نیکی کریں خاصکر اہلِایمان کے ساتھ۔“—گلتیوں ۶:۱۰؛ عبرانیوں ۶:۱۰۔
۲۲. اُمیدِقیامت کے بَر آنے تک، ہمیں کیا کرتے رہنے کا عزمِمُصمم کرنا چاہئے؟
۲۲ یہوواہ ”رحمتوں کا باپ اور ہر طرح کی تسلی کا خدا ہے۔“ (۲-کرنتھیوں ۱:۳، ۴) اس کا کلام طاقتور اُمیدِقیامت کیساتھ ہمیں تسلی دیتا ہے اور دوسروں کو تسلی دینے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ جبتک ہم زمین پر مُردوں کے جی اُٹھنے سے اس اُمید کی تکمیل دیکھ نہیں لیتے تب تک آئیے ہم بھی پولس کی مانند بنیں جو قیامت پر ایمان رکھتا تھا۔ خدا کرے کہ ہم خاص طور پر یسوع کی نقل کریں جس کی اپنی قیامت کے سلسلے میں خدا کی قدرت پر اُمید پوری ہوئی تھی۔ قبروں میں سوئے ہوئے عنقریب مسیح کی آواز سنکر نکل آئینگے۔ دُعا ہے کہ یہ ہمیں تسلی اور خوشی عطا کرے۔ لیکن سب سے بڑھکر، ہمیں یہوواہ کا شکرگزار ہونا چاہئے جس نے ہمارے خداوند یسوع مسیح کے وسیلے موت پر فتح کو ممکن بنایا ہے!
آپ کا جواب کیا ہے؟
• پولس یسوع کی قیامت کا کونسا زندہ ثبوت پیش کرتا ہے؟
• ”پچھلا دشمن“ کون ہے اور اسے کیسے نیست کِیا جائیگا؟
• ممسوح مسیحیوں کے معاملے میں کیا بویا جاتا ہے اور کیا جی اُٹھتا ہے؟
• آپ بائبل ریکارڈ کے کن اشخاص سے زمین پر اُنکی قیامت کے وقت ملنا چاہینگے؟
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
پولس رسول نے قیامت کا پُرزور دفاع کِیا
[صفحہ ۲۰ پر تصویریں]
ایوب، اسکے خاندان اور دیگر بہتیرے اشخاص کی قیامت انتہائی خوشی کا باعث ہوگی!