یہوواہ کے رحم کی نقل کریں
”جیسا تمہارا باپ رحیم ہے تم بھی رحم دل ہو۔“—لوقا ۶:۳۶۔
۱. فریسیوں نے اپنی بیرحمی کا ثبوت کیسے دیا؟
خدا کی صورت پر خلق کئے جانے کے باوجود انسان اکثر اُسکے رحم کی نقل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ (پیدایش ۱:۲۷) مثال کے طور پر، فریسیوں پر غور کیجئے۔ جب یسوع نے سبت پر ایک آدمی کے سوکھے ہوئے ہاتھ کو بڑے رحم سے ٹھیک کِیا تو وہ ایک گروہ کے طور پر اس سے خوش نہ ہوئے۔ یہانتک کہ اُنہوں نے یسوع کے خلاف مشورہ کِیا کہ ”اُسے کس طرح ہلاک کریں۔“ (متی ۱۲:۹-۱۴) ایک دوسرے موقع پر یسوع نے ایک پیدائشی اندھے کو شفا بخشی۔ ایک مرتبہ پھر، ”بعض فریسی“ یسوع کے رحم سے خوش نہیں ہوئے تھے۔ اسکے برعکس اُنہوں نے شکایت کی: ”یہ آدمی خدا کی طرف سے نہیں کیونکہ سبت کو نہیں مانتا۔“—یوحنا ۹:۱-۷، ۱۶۔
۲، ۳. یسوع کے اس بیان کا کیا مطلب تھا، ”فریسیوں . . . کے خمیر سے ہوشیار رہنا“؟
۲ فریسیوں کا سردمہر رویہ انسانیت کے خلاف جُرم اور خدا کے خلاف گناہ تھا۔ (یوحنا ۹:۳۹-۴۱) یسوع نے اپنے شاگردوں کو موزوں طور پر آگاہ کِیا تھا کہ اس ممتاز گروہ اور دیگر صدوقیوں جیسے مذہبپرستوں کے ”خمیر سے ہوشیار رہنا۔“ (متی ۱۶:۶) بائبل میں خمیر کو گناہ یا بداعمالی کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کِیا جاتا ہے۔ پس یسوع یہ کہہ رہا تھا کہ ”فقیہوں اور فریسیوں“ کی تعلیم سچی پرستش کو بگاڑ سکتی تھی۔ کیسے؟ اس نے لوگوں کو رحم سمیت ”زیادہ بھاری باتوں“ کو نظرانداز کرتے ہوئے خدا کی شریعت کو محض اپنے ذاتی ایجادکردہ اصولوں اور رسومات کی نگاہ سے دیکھنا سکھایا۔ (متی ۲۳:۲) رسومات کے پابند اس مذہب کی وجہ سے خدا کی پرستش ایک ناقابلِبرداشت بوجھ بن گئی۔
۳ مسرف بیٹے کی کہانی کے دوسرے حصے میں یسوع نے یہودی مذہبی پیشواؤں کی خراب ذہنیت کو بےنقاب کِیا۔ اس کہانی میں باپ جو یہوواہ کی نمائندگی کرتا ہے اپنے تائب بیٹے کو معاف کرنے کیلئے تیار تھا۔ تاہم لڑکے کا بڑا بھائی جس نے ”فقیہوں اور فریسیوں“ کی عکاسی کی اس معاملے میں بالکل فرق احساسات رکھتا تھا۔—لوقا ۱۵:۲۔
بھائی کا غصہ
۴، ۵. مسرف شخص کا بھائی کس مفہوم میں ”کھو“ گیا تھا؟
۴ ”اُس کا بڑا بیٹا کھیت میں تھا۔ جب وہ آ کر گھر کے نزدیک پہنچا تو گانےبجانے اور ناچنے کی آواز سنی۔ اور ایک نوکر کو بلا کر دریافت کرنے لگا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اُس نے اُس سے کہا تیرا بھائی آ گیا ہے اور تیرے باپ نے پلا ہؤا بچھڑا ذبح کرایا ہے کیونکہ اُسے بھلا چنگا پایا۔ وہ غصے ہؤا اور اندر جانا نہ چاہا۔“—لوقا ۱۵:۲۵-۲۸۔
۵ صاف ظاہر ہے کہ یسوع کی کہانی میں صرف مسرف بیٹے کو ہی مسئلہ درپیش نہیں تھا۔ ایک حوالہجاتی کتاب بیان کرتی ہے کہ ”جن بیٹوں کی یہاں تصویرکشی کی گئی ہے وہ دونوں ہی کھو گئے تھے۔ ایک ناراستی کی وجہ سے جس نے اُسے ذلیل کر دیا تھا اور دوسرا زہدفروشی کی وجہ سے جس نے اُسکی عقل پر پردہ ڈال دیا تھا۔“ غور کریں کہ مسرف شخص کے بھائی نے نہ صرف خوشی منانے سے انکار کر دیا بلکہ ”غصے“ بھی ہوا۔ ”غصے“ کیلئے یونانی اصل غصے کے شدید اظہار کا نہیں بلکہ ذہن کی مستقل حالت کا مفہوم پیش کرتا ہے۔ بظاہر، مسرف شخص کے بھائی نے دل میں کینہ پیدا کر لیا تھا اسلئے اُس نے محسوس کِیا کہ کسی ایسے شخص کی واپسی کا جشن منانا نامناسب ہے جسے گھر چھوڑ کر کبھی جانا ہی نہیں چاہئے تھا۔
۶. مسرف شخص کا بھائی کس کی نمائندگی کرتا ہے اور کیوں؟
۶ مسرف شخص کے بھائی نے اُن لوگوں کی خوب نمائندگی کی جو گنہگاروں کے لئے یسوع کی شفقت اور توجہ پر خفا تھے۔ ان زہدفروشوں پر یسوع کے رحم کا کوئی اثر نہ ہوا؛ نہ ہی اُنہوں نے اُس خوشی کا اظہار کِیا جو کسی گنہگار کے معاف کئے جانے پر آسمان میں واقع ہوتی ہے۔ اس کی بجائے، یسوع کا رحم دیکھ کر وہ مشتعل ہو گئے اور اپنے دل میں ”بُرے خیال“ باندھنے لگے۔ (متی ۹:۲-۴) ایک موقع پر تو بعض فریسیوں کا غصہ اس انتہا کو پہنچ گیا کہ اُنہوں نے ایک آدمی کو جسے یسوع نے شفا دی تھی طلب کِیا اور عبادتخانے سے ”باہر نکال دیا“—بظاہر اُسے خارج کر دیا! (یوحنا ۹:۲۲، ۳۴) مسرف شخص کے بھائی کی طرح جو ”اندر جانا نہ چاہتا“ تھا، یہودی مذہبی پیشواؤں نے بھی ”خوشی کرنے والوں کے ساتھ خوشی“ کرنے کے موقع سے استفادہ کرنے سے انکار کر دیا۔ (رومیوں ۱۲:۱۵) یسوع نے اپنی کہانی میں آگے چل کر اُن کی کینہپرور سوچ کو مزید بےنقاب کِیا۔
ناقص استدلال
۷، ۸. (ا) کس لحاظ سے مسرف شخص کا بھائی فرزندی کے مفہوم کو سمجھ نہیں پایا تھا؟ (ب) بڑا بیٹا اپنے باپ سے کیسے مختلف تھا؟
۷ ”مگر اُسکا باپ جا کر اُسے منانے لگا۔ اُس نے اپنے باپ سے جواب میں کہا کہ دیکھ اتنے برسوں سے مَیں تیری خدمت کرتا ہوں اور کبھی تیری حکمعدولی نہیں کی مگر مجھے تُو نے کبھی ایک بکری کا بچہ بھی نہ دیا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ خوشی مناتا۔ لیکن جب تیرا یہ بیٹا آیا جس نے تیرا مالمتاع کسبیوں میں اُڑا دیا تو اُسکے لئے تُو نے پلا ہوا بچھڑا ذبح کرایا۔“—لوقا ۱۵:۲۸-۳۰۔
۸ ان باتوں سے مسرف شخص کے بھائی نے ظاہر کر دیا کہ وہ فرزندی کے حقیقی مفہوم کو سمجھ نہیں پایا تھا۔ جیسے ایک اجیر اپنے آجر کی خدمت کرتا ہے اُس نے بالکل ویسے ہی اپنے باپ کی خدمت کی تھی۔ جیسےکہ اُس نے اپنے باپ سے کہا: ”مَیں تیری خدمت کرتا ہوں۔“ سچ ہے کہ اس بڑے بیٹے نے کبھی گھر نہیں چھوڑا تھا یا اپنے باپ کی حکمعدولی نہیں کی تھی۔ تاہم کیا وہ محبت کی رُو سے فرمانبرداری کرتا تھا؟ کیا وہ اپنے باپ کی خدمت سے حقیقی خوشی حاصل کرتا تھا یا اس کی بجائے کیا وہ محض اس وجہ سے خود کو اچھا بیٹا خیال کرتے ہوئے خوشفہمی میں مبتلا ہو گیا کہ وہ ”کھیت میں“ اپنے فرائض انجام دیتا ہے؟ اگر وہ واقعی عقیدتمند بیٹا تھا تو وہ اپنے باپ کی ذہنیت کی نقل کرنے میں ناکام کیوں ہو گیا؟ جب اُسے اپنے بھائی کے لئے رحم دکھانے کا موقع ملا تو اُسکے دل میں شفقت کا احساس کیوں پیدا نہ ہوا؟—مقابلہ کریں زبور ۵۰:۲۰-۲۲۔
۹. وضاحت کریں کہ یہودی مذہبی پیشوا بڑے بیٹے کی مانند کیسے تھے۔
۹ یہودی مذہبی پیشوا اس بڑے بیٹے کی مانند تھے۔ اُنکا خیال تھا کہ وہ خدا کے وفادار ہیں کیونکہ وہ قوانین کے ایک ضابطے کی سختی سے پابندی کرتے تھے۔ سچ ہے کہ فرمانبرداری نہایت اہم ہے۔ (۱-سموئیل ۱۵:۲۲) تاہم، اعمال پر حد سے زیادہ اصرار کرنے سے خدا کیلئے اُنکی پرستش ایک کتابی معمول، حقیقی روحانیت کے بغیر عقیدت کا محض ایک خول بن کر رہ گئی۔ اُنکے ذہنوں پر روایات مسلّط تھیں۔ اُنکے دل محبت سے عاری تھے۔ حتیٰکہ وہ عام لوگوں کو اپنے پاؤں کی دھول سمجھتے تھے اور اُنہیں حقارت سے ”لعنتی“ کہتے تھے۔ (یوحنا ۷:۴۹) واقعی، خدا ایسے پیشواؤں کے اعمال سے کیسے خوش ہو سکتا تھا جبکہ اُنکے دل اُس سے بہت دُور تھے؟—متی ۱۵:۷، ۸۔
۱۰. (ا) یہ الفاظ، ”مَیں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں،“ ایک موزوں مشورت کیوں ہیں؟ (ب) رحم کی کمی ایک سنجیدہ معاملہ کیوں ہے؟
۱۰ یسوع نے فریسیوں سے کہا کہ ”جا کر اُس کے معنی دریافت کرو کہ مَیں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں۔“ (متی ۹:۱۳؛ ہوسیع ۶:۶) اُن کی ترجیحات بکھر چکی تھیں کیونکہ رحم کے بغیر اُن کی تمام قربانیوں کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ یہ واقعی سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ بائبل بیان کرتی ہے کہ ”بیرحم“ اشخاص کا شمار اُن میں ہوتا ہے جنہیں خدا ”موت کی سزا کے لائق“ خیال کرتا ہے۔ (رومیوں ۱:۳۱، ۳۲) لہٰذا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ یسوع نے کہا کہ ایک گروہ کے طور پر مذہبی پیشواؤں کے لئے ابدی ہلاکت مُعیّن تھی۔ بدیہی طور پر، اپنی بیرحمی کی وجہ سے ہی وہ اس سزا کے مستحق ٹھہرے تھے۔ (متی ۲۳:۳۳) تاہم اس گروہ کے ارکان کی غالباً مدد کی جا سکتی تھی۔ اپنی کہانی کے اختتام پر یسوع نے بڑے بیٹے کے حق میں باپ کے الفاظ سے ایسے یہودیوں کی سوچ کو درست کرنے کی کوشش کی۔ آئیے دیکھیں کیسے۔
ایک باپ کا رحم
۱۱، ۱۲. یسوع کی تمثیل میں باپ بڑے بیٹے سے استدلال کرنے کی کوشش کیسے کرتا ہے اور باپ کے اس جملے، ”تیرا بھائی“ کی کیا اہمیت ہے؟
۱۱ ”اُس نے اُس سے کہا بیٹا! تُو تو ہمیشہ میرے پاس ہے اور جوکچھ میرا ہے وہ تیرا ہی ہے لیکن خوشی منانا اور شادمان ہونا مناسب تھا کیونکہ تیرا یہ بھائی مُردہ تھا۔ اب زندہ ہؤا۔ کھویا ہوا تھا اب ملا ہے۔“—لوقا ۱۵:۳۱، ۳۲۔
۱۲ غور فرمائیں کہ باپ ”تیرا . . . بھائی“ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ کیوں؟ یاد کریں کہ پہلے اپنے باپ سے بات کرتے ہوئے بڑے بیٹے نے مسرف کو ”تیرا بیٹا“ کہا تھا—”میرا بھائی“ نہیں۔ وہ اپنے اور اپنے چھوٹے بھائی کے درمیان کسی خاندانی رشتے کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ لہٰذا اب باپ دراصل اپنے بڑے بیٹے سے یہ کہہ رہا ہے: ’یہ صرف میرا بیٹا ہی نہیں ہے۔ بلکہ تیرا بھائی، تیرا اپنا جسم اور خون بھی ہے۔ اسکی واپسی سے خوش ہونے کیلئے تیرے پاس معقول وجہ ہے!‘ یہودی پیشواؤں کیلئے یسوع کا پیغام بالکل واضح تھا۔ جن گنہگاروں کو وہ حقیر جانتے تھے وہ درحقیقت اُنکے ”بھائی“ تھے۔ واقعی،، ”زمین پر کوئی ایسا راستباز انسان نہیں کہ نیکی ہی کرے اور خطا نہ کرے۔“ (واعظ ۷:۲۰) پس، ممتاز یہودیوں کے پاس گنہگاروں کے توبہ کرنے پر خوش ہونے کی معقول وجہ موجود تھی۔
۱۳. یسوع کی کہانی کا یکلخت ختم ہو جانا ہمیں کس سنجیدہ سوال پر لا کھڑا کرتا ہے؟
۱۳ باپ کی التجا کے بعد کہانی یکلخت ختم ہو جاتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ یسوع اپنے سامعین کو خود کہانی کا نتیجہ اخذ کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔ بڑے بیٹے کا ردِعمل جیسا بھی تھا، ہر سننے والے کو یہ سوال درپیش تھا، ’کیا آپ اُس خوشی میں شریک ہونگے جو ایک گنہگار کے توبہ کرنے پر آسمان میں ہوتی ہے؟‘ آجکل مسیحیوں کے پاس بھی اس سوال کا جواب دینے کا موقع ہے۔ کیسے؟
آجکل خدا کے رحم کی نقل کرنا
۱۴. (ا) رحم کے معاملے میں ہم افسیوں ۵:۱ میں پولس کی مشورت کا اطلاق کیسے کر سکتے ہیں؟ (ب) خدا کے رحم کے سلسلے میں ہمیں کس غلطفہمی سے بچنے کی ضرورت ہے؟
۱۴ پولس نے افسیوں کو تلقین کی: ”عزیز فرزندوں کی طرح خدا کی مانند بنو۔“ (افسیوں ۵:۱) لہٰذا، مسیحیوں کے طور پر ہمیں خدا کے رحم کی قدر کرنی چاہئے، اسے اپنے دل میں اُتارنا چاہئے اور پھر دوسروں کیساتھ اپنے تعلقات میں اس خوبی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ تاہم، احتیاط ضروری ہے۔ خدا کے رحم کو گناہ کی سنجیدگی کو کم کرنے کیلئے عذر خیال نہیں کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر، بعض لاپرواہی سے یہ دلیل پیش کرتے ہیں، ’اگر مَیں گناہ کرتا ہوں تو مَیں معافی کیلئے خدا سے ہمیشہ دُعا کر سکتا ہوں اور وہ ضرور رحم کریگا۔‘ ایسا رُجحان بائبل ئنن میں سے ایک یہوداہ کے مطابق ”ہمارے خدا کے فضل کو شہوتپرستی سے بدل“ ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ (یہوداہ ۴) یہوواہ رحیم ہونے کے باوجود غیرتائب خطاکاروں کی عدالت کرتے وقت ”مجرم کو ہرگز بری نہیں کریگا۔“—خروج ۳۴:۷؛ مقابلہ کریں یشوع ۲۴:۱۹؛ ۱-یوحنا ۵:۱۶۔
۱۵. (ا) بزرگوں کو رحم کی بابت متوازن نظریہ قائم رکھنے کی خاص ضرورت کیوں ہے؟ (ب) دانستہ خطاکاری کو برداشت نہ کرنے کیساتھ ساتھ، بزرگوں کو کیا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور کیوں؟
۱۵ اسکے برعکس، ہمیں اس سلسلے میں انتہاپسندی سے بچنے کیلئے محتاط رہنے کی بھی ضرورت ہے کہ کہیں اپنے گناہوں پر حقیقی پشیمانی اور خدائی غم کا اظہار کرنے والے لوگوں کیلئے بےلوچ اور سزا دینے پر بضد ہونے کے میلان میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ (۲-کرنتھیوں ۷:۱۱) چونکہ بزرگوں کو یہوواہ کے گلّے کی نگہبانی کا کام سونپا گیا ہے اسلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اس سلسلے میں، بالخصوص عدالتی معاملات نپٹاتے وقت متوازن نظریہ قائم رکھیں۔ مسیحی کلیسیا کو پاکصاف رکھا جانا چاہئے اسلئے خارج کر دینے کے عمل سے ”شریر آدمی“ کو ”نکال“ دینا صحیفائی طور پر موزوں ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۵:۱۱-۱۳) اسکے ساتھ ہی ساتھ، واضح بنیاد موجود ہونے کی صورت میں رحم دکھانا اچھا ہوگا۔ لہٰذا بزرگ دانستہ خطاکاری کو تو برداشت نہیں کرتے مگر وہ انصاف کی حدود میں رہ کر مشفقانہ اور رحمانہ روش اختیار کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ وہ بائبل کے اس اصول کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں: ”جس نے رحم نہیں کِیا اُسکا انصاف بغیر رحم کے ہوگا۔ رحم انصاف پر غالب آتا ہے۔“—یعقوب ۲:۱۳؛ امثال ۱۹:۱۷؛ متی ۵:۷۔
۱۶. (ا) بائبل کو استعمال کرتے ہوئے ثابت کریں کہ کیسے یہوواہ واقعی چاہتا ہے کہ خطاکار اُسکی طرف رجوع لائیں۔ (ب) ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم بھی تائب گنہگاروں کی واپسی سے خوش ہوتے ہیں؟
۱۶ مسرف شخص کی کہانی اس بات کو اُجاگر کرتی ہے کہ یہوواہ چاہتا ہے کہ خطاکار اُس کی طرف رجوع کریں۔ یقیناً، وہ اُنہیں بلاتا رہتا ہے جبتک کہ وہ یہ ثابت نہیں کر دیتے کہ اُن کے واپس آنے کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ (حزقیایل ۳۳:۱۱؛ ملاکی ۳:۷؛ رومیوں ۲:۴، ۵؛ ۲-پطرس ۳:۹) مسرف شخص کے باپ کی طرح یہوواہ واپس آنے والوں کے ساتھ بہت عزت سے پیش آتا ہے اور اُنہیں دوبارہ پورے طور پر خاندان کے افراد قبول کر لیتا ہے۔ کیا آپ اس سلسلے میں یہوواہ کی نقل کر رہے ہیں؟ جب کوئی ساتھی ایماندار، جسے کچھ عرصے کے لئے خارج کر دیا گیا تھا، بحال ہو جاتا ہے تو آپ کیسا ردِعمل دکھاتے ہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ ”آسمان پر . . . خوشی“ ہوتی ہے۔ (لوقا ۱۵:۷) تاہم کیا زمین پر، آپ کی کلیسیا میں، آپ کے دل میں بھی خوشی ہوتی ہے؟ یا کہانی کے بڑے بیٹے کی طرح کچھ کینہ رکھنے کے باعث اُس شخص کا خیرمقدم نہیں کِیا جاتا جسے خدا کے گلّے کو چھوڑنا ہی نہیں چاہئے تھا؟
۱۷. (ا) پہلی صدی میں کرنتھس میں کیا صورتحال پیدا ہو گئی تھی اور پولس نے کلیسیا کے لوگوں کو یہ معاملہ نپٹانے کے لئے کیسے نصیحت کی؟ (ب) پولس کی فہمائش کیوں عملی تھی اور آجکل ہم اس کا اطلاق کیسے کر سکتے ہیں؟ (صفحہ ۳۰ کے بکس کو بھی دیکھیں۔)
۱۷ اس معاملے میں اپنا جائزہ لینے میں مدد کے لئے غور کریں کہ ۵۵ س.ع. میں کرنتھس میں کیا واقع ہوا۔ وہاں کلیسیا سے خارج ایک شخص نے بالآخر اپنی زندگی کو پاکصاف کر لیا تھا۔ بھائیوں کو کیا کرنا تھا؟ کیا وہ اُسکی توبہ کو شک کی نگاہ سے دیکھیں گے اور اُس سے دُور ہی رہیں گے؟ اسکے برعکس، پولس نے کرنتھیوں کو تاکید کی: ”اُسکا قصور معاف کرو اور تسلی دو تاکہ وہ غم کی کثرت سے تباہ نہ ہو۔ اسلئے مَیں تُم سے التماس کرتا ہوں اسکے بارے میں محبت کا فتویٰ دو۔“ (۲-کرنتھیوں ۲:۷، ۸) اکثراوقات، تائب خطاکار تحقیر اور مایوسی کے احساسات کیلئے بالخصوص حساس ہوتے ہیں۔ لہٰذا، اُنہیں یہ یقین دلائے جانے کی ضرورت ہے کہ اُنکے ساتھی ایماندار اور یہوواہ اُن سے محبت کرتا ہے۔ (یرمیاہ ۳۱:۳؛ رومیوں ۱:۱۲) یہ نہایت اہم ہے۔ کیوں؟
۱۸، ۱۹. (ا) کرنتھیوں نے پہلے کیسے حد سے زیادہ نرمی کا مظاہرہ کِیا تھا؟ (ب) بیرحمی کا رُجحان کرنتھیوں کیلئے ”شیطان کے داؤ“ کا شکار ہو جانے کا باعث کیسے بن سکتا تھا؟
۱۸ پولس نے کرنتھیوں کو معافی کو عمل میں لانے کی نصیحت کرنے کی ایک وجہ بیان کی کہ ”شیطان کا ہم پر داؤ نہ چلے کیونکہ ہم اس کے حیلوں سے ناواقف نہیں۔“ (۲-کرنتھیوں ۲:۱۱) اُسکا کیا مطلب تھا؟ درحقیقت، پہلے پولس کو حد سے زیادہ نرم ہونے کیخلاف کرنتھس کی کلیسیا کو ملامت کرنی پڑی تھی۔ اُنہوں نے اس آدمی کو بِلاخوفوخطر گناہ میں پڑے رہنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ ایسا کرنے سے، کلیسیا—بالخصوص بزرگ—شیطان کے ہاتھوں کھلونا بن گئے تھے کیونکہ وہ تو کلیسیا کی بدنامی میں ہی خوش تھا۔—۱-کرنتھیوں ۵:۱-۵۔
۱۹ اگر اب وہ اسکے بالکل اُلٹ عمل کرتے ہوئے اُس تائب شخص کو معاف کرنے سے انکار کر دیتے تو ایک فرق طریقے سے شیطان کا داؤ اُن پر چل جاتا۔ کیسے؟ اس طرح کے وہ اُنکی سختی اور بیرحمی سے فائدہ اُٹھا سکتا تھا۔ اگر تائب گنہگار ”غم کی کثرت سے تباہ“ ہو جاتا—یا ٹوڈیز انگلش ورشن کے مطابق ”غم کی کثرت سے بالکل مایوس ہو جاتا“—تو یہوواہ کے حضور بزرگوں کی کتنی بھاری ذمہداری ہوتی! (مقابلہ کریں حزقیایل ۳۴:۶؛ یعقوب ۳:۱) معقول طور پر، اپنے پیروکاروں کو ”ان چھوٹوں میں سے ایک“ کو ٹھوکر کھلانے کے خلاف آگاہ کرتے ہوئے یسوع نے کہا: ”خبردار رہو! اگر تیرا بھائی گناہ کرے تو اُسے ملامت کر۔ اگر توبہ کرے تو اُسے معاف کر۔“a—لوقا ۱۷:۱-۴۔
۲۰. ایک گنہگار کے توبہ کرنے پر زمین اور آسمان پر کس طرح خوشی ہوتی ہے؟
۲۰ ہر سال سچی پرستش کی طرف رجوع لانے والے ہزاروں لوگ اُس رحم کیلئے مشکور ہیں جو یہوواہ نے اُن کیلئے دکھایا ہے۔ ”مجھے یاد نہیں پڑتا کہ مَیں زندگی میں کسی اَور چیز کی بابت کبھی اتنی خوش ہوئی،“ ایک مسیحی بہن اپنی بحالی کی بابت بیان کرتی ہے۔ بِلاشُبہ، فرشتے بھی اُسکی خوشی میں شریک تھے۔ دُعا ہے کہ ہم بھی اُس ”خوشی“ میں شریک ہوں جو گنہگار کے توبہ کرنے پر ”آسمان“ پر ہوتی ہے۔ (لوقا ۱۵:۷) ایسا کرنے سے ہم یہوواہ کے رحم کی نقل کرینگے۔
[فٹنوٹ]
a اگرچہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کرنتھس میں خطاکار کو نسبتاً کم عرصے میں بحال کر دیا گیا تھا توبھی اسے خارج کئے جانے کے تمام معاملات کیلئے معیار کے طور پر استعمال نہیں کِیا جا سکتا۔ ہر معاملہ فرق ہوتا ہے۔ بعض خطاکار تقریباً خارج کئے جانے کے فوراً بعد ہی حقیقی توبہ کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ دیگر کے معاملے میں ایسا رُجحان کچھ عرصے کے بعد نمایاں ہونے لگتا ہے۔ تاہم، تمام معاملات میں جو بحال کئے جاتے ہیں اُنہیں پہلے خدائی غم کا ثبوت پیش کرنا چاہئے اور جب ممکن ہو تو توبہ کے موافق عمل کرنا چاہئے۔—اعمال ۲۶:۲۰؛ ۲-کرنتھیوں ۷:۱۱۔
اعادے کیلئے
◻مسرف شخص کا بھائی یہودی مذہبی پیشواؤں کی مانند کیسے تھا؟
◻کس لحاظ سے مسرف شخص کا بھائی فرزندی کے حقیقی مفہوم کو سمجھ نہیں پایا تھا؟
◻خدا کے رحم پر غوروخوض کرتے ہوئے ہمیں کن دو انتہاپسندانہ رُجحانات سے گریز کرنے کی ضرورت ہے؟
◻ہم آجکل خدا کے رحم کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟
[بکس]
اُس کے بارے میں محبت کا فتویٰ دو“
توبہ کا اظہار کرنے والے خارجشُدہ خطاکار کی بابت پولس نے کرنتھیوں کی کلیسیا سے کہا: ”مَیں تُم سے التماس کرتا ہوں کہ اسکے بارے میں محبت کا فتویٰ دو۔“ (۲-کرنتھیوں ۲:۸) جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”فتویٰ“ کِیا گیا ہے وہ ایک قانونی اصطلاح ہے جسکا مطلب ”توثیق“ کرنا ہے۔ درحقیقت، بحال ہونے والے تائب اشخاص کے اندر اپنائیت کا احساس پیدا ہونا چاہئے کہ اُن سے محبت کی جاتی ہے اور ایک بار پھر اُنہیں مسیحی کلیسیا کے ارکان کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔
تاہم، ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ کلیسیا کے بیشتر لوگ کسی شخص کے خارج کئے جانے یا بحالی کا باعث بننے والے مخصوص حالات سے واقف نہیں ہوتے۔ علاوہازیں، بعض ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو تائب شخص کی خطاکاری سے—غالباً طویل مدت تک—ذاتی طور پر متاثر ہوئے ہیں اور اُنکے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ لہٰذا، ایسے معاملات کو ملحوظِخاطر رکھتے ہوئے جب بحال کئے جانے کا اعلان ہوتا ہے تو یہ بات قابلِفہم ہے کہ ہمیں خیرمقدم کرنے کے اجتماعی اظہارات کی بجائے ذاتی طور پر ایسا کرنا چاہئے۔
بحال ہونے والوں کیلئے یہ جاننا کسقدر ایمانافزا ہوگا کہ اُنہیں مسیحی کلیسیا کے ارکان کے طور پر دوبارہ قبول کر لیا گیا ہے! ہم ایسے تائب اشخاص کیساتھ باتچیت کرنے سے اور کنگڈم ہال میں، خدمتگزاری میں اور دیگر موزوں مواقع پر اُنکی رفاقت سے محظوظ ہونے سے انکی حوصلہافزائی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ایسے عزیز بہن بھائیوں کیلئے اپنی محبت کا فتویٰ دیکر یا اسکی توثیق کر کے ہم کسی بھی طرح اُنکے گناہوں کی سنجیدگی کو کم نہیں کرتے جو اُنہوں نے کئے ہیں۔ اسکی بجائے، آسمانی لشکروں کیساتھ ملکر ہم اس حقیقت سے شادمان ہوتے ہیں کہ وہ گنہگارانہ روش کو چھوڑ کر یہوواہ کے پاس لوٹ آئے ہیں۔—لوقا ۱۵:۷۔
[صفحہ 29 پر تصویر]
بڑے بیٹے نے اپنے بھائی کی واپسی کی خوشی منانے سے انکار کر دیا