کیا آپ اپنی راستی پر قائم رہینگے؟
کل کتنی چڑیاں مر گئی تھیں؟ کوئی نہیں جانتا اور شاید بہت کم لوگ اس بات کی پرواہ کریں اسلئےکہ پرندے بیشمار ہیں۔ تاہم یہوواہ پرواہ کرتا ہے۔ بدیہی طور پر ان معمولی پرندوں کا حوالہ دیتے ہوئے یسوع نے اپنے شاگردوں کو بتایا: ”ان میں سے ایک بھی تمہارے باپ کی مرضی بغیر زمین پر نہیں گِر سکتی۔“ اُس نے مزید بیان کِیا: ”ڈرو نہیں۔ تمہاری قدر تو بہت سی چڑیوں سے زیادہ ہے۔“—متی ۱۰:۲۹، ۳۱۔
بعدازاں شاگرد واضح طور پر سمجھ گئے کہ یہوواہ اُن کی کتنی قدر کرتا ہے۔ ان میں سے ایک، یوحنا رسول نے لکھا: ”جو محبت خدا کو ہم سے ہے وہ اِس سے ظاہر ہوئی کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دُنیا میں بھیجا ہے تاکہ ہم اُسکے سبب سے زِندہ رہیں۔“ (۱-یوحنا ۴:۹) یہوواہ فدیہ فراہم کرنے کے علاوہ اپنے ہر خادم کو یہ یقین بھی دلاتا ہے: ”مَیں تجھ سے ہرگز دستبردار نہ ہونگا اور کبھی تجھے نہ چھوڑونگا۔“—عبرانیوں ۱۳:۵۔
واضح طور پر، لوگوں کیلئے یہوواہ کی محبت غیرمتزلزل ہے۔ تاہم، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’کیا یہوواہ کے ساتھ ہمارا رشتہ اتنا مضبوط ہے کہ ہم اُسے کبھی نہیں چھوڑینگے؟‘
ہماری راستی کو توڑنے کیلئے شیطان کی کوششیں
جب یہوواہ نے شیطان کی توجہ ایوب کی راست روش پر دلائی تو اُس نے فوراً جواب دیا: ”کیا اؔیوب یوں ہی خدا سے ڈرتا ہے؟“ (ایوب ۱:۹) اُس نے اشارہ دیا کہ خدا کیلئے انسان کی وفاداری بنیادی طور پر اس بات پر منحصر ہے کہ وہ ’اس سے کیا فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔‘ اگر یہ سچ ہوتا تو پیشکش کے دلکش ہونے کی صورت میں ہر مسیحی کی راستی ٹوٹ سکتی تھی۔
ایوب کے معاملے میں شیطان نے ابتدا میں یہ دعویٰ کِیا کہ اگر ایوب اپنے بیشقیمت اثاثے کھو دے تو خدا کیلئے اُسکی وفاداری ختم ہو جائیگی۔ (ایوب ۱:۱۰، ۱۱) جب یہ الزام جھوٹا ثابت ہوا تو شیطان نے تہمت لگائی: ”انسان اپنا سارا مال اپنی جان کے لئے دے ڈالیگا۔“ (ایوب ۲:۴) بعض لوگوں کے سلسلے میں شیطان کا یہ دعویٰ درست ہو سکتا ہے تاہم ایوب نے اپنی راستی پر مصالحت کرنے سے انکار کر دیا۔ تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے۔ (ایوب ۲۷:۵؛ ۴۲:۱۰-۱۷) کیا آپ کی وفاداری بھی ایسی ہی ہے؟ یا کیا آپ شیطان کو اپنی راستی توڑنے کی اجازت دینگے؟ ہر مسیحی پر عائد ہونے والی بعض سچائیوں کا جائزہ لیتے وقت اپنی بابت سوچیں۔
پولس رسول یقین رکھتا تھا کہ سچی مسیحی وفاداری بہت مضبوط ہے۔ اُس نے لکھا: ”مجھ کو یقین ہے کہ خدا کی جو محبت ہمارے خداوند مسیح یسوؔع میں ہے اُس سے ہم کو نہ موت جدا کر سکے گی نہ زندگی۔ . . . نہ حال کی نہ استقبال کی چیزیں۔ . . . نہ کوئی اَور مخلوق۔“ (رومیوں ۸:۳۸، ۳۹) اگر یہوواہ کے لئے ہماری محبت مضبوط ہے تو ہم بھی اسی طرح کا اعتماد رکھ سکتے ہیں۔ ایسی محبت ایک غیرفانی رشتہ ہے جسے موت بھی نہیں توڑ سکتی۔
اگر ہمارا یہوواہ کیساتھ ایسا رشتہ ہے تو ہم کبھی بھی یہ سوال نہیں پوچھ سکتے، ’کیا مَیں اب سے کچھ سال بعد بھی یہوواہ کی خدمت میں رہونگا؟‘ ایسی غیریقینی ظاہر کریگی کہ ہماری وفاداری ہماری زندگی میں پیش آنے والے حالات پر منحصر ہے۔ سچی راستی بیرونی حالات سے متاثر نہیں ہوتی۔ یہ ہماری باطنی شخصیت پر منتج ہوتی ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۴:۱۶-۱۸) اگر ہم یہوواہ سے اپنے پورے دلوجان سے محبت کرتے ہیں تو ہم اُسے کبھی مایوس نہیں کرینگے۔—متی ۲۲:۳۷؛ ۱-کرنتھیوں ۱۳:۸۔
تاہم ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ شیطان ہماری راستی کو توڑنے کی مستقل کوشش کرتا ہے۔ وہ ہمیں جنسی خواہشات سے مغلوب ہونے، ہمسروں کے دباؤ میں آنے یا کسی مشکل میں پھنسانے سے سچائی چھوڑ دینے کی آزمائش میں ڈال سکتا ہے۔ اگرچہ ہماری ناکاملیتیں شیطان کے اس حملے کو آسان بنا دیتی ہیں تاہم خدا سے منحرف دُنیا اس کام میں اُسکا خاص مہرہ ہے۔ (رومیوں ۷:۱۹، ۲۰؛ ۱-یوحنا ۲:۱۶) اسکے باوجود، بہتیرے حالات ہمارے فائدے میں جاتے ہیں جن میں سے بنیادی عنصر یہ ہے کہ ہم شیطان کے حیلوں سے ناواقف نہیں۔—۲-کرنتھیوں ۲:۱۱۔
شیطان کے حیلے کیا ہیں؟ پولس نے افسیوں کے نام اپنے خط میں انکا بیان ”منصوبوں“ یا ”چالوں“ کے طور پر کِیا۔a (افسیوں ۶:۱۱) شیطان ہماری راستی توڑنے کے لئے ہماری راہوں میں مکاری کے جال بچھاتا ہے۔ ہم خدا کے کلام میں ابلیس کے حربوں کے درج ہونے کی بدولت اس کے عیارانہ ہتھکنڈوں سے واقف ہیں۔ یسوع اور ایوب کی راستی کو توڑنے کی شیطان کی کوششیں بعض ایسے طریقوں کو ظاہر کرتی ہیں جن کے ذریعے وہ ہماری مسیحی راستی کو بھی تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
یسوع کی راستی توڑی نہیں جا سکتی تھی
یسوع کی خدمتگزاری کے شروع ہی میں شیطان نے خدا کے بیٹے کو پتھر کو روٹی کے ٹکڑے میں بدلنے کا چیلنج پیش کرتے ہوئے اُسے آزمانے کی جرأت کی۔ کتنی بڑی چال! یسوع نے ۴۰ دن تک کچھ کھایا پیا نہیں تھا اور وہ یقیناً بھوکا تھا۔ (لوقا ۴:۲، ۳) شیطان نے یسوع کو یہوواہ کی مرضی کے خلاف اپنی قدرتی خواہش کو فوراً پورا کرنے کا مشورہ دیا۔ اسی طرح آجکل بھی دُنیاوی پروپیگنڈا نتائج کی کم سے کم یا کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے فوری تکمیل کی حوصلہافزائی کرتا ہے۔ پیغام واضح ہے، ’تم اسی وقت اس کے مستحق ہو‘ یا ’اسے کر ڈالو!‘
اگر یسوع نے نتائج کی پرواہ کئے بغیر اپنی بھوک مٹا لی ہوتی تو شیطان یسوع سے اپنی راستی کے سلسلے میں مصالحت کرانے میں کامیاب ہو گیا ہوتا۔ یسوع نے روحانی نقطۂنظر سے معاملات کو دیکھتے ہوئے پُرعزم طریقے سے جواب دیا: ”لکھا ہے کہ آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہیگا۔“—لوقا ۴:۴؛ متی ۴:۴۔
اس کے بعد شیطان نے ایک اَور چال چلی۔ یسوع کے بیانکردہ صحائف کا غلط اطلاق کرتے ہوئے ابلیس نے ہیکل کے کنگرے سے چھلانگ لگانے کے لئے یسوع کی حوصلہافزائی کی۔ شیطان نے دعویٰ کِیا، ’فرشتہ تیری حفاظت کرے گا۔‘ یسوع محض توجہ کا مرکز بننے کے لئے اپنے باپ سے معجزانہ تحفظ حاصل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یسوع نے بیان کِیا، ”تُو [یہوواہ] اپنے خدا کی آزمایش نہ کر۔“—متی ۴:۵-۷؛ لوقا ۴:۹-۱۲۔
شیطان کا آخری حربہ زیادہ براہِراست تھا۔ اُس نے یسوع سے ایک سجدے کے عوض دُنیا اور اُس کی شانوشوکت کا معاہدہ کرنے کی کوشش کی۔ شیطان نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ تاہم یسوع اپنے باپ کے سب سے بڑے دُشمن کو سجدہ کیسے کر سکتا تھا؟ کیا ہی ناقابلِتصور بات! یسوع نے جواب دیا، ”تُو [یہوواہ] اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اُسی کی عبادت کر۔“—متی ۴:۸-۱۱؛ لوقا ۴:۵-۸۔
جب یہ تینوں کوششیں رائیگاں گئیں تو شیطان ’کچھ عرصہ کے لئے یسوع سے جدا ہوا۔‘ (لوقا ۴:۱۳) یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ شیطان نے یسوع کی راستی کو آزمانے کے موقع کی تلاش جاری رکھی تھی۔ یہ کچھ عرصے کی مدت تقریباً ڈھائی سال بعد پوری ہوئی جب یسوع نے اپنی ناگزیر موت کے لئے اپنے شاگروں کو تیار کِیا۔ پطرس رسول نے بیان کِیا: ”اَے خداوند خدا نہ کرے۔ یہ تجھ پر ہرگز نہیں آنے کا۔“—متی ۱۶:۲۱، ۲۲۔
کیا اُس کے ایک شاگرد کی طرف سے ایسی نیکنیت مگر گمراہکُن مشورت یسوع کو بھا سکتی تھی؟ یسوع فوراً سمجھ گیا کہ یہ الفاظ یہوواہ کی بجائے شیطان کی خواہشات کی عکاسی کرتے تھے۔ مسیح نے پُرعزم جواب دیا: ”اَے شیطان میرے سامنے سے دُور ہو۔ تو میرے لئے ٹھوکر کا باعث ہے کیونکہ تُو خدا کی باتوں کا نہیں بلکہ آدمیوں کی باتوں کا خیال رکھتا ہے۔“—متی ۱۶:۲۳۔
یہوواہ کے لئے یسوع کی لازوال محبت کے باعث شیطان اُس کی راستی توڑنے میں ناکام رہا۔ ابلیس کی کوئی بھی پیشکش، سنگین آزمائش بھی آسمانی باپ کے لئے یسوع کی وفاداری کو کمزور نہیں کر پائی تھی۔ کیا ہماری راستی کو آزمانے والے حالات میں ہم بھی ایسے ہی عزم کا مظاہرہ کریں گے؟ ایوب کی مثال ہمیں پیش آنے والے چیلنجوں کو بہتر طور پر سمجھنے میں ہماری مدد کرے گی۔
مصیبت کے وقت وفاداری
جیسے ایوب سمجھ گیا تھا ہم سب کو کسی بھی وقت مصیبتوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ وہ ایک خوشحال شادیشُدہ شخص تھا، اُسکے دس بچے تھے اور وہ روحانی چیزوں کو مقدم رکھتا تھا۔ (ایوب ۱:۵) تاہم ایوب نہیں جانتا تھا کہ خدا کیلئے اُسکی راستی آسمانی عدالت میں زیرِبحث تھی اور شیطان نے ہر ممکن طریقہ سے اِسے توڑنے کا عزم کر رکھا تھا۔
بہت جلد ایوب اپنا مالومتاع کھو بیٹھا۔ (ایوب ۱:۱۴-۱۷) اس آزمائش کے باوجود ایوب کی راستی قائم رہی اسلئےکہ اُس نے دولت پر کبھی بھروسا نہیں کِیا تھا۔ اپنی خوشحالی کا وقت یاد کرتے ہوئے ایوب نے بیان کِیا: ”اگر مَیں نے سونے پر بھروسا کِیا ہو . . . اگر مَیں اِسلئےکہ میری دولت فراوان تھی . . . نازاں ہوا۔ . . . تو یہ بھی ایسی بدی ہے . . . کیونکہ یوں مَیں نے خدا کا جو عالمِبالا پر ہے انکار کِیا ہوتا۔“—ایوب ۳۱:۲۴، ۲۵، ۲۸۔
آج بھی ہم اپنی تمام دولت ایک پل میں کھو سکتے ہیں۔ ایک یہوواہ کا گواہ تاجر دھوکا کھا کر ایک بڑی رقم گنوا بیٹھنے سے قلاش ہو گیا۔ وہ صافگوئی سے تسلیم کرتا ہے: ”مَیں دل کے دورے سے بال بال بچا ہوں۔ درحقیقت، اگر خدا کیساتھ میرا رشتہ مضبوط نہ ہوتا تو میرا بچنا ناممکن تھا۔ تاہم، اس تجربے نے مجھے احساس دلایا کہ مَیں نے روحانی اقدار کو اپنی زندگی میں مقدم نہیں رکھا تھا۔ پیسے کمانے کا شوق باقی تمام چیزوں پر حاوی تھا۔“ اُس وقت سے اس بھائی نے اپنے کاروبار کو محدود کِیا اور اب وہ امدادی پائنیر خدمت میں باقاعدگی سے حصہ لیتے ہوئے مسیحی خدمتگزاری میں ہر مہینے ۵۰ یا اس سے بھی زیادہ گھنٹے صرف کرتا ہے۔ تاہم، دیگر مسائل مالودولت کے لٹ جانے سے بھی زیادہ سنگین ہوتے ہیں۔
ایوب نے اپنے مالومتاع کے لٹ جانے کی خبر سننے کے بعد اپنے دس بچوں کی موت کی بھی خبر سنی۔ اس کے باوجود وہ اپنی بات پر قائم رہا: ”[یہوواہ] کا نام مبارک ہو۔“ (ایوب ۱:۱۸-۲۱) ہمارے خاندان کے کئی افراد کی اچانک موت واقع ہونے پر کیا ہم اپنی راستی پر قائم رہینگے؟ سپین کے ایک مسیحی نگہبان فرانسسکو کے دو بچے بس کے ایک المناک حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ اُس نے یہوواہ کے قریب جانے اور اپنی مسیحی خدمتگزاری کو بڑھانے سے تسلی حاصل کی۔
اُسکے بچوں کی ہولناک موت کے بعد بھی ایوب کی آزمائش ختم نہیں ہوئی۔ شیطان نے اُسے ایک کراہتانگیز اور تکلیفدہ بیماری میں مبتلا کِیا۔ اُس وقت ایوب کی بیوی نے اُسے غلط صلاح دی۔ اُس نے اُسے مجبور کِیا، ”خدا کی تکفیر کر اور مرجا!“ ایوب نے اسکی صلاح کو نظرانداز کِیا اور ”اپنے لبوں سے خطا نہ کی۔“ (ایوب ۲:۱۰،۹) اُسکی راستی اُسکے خاندان کی حمایت کی بجائے یہوواہ کیساتھ اُسکے ذاتی رشتہ پر منتج تھی۔
فلورا، جسکے شوہر اور سب سے بڑے بیٹے نے دس سال سے زائد عرصہ پہلے مسیحی راہ کو چھوڑ دیا تھا ایوب کے جذبات کو سمجھ سکتی ہے۔ وہ تسلیم کرتی ہے، ”اپنے خاندان کی حمایت کو اچانک کھو دینا صدمہخیز ہو سکتا ہے۔ لیکن مَیں جانتی تھی کہ مَیں یہوواہ کی تنظیم کے باہر خوش نہیں رہ سکتی تھی۔ لہٰذا مَیں ثابتقدم رہی اور ایک اچھی بیوی اور ماں بننے کی کوشش جاری رکھتے ہوئے مَیں نے یہوواہ کو پہلا درجہ دیا۔“ مَیں نے مستقلمزاجی سے دُعا کی اور یہوواہ نے مجھے تقویت بخشی۔ اپنے شوہر کی مستقل مخالفت کے باوجود مَیں خوش ہوں اسلئےکہ مَیں نے یہوواہ پر مکمل بھروسا کرنا سیکھ لیا ہے۔“
ایوب کی راستی توڑنے کیلئے شیطان کی اگلی چال میں اُسکے تین ساتھی شامل تھے۔ (ایوب ۲:۱۱-۱۳) اُنکی تنقید ایوب کیلئے کتنی تکلیفدہ ثابت ہوئی ہوگی۔ اگر وہ انکے استدلال پر دھیان دیتا تو وہ یہوواہ خدا پر اپنا اعتماد کھو بیٹھتا۔ اُنکی دلشکن مشورت اُسکے جذبے اور راستی کو توڑ سکتی تھی اور یوں شیطان کا منصوبہ کامیاب ہو جاتا۔
اسکے برعکس، ایوب بضد تھا: ”مَیں مرتے دم تک اپنی راستی کو ترک نہ کرونگا!“ (ایوب ۲۷:۵) اُس نے یہ نہیں کہا، ’مَیں تمہیں اپنی راستی چھینے نہیں دونگا!‘ ایوب جانتا تھا کہ اُس کی راستی کا انحصار اُس پر اور یہوواہ کے لئے اُس کی محبت پر تھا۔
نیا شکار پھنسانے کا ایک پُرانا حربہ
شیطان دوستاحباب اور ساتھی ایمانداروں کی گمراہکُن مشورت یا بےتکی باتوں کو اب بھی استعمال کرتا ہے۔ کلیسیا کے باہر اذیت کی نسبت کلیسیا کے اندر حوصلہشکنی ہمارے عزم کو باآسانی کمزور کر سکتی ہے۔ ایک مسیحی بزرگ نے ایک سابقہ فوجی کے طور پر جس تکلیف کا تجربہ کِیا تھا اُس نے اسکا موازنہ بعض ساتھی مسیحیوں کی بےتکی باتوں اور کاموں سے پہنچنے والے دُکھ کیساتھ کِیا۔ مؤخرالذکر معاملے کی بابت وہ بیان کرتا ہے: ”میرے لئے یہ سب سے زیادہ تکلیفدہ تجربہ تھا۔“
اگر ایک اَور زاویہ سے دیکھا جائے تو ساتھی ایمانداروں کی ناکاملیتیں ہمیں اسقدر پریشان کر سکتی ہیں کہ ہم بعض اشخاص سے باتچیت بند کر سکتے یا مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونا چھوڑ سکتے ہیں۔ اپنے مجروح احساسات کو تسلی دینا اہمترین معاملہ بن سکتا ہے۔ تاہم ایسا محدود نقطۂنظر اپناتے ہوئے دوسروں کے قولوفعل کے باعث اپنے سب سے قیمتی اثاثے—یہوواہ کیساتھ ہمارا رشتہ—کو داؤ پر لگانا کتنی افسوسناک بات ہے۔ اگر ہم اسکی اجازت دیتے ہیں تو ہم شیطان کی ایک پُرانی چال میں خود کو پھنسنے کی اجازت دے دینگے۔
یقیناً ہم مسیحی کلیسیا میں اعلیٰ معیار برقرار رکھنے کی توقع کرتے ہیں۔ تاہم اگر ہم ناکامل ساتھی مسیحیوں سے بہت زیادہ کی توقع کریں تو ہم مایوسی کا سامنا ضرور کریں گے۔ اس کے برعکس، یہوواہ اپنے خادموں سے معقول تقاضے کرتا ہے۔ اگر ہم اُس کے نمونے کی پیروی کریں تو ہم ان کی ناکاملیتوں کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہونگے۔ (افسیوں ۴:۲، ۳۲) پولس رسول نے یہ مشورت دی ہے: ”غصہ تو کرو مگر گناہ نہ کرو۔ سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے۔ اور ابلیس کو موقع نہ دو۔“—افسیوں ۴:۲۶، ۲۷۔
بائبل صاف واضح کرتی ہے کہ شیطان مسیحی راستی کو توڑنے کا طریقہ تلاش کرنے کے لئے طرح طرح کے حیلے استعمال کرتا ہے۔ اُس کے ہتھکنڈے ناکامل انسانوں کے لئے دلکش اور دیگر تکلیفدہ ہوتے ہیں۔ آپ مذکورہبالا باتچیت سے سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کو اس کے ہتھکنڈوں سے کیوں بےخبر نہیں رہنا چاہئے۔ اپنے دل میں خدا کے لئے حقیقی محبت کیساتھ شیطان کو جھوٹا اور یہوواہ کے دل کو شاد کرنے کا عزم کریں۔ (امثال ۲۷:۱۱؛ یوحنا ۸:۴۴) یاد رکھیں کہ اِس سے قطعنظر کہ ہماری راہ میں کوئی بھی آزمائش آئے ہمیں سچی مسیحی راستی کے سلسلے میں مصالحت نہیں کرنی چاہئے۔
[فٹنوٹ]
a بائبل عالم ڈبلیو. ای. وائن بیان کرتا ہے کہ اصلی یونانی لفظ کا ترجمہ ”مکاری کا جال“ بھی کِیا جا سکتا ہے۔