’دوست کے دئے ہوئے زخم‘
پہلی صدی میں پولس رسول نے محسوس کِیا کہ گلتیہ کے مسیحیوں کو کچھ اصلاح کی ضرورت ہے۔ غالباً کسی بھی آزردگی سے بچنے کیلئے اُس نے کہا: ”تو کیا تم سے سچ بولنے کے سبب سے مَیں تمہارا دشمن بن گیا؟“—گلتیوں ۴:۱۶۔
”سچ بولنے“ سے پولس اُنکا دشمن نہیں بن گیا تھا۔ وہ درحقیقت بائبل کے اس اصول کے مطابق عمل کر رہا تھا: ”جو زخم دوست کے ہاتھ سے لگیں پُروفا ہیں۔“ (امثال ۲۷:۶) وہ جانتا تھا کہ اس سے خطاکار کی عزتِنفس مجروح ہو سکتی ہے۔ تاہم، اُسے یہ بھی معلوم تھا کہ کسی گنہگار کو ضروری تنبیہ نہ کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ اُس کے لئے یہوواہ خدا کی محبت کا اظہار نہیں کِیا جا سکتا۔ (عبرانیوں ۱۲:۵-۷) لہٰذا، ایک وفادار دوست کے طور پر کلیسیا کے دائمی مفاد کے پیشِنظر، پولس اصلاحی مشورت دینے سے پیچھے نہ ہٹا۔
آجکل یہوواہ کے گواہ اپنی اس تفویض کو پورا کر رہے ہیں کہ ”سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور . . . اُنکو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جنکا [یسوع مسیح نے] حکم دیا۔“ ایسا کرنے کیلئے یہ خلوصدل مسیحی ایسی بائبل سچائیوں کے سلسلے میں مصالحت نہیں کرتے جو غلط عقائد اور غیرمسیحی رویے کو بےنقاب کرنے کے علاوہ ان کی مذمت بھی کرتی ہیں۔ (متی ۱۵:۹؛ ۲۳:۹؛ ۲۸:۱۹، ۲۰؛ ۱-کرنتھیوں ۶:۹، ۱۰) دشمن بننے کی بجائے وہ سچے دوستوں جیسی دلچسپی دکھاتے ہیں۔
زبورنویس نے الہٰی بصیرت کے تحت لکھا: ”صادق مجھے مارے تو مہربانی ہوگی۔ وہ مجھے تنبیہ کرے تو گویا سر پر روغن ہوگا۔ میرا سر اِس سے انکار نہ کرے۔“—زبور ۱۴۱:۵۔