مخصوصیت اور انتخاب کی آزادی
”مسیح نے ہمیں آزاد رہنے کے لئے آزاد کِیا ہے۔“—گلتیوں ۵:۱۔
۱. اُن عبرانی اور یونانی الفاظ کا خاص اطلاق کس پر ہوتا ہے جنکا ترجمہ ”مخصوص،“ ”تقدیس،“ یا ”نذر“ کِیا گیا ہے؟
بائبل مصنّفین نے پاک مقصد کی انجامدہی کیلئے علیٰحدہ یا الگ کئے جانے کے خیال کو پیش کرنے کیلئے مختلف عبرانی اور یونانی الفاظ استعمال کئے۔ اُردو بائبلوں میں ان الفاظ کا ترجمہ ”مخصوص،“ ”تقدیس“ یا ”نذر“ جیسے الفاظ کیساتھ کِیا گیا ہے۔ بعضاوقات ان اصطلاحات کو عمارتوں—عموماً قدیم یروشلیم میں خدا کی ہیکل اور اُس کے اندر ہونے والی پرستش—کے حوالے سے استعمال کِیا گیا ہے۔ یہ الفاظ غیرمذہبی معاملات کے سلسلے میں شاذونادر ہی استعمال کئے جاتے ہیں۔
”اؔسرائیل کے خدا“ کیلئے مخصوصیت
۲. یہوواہ بجا طور پر ”اؔسرائیل کا خدا“ کیوں کہلا سکتا تھا؟
۲ خدا نے ۱۵۱۳ ق.س.ع. میں اسرائیلیوں کو مصری غلامی سے آزاد کرایا۔ اسکے تھوڑی ہی دیر بعد، اُس نے اُنہیں اپنے ساتھ ایک عہد کے رشتے میں باندھتے ہوئے، اپنی خاص قوم کے طور پر الگ کر لیا۔ اُنہیں بتایا گیا تھا: ”اب اگر تم میری بات مانو اور میرے عہد پر چلو تو سب قوموں میں سے تم ہی میری خاص ملکیت ٹھہرو گے کیونکہ ساری زمین میری ہے۔“ (خروج ۱۹:۵؛ زبور ۱۳۵:۴) اسرائیل کو اپنی خاص ملکیت بنا لینے سے یہوواہ بجا طور پر ”اؔسرائیل کا خدا“ کہلا سکتا تھا۔—یشوع ۲۴:۲۳۔
۳. یہوواہ اسرائیل کو اپنی اُمت کے طور پر منتخب کرنے سے طرفداری سے کام کیوں نہیں لے رہا تھا؟
۳ اسرائیلیوں کو اپنی مخصوص قوم بنانے سے، یہوواہ طرفداری سے کام نہیں لے رہا تھا کیونکہ اُس نے غیراسرائیلیوں کا بھی مشفقانہ طور پر خیال رکھا تھا۔ اُس نے اپنی قوم کو ہدایت کی: ”اگر کوئی پردیسی تیرے ساتھ تمہارے ملک میں بودوباش کرتا ہو تو تم اُسے آزار نہ پہنچانا۔ بلکہ جو پردیسی تمہارے ساتھ رہتا ہو اُسے دیسی کی مانند سمجھنا بلکہ تُو اُس سے اپنی مانند محبت کرنا اسلئےکہ تم ملکِمصرؔ میں پردیسی تھے۔ مَیں خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] تمہارا خدا ہوں۔“ (احبار ۱۹:۳۳، ۳۴) صدیوں بعد، خدا کے اِسی نقطۂنظر کو بڑے زوردار انداز میں پطرس رسول کے ذہننشین کرایا گیا تھا: ”اب مجھے پورا یقین ہو گیا کہ خدا کسی کا طرفدار نہیں۔ بلکہ ہر قوم میں جو اُس سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اُسکو پسند آتا ہے۔“—اعمال ۱۰:۳۴، ۳۵۔
۴. خدا اور اسرائیل کے مابین رشتے کی شرائط کیا تھیں اور کیا اسرائیلیوں نے اُن کے مطابق زندگی بسر کی تھی؟
۴ اس بات پر بھی غور کریں کہ خدا کیلئے مخصوص ہونا مشروط تھا۔ خدا کے حکم کی سختی سے پابندی کرنے اور اُسکے عہد پر قائم رہنے کی صورت میں ہی وہ اُسکی ”خاص ملکیت“ ٹھہرینگے۔ افسوس کی بات ہے کہ اسرائیلی ان تقاضوں پر پورا اُترنے میں ناکام رہے۔ پہلی صدی س.ع. میں خدا کے بھیجے ہوئے مسیحا کو رد کرنے کے بعد، وہ اپنی متشرف حیثیت سے محروم ہو گئے۔ اِسکے بعد یہوواہ ”اؔسرائیل کا خدا“ نہیں رہا تھا۔ لہٰذا پیدائشی اسرائیلی بھی اب خدا کی مخصوص قوم نہ تھے۔—مقابلہ کریں متی ۲۳:۲۳۔
”خدا کے اؔسرائیل“ کی مخصوصیت
۵، ۶. (ا) متی ۲۱:۴۲، ۴۳ میں درج یسوع کے نبوّتی الفاظ سے اُسکی کیا مُراد تھی؟ (ب) ”خدا کا اؔسرائیل“ کب اور کیسے وجود میں آیا تھا؟
۵ کیا اسکا یہ مطلب تھا کہ اب یہوواہ کی کوئی مخصوص قوم نہیں تھی؟ نہیں۔ زبورنویس کا حوالہ دیتے ہوئے، یسوع مسیح نے پیشینگوئی کی: ”کیا تم نے کتابِمُقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کِیا۔ وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا۔ یہ خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کی طرف سے ہؤا اور ہماری نظر میں عجیب ہے۔ اسلئے مَیں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائیگی اور اس قوم کو جو اُس کے پھل لائے دے دی جائیگی۔“—متی ۲۱:۴۲، ۴۳۔
۶ ”قوم . . . جو اُس کے پھل“ لانے والی ثابت ہوئی وہ مسیحی کلیسیا تھی۔ زمین پر اپنے عارضی قیام کے دوران، یسوع نے اپنے پہلے امکانی ارکان کو منتخب کِیا۔ تاہم ۳۳ س.ع. پنتِکُست کے دن پر، یہوواہ خدا نے مسیحی کلیسیا کے پہلے ارکان پر اپنی روحالقدس نازل کرتے ہوئے خود اس کی نیو رکھی جن کی تعداد تقریباً ۱۲۰ تھی۔ (اعمال ۱:۱۵؛ ۲:۱-۴) جیساکہ پطرس رسول نے بعد میں لکھا، یہ نئی قائمکردہ کلیسیا اسکے بعد ”ایک برگزیدہ نسل۔ شاہی کاہنوں کا فرقہ۔ مُقدس قوم اور ایسی اُمت“ بن گئی جو ”خاص ملکیت ہے۔“ کس لئے برگزیدہ؟ اس لئے کہ وہ ”اُس کی خوبیاں ظاہر [کریں] جس نے [اُنہیں] تاریکی سے اپنی عجیب روشنی میں بلایا ہے۔“ (۱-پطرس ۲:۹) خدا کی روح سے مسحشُدہ، مسیح کے پیروکار اب مخصوص قوم، ”خدا کا اؔسرائیل“ تھے۔—گلتیوں ۶:۱۶۔
۷. خدا کے اسرائیل کے ارکان نے کس چیز سے لطفاندوز ہونا تھا اور اسلئے اُنہیں کس چیز سے گریز کرنے کیلئے کہا گیا؟
۷ مُقدس قوم کے ارکان اگرچہ ”ایسی اُمت“ تھے جو ”خاص ملکیت ہے،“ توبھی اُنہیں غلام نہیں ہونا تھا۔ اس کے برعکس، اُنہیں اُس آزادی سے کہیں بڑی آزادی سے مستفید ہونا تھا جو پیدائشی اسرائیل کی مخصوص قوم کو حاصل تھی۔ یسوع نے اس نئی قوم کے امکانی ارکان سے وعدہ کِیا: ”سچائی سے واقف ہوگے اور سچائی تم کو آزاد کریگی۔“ (یوحنا ۸:۳۲) پولس رسول نے واضح کِیا کہ مسیحیوں کو شریعتی عہد کے تقاضوں سے آزاد کر دیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں اُس نے گلتیہ کے ساتھی ایمانداروں کو نصیحت کی: ”مسیح نے ہمیں آزاد رہنے کے لئے آزاد کِیا ہے پس قائم رہو اور دوبارہ غلامی کے جوئے میں نہ جتو۔“—گلتیوں ۵:۱۔
۸. کس لحاظ سے مسیحی انتظام لوگوں کو شریعتی عہد کے تحت تجربے میں آنے والی آزادی کی نسبت زیادہ آزادی پیش کرتا ہے؟
۸ قدیم زمانے کے پیدائشی اسرائیل کے برعکس، خدا کے اسرائیل نے آج تک اپنی مخصوصیت کے تقاضوں کی سختی سے پابندی کی ہے۔ اسے کوئی حیرانکُن بات نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اسکے ارکان آزادی سے فرمانبرداری کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اگرچہ پیدائشی اسرائیل کے ارکان پیدائش کی وجہ سے مخصوص بنے تھے، خدا کے اسرائیل کے ارکان انتخاب سے ایسے بنتے ہیں۔ اس طرح مسیحی انتظام اُس یہودی شریعتی عہد سے فرق ہو گیا جس نے لوگوں کو انتخاب کی آزادی دئے بغیر اُن پر مخصوصیت عائد کر دی تھی۔
۹، ۱۰. (ا) یرمیاہ نے کیسے نشاندہی کی کہ مخصوصیت کے سلسلے میں تبدیلی وقوع میں آئیگی؟ (ب) آپ کیوں کہتے ہیں کہ آجکل تمام مخصوص مسیحی خدا کے اسرائیل کے ارکان نہیں ہیں؟
۹ یرمیاہ نبی نے مخصوصیت کے سلسلے میں اس تبدیلی کی پیشینگوئی کی جب اُس نے لکھا: ”دیکھ وہ دن آتے ہیں خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] فرماتا ہے جب مَیں اؔسرائیل کے گھرانے اور یہوؔداہ کے گھرانے کے ساتھ نیا عہد باندھونگا۔ اُس عہد کے مطابق نہیں جو مَیں نے اُنکے باپدادا سے کِیا جب مَیں نے اُنکی دستگیری کی تاکہ اُنکو ملکِمصرؔ سے نکال لاؤں اور اُنہوں نے میرے اُس عہد کو توڑا اگرچہ مَیں اُنکا مالک تھا خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] فرماتا ہے۔ بلکہ یہ وہ عہد ہے جو مَیں اُن دِنوں کے بعد اؔسرائیل کے گھرانے سے باندھونگا۔ خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] فرماتا ہے مَیں اپنی شریعت اُنکے باطن میں رکھونگا اور اُنکے دل پر اُسے لکھونگا اور مَیں اُنکا خدا ہونگا اور وہ میرے لوگ ہونگے۔“—یرمیاہ ۳۱:۳۱-۳۳۔
۱۰ خدا کی شریعت ”اُنکے باطن میں“ اور، علامتی مفہوم میں، ”اُنکے دل پر“ تحریر ہونے کی وجہ سے خدا کے اسرائیل کے ارکان اپنی مخصوصیت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تحریک پاتے ہیں۔ اُنکا محرک پیدائشی اسرائیلیوں کی نسبت زیادہ اثرآفریں ہے جو انتخاب کی وجہ سے نہیں بلکہ پیدائش کی وجہ سے مخصوص تھے۔ آجکل، خدا کا اسرائیل خدا کی مرضی پوری کرنے کیلئے جس اثرآفریں محرک کا اظہار کرتا ہے اُس میں ساری دُنیا سے پانچ ملین سے زائد ساتھی پرستار شامل ہو گئے ہیں۔ اُنہوں نے بھی اسی طرح اپنی زندگیاں یہوواہ خدا کیلئے مخصوص کی ہیں تاکہ اُسکی مرضی پوری کریں۔ اگرچہ یہ افراد خدا کے اسرائیل کو تشکیل دینے والے لوگوں کی طرح آسمانی زندگی کی اُمید نہیں رکھتے توبھی وہ خدا کی آسمانی بادشاہت کی حکمرانی کے تحت زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کے امکان سے شادمان ہوتے ہیں۔ وہ اسکے باقیماندہ تھوڑے سے اشخاص کی اس تفویض میں سرگرم حمایت کرنے سے روحانی اسرائیل کیلئے قدردانی کا اظہار کرتے ہیں کہ ”اُسکی خوبیاں ظاہر [کریں] جس نے [اُنہیں] تاریکی سے اپنی عجیب روشنی میں بلایا ہے۔“
خداداد آزادی کو دانشمندی سے استعمال کرنا
۱۱. انسان کو کس صلاحیت کیساتھ خلق کِیا گیا تھا اور اسے کیسے استعمال کِیا جانا چاہئے؟
۱۱ خدا نے انسانوں کو آزادی کو عزیز رکھنے کے احساس کیساتھ خلق کِیا تھا۔ اُس نے اُنہیں آزاد مرضی جیسی صلاحیت سے نوازا۔ پہلے انسانی جوڑے نے اپنی انتخاب کی آزادی کو استعمال کِیا۔ تاہم، اُنہوں نے غیردانشمندانہ اور غیرمشفقانہ طور پر ایسا انتخاب کِیا جو خود اُن کیلئے اور اُنکی اولاد دونوں کیلئے تباہی کا باعث بنا۔ تاہم، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کبھی بھی ذیشعور مخلوقات کو اُنکے باطنی محرکات اور خواہشات کے خلاف روش اختیار کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ علاوہازیں چونکہ ”خدا خوشی سے دینے والے کو عزیز رکھتا ہے“ اسلئے اُسکو صرف وہی مخصوصیت قبول ہے جو محبت کی بِنا پر کی گئی ہو، جو خوشی کیساتھ رضامندی سے کی گئی ہو اور جو انتخاب کی آزادی پر مبنی ہو۔ (۲-کرنتھیوں ۹:۷) دوسری کوئی بھی قسم قابلِقبول نہیں۔
۱۲، ۱۳. تیمتھیس بچے کی موزوں تربیت کے لئے ایک نمونے کا کام کیسے دیتا ہے اور اُس کا نمونہ بہتیرے نوجوان لوگوں کیلئے کس بات پر منتج ہوا ہے؟
۱۲ اس تقاضے کو پوری طرح تسلیم کرتے ہوئے، یہوواہ کے گواہ خدا کے لئے کسی شخص کی مخصوصیت کی حمایت تو کرتے ہیں مگر وہ کبھی بھی کسی کو ایسی مخصوصیت کے لئے مجبور نہیں کرتے حتیٰکہ اپنے بچوں کو بھی نہیں۔ دُنیائےمسیحیت کی متعدد کلیسیاؤں کے برعکس، گواہ اس بات کو ممکن خیال کرتے ہوئے اپنے بچوں کو شِیرخوارگی میں بپتسمہ نہیں دیتے کہ اُنہیں ذاتی انتخاب کی گنجائش کے بغیر مخصوصیت پر مجبور کِیا جا سکتا ہے۔ قابلِتقلید صحیفائی نمونہ وہی ہے جسکی نوجوان آدمی تیمتھیس نے پیروی کی تھی۔ ایک بالغ کے طور پر، پولس رسول نے اُسے بتایا: ”تُو اُن باتوں پر جو تُو نے سیکھی تھیں اور جنکا یقین تجھے دلایا گیا تھا یہ جانکر قائم رہ کہ تُو نے انہیں کن لوگوں سے سیکھا تھا۔ اور تُو بچپن سے اُن پاک نوشتوں سے واقف ہے جو تجھے مسیح یسوؔع پر ایمان لانے سے نجات حاصل کرنے کے لئے دانائی بخش سکتے ہیں۔“—۲-تیمتھیس ۳:۱۴، ۱۵۔
۱۳ یہ بات قابلِغور ہے کہ تیمتھیس پاک نوشتوں سے واقف تھا کیونکہ اُسے بچپن سے اُن کی تعلیم دی گئی تھی۔ اُسے اُسکی ماں اور نانی نے مسیحی تعلیمات کو ماننے کا یقین دلایا تھا—مجبور نہیں کِیا تھا۔ (۲-تیمتھیس ۱:۵) نتیجتاً تیمتھیس نے مسیح کا پیروکار بننے کی حکمت کو سمجھ لیا اور یوں مسیحی مخصوصیت کا ذاتی انتخاب کِیا۔ زمانۂجدید میں بھی ہزاروں نوجوان مردوں اور عورتوں نے جن کے والدین یہوواہ کے گواہ ہیں اس نمونے کی پیروی کی ہے۔ (زبور ۱۱۰:۳) دیگر نے نہیں کی۔ یہ تو ذاتی انتخاب کا معاملہ ہے۔
کس کے غلام ہونے کا انتخاب کریں؟
۱۴. رومیوں ۶:۱۶ ہمیں مکمل آزادی کی بابت کیا بتاتی ہے؟
۱۴ کوئی بھی انسان مکمل طور پر آزاد نہیں۔ ہر ایک کی آزادی کششِثقل کے قانون جیسے طبیعاتی قوانین کے باعث محدود ہے جنہیں بِلانقصان نظرانداز نہیں کِیا جا سکتا۔ روحانی مفہوم میں بھی کسی کو مکمل آزادی حاصل نہیں ہے۔ پولس نے استدلال کِیا: ”کیا تُم نہیں جانتے کہ جسکی فرمانبرداری کے لئے اپنے آپ کو غلاموں کی طرح حوالہ کر دیتے ہو اُسی کے غلام ہو جسکے فرمانبردار ہو خواہ گُناہ کے جسکا انجام موت ہے خواہ فرمانبرداری کے جسکا انجام راستبازی ہے؟“—رومیوں ۶:۱۶۔
۱۵. (ا) لوگ غلام ہونے کی بابت کیسا محسوس کرتے ہیں لیکن زیادہتر بالآخر کیا کرتے ہیں؟ (ب) ہمیں خود سے کونسے موزوں سوالات پوچھنے چاہئیں؟
۱۵ کسی کا غلام ہونے کا خیال بہتیرے لوگوں کو نہایت ناخوشگوار معلوم ہوتا ہے۔ تاہم، آج کی دُنیا میں حقیقت تو یہ ہے کہ لوگ متعدد پوشیدہ طریقوں سے خود کو دوسروں کے ہاتھ کا کھلونا بنا لیتے اور اُن سے اسقدر متاثر ہو جاتے ہیں کہ انجامکار وہ غیرارادی طور پر وہی کچھ کر گزرتے ہیں جو دوسرے اُن سے کرانا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اشتہاربازی کی صنعت اور تفریح فراہم کرنے والی دُنیا لوگوں کو ایک ہی سانچے میں ڈھالنے کیلئے ایسے معیار وضع کرنے کی کوشش کرتی ہے جن پر اُنہیں عمل کرنا ہے۔ سیاسی اور مذہبی تنظیمیں ہمیشہ قائل کرنے والے دلائل سے نہیں بلکہ اکثر یکجہتی یا وفاداری کے جذبے کی بِنا پر لوگوں سے اپنے نظریات اور مقاصد کی حمایت کراتی ہیں۔ چونکہ پولس نے یہ لکھا کہ ’ہم اُسی کے غلام ہیں جسکی ہم فرمانبرداری کرتے ہیں،‘ اسلئے ہم میں سے ہر ایک کیلئے خود سے یہ پوچھنا بہتر ہوگا کہ ’مَیں کس کا غلام ہوں؟ میرے فیصلوں اور میرے طرزِزندگی پر کون زیادہ اثرانداز ہوتا ہے؟ کیا مذہبی پادری، سیاسی راہنما، رئیسالروسا یا تفریح فراہم کرنے والی شخصیات؟ مَیں کس کی فرمانبرداری کرتا ہوں—خدا کی یا انسانوں کی؟‘
۱۶. کس مفہوم میں مسیحی خدا کے غلام ہیں اور ایسی غلامی کی بابت مناسب نظریہ کیا ہے؟
۱۶ مسیحی خدا کی فرمانبرداری کو شخصی آزادی کی بِلاجواز خلافورزی خیال نہیں کرتے۔ وہ ذاتی خواہشات اور ترجیحات کو خدا کی مرضی کے موافق ڈھالتے ہوئے، رضامندی سے اپنی آزادی کو اپنے نمونہ دینے والے یسوع مسیح کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ (یوحنا ۵:۳۰؛ ۶:۳۸) وہ اُسے کلیسیا کا سر سمجھ کر خود کو اُسکے تابع کرنے سے ”مسیح کی عقل“ حاصل کرتے ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۲:۱۴-۱۶؛ کلسیوں ۱:۱۵-۱۸) یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی عورت شادی کرکے رضامندی سے اپنے محبوب سے تعاون کرتی ہے۔ دراصل، ممسوح مسیحیوں کی جماعت کا مسیح کیساتھ ازدواجی بندھن میں بندھی ہوئی ایک پاکدامن کنواری کے طور پر ذکر کِیا گیا ہے۔—۲-کرنتھیوں ۱۱:۲؛ افسیوں ۵:۲۳، ۲۴؛ مکاشفہ ۱۹:۷، ۸۔
۱۷. یہوواہ کے تمام گواہوں نے کیا بننے کا انتخاب کر لیا ہے؟
۱۷ یہوواہ کے ہر گواہ نے، خواہ اُسکی اُمید آسمانی ہو یا زمینی، خدا کی مرضی بجا لانے اور بطور حکمران اُسکی فرمانبرداری کرنے کیلئے ذاتی مخصوصیت کی ہے۔ ہر گواہ کیلئے، مخصوصیت انسانوں کا غلام بنے رہنے سے بڑھکر خدا کا غلام بننے کے ذاتی انتخاب کا معاملہ رہا ہے۔ یہ بات پولس رسول کی مشورت کے مطابق ہے: ”تم قیمت سے خریدے گئے ہو۔ آدمیوں کے غلام نہ بنو۔“—۱-کرنتھیوں ۷:۲۳۔
خود فائدہ اُٹھانا سیکھنا
۱۸. ایک امکانی گواہ بپتسمے کے لائق کب ٹھہرتا ہے؟
۱۸ اس سے پیشتر کہ کوئی شخص یہوواہ کے گواہوں میں سے ایک بننے کے لائق ٹھہرے، اُس کیلئے صحیفائی شرائط کو پورا کرنا لازمی ہے۔ بزرگ اس بات کا تعیّن کرنے میں بڑی احتیاط سے کام لیتے ہیں کہ آیا امکانی گواہ واقعی مسیحی مخصوصیت کے معنوں کو سمجھتا ہے۔ کیا وہ یہوواہ کے گواہوں میں سے ایک بننے کی حقیقی خواہش رکھتا ہے؟ کیا وہ اسکے تمامتر تقاضوں کیساتھ زندگی بسر کرنے کیلئے تیار ہے؟ اگر نہیں تو وہ بپتسمے کے لائق نہیں۔
۱۹. ایسے شخص پر تنقید کرنے کا کوئی جواز کیوں نہیں جو خدا کا مخصوص خادم بننے کا فیصلہ کرتا ہے؟
۱۹ تاہم، اگر ایک شخص تمام تقاضوں پر پورا اُترتا ہے تو اُس پر خود کو خدا اور اُسکے الہامی کلام سے اثرپذیر ہونے کی اجازت دینے کے رضاکارانہ فیصلے کے باعث تنقید کیوں کی جائے؟ کیا اُس کا خود کو انسانوں کی بجائے خدا سے اثرپذیر ہونے کی اجازت دینا زیادہ مقبول نہیں ہے؟ یا کیا یہ کچھ کم فائدہمند ہے؟ یہوواہ کے گواہ ایسا نہیں سوچتے۔ وہ یسعیاہ کی معرفت لکھی گئی خدا کی اس بات سے پورے دل سے متفق ہیں: ”مَیں ہی خداوند [”یہوواہ، اینڈبلیو] تیرا خدا ہوں جو تجھے مفید تعلیم دیتا ہوں اور تجھے اُس راہ میں جس میں تجھے جانا ہے لے چلتا ہوں۔“—یسعیاہ ۴۸:۱۷۔
۲۰. کس لحاظ سے لوگ بائبل سچائی کے ذریعے آزاد ہوتے ہیں؟
۲۰ بائبل سچائی لوگوں کو آتشی دوزخ میں ابدی عذاب جیسے باطل مذہبی عقائد پر ایمان رکھنے سے آزاد کرتی ہے۔ (واعظ ۹:۵، ۱۰) اسکی بجائے، یہ اُنکے دلوں کو مُردوں کے لئے حقیقی اُمید—یسوع مسیح کے فدیے کی قربانی کی بِنا پر ممکن بنائی گئی قیامت—کے واسطے شکرگزاری سے معمور کرتی ہے۔ (متی ۲۰:۲۸؛ اعمال ۲۴:۱۵؛ رومیوں ۶:۲۳) بائبل سچائی لوگوں کو ہمیشہ ناکام ہونے والے سیاسی وعدوں پر بھروسہ رکھنے کی مایوسیوں سے آزاد کرتی ہے۔ اس کی بجائے، یہ اُن کے دلوں کو اس علم کی خوشی سے لبریز رکھتی ہے کہ یہوواہ کی بادشاہت پہلے ہی سے آسمان پر حکمرانی کرتی ہے اور جلد ہی تمام زمین پر حکمرانی کرے گی۔ بائبل سچائی لوگوں کو ایسے کاموں سے آزاد کرتی ہے جو ناقص جسم کو مرغوب معلوم ہوتے ہیں مگر خدا کی بےحُرمتی کرتے ہیں اور شکستہ رشتےناطوں، بیماریوں اور غیرطبیعی موت کی صورت میں بھاری نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ المختصر، خدا کا غلام ہونا انسانوں کا غلام ہونے سے کہیں زیادہ مفید ہے۔ دراصل، خدا کیلئے مخصوصیت ”اب اس زمانہ میں“ فوائد ”اور آنے والے عالم میں ہمیشہ کی زندگی“ کا وعدہ کرتی ہے۔—مرقس ۱۰:۲۹، ۳۰۔
۲۱. یہوواہ کے گواہ خدا کے لئے مخصوصیت کو کیسا خیال کرتے ہیں اور اُن کی خواہش کیا ہے؟
۲۱ آجکل یہوواہ کے گواہ قدیم اسرائیل کی طرح پیدائشی طور پر مخصوص کسی قوم کا حصہ نہیں بنے۔ گواہ تو مخصوص مسیحیوں کی کلیسیا کا حصہ ہیں۔ ہر بپتسمہیافتہ گواہ نے مخصوصیت کرنے کے معاملے میں انفرادی طور پر انتخاب کی آزادی کو عمل میں لانے سے یہ مقام حاصل کِیا ہے۔ یقیناً، یہوواہ کے گواہوں کیلئے مخصوصیت خدا کیساتھ ایک پُرتپاک ذاتی رشتے پر منتج ہوتی ہے جس کا اظہار اُس کیلئے رضامندانہ خدمت سے ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہہمیشہ کیلئے اُس آزادی کو تھامے ہوئے جس کیلئے یسوع مسیح نے اُنہیں آزاد کِیا ہے اس پُرمسرت رشتے کو پورے دل سے برقرار رکھنے کی آرزو رکھتے ہیں۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
◻اسرائیل کو اپنی ”خاص ملکیت“ بننے کیلئے منتخب کرنے سے خدا طرفداری سے کام کیوں نہیں لے رہا تھا؟
◻آپ کیوں کہتے ہیں کہ مسیحی مخصوصیت آزادی کے نقصان کا باعث نہیں بنتی؟
◻یہوواہ خدا کیلئے مخصوصیت کے کیا فوائد ہیں؟
◻انسانوں کے غلام ہونے سے یہوواہ کا خادم ہونا کیوں بہتر ہے؟
[صفحہ 10 پر تصویر]
قدیم اسرائیل میں، خدا کے لئے مخصوصیت پیدائش کا معاملہ تھی
[صفحہ 11 پر تصویر]
مسیحی مخصوصیت انتخاب کا معاملہ ہے