خوشی سے خدا کے گلہ کی گلہبانی کریں
”خدا کے اس گلہ کی گلہبانی کرو جو تم میں ہے۔ لاچاری سے ... نہ کرو بلکہ ... خوشی سے۔“—۱-پطرس ۵:۲۔
۱. ہمیں مسیحی بزرگوں سے ”خدا کے گلہ کی خوشی سے گلہبانی“ کرنے کی توقع کیوں کرنی چاہیے؟
یہوواہ اپنے لوگوں کی گلہبانی خوشی سے کرتا ہے۔ (زبور ۲۳:۱-۴) ”اچھے چرواہے،“ یسوع مسیح نے بھیڑخصلت لوگوں کیلئے اپنی کامل انسانی زندگی دے دی۔ (یوحنا ۱۰:۱۱-۱۵) لہذا، پطرس رسول نے مسیحی بزرگوں کو ”خوشی سے خدا کے گلہ کی گلہبانی کرنے“ کی تلقین کی۔—۱-پطرس ۵:۲۔
۲. مسیحی بزرگوں کی گلہبانی کے سلسلے میں کارگزاریوں کے متعلق کونسے سوالات غوروخوض کے مستحق ہیں؟
۲ خوشی خدا کے خادموں کا ایک نشان ہے۔ (زبور ۱۱۰:۳) لیکن ایک نگہبان، یا ماتحت چرواہے کے طور پر تقرری کیلئے ایک مسیحی آدمی کی خوشی سے زیادہ کچھ درکار ہے۔ ایسے چرواہے ہونے کیلئے کون لائق ہیں؟ انکی گلہبانی میں کیا کچھ شامل ہے؟ اسے بہترین طور پر کیسے انجام دیا جاتا ہے؟
گھرانے کا بندوبست کرنا
۳. یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ جس طریقے سے ایک مسیحی آدمی اپنے خاندان کی نگہداشت کرتا ہے وہ اس بات پر اثرانداز ہوتا ہے کہ آیا وہ کلیسیا میں ایک چرواہا ہونے کے لائق ہے؟
۳ اس سے پیشتر کہ ایک آدمی کی ”نگہبان [کے] عہدہ“ پر تقرری ہو سکے، اسے صحیفائی تقاضوں کو پورا کرنا چاہئے۔ (۱-تیمتھیس ۳:۱-۷، ططس ۱:۵-۹) ایک بات تو یہ ہے کہ پولس رسول نے کہا کہ ایک آدمی کو چاہیے کہ ”اپنے گھر کا بخوبی بندوبست کرتا ہو اور اپنے بچوں کو کمال سنجیدگی سے تابع رکھتا ہو۔“ ایسا کرنے کی اچھی وجہ ہے کیونکہ پولس نے کہا: ”جب کوئی اپنے گھر ہی کا بندوبست کرنا نہیں جانتا تو خدا کی کلیسیا کی خبرگیری کیونکر کریگا؟“ (۱-تیمتھیس ۳:۴، ۵) جب کریتے کے جزیرے میں کلیسیاؤں کے اندر بزرگوں کو مقرر کیا جانا تھا تو ططس سے کہا گیا تھا کہ ایسے لوگ تلاش کرے ”جو بےالزام اور ایک ایک بیوی کے شوہر ہوں اور انکے بچے ایماندار اور بدچلنی اور سرکشی کے الزام سے پاک ہوں۔“ (ططس ۱:۶) جیہاں، جس طریقہ سے ایک مسیحی مرد اپنے خاندان کی خبرگیری کرتا ہے اسے اس بات کا تعیّن کرتے وقت دھیان میں رکھنا چاہئے کہ آیا وہ کلیسیا کی گلہبانی کرنے کی بھاری ذمہداری اٹھانے کے لائق ہے۔
۴. باقاعدہ بائبل مطالعے اور دعا کے علاوہ، مسیحی والدین اپنے خاندانوں کیلئے محبت کیسے دکھاتے ہیں؟
۴ جو مرد اپنے گھرانوں کا بخوبی بندوبست کرتے ہیں وہ دعا اور اپنے خاندانوں کے ساتھ باقاعدہ بنیاد پر بائبل مطالعہ کرنے سے زیادہ کچھ کرتے ہیں۔ وہ اپنے عزیزوں کی مدد کرنے کیلئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ انکے لئے جو والدین بنتے ہیں، یہ کام بچے کی پیدائش کے دن سے شروع ہو جاتا ہے۔ مسیحی والدین جانتے ہیں کہ جس قدر وہ خدائی معمول سے وابستہ رہتے ہیں تو اتنی ہی جلدی انکے چھوٹے بچے روزمرہ زندگی کی مسیحی سرگرمیوں کے انکے جدول کے مطابق بن جاتے ہیں۔ ان حالات کے تحت جس عمدگی سے ایک مسیحی باپ بندوبست کرتا ہے اس سے بطور ایک بزرگ کے اسکی لیاقتیں ظاہر ہوتی ہیں۔—افسیوں ۵:۱۵، ۱۶، فلپیوں ۳:۱۶۔
۵. ایک مسیحی والد اپنے بچوں کی ”خداوند کی طرف سے تربیت اور [”ذہنی باضابطگی سے،“ NW] پرورش کیسے کر سکتا ہے؟
۵ اپنے گھرانے کا بندوبست کرنے میں، ایک فرضشناس مسیحی والد پولس کی مشورت پر دھیان دیتا ہے: ”تم اپنے فرزندوں کو غصہ نہ دلاؤ بلکہ خداوند کی طرف سے تربیت اور [”ذہنی باضابطگی سے،“ NW] انکی پرورش کرو۔“ (افسیوں ۶:۴) خاندان کے ساتھ باقاعدہ بائبل مطالعہ، بیوی اور بچوں سمیت، پرمحبت ہدایت کیلئے عمدہ مواقع فراہم کرتا ہے۔ یوں بچے ”تربیت،“ یا تادیبی ہدایت حاصل کرتے ہیں۔ ”ذہنی باضابطگی،“ جو اس وقت عمل میں آتی ہے ہر بچے کی مدد کرتی ہے کہ معاملات کی بابت یہوواہ کے نظریے کو جانیں۔ (استثنا ۴:۹، ۶:۶، ۷، امثال۳:۱۱، ۲۲:۶) اس روحانی اجتماعیت کے ایک پرسکون ماحول میں، فکر رکھنے والا باپ ہوشمندی سے سنتا ہے جب اسکے بچے باتچیت کرتے ہیں۔ انکی دلچسپیوں اور رجحانات کی بابت دیانتدارانہ اظہارات نکلوانے کیلئے مہربانہ راہنمائی کرنے والے سوالات استعمال کئے جاتے ہیں۔ باپ یہ اندازہ نہیں لگاتا کہ جو کچھ نوخیز ذہنوں میں واقع ہو رہا ہے اس سب کو وہ جانتا ہے۔ یقیناً، ”جو بات سننے سے پہلے اسکا جواب دے یہ اسکی حماقت اور خجالت ہے،“ امثال ۱۸:۱۳ کہتی ہے۔ آجکل، زیادہتر والدین محسوس کرتے ہیں کہ جس حالت کا انکے بچے سامنا کرتے ہیں اس حالت سے کہیں مختلف ہے جسکا انہوں نے خود تجربہ کیا جب وہ نوجوان تھے۔ نتیجتاً، ایک باپ کچھ کہنے سے پیشتر مسئلے کی تفصیلات اور پسمنظر کو جاننے کی کوشش کریگا کہ اسے کیسے حل کیا جانا چاہیے۔—مقابلہ کریں یعقوب ۱:۱۹۔
۶. ایک مسیحی والد کو اپنے خاندان کی مدد کرتے وقت خدا کے کلام سے رجوع کیوں کرنا چاہیے؟
۶ کسی کے بچوں کے مسائل، پریشانیوں، اور رجحانات کا علم ہو جانے کے بعد کیا رونما ہوتا ہے؟ جو باپ عمدہ طریقے سے بندوبست کرتا ہے وہ صحائف سے رجوع کرتا ہے جو ”تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کیلئے فائدہمند بھی“ ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دیتا ہے کہ بائبل کی الہامی راہنمائیوں کا اطلاق کیسے کریں۔ اس طریقے سے جو عمر میں چھوٹے ہیں وہ ”کامل اور ہر نیک کام کیلئے بالکل تیار ہو“ جاتے ہیں۔—۲۔تیمتھیس ۳:۱۶، ۱۷، زبور ۷۸:۱-۴۔
۷. دعا کے سلسلے میں مسیحی والدوں کو کیا نمونہ قائم کرنا چاہیے؟
۷ خداپرست نوجوان دنیاوی ہممکتبوں کے سلسلے میں مشکل اوقات کا سامنا کرتے ہیں۔ پس مسیحی باپ اپنے بچوں کے اندیشوں کو کیسے کم کر سکتے ہیں؟ ایک طریقہ تو انکے ساتھ اور انکے لئے باقاعدگی سے دعا کرنے کا ہے۔ جب یہ نوجوان لوگ تکلیفدہ حالتوں کا سامنا کرتے ہیں تو غالباً وہ خدا پر اپنے والدین کے اعتماد کی نقل کرینگے۔ ایک ۱۳ سال کی عمر کی لڑکی کا خدا کیلئے اپنی مخصوصیت کی علامت میں بپتسمہ پانے سے پہلے انٹرویو لیا گیا، جس نے بیان کیا کہ اس نے اپنے ہممکتبوں کی طرف سے تمسخر اور بدسلوکی کا تجربہ کیا تھا۔ جب اس نے خون کے تقدس میں بائبل پر مبنی اپنے عقیدے کا دفاع کیا تو دوسری لڑکیوں نے اس کی پٹائی کی اور اس پر تھوکا۔ (اعمال ۱۵:۲۸، ۲۹) کیا اس نے انتقام لیا؟ نہیں۔ ”میں یہوواہ سے دعا کرتی رہی کہ خاموش رہنے میں مدد کرے،“ اس نے وضاحت کی۔ ”جو کچھ میرے والدین نے مجھے بدی کے تحت خود کو قابو میں رکھنے کی ضرورت کی بابت ہمارے خاندانی مطالعے میں سکھایا تھا، میں نے اسے بھی یاد رکھا۔“—۲-تیمتھیس ۲:۲۴۔
۸. ایک بزرگ جس کے بچے نہیں ہیں وہ اپنے گھر کا بخوبی بندوبست کیسے کر سکتا ہے؟
۸ ایک بزرگ جسکے بچے نہیں ہیں وہ بھی انکے لئے موزوں روحانی اور مالی فراہمیوں کا بندوبست کر سکتا ہے جو اسکے گھرانے میں ہیں۔ اس میں اسکی بیاہتا ساتھی اور شاید اسکے گھر میں رہنے والے اس پر انحصار کرنے والے مسیحی رشتہدار شامل ہیں۔ (۱-تیمتھیس ۵:۸) پس بخوبی بندوبست کرنا ان تقاضوں میں سے ایک ہے جس پر ایک مرد کو پورا اترنا چاہیے جو کلیسیا کے بزرگ کے طور پر ذمہداری اٹھانے کیلئے مقرر ہوتا ہے۔ تو پھر، مقررشدہ بزرگوں کو کلیسیا میں ذمہداریوں کے اپنے استحقاق کو کیسا خیال کرنا چاہیے؟
”سرگرمی سے“ پیشوائی کرے
۹. مسیحی بزرگوں کو اپنی خدمتی تفویضات کی بابت کیا رویہ رکھنا چاہیے؟
۹ ہمارے سنعام کی پہلی صدی میں، پولس رسول نے خدا کے گھرانے، مسیحی کلیسیا میں مسیح کی سرداری کے تحت خادم کے طور پر خدمت کی۔ (افسیوں ۳:۲، ۷، ۴:۱۵) اس وجہ سے، پولس نے روم کے اندر اپنے ساتھی ایمانداروں کو تلقین کی: ”چونکہ اس توفیق کے موافق جو ہم کو دی گئی ہمیں طرح طرح کی نعمتیں ملیں اسلئے جسکو نبوت ملی ہو وہ ایمان کے اندازہ کے موافق نبوت کرے۔ اگر خدمت ملی ہو تو خدمت میں لگا رہے۔ اگر کوئی مُعلم ہو تو تعلیم میں مشغول رہے۔ اور اگر ناصح ہو تو نصیحت میں۔ خیرات بانٹنے والا سخاوت سے بانٹے۔ پیشوا سرگرمی سے پیشوائی کرے۔ رحم کرنے والا خوشی کے ساتھ رحم کرے۔“—رومیوں ۱۲:۶-۸۔
۱۰. خدا کے گلہ کی دیکھ بھال کرنے کے سلسلے میں، پولس نے آجکل کے بزرگوں کیلئے کیا نمونہ قائم کیا؟
۱۰ پولس نے تھسلنیکیوں کو یاددہانی کرائی: ”جس طرح باپ اپنے بچوں کے ساتھ کرتا ہے اسی طرح ہم بھی تم میں سے ہر ایک کو نصیحت کرتے اور دلاسا دیتے اور سمجھاتے رہے۔ تاکہ تمہارا چالچلن خدا کے لائق ہو جو تمہیں اپنی بادشاہی اور جلال میں بلاتا ہے۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۱:۱، ۲:۱۱، ۱۲) نصیحت ایسے شفیق، پرمحبت طریقے سے دی گئی تھی کہ پولس لکھ سکا تھا: ”جس طرح ماں اپنے بچوں کو پالتی ہے اسی طرح ہم تمہارے درمیان نرمی کے ساتھ رہے۔ اور اسی طرح ہم تمہارے بہت مشتاق ہو کر نہ فقط خدا کی خوشخبری بلکہ اپنی جان تک بھی تمہیں دے دینے کو راضی تھے۔ اس واسطے کہ تم ہمارے پیارے ہو گئے تھے۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۲:۷، ۸) پولس کے پدرانہ نمونے کی مطابقت میں، وفادار بزرگ کلیسیا میں سب کیلئے گہری فکر رکھتے ہیں۔
۱۱. مقررشدہ بزرگ کیسے سرگرمی ظاہر کر سکتے ہیں؟
۱۱ سرگرمی کے ساتھ ملکر شفقت کو اس پرمحبت نگہبانی کا خاصہ ہونا چاہئے جو ہمارے چرواہے ظاہر کرتے ہیں۔ انکا اسلوب بہت کچھ بتاتا ہے۔ پطرس بزرگوں کو خدا کے گلہ کی نگہبانی کرنے کی مشورت دیتا ہے ”لاچاری سے“ یا ”ناجائز نفع کیلئے نہیں۔“ (۱-پطرس ۵:۲) اس نکتے پر، عالم ولیم بارکلے نے ایک آگاہ کرنے والا بیان دیا، لکھتا ہے: ”عہدہ قبول کرنے اور خدمت انجام دینے کا ایک طریقہ ہے گویا یہ کوئی سخت اور ناگوار ڈیوٹی تھی، گویا یہ ایک تھکاوٹ تھی، گویا آزردہ ہونے کیلئے یہ ایک بوجھ تھا۔ یہ عین ممکن ہے کہ کسی آدمی سے کچھ کرنے کیلئے کہا جائے، اور اسکے لئے یہ کام کرنا، لیکن ایک ایسے نامہربانہ طریقے سے کرنا کہ پوری کارروائی خراب ہو جاتی ہے۔ ... لیکن [پطرس] کہتا ہے کہ ہر مسیحی کو کانپتے ہوئے خوشی سے ایسی خدمت کرنے والا ہونا چاہیے جتنا کہ وہ کر سکتا ہے، اگرچہ وہ پوری طرح باخبر ہے کہ وہ اسے پورا کرنے کیلئے کتنا نااہل ہے۔“
خوش چرواہے
۱۲. مسیحی بزرگ کیسے خوشی ظاہر کر سکتے ہیں؟
۱۲ ”خدا کے اس گلہ کی گلہبانی کرو جو تم ہے ... خوشی سے،“ پطرس یہ تلقین بھی کرتا ہے۔ ایک مسیحی نگہبان جو بھیڑوں کی نگہداشت کرتا ہے وہ یہ کام اتنی خوشی سے، اپنی آزاد مرضی سے، اچھے چرواہے، یسوع مسیح کی زیرہدایت کرتا ہے۔ خوشی سے خدمت کرنے کا یہ بھی مطلب ہے کہ ایک مسیحی چرواہا، ”اپنی روحوں کے گلہبان اور نگہبان“، یہوواہ کے اختیار کی اطاعت کرتا ہے۔ (۱-پطرس ۲:۲۵) ایک مسیحی ماتحت چرواہا تھیوکریٹک انتظام کیلئے خوشی سے احترام دکھاتا ہے۔ وہ اس وقت ایسے کرتا ہے جب وہ خدا کے کلام بائبل سے نصیحت کی تلاش کرنے والوں کی راہنمائی کرتا ہے۔ اگرچہ تجربہ ایک بزرگ کی بائبل پر مبنی مشورت کے ذخیرے کو بڑھانے میں مدد کریگا، تو بھی اسکا یہ مطلب نہیں کہ اسکے پاس ہر مسئلے کا فوری طور پر صحیفائی حل دستیاب ہوگا۔ جب وہ کسی سوال کا جواب جانتا بھی ہو، تو وہ دریافت کرنے والے کے ساتھ واچ ٹاور پبلیکیشنز انڈیکس، یا اسی طرح کے دوسرے انڈیکسوں سے رجوع کرنے کو شاید دانشمندانہ محسوس کرے۔ یوں وہ دو طریقوں سے سکھاتا ہے: وہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح مفید معلومات تلاش کی جائیں اور جو کچھ خدا کی تنظیم نے شائع کیا ہے اسکی طرف توجہ دلانے سے فروتنی کے ساتھ یہوواہ کیلئے احترام دکھاتا ہے۔
۱۳. درست نصیحت دینے میں بزرگوں کی مدد کرنے کیلئے کیا اقدام کئے جا سکتے ہیں؟
۱۳ ایک بزرگ کیا کر سکتا ہے اگر سردست کسی خاص مسئلے کی بابت سوسائٹی کے لٹریچر میں کچھ شائع نہیں ہوا ہے تو؟ بلاشبہ، وہ بصیرت کیلئے دعا کریگا اور بعض بائبل کے اصولوں کیلئے تحقیق کریگا جو معاملے پر عائد ہوتے ہیں۔ وہ مدد کے متلاشی شخص کو یسوع کے نمونے پر غور کرنے کی تجویز پیش کرنے کو بھی فائدہمند پا سکتا ہے۔ بزرگ پوچھ سکتا ہے: ”اگر عظیم استاد، یسوع، آپکی حالت میں ہوتا، تو آپکے خیال میں وہ کیا کرتا؟“ (۱-کرنتھیوں ۲:۱۶) ایسا استدلال دریافت کرنے والے کی ایک دانشمند فیصلہ کرنے کیلئے مدد کر سکتا ہے۔ لیکن ایک بزرگ کیلئے محض ذاتی رائے پیش کرنا کتنی غیردانشمندانہ بات ہوگی گویا یہ صحیفائی نصیحت تھی! اسکی بجائے، بزرگ مشکل مسائل پر ایک دوسرے کے ساتھ باتچیت کر سکتے ہیں۔ وہ اہم معاملات کو بزرگوں کی جماعت کے اجلاس پر بھی بحث کیلئے پیش کر سکتے ہیں۔ (امثال ۱۱:۱۴) انجامکار فیصلے ان سب کو ہمآہنگی سے کلام کرنے کے قابل بنائیں گے۔—۱-کرنتھیوں ۱:۱۰۔
حلممزاجی لازمی
۱۴، ۱۵. بزرگوں سے کسی مسیحی کو بحال کرتے وقت کیا تقاضا کیا جاتا ہے جس نے ”بےخبری میں غلط قدم اٹھا لیا ہے“؟
۱۴ ایک مسیحی بزرگ کو دوسروں کو تعلیم دیتے وقت حلممزاجی دکھانے کی ضرورت ہے، خاص طور پر انہیں مشورت دیتے وقت۔ ”اے بھائیو!“ پولس مشورت دیتا ہے، ”اگر کوئی آدمی کسی قصور میں پکڑا بھی جائے تو تم جو روحانی ہو اسکو حلممزاجی سے بحال کرو۔“ (گلتیوں ۶:۱) دلچسپی کی بات ہے کہ جس یونانی لفظ کا یہاں پر ”بحال کرو“ ترجمہ کیا گیا ہے جراحی سے متعلق ایک اصطلاح کا حوالہ دیتا ہے جو ایک ہڈی بٹھانے کو بیان کرنے کیلئے استعمال کیا گیا اسطرح کہ عمر بھر کی معذوری کو روکا جائے۔ لغتنویس ڈبلیو۔ای۔ وائن اسکو بحالی کے ساتھ جوڑتا ہے ”ان کے ذریعے جو روحانی ہیں، ایسا شخص روحانی بدن سے الگ ممبر ہونے کے طور پر ہے جو کسی قصور میں پکڑا جاتا ہے۔“ متبادل ترجمے ”مناسب حالت میں بحال کرنا، مناسب صفبندی میں لانا“ ہیں۔
۱۵ کسی کا اپنی ہی سوچ کو درست کرنا آسان نہیں ہے، اور کسی غلطی کرنے والے شخص کے خیالات کو صحیح راستے پر لانا تو نہایت مشکل ہو سکتا ہے۔ لیکن حلممزاجی کے جذبے کے تحت پیش کی گئی مدد کو احسانمندی کے ساتھ قبول کرنے کا امکان ہے۔ نتیجتاً، مسیحی بزرگوں کو پولس کی نصیحت پر دھیان دینا چاہیے: ”دردمندی اور مہربانی اور فروتنی اور حلم اور تحمل کا لباس پہنو۔“ (کلسیوں ۳:۱۲) بزرگوں کو کیا کرنا چاہیے جب بحالی کا ضرورتمند ایک فرد برا رویہ رکھتا ہے؟ انہیں ”حلم کا طالب“ ہونا چاہیے۔—۱-تیمتھیس ۶:۱۱۔
احتیاط کے ساتھ گلہبانی کرنا
۱۶، ۱۷. دوسروں کو مشورت دیتے وقت بزرگوں کو کن خطرات سے بچنا چاہیے؟
۱۶ گلتیوں ۶:۱ میں پولس کی مشورت میں زیادہ کچھ شامل ہے۔ وہ روحانی طور پر لائق مردوں پر زور دیتا ہے: ”حلممزاجی سے [غلطی کرنے والے کو] بحال کرو اور اپنا بھی خیال رکھ۔ کہیں تو بھی آزمایش میں نہ پڑ جائے۔“ اگر ایسی نصیحت پر دھیان دیا نہیں جاتا تو کتنے سنگین نتائج پیدا ہو سکتے ہیں! ایک اینگلیکن پادری جس نے اپنے کلیسیائی حلقے کے دو باشندوں کے ساتھ زناکاری کی، اسکی بابت رپورٹوں سے تحریک پاکر لندن کے دی ٹائمز نے کہا کہ یہ ”ایک نہ ختم ہونے والی حالت ہے: مشورت دینے والے، ظاہری طور پر باپ کی طرح یا بھائی کی طرح کے آدمی، اعتماد کی آزمائشوں کا شکار ہو رہے ہیں۔“ پھر اخباری کالمنویس نے ڈاکٹر پیٹر رٹر کے دعوؤں کا حوالہ دیا کہ ”مریضوں اور انکے مرد مشیروں—ڈاکٹروں، وکیلوں، پادریوں اور آجروں—کے درمیان ناجائز فائدہ اٹھانے کے واقعات، جنسی طور پر ہمارے اباحتی معاشرے میں، غیر تسلیمشدہ، تباہکن اور شرمناک وبا بن چکے ہیں۔“
۱۷ ہمیں یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ یہوواہ کے لوگ ایسی آزمائشوں سے محفوظ ہیں۔ ایک باعزت بزرگ جو سالہا سال تک وفاداری سے خدمت کر چکا تھا بداخلاقی کا شکار ہو گیا کیونکہ اس نے ایک شادیشدہ بہن سے اس وقت گلہبانی کی ملاقاتیں کیں جب وہ تنہا تھی۔ اگرچہ وہ تائب تھا تو بھی بھائی اپنے تمام خدمتی استحقاقات سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۲) تو پھر، مقررشدہ بزرگ کسی ایسے طریقے سے نگہبانی کی ملاقاتیں کیسے کر سکتے ہیں کہ وہ آزمائش میں نہ پڑیں؟ وہ دعا، خدا کے کلام اور مسیحی مطبوعات سے رجوع کرنے کی خاطر موقع نکالنے کیلئے کسی حد تک علیحدگی کا بندوبست کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۸. (ا) سرداری کے اصول کا اطلاق کرنا مصالحت کرنے والی حالتوں سے بچنے کیلئے بزرگوں کی مدد کیسے کر سکتا ہے؟ (ب) ایک بہن کیساتھ گلہبانی کی ملاقات کرنے کیلئے کیا انتظامات کئے جا سکتے ہیں؟
۱۸ ایک پہلو جسے بزرگوں کو ذہن میں رکھنا ہے وہ سرداری کا اصول ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۱:۳) اگر کوئی نوجوان شخص راہنمائی چاہتا ہے تو جب مناسب ہو تو باتچیت میں والدین کو شامل کرنے کی کوشش کریں۔ جب کوئی شادیشدہ بہن روحانی مدد کی درخواست کرتی ہے تو کیا آپ اسکے خاوند کے لئے بندوبست بنا سکتے ہیں کہ ملاقات کے دوران موجود ہو؟ اس وقت کیا ہو جب ایسا کرنا ناممکن ہو یا وہ بےایمان ہے جو کسی حد تک اسکے ساتھ بدسلوکی کرتا رہا ہے؟ تو پھر وہی انتظامات کریں جو آپ ایک غیرشادیشدہ بہن سے گلہبانی کی ملاقات کرتے ہوئے کرینگے۔ یہ دانشمندی ہوگی کہ دو روحانی طور پر لائق بھائی بہن کے پاس اکٹھے جائیں۔ اگر یہ موزوں نہ ہو تو دو بھائیوں کیلئے کسی مناسب وقت کا انتخاب کیا جا سکتا ہے کہ کنگڈم ہال میں اسکے ساتھ باتچیت کریں، ترجیحاً ایک ایسے کمرے میں جو خلوت کو ممکن بناتا ہو۔ جب دوسرے بھائی اور بہنیں ہال میں موجود ہوں، اگرچہ دیکھنے اور باتچیت کو اتفاقاً سننے کی حالت میں نہ ہوں، غالباً ٹھوکر کھلانے والی کسی بھی وجہ سے بچا جائیگا۔—فلپیوں ۱:۹، ۱۰۔
۱۹. خوشی سے خدا کی بھیڑوں کی گلہبانی کرنا کونسے اچھے نتائج لاتا ہے، اور خوشی سے کام کرنے والے چراوہوں کیلئے ہم کس کیلئے احسانمندی کا اظہار کر سکتے ہیں؟
۱۹ خوشی سے خدا کے گلے کی گلہبانی کرنا اچھے نتائج لاتا ہے—روحانی طور پر مضبوط، خوب ہدایتیافتہ گلہ۔ پولس رسول کی طرح، جدید زمانے کے مسیحی بزرگ ساتھی ایمانداروں کیلئے بڑی فکر رکھتے ہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۱۱:۲۸) ان خراب دنوں میں خدا کے لوگوں کی گلہبانی کرنا خاص طور پر بھاری ذمہداری ہے۔ اسلئے، ہم واقعی اس عمدہ کام کیلئے احسانمند ہیں جو بزرگوں کے طور پر ہمارے بھائیوں کے ذریعے انجام پا رہا ہے۔ (۱-تیمتھیس ۵:۱۷) ہمیں ”آدمیوں کی صورت میں انعام“ سے نوازنے کیلئے جو خوشی سے گلہبانی کرتے ہیں، ہم ”ہر اچھی بخشش اور ہر کامل انعام“ دینے والے، اپنے پرمحبت گلہبان، یہوواہ کی تمجید کرتے ہیں۔—افسیوں ۴:۸، یعقوب ۱:۱۷۔ (۱۷ ۵/۱۵ w۹۳)
آپ کیسے جواب دینگے؟
▫ ایک مرد اپنے گھر کا بخوبی بندوبست کیسے کر سکتا ہے؟
▫ کونسی لیاقتوں کو مسیحی بزرگوں کی نگہداشت کا خاصہ ہونا چاہئے؟
▫ بزرگ مشورت دینے میں انکساری اور حلممزاجی کیسے دکھا سکتے ہیں؟
▫ روحانی بحالی کو مؤثر بنانے کیلئے کیا چیز ہماری مدد کرتی ہے؟
▫ بزرگ گلہبانی کرتے وقت مصالحت کرنے والی حالتوں سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
[تصویر]
ایک مسیحی بزرگ کو ضرور اپنے گھر کا بخوبی بندوبست کرنا چاہیے
[تصویر]
مسیحی گلہبانی حلممزاجی اور اچھی سمجھ کے ساتھ کی جانی چاہیے