”نگہبان کو ضبط نفس والا ہونا چا ہیے“
”نگہبان کو . . . ضبط نفس والا ہونا چاہیے۔“ ططس ۱:۷، ۸، NW۔
۱، ۲. ضبط کا کونسا نمونہ ولیم آف اورنج نے فراہم کیا، اور کن مفید نتائج کیساتھ ؟
تاریخ جذبات پر قابو پانے کے سلسلے میں نہایت ہی قابلغور نمونہ فراہم کرتی ہے۔ ۱۶ ویں صدی کے وسط میں، نوجوان ڈچ شہزادہ ولیم آف اورنج، فرانس کے کنگ ہنری دوئم کے ساتھ ایک شکاری سفر پر تھا۔ بادشاہ نے ولیم کو ایک منصوبے سے آ گاہ کیا جو اس نے اور اسپین کے بادشاہ نے فرانس اور تمام نیدرلینڈز سے درحقیقت تمام مسیحی دنیا سے پروٹسٹنٹوں کو ختم کرنے کے لئے بنایا تھا۔ کنگ ہنری اس خیال میں تھا کہ نوجوان ولیم اس کی طرح ایک مخلص کیتھولک ہے اور اس لیے اس نے منصوبے کی تمام تفصیلات کو اس پر ظاہر کر دیا۔ ولیم نے جو کچھ سنا اس نے اسے بہت خوفزدہ کر دیا کیونکہ اس کے بہتیرے قریبی دوست پروٹسٹنٹ تھے، لیکن جو کچھ وہ محسوس کر رہا تھا اس نے اسے ظاہر نہ ہونے دیا، بلکہ، اس نے ان تمام تفصیلات میں گہری دلچسپی ظاہر کی جو بادشاہ اسے دے رہا تھا۔
۲ تاہم، جتنی جلدی ولیم کر سکتا تھا، اس نے اس منصوبے کو ناکام بنانے کی کوشش کی، اور آخرکار یہ سب نیدرلینڈز کو ہسپانوی کیتھولک تسلط سے آزاد کرانے پر منتج ہوا۔ کیونکہ جب ولیم نے اس منصوبے کی بابت پہلی بار سنا تو وہ ضبط نفس کو عمل میں لانے کے قابل ہوا تھا، اسی لیے وہ ”ولیم دی سائلنٹ (خاموش ولیم)“ کے طور پر مشہور ہو گیا۔ ولیم آف اورنج اس قدر کامیاب رہا تھا کہ ہمیں یہ بتایا گیا ہے: ”وہ ڈچ جمہوریہ کی آزادی اور عظمت کا حقیقی بانی تھا۔“
۳. جب مسیحی بزرگ ضبط نفس کا مظاہرہ کرتے ہیں تو کون مستفید ہوتے ہیں ؟
۳ خود پر قابو رکھنے کی وجہ سے، ولیم دی سائلنٹ نے خود کو اور اپنے لوگوں دونوں کو بہت زیادہ فائدہ پہنچایا۔ اسی کے مدمقابل، مسیحی بزرگوں، یا نگہبانوں کو بھی آجکل روحالقدس کے پھل ضبط نفس کو ظاہر کرنا چا ہیے۔ (گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳) اس خوبی کو عمل میں لانے کی وجہ سے، وہ خود کو اور کلیسیا دونوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اس کے برعکس، ان کی طرف سے ضبط نفس کو ظاہر کرنے میں کمی بے حد نقصان پہنچا سکتی ہے۔
ضبط نفس بزرگوں کے لیے ایک تقاضا
۴. رسول پولس کی کونسی مشورت بزرگوں کے لیے ضبط نفس کو عمل میں لانے کی ضرورت پر زور دیتی ہے؟
۴ پولس، جو خود بھی ایک بزرگ تھا، اس نے ضبط نفس کی اہمیت کی قدر کی۔ افسس سے اپنے پاس آئے ہوئے بزرگوں کو نصیحت کرتے ہو ئے، اس نے انہیں بتایا: ”اپنی اور اس سارے گلہ کی خبرداری کرو۔“ دوسری باتوں میں، اپنی خبرداری کرنے میں ضبط نفس کو عمل میں لانے کی ضرورت، اور اپنے چالچلن پر نگاہ رکھنا شامل تھا۔ تیمتھیس کو لکھتے وقت، پولس نے اسی بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا: ”اپنی اور اپنی تعلیم کی خبرداری کر۔“ ایسی نصیحت نے بعض کے معاملے میں جو کچھ وہ منادی کرتے ہیں اس پر عمل کرنے کی بجائے منادی کے کام کیلئے انکے زیادہ فکرمند ہونے کے انسانی میلان کی بابت پولس کے باخبر ہونے کو ظاہر کر دیا۔ اسی لیے، اس نے پہلے اپنی خبرداری کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اعمال ۲۰:۲۸، ۱-تیمتھیس ۴:۱۶۔
۵. مسیحی بزرگوں کی تقرری کیسے ہوتی ہے، اور صحائف میں کہاں پر ان کی لیاقتیں درج ہیں؟
۵ سالوں کے دوران، بزرگوں کا صحیفائی کردار بتدریج واضح ہو گیا ہے۔ آج، ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بزر گی ایک مقررکردہ منصب ہے۔ بزرگوں کی تقرریاں یہوواہ کے گواہوں کی گورننگ باڈی یا اسکے براہراست نمایندوں کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ اور یہ باڈی، ”عقلمند اور دیانتدار نوکر“ کی نمایندگی کرتی ہے۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) ایک مسیحی نگہبان، یا بزرگ بننے کیلیے لیاقتیں، ۱-تیمتھیس ۳:۱-۷ اور ططس ۱:۵-۹ میں اولین طور پر پولس رسول نے بیان کی ہیں۔
۶، ۷. بزرگوں کی کونسی خاص لیاقتیں ضبط نفس کا تقاضا کرتی ہیں؟
۶ پولس ۱-تیمتھیس ۳:۲، ۳ میں بیان کرتا ہے کہ نگہبان کو عادات میں اعتدالپسند ہونا چا ہیے۔ یہ اور اس کے ساتھ ساتھ ایک بزرگ کے لیے شائستہ ہونا ضبط نفس کو عمل میں لانے کا تقاضا کرتا ہے۔ ایک شخص جو نگہبان ہونے کے لائق ٹھہرتا ہے وہ نہ تو مارپیٹ کرنے والا ہوتا ہے اور نہ ہی تکراری ہوتا ہے۔ یہ لیاقتیں بھی ایک بزرگ سے تقاضا کرتی ہیں کہ وہ ضبط نفس والا ہو۔ اس کے علاوہ، ایک بزرگ کو نشہ میں غل مچانے والا، اور شرابی نہ ہونے کے لیے بھی، ضبط نفس کو عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔ نیز، ۱-تیمتھیس ۳:۲، ۳، NW کے فٹ نوٹس کو بھی دیکھیں۔
۷ ططس ۱:۷ میں، پولس خاص طور پر یہ بیان کرتا ہے کہ نگہبان کو ضبط نفس والا ہونا چا ہیے۔ تاہم، غور کریں کہ ان آیات میں درج دوسری لیاقتوں میں سے کتنی ضبط نفس کا تقاضا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، نگہبان کو بےالزام، جیہاں، ناقابلملامت ہونا چا ہیے۔ یقیناً، جب تک ایک بزرگ ضبط نفس کو عمل میں نہیں لاتا وہ ان تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتا۔
دوسروں کے ساتھ برتاؤ کے دوران
۸. مشورت دیتے وقت بزرگوں کو درکار کونسی خوبیاں ضبط نفس کی ضرورت کو نمایاں کرتی ہیں؟
۸ تو پھر، ایک نگہبان کو ساتھی مسیحیوں کے ساتھ اپنے برتاؤ کے دوران بھی صابر اور متحمل ہونے کی ضرورت ہے، اور اس کے لیے ضبط نفس درکار ہے۔ مثال کے طور پر، گلتیوں ۶:۱ میں، ہم پڑھتے ہیں: ”اے بھائیو اگر کوئی آدمی کسی قصور میں پکڑا بھی جائے تو تم جو روحانی ہو [اولین طور پر بزرگ ] اسکو حلممزاجی سے بحال کرو اور اپنا بھی خیال رکھ کہیں تو بھی آزمایش میں نہ پڑ جا ئے۔“ حلممزاجی ظاہر کرنے کیلئے بھی ضبط نفس کی ضرورت ہے۔ اسی وجہ سے، اپنا خیال رکھنے میں بھی ضبط نفس کا عملدخل ہے۔ اسی طرح، جب مشکل میں پھنسا ہوا کوئی شخص مدد کیلئے بزرگ کے پاس آتا ہے، تو ضبط نفس کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے قطعنظر، کہ بزرگ اس شخص کی بابت کیا رائے رکھتا ہے، اسے نرممزاج، صابر، اور صاحبفہم ہونا چا ہیے۔ مشورت دینے میں جلدی کرنے کی بجا ئے، بزرگ کو بات چیت کو سننے اور جو چیز اس شخص کو دراصل پریشان کئے ہوئے ہے اسے اگلوانے کی کوشش کرنے کیلئے تیار ہونا چا ہیے۔
۹. منتشر خیالات والے بھائیوں کے ساتھ برتاؤ کے دوران بزرگوں کو کونسی نصیحت ذہن میں رکھنی چا ہیے؟
۹ بالخصوص منتشر خیالات والے اشخاص کے ساتھ برتاؤ کے دوران یعقوب ۱:۱۹ میں درج یہ نصیحت موزوں ہوگی: ”اے میرے پیارے بھائیو! یہ بات [یاد رکھو]۔ کہ ہر آدمی سننے میں تیز اور بولنے میں دھیرا اور قہر میں دھیما ہو۔“ جیہاں، کسی بھی طرح کے غصہ، یا جذباتی ردعمل کا سامنا کرتے ہوئے ایک بزرگ کو خاص طور پر احتیاط برتنی چاہیے کہ وہ اس طرح کا ردعمل نہ دکھا ئے۔ جذبات میں کہے گئے الفاظ کے بدلے میں جذباتی الفاظ ادا نہ کرنے کیلیے بھی ضبط نفس درکار ہے، تاکہ ”بدی کے عوض بدی“ نہ کریں۔ (رومیوں ۱۲:۱۷) ترکیبہ ترکی جواب دینا معاملات کو خراب سے خرابتر بنا دیتا ہے۔ ایسی حالت میں بھی خدا کا کلام بزرگوں کو یاد دلانے کیلئے یہ عمدہ نصیحت فراہم کرتا ہے کہ ”نرم جواب قہر کو دور کر دیتا ہے۔“ امثال ۱۵:۱۔
بزرگوں کے اجلاسوں اور عدالتی مقدموں کی سماعت کے وقت ضبط نفس
۱۰، ۱۱. بزرگوں کے اجلاسوں پر کیا واقع ہوا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسے موقعوں پر ضبط نفس ضروری ہے؟
۱۰ ایک اور حلقہ جہاں پر مسیحی بزرگوں کو ضبط نفس کو عمل میں لانے کے لیے احتیاط کی ضرورت ہے، وہ بزرگوں کے اجلاس ہیں۔ سچائی اور انصاف کی خاطر دلجمعی سے بولنے کے لیے بھی بعض اوقات ضبط نفس کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ گفتگو پر حاوی ہونے کی کوشش سے گریز کرنے کے لیے بھی ضبط نفس درکار ہے۔ جہاں ایک بزرگ میں ایسا کرنے کا میلان ہو، تو کسی دوسرے بزرگ کی طرف سے مشورت کا دیا جانا اس کے ساتھ ایک طرح کی مہربانی ہوگا۔ مقابلہ کریں ۳-یوحنا ۹۔
۱۱ اس وقت، بزرگوں کے اجلاسوں پر، ایک جوشیلا بزرگ جذباتی ہونے کی آزمائش میں پڑ سکتا ہے، شاید وہ اونچی آواز میں بات کرنے لگے۔ ایسی حرکات کس قدر ضبط نفس کی کمی کا ثبوت دیتی ہیں! یہ درحقیقت دوہری خودشکستگی ہے۔ ایک طرف تو، جس حد تک ایک شخص ضبط نفس کھو بیٹھتا ہے، اسی حد تک وہ منطق پر جذبات کو حاوی ہونے کی اجازت دینے سے اپنے معاملے کو خود ہی خراب کر دیتا ہے۔ اور دوسری طرف، ایک شخص جس حد تک جذباتی ہو جاتا ہے، وہ اپنے ساتھی بزرگوں کو پریشان کرنے یا انہیں مخالف بنانے کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، اگر بزرگ محتاط ، اور ہوشیار نہیں ر ہتے، تو اختلاف رائے بھی ان کے اندر نفاق ڈال سکتی ہے۔ یہ ان کے اپنے لئے اور کلیسیا کیلئے بھی نقصاندہ ہوتی ہے۔ مقابلہ کریں اعمال ۱۵:۳۶-۴۰۔
۱۲. کونسی حالتوں کے ساتھ نپٹتے وقت بزرگوں کو لازماً ضبط نفس کو عمل میں لانے کے لیے محتاط رہنا چا ہیے؟
۱۲ اپنی طاقت کا غلط استعمال کرنے یا طرفدار بننے سے گریز کرنے کیلیے بھی بزرگوں کو ضبط نفس کی بےحد ضرورت ہے۔ اس آزمائش میں پڑ جانا اتنا آسان ہے، کہ ہم ناکامل انسانی پاسولحاظ کو جو کچھ ایک شخص کہتا یا کرتا ہے اس پر اثرانداز ہونے دیں! اکثر اوقات، بزرگ اس وقت دانشمندی سے کام کرنے میں ناکام رہے ہیں جب انکے بچوں میں سے کوئی یا انکا کوئی اور عزیز غلط کاری کا مرتکب پایا گیا ہے۔ ایسی حالتوں میں ضبط نفس درکار ہوتا ہے تاکہ خونی رشتوں کو انصاف کے کاموں پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔ استثنا ۱۰:۱۷۔
۱۳. کیوں عدالتی سماعتوں پر مقرر بزرگوں کے لیے ضبط نفس خاص طور پر ضروری ہے؟
۱۳ ایک اور حالت جس میں ضبط نفس انتہائی ضروری ہے وہ ہے جب کسی عدالتی مقدمہ کی سماعت ہوتی ہے۔ بزرگوں کو ضبط نفس کو عمل میں لانا چاہیے تاکہ وہ بےجا طور پر جذبات سے متاثر نہ ہوں۔ انہیں بہت آسانی سے آنسوؤں سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ اور اس کیساتھ ساتھ ، ایک بزرگ کو محتاط رہنا چا ہیے کہ جب اس پر الزامات اور بہتان لگائے جائیں تو وہ اپنا اطمینان نہ کھو بیٹھے، جیسا کہ برگشتہ لوگوں کے معاملات نپٹانے کے سلسلہ میں ہو سکتا ہے۔ یہاں پولس کے یہ الفاظ نہایت موزوں ہیں: ”اور مناسب نہیں کہ خداوند کا بندہ جھگڑا کرے بلکہ سب کیساتھ نرمی کرے۔“ دباؤ کے تحت نرمی دکھانے کیلئے ضبط نفس کو عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔ پولس مزید ظاہر کرتا ہے کہ ”خداوند کے بندے“ کو لازم ہے کہ ”بردباد ہو اور مخالفوں کو حلیمی سے تادیب کرے۔“ مخالفت کے وقت خود کو قابو میں رکھنے اور حلیمی ظاہر کرنے کیلئے بہت زیادہ ضبط نفس درکار ہے۔ ۲-تیمتھیس ۲:۲۴، ۲۵۔
مخالف جنس کے ساتھ ضبط نفس
۱۴. مخالف جنس کے ساتھ اپنے برتاؤ کے سلسلے میں بزرگوں کو کونسی عمدہ نصیحت پر دھیان دینا چا ہیے؟
۱۴ بزرگوں کو خاص طور پر اس وقت ضبط نفس کو عمل میں لانے کے لیے خبردار رہنا چاہیے جب مخالف جنس کے ساتھ ان کے برتاؤ کی بات آتی ہے۔ ایک بزرگ کیلئے یہ غیردانشمندانہ ہو گا کہ وہ ایک بہن کے پاس گلہبانی کی ملاقات کیلئے تنہا جا ئے۔ بزرگ کے ساتھ کسی ایک بزرگ یا خدمتگذار خادم کا ہونا ضروری ہے۔ غالباً اسی مسئلے کی قدر کرتے ہو ئے، پولس نے بزرگ تیمتھیس کو نصیحت کی: ”بڑی عمر والی عورتوں کو ماں جانکر اور جوان عورتوں کو بہن جانکر کمال پاکیزگی . . . سے عزت کر۔“ (۱-تیمتھیس ۵:۱، ۲) بعض بزرگوں کو کسی بہن کو گویا پدرانہ انداز سے ہاتھ لگاتے دیکھا گیا ہے۔ لیکن یہ خود کو دھوکا دینا ہو سکتا ہے، کیونکہ خالص مسیحی محبت کی بجائے رومانی جذبات بھی اس طرح کے انداز کو تحریک دے سکتے ہیں۔ مقابلہ کریں ۱-کرنتھیوں ۷:۱۔
۱۵. کیسے ایک واقعہ یہوواہ کے نام پر لائی گئی رسوائی کو نمایاں کرتا ہے جو ایک بزرگ کے ضبط نفس کو عمل میں نہ لانے کی وجہ سے آ سکتی ہے؟
۱۵ بعض بزرگوں کے کلیسیائی بہنوں کے ساتھ برتاؤ میں ضبط نفس کو عمل میں نہ لانے کی وجہ سے سچائی کو بڑا نقصان پہنچا ہے! چند سال گذرے، ایک بزرگ کو ایک مسیحی بہن کے ساتھ جس کا شوہر گواہ نہیں تھا حرامکاری کرنے کی وجہ سے خارج کر دیا گیا۔ اسی رات جب اس سابقہ بزرگ کے خارج کیے جانے کا اعلان ہوا، تو وہ ستمزدہ شوہر بندوق کے ساتھ کنگڈمہال میں داخل ہوا اور دونوں خطاکار اشخاص پر گولی چلا دی۔ ان میں سے کوئی بھی مرا تو نہیں، کیونکہ فوراً ہی اس سے بندوق لے لی گئی، لیکن اگلے دن ایک بڑے اخبار نے اپنے سرورق پر یہ خبر لگائی ”ایک چرچ میں گولی چلی۔“ اس بزرگ کے ضبط نفس کی کمی کی وجہ سے کلیسیا اور یہوواہ کے نام پر کتنی رسوائی آئی!
دوسرے حلقوں میں ضبط نفس
۱۶. پبلک تقریر پیش کرتے وقت کیوں بزرگوں کو ضبط نفس کو عمل میں لانے کی بابت ہوشیار ہونا چا ہیے؟
۱۶ اس وقت بھی ضبط نفس کی بےحد ضرورت ہوتی ہے جب کوئی بزرگ ایک پبلک تقریر پیشکرتا ہے۔ ایک پبلک مقرر کو پراعتماد ہونے، اور توازنواطمینان کا ایک نمونہ ہونا چا ہیے۔ بعض محض لطف اٹھانے کی خاطر اپنے سامعین کو بہت سی ظرافت بھری باتوں سے ہنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ شاید اس غلط فہمی پر منتج ہو کہ یہ سب کچھ محض سامعین کو خوش کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہ، کسی بھی طرح کی آزمائش میں پڑنا ضبط نفس کی کمی ہی تو ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تقر یر دیتے وقت اوورٹائم جانا بھی ضبط نفس کی کمی، نیز تیاری کی کمی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
۱۷، ۱۸. ایک بزرگ کے اپنی مختلف ذمہداریوں کو متوازن بنانے میں ضبط نفس کیا کردار ادا کرتا ہے؟
۱۷ محنت سے کام کرنے والے ہر بزرگ کو اپنے وقت اور طاقت کے مختلف تقاضوں میں توازن کے چیلنج کا سامنا کرنا چا ہیے۔ کسی بھی طرح سے انتہا تک نہ جانے کے لیے ضبط نفس درکار ہے۔ بعض بزرگ کلیسیا کے تقاضوں کے لیے اتنے فکرمند ہیں کہ وہ اپنے خاندانوں سے غافل ہو گئے ہیں۔ پس، جب ایک بہن نے ایک بزرگ کی بیوی کو یہ بتایا کہ اس نے اس سے گلہبانی کیلئے بڑی اچھی ملاقات کی ہے، تو اس بزرگ کی بیوی پکار اٹھی: ”کاش وہ کبھی مجھ سے بھی گلہبانی کی ملاقات کرے!“ ۱-تیمتھیس ۳:۲، ۴، ۵۔
۱۸ ایک بزرگ کو اس وقت میں بھی توازن رکھنے کیلئے ضبط نفس کی ضرورت ہے جو وہ ذاتی مطالعہ کیلئے صرف کرتا ہے یا میدانی خدمت کیلئے یا گلہبانی کی ملاقاتیں کرنے کیلئے استعمال کرتا ہے۔ انسانی دل کی حیلہبازیوں کے پیشنظر، ایک بزرگ کیلئے یہ بڑا آسان ہے کہ وہ اس کام میں ضرورت سے زیادہ وقت لگا دے جو اس کا دلپسند ہے۔ اگر وہ کتابیں پسند کرتا ہے، تو شاید وہ ضرورت سے زیادہ وقت ذاتی مطالعہ میں صرف کر دے۔ اگر گھر باگھر کی منادی اسے کسی حد تک مشکل لگتی ہے، تو شاید وہ گلہبانی کی ملاقاتیں کرنے کی اپنی دلچسپی کو اس سے غفلت برتنے کا بہانا بنا ئے۔
۱۹. بزرگوں کی ایسی کونسی ذمہداریاں ہیں جو ضبط نفس کی ضرورت کو نمایاں کر دیتی ہیں؟
۱۹ رازداری برقرار رکھنے کی ذمہداری بھی ایک بزرگ سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ ضبط نفس کو عمل میں لانے کے لیے خبردار ر ہے۔ یہ مشورت بڑی برمحل ہے: ”کسی دوسرے کا راز فاش نہ کر۔“ (امثال ۲۵:۹) تجربہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بزرگوں کے تقاضوں میں سے اس ایک کو نہایت وسیع طور پر توڑا جاتا ہے۔ اگر ایک بزرگ کی ذہین اور شفیق بیوی ہے جس کے ساتھ اس کا اچھا رابطہ ہے، تو اس کی طرف سے رازداری والے معاملات کی بابت ذکر کرنے یا ان پر گفتگو کرنے کے میلان کی گنجائش ہے۔ لیکن یہ انتہائی غیردانشمندانہ اور نامناسب بات ہے۔ سب سے پہلے تو یہ، کہ یہ اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ روحانی بھائی اور بہنیں بزرگوں کے پاس آتے اور انہیں رازدار بناتے ہیں کیونکہ انہیں یہ اعتماد ہوتا ہے کہ معاملے کو پوری طرح سے راز میں رکھا جائے گا۔ اپنی بیوی کو راز کی باتیں بتانا غلط ، غیردانشمندانہ، اور غیرمشفقانہ ہے کیونکہ ایسا کرنا اس پر غیرضروری بوجھ بھی ڈال دیتا ہے۔ امثال ۱۰:۱۹، ۱۱:۱۳۔
۲۰. بزرگوں کے لیے یہ اس قدر ضروری کیوں ہے کہ وہ ضبط نفس کو عمل میں لائیں؟
۲۰ اس میں کوئی شک نہیں، کہ ضبط نفس اس قدر اہم ہے، اور خاص طور پر بزرگوں کے لیے! اس لئے کہ یہوواہ کے لوگوں کے درمیان پیشوائی کرنے کا شرف حاصل کرنے کی وجہ سے انہیں زیادہ حساب دینا پڑے گا۔ چونکہ انہیں زیادہ دیا گیا ہے، اسلئے ان سے زیادہ طلب کیا جائے گا۔ (لوقا ۱۲:۴۸، ۱۶:۱۰، مقابلہ کریں یعقوب ۳:۱۔) یہ بزرگوں کا فرض اور استحقاق ہے کہ وہ دوسروں کے لیے عمدہ نمونہ قائم کریں۔ اس سے بھی بڑھ کر، مقررشدہ بزرگ اس حالت میں ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں سے زیادہ یا تو بھلائی کر سکیں یا پھر نقصان کر سکیں، جو کہ اکثر ان کے ضبط نفس کو عمل میں لانے یا نہ لانے پر منحصر ہوتا ہے۔ پھر کیا عجب ہے اگر پولس نے کہا: ”نگہبان کو . . . ضبط نفس والا ہونا چا ہیے۔“ (۲۰ ۱۱/۱۵ w۹۱)
کیا آپ کو یاد ہے؟
▫ بزرگوں کے کونسے صحیفائی تقاضے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں لازماً ضبط نفس کو عمل میں لانا چا ہیے؟
▫ ساتھی ایمانداروں کے ساتھ برتاؤ کے دوران کیوں بزرگوں کو ضبط نفس کی ضرورت ہے؟
▫ بزرگوں کے اجلاسوں پر کیسے ضبط نفس کو عمل میں لایا جانا چا ہیے؟
▫ رازداری کو برقرار رکھنے کی ضرورت کے پیشنظر بزرگوں کو کونسا چیلنج درپیش ہے؟
[تصویر]
بزرگوں کے اجلاس پر ضبط نفس کا مظاہرہ نہایت ضروری ہے لازم ہے کہ مسیحی بزرگ ضبط نفس کا مظاہرہ کریں اور رازداری کو برقرار رکھیں