مطالعے کا مضمون نمبر 2
”اپنی سوچ کا رُخ موڑ کر خود کو مکمل طور پر بدل لیں“
”اپنی سوچ کا رُخ موڑ کر خود کو مکمل طور پر بدل لیں تاکہ آپ جان جائیں کہ خدا کی اچھی اور پسندیدہ اور کامل مرضی کیا ہے۔“ —روم 12:2۔
گیت نمبر 88: ”اپنی راہیں مجھے دِکھا“
مضمون پر ایک نظرa
1-2. ہمیں بپتسمے کے بعد بھی کیا کرتے رہنا چاہیے؟ وضاحت کریں۔
آپ اپنے گھر کو کتنی بار صاف کرتے ہیں؟ شاید جب آپ اپنے گھر میں شفٹ ہوئے تھے تو آپ نے اِسے بڑی اچھی طرح صاف کِیا تھا۔ لیکن اگر آپ اِسے صاف کرنا چھوڑ دیں گے تو کیا ہوگا؟ آپ جانتے ہیں کہ گرد اور گندگی چیزوں پر بڑی جلدی جم جاتی ہے۔ اِس لیے اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا گھر اچھا دِکھے تو آپ کو اِسے باقاعدگی سے صاف کرنا ہوگا۔
2 اپنی سوچ اور شخصیت کو صحیح رکھنے کے لیے بھی ہمیں ایسا ہی کچھ کرنا ہوگا۔ بےشک بپتسمہ لینے سے پہلے ہم نے بہت سخت محنت کی تاکہ ہم ”اپنے جسم اور اپنی سوچ کو ہر طرح کی ناپاکی سے پاک کریں۔“ (2-کُر 7:1) لیکن اب ہمیں پولُس کی اِس نصیحت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنی سوچ کو ”نیا بناتے جائیں۔“ (اِفس 4:23) ایسا کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟ کیونکہ اِس دُنیا کی گرد اور گندگی جیسی سوچ ہمیں یہوواہ کی نظر میں ناپاک بنا سکتی ہے۔ اِس سے بچنے اور یہوواہ کی نظر میں پاک رہنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی سوچ، شخصیت اور اپنی خواہشوں کا جائزہ لیتے رہیں۔
”اپنی سوچ کا رُخ“ موڑتے جائیں
3. اپنی ”سوچ کا رُخ“ موڑنے کا کیا مطلب ہے؟ (رومیوں 12:2)
3 ہمیں اپنی سوچ کے رُخ کو کیوں موڑنا چاہیے یعنی ہمیں اپنی سوچ کیوں بدلنی چاہیے؟ (رومیوں 12:2 کو پڑھیں۔) اپنی ’سوچ کے رُخ‘ کو موڑنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم صرف اچھے کام کریں۔ اچھے کام کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اِس بات پر بھی دھیان دینا ہوگا کہ ہم اندر سے کیسے اِنسان ہیں۔ اور اگر ہمیں لگے کہ ہمیں خود میں بہتری لانی چاہیے تو ہمیں ایسا ضرور کرنا چاہیے تاکہ ہم ویسے شخص بن سکیں جیسے یہوواہ چاہتا ہے۔ ہمیں ایسا صرف ایک یا دو بار نہیں بلکہ لگاتار کرتے رہنا ہوگا۔
4. ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ شیطان کی دُنیا ہماری سوچ پر اثر نہ ڈال سکے؟
4 جب ہم بےعیب ہو جائیں گے تو ہم اپنے ہر کام سے یہوواہ کو خوش کر پائیں گے۔ لیکن تب تک ہمیں یہوواہ کو خوش کرنے کے لیے سخت محنت کرنی ہوگی۔ غور کریں کہ رومیوں 12:2 میں پولُس نے کہا تھا کہ ہمیں اپنی سوچ کا رُخ موڑنے کی ضرورت اِس لیے ہے تاکہ ہم جان سکیں کہ خدا کی مرضی کیا ہے۔ ہمیں اِس دُنیا کی سوچ کو یہ اِجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ ہمارے منصوبوں اور فیصلوں پر اثر ڈالے۔ اِس کی بجائے کوئی منصوبہ بنانے یا کوئی فیصلہ لینے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اِس بارے میں خدا کی مرضی کیا ہے۔
5. ہم اِس بات کا اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں کہ ہم نے یہوواہ کے دن کو اپنے ذہن میں رکھا ہوا ہے یا نہیں؟ (تصویر کو دیکھیں۔)
5 اپنی سوچ کا رُخ موڑنے کے حوالے سے ایک مثال پر غور کریں۔ یہوواہ چاہتا ہے کہ ہم ’اُس کے دن کو ذہن میں رکھیں۔‘ (2-پطر 3:12) خود سے پوچھیں: ”کیا میری زندگی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مجھے پتہ ہے کہ یہ بُری دُنیا بہت جلد ختم ہونے والی ہے؟“ ”کیا تعلیم اور نوکری کے حوالے سے میرے فیصلوں سے نظر آتا ہے کہ میری نظر میں یہوواہ کی عبادت سب سے اہم ہے؟“ ”کیا مَیں ہر وقت پیسہ کمانے کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں یا کیا مجھے یقین ہے کہ یہوواہ میری اور میرے گھر والوں کی ضرورتیں پوری کرے گا؟“ ذرا سوچیں کہ یہوواہ یہ دیکھ کر کتنا خوش ہوتا ہوگا کہ ہم اُس کی مرضی کے مطابق زندگی گزرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔—متی 6:25-27، 33؛ فل 4:12، 13۔
6. ہمیں کیا کرتے رہنا چاہیے؟
6 ہمیں باقاعدگی سے اپنی سوچ کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ اور اگر ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں کسی جگہ خود میں بہتری لانی ہے تو ہمیں خود میں بہتری لانی چاہیے۔ پولُس نے کُرنتھس میں رہنے والے مسیحیوں سے کہا تھا: ”اپنا جائزہ لیتے رہیں کہ آپ سیدھی راہ پر چل رہے ہیں یا نہیں؛ بار بار اپنے آپ کو پرکھیں۔“ (2-کُر 13:5) ”سیدھی راہ“ پر چلنے کا مطلب بس یہ نہیں ہے کہ ہم عبادتوں میں جائیں اور کبھی کبھار مُنادی کریں۔ اِس میں ہماری سوچ، خواہشیں اور نیت بھی شامل ہے۔ اِس لیے اپنی سوچ کا رُخ بدلنے کے لیے ہمیں خدا کا کلام پڑھنا ہوگا، اُس کی طرح سوچنا ہوگا اور پھر خود میں بہتری لا کر اپنی زندگی کو خدا کی مرضی کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔—1-کُر 2:14-16۔
”نئی شخصیت کو پہن لیں“
7. (الف) اِفسیوں 4:31، 32 کے مطابق ہمیں اَور کیا کرنا چاہیے؟ (ب) ایسا کرنا مشکل کیوں ہو سکتا ہے؟
7 اِفسیوں 4:31، 32 کو پڑھیں۔ اپنی سوچ کو بدلنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ’نئی شخصیت کو بھی پہننا‘ ہوگا۔ (اِفس 4:24) ایسا کرنے کے لیے ہمیں سخت محنت کرنی ہوگی۔ اِس میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اپنے اندر سے رنجش، غصے اور حسد کو نکال دیں۔ ایسا کرنا مشکل کیوں ہو سکتا ہے؟ کیونکہ کچھ عادتیں ایک شخص کی شخصیت کا حصہ بن چُکی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر بائبل میں بتایا گیا ہے کہ کچھ لوگ ”قہرآلودہ اور غضبناک“ ہوتے ہیں۔ (امثا 29:22) جس شخص میں بُری عادتیں ہوتی ہیں اُسے شاید بپتسمے کے بعد بھی خود کو بدلنے کے لیے مسلسل کوشش کرنی پڑے۔ یہ بات اگلے پیراگراف میں دی گئی مثال سے پتہ چلتی ہے۔
8-9. بھائی سٹیون کی مثال سے کیسے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں پُرانی شخصیت کو اُتار پھینکنے کے لیے مسلسل کام کرنا ہوگا؟
8 سٹیون نام کے ایک بھائی کو اپنے غصے پر قابو پانا بہت مشکل لگتا تھا۔ اُنہوں نے کہا: ”بپتسمہ لینے کے بعد بھی مجھے اپنے غصے پر قابو پانے کی سخت کوشش کرنی پڑی۔ مثال کے طور پر ایک بار جب ہم گھر گھر تبلیغ کر رہے تھے تو ایک چور میری گاڑی سے ریڈیو چُرا کر بھاگا۔ مَیں نے اُس کا پیچھا کِیا۔ مَیں جیسے ہی اُس کے قریب پہنچا، وہ ریڈیو زمین پر پھینک کر بھاگ گیا۔اِس کے بعد مَیں نے اپنے ساتھ مُنادی کرنے والے بہن بھائیوں کو بتایا کہ مَیں نے اُس چور سے اپنا ریڈیو کیسے حاصل کِیا۔ اِس پر ایک بزرگ نے مجھ سے پوچھا: ”سٹیون! اگر آپ اُس چور کو پکڑ لیتے تو آپ اُس کے ساتھ کیا کرتے؟“ اِس سوال نے مجھے سوچ میں ڈال دیا اور مجھے ترغیب ملی کہ مَیں دوسروں کے ساتھ صلح سے رہنے کی پوری کوشش کرتا رہوں۔“b
9 بھائی سٹیون کی مثال سے پتہ چلتا ہے کہ اگر ہمیں لگتا ہے کہ ہم نے اپنی کسی بُری عادت کو چھوڑ دیا ہے تو بھی یہ اچانک سے ہمارے سامنے آ سکتی ہے۔ اگر آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے تو ہمت نہ ہاریں۔ یہ نہ سوچیں کہ آپ ایک اچھے مسیحی نہیں ہیں۔ پولُس رسول کے ساتھ بھی ایسا ہوا تھا۔ اُنہوں نے کہا: ”مَیں اچھے کام تو کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھ میں بُرائی کا رُجحان موجود ہے۔“ (روم 7:21-23) عیبدار ہونے کی وجہ سے سب مسیحیوں میں ایسی بُری عادتیں ہوتی ہیں جو نہ چاہتے ہوئے بھی اکثر اُن کے سامنے آ جاتی ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے گرد اور گندگی ہمارے گھر میں بار بار آ جاتی ہے۔ جس طرح اپنے گھر سے گرد اور گندگی کو صاف کرنے کے لیے ہمیں مسلسل کام کرنا پڑتا ہے اُسی طرح اپنی بُری عادتوں پر قابو پانے کے لیے ہمیں مسلسل محنت کرنی ہوگی۔ ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟
10. ہم اپنی بُری عادتوں کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ (1-یوحنا 5:14، 15)
10 اپنی اُس عادت کے بارے میں یہوواہ سے دُعا کریں جسے چھوڑنا آپ کو مشکل لگ رہا ہے۔ اور اِس بات کا یقین رکھیں کہ وہ آپ کی دُعا سنے گا اور آپ کی مدد کرے گا۔ (1-یوحنا 5:14، 15 کو پڑھیں۔) یہوواہ کوئی معجزہ کر کے آپ کی اُس عادت کو ختم تو نہیں کر دے گا لیکن وہ آپ کو اِس عادت پر قابو پانے کی ہمت دے گا۔ (1-پطر 5:10) اِس کے ساتھ ساتھ ایسی چیزوں سے بھی دُور رہیں جن کی وجہ سے آپ میں پھر سے وہ عادتیں جڑ پکڑ سکتی ہیں جنہیں آپ چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثال کے طور ایسی فلمیں اور ڈرامے نہ دیکھیں اور ایسی کتابیں نہ پڑھیں جن میں اُن عادتوں کو بہت اچھا دِکھایا جاتا ہے جنہیں آپ چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور غلط خواہشوں کے بارے میں نہ سوچتے رہیں۔—فل 4:8؛ کُل 3:2۔
11. ہم نئی شخصیت کو پہننے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
11 ہمیں پُرانی شخصیت کو تو اُتارنا ہی ہے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ نئی شخصیت کو پہننا بھی بہت ضروری ہے۔ ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟ جب آپ کو یہوواہ کی کسی خوبی کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو سوچیں کہ آپ اُس خوبی کو کیسے ظاہر کر سکتے ہیں۔ (اِفس 5:1، 2) مثال کے طور پر جب آپ بائبل سے کوئی ایسا واقعہ پڑھتے ہیں جس میں یہوواہ کی معاف کرنے کی خوبی نظر آتی ہے تو خود سے پوچھیں: ”کیا مَیں دوسروں کو معاف کرتا ہوں؟“ جب آپ کوئی ایسا واقعہ پڑھتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہوواہ کو غریبوں سے ہمدردی ہے تو خود سے پوچھیں: ”کیا مَیں بھی اپنے ضرورتمند بہن بھائیوں کے لیے ایسی ہی فکر رکھتا ہوں اور اُن کی مدد کرنے کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہوں؟“ نئی شخصیت کو پہننے سے اپنی سوچ کا رُخ بدلتے جائیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ ایسا کرنے میں وقت لگ سکتا ہے۔
12. بھائی سٹیون نے یہ کیسے دیکھا کہ بائبل میں زندگیاں بدلنے کی طاقت ہے؟
12 سٹیون جن کا اِس مضمون میں پہلے بھی ذکر ہوا ہے، اُنہوں نے دیکھا کہ اُنہوں نے آہستہ آہستہ نئی شخصیت کو پہن لیا ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”بپتسمے کے بعد کے سالوں میں بھی مجھے بہت سی ایسی صورتحال کا سامنا ہوا جس میں مَیں غصے میں آپے سے باہر ہو سکتا تھا۔ لیکن مَیں نے سیکھ لیا کہ یا تو مَیں اُن لوگوں کے پاس سے چلا جاؤں جو مجھے غصہ دِلا رہے ہیں یا پُرسکون رہ کر مسئلے کو حل کروں۔ میری بیوی اور بہت سے لوگوں نے مجھے اِس بات پر داد دی ہے کہ مَیں نے بڑا ہی پُرسکون رہ کر اِس طرح کے مسئلوں کو حل کِیا ہے۔ مَیں خود بھی اِس بات پر بڑا حیران تھا۔ میری شخصیت میں جو بھی تبدیلیاں آئی ہیں، مَیں اُن کا سہرا اپنے سر نہیں لیتا۔ اِس کی بجائے مَیں یہ مانتا ہوں کہ خدا کے کلام میں زندگیاں بدلنے کی طاقت ہے۔“
غلط خواہشوں سے لڑتے رہیں
13. کیا چیز اپنے اندر اچھی خواہشیں پیدا کرنے میں ہماری مدد کرے گی؟ (گلتیوں 5:16)
13 گلتیوں 5:16 کو پڑھیں۔ یہوواہ ہمیں اپنی پاک روح دیتا ہے تاکہ ہم صحیح کام کرنے کی اپنی کوششوں میں کامیاب ہو سکیں۔ جب ہم خدا کا کلام پڑھتے ہیں تو ہم پاک روح کو اپنے اُوپر اثر کرنے دیتے ہیں۔ اور جب ہم عبادتوں میں جاتے ہیں تو تب بھی ہمیں پاک روح ملتی ہے۔ عبادتوں میں جانے سے ہم اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ وقت گزار سکتے ہیں جو ہماری ہی طرح صحیح کام کرنے کی بڑی سخت کوشش کر رہے ہیں۔ اِس سے ہمیں حوصلہ ملتا ہے۔ (عبر 10:24، 25؛ 13:7) جب ہم اپنی کسی خامی پر قابو پانے کے لیے یہوواہ سے مدد کی اِلتجا کرتے ہیں تو وہ ہمیں اپنی پاک روح دیتا ہے تاکہ ہم اپنی غلط خواہش سے لڑ سکیں۔ یہ سب کام کرنے سے ہو سکتا ہے کہ ہمارے اندر سے غلط خواہشیں تو ختم نہ ہوں لیکن ہم یہ کوشش ضرور کر پائیں گے کہ ہم اِن خواہشوں کو پورا نہ کریں۔ جیسے کہ گلتیوں 5:16 میں بتایا گیا ہے؛ جو لوگ پاک روح کے مطابق چلتے ہیں، وہ ”جسم کی خواہشوں کو بالکل پورا نہیں کریں گے۔“
14. یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر اچھی خواہشیں پیدا کرتے رہیں؟
14 جب ہم ایسے کام کرنا شروع کر دیتے ہیں جن کی وجہ سے ہم یہوواہ کے قریب رہ پاتے ہیں تو ہمیں یہ کام کبھی بھی نہیں چھوڑنے چاہئیں اور اپنے اندر اچھی خواہشیں پیدا کرتے رہنا چاہیے۔ ایسا کرنا کیوں ضروری ہے؟ کیونکہ ہمارا ایک دُشمن ہم پر مسلسل حملے کرتا رہتا ہے۔ اور وہ دُشمن ہے: غلط کام کرنے کی آزمائش۔ ہو سکتا ہے کہ بپتسمہ لینے کے بعد بھی ہمارا دل ایسے کام کرنے کو چاہے جنہیں ہمیں نہیں کرنا چاہیے جیسے کہ جُوا یا شرط لگا کر کوئی کھیل کھیلنا، حد سے زیادہ شراب پینا یا گندی فلمیں یا تصویریں دیکھنا۔ (اِفس 5:3، 4) ایک جوان بھائی کے ساتھ بھی بپتسمہ لینے کے بعد ایسا ہی ہوا۔ اُس نے کہا: ”اپنی جس غلط خواہش سے لڑنا مجھے سب سے زیادہ مشکل لگ رہا تھا، وہ یہ تھی کہ مجھے اپنی ہی جنس کے لوگوں کی طرف کشش محسوس ہوتی تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ یہ خواہش آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی۔ لیکن مجھے ابھی بھی اِس سے لڑنا پڑتا ہے۔“ اگر آپ کی کوئی غلط خواہش بہت شدید ہے تو کیا چیز اِس سے لڑنے میں آپ کی مدد کر سکتی ہے؟
15. ہمیں یہ جان کر تسلی کیوں ملتی ہے کہ دوسروں کو بھی اپنی غلط خواہشوں سے لڑنا پڑتا ہے؟ (تصویر کو دیکھیں۔)
15 جب آپ کسی ایسی غلط خواہش سے لڑ رہے ہوتے ہیں جو بہت شدید ہوتی ہے تو یاد رکھیں کہ دوسروں کو بھی ایسی خواہشوں سے لڑنا پڑتا ہے۔ بائبل میں لکھا ہے: ”آپ نے جن جن آزمائشوں کا سامنا کِیا ہے، وہ انوکھی نہیں ہیں بلکہ دوسروں پر بھی آتی ہیں۔“ (1-کُر 10:13) بائبل کے ایک اَور ترجمے میں یہ آیت اِس طرح سے لکھی ہے: ”آپ . . . ایسی آزمائشوں میں پڑے ہیں جو اِنسان کے لئے عام ہوتی ہیں۔“ یہ بات پولُس رسول نے خدا کے اِلہام سے کُرنتھس میں رہنے والے مسیحی مردوں اور عورتوں کو لکھی تھی۔ اِن میں سے کچھ لوگ مسیحی بننے سے پہلے حرامکار، ہمجنسپرست اور شرابی تھے۔ (1-کُر 6:9-11) آپ کے خیال میں کیا بپتسمہ لینے کے بعد اُن کے دل میں کبھی کوئی غلط خواہش نہیں آئی ہوگی؟ ہو سکتا ہے کہ آئی ہو۔ سچ ہے کہ وہ سب مسحشُدہ مسیحی تھے لیکن وہ تھے تو عیبدار اِنسان ہی نا۔ بےشک اُنہیں کبھی کبھار غلط خواہشوں سے لڑنا پڑتا ہوگا۔ اِس سے ہمیں بہت تسلی ملتی ہے۔ لیکن کیوں؟ کیونکہ اِس سے ہم جان جاتے ہیں کہ ہم جس غلط خواہش کا مقابلہ کر رہے ہیں، اُس سے کوئی اَور بھی لڑ چُکا ہے۔ بےشک آپ اپنا ایمان مضبوط رکھ سکتے ہیں اور یہ یاد رکھ سکتے ہیں کہ ”پوری دُنیا میں آپ کے ہمایمان اِسی طرح کی مصیبتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔“—1-پطر 5:9۔
16. ہمیں کس چیز سے خبردار رہنا چاہیے اور کیوں؟
16 ہمیں اِس سوچ سے خبردار رہنا چاہیے کہ ہم جس مشکل سے گزر رہے ہیں اُسے کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ اگر ہم ایسا سوچیں گے تو ہمیں یہ لگنے لگے گا کہ ہم اپنی غلط خواہشوں کے آگے بالکل بےبس ہیں اور ہم میں اِن سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے۔ یاد رکھیں کہ بائبل میں یہ بتایا گیا ہے: ”خدا وعدے کا پکا ہے اور وہ آپ کو کسی ایسی آزمائش میں نہیں پڑنے دے گا جو آپ کی برداشت سے باہر ہو بلکہ وہ ہر آزمائش کے ساتھ کوئی نہ کوئی راستہ بھی نکالے گا تاکہ آپ ثابتقدم رہ سکیں۔“ (1-کُر 10:13) اِس لیے چاہے ہماری کوئی غلط خواہش کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو، یہوواہ کی مدد سے ہم اِس سے لڑ سکتے ہیں۔
17. شاید ہم اپنے دل میں غلط خواہشیں آنے سے تو نہ روک سکیں لیکن پھر بھی ہم کیا کر سکتے ہیں؟
17 یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ عیبدار ہونے کی وجہ سے شاید ہم اپنے دل میں غلط خواہشیں پیدا ہونے سے تو نہ روک پائیں لیکن جب ہمارے دل میں ایسی خواہشیں پیدا ہوتی ہیں تو ہم یوسف کی طرح فوراً اِنہیں اپنے دل سے ختم کرنے کے لیے قدم اُٹھا سکتے ہیں۔ جب فوطیفار کی بیوی اُنہیں زِنا کرنے کے لیے اُکسا رہی تھی تو وہ فوراً اُس کے پاس سے بھاگ گئے۔ (پید 39:12) غلط خواہشوں کو روکنا شاید ہمارے بس میں نہ ہو۔ لیکن اِنہیں پورا کرنا یا نہ کرنا ہمارے ہاتھ میں ہے۔
مسلسل کوشش کرتے رہیں
18-19. جب ہم اپنی سوچ کا رُخ موڑنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو ہمیں خود سے کون سے سوال پوچھنے چاہئیں؟
18 اِس مضمون سے ہم نے سیکھا ہے کہ اپنی سوچ کا رُخ موڑنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایسی سوچ رکھیں اور ایسے کام کریں جن سے یہوواہ خوش ہو۔ ایسا کرنے کے لیے ہمیں باقاعدگی سے اپنا جائزہ لینا چاہیے اور خود سے یہ سوال پوچھنے چاہئیں: ”کیا میرے کاموں سے نظر آتا ہے کہ مجھے پتہ ہے کہ ہم آخری زمانے میں رہ رہے ہیں؟“ ”کیا مَیں نئی شخصیت کو پہننے کی کوشش کر رہا ہوں؟“ ”کیا مَیں یہوواہ کی پاک روح کو اپنی زندگی پر اثر کرنے دے رہا ہوں تاکہ مَیں جسم کی خواہشوں کو پورا کرنے سے بچ سکوں؟“
19 جب آپ اپنا جائزہ لے رہے ہوتے ہیں تو خود سے حد سے زیادہ توقعات نہ کریں۔ آپ اب تک جو کچھ کر چُکے ہیں، اُس کی وجہ سے خوش ہوں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو کہیں بہتری لانے کی ضرورت ہے تو بےحوصلہ نہ ہوں۔ اِس کی بجائے اُس نصیحت پر عمل کریں جو فِلپّیوں 3:16 میں لکھی ہے۔ اِس آیت میں لکھا ہے: ”ہم نے جتنی بھی پختگی حاصل کر لی ہو، آئیں، آگے بڑھتے رہیں۔“ جب آپ ایسا کرتے ہیں تو اِس بات کا یقین رکھیں کہ آپ اپنی سوچ کا رُخ موڑنے کے لیے جو بھی کوششیں کر رہے ہیں، یہوواہ اُن میں آپ کی مدد ضرور کرے گا۔
گیت نمبر 36: اپنے دل کی حفاظت کریں
a پولُس رسول نے اپنے ہمایمانوں سے کہا تھا کہ وہ اپنی سوچ اور کاموں پر دُنیا کی سوچ کا اثر نہ ہونے دیں۔ ہمیں بھی پولُس کی اِس نصیحت پر عمل کرنا چاہیے۔ ہمیں اِس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ اِس دُنیا کی سوچ ہماری سوچ اور کاموں پر اثر نہ کرے۔ لیکن اگر ہمیں لگتا ہے کہ ہماری سوچ اور کام یہوواہ کی مرضی کے مطابق نہیں ہیں تو ہمیں فوراً اِنہیں ٹھیک کرنا چاہیے۔ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں۔
b jw.org پر حصہ ”پاک کلام کی تعلیم زندگی سنوارتی ہے“ میں مضمون ”میری زندگی بد سے بدتر ہوتی گئی“ کو پڑھیں۔
c تصویر کی وضاحت: ایک جوان بھائی سوچ رہا ہے کہ کیا اُسے یونیورسٹی جانا چاہیے یا کیا اُسے پہلکار بن جانا چاہیے۔