کیا آپ ”وقت کو غنیمت“ جانتے ہیں؟
پولس رسول نے پہلی صدی کے افسس کے مسیحیوں کو یہ نصیحت کی: ”پس غور سے دیکھو کہ کس طرح چلتے ہو۔ نادانوں کی طرح نہیں بلکہ داناؤں کی مانند چلو۔ اور وقت کو غنیمت جانو کیونکہ دن بُرے ہیں۔“ (افسیوں ۵:۱۵، ۱۶) یہ نصیحت ضروری کیوں تھی؟ اس سوال کے جواب کیلئے اُن حالتوں کا علم حاصل کرنا لازمی ہے جنکا اُس قدیم شہر کے مسیحیوں کو سامنا تھا۔
افسس اپنے مالودولت کے علاوہ انتہائی بداخلاقی، قابو سے باہر جُرم اور مختلف شیاطینی کاموں کے لئے بھی مشہور تھا۔ مزیدبرآں، مسیحیوں کو وقت کی بابت فلسفیانہ اعتقادات کا بھی سامنا تھا۔ افسس میں غیرمسیحی یونانی یہ نہیں مانتے تھے کہ وقت صرف ایک ہی سمت میں بڑھتا ہے۔ یونانی فلسفے کے مطابق زندگی تناسخ کے غیرمختتم چکر میں مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ اگر کوئی شخص ایک جنم میں وقت ضائع کر دیتا ہے تو وہ دوسرے جنم میں اسے دوبارہ حاصل کر سکتا ہے۔ ایسا طرزِفکر افسس کے مسیحیوں کو الہٰی عدالت کے علاوہ دیگر اہم معاملات کے لئے یہوواہ کے مقررہ وقت کے سلسلے میں لاپرواہی کی طرف مائل کر سکتا تھا۔ لہٰذا، ایسی صورتحال میں پولس کی یہ مشورت بالکل موزوں تھی کہ ”وقت کو غنیمت جانو۔“
پولس یہاں عام مفہوم میں وقت کا ذکر نہیں کر رہا تھا۔ اُس نے جو یونانی لفظ استعمال کِیا وہ کسی خاص مقصد کیلئے مقررہ وقت کی دلالت کرتا ہے۔ پولس دراصل پہلی صدی کے مسیحیوں کو الہٰی رحم اور نجات کی بخشش کا وقت ختم ہو جانے سے قبل سازگار یا مقبولیت کے اس وقت کو دانشمندی سے استعمال کرنے کا مشورہ دے رہا تھا۔—رومیوں ۱۳:۱۱-۱۳؛ ۱-تھسلنیکیوں ۵:۶-۱۱۔
ہم بھی ایسے ہی سازگار وقت میں رہ رہے ہیں۔ یہ مقبولیت کا وقت پھر کبھی نہیں آئے گا اس لئے دُنیا کی عارضی عیشوعشرت کی جستجو کرنے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے، مسیحی دستیاب وقت کو ’خدائی عقیدت‘ کے کاموں سے اپنے خالق، یہوواہ خدا کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط کرنے کے لئے صرف کرکے دانشمندی کا ثبوت دیں گے۔—۲-پطرس ۳:۱۱؛ زبور ۷۳:۲۸؛ فلپیوں ۱:۱۰۔