-
شادی میں تابعداری کا کیا مطلب ہے؟مینارِنگہبانی—1992ء | 1 ستمبر
-
-
تابعداری نسبتی ہے
ایک شوہر کا اپنی بیوی پر اختیار ہمہگیر نہیں ہے۔ بعض طریقوں سے ایک بیوی کی تابعداری کا موازنہ ایک دنیاوی حاکم کیلئے مسیحیوں کی تابعداری کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ خدا حکم دیتا ہے کہ ایک مسیحی کو ”اعلی حکومتوں کے تابع رہنا“ چاہیے۔ (رومیوں ۱۳:۱) تاہم جوکچھ ہمیں خدا کو ادا کرنا ہے اسکے ساتھ اس تابعداری کا ہمیشہ توازن رہنا چاہیے۔ یسوع نے کہا: ”جو قیصر ہے قیصر کو ادا کرو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو۔“ (مرقس ۱۲:۱۷) اگر قیصر (دنیاوی حکومت) اس چیز کا تقاضا کرتی ہے جو خدا کی ہے تو جو کچھ پطرس رسول نے کہا تھا وہ ہمیں یاد ہے: ”ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔“ اعمال ۵:۲۹۔
کچھ اسی طرح سے، اگر ایک مسیحی عورت ایک ایسے آدمی سے بیاہی ہوئی ہے جو مسیحی اصولوں کو نہیں سمجھتا یا قدر کرنے میں قاصر رہتا ہے تو پھر بھی، وہ اسکی تابعداری کرنے کی پابند ہے۔ خدا کے اس مقرر کردہ انتظام کے خلاف بغاوت کرنے کی بجائے، وہ اسکے ساتھ محبت اور پاسولحاظ سے پیش آ کر اچھا کریگی اور یوں اسکا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کریگی۔ شاید اسطرح کا اچھا چالچلن اسکے شوہر کو بدل دے، یہ اسے سچائی کیلئے بھی جیت سکتا ہے۔ (۱-پطرس ۳:۱، ۲) اگر اسکا شوہر اسے کوئی ایسا کام کرنے کا حکم دیتا ہے جسے خدا نے منع کیا ہے تو اسے یاد رکھنا ہوگا کہ اسکا سب سے بڑا حاکم خدا ہے۔ اگر وہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ بداخلاق جنسی کاموں میں حصہ لے، جیسے کہ بیوی بدلنا تو وہ پابند ہے کہ تابعداری نہ کرے۔ (۱-کرنتھیوں ۶:۹، ۱۰) اپنے شوہر کیلئے تابعداری کا انحصار اسکے ضمیر اور خدا کیلئے اسکی اولین تابعداری پر ہے۔
شاہ داؤد کے زمانے میں، ابیجیل نابال سے بیاہی ہوئی تھی، وہ ایک ایسا شخص تھا جو خدائی اصولوں کا احترام نہیں کرتا تھا اور جس نے داؤد اور اس کے آدمیوں سے نامہربانہ اور سخت سلوک کیا تھا۔ انہوں نے نابال کی ہزاروں بھیڑوں اور بکریوں کی حفاظت کی تھی، لیکن جب داؤد نے خوراک فراہم کرنے کی درخواست کی تو نابال نے کوئی بھی چیز دینے سے انکار کر دیا۔
جب اس نے سنا کہ اسکے شوہر کا بخیلانہ رویہ اسکے گھرانے پر تباہی لانے والا تھا تو ابیجیل نے داؤد کے پاس کھانا لے جانے کا خود فیصلہ کیا۔ ”تب ابیجیل نے جلدی کی اور دو سو روٹیاں اور مے کے دو مشکیزے اور پانچ پکیپکائی بھیڑیں اور بھنے ہوئے اناج کے پانچ پیمانے اور کشمش کے ایک سو خوشے اور انجیر کی دو سو ٹکیاں ساتھ لیں اور انکو گدھوں پر لاد لیا۔ اور اپنے چاکروں سے کہا تم مجھ سے آگے جاؤ دیکھو میں تمہارے پیچھے پیچھے آتی ہوں اور اس نے اپنے شوہر نابال کو خبر نہ کی۔“ ۱-سموئیل ۲۵:۱۸، ۱۹۔
کیا ابیجیل اپنے شوہر کی مرضی کے خلاف کام کرنے میں غلط تھی؟ اس معاملے میں نہیں۔ ابیجیل کی تابعداری نے اس سے یہ تقاضا نہیں کیا تھا اپنے شوہر کی طرح نامہربان ہو، خاصطور پر جب نابال کی غیردانشمندانہ روش نے اسکے سارے گھرانے کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ لہذا داؤد نے اس سے کہا: ”[یہوواہ] اسرائیل کا خدا مبارک ہو جس نے تجھے آج کے دن مجھ سے ملنے کو بھیجا۔ اور تیری عقلمندی مبارک ہو۔“ (۱-سموئیل ۲۵:۳۲، ۳۳) اسیطرح سے مسیحی بیویوں کو اپنے شوہروں کی سرداری کے خلاف بغاوت اور اضطراب سے کام نہیں لینا چاہیے، لیکن اگر یہ کوئی غیرمسیحی روش اختیار کریں تو اس سلسلے میں بیویوں کو انکی پیروی نہیں کرنی ہوگی۔
سچ ہے، افسیوں کے نام اپنے خط میں پولس کہتا ہے: ”جیسے کلیسیا مسیح کے تابع ہے ویسے ہی بیویاں بھی ہر بات میں اپنے شوہروں کے تابع ہوں۔“ (افسیوں ۵:۲۴) پولس کے لفظ ”ہربات“ کے استعمال کا یہاں پر یہ مطلب نہیں کہ بیوی کی تابعداری کے لئے کوئی حدود نہیں ہیں۔ پولس کا یہ اظہار، ”جیسے کلیسیا مسیح کے تابع ہے،“ ظاہر کرتا ہے کہ اسکے ذہن میں کیا تھا۔ ہربات جسکا مسیح اپنی کلیسیا سے تقاضا کرتا ہے وہ خدا کی مرضی کی مطابقت میں، راستبازی ہے۔ اسلئے، کلیسیا ہربات میں بآسانی اور خوشی کیساتھ اسکی تابعداری کر سکتی ہے۔ اسی طرح سے، ایک مسیحی شوہر جو خلوصدلی سے یسوع کے نمونے کی پیروی کرنے کی کوشش کرتا ہے، اسکی بیوی ہربات میں اسکی تابعدار ہونے سے خوش ہوگی۔ وہ جانتی ہے کہ وہ اسکے بہترین مفادات کیلئے بڑی فکر رکھتا ہے، اور وہ کبھی جان بوجھکر اسکو کوئی ایسا کام کرنے کیلئے نہیں کہیگا جو خدا کی مرضی کی موافقت میں نہ ہو۔
ایک شوہر اپنی بیوی کی محبت اور احترام کو حاصل کریگا جب وہ اپنے سر، یسوع مسیح کی خدائی صفات کو ظاہر کرتا ہے، جس نے اپنے شاگردوں کو ایک دوسرے سے محبت رکھنے کا حکم دیا تھا۔ (یوحنا ۱۳:۳۴) اگرچہ ایک شوہر خطاپذیر اور ناکامل ہے، اگر وہ مسیح کی اعلی سرداری کی مطابقت میں اپنے اختیار کو چلاتا ہے تو وہ اسے اپنی بیوی کے لئے آسانتر بناتا ہے تاکہ اسے اپنے سر کے طور پر مانتے ہوئے خوش ہو۔ (۱-کرنتھیوں ۱۱:۳) اگر ایک بیوی پرمحبت مہربانی اور انکساری کی مسیحی صفات پیدا کرتی ہے تو اس کے لئے خود کو اپنے شوہر کے تابع کرنا مشکل نہیں ہے۔
-
-
شادی میں تابعداری کا کیا مطلب ہے؟مینارِنگہبانی—1992ء | 1 ستمبر
-
-
ایسے رحجانات کو کلیسیا میں پیدا کیا جانا چاہیے۔ اور انہیں مسیحی گھرانے کے اندر شوہر اور بیوی کے درمیان خاص طور پر پیدا کیا جانا چاہیے۔ ایک شوہر اپنی بیوی سے مشوروں کو سننے سے اپنی پرمحبت چاہت اور نرمی ظاہر کر سکتا ہے۔ اسے خاندان کو متاثر کرنے والا کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنی بیوی کے نقطہءنظر پر غور کرنا چاہیے۔ مسیحی بیویاں خالیالذہن نہیں ہیں۔ وہ اکثر اپنے شوہروں کو قابلقدر تجاویز پیش کر سکتی ہیں، جیسے سارہ نے اپنے شوہر، ابرہام کو پیش کی تھی۔ (پیدایش ۲۱:۱۲) اس کی دوسری طرف، ایک مسیحی بیوی غیرمعقول طورپر اپنے شوہر سے مطالبہ کرنے والی نہیں ہوگی۔ وہ اسکے فیصلوں کی حمایت کرنے اور اسکی پیشوائی کی پیروی کرنے سے اپنی مہربانی اور مزاج کی غربت ظاہر کریگی، اگرچہ بعضاوقات وہ اسکی اپنی ترجیحات سے بھی فرق ہو سکتے ہیں۔
ایک معقول شوہر، ایک معقول بزرگ کی طرح، مہربان اور قابلرسائی ہوتا ہے۔ ایک پرمحبت بیوی ہمدرد اور متحمل، اور اسکی کاوشوں کو تسلیم کرتے ہوئے جواب دیتی ہے جو وہ زندگی کے دباؤ اور ناکاملیت کے باوجود اپنی ذمہداریوں کو پورا کرنے کیلئے کرتا ہے۔ جب شوہر اور بیوی دونوں کی طرف سے ایسے رحجانات پیدا کئے جاتے ہیں تو شادی میں تابعداری کوئی مسئلہ نہیں بنیگی۔ بلکہ، یہ خوشی، سلامتی، اور دائمی قناعت کا سرچشمہ ہے۔ (۱۹ ۱۲/۱۵ w۹۱)
-