آپ کس طرح کی روح ظاہر کرتے ہیں؟
”ہمارے خداوند یسوؔع مسیح کا فضل تمہاری روح پر ہوتا رہے۔“—فلیمون ۲۵۔
آپ اِن سوالوں کے کیا جواب دیں گے؟
ہمیں اِس بات پر دھیان کیوں دینا چاہئے کہ ہم کس قسم کی روح ظاہر کرتے ہیں؟
ہمیں کس طرح کا رویہ اپنانے سے گریز کرنا چاہئے؟ اور ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟
ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم ہمیشہ کلیسیا میں اچھی روح ظاہر کریں؟
۱. پولس رسول نے اکثر اپنے خطوں میں کس نیک تمنا کا اِظہار کِیا؟
پولس رسول نے اکثر اپنے خطوں کے آخر میں اِس نیک تمنا کا اِظہار کِیا کہ کلیسیاؤں کی روح پر یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کی برکت رہے۔ مثال کے طور پر اُنہوں نے گلتیوں کی کلیسیا کے نام اپنے خط میں لکھا: ”اَے بھائیو! ہمارے خداوند یسوؔع مسیح کا فضل تمہاری روح کے ساتھ رہے۔ آمین۔“ (گل ۶:۱۸) جب پولس رسول نے اصطلاح ”تمہاری روح“ استعمال کی تو دراصل اُن کا مطلب کیا تھا؟
۲، ۳. (الف) بعض اوقات جب پولس رسول نے لفظ روح استعمال کِیا تو اُن کا مطلب کیا تھا؟ (ب) ہمیں خود سے کونسے سوال پوچھنے چاہئیں؟
۲ پولس رسول نے لفظ روح انسان کے مزاج، سوچ اور رویے کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کِیا۔ بعض لوگ نرمدل اور دریادل ہوتے ہیں، کچھ لوگ معاف کرنے والے اور دوسروں کے جذبات کا لحاظ رکھنے والے ہوتے ہیں۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ خدا ”حلیم اور نرممزاج“ لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ (۱-پطر ۳:۴، نیو اُردو بائبل ورشن) اِس کے برعکس بعض لوگ دولت کے بھوکے ہوتے ہیں، اختیار کو قبول نہیں کرتے، دوسروں پر طنز کرتے ہیں یا پھر چھوٹی موٹی بات پر رُوٹھ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ نافرمانی اور بغاوت کی روح ظاہر کرتے ہیں۔
۳ اِس لئے جب پولس رسول نے کہا کہ ”خداوند تیری روح کے ساتھ رہے“ تو وہ دراصل اپنے مسیحی بہنبھائیوں کی حوصلہافزائی کر رہے تھے کہ وہ ایسا مزاج ظاہر کریں جو مسیح جیسا ہو اور خدا کو پسند آئے۔ (۲-تیم ۴:۲۲؛ کلسیوں ۳:۹-۱۲ کو پڑھیں۔) لہٰذا ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے: ”مَیں کلیسیا میں کس قسم کی روح ظاہر کرتا ہوں؟ مَیں ایسی روح کیسے ظاہر کر سکتا ہوں جو خدا کو پسند آئے؟ مَیں کلیسیا میں اچھی روح کو فروغ دینے کی اَور زیادہ کوشش کیسے کر سکتا ہوں؟“ سورج مکھی کے کھیت میں پھول تو سینکڑوں ہوتے ہیں لیکن کھیت کی خوبصورتی کے لئے ہر ایک پھول ضروری ہوتا ہے۔ اِسی طرح کلیسیا کا ہر ایک رُکن اِس کی خوبصورتی کے لئے ضروری ہے۔ کیا ہم ایک ایسا پھول بن سکتے ہیں جو کلیسیا کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہو؟ ہمیں ایسا کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ آئیں، اب اِس بات پر غور کریں کہ ہم ایسی روح کیسے ظاہر کر سکتے ہیں جو خدا کو پسند آئے۔
دُنیا کی روح سے متاثر نہ ہوں
۴. ”دُنیا کی روح“ سے کیا مراد ہے؟
۴ پاک کلام میں بتایا گیا ہے کہ ”ہم نے نہ دُنیا کی روح بلکہ وہ روح پایا جو خدا کی طرف سے ہے۔“ (۱-کر ۲:۱۲) ”دُنیا کی روح“ سے کیا مراد ہے؟ یہ وہی روح ہے جس کا ذکر افسیوں ۲:۲ میں کِیا گیا ہے۔ اِس آیت میں لکھا ہے: ”تُم پیشتر دُنیا کی روِش پر چلتے تھے اور ہوا کی عملداری کے حاکم یعنی اُس روح کی پیروی کرتے تھے جو اب نافرمانی کے فرزندوں میں تاثیر کرتی ہے۔“ اِس آیت میں ”ہوا“ سے مراد دُنیا کی روح یعنی دُنیا کے لوگوں کی سوچ ہے۔ جس طرح ہوا ہمارے چاروں طرف موجود ہے اُسی طرح دُنیا کی روح بھی ہمارے چاروں طرف موجود ہے۔ مثال کے طور پر آجکل بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ ”مجھے روکنے ٹوکنے کا حق کسی کو نہیں“ یا ”اپنے حق کے لئے لڑو!“ ایسے لوگ ’نافرمانی کے فرزند ہیں‘ جو شیطان کی دُنیا کی روح سے متاثر ہیں۔
۵. کچھ اسرائیلیوں نے کس قسم کی سوچ ظاہر کی؟
۵ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ آجکل لوگوں میں ایسی منفی سوچ پائی جاتی ہے۔ موسیٰ نبی کے زمانے میں بھی قورح نے اُن لوگوں کی مخالفت کی جو اسرائیل میں اختیار رکھتے تھے۔ اُنہوں نے خاص طور پر ہارون اور اُن کے بیٹوں کی مخالفت کی جنہیں یہوواہ خدا نے کاہن مقرر کِیا تھا۔ شاید وہ ہارون اور اُن کے بیٹوں کی کچھ خامیوں کے بارے میں جانتے تھے۔ یا شاید اُنہوں نے سوچا ہو کہ موسیٰ نبی اپنے رشتہداروں کی طرفداری کرتے ہیں اور صرف اُنہی کو بڑے بڑے عہدے دیتے ہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو، ایک بات تو صاف ہے کہ قورح معاملات کو اب یہوواہ خدا کی نظر سے نہیں دیکھ رہے تھے۔ اِس لئے قورح، یہوواہ خدا کے چنے ہوئے بندوں کے ساتھ بےادبی سے پیش آئے اور کہا: ”تمہارے تو بڑے دعوے ہو چلے۔ . . . تُم اپنے آپ کو . . . جماعت سے بڑا کیونکر ٹھہراتے ہو؟“ (گن ۱۶:۳) داتن اور ابیرام کو بھی موسیٰ نبی سے شکایت تھی۔ اُنہوں نے موسیٰ نبی سے کہا: ”تُو سردار بن کر ہم پر حکومت جتاتا ہے؟“ بعد میں جب موسیٰ نے اُنہیں اپنے پاس بلوایا تو اُنہوں نے بڑی بدتمیزی سے کہا: ”ہم تو نہیں آنے کے۔“ (گن ۱۶:۱۲-۱۴) یہوواہ خدا ایسے رویے سے بالکل خوش نہیں تھا۔ اِس لئے اُس نے تمام باغیوں کو ہلاک کر دیا۔—گن ۱۶:۲۸-۳۵۔
۶. پہلی صدی میں کلیسیا کے بعض آدمیوں نے غلط سوچ کیسے ظاہر کی اور غالباً اِس کی وجہ کیا تھی؟
۶ پہلی صدی میں بھی کلیسیا کے بعض آدمی ”حکومت کو ناچیز جانتے“ تھے یعنی وہ اُن بھائیوں پر نکتہچینی کرتے تھے جنہیں کلیسیا میں اختیار سونپا گیا تھا۔ (یہوداہ ۸) اِن آدمیوں کو بھی کلیسیا میں اعزاز حاصل تھے مگر شاید وہ اَور زیادہ اختیار حاصل کرنا چاہتے تھے۔ وہ کلیسیا کے بہنبھائیوں کو بزرگوں کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کرتے تھے حالانکہ بزرگ اپنی ذمہداریاں بڑی محنت اور دیانتداری سے پوری کر رہے تھے۔—۳-یوحنا ۹، ۱۰ کو پڑھیں۔
۷. ہمیں کلیسیا میں کس طرح کی روح ظاہر کرنے سے گریز کرنا چاہئے؟
۷ کلیسیا کے رُکنوں میں ایسی سوچ بالکل نہیں ہونی چاہئے۔ لہٰذا ہمیں خبردار رہنا چاہئے کہ کہیں ہمارے اندر ایسی غلط سوچ پیدا نہ ہو جائے۔ جیسے موسیٰ نبی کے زمانے اور یوحنا رسول کے زمانے میں بزرگ بےعیب نہیں تھے ویسے ہی آجکل بھی کلیسیا کے بزرگ بےعیب نہیں ہیں۔ اُن سے بھی کبھیکبھار ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں جن کا شاید ہم پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ کتنا غلط ہوگا کہ ہم اپنے حق کے لئے لڑیں یا یہ اصرار کریں کہ ”اِس بزرگ کو ہٹایا جانا چاہئے۔“ ایسا کرنے سے ہم دُنیا کی روح ظاہر کر رہے ہوں گے۔ شاید یہوواہ خدا اُس بزرگ کی چھوٹی موٹی کوتاہیوں کو نظرانداز کر رہا ہو۔ کیا ہم ایسا نہیں کر سکتے؟ کبھیکبھار ایک بھائی یا بہن کو کسی سنگین غلطی کی وجہ سے عدالتی کمیٹی کے سامنے بلایا جاتا ہے لیکن وہ آنے سے انکار کر دیتا ہے کیونکہ اُس کے خیال میں بزرگوں میں بہت سی خامیاں ہوتی ہیں۔ ایسا بھائی یا بہن اُس مریض کی طرح ہوتا ہے جو اچھے علاج سے صرف اِس لئے فائدہ حاصل نہیں کرتا کیونکہ اُسے ڈاکٹر کی کوئی بات اچھی نہیں لگی۔
۸. کن آیتوں پر غور کرنے سے ہم بزرگوں کے بارے میں صحیح نظریہ برقرار رکھ سکتے ہیں؟
۸ ایسے غلط رویے سے بچنے کے لئے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یسوع مسیح کے ”دہنے ہاتھ میں سات ستارے“ ہیں۔ یہ ”ستارے“ دراصل ممسوح بزرگوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں لیکن وہ ایک لحاظ سے کلیسیا کے دوسرے بزرگوں کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ یسوع مسیح اپنے طریقے سے اور اپنی مرضی کے مطابق اِن ’ستاروں‘ یعنی بزرگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ (مکا ۱:۱۶، ۲۰) یسوع مسیح کلیسیا کے سر ہیں اور وہ بزرگوں کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں۔ اُن کی ”آنکھیں آگ کے شعلہ کی مانند“ ہیں۔ (مکا ۱:۱۴) اِس لئے اگر کسی بزرگ کو اصلاح کی ضرورت ہے تو یسوع مسیح اپنے وقت پر اور اپنے طریقے سے اُس کی اصلاح کریں گے۔ لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا، ہمیں اُن بھائیوں کی عزت کرتے رہنا چاہئے جنہیں روحُالقدس کی رہنمائی میں مقرر کِیا گیا ہے۔ پولس رسول نے اِس سلسلے میں لکھا: ”اپنے پیشواؤں کے فرمانبردار اور تابع رہو کیونکہ وہ تمہاری روحوں کے فائدہ کے لئے اُن کی طرح جاگتے رہتے ہیں جنہیں حساب دینا پڑے گا تاکہ وہ خوشی سے یہ کام کریں نہ کہ رنج سے کیونکہ اِس صورت میں تمہیں کچھ فائدہ نہیں۔“—عبر ۱۳:۱۷۔
۹. (الف) جب کسی بھائی یا بہن کی اصلاح کی جاتی ہے تو اُس کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟ (ب) جب ہماری اصلاح کی جائے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۹ جب کسی بھائی یا بہن کی اصلاح کی جاتی ہے یا اُس سے کوئی ذمہداری واپس لے لی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اُس میں کس قسم کی روح ہے۔ اِس سلسلے میں ایک جوان بھائی کی مثال پر غور کریں۔ وہ بہت مار دھاڑ والی ویڈیو گیمز کھیلتا تھا۔ بزرگوں نے اُسے بڑے پیار سے سمجھایا کہ اُسے ایسی گیمز نہیں کھیلنی چاہئیں مگر افسوس کی بات ہے کہ اُس نے اُن کی نصیحت قبول نہیں کی۔ لہٰذا اُس بھائی کو خادم کے عہدے سے ہٹا دیا گیا کیونکہ اب وہ اُن شرائط پر پورا نہیں اُترتا تھا جو پاک کلام میں خادموں کے لئے دی گئی ہیں۔ (زبور ۱۱:۵؛ ۱-تیم ۳:۸-۱۰) اِس کے بعد وہ بھائی دوسروں کو بتانے لگا کہ وہ بزرگوں کے فیصلے سے متفق نہیں ہے۔ اُس نے برانچ کے دفتر کو بھی بہت سے خط لکھے جن میں اُس نے بزرگوں کے خلاف بہت سی اُلٹی سیدھی باتیں کہیں۔ اُس نے دوسرے بہنبھائیوں کو بھی برانچ کے دفتر کو خط لکھنے پر اُکسایا۔ ذرا سوچیں، کیا یہ عقلمندی کی بات ہے کہ ہم صرف اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ساری کلیسیا کے اتحاد کو داؤ پر لگا دیں؟ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم اصلاح کو قبول کرلیں اور یہ تسلیم کریں کہ اصلاح سے ہم اپنی اُن غلطیوں سے واقف ہو گئے ہیں جو شاید ہمیں نظر نہیں آ رہی تھیں؟—نوحہ ۳:۲۸، ۲۹ کو پڑھیں۔
۱۰. (الف) یعقوب ۳:۱۶-۱۸ سے کیسے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں کلیسیا میں کیسی روح ظاہر کرنی چاہئے اور کیسی نہیں؟ (ب) اگر ہم خدا کی طرف سے ملنے والی حکمت کے مطابق عمل کرتے ہیں تو اِس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟
۱۰ یعقوب ۳:۱۶-۱۸ میں بتایا گیا ہے کہ کلیسیا کے ارکان کو کیسی روح ظاہر کرنی چاہئے اور کیسی روح سے گریز کرنا چاہئے۔ اِن آیتوں میں لکھا ہے: ”جہاں حسد اور تفرقہ ہوتا ہے وہاں فساد اور ہر طرح کا بُرا کام بھی ہوتا ہے۔ مگر جو حکمت اُوپر سے آتی ہے اوّل تو وہ پاک ہوتی ہے۔ پھر ملنسار حلیم اور تربیتپذیر۔ رحم اور اچھے پھلوں سے لدی ہوئی۔ بےطرفدار اور بےریا ہوتی ہے۔ اور صلح کرانے والوں کے لئے راستبازی کا پھل صلح کے ساتھ بویا جاتا ہے۔“ جب ہم خدا کی طرف سے ملنے والی حکمت کے مطابق عمل کرتے ہیں تو ہمارے اندر خدا جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ یوں ہم کلیسیا میں اچھی روح کو فروغ دینے کے قابل ہوتے ہیں۔
کلیسیا میں عزتواحترام کی روح کو فروغ دیں
۱۱. (الف) اگر ہماری روح اچھی ہے تو ہم کیا نہیں کریں گے؟ (ب) ہم داؤد کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۱ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ یہوواہ خدا نے بزرگوں کو یہ ذمہداری سونپی ہے کہ وہ ”خدا کے . . . گلّہ کی گلّہبانی“ کریں۔ (اعما ۲۰:۲۸؛ ۱-پطر ۵:۲) لہٰذا ہمیں خدا کے اِنتظام کی قدر کرنی چاہئے، چاہے ہم بزرگ ہیں یا نہیں۔ اگر ہماری روح اچھی ہے تو ہم اپنے مرتبے کی حد سے زیادہ فکر نہیں کریں گے۔ جب اسرائیل کے بادشاہ ساؤل نے دیکھا کہ داؤد لوگوں میں بہت مقبول ہوتے جا رہے ہیں تو ساؤل بادشاہ کے دل میں یہ ڈر بیٹھ گیا کہ کہیں داؤد اُن کا تخت نہ چھین لیں۔ اِس لئے ”ساؔؤل داؔؤد کو بدگمانی سے دیکھنے“ لگے۔ (۱-سمو ۱۸:۹) بادشاہ ساؤل میں بُری روح یعنی غلط سوچ اِس حد تک بڑھ گئی کہ وہ داؤد کو قتل کرنے کا موقع ڈھونڈنے لگے۔ اگرچہ داؤد کے ساتھ بہت زیادہ ناانصافی ہوئی پھر بھی وہ یہوواہ خدا کے مقررہ بادشاہ ساؤل کا احترام کرتے رہے۔—۱-سموئیل ۲۶:۲۳ کو پڑھیں۔
۱۲. کلیسیا میں امن اور اتحاد کی روح کو فروغ دینے کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟
۱۲ جب بزرگ یا کلیسیا کے ارکان کسی معاملے پر اتفاق نہیں کرتے تو اِس سے آسانی سے ناراضگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ہمیں اِس سلسلے میں کیسی روح ظاہر کرنی چاہئے۔ اِس میں لکھا ہے کہ ”عزت کے رُو سے ایک دوسرے کو بہتر سمجھو“ اور ”اپنے آپ کو عقلمند نہ سمجھو۔“ (روم ۱۲:۱۰، ۱۶) اپنی ہی رائے پر اصرار کرنے کی بجائے ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ کسی معاملے کے بارے میں دوسروں کی رائے بھی ٹھیک ہو سکتی ہے۔ اگر ہم دوسروں کے نقطۂنظر کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو ہم کلیسیا میں امن اور اتحاد کی روح کو فروغ دیں گے۔—فل ۴:۵۔
۱۳. جب ہم کوئی مسئلہ بزرگوں کی توجہ میں لے آتے ہیں تو اِس کے بعد ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ اِس بات کی اہمیت بائبل میں درج کس مثال سے واضح ہوتی ہے؟
۱۳ کیا اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم کلیسیا میں کسی مسئلے سے واقف ہو جاتے ہیں تو ہم بزرگوں کو اِس کے بارے نہیں بتا سکتے؟ جینہیں۔ پہلی صدی میں ایک ایسا مسئلہ اُٹھ کھڑا ہوا جس کی وجہ سے کلیسیا میں بہت بحثوتکرار ہوئی۔ بھائیوں نے یہ طے کِیا کہ ”پولسؔ اور برؔنباس اور اُن میں سے چند اَور شخص اِس مسئلہ کے لئے رسولوں اور بزرگوں کے پاس یرؔوشلیم جائیں۔“ (اعما ۱۵:۲) جتنے بھی بھائی یروشلیم گئے، وہ سب اِس معاملے کے بارے میں کوئی نہ کوئی رائے رکھتے تھے۔ ہر ایک کے ذہن میں اِس مسئلے کو حل کرنے کی کوئی نہ کوئی تجویز بھی تھی۔ لیکن جب ہر ایک نے اپنیاپنی رائے پیش کر دی اور روحُالقدس کی رہنمائی میں فیصلہ ہو گیا تو پھر اِن بھائیوں میں سے کسی نے بھی اپنی رائے پر اصرار نہیں کِیا تھا۔ جب کلیسیاؤں کو اِس فیصلے کے بارے میں خط لکھے گئے تو کلیسیائیں اِس خط کے ”تسلیبخش مضمون سے خوش“ ہوئیں اور ”ایمان میں مضبوط . . . ہوتی گئیں۔“ (اعما ۱۵:۳۱؛ ۱۶:۴، ۵) اِسی طرح آجکل بھی جب ہم کوئی مسئلہ بزرگوں کی توجہ میں لاتے ہیں تو پھر ہمیں بھروسا رکھنا چاہئے کہ وہ اِس معاملے پر غور کریں گے۔
بہنبھائیوں کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں اچھی روح ظاہر کریں
۱۴. ہم بہنبھائیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کے سلسلے میں اچھی روح کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
۱۴ کلیسیا کے بہنبھائیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کے سلسلے میں بھی ہم اچھی روح ظاہر کر سکتے ہیں۔ فرض کریں کہ کوئی بھائی یا بہن آپ کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ اگر آپ اُسے معاف کر دیتے ہیں تو آپ اچھی روح ظاہر کرتے ہیں۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے: ”اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔ جیسے [یہوواہ] نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تُم بھی کرو۔“ (کل ۳:۱۳) اِس آیت میں اصطلاح ”اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو“ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے پاس کسی سے ناراض ہونے کی کوئی جائز وجہ ہو سکتی ہے۔ لیکن ہمیں اپنے بہنبھائیوں کی ہر چھوٹی موٹی بات کا بتنگڑ نہیں بنانا چاہئے کیونکہ اِس سے کلیسیا کے اتحاد کو نقصان پہنچتا ہے۔ اِس کی بجائے ہمیں یہوواہ خدا کی مثال پر عمل کرتے ہوئے اُنہیں معاف کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے اور اُن کے ساتھ مل کر یہوواہ خدا کی خدمت میں آگے بڑھتے رہنا چاہئے۔
۱۵. (الف) دوسروں کے قصور معاف کرنے کے سلسلے میں ہم ایوب کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ (ب) دوسروں کے لئے دُعا کرنے سے ہماری سوچ پر کیا اثر ہوگا؟
۱۵ دوسروں کے قصور معاف کرنے کے سلسلے میں ہم ایوب کی مثال سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اُن کے تین دوستوں نے تسلی دینے کی بجائے اپنی باتوں سے ایوب کے دل کو بہت ٹھیس پہنچائی۔ اِس کے باوجود ایوب نے اُنہیں معاف کر دیا۔ وہ ایسا کرنے کے لئے کیسے تیار ہو گئے؟ اُنہوں نے ”اپنے دوستوں کے لئے دُعا کی۔“ (ایو ۱۶:۲؛ ۴۲:۱۰) دوسروں کے لئے دُعا کرنے سے اُن کے بارے میں ہماری سوچ بدل سکتی ہے۔ جب ہم اپنے تمام مسیحی بہنبھائیوں کے لئے دُعا کرتے ہیں تو ہم مسیح جیسا مزاج اپنانے کے قابل ہوتے ہیں۔ (یوح ۱۳:۳۴، ۳۵) اِس کے علاوہ ہمیں یہوواہ خدا سے روحُالقدس بھی مانگنی چاہئے۔ (لو ۱۱:۱۳) روحُالقدس کی مدد سے ہم ایسی خوبیاں ظاہر کرنے کے قابل ہوں گے جن سے بہنبھائیوں کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے رہیں گے۔—گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳ کو پڑھیں۔
کلیسیا میں اچھی روح کو فروغ دینے کی ٹھان لیں
۱۶، ۱۷. آپ کلیسیا میں کس قسم کی روح ظاہر کرنے کا عزم رکھتے ہیں؟
۱۶ اگر ہم سب کلیسیا میں اچھی روح کو فروغ دینے کی ٹھان لیں تو اِس کے بہت عمدہ نتائج نکلیں گے۔ اِس مضمون پر غور کرنے سے ہم شاید اپنے رویے اور مزاج میں بہتری لانے کا فیصلہ کریں۔ اِس کے لئے ہمیں خدا کے کلام کی روشنی میں اپنا جائزہ لینا چاہئے۔ (عبر ۴:۱۲) پولس رسول کی ہمیشہ یہی کوشش تھی کہ وہ کلیسیا کے لئے ایک اچھی مثال قائم کریں۔ اُنہوں نے لکھا: ”میرا دل تو مجھے ملامت نہیں کرتا مگر اِس سے مَیں راستباز نہیں ٹھہرتا بلکہ میرا پرکھنے والا [یہوواہ] ہے۔“—۱-کر ۴:۴۔
۱۷ جب ہم خدا کی طرف سے ملنے والی حکمت کے مطابق چلتے ہیں اور دوسروں کے نقطۂنظر کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم کلیسیا میں اچھی روح کو فروغ دیتے ہیں۔ بہنبھائیوں کی غلطیاں معاف کرنے اور اُن کے بارے میں مثبت سوچ رکھنے سے ہم کلیسیا میں صلح اور اتحاد کی فضا کو برقرار رکھتے ہیں۔ (فل ۴:۸) ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ اگر ہم یہ سب کچھ کریں گے تو یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کا ’فضل ہماری روح پر رہے‘ گا۔—فلیمون ۲۵۔
[صفحہ ۲۰ پر تصویریں]
یہ جانتے ہوئے کہ یسوع مسیح بزرگوں کی رہنمائی کرتے ہیں، ہمیں اصلاح پر کیسا ردِعمل دِکھانا چاہئے؟