جدید طرزِزندگی کیلئے ایک عملی کتاب
آج کی دُنیا میں مشورت فراہم کرنے والی کتب بیحد مقبول ہیں۔ مگر وہ متروک ہو جانے والی ہوتی ہیں اور اُن میں جلد ترمیم کر دی جاتی ہے یا پھر اُن کی جگہ اَور کتابیں آ جاتی ہیں۔ بائبل کی بابت کیا ہے؟ یہ تقریباً ۲،۰۰۰ سال پہلے مکمل ہوئی تھی۔ تاہم، اِس کے اصل پیغام میں کبھی کوئی اصلاح یا جدت پیدا نہیں کی گئی۔ کیا ایسی کتاب میں مکمنہ طور پر ہمارے زمانے کے لئے کوئی عملی راہنمائی ہو سکتی ہے؟
بعض کہتے ہیں کہ نہیں۔ ”کوئی بھی شخص دورِحاضر کی کیمیا پڑھنے والی جماعت میں کیمیا کی درسی [کتاب] کے ۱۹۲۴ کے ایڈیشن کو استعمال کرنے کی حمایت نہیں کرے گا،“ ڈاکٹر عیلی ایس۔ چیسن نے اِس بات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ اُس نے بائبل کو متروک کیوں خیال کِیا۔1 بظاہر یہ دلیل معقول دکھائی دیتی ہے۔ بہرحال، بائبل کے لکھے جانے سے لیکر انسان نے ذہنی صحت اور انسانی طرزِعمل کی بابت بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ تاہم ایسی قدیم کتاب ممکنہ طور پر جدید طرزِزندگی کے لئے کیسے مؤثر ہو سکتی ہے؟
لازوال اصول
اگرچہ یہ بات سچ ہے کہ وقت بدل چکا ہے لیکن انسان کی بنیادی ضروریات ویسی ہی ہیں۔ پوری تاریخ میں لوگوں کو محبت اور شفقت کی ضرورت رہی ہے۔ اُنہوں نے خوش رہنے اور بامقصد زندگیاں بسر کرنے کی خواہش کی ہے۔ اُنہیں مشورت درکار رہی ہے کہ معاشی دباؤ کا مقابلہ کیسے کریں، شادی کو کامیاب کیسے بنائیں اور اپنے بچوں کے اندر عمدہ خلق اور اخلاقی اقدار کیسے پیدا کریں۔ بائبل میں ایسی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے مشورت پائی جاتی ہے۔—واعظ ۳:۱۲، ۱۳؛ رومیوں ۱۲:۱۰؛ کلسیوں ۳:۱۸-۲۱؛ ۱-تیمتھیس ۶:۶-۱۰۔
بائبل کی مشورت انسانی اُفتادِطبع سے گہری واقفیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اِس کے قطعی، لازوال اصولوں کی بعض مثالوں پر غور کریں جو جدید طرزِزندگی کے لئے عملی ہیں۔
شادی کیلئے عملی راہنمائی
یواین کرانیکل کے مطابق، خاندان ”انسانی تمدن کی قدیمترین اور نہایت بنیادی اکائی ہے؛ نسلوں کے مابین سب سے قطعی رابطہ۔“ تاہم، یہ ”قطعی رابطہ“ خطرناک حد تک ٹوٹ رہا ہے۔ ”آج کی دُنیا میں،“ کرانیکل بیان کرتی ہے، ”بہتیرے خاندان حوصلہشکن چیلنجوں کا سامنا کرتے ہیں جو اُن کی کارکردگی کی صلاحیت اور سالمیت کیلئے واقعی خطرہ ہیں۔“2 خاندانی اکائی کی بقا کے سلسلے میں مدد کرنے کیلئے بائبل کیا مشورت پیش کرتی ہے؟
سب سے پہلے بائبل شوہروں اور بیویوں کے سلسلے میں بہت کچھ بیان کرتی ہے کہ اُنہیں ایک دوسرے کیساتھ کیسے پیش آنا چاہئے۔ مثال کے طور پر، شوہروں کی بابت یہ کہتی ہے: ”شوہروں کو لازم ہے کہ اپنی بیویوں سے اپنے بدن کی مانند محبت رکھیں۔ جو اپنی بیوی سے محبت رکھتا ہے وہ اپنے آپ سے محبت رکھتا ہے۔ کیونکہ کبھی کسی نے اپنے جسم سے دشمنی نہیں کی بلکہ اُس کو پالتا اور پرورش کرتا ہے۔“ (افسیوں ۵:۲۸، ۲۹) ایک بیوی کو ”اپنے شوہر کا گہرا احترام کرنے“ کی نصیحت کی گئی تھی۔—افسیوں ۵:۳۳، اینڈبلیو۔
ایسی بائبل مشورت کا اطلاق کرنے کے نتائج پر غور کریں۔ اپنی بیوی سے ’اپنے بدن کی مانند‘ محبت کرنے والا شوہر اُس سے نفرتانگیز اور ظالمانہ سلوک نہیں کرتا۔ وہ جسمانی مارپیٹ نہیں کرتا نہ ہی وہ اُس کے ساتھ بدزبانی یا جذباتی بدسلوکی کرتا ہے۔ اِسکی بجائے، وہ اُس کے ساتھ اُسی عزت اور مروّت سے پیش آتا ہے جیسی وہ اپنے لئے دکھاتا ہے۔ (۱-پطرس ۳:۷) یوں اُس کی بیوی اپنی ازدواجی زندگی کو محفوظ سمجھتی ہے اور یہ محسوس کرتی ہے کہ اُس سے محبت کی جاتی ہے۔ اِس طرح وہ اپنے بچوں کیلئے ایک اچھا نمونہ فراہم کرتا ہے کہ عورتوں کیساتھ کیسا سلوک کِیا جانا چاہئے۔ دوسری طرف، اپنے شوہر کیلئے ”گہرا احترام“ رکھنے والی بیوی اُسے ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنانے یا اُسکی تحقیر کرنے سے اُسکا وقار کم نہیں کرتی۔ چونکہ وہ اُسکا احترام کرتی ہے اِسلئے وہ محسوس کرتا ہے کہ اُس پر بھروسہ کِیا جاتا ہے، اُسے قبول کِیا جاتا ہے اور اُسکی قدر کی جاتی ہے۔
کیا اس جدید دُنیا میں ایسی مشورت عملی ہے؟ یہ دلچسپی کی بات ہے کہ آجکل خاندانی زندگی کا مطالعہ کرنے والے ماہرین بھی اِسی نتیجے پر پہنچے ہیں۔ خاندانی مشاورتی پروگرام کی ایک ایڈمنسٹریٹر نے بیان کِیا: ”نہایت مستحکم اور کامیاب خاندان جن سے مَیں واقف ہوں اُن میں ماں اور باپ کے مابین مضبوط، پُرمحبت رشتہ پایا جاتا ہے۔ . . . یہ مضبوط بنیادی رشتہ بچوں میں احساسِتحفظ پیدا کرتا دکھائی دیتا ہے۔“3
سالہاسال سے شادی کے سلسلے میں بیشمار خلوصدل خاندانی مشیروں کی نسبت بائبل مشورت کہیں زیادہ قابلِبھروسہ ثابت ہوئی ہے۔ بہرصورت، کچھ عرصہ پہلے متعدد ماہرین ایک ناخوشگوار شادی کے فوری اور آسان حل کے طور پر طلاق کی حمایت کرتے تھے۔ آجکل، اُن میں سے بیشتر لوگوں کو تلقین کرتے ہیں کہ اگر ممکن ہو تو اپنی شادی کو قائم رکھیں۔ لیکن یہ تبدیلی کافی نقصان ہو جانے کے بعد آئی ہے۔
اِسکے برعکس، بائبل شادی کے موضوع پر قابلِبھروسہ، متوازن مشورت دیتی ہے۔ یہ تسلیم کرتی ہے کہ بعض سنگین حالات طلاق کی اجازت دیتے ہیں۔ (متی ۱۹:۹) تاہم، یہ ناحق طلاق کی مذمت کرتی ہے۔ (ملاکی ۲:۱۴-۱۶) یہ بیاہتا ساتھی کیساتھ بیوفائی کی بھی مذمت کرتی ہے۔ (عبرانیوں ۱۳:۴) یہ بیان کرتی ہے کہ شادی میں، عہدوپیمان شامل ہے: ”اِس واسطے مرد اپنے ماںباپ کو چھوڑیگا اور اپنی بیوی سے ملا رہیگا اور وہ ایک تن ہونگے۔“a—پیدایش ۲:۲۴؛ متی ۱۹:۵، ۶۔
شادی کے سلسلے میں بائبل کی نصیحت آج بھی اُتنی ہی مؤثر ہے جتنی کہ یہ بائبل کے تحریر کئے جانے کے وقت تھی۔ جب شوہر اور بیوی ایک دوسرے کیساتھ محبت اور احترام سے پیش آتے ہیں اور شادی کو ایک بِلاشرکتِغیرے رشتہ خیال کرتے ہیں تو شادی کے قائم رہنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے—اور اِسی میں خاندان کی بقا ہے۔
والدین کیلئے عملی راہنمائی
کئی عشرے پہلے متعدد والدین نے—بچے کی تربیت کے سلسلے میں ”نئے نظریات“ سے تحریک پا کر—یہ سوچا کہ ”سختی کرنا ممنوع“ ہے۔8 اُنہیں ڈر تھا کہ بچوں کیلئے حدود مقرر کرنا، صدمے اور احساسِمحرومی کا سبب بنیگا۔ بچے کی پرورش کے سلسلے میں خلوصدل مشیر اِس بات پر زور دیتے تھے کہ والدین کو ہلکیپھلکی تادیب سے زیادہ کسی بھی چیز سے گریز کرنا چاہئے۔ لیکن اِن ماہرین میں سے متعدد تربیت کی اہمیت کی بابت پھر سے غوروفکر کر رہے ہیں اور فکرمند والدین اِس موضوع پر کچھ وضاحت کے خواہاں ہیں۔
تاہم، اِس تمام عرصہ کے دوران، بائبل نے بچے کی پرورش کے سلسلے میں واضح، معقول مشورت پیش کی ہے۔ تقریباً ۲،۰۰۰ سال پہلے، اس نے کہا: ”اَے اولاد والو، تم اپنے فرزندوں کو غصہ نہ دلاؤ بلکہ خداوند کی طرف سے تربیت اور نصیحت دے دے کر اُنکی پرورش کرو۔“ (افسیوں ۶:۴) یونانی اسم جسکا ترجمہ ”تربیت“ کیا گیا ہے اِسکا مطلب ”پرورش کرنا، پڑھانالکھانا، ہدایت کرنا“ ہے۔9 بائبل بیان کرتی ہے کہ ایسی تربیت یا ہدایت پدرانہ محبت کا ثبوت ہے۔ (امثال ۱۳:۲۴) بچے بالکل واضح اخلاقی راہنمائیوں اور درست اور غلط کے مکمل احساس کیساتھ پروان چڑھتے ہیں۔ تربیت اُنہیں باور کراتی ہے کہ اُنکے والدین اُنکی اور اس بات کی فکر رکھتے ہیں کہ وہ کس قسم کے شخص بن رہے ہیں۔
لیکن پدرانہ اختیار—”تربیت کی چھڑی“—کا کبھی بھی غلط استعمال نہیں کِیا جانا چاہئے۔b (امثال ۲۲:۱۵؛ ۲۹:۱۵) بائبل والدین کو متنبہ کرتی ہے: ”اپنے بچوں کی حد سے زیادہ درستی نہ کریں ورنہ آپ اُنہیں بیدل کر دینگے۔“ (کلسیوں ۳:۲۱، فلپس) نیز یہ تسلیم کرتی ہے کہ عام طور پر جسمانی سزا تربیت کرنے کا زیادہ مؤثر طریقہ نہیں ہے۔ امثال ۱۷:۱۰ کہتی ہے: ”صاحبِفہم پر ایک جھڑکی احمق پر سو کوڑوں سے زیادہ اثر کرتی ہے۔“ علاوہازیں، بائبل احتیاطی تربیت کی سفارش کرتی ہے۔ استثنا ۱۱:۱۹ میں والدین کو اپنے بچوں کے اندر اخلاقی اقدار پیدا کرنے کیلئے تمام مواقع سے فائدہ اُٹھانے کی تلقین کی گئی ہے۔—استثنا ۶:۶، ۷ کو بھی دیکھیں۔
والدین کیلئے بائبل کی لازوال مشورت واضح ہے۔ بچوں کو وضعدار اور پُرمحبت تربیت کی ضرورت ہے۔ عملی تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسی مشورت واقعی مؤثر ہے۔c
لوگوں کو منقسم کرنے والی حدبندیوں پر قابو پانا
آجکل لوگ نسلی، قومی اور طبقاتی حدبندیوں کی وجہ سے منقسم ہیں۔ ایسی مصنوعی دیواریں تمام دُنیا کے اندر لڑائیوں میں معصوم انسانوں کے قتلِعام کا سبب بنی ہیں۔ تاریخ کے پیشِنظر مختلف نسلوں اور قوموں کے مردوزن کا ایک دوسرے کیساتھ برابری کا سلوک کرنا اور برابر سمجھنے کا امکان یقیناً مایوسکُن ہے۔ ”حل،“ ایک افریقی مُدبّر کہتا ہے، ”ہمارے دلوں میں ہے۔“11 لیکن انسانی دلوں کو بدلنا آسان نہیں ہے۔ تاہم، غور کریں کہ بائبل کا پیغام کسقدر دلکش ہے اور برابری کے رُجحانات کو فروغ دیتا ہے۔
بائبل کی تعلیم کہ خدا نے ”ایک ہی اصل سے آدمیوں کی ہر ایک قوم . . . پیدا کی“ نسلی برتری کے کسی بھی خیال کو دُور کر دیتی ہے۔ (اعمال ۱۷:۲۶) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حقیقت میں صرف ایک ہی نسل ہے—انسانی نسل۔ علاوہازیں، بائبل ہماری حوصلہافزائی کرتی ہے کہ ”خدا کی مانند بنیں،“ جسکی بابت یہ بتاتی ہے: ”[وہ] کسی کا طرفدار نہیں۔ بلکہ ہر قوم میں جو اُس سے ڈرتا اور راستبازی کرتا ہے وہ اُس کو پسند آتا ہے۔“ (افسیوں ۵:۱؛ اعمال ۱۰:۳۴، ۳۵) جو لوگ بائبل کو سنجیدگی سے قبول کرتے ہیں اور جو واقعی اس کی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اُن کے لئے یہ علم متحد کرنے والا اثر رکھتا ہے۔ یہ انسانی دل پر بہت ہی گہرا اثر کرتے ہوئے لوگوں کو منقسم کرنے والی انسانساختہ حدبندیوں کو دُور کرتا ہے۔ ایک مثال پر غور کریں۔
جب ہٹلر نے پورے یورپ میں جنگ لڑی تو مسیحیوں کا ایک ہی گروہ—یہوواہ کے گواہ—تھا جس نے ثابتقدمی سے معصوم انسانوں کے قتلِعام میں حصہ لینے سے انکار کِیا۔ وہ اپنے ساتھی انسانوں کیخلاف ”تلوار نہ چلائینگے۔“ اُنہوں نے یہ مؤقف خدا کو خوش کرنے کی خواہش کی وجہ سے اختیار کِیا تھا۔ (یسعیاہ ۲:۳، ۴؛ میکاہ ۴:۳، ۵) بائبل جوکچھ سکھاتی ہے وہ اُس پر واقعی یقین رکھتے ہیں کہ کوئی قوم یا نسل ایک دوسرے سے بہتر نہیں۔ (گلتیوں ۳:۲۸) اپنے اَمنپسندانہ مؤقف کی وجہ سے مراکزِاسیران میں ڈالے جانے والوں میں پہلے یہوواہ کے گواہ تھے۔—رومیوں ۱۲:۱۸۔
لیکن بائبل پر چلنے کے سب دعویداروں نے ایسا مؤقف اختیار نہ کِیا۔ دوسری عالمی جنگ کے کچھ عرصہ بعد، مارٹن نیومولر، ایک جرمن پروٹسٹنٹ پادری، نے لکھا: ”جو کوئی بھی [جنگوں] کے لئے خدا پر الزام لگانا چاہتا ہے وہ خدا کے کلام کو نہیں جانتا یا جاننا نہیں چاہتا۔ . . . مسیحی چرچ، پوری تاریخ میں، اکثروبیشتر جنگوں، فوجیوں، اور ہتھیاروں کو برکت دینے اور . . . جنگ میں اپنے دشمنوں کی تباہی کے لئے بڑے ہی غیرمسیحی طریقے سے دُعا کرتے رہے ہیں۔ یہ ہمارا اور ہمارے اسلاف کا قصور ہے تاہم، کسی بھی طرح خدا کو الزام نہیں دیا جا سکتا۔ اور ہم آجکل کے مسیحی، خلوصدل بائبل اسٹوڈنٹس [یہوواہ کے گواہوں] جیسے نامنہاد فرقے سے شرمندہ ہیں جو سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں مراکزِاسیران میں چلے گئے حتیٰکہ مارے [بھی] گئے کیونکہ اُنہوں نے جنگی خدمت کو مسترد اور انسانوں پر گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا۔“12
آج بھی یہوواہ کے گواہ اپنی اخوت کی بدولت بڑی شہرت رکھتے ہیں جو مسلمانوں اور یہودیوں، کروشیوں اور سربوں، ہوتو اور توتسی کو متحد رکھتی ہے۔ تاہم، یہوواہ کے گواہ بِلاجھجھک یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا اتحاد ممکن ہے اِس لئے نہیں کہ وہ دوسروں سے بہتر ہیں بلکہ اِس لئے کہ وہ بائبل کے پیغام کی قوت سے تحریک پاتے ہیں۔—۱-تھسلنیکیوں ۲:۱۳۔
عملی راہنمائی جو اچھی ذہنی صحت کو ترقی دیتی ہے
ایک شخص کی جسمانی صحت اکثر اُسکی ذہنی حالت اور جذباتی صحت سے اثرپذیر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، سائنسی مشاہدات نے غصے کے نقصاندہ اثرات کی نشاندہی کر دی ہے۔ ”بیشتر دستیاب ثبوت یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جلدی سے غصہ میں آنے والے لوگ کارڈیوویسکیولر بیماری (نیز دوسرے امراض) کا شکار ہو جانے کے خطرے میں ہوتے ہیں، جسکی مختلف وجوہات ہیں جس میں ملنساری کی کمی، غصے کی حالت میں شدید دباؤ یا مُضرصحت طرزِعمل میں مبتلا ہونا شامل ہے“، ڈاکٹر ریڈفورڈ ولیمز، ڈائریکٹر آف بیہیویئرل ریسرچ ایٹ ڈیوک یونیورسٹی میڈیکل سنٹر اور اُسکی اہلیہ، ورجینیا ولیمز نے اپنی کتاب اینگر کِلز میں بیان کِیا۔13
ایسے سائنسی مشاہدات سے ہزاروں سال پہلے، بائبل نے، سادہ مگر واضح الفاظ میں، ہماری جذباتی حالت اور ہماری جسمانی صحت کے درمیان تعلق کو ظاہر کِیا: ”مطمئن دِل جسم کی جان ہے لیکن حسد ہڈیوں کی بوسیدگی ہے۔“ (امثال ۱۴:۳۰؛ ۱۷:۲۲) دانشمندی سے، بائبل نے مشورت دی: ”قہر سے باز آ اور غضب کو چھوڑ دے،“ اور ”تُو اپنے جی میں خفا ہونے میں جلدی نہ کر۔“—زبور ۳۷:۸؛ واعظ ۷:۹۔
بائبل میں غصے پر قابو پانے کے سلسلے میں بھی معقول نصیحت موجود ہے۔ مثال کے طور پر، امثال ۱۹:۱۱ بیان کرتی ہے: ”آدمی کی تمیز اُس کو قہر کرنے میں دھیما بناتی ہے۔ اور خطا سے درگزر کرنے میں اُسکی شان ہے۔“ عبرانی میں ”تمیز“ ایک ایسے فعل سے مشتق ہے جو کسی چیز کے ”علم کی وجہ“ پر توجہ مبذول کراتا ہے۔ دانشمندانہ نصیحت یہ ہے: ”عمل کرنے سے پہلے سوچو۔“14 دوسرے لوگ ایک مخصوص طریقے سے کلام یا کام کیوں کرتے ہیں اِس سلسلے میں اُن بنیادی وجوہات کو سمجھنے کی کوشش کرنے سے ایک شخص کی زیادہ بُردبار بننے—جلد غصے میں نہ آنے کیلئے مدد ہو سکتی ہے۔—امثال ۱۴:۲۹۔
ایک اَور عملی نصیحت کلسیوں ۳:۱۳ میں پائی جاتی ہے جو کہتی ہے: ”اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔“ چھوٹی موٹی جھنجھلاہٹیں زندگی کا حصہ ہیں۔ ”ایک دوسرے کی برداشت کرنے“ کی اصطلاح اُن باتوں کی برداشت کرنے کی تجویز پیش کرتی ہے جنہیں ہم دوسروں میں ناپسند کرتے ہیں۔ ”معاف کرنے“ کا مطلب آزردگی کو ختم کرنا ہے۔ بعضاوقات تلخ احساسات کو دل میں رکھنے کی بجائے ختم کر دینا دانشمندی کی بات ہے؛ غصے کو دل میں رکھنا ہمارے بوجھ میں اضافہ ہی کرے گا۔—دیکھیں بکس ”انسانی رشتوں کیلئے عملی راہنمائی۔“
آجکل، مشورت اور راہنمائی کے متعدد ذرائع ہیں۔ لیکن بائبل منفرد ہے۔ اِس کی مشورت محض نظریہ ہی نہیں، نہ ہی اِس کی مشورت کبھی ہمیں نقصان پہنچاتی ہے۔ بلکہ اِس کی حکمت ”بالکل سچی“ ثابت ہوئی ہے۔ (زبور ۹۳:۵) مزیدبرآں، بائبل کی مشورت لازوال ہے۔ اگرچہ یہ تقریباً ۲،۰۰۰ سال پہلے مکمل ہوئی تھی پھر بھی اِسکی باتیں ابھی تک قابلِاطلاق ہیں۔ نیز ہمارے رنگ یا مُلک سے قطعنظر اِنکا اطلاق ہر جگہ مؤثر طور پر ہوتا ہے۔ بائبل کے الفاظ قوت بھی رکھتے ہیں—لوگوں کے اندر بہتری پیدا کرنے والی قوت۔ (عبرانیوں ۴:۱۲) پس اِس کتاب کو پڑھنا اور اِس کے اصولوں کا اطلاق کرنا آپ کی طرزِزندگی کو بہتر بنا سکتا ہے۔
[فٹنوٹ]
a عبرانی لفظ داوک، کا ترجمہ یہاں ”ملا رہے گا“ کِیا گیا ہے جو ”کسی کے ساتھ اُلفت اور وفاداری سے چمٹے رہنے کا مفہوم دیتا ہے۔“4 متی ۱۹:۵ میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”کے ساتھ رہے گا“ کِیا گیا ہے اِس کا تعلق ”چپکانے،“ ”جوڑنے،“ ”مضبوطی سے جڑے رہنے“ سے ہے۔5
b بائبل وقتوں میں، لفظ ”چھڑی“ (عبرانی، شبط) کا مطلب ایک ”لاٹھی“ یا ”عصا“ تھا، جس طرح کا چرواہا استعمال کرتا ہے۔10 اِس سلسلے میں اختیار کی چھڑی سخت مارپیٹ کی بجائے پُرمحبت راہنمائی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔—مقابلہ کریں زبور ۲۳:۴۔
c واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ کتاب خاندانی خوشی کا راز کے ابواب ”اپنے بچے کی بچپن سے تربیت کریں،“ ”اپنے جواںسال بچے کی نشوونما پانے میں مدد کریں،“ ”کیا گھر میں کوئی باغی ہے“ اور ”اپنے خاندان کو تباہکُن اثرات سے بچائیں“ کو دیکھیں۔
[صفحہ ۲۴ پر عبارت]
بائبل خاندانی زندگی کے سلسلے میں واضح، معقول مشورت پیش کرتی ہے
[صفحہ ۳۲ پر بکس]
صحتمند خاندانوں کی خصوصیات
کئی سال پہلے ایک مُعلم اور خاندانی زندگی کی ماہر نے ایک وسیع سروے کِیا جس میں ۵۰۰ سے زائد خاندانی زندگی کے مشیروں اور ماہرین سے اُن صفات پر تبصرہ کرنے کیلئے کہا گیا جنکا اُنہوں نے ”صحتمند“ خاندانوں میں مشاہدہ کِیا تھا۔ دلچسپی کی بات ہے، درجشُدہ بیشتر عام صفات میں وہ باتیں شامل تھیں جنکی بائبل نے بہت پہلے سفارش کی تھی۔
رابطے کا اچھا معمول، بشمول اختلافات کو حل کرنے کے مؤثر طریقے سرِفہرست رہے۔ صحتمند خاندانوں میں ایک عام طریقۂعمل رائج ہے کہ ”کوئی بھی رات کو دوسرے کیلئے خفگی کے احساس کے ساتھ نہیں سوتا،“ سروے کی مصنفہ نے تحریر کِیا۔6 تاہم، ۱،۹۰۰ سال سے زیادہ عرصہ پہلے، بائبل نے نصیحت کی: ”غصہ تو کرو مگر گناہ نہ کرو۔ سورج کے ڈوبنے تک تمہاری خفگی نہ رہے۔“ (افسیوں ۴:۲۶) بائبل وقتوں میں دن کا حساب غروبِآفتاب سے غروبِآفتاب تک کِیا جاتا تھا۔ پس، خاندانی زندگی کا مشاہدہ کرنے والے جدید ماہرین سے کافی پہلے، بائبل نے دانشمندانہ نصیحت کی: اختلاف پیدا کرنے والے معاملات کو جلدی سے حل کر لیں—اِس سے پہلے کہ ایک دن ختم اور دوسرا شروع ہو جائے۔
صحتمند خاندان ”گھر سے باہر جانے اور رات کے وقت سونے سے پہلے اشتعالانگیز موضوعات پر بحث نہیں چھیڑتے،“ مصنفہ نے دریافت کِیا۔ ”مَیں نے باربار ’موزوں وقت‘ کی اصطلاح سنی۔“7 اِن خاندانوں نے نادانستہ طور پر ۲،۷۰۰ سال پہلے تحریرکردہ بائبل مثل کو دہرایا: ”باموقع باتیں روپہلی ٹوکریوں میں سونے کے سیب ہیں۔“ (امثال ۱۵:۲۳؛ ۲۵:۱۱) یہ استعارہ نقشونگار والی چاندی کی ٹوکریوں میں سیبوں کی شکل میں رکھی گئی سونے کی آرائشی چیزوں کا اشارہ دے سکتا ہے—بائبل وقتوں کے قابلِقدر اور خوبصورت اثاثے۔ یہ موزوں وقت پر کہی گئی باتوں کی خوبصورتی اور قدروقیمت کو ظاہر کرتے ہیں۔ مشکل حالات میں، موزوں وقت پر کہے گئے درست الفاظ انمول ہوتے ہیں۔—امثال ۱۰:۱۹۔
[صفحہ ۲۶ پر بکس]
انسانی رشتوں کے لئے عملی راہنمائی
”تھرتھراؤ اور گناہ نہ کرو۔ اپنے اپنے بستر پر دِل میں سوچو اور خاموش رہو۔“ (زبور ۴:۴) چھوٹیموٹی آزردگیوں کے بیشتر معاملات میں اپنی باتوں کو دِل میں رکھنا دانشمندی کی بات ہو سکتی ہے یوں تلخکلامی سے بچا جا سکتا ہے۔
”بےتامل بولنے والے کی باتیں تلوار کی طرح چھیدتی ہیں لیکن دانشمند کی زبان صحتبخش ہے۔“ (امثال ۱۲:۱۸) پہلے تولو پھر بولو۔ بِلاسوچےسمجھے کہی گئی باتیں دوسروں کو گھائل کر سکتی اور دوستی کا گلا گھونٹ سکتی ہیں۔
”نرم جواب قہر کو دُور کر دیتا ہے پر کرخت باتیں غضبانگیز ہیں۔“ (امثال ۱۵:۱) نرمی سے جواب دینے کیلئے ضبطِنفس کی ضرورت ہے لیکن ایسی روش اکثر مسائل کو سلجھاتی اور پُرامن تعلقات کو فروغ دیتی ہے۔
”جھگڑے کا شروع پانی کے پھوٹ نکلنے کی مانند ہے اِسلئے لڑائی سے پہلے جھگڑے کو چھوڑ دو۔“ (امثال ۱۷:۱۴) اِس سے پیشتر کہ آپ آپے سے باہر ہو جائیں، ایسی اشتعالانگیز صورتحال سے خود کو دُور کر لینا دانشمندی ہے۔
”تُو اپنے جی میں خفا ہونے میں جلدی نہ کر کیونکہ خفگی احمقوں کے سینوں میں رہتی ہے۔“ (واعظ ۷:۹) افعال سے پہلے اکثر جذبات ہوتے ہیں۔ جلدی سے خفا ہونے والا شخص احمق ہے کیونکہ اُسکی روِش ناعاقبتاندیش اقوال یا افعال پر منتج ہو سکتی ہے۔
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
مراکزِاسیران میں سب سے پہلے ڈالے جانے والوں میں یہوواہ کے گواہ شامل تھے