کسی روحانی کمزوری کو کیسے پہچانیں اور اُس پر قابو پائیں
یونانی خرافیات کے مطابق، ٹرائے شہر کے خلاف ایک مہم، ٹراؤجن وار میں آکلیز یونانی سورماؤں میں بہادرترین شخص تھا۔ ایک روایت کے مطابق جب آکلیز بچہ ہی تھا تو اُس کی ماں نے اُسے دریائےستِکس کے پانیوں میں غوطہ دیا اور یوں اسے ناقابلِشکست بنا دیا ماسوائے اُس جگہ کے جہاں سے اُسکی ماں نے اسے پکڑ رکھا تھا—جو ایک کہاوت بن گئی ہے یعنی آکلیز کی ایڑی۔ یہ بالکل وہی جگہ تھی جہاں ٹرائے کے بادشاہ پرائم کے بیٹے، پارس کے کاری تیر نے آکلیز کو چھید ڈالا اور ہلاک کر دیا۔
مسیحی ایک روحانی جنگ لڑنے والے مسیح کے سپاہی ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۲:۳) پولس رسول وضاحت کرتا ہے، ”ہمیں کشتی کرنا ہے خون اور گوشت سے نہیں بلکہ حکومت والوں اور اختیار والوں اور اس دُنیا کی تاریکی کے حاکموں اور شرارت کی اُن روحانی فوجوں سے جو آسمانی مقاموں میں ہیں۔“ جی ہاں، ہمارے دُشمن شیطان یعنی ابلیس اور اس کے شیاطین کے علاوہ اور کوئی نہیں ہیں۔—افسیوں ۶:۱۲۔
واضح طور پر، یہوواہ کی مدد کے بغیر یہ یکطرفہ جنگ ہوگی، جسے ”صاحبِجنگ“ کے طور پر بیان کِیا گیا ہے۔ (خروج ۱۵:۳) خود کو اپنے کینہپرور دُشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ہمارے پاس روحانی زرہبکتر فراہم کِیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے پولس رسول نے تاکید کی: ”خدا کے سب ہتھیار باندھ لو تاکہ تم ابلیس کے منصوبوں کے مقابلہ میں قائم رہ سکو۔“—افسیوں ۶:۱۱۔
یہوواہ خدا کی طرف سے فراہمکردہ روحانی زرہبکتر، بِلاشُبہ، بہت اعلیٰ قسم کا ہے اور کسی بھی قسم کے روحانی حملے کا دفاع کرنے کے قابل ہے۔ ذرا پولس کی فراہمکردہ فہرست پر غور کریں: سچائی کا پٹکا، راستبازی کا بکتر، خوشخبری کے جوتے، ایمان کی سپر، نجات کا خود اور روح کی تلوار۔ کوئی شخص اَور کن اچھے ہتھیاروں کی توقع کر سکتا تھا؟ ایسے زرہبکتر کیساتھ، ایک مسیحی سپاہی کے پاس خوفناک متفرقات کے باوجود، فتح پانے کا موقع ہوتا ہے۔—افسیوں ۶:۱۳-۱۷۔
اگرچہ یہوواہ کی طرف سے روحانی زرہبکتر بہت اعلیٰ قسم کا ہے اور ہمارے لئے باعثِتحفظ ہے تو بھی ہمیں اُسے معمولی خیال نہیں کرنا چاہئے۔ ناقابلِتسخیر آکلیز کو ذہن میں رکھتے ہوئے، کیا یہ ممکن ہے کہ شاید ہم بھی کوئی کمزور گوشہ رکھتے ہیں، آکلیز کی کوئی روحانی ایڑی؟ اگر ہم غافل پائے جاتے ہیں تو یہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
اپنے روحانی بکتر کو جانچیں
اولمپک میں دو مرتبہ گولڈ میڈل حاصل کرنے والا پریکٹس کے دوران اچانک گر کر ہلاک ہو گیا جو بظاہر اعلیٰ درجے کی جسمانی صحت کا مالک تھا۔ اس کے تھوڑی ہی دیر کے بعد دی نیو یارک ٹائمز میں ایک سنجیدہ خبر چھپی: ”ہر سال عارضۂقلب کا شکار ہونے والے ۶،۰۰،۰۰۰ امریکیوں کی نصف تعداد میں قبلازوقت اسکی علامات موجود نہیں ہوتیں۔“ ظاہر ہے کہ ہماری صحت اس بات کا تعیّن نہیں کر سکتی کہ ہم کیسا محسوس کرتے ہیں۔
جب ہماری روحانی فلاحوبہبود کی بات آتی ہے تو اُس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ بائبل نصیحت کرتی ہے: ”پس جو کوئی اپنے آپ کو قائم سمجھتا ہے وہ خبردار رہے کہ گر نہ پڑے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۲) تاہم ہمارے بہترین روحانی زرہبکتر کے باوجود کمزوری پیدا ہو سکتی ہے۔ اسلئے کہ ہم گناہ میں پیدا ہوئے ہیں اور ہماری گنہگارانہ اور ناکامل فطرت خدا کی مرضی بجا لانے کے ہمارے عزم پر بآسانی غلبہ پا سکتی ہے۔ (زبور ۵۱:۵) ہمارے نیک ارادوں کے باوجود، ہمارا حیلےباز دل بظاہر درست نقطۂنظر رکھنے اور بہانے بنانے سے ہمیں دھوکہ دے سکتا ہے اور یوں ہم اپنی کمزوری کو بآسانی نظرانداز کرتے ہوئے خود کو اس خیال سے دھوکہ دیتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔—یرمیاہ ۱۷:۹؛ رومیوں ۷:۲۱-۲۳۔
علاوہازیں، ہم ایک ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جہاں صحیح اور غلط کا احساس اکثر مبہم اور شکستہ ہے۔ کسی چیز کے صحیح یا غلط ہونے کا تعیّن اس بات سے کِیا جا سکتا ہے کہ وہ شخص کیسا محسوس کرتا ہے۔ اس قسم کی سوچ کو اشتہاربازی، مقبول تفریحی پروگراموں اور ابلاغِعامہ سے فروغ دیا جاتا ہے۔ بدیہی طور پر، اگر ہم محتاط نہیں ہیں تو ہم اس قسم کی سوچ میں پڑ سکتے ہیں اور ہمارا روحانی زرہبکتر کمزور پڑنا شروع ہو سکتا ہے۔
ایسی خطرناک حالت میں پڑنے کی بجائے، ہمیں بائبل کی نصیحت پر دھیان دینا چاہئے: ”تم اپنے آپ کو آزماؤ کہ ایمان پر ہو یا نہیں۔ اپنے آپ کو جانچو۔“ (۲-کرنتھیوں ۱۳:۵) جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم کسی بھی کمزوری کی نشاندہی کرنے کے قابل ہو جائیں گے جو شاید پیدا ہو چکی ہے اور اس سے قبل کہ ہمارے دُشمن اُن سے واقف ہو کر اُنہیں حملے کا نشانہ بنائیں ہم اُن کی درستی کرنے کیلئے ضروری اقدام اُٹھائیں گے۔ تاہم، ہم ایسی آزمائش کے تحت کیا کر سکتے ہیں؟ بعض علامات کونسی ہیں جن پر ہمیں اس ذاتی تجزیے پر غور کرنا چاہئے؟
علامات کو پہچاننا
روحانی کمزوری کو ظاہر کرنے والی ایک عام علامت ہمارے ذاتی مطالعے کی عادات میں سُست پڑ جانا ہے۔ بعض محسوس کرتے ہیں کہ اُنہیں اَور زیادہ مطالعہ کرنا چاہئے لیکن اُس ارادے پر پورا اترتے دکھائی نہیں دیتے۔ آج کی مصروف زندگی کے پیشِنظر، ایسی بُری حالت میں مبتلا ہو جانا آسان ہے۔ تاہم اس سے بھی زیادہ خرابی یہ ہے کہ لوگ اکثر پُرفریب توجیہ پیش کرتے ہیں کہ وہ کوئی زیادہ بُرا کام تو نہیں کر رہے ہیں جبکہ وہ حتیٰالوسع بائبل مطبوعات پڑھتے اور بعض مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہوتے ہیں۔
ایسی توجیہ خودفریبی کی ایک شکل ہے۔ یہ اُس آدمی کی مانند ہے جو یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اتنا مصروف ہے کہ اُس کے پاس بیٹھ کر کھانا کھانے کیلئے بھی وقت نہیں ہے لہٰذا جب بھی ممکن ہو تو وہ ایک دو نوالے لگا لیتا ہے اور ایک کے بعد دوسرا کام کرتا رہتا ہے۔ اگرچہ وہ فاقہزدگی کا شکار نہ ہو تو بھی جلد یا بدیر صحت کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح، باقاعدگی کیساتھ غذائیتبخش روحانی خوراک نہ لینے سے ہم جلد ہی اپنے روحانی زرہبکتر میں کمزوریاں پیدا کر سکتے ہیں۔ دنیاوی پروپیگنڈے اور رجحانات کی مسلسل بھرمار کی بدولت ہم بآسانی شیطان کے مُہلک حملوں کے آگے ہتھیار ڈال سکتے ہیں۔
روحانی کمزوری کی اَور علامت اپنی روحانی جنگ میں فوری ضرورت کے احساس کا ختم ہو جانا ہے۔ اَمن کے دَور میں ایک سپاہی جنگ سے متعلق تناؤ اور خطرہ محسوس نہیں کرتا۔ اسلئے شاید وہ تیار رہنے کی ضرورت کو محسوس نہ کرے۔ اگر اسے اچانک کارروائی کرنے کیلئے بلایا جاتا ہے تو شاید وہ اس کیلئے تیار نہ ہو۔ روحانی طور پر بھی ایسا ہی ہے۔ اگر ہم اپنے فوری ضرورت کے احساس کو ختم ہونے کی اجازت دیتے ہیں تو شاید ہم اُن حملوں کو روکنے کیلئے تیار نہ ہوں جو ہماری راہ میں حائل ہو سکتے ہیں۔
تاہم، ہم کیسے اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آیا ہم واقعی اس حالت میں مبتلا ہیں؟ ہم خود سے کچھ ایسے سوالات پوچھ سکتے ہیں جو معاملات کی صحیح عکاسی کر سکتے ہیں: کیا مَیں خدمتگزاری میں شرکت کرنے کے لئے اُتنا ہی شوق رکھتا ہوں جتنا مَیں سیروتفریح میں جانے کے لئے رکھتا ہوں؟ کیا مَیں اجلاسوں کی تیاری کرنے کے لئے اُتنا ہی وقت صرف کرنے کے لئے تیار ہوں جتنا مَیں خریداری کرنے یا ٹیلیویژن دیکھنے کے لئے صرف کرتا ہوں؟ کیا مَیں اُن حاصلات اور مواقع پر دوبارہ غور کرتا ہوں جنہیں مَیں نے اس وقت ترک کِیا تھا جب مَیں مسیحی بنا تھا؟ کیا مَیں دوسروں کی پُرآسائش زندگی پر رشک کرتا ہوں؟ یہ سوچ کو تحریک دینے والے سوال ہیں جو ہمارے روحانی زرہبکتر میں کسی بھی طرح کی کمزوری کی نشاندہی کرنے کے لئے معاون ہیں۔
ہمارا زرہبکتر چونکہ روحانی ہے اسلئے یہ ضروری ہے کہ خدا کی روح ہماری زندگی میں آزادی کیساتھ کام کرے۔ اس کا اندازہ اُس مقدار سے لگایا جاتا ہے جس سے خدا کی روح کے پھل ہماری تمام کارگزاریوں سے ظاہر ہوتے ہیں۔ جب دوسرے لوگ آپ کے مزاج کے مطابق کوئی کام نہیں کرتے یا کچھ نہیں کہتے تو کیا آپ جلدی سے غصے میں آ جاتے ہیں یا پریشان ہو جاتے ہیں؟ کیا آپ مشورت کو قبول کرنا مشکل پاتے ہیں یا کیا آپ محسوس کرتے ہیں کہ دوسرے ہمیشہ آپ پر تنقید کرتے ہیں؟ کیا آپ دوسرے لوگوں کے استحقاقات یا کامرانیوں سے سخت حسد کرتے ہیں؟ کیا آپ دوسروں کیساتھ، بالخصوص اپنے ہمسروں کیساتھ گزربسر کرنا مشکل پاتے ہیں ؟ ایک دیانتدارانہ ذاتی جائزہ اس بات کو سمجھنے میں ہماری مدد کریگا کہ آیا ہماری زندگی خدا کی روح کے پھلوں سے معمور ہے یا آیا نفسانی کام چپکے چپکے ظاہر ہو رہے ہیں۔—گلتیوں ۵:۲۲-۲۶؛ افسیوں ۴:۲۲-۲۷۔
روحانی کمزوری پر قابو پانے کیلئے مثبت اقدام
روحانی کمزوری کی علامات کو پہچاننا الگ بات ہے؛ اُن کا سامنا کرنا اور معاملات کی تصحیح کے لئے قدم اُٹھانا فرق بات ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بیشتر لوگ پُرفریب توجیہ پیش کرنے، مسائل کو کم اہم خیال کرنے یا اُن کے وجود سے انکار کرنے کا میلان رکھتے ہیں۔ یہ کتنا خطرناک ہے—یہ جنگ میں نامکمل زرہبکتر پہن کر جانے کے مترادف ہے! ایسی روش ہمیں شیطان کے حملے کے سامنے غیرمحفوظ بنا دیگی۔ اس کی بجائے، جو بھی خامیاں ہمیں نظر آتی ہیں اُنکی اصلاح کرنے کے لئے ہمیں فوراً مثبت قدم اُٹھانے چاہئیں۔ ہم کیا کر سکتے ہیں؟—رومیوں ۸:۱۳؛ یعقوب ۱:۲۲-۲۵۔
روحانی جنگ—جس میں مسیحی دماغ اور دل پر قابو رکھنا شامل ہے—میں مصروف ہونے کی وجہ سے اپنی صلاحیتوں کو محفوظ رکھنے کیلئے ہم جو کچھ کر سکتے ہیں ہمیں کرنا چاہئے۔ یاد رکھیں کہ ہمارے روحانی لباس میں ”راستبازی کا بکتر“ جو ہمارے دل کی حفاظت کرتا ہے اور ”نجات کا خود“ بھی شامل ہے جو ہمارے ذہن کی حفاظت کرتا ہے۔ ان فراہمیوں کو مؤثر طور پر استعمال کرنے کی بابت سیکھنے کا مطلب فتح اور شکست کے درمیان امتیاز کرنا ہو سکتا ہے۔—افسیوں ۶:۱۴-۱۷؛ امثال ۴:۲۳؛ رومیوں ۱۲:۲۔
”راستبازی کے بکتر“ کو موزوں طور پر پہننا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم راستبازی کیلئے اپنی محبت اور بدکاری کیلئے اپنی نفرت کے سلسلے میں اپنا جائزہ لیتے رہیں۔ (زبور ۴۵:۷؛ ۹۷:۱۰؛ عاموس ۵:۱۵) کیا دُنیا کیساتھ ساتھ ہمارے معیار بھی پست ہو گئے ہیں؟ کیا ہم اب حقیقی زندگی یا ٹیلیویژن اور مووی سکرین پر، کتابوں اور رسائل میں دکھائی جانے والی تفریح کی ایسی چیزوں کو پسند کرتے ہیں جو کبھی ہمیں آزردہخاطر یا پریشان کِیا کرتی تھیں؟ راستبازی کیلئے محبت یہ سمجھنے میں ہماری مدد کریگی کہ دُنیا میں جس چیز کی آزادی یا شائستگی کے طور پر بڑائی کی جاتی ہے وہ درپردہ حقیقت میں ابتری یا دھوکہ ہو سکتی ہے۔—رومیوں ۱۳:۱۳، ۱۴؛ ططس ۲:۱۲۔
”نجات کا خود“ پہننے میں آنے والی شاندار برکات کو واضح طور پر ذہننشین کرنا اور دُنیا کی چمکدمک اور کشش سے خود کو حقیقی راستے سے بھٹک جانے کی اجازت نہ دینا شامل ہے۔ (عبرانیوں ۱۲:۲، ۳؛ ۱-یوحنا ۲:۱۶) ایسا نقطۂنظر ہمیں مادی حاصلات اور ذاتی نفع کے مقابلے میں روحانی مفادات کو مقدم رکھنے میں مدد دیگا۔ (متی ۶:۳۳) پس اس بات کا یقین کرنے کیلئے کہ ہم اس لباس کو موزوں طور پر پہنے ہوئے ہیں ہمیں دیانتداری سے خود سے پوچھنا چاہئے: مَیں زندگی میں کس چیز کی تلاش کر رہا ہوں؟ کیا مَیں مخصوص روحانی نشانے رکھتا ہوں؟ اُنہیں حاصل کرنے کیلئے مَیں کیا کر رہا ہوں؟ خواہ ہم ممسوح مسیحیوں کے بقیہ یا ”بڑی بھیڑ“ کے جمِغفیر میں سے ہیں، ہمیں پولس کی نقل کرنی چاہئے جس نے کہا: ”میرا یہ گمان نہیں کہ پکڑ چکا ہوں بلکہ صرف یہ کرتا ہوں کہ جو چیزیں پیچھے رہ گئیں اُنکو بھول کر آگے کی چیزوں کی طرف بڑھا ہؤا۔ نشان کی طرف دوڑا ہوا جاتا ہوں تاکہ اُس انعام کو حاصل کروں۔“—مکاشفہ ۷:۹؛ فلپیوں ۳:۱۳، ۱۴۔
ہمارے روحانی زرہبکتر کی بابت پولس کا بیان اس فہمائش کیساتھ ختم ہوتا ہے: ”ہر وقت اور ہر طرح سے روح میں دُعا اور منت کرتے رہو اور اسی غرض سے جاگتے رہو کہ سب مقدسوں کے واسطے بِلاناغہ دُعا کِیا کرو۔“ (افسیوں ۶:۱۸) کسی بھی روحانی کمزوری پر قابو پانے یا بچنے کیلئے ہم جو دو مثبت اقدامات کر سکتے ہیں یہ اُن کی نشاندہی کرتا ہے: خدا کیساتھ ایک اچھے رشتے کو فروغ دیں اور ساتھی مسیحیوں کیساتھ ایک قریبی بندھن میں بندھ جائیں۔
جب ہم ”ہر طرح“ کی دُعاؤں (اپنے گناہوں کا اعتراف، معافی کے لئے التجا، راہنمائی کیلئے درخواست، برکات کیلئے شکرگزاری، اور دلی حمدوستائش) اور ”ہر وقت“ (سب کے روبُرو، پوشیدگی میں، ذاتی طور پر، برجستہ طور پر) یہوواہ کی طرف رجوع کرنے کو اپنی عادت بنا لیتے ہیں تو ہم یہوواہ کیساتھ ایک انتہائی قریبی رشتے میں بندھ جاتے ہیں۔ یہ سب سے بڑا تحفظ ہے جو ہمیں حاصل ہو سکتا ہے۔—رومیوں ۸:۳۱؛ یعقوب ۴:۷، ۸۔
اسکی دوسری طرف، ہمیں ”تمام مُقدسوں کے واسطے“ یعنی اپنے ساتھی مسیحیوں کے واسطے دُعا کرنے کی نصیحت کی گئی ہے۔ ہم اپنی دُعاؤں میں دوردراز ممالک میں رہنے والے اپنے اُن روحانی بھائیوں کو یاد کر سکتے ہیں جو اذیت یا دیگر مشکلات برداشت کر رہے ہیں۔ تاہم اُن مسیحیوں کی بابت کیا ہے جن کیساتھ ہم روزانہ کام کرتے اور رفاقت رکھتے ہیں؟ اُن کیلئے دُعا کرنا بھی موزوں ہے جیسے یسوع نے اپنے شاگردوں کیلئے دُعا کی تھی۔ (یوحنا ۱۷:۹؛ یعقوب ۵:۱۶) ایسی دُعائیں ہمیں ایک دوسرے کی قربت میں لاتی ہیں اور ہمیں ”شریر“ کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے مضبوط بناتی ہیں۔—۲-تھسلنیکیوں ۳:۱-۳۔
آخر میں، پطرس رسول کی پُرمحبت فہمائش کو اچھی طرح ذہننشین کر لیں: ”سب چیزوں کا خاتمہ جلد ہونے والا ہے۔ پس ہوشیار رہو اور دُعا کرنے کے لئے تیار۔ سب سے بڑھکر یہ ہے کہ آپس میں بڑی محبت رکھو کیونکہ محبت بہت سے گناہوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔“ (۱-پطرس ۴:۷، ۸) انسانی ناکاملیتوںکو—ہماری ذاتی یا دوسروں کی—اپنے دلوں اور دماغوں میں سرایت کر جانے اور ٹھوکر کھلانے والی رکاوٹیں بن جانے کی اجازت دے دینا بہت آسان ہوتا ہے۔ شیطان اس انسانی کمزوری سے اچھی طرح واقف ہے۔ نفاق ڈالو اور حکومت کرو اس کی مکارانہ تدابیر میں سے ایک ہے۔ اس لئے، ہمیں ایک دوسرے کے لئے گہری محبت کیساتھ ایسے گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لئے جلدی کرنی چاہئے اور ”ابلیس کو موقع“ نہیں دینا چاہئے۔—افسیوں ۴:۲۵-۲۷۔
اب روحانی طور پر مضبوط رہیں
جب آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کے بال اُلجھے ہوئے ہیں یا آپ کی ٹائی مڑی ہوئی ہے تو آپ کیا کرتے ہیں؟ غالباً آپ جلدازجلد اُنہیں درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چند لوگ یہ سوچ کر اُنہیں ویسا ہی رہنے دیں گے کہ ایسی جسمانی بےقاعدگیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب ہماری روحانی کمزوری کی بات آتی ہے تو ہمیں فوری طور پر جوابیعمل دکھانا چاہئے۔ جسمانی داغدھبوں کو شاید لوگ ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھیں لیکن روحانی نقائص جن کی اصلاح نہیں کی جاتی وہ یہوواہ کی ناپسندیدگی پر منتج ہو سکتے ہیں۔—۱-سموئیل ۱۶:۷۔
یہوواہ نے پُرمحبت طریقے سے ہمیں وہ سب کچھ فراہم کِیا ہے جسکی ہم سب کو روحانی کمزوری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور روحانی طور پر مضبوط رہنے کیلئے ضرورت ہے۔ وہ مسیحی اجلاسوں، بائبل مطبوعات، پُختہ اور پاسولحاظ دکھانے والے ساتھی مسیحیوں کے ذریعے مسلسل یاددہانیاں اور مفید مشورے فراہم کرتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ اسکا انحصار ہم پر ہے کہ اُنہیں قبول کر کے اُنکا اطلاق کریں۔ یہ کوشش اور ضبطِنفس کا تقاضا کرتا ہے۔ لیکن یاد کریں کہ پولس رسول نے دیانتداری کیساتھ کیا کہا تھا: ”مَیں بھی اسی طرح دوڑتا ہوں یعنی بےٹھکانا نہیں۔ مَیں اسی طرح مکوں سے لڑتا ہوں یعنی اسکی مانند نہیں جو ہوا کو مارتا ہے۔ بلکہ مَیں اپنے بدن کو مارتا کوٹتا اور اسے قابو میں رکھتا ہوں ایسا نہ ہو کہ اوروں میں منادی کر کے آپ نامقبول ٹھہروں۔“—۱-کرنتھیوں ۹:۲۶، ۲۷۔
ہوشیار رہیں اور کسی روحانی آکلیز کی ایڑی [کمزوری] کو سر اُٹھانے کی اجازت نہ دیں۔ اس کی بجائے، آئیے فروتنی اور جرأت کیساتھ وہی کچھ کریں جو کسی بھی روحانی کمزوری کو پہچاننے اور اُس پر قابو پانے کیلئے اس وقت ضروری ہے۔
[صفحہ 19 پر عبارت]
”تم اپنے آپ کو آزماؤ کہ ایمان پر ہو یا نہیں۔ اپنے آپ کو جانچو۔“ —۲-کرنتھیوں ۱۳:۵۔
[صفحہ 21 پر عبارت]
”دُعا کرنے کیلئے تیار رہو۔ سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ آپس میں بڑی محبت رکھو کیونکہ محبت بہت سے گناہوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔“ —۱-پطرس ۴:۷، ۸۔
[صفحہ 20 پر بکس/تصویر]
خود سے پوچھیں . . .
◆ کیا مَیں اجلاسوں کی تیاری کرنے کے لئے اُسی قدر اشتیاق کے ساتھ وقت صرف کرتا ہوں جیسے کہ مَیں ٹیلیویژن دیکھنے یا خریداری کرنے کے لئے کرتا ہوں؟
◆ کیا مَیں دوسروں کی پُرآسائش طرزِزندگی پر رشک کرتا ہوں؟
◆ جب دوسرے لوگ میری پسند کے خلاف کام کرتے یا کچھ کہتے ہیں تو کیا مَیں فوراً غصے میں آ جاتا ہوں؟
◆ کیا مَیں مشورت قبول کرنا مشکل پاتا ہوں یا کیا مَیں محسوس کرتا ہوں کہ دوسرے ہمیشہ مجھے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں؟
◆ کیا مَیں دوسروں کیساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنا مشکل پاتا ہوں؟
◆ کیا دُنیا کیساتھ ساتھ میرے معیار بھی گِر گئے ہیں؟
◆ کیا مَیں مخصوص روحانی نشانے رکھتا ہوں؟
◆ روحانی نشانوں تک پہنچنے کیلئے مَیں کیا کر رہا ہوں؟
[صفحہ 18 پر تصویروں کے حوالہجات]
;Great Men and Famous Women Achilles: From the book
Roman soldiers and page 21: Historic Costume in
Pictures/Dover Publications, Inc., New York