بہت کم آزادی والا چوڑا راستہ
آؔسٹریلیا، سڈنیؔ میں، ایک خاندان کے تین افراد—باپ، ماں، اور چھوٹی بیٹی—گھر کے اندر تھے، جس وقت کہ گھر کو آگ لگ گئی۔ اُنہوں نے کھڑکیوں سے کودنے کی کوشش کی مگر اُن میں سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔ حفاظتی سلاخوں کی وجہ سے، آگ بجھانے والے آدمی اُنہیں بچا نہ سکے۔ ماں اور باپ تو دھوئیں اور شعلوں کی نذر ہو گئے۔ بیٹی بعدازاں ہسپتال میں دم توڑ گئی۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ یہ خاندان نصبکردہ سلاخوں کی وجہ سے مر گیا جنکا مقصد اِنکی حفاظت کرنا تھا! ہمارے زمانے کی بابت یہ رائے عام ہے کہ سلاخوں اور حفاظتی تالوں کے ذریعے اپنے گھر کو محفوظ رکھنے میں یہ خاندان تنہا نہیں ہے۔ بہت سے ہمسائے بھی قلعوں کی مانند گھر اور املاک رکھتے ہیں۔ کیوں؟ وہ تحفظ اور ذہنی سکون کی تلاش میں ہیں۔ ایک ”آزاد“ معاشرے کو یہ کیسا روگ لگا ہے کہ لوگ صرف اُسی وقت محفوظ محسوس کرتے ہیں جب وہ اپنے ہی گھروں میں قیدیوں کی طرح بند ہوتے ہیں! آبادیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد میں، بچے اب مزید قریبی پارک میں بحفاظت کھیل نہیں سکتے یا والدین میں سے کسی ایک یا کسی دوسرے بالغ شخص کی نگرانی کے بغیر سکول نہیں جا سکتے۔ زندگی کے کئی حلقوں میں، آزادی صبح کی شبنم کی طرح کافور ہوتی جا رہی ہے۔
ایک بدلا ہوا طرزِزندگی
ہمارے باپدادا کا زمانہ فرق تھا۔ جب وہ بچے تھے تو عام طور پر جہاں وہ چاہتے بِلاخوفوخطر کھیل سکتے تھے۔ جوانوں کے طور پر اُنہیں تالوں اور سلاخوں کی کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ وہ آزاد محسوس کرتے تھے اور وہ کسی حد تک آزاد تھے۔ لیکن ہمارے باپدادا نے اپنی زندگی کے دوران ہی معاشرے کے رجحان کی تبدیلی کو دیکھا ہے۔ یہ بےحس، زیادہ خودغرض ہو گیا ہے؛ بہتیری جگہوں پر ہمسائے کی محبت ہمسائے کے ڈر میں بدل گئی ہے، جو مذکورہبالا المناک واقعہ کا سبب بنی۔ اِس بڑھتے ہوئے آزادی کے فقدان کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کی مسلسل تنزلی ہوئی ہے۔ معاشرہ ”نئی اخلاقیات“ کا گرویدہ ہو گیا ہے، لیکن درحقیقت، صورتحال اب اِس حد تک پہنچ گئی ہے جہاں ذرا سی اخلاقیات کو بھی دیکھنا مشکل ہو گیا ہے۔
کوئؔینزلینڈ کی یونیورسٹی میں ایجوکیشن کے ایک سابق لیکچرار، ڈاکٹر روؔپرٹ گڈمین نے لکھا: ”نوجوان لوگ اب ایک ایسے مختلف، عیشپرستانہ . . . طرزِزندگی کے خطرے میں ہیں جہاں ’نفس‘ مرکزی چیز ہے: نفسپروری، نفسآگہی، تکمیلِنفس، نفسپرستی۔“ اُس نے یہ بھی کہا: ”ضبطِنفس، نفسکُشی، محنتکشی، کفایتشعاری، اختیار کا احترام، والدین کی محبت اور عزت . . . جیسی اقدار بہتیروں کیلئے اجنبی تصورات ہیں۔“
واقعی ایک چوڑا راستہ
جو لوگ بائبل کی پیشینگوئی سے واقف ہیں وہ اِس عام نفسانفسی پر متحیر نہیں ہیں، کیونکہ یسوؔع مسیح نے اپنے سامعین کو آگاہ کِیا تھا: ”وہ دروازہ چوڑا ہے اور وہ راستہ کشادہ ہے جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے اور اُس سے داخل ہونے والے بہت ہیں۔ کیونکہ وہ دروازہ تنگ ہے اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کو پہنچاتا ہے اور اُسکے پانے والے تھوڑے ہیں۔“ (متی ۷:۱۳، ۱۴) پہلا راستہ ”چوڑا“ ہے جو بہت سارے مسافروں کیلئے کافی گنجائش رکھتا ہے کیونکہ یہ اخلاقیات اور روزمرّہ زندگی کی رہبری کرنے والے بائبل اصولوں کا پابند نہیں ہے۔ یہ اُنہیں اچھا لگتا ہے جو اپنی مرضی کے مطابق سوچنا اور اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں—ضابطوں کے بغیر، ذمہداریوں کے بغیر۔
سچ ہے کہ بہتیرے جنہوں نے چوڑے راستے کا انتخاب کِیا ہے وہ اپنی آزادی سے لطف اُٹھانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن اُن میں سے زیادہتر خودغرضی کے عام رجحان کی رَو میں بہہ گئے ہیں۔ بائبل کہتی ہے کہ وہ اُس ”روح“ کے زیرِاثر ہیں ”جو اب نافرمانی کے فرزندوں میں تاثیر کرتی ہے۔“ یہ روح انہیں ”جسم . . . میں اور جسم . . . کے اِرادے پورے“ کرنے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تحریک دیتی ہے خواہ یہ بداخلاقی، منشیات کا ناجائز استعمال یا دولت، وقار، یا پھر اقتدار کا بےرحم حصول ہی کیوں نہ ہو۔—افسیوں ۲:۲، ۳۔
چوڑا راستہ تباہی کی طرف لے جاتا ہے
غور کریں کہ چوڑے راستے پر چلنے والے ”جسم . . . کے اِرادے پورے“ کرنے کی ترغیب پاتے ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بالکل آزاد نہیں ہیں—اُنکا ایک آقا ہے۔ وہ جسم کے غلام ہیں۔ اور اِس آقا کی خدمت کرنا بہت سے مسائل پر منتج ہو سکتا ہے—جنسی طور پر لگنے والی بیماریاں، شکستہ خاندان، منشیات اور الکحل کے ناجائز استعمال سے بیمار ہونے والے جسم اور دماغ، چند ایک ہیں۔ تشدد، نقبزنی اور زنابالجبر کے کاموں کی جڑیں بھی اِس اباحتی چوڑے راستے پر فروغ پانے والی نفسانفسی کی سوچ میں ملتی ہیں۔ اور، جبتک یہ ”راستہ . . . جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے“ موجود رہتا ہے، اِسکے پھل اَور بھی مُضر ہوتے چلے جائینگے۔—امثال ۱:۲۲، ۲۳؛ گلتیوں ۵:۱۹-۲۱؛ ۶:۷۔
آسٹرؔیلیا کی دو سچی سرگزشتوں پر غور کریں۔ میرؔی نشہآور ادویات کا بیجا استعمال کرنے اور بداخلاقی کرنے کی آزمائش میں پڑ گئی۔a لیکن حاصل ہونے والی خوشی نے اُسے شُبہ میں ڈال دیا۔ دو بچے ہونے کے باوجود بھی، اُسکی زندگی کھوکھلی لگتی تھی۔ وہ اُس وقت مایوسی کی انتہا تک پہنچ گئی جب اُسے معلوم ہوا کہ وہ ایڈز میں مبتلا ہو چکی تھی۔
ٹاؔم نے ایک فرق طریقے سے نقصان اُٹھایا۔ ”مَیں شمالی کوئؔینزلینڈ میں ایک چرچ کی عمارت میں جوان ہوا،“ وہ لکھتا ہے۔ ”۱۶ سال کی عمر میں، مَیں نے بہت زیادہ شرابنوشی شروع کر دی۔ میرا والد، چچا اور دوست سب بلا کے شرابی تھے، لہٰذا ایسا کرنا ایک فطرتی امر دکھائی دیتا تھا۔ مَیں اِس حد تک پہنچ گیا کہ بیئر سے لیکر میتھلیٹڈ سپرٹ تک ہر چیز پی جاتا تھا۔ مَیں نے گھوڑوں پر شرطیں بھی لگانا شروع کر دیں، بعضاوقات تو سخت محنت سے کمائی ہوئی اپنی کافی رقم بھی ہار جاتا تھا۔ یہ کوئی کم رقم نہیں ہوتی تھی، کیونکہ گنے کاٹنے کا میرا کام کافی پیسے والا تھا۔
”پھر میری شادی ہوئی اور ہمارے ہاں بچے پیدا ہوئے۔ اپنی ذمہداریوں کا سامنا کرنے کی بجائے، مَیں نے وہی کِیا جو میرے دوست کرتے تھے—شرابنوشی، جُوا، اور جھگڑا۔ مَیں کئی مرتبہ مقامی جیل میں بھی بند ہوا۔ لیکن اسکا بھی مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ میری زندگی رُوبہزوال تھی۔ یہ مسائل کا پلندا تھی۔“
جیہاں، غلط خواہشات میں پڑ جانے سے، ٹاؔم اور میرؔی نے نہ صرف خود کو بلکہ اپنے خاندانوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ افسوس کی بات ہے کہ دیگر بہتیرے نوجوان لوگ چوڑے راستے پر پیشکردہ آزادی کے بےقابو، گمراہ جذبے کے فریب میں آنے کی طرف مائل ہیں۔ کاش نوجوان لوگ اِس پردے، فریب کے پار دیکھ سکیں۔ کاش وہ چوڑے راستے کی حقیقتوں کو دیکھ سکیں—بالآخر اِس پر گامزن تمام لوگوں کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑیگی۔ سچ ہے کہ یہ چوڑا ہے اور اس پر چلنا آسان ہے۔ لیکن اِسکی عین چوڑائی ہی عذاب ہے۔ دانشمندی کی روش اِس ناقابلِتردید حقیقت پر دھیان دینا ہے کہ ”جو کوئی اپنے جسم کے لئے بوتا ہے وہ جسم سے ہلاکت کی فصل کاٹیگا۔“—گلتیوں ۶:۸۔
تاہم، ایک بہتر انتخاب بھی ہے۔ یہ تنگ راستہ ہے۔ لیکن یہ راستہ کسقدر محدود کرنے والا، کسقدر سکڑا اور تنگ ہے؟ اور یہ کہاں جاتا ہے؟ (۳ ۹/۰۱ w۹۵)
[فٹنوٹ]
a نام بدل دئے گئے ہیں۔