کیا آپ کو اپنے مستقبل پر اختیار ہے؟
کیا ہمارا مستقبل پہلے سے لکھ دیا گیا ہے؟ کیا زندگی میں کئے جانے والے انتخابات کا ہمارے مستقبل پر کوئی اثر نہیں پڑتا؟
فرض کریں کہ انسان کو اپنے مستقبل پر اختیار حاصل ہے۔ اس صورت میں، کیا کسی شخص کو کوئی خاص کام کرنے کی ذمہداری سونپی جا سکتی ہے؟ نیز اگر انسان خود ہی اپنے مستقبل پر اختیار رکھتے ہیں تو پھر خدا زمین کیلئے اپنی مرضی کیسے پوری کر سکتا ہے؟ بائبل ان سوالات کے تسلیبخش جواب فراہم کرتی ہے۔
تقدیر اور آزاد مرضی—کیا یہ ہمآہنگ ہیں؟
غور کریں کہ یہوواہ خدا نے ہمیں کیسے خلق کِیا۔ بائبل بیان کرتی ہے، ”خدا کی صورت پر اُسکو پیدا کِیا۔ نروناری اُنکو پیدا کِیا۔“ (پیدایش ۱:۲۷) خدا کی صورت پر ہونے کی وجہ سے ہمارے اندر محبت، انصاف، حکمت اور طاقت جیسی صفات ظاہر کرنے کی صلاحیت ہے۔ اسکے علاوہ خدا نے ہمیں آزاد مرضی کیساتھ خلق کِیا ہے۔ اس وجہ سے ہم اُسکی زمینی مخلوق میں سب سے منفرد ہیں۔ ہمارے پاس یہ انتخاب کرنے کا حق ہے کہ آیا ہم خدا کے اخلاقی معیاروں کی پابندی کرینگے یا نہیں۔ اسی لئے موسیٰ نبی کہہ سکتا تھا: ”مَیں آج کے دن آسمان اور زمین کو تمہارے برخلاف گواہ بناتا ہوں کہ مَیں نے زندگی اور موت کو اور برکت اور لعنت کو تیرے آگے رکھا ہے پس تُو زندگی کو اختیار کر کہ تُو بھی جیتا رہے اور تیری اولاد بھی۔ تاکہ تُو [یہوواہ] اپنے خدا سے محبت رکھے اور اُسکی بات سنے اور اُسی سے لپٹا رہے۔“—استثنا ۳۰:۱۹، ۲۰۔
تاہم انتخاب کرنے کی آزادی حاصل ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں مکمل آزادی حاصل ہے۔ کائنات کے استحکام اور ہمآہنگی کو قائم رکھنے کیلئے خدا نے جو اخلاقی اور طبعی قوانین بنائے ہیں ہم اُنکے پابند ہیں۔ یہ قوانین ہمارے فائدے کیلئے ہیں اور انکی نافرمانی ہمارے لئے سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ ذرا سوچیں اُس وقت کیا ہوگا جب ہم کششِثقل کے قانون کو نظرانداز کرتے ہوئے کسی اُونچی عمارت سے چھلانگ لگا دیتے ہیں!—گلتیوں ۶:۷۔
انتخاب کی آزادی ہمیں کسی حد تک پابند بنا دیتی ہے جبکہ وہ مخلوق جسے ایسی آزادی حاصل نہیں پابند نہیں ہے۔ مصنف کارلس لامونٹ سوال کرتا ہے: ”اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ انسانوں کے انتخابات اور کاموں کا تعیّن پہلے ہی کر دیا جاتا ہے تو پھر ہم اُنہیں کیسے کسی طرح کے اخلاقی ضابطے کے پابند کر سکتے یا غلطکاری کی سزا کیسے دے سکتے ہیں؟“ بیشک ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ جبلّی طور پر کام کرنے والے حیوان اپنے کاموں کیلئے جوابدہ نہیں اور نہ ہی کمپیوٹرز کو اُن کاموں کیلئے جوابدہ ٹھہرایا جاتا ہے جنہیں انجام دینے کیلئے اُنہیں تیار کِیا گیا ہے۔ لہٰذا، انتخاب کی آزادی ہم پر بھاری ذمہداری لاتی اور ہمیں اپنے کاموں کیلئے جوابدہ ٹھہراتی ہے۔
اگر یہوواہ خدا ہمارے پیدا ہونے سے پہلے ہی ہماری زندگی کا تعیّن کر دیتا اور بعد میں ہمیں ہمارے کاموں کی وجہ سے قصوروار ٹھہراتا ہے تو کیا یہ اُسکی طرف سے سراسر بےانصافی اور ظلم نہ ہوتا! وہ ایسا ہرگز نہیں کرتا کیونکہ ”خدا محبت ہے“ اور ”اُسکی سب راہیں انصاف کی ہیں۔“ (۱-یوحنا ۴:۸؛ استثنا ۳۲:۴) ہمیں انتخاب کی آزادی دینے کیساتھ ساتھ وہ پہلے ہی سے ’اس بات کا تعیّن نہیں کر دیتا کہ وہ کسے جزا دیگا اور کسے سزا دیگا‘ جیسےکہ بعض لوگ یقین رکھتے ہیں۔ انتخاب کی آزادی میں پہلے سے مقرر کرنے کا تصور شامل نہیں ہے۔
بائبل واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ جو بھی انتخاب ہم کرینگے وہ ہمارے مستقبل پر اثرانداز ہوگا۔ مثال کے طور پر خدا گنہگاروں سے فرماتا ہے: ”تُم سب اپنی اپنی بُری راہ سے اور اپنے بُرے کاموں سے باز آؤ . . . اور مَیں تُم کو کچھ ضرر نہ پہنچاؤنگا۔“ (یرمیاہ ۲۵:۵، ۶) اگر خدا نے ہر شخص کے مستقبل کا تعیّن پہلے ہی سے کر دیا ہے تو اُسکا انسانوں سے یہ سب کہنا بےمعنی ہوگا۔ اسی لئے خدا کا کلام بیان کرتا ہے: ”پس توبہ کرو اور رجوع لاؤ تاکہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں اور اسطرح [یہوواہ] کے حضور سے تازگی کے دن آئیں۔“ (اعمال ۳:۱۹) اگر خدا پہلے ہی سے جانتا ہے کہ انسان اپنے مستقبل کو تبدیل کرنے کیلئے کچھ نہیں کر سکتے توپھر وہ اُنہیں توبہ کرنے اور رجوع لانے کی دعوت کیوں دیتا ہے؟
پاک صحائف میں چند ایسے لوگوں کا ذکر کِیا گیا ہے جنہیں خدا یسوع مسیح کیساتھ آسمان پر حکومت کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ (متی ۲۲:۱۴؛ لوقا ۱۲:۳۲) تاہم بائبل بیان کرتی ہے کہ اگر وہ آخر تک برداشت نہیں کرتے تو وہ یہ موقع کھو دینگے۔ (مکاشفہ ۲:۱۰) اگر خدا نے پہلے ہی یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اُنہیں منتخب نہیں کریگا تو وہ اُنہیں دعوت کیوں دیگا؟ ساتھی ایمانداروں سے کہے گئے پولس کے ان الفاظ پر بھی غور کریں: ”حق کی پہچان حاصل کرنے کے بعد اگر ہم جانبوجھ کر گناہ کریں تو گناہوں کی کوئی اور قربانی باقی نہیں رہی۔“ (عبرانیوں ۱۰:۲۶) اگر خدا نے پہلے ہی سے انسانوں کے مستقبل کا تعیّن کر دیا ہے تو پھر اسطرح کی آگاہی کی کوئی اہمیت نہیں۔ لیکن کیا خدا نے چند اشخاص کو پہلے ہی سے مقرر نہیں کر دیا کہ وہ یسوع مسیح کیساتھ بادشاہ ہونگے؟
پہلے سے مقررکردہ—اشخاص یا گروہ؟
پولس رسول نے لکھا: ’خدا نے ہم کو مسیح میں آسمانی مقاموں پر ہر طرح کی روحانی برکت بخشی۔ چنانچہ اُس نے ہم کو بنایِعالم سے پیشتر اُس میں چن لیا۔ اُس نے ہمیں اپنے لئے پیشتر سے مقرر کِیا کہ یسوع مسیح کے وسیلہ سے اُسکے لے پالک بیٹے ہوں۔‘ (افسیوں ۱:۳-۵) خدا نے کسے پیشتر سے مقرر کِیا ہے اور ”بنایِعالم سے پیشتر“ چن لئے جانے کا کیا مطلب ہے؟
افسیوں کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ خدا نے پہلے انسان آدم کی نسل سے کچھ لوگوں کو مسیح کیساتھ آسمان پر بادشاہی کرنے کیلئے چن لیا ہے۔ (رومیوں ۸:۱۴-۱۷، ۲۸-۳۰؛ مکاشفہ ۵:۹، ۱۰) تاہم، یہ نظریہ کہ یہوواہ خدا نے مخصوص اشخاص کو اُنکے پیدا ہونے سے ہزاروں سال پہلے ہی یہ استحقاق حاصل کرنے کیلئے منتخب کر لیا تھا اس حقیقت کی نفی کرتا ہے کہ انسانوں کو انتخاب کی آزادی حاصل ہے۔ جس چیز کو خدا نے پہلے سے مقرر کِیا وہ انفرادی اشخاص نہیں بلکہ لوگوں کا ایک گروہ یا جماعت تھی۔
مثال کے طور پر: فرض کریں کہ حکومت ایک ایجنسی قائم کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ حکومت ایجنسی کے کاموں، اختیار اور سائز کا تعیّن کرتی ہے۔ ایجنسی اپنا کام شروع کر دیتی ہے اور اسکے رُکن ایک بیان جاری کرتے ہیں: ”کئی سال پہلے حکومت نے اس بات کا تعیّن کِیا تھا کہ ہمارا کام کیا ہوگا۔ اب ہم نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔“ کیا آپ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرینگے کہ حکومت نے کئی سال پہلے ہی اس بات کا تعیّن کر دیا تھا کہ کون کون ایجنسی کا رُکن ہوگا؟ یقیناً نہیں۔ اسی طرح، یہوواہ خدا نے بھی پہلے ہی اس بات کا تعیّن کر لیا تھا کہ وہ آدم کے گُناہ کے اثرات کو ختم کرنے کیلئے ایک خاص ایجنسی قائم کریگا۔ اُس نے اس ایجنسی میں کام کرنے کیلئے لوگوں کے ایک گروہ کا بھی تعیّن کر دیا لیکن اس میں کام کرنے والے اشخاص کا انفرادی چناؤ نہیں کِیا تھا۔ اُنکا انتخاب بعد میں ہونا تھا۔ نیز زندگی میں اُنکے انتخابات اس بات کا تعیّن کرنے میں مدد دینگے کہ آیا اُنہیں آخر میں منتخب کِیا بھی جائیگا یا نہیں۔
پولس رسول کے ذہن میں کونسی دُنیا تھی جب اُس نے کہا: ”[خدا] نے ہم کو بنایِعالم سے پیشتر اُس میں چن لیا“؟ جس دُنیا کا ذکر پولس کر رہا تھا وہ آدم اور حوا کی تخلیق کیساتھ شروع ہونے والی دُنیا نہیں تھی۔ وہ دُنیا تو گُناہ اور فنا سے پاک ایک ’بہت اچھی‘ دُنیا تھی۔ (پیدایش ۱:۳۱) اسے قصوروں کی ”معافی“ کی ضرورت نہیں تھی۔—افسیوں ۱:۷۔
پولس جس دُنیا کا ذکر کر رہا تھا وہ عدن میں آدم اور حوا کے بغاوت کرنے کے بعد وجود میں آنے والی دُنیا تھی۔ یہ اُس دُنیا سے بالکل مختلف تھی جو خدا کے مقصد کے مطابق تھی۔ یہ آدم اور حوا کے بچوں کیساتھ شروع ہونے والی دُنیا تھی۔ اس میں وہ لوگ تھے جو خدا سے بیگانہ اور گُناہ اور فنا کے قبضہ میں تھے۔ آدم اور حوا کے برعکس، جنہوں نے جانبوجھ کر گناہ کِیا یہ دُنیا اُن لوگوں پر مشتمل تھی جنہیں گُناہ سے چھڑایا جا سکتا تھا۔—رومیوں ۵:۱۲؛ ۸:۱۸-۲۱۔
یہوواہ عدن میں بغاوت کے باعث واقع ہونے والی صورتحال سے فوری طور پر نپٹ سکتا تھا۔ ضرورت پڑنے پر یہوواہ خدا نے ایک خاص ایجنسی یعنی مسیحائی بادشاہت کا تعیّن کر دیا جسکا بادشاہ یسوع مسیح تھا۔ اس بادشاہی کے ذریعے یہوواہ نے نسلِانسانی کو آدم کے گُناہ سے چھڑانا تھا۔ (متی ۶:۱۰) خدا نے نسلِانسانی کو چھڑانے کا یہ انتظام باغی آدم اور حوا کے بچے پیدا کرنے سے پہلے یعنی ”بنایِعالم سے پیشتر“ ہی کر دیا تھا۔
انسانوں کو اکثر اپنا مقصد پورا کرنے کے لئے منصوبہسازی کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا نے پہلے ہی سے مستقبل کا تعیّن کر دیا ہے تو اُن کا خیال ہے کہ خدا نے پہلے ہی کائنات کی ہر چیز کے لئے منصوبہسازی کر دی ہے۔ رائے ویدرفورڈ اپنی کتاب میں لکھتا ہے: ”بیشتر عالموں کی نظر میں، کوئی نہ کوئی ایسی چیز ہے جو ہر انسانی فعل اور کائنات کی ہر شے کے وجود کا باعث بنتی ہے اور آزاد مرضی نام کی کوئی چیز نہیں۔“ کیا واقعی خدا کو ہر واقعہ کی بابت پہلے سے تعیّن کرنے کی ضرورت ہے؟
یہوواہ کیونکہ قدرت اور حکمت میں بےمثال ہے اسلئے وہ اپنی مخلوق کی آزاد مرضی کے باعث پیدا ہونے والی کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نپٹ سکتا ہے۔ (یسعیاہ ۴۰:۲۵، ۲۶؛ رومیوں ۱۱:۳۳) وہ فوری طور پر بغیر کسی منصوبے کے ایسا کرنے کے قابل ہے۔ ناکامل انسانوں کے برعکس جو محدود صلاحیتیں رکھتے ہیں، قادرِمطلق خدا کو ایک مفصل، پہلے سے طےشُدہ، ایسے منصوبے کی ضرورت نہیں جس میں زمین پر رہنے والے ہر انسان کے مستقبل کی بابت تفصیلات موجود ہیں۔ (امثال ۱۹:۲۱) کئی ایک بائبل ترجموں میں افسیوں ۳:۱۱ خدا کی بابت بیان کرتی ہے کہ وہ ”ازلی ارادہ“ رکھتا ہے نہ کہ ایک طےشُدہ منصوبہ۔
آپ اپنے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہو سکتے ہیں
خدا زمین کیلئے ایک خاص مقصد رکھتا ہے جسکا تعیّن اُس نے پہلے ہی سے کر دیا ہے۔ مکاشفہ ۲۱:۳، ۴ بیان کرتی ہے: ”پھر مَیں نے تخت میں سے کسی کو بلند آواز سے یہ کہتے سنا کہ دیکھ خدا کا خیمہ آدمیوں کے درمیان ہے اور وہ اُنکے ساتھ سکونت کریگا اور وہ اُسکے لوگ ہونگے اور خدا آپ اُنکے ساتھ رہیگا اور اُنکا خدا ہوگا۔ اور وہ اُنکی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دیگا۔ اِسکے بعد نہ موت رہیگی اور نہ ماتم رہیگا۔ نہ آہونالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔“ جیہاں زمین ایک فردوس بن جائیگی کیونکہ شروع سے یہوواہ کا یہ مقصد تھا۔ (پیدایش ۱:۲۷، ۲۸) اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ وہاں ہونگے؟ اسکا انحصار اُن انتخابات پر ہے جو آپ اب کرتے ہیں۔ یہوواہ نے آپکے مستقبل کا تعیّن نہیں کِیا ہے۔
خدا کے بیٹے یسوع مسیح کی قربانی اُن سب لوگوں کیلئے جو اُس پر ایمان لاتے ہیں ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنا ممکن بناتی ہے۔ (یوحنا ۳:۱۶، ۱۷؛ اعمال ۱۰:۳۴، ۳۵) بائبل بیان کرتی ہے، ”جو بیٹے پر ایمان لاتا ہے ہمیشہ کی زندگی اُسکی ہے لیکن جو بیٹے کی نہیں مانتا زندگی کو نہ دیکھیگا۔“ (یوحنا ۳:۳۶) آپ بائبل سے خدا، اُسکے بیٹے اور خدا کی مرضی کی بابت سیکھنے اور اُسکا اطلاق کرنے سے زندہ رہنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ خدا کے کلام بائبل میں پائی جانے والی سچی حکمت پر عمل کرنے والے شخص کو یقیندہانی کرائی گئی ہے کہ ”وہ محفوظ ہوگا اور آفت سے نڈر ہوکر اطمینان سے رہیگا۔“—امثال ۱:۲۰، ۳۳۔
[صفحہ ۵ پر تصویریں]
جانوروں کے برعکس انسان اپنے افعال کیلئے جوابدہ ہیں
[تصویر کا حوالہ]
Eagle: Foto: Cortesía de GREFA