مطالعے کا مضمون نمبر 41
ہم ایسے خدا کی عبادت کرتے ہیں جو ”بڑا رحیم ہے“
”[یہوواہ] سب کے ساتھ بھلائی کرتا ہے، وہ اپنی تمام مخلوقات پر رحم کرتا ہے۔“—زبور 145:9، اُردو جیو ورشن۔
گیت نمبر 44: دُکھی بندے کی فریاد
مضمون پر ایک نظرa
1. ایک رحمدل شخص کیسا ہوتا ہے اور یہ بات کس کہانی سے ظاہر ہوتی ہے؟
جب ہم لفظ ”رحمدل“ سنتے ہیں تو شاید ہمارے ذہن میں ایک ایسا شخص آئے جو بہت ہی مہربان، نرمدل، ہمدرد اور فراخدل ہے۔ شاید ہمیں یسوع مسیح کی بتائی وہ کہانی یاد آئے جس میں ایک سامری نے ایک ایسے یہودی پر ”رحم کِیا تھا“ جسے کچھ ڈاکوؤں نے مارا پیٹا اور لُوٹ لیا تھا۔ اُس سامری کو زخمی یہودی پر ”بڑا ترس آیا“ اور اُس نے بڑے پیار سے اُس کی دیکھبھال کی۔ (لُو 10:29-37) یسوع کی اِس کہانی میں ہمیں ہمارے آسمانی باپ کی ایک بہت ہی خوبصورت خوبی نظر آتی ہے۔ یہ رحمدلی ہے۔ یہ خوبی یہوواہ کی محبت کا ایک پہلو ہے اور وہ ہر روز اِسے ظاہر کرتا ہے۔
2. رحمدلی کی خوبی میں اَور کون سی بات شامل ہوتی ہے؟
2 رحمدلی کی خوبی میں یہ بھی شامل ہے کہ ایک ایسے شخص کو سزا نہ دی جائے جسے سزا ملنی چاہیے۔ اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہوواہ ہمارے ساتھ واقعی بڑے رحم سے پیش آتا ہے۔ زبور لکھنے والے ایک شخص نے کہا: ”[یہوواہ] نے ہمارے گُناہوں کے موافق ہم سے سلوک نہیں کِیا۔“ (زبور 103:10) لیکن کبھی کبھار یہوواہ گُناہ کرنے والے شخص کی سخت اِصلاح بھی کرتا ہے۔
3. اِس مضمون میں ہم کن سوالوں پر بات کریں گے؟
3 اِس مضمون میں ہم اِن تین سوالوں پر بات کریں گے: یہوواہ رحم کیوں کرتا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص کی سخت اِصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ اُس پر رحم بھی کِیا جائے؟ اور کیا چیز رحمدل بننے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟ آئیں، دیکھیں کہ خدا کے کلام میں اِن سوالوں کے کیا جواب دیے گئے ہیں۔
یہوواہ رحم کیوں کرتا ہے؟
4. یہوواہ رحم کیوں کرتا ہے؟
4 یہوواہ محبت کی وجہ سے رحم کرتا ہے۔ پولُس رسول نے یہوواہ کے اِلہام سے لکھا کہ ”خدا بڑا رحیم ہے۔“ اِس آیت سے پہلے والی آیتوں میں پولُس رسول نے بتایا کہ یہوواہ کی رحمدلی کی وجہ سے ہی عیبدار اِنسانوں کو آسمان پر زندگی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ (اِفس 2:4-7) لیکن یہوواہ کی رحمدلی صرف مسحشُدہ مسیحیوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ داؤد نے ایک زبور میں لکھا: ”[یہوواہ] سب کے ساتھ بھلائی کرتا ہے، وہ اپنی تمام مخلوقات پر رحم کرتا ہے۔“ (زبور 145:9، اُردو جیو ورشن) یہوواہ کو اِنسانوں سے محبت ہے۔ اِس لیے جب بھی اُسے لگتا ہے کہ ایک شخص پر رحم کِیا جانا چاہیے تو وہ اُس پر رحم ضرور کرتا ہے۔
5. یسوع مسیح کو کیسے پتہ چلا کہ یہوواہ رحمدل ہے؟
5 کسی اَور کی نسبت یسوع مسیح یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اُن کا باپ یہوواہ کتنا رحمدل ہے۔ زمین پر آنے سے پہلے یسوع اپنے باپ کے ساتھ ہزاروں سال تک آسمان پر رہے۔ (امثا 8:30، 31) اِس دوران اُنہوں نے بہت بار اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اُن کا باپ گُناہگار لوگوں کے ساتھ کتنے رحم سے پیش آتا ہے۔ (زبور 78:37-42) یسوع مسیح نے اکثر لوگوں کو تعلیم دیتے وقت اپنے باپ کی اِس شاندار خوبی کا ذکر کِیا۔
6. یسوع مسیح نے اپنے باپ کی رحمدلی کو کس خوبصورت مثال کے ذریعے ظاہر کِیا؟
6 پچھلے مضمون میں ہم نے یسوع مسیح کی اُس مثال پر غور کِیا تھا جس میں ایک شخص سیدھی راہ سے بھٹک جاتا ہے۔ اِس مثال کے ذریعے یسوع مسیح نے ظاہر کِیا کہ یہوواہ محبت کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ رحم سے پیش آتا ہے۔ اُس شخص نے اپنے باپ کا گھر چھوڑ دیا تھا اور ”اپنی ساری دولت عیاشی میں اُڑا دی“ تھی۔ (لُو 15:13) بعد مَیں اُس نے اپنی بدچلن زندگی سے توبہ کی، خاکساری ظاہر کی اور اپنے گھر لوٹ آیا۔ اِس پر اُس کے باپ نے کیا کِیا؟ اُس شخص کو یہ جاننے کے لیے زیادہ اِنتظار نہیں کرنا پڑا کہ اُس کے لوٹنے پر اُس کا باپ کیا کرے گا۔ یسوع مسیح نے کہا: ”ابھی وہ گھر سے دُور ہی تھا کہ باپ نے اُس کو دیکھ لیا۔ اُسے اپنے بیٹے پر بڑا ترس آیا۔ وہ بھاگا بھاگا گیا اور اپنے بیٹے کو گلے لگا لیا اور بڑے پیار سے چُومنے لگا۔“ باپ نے اپنے بیٹے کی بےعزتی کرنا شروع نہیں کر دی۔ اِس کی بجائے اُس نے اُس پر رحم کرتے ہوئے اُسے معاف کر دیا اور دوبارہ سے اُسے اپنے خاندان میں شامل کر لیا۔ بیٹے کا گُناہ بہت بڑا تھا۔ لیکن چونکہ اُس نے دل سے توبہ کر لی تھی اِس لیے اُس کے باپ نے اُسے معاف کر دیا۔ اِس مثال میں جس رحمدل باپ کا ذکر ہوا ہے، وہ یہوواہ کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ اِس مثال سے یسوع مسیح نے ظاہر کِیا کہ اُن کا باپ اُن لوگوں کو معاف کرنے کو تیار رہتا ہے جو دل سے توبہ کرتے ہیں۔—لُو 15:17-24۔
7. یہوواہ جس طرح سے رحم کرتا ہے، اُس سے یہ کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بہت ہی دانشمند ہے؟
7 یہوواہ دانشمندی کی وجہ سے رحم کرتا ہے۔ یہوواہ اپنی مخلوق کے لیے ہمیشہ ایسے فیصلے کرتا ہے جن سے اُن کا بھلا ہو۔ اُس کے کلام میں لکھا ہے: ’جو دانشمندی اُوپر سے آتی ہے، وہ رحم اور اچھائی سے معمور ہے۔‘ (یعقو 3:17) یہوواہ ایک شفیق باپ کی طرح ہے جو جانتا ہے کہ اُس کے رحم کی وجہ سے اُس کے بچوں کو کتنا فائدہ ہوتا ہے۔ (زبور 103:13؛ یسع 49:15) چونکہ یہوواہ اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے اِس لیے اُس کے بندے عیبدار ہونے کے باوجود مستقبل کے حوالے سے ایک شاندار اُمید رکھ سکتے ہیں۔ یہوواہ کی دانشمندی کی کوئی اِنتہا نہیں۔ اِس لیے جب بھی ممکن ہوتا ہے، وہ دوسروں پر رحم کرتا ہے۔ لیکن دانشمند ہونے کی وجہ سے وہ اُس وقت رحم ظاہر نہیں کرتا جب گُناہ کرنے والے شخص کو یہ تاثر ملے کہ اُسے یہ گُناہ کرنے کی چُھوٹ ہے۔
8. کبھی کبھار کون سا قدم اُٹھانا بہت ضروری ہوتا ہے اور اِس کی کیا وجہ ہوتی ہے؟
8 فرض کریں کہ یہوواہ کا ایک بندہ جان بُوجھ کر گُناہ کی راہ اِختیار کرتا ہے۔ ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ پولُس رسول نے خدا کی پاک روح کی رہنمائی میں لکھا: ”اُس کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا بالکل چھوڑ دیں۔“ (1-کُر 5:11) جو لوگ اپنے گُناہ سے توبہ نہیں کرتے، اُنہیں کلیسیا سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ یہ قدم اُٹھانا بہت ضروری ہوتا ہے تاکہ کلیسیا میں دوسرے بہن بھائی محفوظ رہیں اور سب جان جائیں کہ یہوواہ کے معیار کتنے پاک ہیں۔ لیکن شاید کچھ لوگوں کو لگے کہ جب ایک شخص کو کلیسیا سے خارج کِیا جاتا ہے تو یہوواہ اُس شخص کے ساتھ رحم سے پیش نہیں آ رہا ہوتا۔ لیکن کیا یہ بات واقعی سچ ہے؟ آئیں، دیکھتے ہیں۔
کیا سخت اِصلاح بھی رحم کا ثبوت ہوتی ہے؟
9-10. عبرانیوں 12:5، 6 کو ذہن میں رکھتے ہوئے بتائیں کہ توبہ نہ کرنے والے شخص کو کلیسیا سے خارج کرنا رحمدلی کا ثبوت ہوتا ہے۔ مثال دیں۔
9 جب ہم اِجلاس میں یہ اِعلان سنتے ہیں کہ فلاں شخص ”اب سے یہوواہ کا گواہ نہیں ہے“ تو ہمیں بہت افسوس ہوتا ہے۔ ہم شاید یہ سوچنے لگیں کہ کیا اُسے کلیسیا سے خارج کرنا واقعی ضروری تھا؟ کیا اُسے خارج کر کے اُس کے ساتھ واقعی رحم سے پیش آیا گیا ہے؟ جی ہاں۔ گُناہ کرنے والے شخص کی اِصلاح نہ کرنا دانشمندی کی بات نہیں ہے اور نہ ہی اِس سے اُس شخص کے لیے محبت اور رحم ظاہر ہوتا ہے۔ (امثا 13:24) کیا ایک شخص کو کلیسیا سے خارج کرنے سے اُس میں اپنی بُری روِش کو چھوڑنے کی خواہش پیدا ہو سکتی ہے؟ جی ہاں، ایسا ہو سکتا ہے۔ کئی ایسے بہن بھائی جنہوں نے سنگین گُناہ کِیا، بتاتے ہیں کہ جب بزرگوں نے اُنہیں کلیسیا سے خارج کِیا تو ایک طرح سے اُنہوں نے اُنہیں جھنجوڑا تاکہ وہ ہوش میں آئیں، اپنی روِش کو بدلیں اور یہوواہ کی طرف لوٹ آئیں جو بانہیں کھولے اُن کا اِنتظار کر رہا ہے۔—عبرانیوں 12:5، 6 کو پڑھیں۔
10 ذرا اِس مثال پر غور کریں: ایک چرواہا دیکھتا ہے کہ اُس کی ایک بھیڑ بیمار ہے۔ وہ جانتا ہے کہ بھیڑ کو جو بیماری ہے، اُس کی وجہ سے اُسے دوسری بھیڑوں سے الگ رکھنا پڑے گا۔ بھیڑیں ایسا جانور ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ رہنا پسند کرتی ہیں۔ اگر کسی ایک بھیڑ کو دوسری بھیڑوں سے الگ کر دیا جائے تو وہ بےچین ہو جاتی ہے۔ لیکن کیا بیمار بھیڑ کو دوسری بھیڑوں سے الگ کر دینے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چرواہا بہت ظالم ہے؟ بالکل نہیں۔ وہ جانتا ہے کہ ایسا نہ کرنے سے باقی بھیڑوں میں بھی وہ بیماری پھیل جائے گی۔ دراصل ایسا کرنے سے وہ پورے گلّے کو محفوظ رکھتا ہے۔—احبار 13:3، 4 پر غور کریں۔
11. (الف) کلیسیا سے خارج ہو جانے والا شخص کس لحاظ سے ایک بیمار بھیڑ کی طرح ہوتا ہے؟ (ب) کلیسیا سے خارج ہو جانے والے لوگوں کے لیے کون سی مدد دستیاب ہے؟
11 کلیسیا سے خارج ہو جانے والا شخص اُس بیمار بھیڑ کی طرح ہوتا ہے۔ وہ شخص روحانی لحاظ سے بیمار ہوتا ہے۔ (یعقو 5:14) جس طرح ایک شخص کو لگا اِنفیکشن دوسروں کو لگ سکتا ہے اِسی طرح جس شخص کی دوستی یہوواہ کے ساتھ خراب ہو جاتی ہے، وہ دوسروں پر بھی بُرا اثر ڈال سکتا ہے۔ اِس لیے بعض صورتوں میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ روحانی لحاظ سے بیمار شخص کو کلیسیا سے خارج کر دیا جائے۔ اُس کی اِصلاح کرنے سے یہوواہ اپنے گلّے کے اُن لوگوں کے لیے محبت ظاہر کرتا ہے جو اُس کے وفادار ہیں۔ اِس اِصلاح کی وجہ سے گُناہ کرنے والے شخص کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو سکتا ہے اور اُسے توبہ کرنے کی ترغیب مل سکتی ہے۔ لیکن خارج ہونے والا شخص اِجلاسوں پر آ سکتا ہے جہاں وہ پاک کلام سے ملنے والی ہدایتیں حاصل کر سکتا ہے اور اپنے ایمان کو مضبوط کر سکتا ہے۔ وہ ہماری کتابیں اور رسالے بھی لے سکتا ہے اور جےڈبلیو براڈکاسٹنگ دیکھ سکتا ہے۔ جب بزرگ دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی روِش کو بدل رہا ہے تو وہ اُسے وقتاًفوقتاً مشورہ دیتے ہیں تاکہ وہ یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کو پھر سے قائم کر سکے اور پھر سے یہوواہ کے گواہ کے طور پر اُس کی عبادت کرنے لگے۔b
12. بزرگ توبہ نہ کرنے والے شخص کے لیے محبت اور رحم کیسے دِکھا سکتے ہیں؟
12 ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کلیسیا سے صرف اُنہی لوگوں کو خارج کِیا جاتا ہے جو اپنے گُناہ پر توبہ نہیں کرتے۔ بزرگ اِس بات کو بہت ہی سنجیدہ خیال کرتے ہیں۔ اِس لیے وہ کسی کو کلیسیا سے خارج کرنے کا فیصلہ کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ بچار کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہوواہ ”مناسب تنبیہ“ کرتا ہے۔ (یرم 30:11) وہ اپنے بہن بھائیوں سے بہت محبت کرتے ہیں اور کوئی بھی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جس سے اِن بہن بھائیوں کی یہوواہ کے ساتھ دوستی خراب ہو۔ لیکن کبھی کبھار محبت اور رحم کی بِنا پر اُنہیں گُناہ کرنے والے شخص کو کلیسیا سے خارج کرنا پڑتا ہے۔
13. کُرنتھس کی کلیسیا کے ایک مسیحی کو کلیسیا سے خارج کرنے کی ضرورت کیوں تھی؟
13 غور کریں کہ پہلی صدی عیسوی میں پولُس رسول اُس مسیحی کے ساتھ کیسے پیش آئے جس نے اپنے گُناہ پر توبہ نہیں کی تھی۔ یہ مسیحی کُرنتھس کی کلیسیا سے تھا اور اُس کے اپنے باپ کی بیوی کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔ یہ کتنی گھناؤنی حرکت تھی! پولُس جانتے تھے کہ قدیم زمانے میں خدا نے بنیاِسرائیل سے کہا تھا: ”جو شخص اپنی سوتیلی ماں سے صحبت کرے اُس نے اپنے باپ کے بدن کو بےپردہ کِیا۔ وہ دونوں ضرور جان سے مارے جائیں۔“ (احبا 20:11) بےشک پولُس اُس مسیحی کی اِس حرکت پر اُسے سزائےموت کا حکم نہیں سنا سکتے تھے۔ لیکن اُنہوں نے کُرنتھس کی کلیسیا کو یہ ہدایت دی کہ وہ اُسے کلیسیا سے خارج کر دیں۔ اُس شخص کی وجہ سے کلیسیا میں دوسرے مسیحیوں پر بھی بُرا اثر پڑ رہا تھا۔ اِن میں سے کچھ مسیحی تو یہ تک سوچ رہے تھے کہ یہ کوئی اِتنا سنگین گُناہ نہیں ہے۔—1-کُر 5:1، 2، 13۔
14. پولُس نے کُرنتھس کی کلیسیا کے ایک خارجشُدہ شخص کے لیے رحم کیسے ظاہر کِیا اور اُنہوں نے ایسا کیوں کِیا؟ (2-کُرنتھیوں 2:5-8، 11)
14 کچھ وقت بعد پولُس کو پتہ چلا کہ اُس مسیحی نے اپنی روِش بدل لی ہے۔ اُس نے واقعی دل سے توبہ کر لی تھی۔ حالانکہ وہ کلیسیا کی بدنامی کا باعث بنا تھا لیکن پولُس اُس شخص کی ”زیادہ سختی“ سے اِصلاح نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اُنہوں نے بڑی نرمی سے کُرنتھس کی کلیسیا کے بزرگوں کو یہ ہدایت دی: ”اُسے دل سے معاف کر دیں اور اُسے تسلی دیں۔“ پولُس نے یہ اِس لیے کہا تاکہ وہ شخص ”اپنے غم کے بوجھ تلے دب [نہ] جائے۔“ پولُس کو توبہ کرنے والے اُس شخص پر ترس آیا۔ وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ اپنے گُناہ کے غم میں اِس قدر ڈوب جائے کہ وہ یہوواہ سے معافی کی اُمید لگانا ہی چھوڑ دے۔—2-کُرنتھیوں 2:5-8، 11 کو پڑھیں۔
15. بزرگ سخت اِصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ رحم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟
15 یہوواہ کی طرح کلیسیا کے بزرگ بھی محبت کی وجہ سے دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔ جب ضروری ہوتا ہے تو وہ گُناہ کرنے والے شخص کی سخت اِصلاح کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اُن سے جتنا ہو سکتا ہے، وہ اُس کے لیے رحم ظاہر کرتے ہیں۔ اگر وہ گُناہ کرنے والے شخص کی کبھی اِصلاح نہیں کریں گے تو وہ اُس کے ساتھ رحم سے پیش نہیں آ رہے ہوں گے اور اُسے گُناہ کرنے کی چُھوٹ دے رہے ہوں گے۔ لیکن کیا صرف بزرگوں کو ہی رحمدل بننے کی ضرورت ہے؟
کیا چیز رحمدل بننے میں ہماری مدد کر سکتی ہے؟
16. امثال 21:13 کے مطابق یہوواہ اُن لوگوں کے ساتھ کیسے پیش آتا ہے جو دوسروں پر رحم نہیں کرتے؟
16 سب مسیحیوں کو یہوواہ کی طرح رحمدل بننا چاہیے۔ کیوں؟ اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہوواہ اُن لوگوں کی اِلتجائیں نہیں سنتا جو دوسروں پر رحم نہیں کرتے۔ (امثال 21:13 کو پڑھیں۔) ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ یہوواہ ہماری دُعائیں نہ سنے۔ اِس لیے ہم بےرحم نہیں بننا چاہتے۔ اگر ہم اپنے کسی ہمایمان کو تکلیف میں دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنے کان بند نہیں کر لینے چاہئیں۔ اِس کی بجائے ہمیں ”مسکین کا نالہ“ سننے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اِس کے علاوہ ہمیں بائبل میں لکھی یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے: ”جو شخص رحم نہیں کرتا، اُس کا اِنصاف رحم کے بغیر کِیا جائے گا۔“ (یعقو 2:13) جب ہم خاکساری سے یہ تسلیم کریں گے کہ ہمیں یہوواہ کے رحم کی کتنی ضرورت ہے تو ہمارے لیے دوسروں کے ساتھ رحم سے پیش آنا آسان ہو جائے گا۔ ہمیں خاص طور پر اُس شخص کے لیے رحم ظاہر کرنا چاہیے جو توبہ کرتا ہے اور کلیسیا میں واپس آتا ہے۔
17. بادشاہ داؤد نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ رحمدل ہیں؟
17 بائبل میں ہمیں کچھ ایسے لوگوں کی مثالیں ملتی ہیں جن پر غور کرنے سے ہم رحم سے کام لینا سیکھ سکتے ہیں اور سختدل بننے سے بچ سکتے ہیں۔ ذرا بادشاہ داؤد کی مثال پر غور کریں۔ اُنہوں نے کئی موقعوں پر دوسروں پر رحم کِیا۔ حالانکہ ساؤل داؤد کو جان سے مار دینا چاہتے تھے لیکن داؤد نے خدا کی طرف سے مقرر کیے ہوئے بادشاہ پر رحم کِیا اور کبھی بھی اُس سے بدلہ لینے یا اُسے نقصان پہنچانے کا نہیں سوچا۔—1-سمو 24:9-12، 18، 19۔
18-19. داؤد نے کن دو موقعوں پر بےرحمی ظاہر کی؟
18 لیکن داؤد نے ہمیشہ دوسروں پر رحم نہیں کِیا۔ مثال کے طور پر جب نابال نامی گھمنڈی شخص نے داؤد کی بےعزتی کی اور اُنہیں اور اُن کے ساتھیوں کو کھانا دینے سے منع کر دیا تو داؤد غصے سے بھڑک اُٹھے اور اُنہوں نے نابال اور اُس کے گھرانے کے سارے مردوں کو قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن پھر نابال کی بیوی ابیجیل کو اِس بات کا پتہ چلا۔ وہ کافی عرصے سے نابال کی بدمزاجی کو برداشت کر رہی تھیں۔ ابیجیل نے فوراً داؤد اور اُن کے ساتھیوں کے لیے کھانے کا اِنتظام کِیا۔ اُن کی سمجھداری کی وجہ سے داؤد قتل جیسا گُناہ کرنے سے بچ گئے۔—1-سمو 25:9-22، 32-35۔
19 پھر ایک موقعے پر ناتن نبی نے داؤد کو ایک ایسے امیر شخص کے بارے میں بتایا جس نے اپنے غریب پڑوسی کی بھیڑ چُرا لی۔ یہ سُن کر داؤد غصے میں آ گئے اور کہا: ”[یہوواہ] کی حیات کی قسم کہ وہ شخص جس نے یہ کام کِیا واجباُلقتل ہے۔“ (2-سمو 12:1-6) داؤد موسیٰ کی شریعت سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر کوئی شخص کسی کی بھیڑ چُرا لیتا تھا تو سزا کے طور پر اُسے اُس شخص کو ایک بھیڑ کے بدلے چار بھیڑیں دینی ہوتی تھیں۔ (خر 22:1) لیکن اُسے موت کی سزا سنانا تو بڑی بےرحمی تھی! دراصل ناتن نبی داؤد کو ایک کہانی سنا رہے تھے تاکہ وہ اُنہیں سمجھا سکیں کہ اُنہوں نے جو گُناہ کیے، وہ اِس سے کہیں زیادہ سنگین تھے۔ یہوواہ داؤد کے ساتھ اِتنے رحم سے پیش آیا جبکہ داؤد نے اُس امیر آدمی کے لیے رحم ظاہر نہیں کِیا جس کا ذکر ناتن نبی نے کہانی میں کِیا تھا۔—2-سمو 12:7-13۔
20. ہم داؤد سے کیا سیکھتے ہیں؟
20 غور کریں کہ داؤد نے شدید غصے میں آ کر یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ نابال اور اُس کے گھرانے کے سب آدمیوں کو جان سے مار دیں گے۔ اور بعد میں داؤد نے اُس امیر آدمی کے لیے موت کی سزا سنائی جس کا ذکر ناتن نبی نے کہانی میں کِیا تھا۔ شاید ہم سوچیں کہ داؤد تو بڑے نرمدل شخص تھے تو پھر اُنہوں نے امیر آدمی کو موت کی سزا کیوں سنائی؟ غور کریں کہ اِس سے کچھ وقت پہلے داؤد کیا کچھ کر بیٹھے تھے۔ اُن کا ضمیر اُنہیں کوس رہا تھا۔ اگر ایک شخص کسی کے بارے میں کوئی سخت فیصلہ کرتا ہے تو اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کے ساتھ اُس کی دوستی مضبوط نہیں ہے۔ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں سے کہا: ”دوسروں کی عدالت مت کرنا، ورنہ تمہاری عدالت بھی کی جائے گی۔ کیونکہ جتنی سختی سے تُم دوسروں کا فیصلہ کرتے ہو اُتنی سختی سے تمہارا بھی فیصلہ کیا جائے گا۔“ (متی 7:1، 2، اُردو جیو ورشن) ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ہم کسی کے ساتھ بھی سختی سے پیش نہ آئیں اور اپنے خدا یہوواہ کی طرح ”رحیم“ بنیں۔
21-22. دوسروں کے لیے رحم ظاہر کرنے کے کچھ طریقے کیا ہیں؟
21 رحم صرف ایک احساس نہیں ہے۔ اِس میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم دوسروں کی مدد کرنے کے لیے قدم اُٹھائیں۔ لہٰذا ہم اِس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ ہمارے گھر والوں، کلیسیا کے بہن بھائیوں اور دوسروں کو کس طرح کی مدد کی ضرورت ہے۔ بےشک ہمیں اُن کے لیے رحم ظاہر کرنے کے کئی موقعے ملیں گے۔ ذرا اِس بارے میں سوچیں: کیا کسی کو تسلی کی ضرورت ہے؟ کیا ہم کسی کے لیے کھانے کا بندوبست کر سکتے ہیں یا کسی اَور طرح سے اُس کی مدد کر سکتے ہیں؟ کیا ہم کلیسیا میں بحال ہونے والے اُس شخص کی مدد کر سکتے ہیں جسے ایک اچھے دوست کی ضرورت ہے؟ کیا ہم کسی کو بادشاہت کی خوشخبری سنا سکتے ہیں جو کہ دوسروں کے لیے رحم ظاہر کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے؟—ایو 29:12، 13؛ روم 10:14، 15؛ یعقو 1:27۔
22 جب ہمیں پتہ ہوگا کہ دوسروں کو کس حوالے سے ہماری مدد کی ضرورت ہے تو ہم دیکھ پائیں گے کہ ہمارے پاس دوسروں کے لیے رحم ظاہر کرنے کے بےشمار موقعے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ جب ہم رحم ظاہر کریں گے تو ہم اپنے آسمانی باپ یہوواہ کا دل خوش کر رہے ہوں گے جو خود بھی ”بڑا رحیم“ ہے!
گیت نمبر 43: شکرگزاری کی دُعا
a رحمدلی کی خوبی یہوواہ کی دلکش خوبیوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک ایسی خوبی ہے جسے ہم سب کو اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس مضمون میں ہم اِس بات پر غور کریں گے کہ یہوواہ خدا رحم کیوں ظاہر کرتا ہے اور ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ جب یہوواہ دوسروں کی اِصلاح کرتا ہے تو دراصل وہ اُن پر رحم کر رہا ہوتا ہے۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ ہم یہوواہ کی طرح رحمدل کیسے بن سکتے ہیں۔
b اِس بارے میں مزید جاننے کے لیے کہ کلیسیا میں بحال ہونے والا شخص یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط کیسے کر سکتا ہے اور بزرگ اِس حوالے سے اُس کی مدد کیسے کر سکتے ہیں، اِس رسالے میں مضمون ”یہوواہ سے دوبارہ دوستی کریں“ کو دیکھیں۔
c تصویر کی وضاحت: ایک باپ چھت پر کھڑا ہو کر اپنے بیٹے کو گھر لوٹتا دیکھ رہا ہے جو سیدھی راہ سے بھٹک گیا تھا۔ وہ بھاگ کر اُسے گلے لگا رہا ہے۔
d تصویر کی وضاحت: بادشاہ داؤد کا ضمیر اُنہیں اُن کے گُناہوں پر کوس رہا ہے۔ اِس لیے جب ناتن نبی نے اُنہیں امیر آدمی کی مثال دی تو داؤد بڑے غصے میں آ گئے اور کہا کہ اُس آدمی کو موت کی سزا ملنی چاہیے۔